پی ٹی ڈی سی موٹل کے بلکل سامنے چند خیمے لگے ہوۓ تھے اور کچھ نوجوان اپنے کیمرے ٹرائ پاڈ پر نصب کرکے تصویریں لینے میں مشغول تھے ہم نے اپنا سفر شروع کیا دھوب بہت تیز تھی اور چاروں طرف روشن کرتی تھی اور کچھ گرمی بھی ہم خراما خراما آگے چلنا شروع ہوۓ۔
راما سے اوپر کی طرف ٹریک کرتے ہوۓ جب آپ تھوڑا آگے جاتے ہیں تو ایک پھریلا میدان سا آتا ہے سبز پتھریلا میدان اور یہاں منظر بہت دلکش ہوجاتا ہے پہاڑ آپ سے نزدیک آجاتے ہیں اتنے کے ایسا لگتا ہے کے اس میدان پر ابھرے کچھ ٹیلے ہیں اور کچھ کی چوٹی پر برف ہے اور وہیں سے کچھ نالیاں سی نیچے اترتی ہیں اور جب چوٹی کی برف پگھلتی ہے تو انہی کے راستے نیچے تک آتی ہے میرے سامنے ویسے ہی کچھ نالیاں تھیں جن پر برف جمی تھی کہیں کہیں کیونکہ پانی کی سپلائ اتنی نہیں تھی اور ٹھنڈ کی وجہ سے برف جم رہی تھی۔
اسی میدان سے کچھ پرے ایک راستہ انہی پہاڑوں میں اوپر کو جا رہا تھا اور یہاں سے ہی راما لیک کا اصل ٹریک شروع ہوتا ہے۔
راما لیک کا ٹریک نسبتاّ ایک آسان اور بہت خوبصورت ٹریک ہے سیدھا اور ہموار اگر آپ درمیانی رفتار سے بھی چلیں تو ذیادہ سے ذیادہ ڈیڑھ گھنٹہ میں راما لیک تک پہنچھ سکتے ہیں بشرط کہ آپ کیمرہ ساتھ نہ لیکر جائیں کیونکہ نہ چاھتے ہوۓ بھی آپ جگہ جگہ رکتے ہیں اور تصویریں بناتے ہیں اور یہ کوئ قبیح فعل بھی نہیں ہے کیونکے جب واپس آکر آپ اپنی مشین کے ساتھ دوبارہ جڑ جااتے ہیں طویل کاروباری اوقات اور زندگی کی دیگر پریشانیوں میں گھر جاتے ہیں تو یہی تصاویر آپ کو واپس ان لمحات اور مقامات پر لے جاتی ہیں جہاں کچھ پل آپ گزار آۓ ہوتے ہیں اور یہی آپکا سرمایہ ہوتےہیں تو ہم نے بھی بہت تصاویر بنائیں۔
ہم سب نے جوگرز اور ٹریکنگ بوٹس پہن رکھتے تھے اور چلنے میں کوئ دشواری نہیں تھی میں نے بھی اپنے پیلے ٹریکنگ بوٹس پہنے ہوۓ تھے اور ایک مرتبہ میں انکی وجہ سے مرتے ہوۓ بچ چکا تھا اسی سال آزاد کشمیر میں وادئ نیلم میں ایک ٹریک پر جب بارش ہو رہی تھی اور میں اور میرا ایک ساتھی ٹریک چھوڑ کرایک ایسی پہاڑی پر اوپر جا رہے تھے جو ہمارے خیال سے ہمیں کم وقت میں اوپر پہچا سکتی تھی بارش ہو رہی تھی اور آپ پاس کافی پھسلن ہو چکی تھی ایسے میں ہم دو نا تجربیکار پتھروں اور درختوں کو پکڑ کر اور اپنا راستہ بنا کر اوپر ہی اوپر جا رہے تھے اور ہر دو قدم پر رک کر اس ہوشربا منظر میں گم ہورہے تھے جس میں بادل تھے سبزہ تھا اور نیچے دریاء نیلم اپنی پوری روانی سے بہ رہا تھا بارش ہو رہی تھی اور دریا کا نیلگوں پانی اس تیزی سے رواں تھا کے سینکڑوں فیٹ بلندی پر ہونے کے باوجود ہم اسکا شور سن سکتے تھے اور دور کسی وادی میں جو بھارتی کشمیر میں آتی تھی وہاں کہیں پر دھوپ تھی اور ایسا لگتا تھا کے وہ پورا منظر