Friday 6 June 2014

پریوں کی چراگاہ فیری میڈوز قسط ۴



جو صاحب ہماری جیپ کے ڈرائیور تھے انکے جسم پر گوشت کم اور ہڈیاں زیادہ تھیں یا یوں اگر کہا جاۓ کے انکی ہڈیوں پر صرف کھال منڈھی تھی تو بھی غلط نہیں ہوگا سفید شلوار قمیض جو اپنی اصل رنگت کھو کرمٹیالا ہو چکا تھا اسپر ایک واسکٹ اور سر پر روائتی بلتی ٹوپی پہنی ہوئ تھی اور اس جگہ جہاں فیری میڈو میں خوش آمدید کا بورڈ لگا ہوا تھا اس وقت شام ساڑھے چار بجے اتنی گرمی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ بغیر کسی مبالغہ کے ایسا لگتا تھا کہ سورج سوا نیزے پر ہو سڑک پہاڑ پتھر حتیٰ کہ درخت اور اکے تمام پتے حدت خارج کر رہے تھے اور ہر ایک چیز پر مٹی کی دبیز تہ جمی ہوئ تھی اور اسکے علاوہ وہاں سکوت سناٹا گہرا اور گرم سناٹا قراقرم ہائ وے پر تین موٹر سائیکلیں فراٹے بھرتی ہوئ آئیں اور گزر گئیں دور تک انکی آوازیں ہمارے کانوں میں رہیں اور پھر وہی گہرا اور پریشان کن سکوت اور حدت جیب پر سوار ہونے کے لیۓ میں نے جب لوہے کے ڈنڈے کو پکڑا تو بخدا ایسا محسوس ہوا کہ جیسے گرما گرم توے پر ہاتھ رکھ دیا ہو اور اندر پہنچ کو یوں لگا کہ برضا و رغبت میں ایک تنور میں آگیا ہوں اور کچھ دیر میں روسٹ ہو جاؤنگا۔

"ہم چل کیوں نہیں رہے ہیں؟" میں نے بلتی ٹوپی والے ڈرائیور سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ احمد آجاۓ تو چلتے ہیں بس اور پھر مجھ سے پوچھنے لگے"آپ
 لوگ کو آنے میں ڈر تو نہیں لگا ناں سر؟
 اصل میں جب ٹورسٹ کا واقعہ ہوا تو ٹی وی والوں نے پھیری میڈو بولا ناں یہی بہت غلط کیا اتنا لوگ ڈر کی وجہ سے نہیں آیا ناں ادھر آپ لوگ کہاں سے آیا ہیں سر؟"
 ہم نے دو چار رسمی سی باتیں کیں اور اپنی ناراضی کا اظہار بھی کیا ٹی وی والوں نے غلط کیا لیکن جو بھی اسکی سزا ہمیں دینا اس گرمی میں ایک تنور نما جیب میں بٹھا نا اور اس دنیا میں جہنم کی یاد دلانا کہاں کا انصاف تھا؟

احمد بھائ کے جیپ میں آنے پر یہ انتظار ختم ہوا اور بلتی ٹوپی نے چابی گھما کر جیپ سٹارٹ کی انجن کا شور بلند ہوا فضا کا جامد سکوت ٹوٹا اور یہ آواز سفر کرتی ہوئ تمام بلندیاں طے کرتی ہوئ فیری میڈو کے جنگل پہنچی اور وہاں میرے استقبال کی تیاریاں شروع ہوئیں اور یہی آواز قراقرم ہائ وے پر سفر کرتی ہوئ دریاۓ سندھ کے ساتھ ساتھ بہتی ہوئ میرے گھر پہنچی اور اسی وقت میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی شائد میری امی ہوں اور انکو خبر مل گئ ہو کہ میں ایک خطرناک اور مشکل راستے پر سفر کرنے والا ہوں میں نے اپنا موبائل فون نکالا اور وہ مردہ حالت میں تھا راۓ کوٹ برج اور اطراف کے تمام علاقوں میں موبائل کی کوئ سہولت میسر نہیں ہے تو پھر یہ گھنٹی؟ میں خوف زدہ تھا فیری میڈوز کا جیپ ٹریک دنیا کا ایک مشکل ترین ٹریک ہے اگر کسی بھی قسم کا کوئ حادثہ ہو جاۓ یا جیپ اپنا ٹریک بھول جاۓ کسی بھی دوسری صورت میں آپکی یقینی موت ہوتی ہے اگر آپ خوش قسمت ہوۓ اور کسی ایسی جگہ حادثہ کا شکار ہوۓ جہاں سے آپ کا جسم صحیح حالت میں مل جاۓ اور آپ کے سامان سے آپکا شناختی کارڈ وغیرہ حاصل کرکے آپ کو گھر پہچا دیا جاۓ نہیں تو دوسری صورت بہت خوفناک اور میں کسی بھی ایسی صورت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا پہلی یا دوسری میں زندہ سلامت اپنے گھر واپس جانا چاہتا تھا مجھے میرے ماں یاد آرہی تھی میں بات کرنا چاہتا تھا کہنا چاہتا تھا کہ امی سفر تھوڑا پیچیدہ ہے آپ دعا کریں لیکن ایسی کوئ صورت نہیں تھی اور مجھے اسکی ضرورت بھی نہیں تھی مجھے معلوم تھا کے میرے لیۓ دعاؤں کا ایک نا ختم ہونے والا ذخیرہ ساتھ ہے اور ہر لمحہ بڑھتا ہی جا رہا ہے لیکن میں نے پھر بھی خیال کرکے امی کو مخاطب کیا اور اپنی درخواست گوش گزار کردی خود بھی جو دعائیں یا آتی گئیں وہ سب پڑھ کر دم کیا مضبوطی سے جم کر پیٹھ گیا.

گھوں گھوں کرتا جیپ کا انجن واپس تاتو کی طرف پلٹا اور راستے سے ہٹ کر کچے راستے پر آگیا ہمارے پیچھے مٹی کا ایک طوفان تھا چھوٹے چھوٹے پتھر جیپ کے پہیوں کے نیچے آتے اور کڑکڑا کر نیچے گرتے اور گرد کے طوفان میں گم ہوجاتے دو تین مرتبہ گھوم گھوم پر جب ہم تھوڑا اوپر ہوۓ تو نیچے کا کا منظر کچھ ایسا تھا کہ کسی نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے یہاں پر بمباری کی گئ ہے اور کسی فلم کا ایسا منظر لگ رہا ہے جیسے کسی بڑی تباہی کے بعد کے لمحات کو فلمایا گیا ہو اور سیٹ کو ویسے ہی محفوظ کر لیا گیا ہو ایک بڑا میدان اور چھوٹے بڑے پتھر بے ترتیبی سے یا انکی ترتیب ہی ایسی تھی پڑے ہو تھے اور گرمی کی وجہ سے بھاپ اٹھتی ہوئ نظر آتی تھی اور ایک پرسراری تھی مجھے یہ منظر کسی دوسرے سیارے کی ایک تصویر لگا کسی سیٹالائیٹ سے اتاری گئ ایک بڑے فریم کی تصویر پھر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جب سے کائینات تخلیق ہوئ ہے یہ منظر ایسا ہی ہے اور جب تک یہ کائینات رہے گی یہ منظر بھی ایسا ہی رہے گا اور جب حشر قائم ہوگا تب بھی یہ منظر ایسا ہی ہوگا گویا میرے سامنے ایک ایسی تصویر تھی جسمیں کائنات کی ابتدا اور انتہا دونوں بیک وقت نمایاں تھیں۔

جیپ اوپر ہوتی گئ انجن اسی طرح زور لگاتا رہا گول گول چکر کاٹتے ہوۓ دائیں طرف پہاڑ ایک دیوار کی طرح راستے کے ساتھ لگا ہوا اور راستہ کسی بھی مقام پر اس سے زیادہ چوڑا نہیں تھا کہ اس پر ایک جیپ سے زیادہ گزرنے کی جگہ ہو دو ایک مقامات پر ہمیں اوپر سے آنے والے جیپوں کو جگہ دینا پڑی اور جس انداز سے جگہ فراہم کی گئ وہ کسی بھی کمزور دل انسان کی جان نکالنے کے لیۓ کافی ہے جان تو ہماری بھی حلق میں ہی تھی لیکن ہم بظاہر بہادر بنے ہوۓ تھے بائیں طرف دور ایک اور پہاڑ تھا اور دونوں کادرمیانی فاصلہ کم از کم ڈیڑھ سے دو کلومیٹر رہا ہوگا اور ان دونوں کے درمیاں میں نیچے بہت نیچے بال برابر باریک ایک پانی کی لکیر تھی جو کبھی تو نظر آتی اور کبھی پتھروں میں گم ہو جاتی یہ راۓ کوٹ گلیشئر سے آنے والا پانی تھا جو آگے جا کر دریاۓ سندھ کا حصہ بن جاتا ہے۔

