Saturday, 10 May 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۱۰



جیپ میں لدنے کے بعد جب ہم دیوسائ کے لیۓ روانے ہوۓ تو اس وقت دن کے گیارہ بجنے والے تھے ہم سات، ہمارا سامان جیب لے پچھلے حصے میں بندھا ہوا اپنے اپنے نصیب کے ایک بادل یا ایک پھول کے لیۓ سفر کرنے کو تیار تھے۔

جیب کا میوزک سسٹم مستقل موسیقی بجا رہا تھا "تھو جو ہنوس می یار" یہ گانا دوبارہ میں نے ایکسپریس ٹیلیوژن سے نشر ہونے والے پروگرام میں جب جب دوبارہ سنا تب تب خود کو دیوسائ میں پایا سفر ہے شرط اور چاچا جی راکا پوشی کی جانب رواں دواں۔

میں اس مسلسل بجتی ہوئ موسیقی سے سخت اکتاہٹ کا شکار ہو رہا تھا کیوںکہ میں قدرت کے وہ ساز سننا چاہ رہا تھا جو مسلسل ہمارے لیۓ بج رہے تھے کبھی پرندوں کی چہکار کبھی جھرنوں کا شور کچھ نہیں تو جیب کے پہیوں کے نیچھے آنے والے پتھر جو ایک عجیب گھن گرج کے ساتھ ادھر ادھر ہورہے تھے لیکن یہ آوازیں میں صرف تب سن پاتا تھا جب ایک گانا ختم ہونے کے بعد دوسرا شروع ہونے کا درمیانی وقفہ ہوتا۔ کچھ دیر اکتاہٹ کے بعد میں نے سمجھوتا کر لیا اور اس شور سے بے بہرا باہر گزرنے والے مناظر میں کھوگیا۔

  استور سے دیوسائ کی  طرف سفر کرنا ایک بہت ہی شاندار تجربہ ہے مختلف چھوٹے چھوٹے شہروں سے اور قصبوں سے گزرتے ہوۓ آپ چلم چوکی پہنچتے ہیں اور اس سے آگے دیوسائ ہے۔
 تو استور سے نکل کر سب سے پہلا جو باقاعدہ آبادی آتی ہے تو وہ گوری کوٹ ہے اور وہاں ایک شہتوت کا درخت ہے گھنا اور بھرا ہوا سخی درخت اگر آپ اسکو نظر انداز کر جائیں تو ب واضح طور ناراض ہوتا ہوا کہ میں کب سے آپ کے انتظار میں اپنے رس بھرے توت سجاۓ کھڑا آپ کی راہ دیکھتا ہوں اور آپ ایسی بے اعتنائ برتتے ہیں تو آپ پر اپنے پھل گرا کر اپنی جانب متوجہ کرتا ہے کہ تم خود تو آنے نہیں لیکن یہ جو تمہارے لیۓ ہے اسکو لیتے جاؤ تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا گوری کوٹ میں ہم  کچھ دیر رکے تپتی دھوپ سے بچنے کے لیۓ جیب اسی مہمان نواز درخت کے نیچے کھڑی کی تو اوپر سے بارش ہوئ ہم پر ان رس بھرے سیاہ اور شہد توت کی اور ہم پریشان ہوۓ کیوںکہ ہم عادی نہیں تھے ہم شہروں سے آۓ تھے بے مروتی اور بے اعتنائ کے عادی تھے اتنی مہمان نوازی ہمیں بھاری پڑتی تھی بطور شکرانا میں نے جیب میں گرنے والے کچھ شہتوت اٹھا کر کھاۓ اور کھڑے ہو کر کچھ درخت سے توڑے اوپر سے چھن کر آنے والے دھوپ میرے چہرے پر پڑٰی۔

