Wednesday 28 May 2014

پریوں کی چراگاہ فیری میڈوز قسط ۲


میں نے کیمرہ بند کیا اور اپنی رفتار تیز کردی دھوپ میں شدت تھی اور مستقل چلنے کے عمل سے گرمی زیادہ محسوس ہو رہی تھی اور گلے خشک تھے اور پانی ہمارے پاس نہیں تھا جو اگے چلے گۓ پانی بھی ساتھ لے گۓ تھے۔

خشک گلے گرمی اور آنکھوں کو چندھیا دینے والی دھوپ کی تیزی میں واپسی کا سفر جاری تھا خراماں خراماں ہم فیری میڈو کی جنت ارضی سے دور ہوتے جا رہے تھے کبھی کبھی ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا اور ہمیں شاداب کر جاتا اور پھر وہی دھوپ اور گرمی کی شدت گویا ہم وہ تھے جو نہ جنت میں تھے اور نہ دوزخ میں درمیان میں تھے ہم پر کبھی بہشت کی ہوائیں چلتیں جو ہمیں تروتازہ کرجاتیں جنکے ساتھ آنے والی مہک مہیں سرشار کر جاتی اور پھر وہی گرمی اور پیاس اور مشقت بھرا سفر۔

یہاں آنے سے کچھ دن پہلے تک مجھے ایسا لگتا تھا کہ میں کبھی نہیں آسکوں گا کم از کم اس سال تو ہرگز نہیں کافی عرصہ ہوا میں نے فیری میڈو کے بارے میں تارڑ صاحب کی کتاب نانگاپربت میں پڑھا اور جس انداز میں چاچا جی نے فیری میڈو کو بیان کیا وہ تو انکا ہی خاصہ ہے اور اس وقت میرے ذہن پر ایک نقش چھوڑا وقت گزرتا گیا اور یہ نقش مدھم پڑتا گیا کچھ دن ہوۓ میرے سفر سے کوئ سال پھر پہلے بات چیت کے دوران پھر ذکر نکلا اور دوبارہ سے وہ تصویر میرے دماغ میں روشن ہوئ اور میں نے وہاں جانے کے بارے میں باقاعدہ پروگرام بنانا شروع کیا معلومات حاصل کرنا شروع کی اور سب سے ضروری اپنے ساتھ جانے والوں کی تلاش شروع کی چاہتے تو آپ یہی ہیں کہ جن سے آپکا ذہن ملتا ہو اور جو قریبی ہوں وہی آکے ہمسفر بھی ہوں۔

جن سے بھی بات کی کسی کو دفتری مسائل اور کسی کو سفر پر پیسے خرچ کرنا فضول خرچی محسوس ہوا کوئ اتنا لمبا اور کٹھن سفر کرنے سے پریشان کچھ نے مشورہ دیا کہ اگر مری اور نتھا گلی چلا جاۓ تو وہ چلنے کے لیۓ تیار ہیں کسی نے اپنی پسند کی تاریخوں میں سفر کرنے پر زور دیا بلاخر میں ایسی دو روحیں تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا جو اس سفر کے لیۓ آمادہ نظر آئیں ایک رات بیٹھ کر انکو پورا پروگرام راستہ سفری سہولیات ضروری اشیاء اور خرچہ وغیرہ کے بارے میں تمام تفصیلات بتا کر انکو مطمئن کیا روانگی اور واپسی کی تاریخیں طے کرنے کے بعد میں رات اطمنان سے سویا اور رات بھر خواب میں ان چراگاہوں میں چرتا رہا اور خود کو یقین دلاتا رہا کہ ہی خواب نہیں ہے حقیقت ہے اگلا دن ہفتہ کا تھا صبح سات بجے میرا فون زور سے بجنے لگا دوسری طرف مونس تھا:

"بھائ فیری میڈو پر غیر ملکی سیاح مار دیۓ ہیں اور فیری میڈو کو سیل کر دیا گیا ہے اب وہاں کوئ سیاح نہیں جا سکتا مجھے امی نے اٹھا کر بتایا ہے ٹی وی پر بھی دکھا رہے ہیں اور امی نے کہا ہے کہ تم لوگ اپنا پروگرام کینسل کردو"

یار فیری میڈو نہیں ہوگا کچھ اور کہا ہوگا دوبارہ دیکھو" میں یہ بات کسی طرح ماننے کو تیار نہیں تھا۔ "نہیں یار میں نے خود دیکھا ہےفیری میڈو کا نام باربار آرہا ہے:

" اچھا دیکھتے ہیں۔اتنی صبح یہی بتانے کے لیۓ فون کیا ہے تم نے؟"

" جو بھی ہو تم ابھی ٹکٹ مت کروانا"

"اچھا دیکھتے ہیں پہلے پتہ تو کر لینے دو ویسے بھی ابھی کافی وقت ہے"


اور واقعی ایسا ہی تھا ٹی وی پر ایسا ہی بولا جا رہا تھا اس وقت میرا ذہن کسی بھی ایسی خبر کو ماننے کے لیۓ تیار نہیں تھا جو میرے سفر کی راہ میں رکاوٹ بنے میں نے بلال سے رابتہ کیا بلال فیس بک پر فیری میڈو کے ایک پیج کا ایڈمن ہے اور کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی کا ٹور ہر سال فیری میڈو لیکر جاتا ہے اور وہاں جانے کے لیۓ میں اسی سے رابطے میں تھا اور اس نے میری کافی مدد کی تھی اس سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ واقعہ ہوا تو ضرور ہے لیکن فیری میڈو میں نہیں بلکہ نانگا پربت بیس کیمپ میں دیامر سائڈ پر ہوا ہے اور وہاں سے فاصلہ کافی زیادہ ہے

یہی خبر میں نے مونس کو سنائ لیکن وہ میری بات ماننے کو تیار نہیں تھا اور بضد تھا کے ٹکٹ نہ کرانا اور اب ہم نہیں جا سکتے

Nanga Parbat..Photo Unkown


No comments:

Post a Comment