بعض راستے اتنے دشواز گزار ہوتے نہیں جتنا آپ محسوس کرتے ہیں لیکن راۓ کوٹ سے فیری پوائنٹ تک کا جیپ ٹریک اتنا ہی دشوار گزار ہے جتنا آپ محسوس کرتے ہیں یا شائد ایک وقت کے بعد آپ محسوس کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا آپ کی حس جواب دے جاتی ہے کم از کم اگر یہ سفر پہلی مرتبہ کیا جاۓ تب ضرور یہی حالت ہوتی ہے مجھے پل صراط پر سفر کرنا اس ٹریک کے مقابلے میں آسان محسوس ہو رہا تھا اور کئ مقامات پر میرا دل کیا کہ میں التجا کرکے جیپ رکوا لوں اور باقی کا سفر پیدل طے کرلوں تقریبا" ڈیڑھ گھنٹہ جیب انہی اونچے نیچے دل دہلا دینے والے راستوں پر سفر کرتی رہی راۓ کا پانی جو شروع میں ایک سوئ کے برابر نظر آتا تھا اب اپنی اصلیت پر واپس آتا ہو محسوس ہوتا تھا اور اسکا یہ مطلب تھا کہ ہم کافی اونچائ پر آچکے تھے ایک موڑ پر میں نے دیکھا دو جیپیں کھڑی ہوئ ہیں اور کچھ نوجوان پاس کھڑے ہیں اور ایک گاؤں کے آثار اکتا دینے والی یکسانیت کا سفر ختم ہوا مجھے اپنے زندہ بچ جانے کی زیادہ خوشی تھی جیپ سے باہر آۓ اپنے ہاتھ پیر ہلا کر خون کی روانی بحال کی جیپ والے کا شکریہ ادا کیا اپنی واپسی کا دن بتایا اور اپنے بیگ اپنے کاندھوں پر لٹکانے بے بعد کچھ دور چل کر فیری پوائنٹ ہوٹل تک آۓ یہاں ہمارے کھانے کا انتظام تھا اور پھر فیری میڈو کا اصل ٹریک کا آغاز ہونا تھا۔






Saturday 31 May 2014

پریوں کی چراگاہ فیری میڈوز قسط ۳


ہم وہاں نہیں جا سکتے؟

واقعی کیا میری خواہش پوری نہیں ہو سکتی؟ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا میں اس موڑ پر پہنچ چکا تھا کہ واپس پلٹنا میرے لیۓ نامکنات میں سے تھا فیری میڈو میرے سر پر ایک خواب کی طرح سوار تھا اور اب اسکو سر سے اتارنا میرے لیۓ نا ممکن ہو چکا تھا میں "پوائنٹ آف نو ریٹرن" پر پہنج چکا تھا لیکن اگر راستے بند ہوں اور داخلے کا راستہ نہ ہو تو مٰیں کیسے جا سکتا ہوں؟

میرے پاس فیری میڈو کے جتنے بھی فون نمبر تھے ان میں سے کسی پر بھی رانطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔

میں نے اپنی ہر کوشش کی اور آخر میں "راۓ کوٹ سراۓ" والے رحمت نبی کا نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

"ہیلو" گلگتی لہجے میں ایک قدرے سخت آواز آئ

"جی میں کراچی سے فیضان بات کررہا ہوں رحمت صاحب سے بات ہو سکتی ہے؟"

"نہیں وہ نہیں ہیں گلگت گۓ ہیں کیا بات کرنی ہے؟"

"وہ ٹی وی پر نیوز میں فیری میڈو کی خبر چل رہی ہے اسی کی تصدیق کرنی ہے"

"آپ کا بکنگ ہے کیا سر؟

"نہیں میں آنے والا تھا اگلے کچھ دنوں میں تو اسی لیۓ فون کیا سنا تھا فوج آگئ ہے سیل کردیا ہے فیری میڈو کو؟"

"خدا تباہ کرے انکو سر کچھ نہیں ہوا یہاں پر دوسرا سائڈ میں ہوا ہے فیری میڈو میں سب خیریت ہے آپ کو آنا ہے کب آنا ہے؟ رحمت بھائ گلگت گیا ہے وہ نہیں ہے میرا نام میرجمعہ ہے دو دن میں آجاۓ گا بعد میں فون کرو آپ"

فون منقطع ہوا مجھے کچھ اطمنان ہوا لیکن دوسروں کو کیسے یقین دلایا جاۓ اور خاص کر تب جبکہ سارا زور ہی اس بات پر ہو کہ جایا نہیں جا سکتا اور ٹکٹ نہ کرانا میں نے دوبارہ مونس کو فون کیا اور میں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم کونسا ڈائرکٹ فیری میڈو چلے جائیں گے اور ابھی کافی دن ہیں تو حالات اگر بہتر نہ ہوۓ تو ہم اپنا روٹ تبدیل کر سکتے ہیں سوات کشمیر یا کہیں بھی دوسری جگہ وہ کسی حد تک مطمئن ہوگیا تھا لیکن راضی پھر بھی نہیں ہوا تھا۔

دوسرا فون میں نے اپنے دوسرے ساتھی مبین کو کیا اور اسکو پوری بات شروع سے آخر تک سمجھا دی اس نے وعدہ کیا کہ وہ مونس سے بات کرے گا۔

میں نے اور مبین نے آپس میں یہ طے کیا کہ اگر تو فیری میڈو واقعی بند ہے تو کوئ جا نہیں سکے گا لیکن ہم گھر سے نکلنا چاہتے تھے چاہے وہاں پہنچ پائیں یا نہیں لیکن کچھ آوارہ گردی بحر حال کی جا سکتی تھی منزل پر نہ پہنچنے کا دکھ اپنی جگہ لیکن کیا کوئ اور جگہ ہمیں خوشی نہیں دے سکے گی؟

طے یہ ہوا تھا کہ ہم پروگرام کے مطابق اپنا سفر شروع کریں گے راولپنڈی تک اور اپنی منزل کا حتمی تعین وہاں پہنچنے کے بعد کریں گے اگر تو واقعی کوئ ایسی خبر ملتی ہے تو ہم اپنا پلان تبدیل کر لیں گے ورنہ پہلے سے طے شدہ راستہ ہی طے کیا جاۓ گا۔ تمام تر پروگرام مونس سے پوشیدہ رکھا جاۓ گا اور ایک طرح سے دھوکہ سے اپنے ساتھ لے جایا جاۓ گا۔

کراچی سے براستہ فیصل آباد بزریعہ ٹرین اور وہاں سے بزریعہ کوچ ہم اسلام آباد پہچے اور لاری اڈے سے ٹیکسی لیکر سیدھا پیر ودھائ اور وہاں ہم نے مونس کو ٹیکسی میں سامان کے ساتھ چھوڑا اور ناٹکو بکنگ کاؤنٹر سے راۓ کوٹ برج تک کے تین ٹکٹ خریدے گویا ہم فیری میڈو جا رہے تھے جب ہم واپس ٹیکسی میں آۓ تو ہم سے سوال ہوا

"کہاں کا ٹکٹ لیا ہے؟"

اب تک اندر کا ڈر ختم ہو چکا تھا اور وہ بھی ذہنی طور پر ہمارے ساتھ چلنے پر آمادہ ہو چکا تھا اور اسکے لیۓ کافی محنت کرنا پڑی تھی ہم دونوں کو ہماری رہائش کا انتظام سیکٹر ایف گیارہ میں تھا پوری رات باہر گزارنے کے بعد صبح میں نے احمد بھائ کو فیری میڈو آنے کی اطلاع دی ہم کو پنڈی سے شام ساڑھے چھ بجے کے قریب روانہ ہونا تھا وہاں پہنچے کا اندازاؔ وقت اور تمام دیگر معلومات بھی فراہم کردیں اور ہم نے آگے کے سفر کی تیاری شروع کی جسمیں سامان کی دوبارہ پیکنگ ضروری اور وہ سامان جنکی ضرورت زیادہ اور فوری ہو انکی ترتیب کے حساب سے بیگ میں جگہ بنانا شامل تھا دوپہر کے قریب کچھ مزید سامان کی خریداری کے لیۓ ہم بازار گۓ اور تمام اشیاء شیلف سے نکال نکال کر دوکان دار کے سامنے ڈھیر کرنا شروع کردیں جن میں بسکٹس ، چیونگم ، چاکلیٹ، صابن، ٹشو پیپرز، کھجور، بھنے ہوۓ چنے، کچھ دوائیں، ڈیٹول اور نا جانے کیا کیا ایک ڈھیر کاؤنٹر پر جمع ہو گیا اور دوکاندار کچھ پریشان سا ہمیں دیکھتا تھا

"آپ کو کہاں جا رہے ہیں؟" آخر اس نے سوال کر لیا

" نانگا پربت" کوئ اور سوال نہیں کیا گیا خاموشی سے بل بنایا اور ہم ادا کرکے اپنے تھیلے اٹھا کر باہر آگۓ واپس آکر اس سامان کو بھی پیک کیا اپنے تئیں اطمنان کرنے کے بعد اپنے کیمرے اور موبائل چارج کرے اور ان تمام باتوں کے درمیان جو چیر مسلسل چل رہی تھی وہ ہماری تمباکو نوشی تھی اور میں تھوڑا سا پریشان بھی تھا کہ اسکے بعد کہیں ہمارا ٹریک کرنا مشکل نہ ہو جاۓ لیکن رکتے نہیں تھے۔