اس سے آگے جو سفر شروع ہوتا ہے تو سنگلاخ پہاڑ ساتھ چلتے ہیں اور سبزہ نہ ہونے کے برابر ہے کہیں کہیں جھاڑیاں اور مٹیلالے درخت ہیں جیپ کے چلنے سے مٹی اڑتی ہے راستہ کچا ضرور ہے لیکن موجود بحر حال ہے دریا ساتھ ساتھ نیچے بہت نیچے گہرائ میں ساتھ ساتھ ہوتا ہے کبھی کبھی دریا کو دیکھنے سے خوف سا آتا ہے تقریباُ اسی طرح سفر کرتے کرتے آپ "گدائ" تک آتے ہیں یہاں تک آنے سے پہلے ایک مقام ایسا آتا ہے جہاں آپ دریا کے ساتھ آجاتے ہیں معلوم نہیں کیسے مگر حقیقتاَ ایک موڑ مڑتے ہی اچانک آن کی آن میں منظر تبدیل ہوتا ہے پانی آپکے دائیں سے بائیں جانب آتا ہے اور منظر یکسر بدلتا ہے دریا جو آپ کے ساتھ بہتا تھا گدلا اور مٹیالا تھا دھول اڑتی ہوئ اور سبزہ ناپید تو ایک موڑ مڑتے ہی دریا آپ کے دائیں جانب آتا ہے اور اب وہ گہرا نیلا ہے اور ہوا میں یکدم بدلاؤ ہے اور ٹھنڈک کا احساس لیکن یہ صرف چند سیکنڈ کے لیۓ ہوتا ہے اور پھر سب غائب ہو جاتا ہے آپ کے لیۓ ایک اور حیرت چھوڑ جاتا ہے کہ وہ کیا تھا جو نظر آیا تھا نظر کا دھوکا  تھا یا ایک حقیقت؟ ہم جیپ کی سیٹوں پر کھڑے ہو کر اس گزر جانے والے منظر کو ڈھونڈ رہے تھے ابھی تو ایک تصویر بھی نہ بنا پاۓ تھے کہ منظر گزر گیا اور اب وہی بنجر پہاڑ اور دھول۔

کہتے ہیں کہ اس دنیا میں کچھ بھی مستقل نہیں ہے تو یہ منظر بھی عارضی ثابت ہوا تھوڑا آگے جانے پر منظر وسیع ہوا کچھ درخت آۓ پھر وہی گہرا نیلا پانی ساتھ ہوا میں نے اس پانی کو دیوسائ کے پانی کا نام دیا اور ہم دیوسائ سے آتے ہوۓ پانی کے ساتھ سفر کرنے لگے۔

سڑک کے کبھی دائیں اور کبھی بائیں جانب دریا کے ساتھ چھوٹی چھوٹی آبادیاں بنی نظر آتی تھیں سامنے ایک مستقل منظر ایک پہاڑ جس کے اوپر چوٹی پر ہلکی سی برف اور وہاں ٹھہرے ہوۓ بادل سکوت میں اپنی جگہ قائم کھڑے ہوۓ اور آسمان جو نیلاہٹ میں بے انتہا بڑھا ہوا شفاف صاف اور آلودگی سے پاک اس منظر میں سب سے خوبصورت وہ گھر لگتے تھے جو بتھر اور گارے سے بنے ہوۓ کھلونا گھر معلوم ہوتے تھے اور کسی بھی کثیرالمنزلہ بین الاقوامی کمپنی کی بلڈنگ سے زیادہ شاندار تھے اور انکی اصل خوبصورتی انکی سادگی تھی کشادگی انمیں نہ ہوگی لیکن گھر سے نکلنے پر اگر اتنا خوبصورت منظر ہو تو کیا ہی کہنا حضرت علامہ بھی تو یہی آس رکھتے تھے دل میں لیکن  ہر کسی کے نصیب میں یہ تو نہیں ہوتا اور ہر کوئ اقبال بھی نہیں ہوتا۔

