Friday 6 June 2014

پریوں کی چراگاہ فیری میڈوز قسط ۴



جو صاحب ہماری جیپ کے ڈرائیور تھے انکے جسم پر گوشت کم اور ہڈیاں زیادہ تھیں یا یوں اگر کہا جاۓ کے انکی ہڈیوں پر صرف کھال منڈھی تھی تو بھی غلط نہیں ہوگا سفید شلوار قمیض جو اپنی اصل رنگت کھو کرمٹیالا ہو چکا تھا اسپر ایک واسکٹ اور سر پر روائتی بلتی ٹوپی پہنی ہوئ تھی اور اس جگہ جہاں فیری میڈو میں خوش آمدید کا بورڈ لگا ہوا تھا اس وقت شام ساڑھے چار بجے اتنی گرمی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ بغیر کسی مبالغہ کے ایسا لگتا تھا کہ سورج سوا نیزے پر ہو سڑک پہاڑ پتھر حتیٰ کہ درخت اور اکے تمام پتے حدت خارج کر رہے تھے اور ہر ایک چیز پر مٹی کی دبیز تہ جمی ہوئ تھی اور اسکے علاوہ وہاں سکوت سناٹا گہرا اور گرم سناٹا قراقرم ہائ وے پر تین موٹر سائیکلیں فراٹے بھرتی ہوئ آئیں اور گزر گئیں دور تک انکی آوازیں ہمارے کانوں میں رہیں اور پھر وہی گہرا اور پریشان کن سکوت اور حدت جیب پر سوار ہونے کے لیۓ میں نے جب لوہے کے ڈنڈے کو پکڑا تو بخدا ایسا محسوس ہوا کہ جیسے گرما گرم توے پر ہاتھ رکھ دیا ہو اور اندر پہنچ کو یوں لگا کہ برضا و رغبت میں ایک تنور میں آگیا ہوں اور کچھ دیر میں روسٹ ہو جاؤنگا۔

"ہم چل کیوں نہیں رہے ہیں؟" میں نے بلتی ٹوپی والے ڈرائیور سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ احمد آجاۓ تو چلتے ہیں بس اور پھر مجھ سے پوچھنے لگے"آپ
 لوگ کو آنے میں ڈر تو نہیں لگا ناں سر؟
 اصل میں جب ٹورسٹ کا واقعہ ہوا تو ٹی وی والوں نے پھیری میڈو بولا ناں یہی بہت غلط کیا اتنا لوگ ڈر کی وجہ سے نہیں آیا ناں ادھر آپ لوگ کہاں سے آیا ہیں سر؟"
 ہم نے دو چار رسمی سی باتیں کیں اور اپنی ناراضی کا اظہار بھی کیا ٹی وی والوں نے غلط کیا لیکن جو بھی اسکی سزا ہمیں دینا اس گرمی میں ایک تنور نما جیب میں بٹھا نا اور اس دنیا میں جہنم کی یاد دلانا کہاں کا انصاف تھا؟

احمد بھائ کے جیپ میں آنے پر یہ انتظار ختم ہوا اور بلتی ٹوپی نے چابی گھما کر جیپ سٹارٹ کی انجن کا شور بلند ہوا فضا کا جامد سکوت ٹوٹا اور یہ آواز سفر کرتی ہوئ تمام بلندیاں طے کرتی ہوئ فیری میڈو کے جنگل پہنچی اور وہاں میرے استقبال کی تیاریاں شروع ہوئیں اور یہی آواز قراقرم ہائ وے پر سفر کرتی ہوئ دریاۓ سندھ کے ساتھ ساتھ بہتی ہوئ میرے گھر پہنچی اور اسی وقت میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی شائد میری امی ہوں اور انکو خبر مل گئ ہو کہ میں ایک خطرناک اور مشکل راستے پر سفر کرنے والا ہوں میں نے اپنا موبائل فون نکالا اور وہ مردہ حالت میں تھا راۓ کوٹ برج اور اطراف کے تمام علاقوں میں موبائل کی کوئ سہولت میسر نہیں ہے تو پھر یہ گھنٹی؟ میں خوف زدہ تھا فیری میڈوز کا جیپ ٹریک دنیا کا ایک مشکل ترین ٹریک ہے اگر کسی بھی قسم کا کوئ حادثہ ہو جاۓ یا جیپ اپنا ٹریک بھول جاۓ کسی بھی دوسری صورت میں آپکی یقینی موت ہوتی ہے اگر آپ خوش قسمت ہوۓ اور کسی ایسی جگہ حادثہ کا شکار ہوۓ جہاں سے آپ کا جسم صحیح حالت میں مل جاۓ اور آپ کے سامان سے آپکا شناختی کارڈ وغیرہ حاصل کرکے آپ کو گھر پہچا دیا جاۓ نہیں تو دوسری صورت بہت خوفناک اور میں کسی بھی ایسی صورت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا پہلی یا دوسری میں زندہ سلامت اپنے گھر واپس جانا چاہتا تھا مجھے میرے ماں یاد آرہی تھی میں بات کرنا چاہتا تھا کہنا چاہتا تھا کہ امی سفر تھوڑا پیچیدہ ہے آپ دعا کریں لیکن ایسی کوئ صورت نہیں تھی اور مجھے اسکی ضرورت بھی نہیں تھی مجھے معلوم تھا کے میرے لیۓ دعاؤں کا ایک نا ختم ہونے والا ذخیرہ ساتھ ہے اور ہر لمحہ بڑھتا ہی جا رہا ہے لیکن میں نے پھر بھی خیال کرکے امی کو مخاطب کیا اور اپنی درخواست گوش گزار کردی خود بھی جو دعائیں یا آتی گئیں وہ سب پڑھ کر دم کیا مضبوطی سے جم کر پیٹھ گیا.