سفر شروع ہوا راولپنڈی سے ایبٹ آباد اور یہاں سے قراقرم ہائ وے کا باقعدہ آغاز ہوتا ہے دنیا کا بلاشبہ آٹھواں عجوبہ پر پیج اور پر خطر راستوں پر ایک سڑک ایبٹ آباد سے مانسہرا اور بشام کانواۓ کی پابندی کی وجہ سے یہاں رکنا اور کانواۓ میں شامل ہونا لازمی ہوتا ہے ایک ایسی پابندی جو آپ کو اکثر اوقات بہت خوار کرتی ہے اور ہم بھی بہت ہوۓ(اب یہ پابندی ختم کردی کئ ہے) بشام پر جب پم اترے تو تب رات کے ڈھائ بجتے تھے مکمل اندھیرا اور ٹہرنے کا کوئ انتظام نہیں یونہی فوٹ پاتھ پر بیٹھ کر یا ادھر ادھر گھوم کر وقت گزارنا صبح تک روشنی ہونے تک اندھیرا ایسا کہ اپنا آپ گم ہوتا محسوس ہو اور پاس بیٹھا ہوا شخص بھی نظر نہ آۓ ایک پٹرول پمپ کی روشنی موجود تھی جو کہ پورے علاقے کو روشن تو قطعئ نہ کرتی مگر ایسا کنٹراسٹ پیدا کر رہی تھی کہ جہاں ہم تھی اس اندھیرے کو مزید گہرا کرتی تھی کئ لوگ جو شائد اکثر کے مسافر تھے فوراؔ ہی پٹرول پمپ کے ساتھ چھوٹے سے گھاس کے قطعے پر دراز ہو کر سو گۓ اور انکی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی اب وہاں بلکل کوئ جگہ نہ تھی اور ہمارے نصیب میں بس خواری ایک ہوٹل ادھ بنا جہاں بجلی نہیں تھی اندھیرا اور گرمی پورے ماحول پر ایک آواز حاوی تھی جھینگروں کے بولنے کی آواز اور دریاۓ سندھ اپنی مدھم آواز کے ساتھ نیچے بہتا جا رہا تھا ہم سڑک کے ساتھ بیٹھ کر اور کھی ٹہل کر وقت گزارنے کی کوشش کر رہے تھے رات گزر رہی تھی اور اندھیرا دھیرے دھیرے اتر رہا تھا سب سے پہلے بشام کے پہاڑوں کے سر نظر آنا شروع ہوۓ اور فضا اچانک اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھی قریب ہی کوئ مسجد تھی پوچھتے پوچھتے ہم وہاں پہنچے جماعت میں کافی وقت تھا ہم وہیں دراز ہوۓ اور سو گۓ ۔

نماز کے بعد ہم باہر آۓ تو اندھیرا کافی کم ہوچکا تھا اور منظر ہم پر کھل رہا تھا سڑک سے نیچے کی طرف پہاڑی پتھر ایک ترتیب سے رکھے ہوۓ تھے اور کافی نیچے سندھ کا پانی مدھم سروں میں انکے درمیں سے راستہ بناتا ہوا بہتا جا رہا تھا جہاں سے پانی آرہا تھا ادھر کی طرف ایک پل ہے جسکی خوبصورتی اور بناوٹ اپنی مثال آپ ہے پتھر کی محراب نما گولائ اور ستونوں پر جہاں جہاں پانی مسلسل بہتا ہے وہاں سے آپر کی جانب جمی ہوئ دبیز کائ جو دور سے ستون پر اگی ہوئ گھاس معلوم ہوتی ہے سامنے پہاڑ جو ہمالیائ سلسلے کی ایک کڑی سبزہ میں ڈھکےہوۓ اوپر بنے کچھ گھروں کی چمنیوں سے نکلتا دھواں جو آہستہ آہستہ رکتا ہوا اوپر اٹھ رہا تھا کچھ بکریاں پہاڑ سے نیچے اتر رہی تھیں دور سے ننھی ننھی دھائ دیتی تھیں سامنے منظر اور بشام پر اترنے والے صبح اتنی دلکش تھی کہ دل سے خداۓ برتر کی حمد جاری ہوتی تھی اور یہ تو ابتدا تھی ہم نے اپنی گاڑی کے ڈرائیور پر چلنے کے بارے میں سوال کیا تو معلوم ہوا کہ ناشتہ کے بعد یہاں سے روانگی ہوگی موقع غنیمت تھا ہم نے سڑک چھوڑی اور راستے کے ساتھ ساتھ نیچے اترنا شروع کیا سندھ کا پانی ٹھنڈا اور کیف آور تھا اور صبح کی ہوا خوش کن اطمنان والی اور تازگی والی کچھ وقت وہاں گزانے کے بعد ہم اوپر واپس آۓ ناشتہ کیا کانواۓ تیار تھا ساڑھے سات بجے دوبارہ بگل ہوا اور سفر دوبارہ شروع ہوا۔

فوج کی حفاظت میں کانواۓ چلتا رہا اور جہاں بھی یہ کانواۓ رکتا ایک غدر مچ جاتا لوگ ٹوٹ پڑتے راستے میں کھڑے ہوۓ ٹھیلوں پر ہوٹلوں میں رش لگ جاتا پانی پینے اور ٹھنڈا پانی بھرنے کے لیۓ لائنیں لگ جاتیں ایسے ہی ایک جب ہم داسو پر رکے تو دوپہر کے کھانے کا وقت تھا وہیں پر ایک بابا جی توے پر مجھلی سیک کر فروخت کر رہے تھے کوئلوں کی مہک والے وہ مچھلی کسی بھی فائو سٹار ہوٹل میں بکنے والی اور طرح طرح کی مصالحوں میں بنی مچھلی سے زیادہ ذائقہ دار تھی ایک کے بعد جب دوسری کی خواہش دل میں بیدار ہوئ تو معلوم ہوا کہ وہ غدر کی نظر ہو چکی ہے اور دس منٹ سے بھی کم عرصہ میں وہ بابا اپنی دوکان بڑھا چکے تھے۔

رکتے رکتے اسی طرح سفر کرنے ہوۓ شام کے قریب ہم راۓ کوٹ برج پہچے شام کے ساڑھے چار بج رہے تھے جیسے ہی کانواۓ رکا اور ہم اپنا سامان اٹھاۓ باہر آۓ ایک درمیانے قد چھریرے بدن والا سنہری داڑھی اور گھنی مونچھوں والا ایک نو جوان ہماری طرف لپکا " آپ کا نام فیضان ہے؟"

"جی! آپ احمد بھائ؟"

"جی سار میں صبح جگلوٹ گیا تھا کام سے اور واپسی پر ادھر ہی بیٹھ گیا میں بول آیا تھا صبح اوپر کہ مہمان آنے والے ہیں میں ساتھ لیکر واپس آؤنگا" ایک سیاح کیلیۓ مہمان کا لفظ سننا مجھے بہت بھلا معلوم ہوا اور ایک اندرونی خوشی کا باعث بنا۔

" یہی سامان ہے آپکا؟ ادھر دے دیں اور بڑھ کر ہمارا سارا سامان لپک لیا ہم سے۔

" آپ لوگ جلدی پہنچ گۓ ورنہ کانواۓ مغرب پر پہنچتا ہے آج کل ادھر۔ یہ والا جیب ہے بیٹھیں سار" اور ہمارا سامان ایک جیب میں ڈال دیا فیری میڈو جیب سٹاپ شنگریلا ہوٹل راۓ کوٹ برج کے بلکل سامنے ہے اور وہاں سے ایک بورڈ واضح نظر آتا ہے
 فیری میڈو میں خوش آمدید 
welcome to Fairy Meadows 
ڈسٹرکٹ دیامر گلگت بلتستان 

Welcome to Fairy Meadow

Wednesday 28 May 2014

پریوں کی چراگاہ فیری میڈوز قسط ۲


میں نے کیمرہ بند کیا اور اپنی رفتار تیز کردی دھوپ میں شدت تھی اور مستقل چلنے کے عمل سے گرمی زیادہ محسوس ہو رہی تھی اور گلے خشک تھے اور پانی ہمارے پاس نہیں تھا جو اگے چلے گۓ پانی بھی ساتھ لے گۓ تھے۔

خشک گلے گرمی اور آنکھوں کو چندھیا دینے والی دھوپ کی تیزی میں واپسی کا سفر جاری تھا خراماں خراماں ہم فیری میڈو کی جنت ارضی سے دور ہوتے جا رہے تھے کبھی کبھی ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا اور ہمیں شاداب کر جاتا اور پھر وہی دھوپ اور گرمی کی شدت گویا ہم وہ تھے جو نہ جنت میں تھے اور نہ دوزخ میں درمیان میں تھے ہم پر کبھی بہشت کی ہوائیں چلتیں جو ہمیں تروتازہ کرجاتیں جنکے ساتھ آنے والی مہک مہیں سرشار کر جاتی اور پھر وہی گرمی اور پیاس اور مشقت بھرا سفر۔

یہاں آنے سے کچھ دن پہلے تک مجھے ایسا لگتا تھا کہ میں کبھی نہیں آسکوں گا کم از کم اس سال تو ہرگز نہیں کافی عرصہ ہوا میں نے فیری میڈو کے بارے میں تارڑ صاحب کی کتاب نانگاپربت میں پڑھا اور جس انداز میں چاچا جی نے فیری میڈو کو بیان کیا وہ تو انکا ہی خاصہ ہے اور اس وقت میرے ذہن پر ایک نقش چھوڑا وقت گزرتا گیا اور یہ نقش مدھم پڑتا گیا کچھ دن ہوۓ میرے سفر سے کوئ سال پھر پہلے بات چیت کے دوران پھر ذکر نکلا اور دوبارہ سے وہ تصویر میرے دماغ میں روشن ہوئ اور میں نے وہاں جانے کے بارے میں باقاعدہ پروگرام بنانا شروع کیا معلومات حاصل کرنا شروع کی اور سب سے ضروری اپنے ساتھ جانے والوں کی تلاش شروع کی چاہتے تو آپ یہی ہیں کہ جن سے آپکا ذہن ملتا ہو اور جو قریبی ہوں وہی آکے ہمسفر بھی ہوں۔