گدائ سے آگے سبزہ مخملیں ہو جاتا ہے اور بہتات ہوتی ہے اور منظر مزید حسین پانی زیادہ نیلا اور بادل اور سفید مخملیں سبزے میں سفر کرتے کرتے بعض مقام ایسے آتے ہیں کہ اوپر سے آتا ہوا پانی راستے سے پہتا ہوا نیچے دریا میں شامل ہورہا ہوتا ہے اور راستہ یا تو بہ چکا ہوتا ہے یا باقی تو ہوتا ہے لیکن آپ کو پہتے پانی سے گزر کر اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالنا پڑتی ہیں کوئ ایسے خطرے میں بھی نہیں بس تھوڑا آحتیاط کرنا ہوتا ہے کیونکہ پانی کا بہاؤ کافی تیز ہوتا ہے اور اوپر سے آنے والے پتھر راستے میں جمع ہوکر رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں یہاں کچھ لوگ اپنی موٹر سائیکلوں پر بھی تھے  جو دھکے لگا کر پار جا رہے تھے۔

ان سبزہ زاروں سے گزر کر خمر داس اور پھر دس بالا کے قصبے آتے ہیں اس سے آگے چلم چوکی ہمارے پاس ہر مقام پر رک کر نظارے کرنے کا وقت نہیں تھا جیپ میں بیٹھے بیٹھے تمام مناظر گزرتے گۓ اور ہم چلم چوکی پہنچ گۓ لیکن یہاں قدرت نے کچھ موقع دیا جیب کا ایک ٹائر راستے میں کچھ خراب ہو گیا تھا اور مزید سفر کے لیۓ اسکا ٹھیک کرانا ضروری تھا تو ہم چلم چوکی پر رکے دوپہر ہو رہی تھی اور کھانا بھی کھانا تھا چلم چوکی فوج کی چھاؤنی سی ہے یہاں انٹری کرا کر ہم ایک ورک شاپ پر آۓ اور ٹائر کی مرمت شروع ہوئ ہمارے پاس کچھ وقت تھا ہم باہر آۓ اور آس پاس گھومنا شروع کیا۔

جو پانی ہمارے ساتھ ساتھ بہتا آیا تھا اسکو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہم کنارے پر آۓ اور کنارے سے کچھ دور ہی زمین نرم تھی اور ہمارے چلنے سے دبتی چلی جاتی تھی گھاس اتنی دبیز اور ملائم تھی اور زمین کا نرم ہونا ایسا لگتا تھا کہ کوئ بہت دبیز ایرانی قالین بچھا ہو گھاس جو تھی تو اس میں ایسے ننھے ننھے سفید پھول تھے جو ہرطرف پھیلے ہوۓ تھے اور روئ کے گالوں کی طرح فضا میں اڑتے تھے چاروں طرف ہم کنارے سے مزید قریب ہوۓ پانی کا ساز بجتا تھا کنارے پر پڑے بڑے بڑے سیاہ پتھر ادھے سے زیادہ پانی میں ڈوبے ہوۓ تھے کچھ مکمل طور پر پانی میں تھے ہم ان تک گۓ جوتے اتار کر ان تک گۓ برف پانیوں سے اپنے ہاتھ پیر گیلے کۓ اور شفاف پانی پیا پانی کی تہ میں پڑے پتھر اندر تک نظر آتے تھے اس سے پرے سامنے کی طرف ٹیلے نما پہاڑ تھے مکمل طور پر سبز کمبل اوڑھے ہوۓ اور اوپر شفاف نیلا آسمان کہیں کہیں روئ کے گالوں کی طرح بادل ٹکے ہوۓ اور کہیں مکمل سایا کۓ ہوۓ کہ پہاڑوں پر بڑے دلکش نقش بن گۓ تھے تقریباَ 4500 فیٹ اوپر آپ بادلوں کے نزدیک آجاتے ہیں اور آسمان اور انکے خالق سے بھی کچھ منظر ایسے ہوتے ہیں جو صرف انکے لیۓ بنے ہوتے ہیں جو گھر کا آرام سکون چھوڑ کر سفر کی تھکان اور صعوبتیں برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور سامنے والا منظر بھی ایسا ہی تھا جو ہمارے لیۓ تھا وہ سبزہ بادل پانی آسمان پھول ہمارے لیۓ سجاۓ گۓ تھے اور ہمارا انتظار کرتے تھے کہ ہم کو دیکھنے والے آرہے ہیں  ہمارے ساتھ وہیں چلم چوکی پر سڑک کے ساتھ بنے ہوٹل میں کھانا کھاتے تھے اور چاۓ پیتے تھے لیکن ہم نے کھانے اور چاۓ پر اس منظر کو ترجیح دی تھی جو ہمارا منتظر تھا۔