اصل نہ ہو بلکہ ایک تصویر ہو جسمیں اپنی پسند کے حساب سے رنگ بھرے گۓ ہوں کشمیر کو ویسے ہی جنت نظیر نہیں کہتے ہمارے سامنے جتنے درخت تھے وہ سب ایک سے ایک اور منفرد رنگوں کے تھے سبز، گہرے سبز ، گلابی مائل کتھئ ، کچھ کے پھول بلکل سفید اور اتنی تعداد میں تھے کہ پورے درخت پر یہی گمان ہوتا تھا اور اسی طرح سے گلابی پھولوں سے بھرا درخت اور کچنار جو بے شمار تھے اور اور آتش رنگ پھول کھلے تھے پورے ماحول پر سکوت تھا لکڑی اور سبزے کی خوشبو تھی اور وقت تھم چکا تھا ایسے میں ہم دو نا تجربہ کار بارش میں ایک "شارٹ کٹ" لینے کے چکر میں اوپر ہی اوپر جا رہے تھے۔
ہم نے اوپر چڑھنے کا یہ طریقہ اپنایا تھا کے پہلے ایک نیچے کسی جگہ پوزیشن لیتا یعنی اس چیز کا اطمنان کرتا کہ جگہ پکی ہو اور آس پاس کوئ درخت وغیرہ ہو جسے بوقت ضرورت سہارا بنایا جا سکے اور پھر دوسرا اوپر چڑھنا شروع کرتا اور اوپر جا کر ایسے ہی کسی مقام کا انتخاب کرتا اور رک جاتا اور نیچے والا اوپر پہلے والے کے قدموں کو دیکھتا ہوا اوپر جاتا اور یہی ہماری غلطی تھی بہاڑی راستوں اور خاص کر بارش میں اگر ایک جگہ بظاہر پختہ ہو لیکن اگر وہاں پر دباؤ ڈالاجاۓ تو مٹی اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے اور دوبارہ وہاں پیر رکھنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے تو اسی طرح کے ایک مقام پر میرا پیر پڑا اور میں مکمل طور پر توازن کھو کر نیچے گرنے لگا کوشش کے باوجود رکنا ممکن نہیں ہوا اور مجھے واضح طور پر اندازہ ہو چکا تھا کے کچھ ہی لمحوں میں میرا جسم دریاۓ نیلم کے نیلگوں اور یخ بستہ پانی میں گر کر فوراّ ہی ٹھنڈا ہو جاۓ گا اور شائد کئ دن تلاش کے بعد جسم کا کچھ حصہ مل جاۓ اور قوی امید ہے کہ نا بھی ملے اخبار میں ایک خبر لگ جاۓ گی ایک سیاح دریاۓ نیلم آزاد کشمیر میں گر کر ھلاک اسکا تعلق کراچی سے بتایا جا رہا ہے نیز اطراف میں لاش کی تلاش کا کام جاری ہے خیر ایسا کچھ ہوا نہیں ورنہ ان سطور کے لیۓ میں موجود نہ ہوتا۔۔
راستہ آسان تھا اور ہم جوتوں اور دیگر ساز و سامان سے لیس تھے دیگر ساز میں ہمارے ایک ساتھی کے پاس ایک چھڑی تھی جسے وہ بطور واکنگ اسٹک استعمال کر رہے تھے اور سامان میں کیمرے تھے چڑھائ کے بیچ ایک مقام ایسا آیا جہاں ایک گلیشئر سے آتا ہوا پانی ہمارے راستے سے کچھ نیچے ہمارے ساتھ بہتا ہوا نیچے جا رہا تھا تھوڑا آگے جہاں سے یہ پانی آرہا تھا وہاں برف کی ایک محراب سی بن گئ تھی اور پانی اس محراب کے نیچے سے بہ کر آتا تھا اور بہت سے بڑے بڑے پتھر تھے جو ساتھ ساتھ وہاں پڑے تھے ہم نے ان پتھروں سے ساتھ نیچے اترنا شروع کیا دھوپ اپنی جگہ پر تھی لیکن ماحول اس نہر نما پانی کے آجانے کی وجہ سے تبدیل ہو گیا تھا ہم نیچے آۓ اور ان پتھروں پر پانی کے ساتھ بیٹھ گۓ فرمان بھائ اور دوسرے جو ہم سے آگے چل رہے تھے ہمیں نیچے جاتا دیکھ کر رک گۓ اور وہیں سے پوچھا "تھک گۓ آپ کیا؟" ہم نے انکار کیا اور ذرا مزہ لینے کی بات تو وہ یہ کہ کر آگے چلے گۓ کے جلدی کرلیں آج کے دن بہت سفر کرنا ہے اوپر لیک پر جا کر مزہ کر لینا آپ لوگ ابھی اٹھو آگے چلو۔۔