جن سے بھی بات کی کسی کو دفتری مسائل اور کسی کو سفر پر پیسے خرچ کرنا فضول خرچی محسوس ہوا کوئ اتنا لمبا اور کٹھن سفر کرنے سے پریشان کچھ نے مشورہ دیا کہ اگر مری اور نتھا گلی چلا جاۓ تو وہ چلنے کے لیۓ تیار ہیں کسی نے اپنی پسند کی تاریخوں میں سفر کرنے پر زور دیا بلاخر میں ایسی دو روحیں تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا جو اس سفر کے لیۓ آمادہ نظر آئیں ایک رات بیٹھ کر انکو پورا پروگرام راستہ سفری سہولیات ضروری اشیاء اور خرچہ وغیرہ کے بارے میں تمام تفصیلات بتا کر انکو مطمئن کیا روانگی اور واپسی کی تاریخیں طے کرنے کے بعد میں رات اطمنان سے سویا اور رات بھر خواب میں ان چراگاہوں میں چرتا رہا اور خود کو یقین دلاتا رہا کہ ہی خواب نہیں ہے حقیقت ہے اگلا دن ہفتہ کا تھا صبح سات بجے میرا فون زور سے بجنے لگا دوسری طرف مونس تھا:

"بھائ فیری میڈو پر غیر ملکی سیاح مار دیۓ ہیں اور فیری میڈو کو سیل کر دیا گیا ہے اب وہاں کوئ سیاح نہیں جا سکتا مجھے امی نے اٹھا کر بتایا ہے ٹی وی پر بھی دکھا رہے ہیں اور امی نے کہا ہے کہ تم لوگ اپنا پروگرام کینسل کردو"

یار فیری میڈو نہیں ہوگا کچھ اور کہا ہوگا دوبارہ دیکھو" میں یہ بات کسی طرح ماننے کو تیار نہیں تھا۔ "نہیں یار میں نے خود دیکھا ہےفیری میڈو کا نام باربار آرہا ہے:

" اچھا دیکھتے ہیں۔اتنی صبح یہی بتانے کے لیۓ فون کیا ہے تم نے؟"

" جو بھی ہو تم ابھی ٹکٹ مت کروانا"

"اچھا دیکھتے ہیں پہلے پتہ تو کر لینے دو ویسے بھی ابھی کافی وقت ہے"


اور واقعی ایسا ہی تھا ٹی وی پر ایسا ہی بولا جا رہا تھا اس وقت میرا ذہن کسی بھی ایسی خبر کو ماننے کے لیۓ تیار نہیں تھا جو میرے سفر کی راہ میں رکاوٹ بنے میں نے بلال سے رابتہ کیا بلال فیس بک پر فیری میڈو کے ایک پیج کا ایڈمن ہے اور کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی کا ٹور ہر سال فیری میڈو لیکر جاتا ہے اور وہاں جانے کے لیۓ میں اسی سے رابطے میں تھا اور اس نے میری کافی مدد کی تھی اس سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ واقعہ ہوا تو ضرور ہے لیکن فیری میڈو میں نہیں بلکہ نانگا پربت بیس کیمپ میں دیامر سائڈ پر ہوا ہے اور وہاں سے فاصلہ کافی زیادہ ہے

یہی خبر میں نے مونس کو سنائ لیکن وہ میری بات ماننے کو تیار نہیں تھا اور بضد تھا کے ٹکٹ نہ کرانا اور اب ہم نہیں جا سکتے

Nanga Parbat..Photo Unkown


Saturday 24 May 2014

پریوں کی چراگاہ فیری میڈوز قسط ۱


میں نیچے اتر رہا تھا ہر قدم رکتا ہوا پیچھے مڑ مڑ کر اس برف کی ملکہ پر نظریں ڈالتا ہوا کہ جانے کون سے موڑ پر یہ میری نظروں سے اوجھل ہو جاۓ اور میں دوبارہ اسکو دیکھ نہ سکوں کبھی ایک اجلا اور صاف ستھرا دن چمکیلی دھوپ میں نہایا ہوا مکمل ہار سنگھار کے ساتھ سجا ہوا مکمل برہنگی میں اپنے جلوے دکھاتا ہوا بے پردہ مجھے اپنی جانب کھینچتا ہوا اور میں اس سے دور جا رہا تھا میرا دل وہیں اٹکا ہو تھا اور میں مڑ مڑ کر دیکھتا ہوا نیچے اتر رہا تھا بہت التجاؤ اور دعاؤں کے بعد آج دیوی جلوہ دکھانے پر آمادہ ہوئ اور آج ہی مجھے اس سے دور جانا تھا جس راستہ پر میں چل رہا تھا نیچے ہزاروں فیٹ نیچے راۓ کوٹ کا دریا شور مچاتا ہوا بہتا تھا اگر ذرہ بھر بے احتیاتی ہوتی تو میں نیچے اسے دریا کے یخ پانیوں میں گر کر ٹھنڈا ہو سکتا تھا شائد وہاں تک پہنچنے سے پہلے کہیں راستے میں موجود پتھروں سے ٹکرا کر میرے جسم کا بہت تھوڑا حصہ باقی بچتا جو وہاں تک جا پاتا باقی راستے میں ہی بکھر کر ختم ہو چکا ہوتا نانگا پربت ایک قاتل پہاڑ ہے۔

وہ نانگا پربت سے دور جانے کا ایک نہایت غیر موزوں دن تھا محفل اپنے عروج پر تھی میلہ ابھی سجا تھا اور مجھے اسے چھوڑ جانے کا حکم ہو چکا تھا تو اس سے دور ہوتے ہوتے بھی میں کچھ رنگ سمیٹنا چاہتا تھا اپنے پوٹلی میں باندھنا چاہتا تھا اور اسکے لیۓ میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے سے بھی باز نہیں رہ پاتا تھا۔

نانگا پربت کو قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ھے یہ ایک ایسی حسینہ ہے جو اپنے چاہنے والوں کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتی ہے یہ چاہتی ہے کہ اسکے عاشق اسکے سامنے قطارباندھے سر جھکاۓ موجود رہیں کوئ اس پر حاوی ہونے کی کوشش نہ کرے بس دور سے دیدار کا انتظار کریں اور جب اسکا دل ہو یہ انکو تھوڑا یا زیادہ دیدار دے اور پردے میں چلی جاۓ اسکو یہ پسند نہیں کہ کوئ اس پر حاوی ہونے کی کوشش کرے اور ایسا کرنے والے سر پھرے عاشقوں کو اکثر ناکامی کا مہ دیکھنا پڑا اب تک نانگاپربت کو زیر کرنے والوں کی تعداد آپ انگلیوں کے پوروں پر گن سکتے ہیں اور پھر بھی آپ کے بہت سے پور بچ جائیں گے۔

1895 میں البرٹ ایف ممری پہلا سر پھرا تھا جس نے اسکو سر کرنے کا عزم کیا لیکن سخت خراب موسم اور مزاہمت کے بعد اسے ناکام واپس لوٹنا پڑا لیکن اپنے بعد بہت سے سر پھروں کو ہمت دے گیا بہت سوں نے کوشش کی اور اپنے خون سے اس دیوی کو غسل دینے کے بعد بھی ناکام رہے یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔

جرمنوں کو ابتدا سے ہی اس سے کچھ زیادہ لگاؤ رہا اور انہوں نے بار بار اسکو زیر کرنے کی کوششیں کیں ویلی مارکیل کی قیادت میں 1932 میں پہلا جرمن قافلہ نانگا پربت کو سر کرنے پہچھا لیکن کچھ خراب موسم اور کچھ اپنی پلاننگ اور معلومات کی کمی کی وجہ سے ناکام رہا مارکیل دو سال بعد یعنی 1934 میں دوبارہ اس مہم پر آیا لیکن مہم کی ابتدا میں اپنے اہم ساتھی الفریڈ دیزل کی موت اور اس کے بعد خراب ترین موسم کی وجہ سے اپنی مہم ترک کرکے واپس اترنا شروع ہوا لیکن واستے میں شدید طوفان میں گھر کر چھ پورٹر اور اپنے تین ساتھیوں سمیت زندگی کی بازی ہار گیا نانگا پربت کو سر پھرے اور اپنے اوپر حاوی ہونے والے پسند تھے وہ صرف دیدار دینا جانتی تھی اور اسکی مرضی کے خلاف اگر زبردستی کی جاۓ تو وہ جان لینے سے چوکتی نانگا پربت کی گردن پر پیسیوں عاشقوں کا خون ہے جن میں سے اکثر ایسے تھے جنکا جسم بھی واپس نہیں کیا اور اپنے پاس سنبھال لیا۔