گھوں گھوں کرتا جیپ کا انجن واپس تاتو کی طرف پلٹا اور راستے سے ہٹ کر کچے راستے پر آگیا ہمارے پیچھے مٹی کا ایک طوفان تھا چھوٹے چھوٹے پتھر جیپ کے پہیوں کے نیچے آتے اور کڑکڑا کر نیچے گرتے اور گرد کے طوفان میں گم ہوجاتے دو تین مرتبہ گھوم گھوم پر جب ہم تھوڑا اوپر ہوۓ تو نیچے کا کا منظر کچھ ایسا تھا کہ کسی نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے یہاں پر بمباری کی گئ ہے اور کسی فلم کا ایسا منظر لگ رہا ہے جیسے کسی بڑی تباہی کے بعد کے لمحات کو فلمایا گیا ہو اور سیٹ کو ویسے ہی محفوظ کر لیا گیا ہو ایک بڑا میدان اور چھوٹے بڑے پتھر بے ترتیبی سے یا انکی ترتیب ہی ایسی تھی پڑے ہو تھے اور گرمی کی وجہ سے بھاپ اٹھتی ہوئ نظر آتی تھی اور ایک پرسراری تھی مجھے یہ منظر کسی دوسرے سیارے کی ایک تصویر لگا کسی سیٹالائیٹ سے اتاری گئ ایک بڑے فریم کی تصویر پھر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جب سے کائینات تخلیق ہوئ ہے یہ منظر ایسا ہی ہے اور جب تک یہ کائینات رہے گی یہ منظر بھی ایسا ہی رہے گا اور جب حشر قائم ہوگا تب بھی یہ منظر ایسا ہی ہوگا گویا میرے سامنے ایک ایسی تصویر تھی جسمیں کائنات کی ابتدا اور انتہا دونوں بیک وقت نمایاں تھیں۔

جیپ اوپر ہوتی گئ انجن اسی طرح زور لگاتا رہا گول گول چکر کاٹتے ہوۓ دائیں طرف پہاڑ ایک دیوار کی طرح راستے کے ساتھ لگا ہوا اور راستہ کسی بھی مقام پر اس سے زیادہ چوڑا نہیں تھا کہ اس پر ایک جیپ سے زیادہ گزرنے کی جگہ ہو دو ایک مقامات پر ہمیں اوپر سے آنے والے جیپوں کو جگہ دینا پڑی اور جس انداز سے جگہ فراہم کی گئ وہ کسی بھی کمزور دل انسان کی جان نکالنے کے لیۓ کافی ہے جان تو ہماری بھی حلق میں ہی تھی لیکن ہم بظاہر بہادر بنے ہوۓ تھے بائیں طرف دور ایک اور پہاڑ تھا اور دونوں کادرمیانی فاصلہ کم از کم ڈیڑھ سے دو کلومیٹر رہا ہوگا اور ان دونوں کے درمیاں میں نیچے بہت نیچے بال برابر باریک ایک پانی کی لکیر تھی جو کبھی تو نظر آتی اور کبھی پتھروں میں گم ہو جاتی یہ راۓ کوٹ گلیشئر سے آنے والا پانی تھا جو آگے جا کر دریاۓ سندھ کا حصہ بن جاتا ہے۔

بعض راستے اتنے دشواز گزار ہوتے نہیں جتنا آپ محسوس کرتے ہیں لیکن راۓ کوٹ سے فیری پوائنٹ تک کا جیپ ٹریک اتنا ہی دشوار گزار ہے جتنا آپ محسوس کرتے ہیں یا شائد ایک وقت کے بعد آپ محسوس کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا آپ کی حس جواب دے جاتی ہے کم از کم اگر یہ سفر پہلی مرتبہ کیا جاۓ تب ضرور یہی حالت ہوتی ہے مجھے پل صراط پر سفر کرنا اس ٹریک کے مقابلے میں آسان محسوس ہو رہا تھا اور کئ مقامات پر میرا دل کیا کہ میں التجا کرکے جیپ رکوا لوں اور باقی کا سفر پیدل طے کرلوں تقریبا" ڈیڑھ گھنٹہ جیب انہی اونچے نیچے دل دہلا دینے والے راستوں پر سفر کرتی رہی راۓ کا پانی جو شروع میں ایک سوئ کے برابر نظر آتا تھا اب اپنی اصلیت پر واپس آتا ہو محسوس ہوتا تھا اور اسکا یہ مطلب تھا کہ ہم کافی اونچائ پر آچکے تھے ایک موڑ پر میں نے دیکھا دو جیپیں کھڑی ہوئ ہیں اور کچھ نوجوان پاس کھڑے ہیں اور ایک گاؤں کے آثار اکتا دینے والی یکسانیت کا سفر ختم ہوا مجھے اپنے زندہ بچ جانے کی زیادہ خوشی تھی جیپ سے باہر آۓ اپنے ہاتھ پیر ہلا کر خون کی روانی بحال کی جیپ والے کا شکریہ ادا کیا اپنی واپسی کا دن بتایا اور اپنے بیگ اپنے کاندھوں پر لٹکانے بے بعد کچھ دور چل کر فیری پوائنٹ ہوٹل تک آۓ یہاں ہمارے کھانے کا انتظام تھا اور پھر فیری میڈو کا اصل ٹریک کا آغاز ہونا تھا۔