راما لیک کے اس ٹریک پر جو چیز مجھے سب سے زیادہ پسند آتی تھی وہ یہ تھی اس اس پر چلنے والے صرف ہم سات لوگ تھے باقی کوئ اور نہیں تھا اور یہی اسکی سب سے بڑی خوبی تھی تنہائ میں ہمیشہ ایسی ہی کسی جگہ جانا چاھتا تھا جہاں صرف میں ہوں اور لوگ نہ ہوں پورے واستے میں ابھی تک مجھے ایک بھی خالی لفافہ کا کوئ کچرا نہیں نظر آیا تھا جو واضح گواہی تھا ابھی تک اس طرف سفر کرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے
ہم وہاں سے واپس اوپر آۓ اور دوبارہ چڑھائ شروع کی کئ مقام ایسے آۓ جو مکمل برف میں تھے اور ہم انکے اوپر سے چل کے آگے گۓ ایک موڑ مڑنے پر ہمیں اپنے ساتھی مل گۓ جو ایک چھوٹی سی جھیل سے سامنے کھڑے تھے جسکا پانی نیلاہت لۓ ہوۓ ہریالی مائل تھا اور جسکا کل رقبہ ایک سوئمنگ پول سے بڑا نہیں ہوگا ہمارے پہنچنے پر فرمان بھائ نے کہاں یہی راما لیک ہے۔۔۔۔
مجھے اس لیک کو دیکھ کر گو کے دیکھنے میں حسین تھا لیکن میرے دل میں یہی خیال تھا کے اگر یہی راما لیک ہے تو اسکو دیکھنا اتنا ضروری کیوں تھا؟؟ کیا اسکو دیکھنے کے لیۓ ہم دیوسائ کا راستہ چھوڑ کر اتنا اوپر آۓ تھے؟؟ اگر واقعی ایسا تھا تو اتنا سفر کرکے ہم نے اپنا وقت ٖفضول برباد کیا تھا لیکن اگر آہی گۓ تھے تو ہم نے وہاں تصویریں بنوائیں اکیلے اور گروپس میں اوپر کی جانب ایک راستہ جا رہا تھا اور وہاں سے ایک گلیشئر کا بہت خوبصورت منظر نظر آرہا تھا اور تب عدنان نے کہا کہ یہ راما لیک نہیں ہے یہ تو ویسے ہی گلیشئر کا پانی ہے یہاں عام طور پر ایسا پانی کھڑا ہو جاتا ہے راما لیک ابھی اور اوپر ہے۔۔
تقریبا بیس منٹ اور چڑھائ کے بعد ایک اور ویسا ہے مقام آیا ایک چھوٹی سی جھیل لیکن یہ قدرے لمبائ میں تھی اور چند قدم پر ایک اور ایسا ہی منظر اور ایک موڑ مڑتے ہے سامنے ایک بے انتہا وسعت لۓ جہاں ہم تھے وہاں سے گزوں نیچے نیلے پانی کی ایک جھیل خوبصورتی اور حسن میں اپنی مثال آپ جس کے چاروں کناروں پر گھاس اور سبزہ مکمل سکوت میں تھی ایک طلسم تھا جو پورے ماحول کو سحر میں جکڑتا تھا اور چند گائیں جو چرتی ہوئی جھیل کے کنارے تک چلی گئ تھیں اور میں اس پورے منظر کو جلدی جلدی دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا اور پوری طرح سے اس ماحول کے جادو کے اثر میں آچکا تھا اور یہی راما لیک تھی۔۔۔۔
Raama lake...... Jo Ap ko ram kr leti hay...
ReplyDelete