اس وقت جب کہ یہ قاتل پہاڑ اکتیس جانیں ان سر پھروں کی جو اپنے اپنے ملکوں سے لمبے لمبے سفر کرکے اپنے گھر کا آرام اور آسودگی چھوڑ کر اپنے ہیم پرگر ہاٹ ڈاگ اور کافی چھوڑ کر صرف اس امید پر آۓ تھے کہ انکا لحاظ کرے گی انکی محبت کی قدر کرے گی اور کچھ ایسوں کی جو محض اپنی روزی کمانے اپنی خاندان کی کفالت کرنے انکو راستہ دکھانے اور انکا بوجھ ڈھونے کے لیۓ گھر سے آۓ تھے ایسے میں ایک اور سر پھرا ہرمن بوہل آسٹریا سے لمبے سفر کرتا 1953 میں نانگا پربت کے دامن تک پہچا یہ جانتے ہوۓ بھی کہ اب تک کسی کو کامیا بی نہیں ملی تھی پھر بھی وہ آگیا تھا اسکے ساتھ ایک تجربہ کار 1932 اور 1934 کی مہمات کے سربراہ ویلی مارکیل کا بھائ ہرلیگ کوفر بھی تھا لیکن بوہل کا عزم دیکھ کر نانگا پربت کو سر جھکانا پڑا ایک وقت جب اسکے باقی تمام ساتھی لوٹ گۓ اور بوہل اکیلا رہ گیا تب بھی اسنے ہمت نہیں ہاری اور سفر جاری رکھا اور بلاخر ایک سخت موسم کا مقابلہ کرنے کے بعد بغیر آکسیجن کے 3 جولائ 1953 نانگا پربت کی شدید نا پسندیدگی کے باوجود اس پر حاوی ہونے میں بلاخر کامیاب ہوا اور یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے آٹھ ہزارۓ کسی پہاژ کی چوٹی تک بغیر آکسیجن رک رسائ حاصل کی۔

ایک حسینہ اگر اپنے اوہر حاوی ہونے کی کوشش کرنے والے کو قتل کرسکتی ہے تو ایسے موقع پر محفل سے دور جانے والے کی جان بھی لے سکتی ہے جب کہ وہ اپنے تمام تر حسن کے ساتھ جلوہ گر ہو اور میں بار بار مڑتا ہوا ایک جھلک کی خاطر کہ کیا معلوم کون سے موڑ پر یہ ہمیشہ کے لیۓ چھپ جاۓ اور میں اسکو دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکوں بلکل ویسے ہی جیسے حرم سے نکلنے والا زائر خانہ کعبہ کو مڑ مڑ کر دیکھتا ہے کہ یہ منظر دوبارہ کبھی نصیب ہوگا بھی کہ نہیں اسی دیوانگی کے ساتھ اس خدا کی بنائ حیرت میں ڈالنے والی تخلیق کو دیکھتا تھا اور اس وارفتگی سے دیکھتا تھا کہ اپنی زندگی خطرے میں ڈالتا تھا اور میں اکیلا نہیں تھا تھوڑی احتیاط کے ساتھ میرا ساتھی بھی ایسا ہی کررہا تھا ان گلابی پھولوں کے ساتھ کھڑا جو اس راستے پر جا بجا موجود تھے میں یہ سوچ رہا تھا کہ فیری میڈو چھوڑنے اور نانگا پربت سے دور جانے کا یہ ایک بہت غیر مناسب موقع ہے لیکن میرا وہاں ہونا بہت سی مشکلات کے بعد ممکن ہوا تھا اور میرے لیۓ کسی معجزے کم نہیں تھا میری آنکھوں میں اندیکھے مناظر کا سحر تھا جو مجھے بلاتے تھے اپنی جانب ایسے ہی کسی موڑ پر نانگا پربت اوجھل ہوا میرے آنکھوں میں وہ تمام مناظر تھے جنکو میں دیکھ آیا تھا ایک بچہ اوپر سے شور مچاتا آرہا تھا ایک گدھے کے ساتھ بھاگتا ہوا اور اس گدھے کی پشت پر ہمارے رک سیک بندھے ہوۓ تھے بچہ اور گدھا جب نظروں سے اوجھل ہوگۓ مبین نے مجھ سے کہا تھا۔

"او مجنوں !! جلدی کرلو بہت راستہ باقی ہے وہ لوگ بہت آگے چلے گۓ ہیں رفتار بڑھاؤ اور کیمرہ بند کرو"

نانگا پربت..... ایک قاتل پہاڑ 

Sunday 18 May 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۱۲


اونچے نیچے راستوں پر اچانک کسی اترائ سے اترتے ہوۓ ایک چٹان کی اوٹ سے جھانکتا جھلمل کرتا بہت سا پانی اپنی اوپر پڑنے والی ساری روشنی ایسے منعکس کرتا کہ آنکھیں جماۓ رکھنا دشوار ہے اپنے اندر پورے آسمان کا عکس لیۓ اور شفافیت ایسی کہ وہ تمام پتھر جو اسکے اندر پڑے ہیں وہ بھی جھلملاتے ہوۓ سطح پر نظر آتے ہیں اور یہ سب آن واحد میں اتنا اچانک ہوتا ہے جس کے لیۓ آپ ذہنی طور پر تیار بھی نہیں ہوۓ ہوتے اور اس پورے خطہ میں ایسا ہر دوسرے قدم پر ہوتا ہے تو ہم اب اس چیز کے عادی ہوچکے تھے ہم اب پانی کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوۓ وہاں تک آۓ جہاں سے پہ گولائ لیتا ہوا مڑ رہا تھا اور یہاں مزید کچھ اونچائ تھی تقریبا درمیان میں پہنچنے کے بعد جیب رکی انجن تھما شور بند ہوا اور سناٹا یہی اندھی جھیل یعنی شیوسر جھیل ہے۔

ہمارے پاس کچھ وقت تھا میں جیب سے باہر آیا جھیل اس جگہ سے اپنی مکمل تفصیل کے ساتھ نظر آرہی تھی ابتدا میں یہ خیال آیا جیسے بارش کی وجہ سے کچھ پانی کڑا ہو گیا ہے اور بس کچھ نہیں چونکہ سب کچھ اتنا پرکشش اور طلسماتی ہے اس وجہ سے یہ بھی ایسا ہی کوئ منظر لگ رہا تھے اور دیوسائ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہم اسی ذہن کے ساتھ داخل ہوۓ تھے کہ جو کچھ یہاں ہوگا وہ سب حسین اور جادوئ ہوگا اور بلا شبہ اس سے پہلے جتنا کچھ تھا وہ واقعی ایسا ہی تھا لیکن اس جھیل کو دیکھنے کہ بعد میں نے یہی سوچا کہ اسی خیال کے زیر اثر اتنی باتیں کی گئ ہیں اور اصل سچ بہت تھوڑا ہے۔

میں جھیل کے نزدیک تک گیا اور جوں جوں میں اسکے نزدیک ہوتا گا میرا خیال بدلتا گیا یہ واقعی جادوئ تھا تین اطراف سے پہاڑوں میں گھری ایک جھیل جسکا پانی جھاگ اڑاتا ٹھنڈا برف تھا بادل اس پر ایسے لگے ہوۓ تھے کہ طوالت میں ایسا لگتا تھے آگے جا کر بادل پانی میں گر گۓ ہیں یہ رش لیک کہ بعد پاکستان کی شائد سب سے انچائ پر واقع جھیل ہے یہاں جو ہوا میں ٹھنڈک تھی وہ ایسا لگتا تھے کہ آپ کی ہڈیوں میں سوراخ کرکے اندر گودے تک سرائیت کر جاۓ گی میں نے جھیل کے پانی سے ھاتھ اور مہ دھوۓ پہلے کچھ چھینٹوں سے ہی مسام سن پڑگۓ سردی کی ایک لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں سے ہوکر میرے دماغ تک پھیل گئ۔

تین اطراف پہاڑ جو تھے وہ سب ہی سبزے سے بھرے تھے اور اوپر اوپر برف جمی ہوئ تھی نانگاپربت نظر نہیں آرہی تھی مکمل بادلوں میں روپوش تھی یہاں بھی ننھے ننھے بیشمار پھول تھے اور جیسا کہ خاصہ ہے ہر پھول ایک دوسرے سے یکسر مختلف شکل و شباہت میں بھی اور رنگت میں بھی سورج ڈھلنا شروع ہو چکا تھا اور ساۓ لمبے ہو رہے تھے ہمیں آگے چلنے کا اذن ہوا انجن جھٹکے سے اسٹارٹ ہوا جھیل ہمارے پشت پر آئ اور ہم نے اسکی مخالف سمت میں سفر شروع کیا۔

آگے سفر میں ایک ایسا محسوس ہوتا رہا کہ ہم بادلوں سے بہت نزدیک آگۓ ہیں اتنے کہ کچھ دیر بعد ہم بادلوں کے بیچ سے ہوکے گزر رہے ہونگے یا ہاتھ اوپر کرنے ہر بادلوں کے درمیان چلا جاۓ گا لیکن کچھ دور پر بادل اوپر چلے گۓ واپس اور یہاں مارموٹ بہت سارے تھے اور بھاگتے پھر رہے تھے ادھر ادھر آرام سے ہم سے اپنا آپ بچا کر۔ ایسے چلتے ہوۓ ہم بڑا پانی پہچے اور ہیں دو پل ہیں ایک لکڑی کا بنا ہوا خوبصورت اور دلکش پل اور یہ صرف علامتی طور پر ایستادہ ہے مستعمل نہیں ہے اور دوسرا کنکریٹ کا نیا تعمیر شدہ پورے ماحول سے میل نہ کھاتا ہوا بے جوڑ سا بھدا معلوم پڑتا لیکن مضبوط جیب گھیں گھیں کرتی اس پل کے پار آگئ اور پانی سے کچھ دور الگ ہوکر جیپ رکی ہم سب جیب سے باہر آگے بڑا پانی یا جسے کالا پانی بھی کہتے ہیں اور ہمیں یہاں رات گزارنی تھی یہاں اترنے کے بعد میں نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ اپنا بیگ کھولا اور تمام گرم کپڑے نکال پر پہن لیۓ شام ہورہی تھی اور میں ایک ٹی شرٹ اور ایک آدھی آستینوں والے سویٹر میں ملبوس تھا ہمارے علاوہ وہاں ایک جیپ اور رکی ہوئ تھی سکردو کی طرف سے آنے والی اس جیب میں دو بھائ تھے اور وہ آج دیوسائ میں رات گزار کر واپس سکردو جانے والے تھے جہاں انکے خاندان والے موجود تھے۔