اور وہاں پھول تھے نیلے بھول چھوٹے چھوٹے اور گچھوں کی صورت میں اور پیلے کچھ کچھ سورچ مکھی کے پھول سے مشابہ اور لہلاتے تھے مست ہوتے تھے اٹھلاتے تھے اور کچھ پھول پیگنی رنگ کے تھے یہ سب چھوٹی چھوٹی ٹکریوں میں تھے کچھ گہرے اور کچھ ہلکے جامنی رنگ کے اور بے شمار تھے اور ہمیں مجبور ہوتے تھے اس ذات اقدس کی صناعی کے ایک تصویر میں اتنی رنگ اور سارے رنگ بھی اسی تھے اور سارے منظر بھی اسی کے ایک "کن" سے وجود میں آنے والے اور جب سے یہ دنیا وجود میں آئ ہے تب سے اسی طرح موجود تھے بعض اوقات ایسا خیال آتا ہے کہ جب موت آۓ جو کے بہر طور آنی ہی ھے چاہے میں اس سے کتنی ہی فرار حاصل کرنے کی کوشش کروں وہ آنی ہے تو جب موت آۓ تو میں ایسی ہی کسی جگہ موجود ہوں اور مر کر ایسی ہی کسی جگہ دفن ہو جاؤں اور اس ماحول کا حصہ بن جاؤں میری قبر پر وہ پھول کھلیں جو اور کہیں موجود ہی نہ ہوں اور وہاں برف کی سی ٹھنڈک والے پانی آتے ہوں ان پھولوں کی سیرابی کی لیۓ اور کوئ اور نہ ہو اس خیال کے آنے کی ایک وجہ ایک یہ بھی تھی کہ وہ جگہ اور ایسی تمام جگہیں مجھے بہشت کی یاد دلاتی ہیں اور جنت سے نکالا گیا انسان جنت کا تمنائ ہوتا ہے اور اگر اسے وہ جنت دوبارہ مل جاۓ تو واپس آنے کا دل نہیں کرتا۔

اور جب میں واپس چوکی کی طرف آیا تو میں نے غور کیا وہاں ایک ہیلی پیڈ زمین پر چونے سے بنایا گیا اور باہر سڑک کی طرف ایک بورڈ لگا تھا "چلم چوکی 0 کیلومیٹر" اور سڑک کے ساتھ ایک بڑا پتھر لگا جس پر سفید پینٹ کرکے ایک نقشہ سا بنایا گیا تھا اور وہاں ایک تیر کا نشان یہ بتا رہا تھا کہ دیوسائ کے اوپر اور ساتھ ہی تصویں بنانے کی ممانعت کی ہدایت درج تھی لیکن خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کسی کارروائ کا زکر نہیں تھا وہاں فوجی جوان تھے مجھے ڈر ہوا کہ کہیں سزا کے طور پر یہ حکم نہ مل جاۓ کہ آپ آگے نہیں جا سکتے میں واپس پلٹ کر وہاں آگیا جہاں ہماری جیپ کھڑی تھی اور بیگ سے ڈائری نکال لی ٹائر بن چکا تھا اور بس دوبارہ لگانا رہ گیا تھا جیپ تیار تھی اور ہم دیوسائ میں داخل ہونے کو تھے۔

No comments:

Post a Comment