مجھے گھر سے نکلے اتنا وقت ہوچکا تھا کہ دن اور تاریخ کا حساب میرے ذہن سے مٹ چکا تھا جب سورج نکلتا اور روشنی ہوتی تو صبح اور اندھیرا ہونے پر رات اور پھر میرے پپوٹے نیند سے بھاری ہونا شروع ہو جاتے تھے ہمارے خیمے لگ رہے تھے اور میں کالا پانی کے بلکل ساتھ بیٹھا ہوا تھا پانی کے اندر پڑے بڑے بڑے پتھر نظر آتے تھے اور سیاہی مائل تھے ایک پرندہ یا شاید وہ زیادہ تھے مسلسل ایک نا مانوس سی آواز نکال رہا تھا گونج دار گرج والی ذہنوں پر حاوی ہونے والی آواز سورج آہستہ آہستہ ڈوب گیا اور اسکے بعد کچھ دیر تک بہت گہرا اندھیرا ہو گیا صرف پانی بہنے کی آواز یا آپس میں باتیں کرنے کی انسانی آوازیں۔

دیوسائ میں رات ہوچکی تھی اور یہ میری ان علاقوں میں گزاری جانے والے آخری رات تھی کل بحر حال مجھے سکردو سے راولپنڈی کیلۓ روانہ ہو جانا تھا اب جو رات ہوگی تو راستے میں سفر میں کسی نا معلوم مقام اور ماحول میں ہوگی تو آج رات میں سونا نہیں چاہتا تھا خیمہ کے اندر سلیپنگ پیگ میں مجھے گھٹن محسوس ہورہی تھی میں نے آہستگی سے زپ نیچے کی باہر آیا آہستگی سے اپنا بستر باہر کھینچا مفلر اور منکی کیپ سے لیس ہو کر کھلی فضا میں خود کو لپیٹ کر لیٹ گیا آسمان پر اربوں ستارے روشن چمکتے ہوۓ کچھ کم کچھ زیادہ میرے عین اوپر ٹکے ہوۓ تھے اور اتنے زیادہ تھے کہ لگتا تھا کہ یہ ٹوٹ کر گر جائیں گے اور دل میں ایک خوف پیدا ہوتا تھا انکو زیادہ دیر تکنے سے ایسا لگنے لگا تھا جیسے میں زمیں میں دھسنتا چلا جا رہا ہوں انکے بوجھ سے بہت دیر میں اسی حالت میں لیٹا رہا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ سردی سے مجھے لگا کہ میرا خون جم چکا ہے اور اب دوسرا سانس نہیں آۓ گا درجہ حرارت کیا معلوم کتنا تھا لیکن اپنا آپ جمتا ہوا محسوس ہونے لگا تھا بہت ساری ہمت جمع کرنے کے بعد میں اٹھا اور واپس خیمے کے اندر آکر زپ بند کرلی اندر ایک آسودگی والی گرمی کا احساس ہوا اور باقیوں کو میرا یخ وجود اور باہر کی ہوا اندر آنے سے بیچینی کا احساس ہوا۔

مجھے نیند نہیں آئ کچھ دیر کچھ دیر کروٹیں بدلنے پر شائد کچھ دیر سو گیا لیکن کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو روشنی کا احساس ہوا باہر دیکھا تو صبح صادق کا سویرا سردی سے بقابلے کیلۓ لیس ہوکر باہر آیا اندھیرے میں سے واضح ہوتا دیوسائ میرا منتظر پانی کے بہنے کا شور کے علاوہ کوئ ایک آواز نہیں تھی وہاں میں پانی تک گیا جیکٹ اور اتار کر اسی پانی سے وضو کیا پانی اس قدر یخ تھا کہ سسکیاں نکل جاتی تھیں خود کو اچھی طرح خشک کرکے دوبارہ گرم کپڑوں میں لپیٹا اور کل جہاں سورج ڈوب رہا تھا اس سمت مہ کرکے نیت باندھلی یہ فجر کا وقت تھا۔

پھر صبح ہوئ اور سورج نکلا اور جب روشنی کی کرنیں پانی سے ملیں تو وہاں سے نور پھوٹا رنگوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ہر ہر قطرہ ایک لگ رنگ کی بوند تھا اندھیرے میں یہ پانی بلکل سیاہ تھا اور روشنی پڑتے ہی ایک پرسم کی طرح رنگوں کا منعکس کرکے پھینکنا شروع کیا تو رکنے میں نہیں آرہا میں وہا حیران سا کھڑا رہا پھر سورج کا زاویہ بدلا اور رنگ بدلنے کا سلسلہ کم ہو گیا اب پانی سنہرے رنگ کا تھا اور اسکی تیزی کی وجہ سے وہاں آنکھیں ٹکانا مشکل ہونے لگا تھا۔

اس سنہری صبح میں ناشتہ کہ بعد جب ہم رخصت ہو رہے تھے تو میری آنکھیں نم ضرور ہوتی تھیں لیکن دل میں اداسی نہیں تھی ایک اطمنان تھا میرا یہاں آنا رائگاں نہیں گیا تھا اللہ نے اپنی قدرت کے بہت سے جلوے مجھے دکھاۓ تھے جب ہم روانگی کیلیۓ بلکل تیار تھے تو میں نے دیوسائ میدان کی طرف مہ کرکے اسے مخاطب کرکے کہا تھا

"اے دیوسائ تو نے مجھے تسخیر کرلیا اگر میں دوبارہ آیا تو میرے ساتھ ایسا ہی برتاؤ رکھنا جیسا تونے اس بار میرے ساتھ رکھا ھے"

میں جیب میں واپس آگیا انجن سٹارٹ ہوا جیب آگے بڑھی اونچے نیچے راستوں پر ہم سب پیچھے دیکھتے تھے ایک ایسے ہی موڑ پر وہ پل نظروں سے اوجھل ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ دیوسائ کی ہریاول ہم اس میدان سے دور جا رہے تھے میری آنکھوں میں نمی تھی۔


Thursday 15 May 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۱۱


سفردوبارہ شروع ہوا جیپ کا انجن زور لگا رہا تھا ہم اوپر اٹھنا شروع ہوۓ بائیں ہاتھ پر ایک ادھ بنی مسجد آئ دونوں اطراف باڑ لگی ہوئ یہ فوجی علاقہ تھا پختہ سڑک اور دونوں اطراف دبیز سبزہ اور ہریالی چمکیلی دھوپ صاف موسم نیلا آسمان اور کہیں کہیں موٹے اور تہ در تہ دودھ رنگ سفید بادل غرض دیوسائ کی طرف سفر کرنے کے لیۓ ایک "پرفیکٹ" دن۔

چلم چوکی سے آگے بڑھنے پر ایک پختہ سیاہ اور دھلی ہوئ سڑک سیدھی اور سپاٹ پرسکون اور غیر محسوس طور پر اوپر کو اٹھی ہوئ اور یہی دروازہ ہے اس طلسماتی سلطنت کا جس میں ہم داخل ہونے کو تھے۔

یہاں پر ہی دیوسائ نیشنل پارک کی چیک پوسٹ آتی ہے جہاں رک کر سیاح کو داخلے کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے فی کس چالیس روپے اور آپکو آگے جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔

کچھ مناظر اور کیفیات ایسی ہوتی ہیں جن کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

کیا آپ اس کیفیت کو کوئ نام دےسکتے ہیں جب پردیس میں رہنے والا ایک بیٹا سالوں بعد وطن واپس آکر اپنی ماں کے گلے لگتا ہے؟ یقیناؔ نہیں

یا اس سوال کا جواب کون دے سکتا ہے کہ بہت زیادہ خوشی کے عالم میں انسان روتا کیوں ہے جب کہ رونا تو غم کے ساتھ منسوب ہے؟

خوشی کے آنسو کیا بلا ہوتے ہیں؟

دیوسائ میں سفر کرتے وقت جو کیفیات تھیں وہ بھی ایسا ہی کوئ سوال تھیں خوشی اور حیرت کی ایک ملی جلی کیفیت کہ سکتے ہیں خوشی یہ کہ ایک تمغہ میرے سینے پر سجنے والا تھا گردن اکڑا کر اپنے دوستوں میں اور بہت سے آوارہ گردوں میں جو اب تک ادھر نہیں آۓ تھے میں دیوسائ کی باتیں کر سکتا تھا جھوٹی اور انا کو تسکین دینے والی کہانیاں سنا سکتا تھا دوسروں کو اپنے حسد میں مبتلا کر سکتا تھا۔ یہ دکھ میں کئ بار جھیل چکا تھا اب میری باری آگئ تھی اور میں بھی ایسا کرسکتا تھا لیکن یہ سب میرے اندر تھا کہیں بہت اندر اور اس وقت جو خوشی تھی وہ کسی اور بات کی تھی ان نظاروں کے سامنے آنے کی تھی جو کسی اور کے لیۓ نہیں صرف میرے لیۓ اس وقت تخلیق ہوۓ تھے اور سارا سال برف کی چادر تلے چھپے سوۓ ہوتے تھے اور آج میرے لیۓ اپنی غلاف سے باہر آۓ تھے بے پردہ تھے اور دھوپ سے غسل کرتے تھے میرے لیۓ سجاۓ گۓ تھے تمام مناظر وہ تمام پھول وہ تمام بادل اور سارہ سبزہ اور پانی اور وہاں موجود سب کچھ اور آج ہی آسمان رنگا گیا تھا نیلا آسمان روشنی جذب کرتا تھا اور اتنی روشنی اور دھوپ میں بھی آسمان پر چاند نظر آتا تھا عین دوپہر میں ایک ہیولا سا چھوٹا سا ایک بتاشے جیسا جسکو دانت سے تھوڑا کاٹا گیا ہو۔

اور حیرت اس بات کی کہ جو کچھ میں دیکھتا ہوں یہ حقیقت ہے یا ایک خواب اپنی خوش نصیبی پر یقین نہیں ہوتا تھا کہ میں بھی ان میں ایک ہونے کو تھا جو دیوسائ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے تھے۔

تقریباؔ تین ہزار مربع کلومیٹر پھیلے ہوۓ اس میدان پر ایک بھی درخت نہیں ہے پختہ اور چمکیلی سڑک کچھ دور ساتھ چلی پھر ایک پکڈنڈی میں بدل گئ اونچی نیچی پھتریلی زمین پر جب جیپ اپنی رفتار سے چلتی تھی تو اپنا توازن قائم رکھنا مشکل ہوتا تھا پسلیوں میں پسلیاں گھستی تھیں اور ہمارے جسم اس طرح حرکت کرتے تھے جیسے تسلے میں رکھا ہوا گوشت ہو میں اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا ایک تو اس سے نظارہ زیادہ اچھا ملتا تھا دوسرے یہ اس تکلیف سے نجات دیتی تھی اور باقیوں کو بیٹھنے میں سہولت ہوتی تھی۔

ہم اتنی اونچائ پر آچکے تھے جہاں سے نیچے میدان ایک بڑی تصویر کی طرح دکھائ دیتا تھا نیچے میدان میں کسی گاؤں کے آثار تھے چند گھر چند گھر گارے اور لکڑی سے بنے ہوۓ اور وہیں اٹکھیلیاں کرتے دو گاۓ کے بچے تھے ہم اتنی انچائ پر تھے کہ وہ مجھے بہت چھوٹے چھوٹے سے دکھائ دیتے تھے قلانچے پھرے بھاگتے ہوۓ۔

جس راستے پر ہم سفر کر رہے تھے وہ اب ایک کچہ راستہ تھا اوپر کی طرف سے آیا ہوا پانی کہیں کہیں کھڑا ہوتا اور کہیں راستے کو گیلا کرتا ہو نیچے جارہا تھا جسکی وجہ سے کیچڑ ہوجانے کی وجہ سے مٹی نرم پڑ گئ تھی اور جیپ جھٹکے لیتی تھی۔

چاروں طرف دبیز سبزہ زار میدان اورمنظر میں وسعت گھاس اتنی وافر اور اتنی سبز سبز کہ بعض اوقات اس پر سیاہی کا گمان ہوتا سامنے اور چاروں طرف پہاڑ سیاہی مائل اور انکی چوٹی پر برف ایسی جیسی چونا چھڑکا گیا ہو انکے ساتھ بادل اس طرح لگے ہوۓ تھے کہ کہیں کہیں وہ بادل بھی انہی پہاڑوں کا حصہ معلوم ہوتے تھے وہیں سے آتا ہوا پانی جو پورے میدان میں لکیروں کی صورت میں پھیل گیا تھا اور سورج کی روشنی میں چمکتا تھا اور کہیں کہیں پانی کے آنے کی صرف نالیاں سی تھیں جنکا پانی یا تو سوکھ چکا تھا یا راستہ بدل چکا تھا اور صرف آڑی ترچھی لکیریں باقی رہ گئ تھیں۔ کہیں کہیں انہی پہاڑوں پر بادل اس طور سایا کرتے تھے کے پورے کے پورے بادل چھپے ہوۓ نظر آتے تھے ابھی تک ایک بھی پھول نہیں نظر آیا تھا اسی طلسماتی یکسانیت والے منظر میں ہم کافی دیر تک چلتے رہے کچھ آگے ہمیں کافی دور پر کچھ دھبے نظر آۓ سیاہ اور سفید رنگت کے مجھے ان پر یاک کا گمان ہوا نزدیک ہوۓ تو ہم نے دیکھا وہ گھوڑے تھے ریشمی ایال اور خوبصورت آنکھوں والے گھنی دمیں ہلاتے ہوۓ ادھر ادھر بھاگتے ہوۓ انکے بدن کسے ہوۓ اور سڈول تھے چمکیلی رنگت سیاہ اور سفید اور کتھئ انکی موجودگی ماحول کو ایک الف لیلوی رنگ دے رہی تھی ایسا محسوس ہوا کہ کچھ ہی لمحوں میں یہ اپنے ماتھے پر موجود سینگھ کو ظاہر کریں گے اور اپنے نادیدہ پروں سے پرواز کرنا شروع کر دیں گے۔

جیسے جیسے ہم آگے سفر کرتے جا رہے تھے ویسے ویسے پہاڑ پرے ہوتے جا رہے تھے اور منظر وسیع ہوتا جا رہا تھا گھاس وہاں وہاں تک تک تھی جہاں جہاں تک جیپ کے چلنے کا راستہ تھا اور یہاں پر ہی میں نے پہلا مارموٹ دیکھا سنہری رنگ کا ایک بڑے بلے کی جسامت کا کچھ کچھ نیولے سے مشابہ کچھ ڈرپوک سا اپنی پچھلی دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہو کر ہمیں دور سے آتا دیکھ کر ہی جھٹ اپنے بل میں گھس جاتا یا اوپر بھاگ کر روپوش ہو جاتا گلہری نما سنہری رنگت اور کالی تھوتھنی والا یہ جانور سبزی خور ہے اور ابھی انسان سے مانوس نہیں یا دور اندیش ہے اور بھاگ جاتا ہے کہ یہ دھوکے باز انسان پہلے دھوکے سے دوستی کرے گا پھر یا تو بلا وجہ شکار کرے گا اور کھال میں بھس بھروا کر اپنے ڈرائنگ روم سجاۓ گا اور آنے جانے والوں سے داد وصول کرے گا یا پھر پکڑ کر لے جاۓ گا اور قید کرے گا ویسے تو دیوسائ کو نیچرل پارک کا درجہ دینے کہ بعد وہاں شکار کی مکمل طور پر پابندی ہے لیکن اپنے دفاع میں روپوشی اختیار کرنا اس چھوٹے سے معصوم جانور کا حق ہے۔

جوں جوں ہم آگے پڑھ رہے تھے ویسے ویسے پھولوں کے انبار کے انبار زمین کے ساتھ ساتھ بچھے ہوۓ نظر آنے لگے تھے بے شمار رنگوں کے بے شمار قسموں کے جو کہ صرف اسی میداں میں پیدا ہوتے ہیں اور یہاں ہی مرجھا کر ختم ہو جاتے ہیں دنیا میں کہیں اور انکی قسم کا کوئ ایک پھول نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے یہ پھول اپنے ایکو سسٹم سے جڑے ہیں اور دنیا میں کہیں بھی انکی کاشت ممکن نہیں۔

اتنے رنگوں اور اتنی قسموں کے پھول یہ انعام تھا میرا گھر سے نکلنے سفر کرنے اور یہاں تک آنے کا گھاس جو تھی اسکے بیچ پیلے پیلے چھوٹے چھوٹے پھول ٹانکے گۓ تھے میرے دائیں طرف جو راستہ اوپر کو جا رہا تھا تو وہاں جو پھول تھے انکی قسم اور شکل اور رنگت سب جدا تھی یہ جامنی رنگ کے لمبی ڈنڈیوں والے باریک پتیوں والے پھول تھے جو گچھوں کی صورت اوپر سے لٹکتے تھے کچھ پھول زمین پر چادر کی طرح بچھے ہوۓ تھے جو زیادہ تر سفید تھے اور کچھ کانٹے دار پھول تھے جو خون رنگ تھے اور کچھ سرخ اور نارنجی الگ الگ اپنی بہاریں دکھا رہے تھے۔
نیلے ،پیلے ،اودے ،بنفشئ ،چمپئ ،آتشیں اور ہر پھول کی ساخت فرق ہر کی بناوٹ فرق۔

 ایک نظر میں جب انتےپھول ہوں اور ہر پھول میں اتنے رنگ ہوں اور اس سے پرے ایک شفاف نیلا آسمان اور دودھیا سفید بادل ٹکے ہوں اور پہاڑوں پر برف ہو اور حسین جانور آپکو خوش آمدید کہتے ہوں اور ہر ہر منظر پکار پکار کر اس خالق ثنا کرتی ہو تو آپ چاہے کتنے بڑے منکر کیوں ناں ہوں آپ پسپائ اختیار کرلیتے ہیں اپنی ہار تسلیم کرتے ہیں اس ذات عظیم کے سامنے  جس کے حکموں کو توڑنے میں اور نا فرمانی میں آپ کی انا کو تسکین ملتی ہے آپ کا دل سجدہ ریز ہوتا ہے۔

انہی اونچی نیچی مسافتوں میں ایک اونچائ سے نیچے اترتے ہوۓ اچانک جھلمل کرتا بہت سا پانی آپ کا منتظر ہوتا ہے یہی شیوسر جھیل ہے مقامی زبان میں جسکا مطلب اندھی جھیل ہے پورا آسمان اپنے اندر سموۓ پانی کا ایک ڈھیر شفاف اتنا کہ پانی میں پڑے پتھر سطح سے دیکھے جا سکتے ہیں۔

Saturday 10 May 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۱۰



جیپ میں لدنے کے بعد جب ہم دیوسائ کے لیۓ روانے ہوۓ تو اس وقت دن کے گیارہ بجنے والے تھے ہم سات، ہمارا سامان جیب لے پچھلے حصے میں بندھا ہوا اپنے اپنے نصیب کے ایک بادل یا ایک پھول کے لیۓ سفر کرنے کو تیار تھے۔

جیب کا میوزک سسٹم مستقل موسیقی بجا رہا تھا "تھو جو ہنوس می یار" یہ گانا دوبارہ میں نے ایکسپریس ٹیلیوژن سے نشر ہونے والے پروگرام میں جب جب دوبارہ سنا تب تب خود کو دیوسائ میں پایا سفر ہے شرط اور چاچا جی راکا پوشی کی جانب رواں دواں۔

میں اس مسلسل بجتی ہوئ موسیقی سے سخت اکتاہٹ کا شکار ہو رہا تھا کیوںکہ میں قدرت کے وہ ساز سننا چاہ رہا تھا جو مسلسل ہمارے لیۓ بج رہے تھے کبھی پرندوں کی چہکار کبھی جھرنوں کا شور کچھ نہیں تو جیب کے پہیوں کے نیچھے آنے والے پتھر جو ایک عجیب گھن گرج کے ساتھ ادھر ادھر ہورہے تھے لیکن یہ آوازیں میں صرف تب سن پاتا تھا جب ایک گانا ختم ہونے کے بعد دوسرا شروع ہونے کا درمیانی وقفہ ہوتا۔ کچھ دیر اکتاہٹ کے بعد میں نے سمجھوتا کر لیا اور اس شور سے بے بہرا باہر گزرنے والے مناظر میں کھوگیا۔

  استور سے دیوسائ کی  طرف سفر کرنا ایک بہت ہی شاندار تجربہ ہے مختلف چھوٹے چھوٹے شہروں سے اور قصبوں سے گزرتے ہوۓ آپ چلم چوکی پہنچتے ہیں اور اس سے آگے دیوسائ ہے۔
 تو استور سے نکل کر سب سے پہلا جو باقاعدہ آبادی آتی ہے تو وہ گوری کوٹ ہے اور وہاں ایک شہتوت کا درخت ہے گھنا اور بھرا ہوا سخی درخت اگر آپ اسکو نظر انداز کر جائیں تو ب واضح طور ناراض ہوتا ہوا کہ میں کب سے آپ کے انتظار میں اپنے رس بھرے توت سجاۓ کھڑا آپ کی راہ دیکھتا ہوں اور آپ ایسی بے اعتنائ برتتے ہیں تو آپ پر اپنے پھل گرا کر اپنی جانب متوجہ کرتا ہے کہ تم خود تو آنے نہیں لیکن یہ جو تمہارے لیۓ ہے اسکو لیتے جاؤ تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا گوری کوٹ میں ہم  کچھ دیر رکے تپتی دھوپ سے بچنے کے لیۓ جیب اسی مہمان نواز درخت کے نیچے کھڑی کی تو اوپر سے بارش ہوئ ہم پر ان رس بھرے سیاہ اور شہد توت کی اور ہم پریشان ہوۓ کیوںکہ ہم عادی نہیں تھے ہم شہروں سے آۓ تھے بے مروتی اور بے اعتنائ کے عادی تھے اتنی مہمان نوازی ہمیں بھاری پڑتی تھی بطور شکرانا میں نے جیب میں گرنے والے کچھ شہتوت اٹھا کر کھاۓ اور کھڑے ہو کر کچھ درخت سے توڑے اوپر سے چھن کر آنے والے دھوپ میرے چہرے پر پڑٰی۔

اس سے آگے جو سفر شروع ہوتا ہے تو سنگلاخ پہاڑ ساتھ چلتے ہیں اور سبزہ نہ ہونے کے برابر ہے کہیں کہیں جھاڑیاں اور مٹیلالے درخت ہیں جیپ کے چلنے سے مٹی اڑتی ہے راستہ کچا ضرور ہے لیکن موجود بحر حال ہے دریا ساتھ ساتھ نیچے بہت نیچے گہرائ میں ساتھ ساتھ ہوتا ہے کبھی کبھی دریا کو دیکھنے سے خوف سا آتا ہے تقریباُ اسی طرح سفر کرتے کرتے آپ "گدائ" تک آتے ہیں یہاں تک آنے سے پہلے ایک مقام ایسا آتا ہے جہاں آپ دریا کے ساتھ آجاتے ہیں معلوم نہیں کیسے مگر حقیقتاَ ایک موڑ مڑتے ہی اچانک آن کی آن میں منظر تبدیل ہوتا ہے پانی آپکے دائیں سے بائیں جانب آتا ہے اور منظر یکسر بدلتا ہے دریا جو آپ کے ساتھ بہتا تھا گدلا اور مٹیالا تھا دھول اڑتی ہوئ اور سبزہ ناپید تو ایک موڑ مڑتے ہی دریا آپ کے دائیں جانب آتا ہے اور اب وہ گہرا نیلا ہے اور ہوا میں یکدم بدلاؤ ہے اور ٹھنڈک کا احساس لیکن یہ صرف چند سیکنڈ کے لیۓ ہوتا ہے اور پھر سب غائب ہو جاتا ہے آپ کے لیۓ ایک اور حیرت چھوڑ جاتا ہے کہ وہ کیا تھا جو نظر آیا تھا نظر کا دھوکا  تھا یا ایک حقیقت؟ ہم جیپ کی سیٹوں پر کھڑے ہو کر اس گزر جانے والے منظر کو ڈھونڈ رہے تھے ابھی تو ایک تصویر بھی نہ بنا پاۓ تھے کہ منظر گزر گیا اور اب وہی بنجر پہاڑ اور دھول۔

کہتے ہیں کہ اس دنیا میں کچھ بھی مستقل نہیں ہے تو یہ منظر بھی عارضی ثابت ہوا تھوڑا آگے جانے پر منظر وسیع ہوا کچھ درخت آۓ پھر وہی گہرا نیلا پانی ساتھ ہوا میں نے اس پانی کو دیوسائ کے پانی کا نام دیا اور ہم دیوسائ سے آتے ہوۓ پانی کے ساتھ سفر کرنے لگے۔

سڑک کے کبھی دائیں اور کبھی بائیں جانب دریا کے ساتھ چھوٹی چھوٹی آبادیاں بنی نظر آتی تھیں سامنے ایک مستقل منظر ایک پہاڑ جس کے اوپر چوٹی پر ہلکی سی برف اور وہاں ٹھہرے ہوۓ بادل سکوت میں اپنی جگہ قائم کھڑے ہوۓ اور آسمان جو نیلاہٹ میں بے انتہا بڑھا ہوا شفاف صاف اور آلودگی سے پاک اس منظر میں سب سے خوبصورت وہ گھر لگتے تھے جو بتھر اور گارے سے بنے ہوۓ کھلونا گھر معلوم ہوتے تھے اور کسی بھی کثیرالمنزلہ بین الاقوامی کمپنی کی بلڈنگ سے زیادہ شاندار تھے اور انکی اصل خوبصورتی انکی سادگی تھی کشادگی انمیں نہ ہوگی لیکن گھر سے نکلنے پر اگر اتنا خوبصورت منظر ہو تو کیا ہی کہنا حضرت علامہ بھی تو یہی آس رکھتے تھے دل میں لیکن  ہر کسی کے نصیب میں یہ تو نہیں ہوتا اور ہر کوئ اقبال بھی نہیں ہوتا۔

گدائ سے آگے سبزہ مخملیں ہو جاتا ہے اور بہتات ہوتی ہے اور منظر مزید حسین پانی زیادہ نیلا اور بادل اور سفید مخملیں سبزے میں سفر کرتے کرتے بعض مقام ایسے آتے ہیں کہ اوپر سے آتا ہوا پانی راستے سے پہتا ہوا نیچے دریا میں شامل ہورہا ہوتا ہے اور راستہ یا تو بہ چکا ہوتا ہے یا باقی تو ہوتا ہے لیکن آپ کو پہتے پانی سے گزر کر اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالنا پڑتی ہیں کوئ ایسے خطرے میں بھی نہیں بس تھوڑا آحتیاط کرنا ہوتا ہے کیونکہ پانی کا بہاؤ کافی تیز ہوتا ہے اور اوپر سے آنے والے پتھر راستے میں جمع ہوکر رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں یہاں کچھ لوگ اپنی موٹر سائیکلوں پر بھی تھے  جو دھکے لگا کر پار جا رہے تھے۔

ان سبزہ زاروں سے گزر کر خمر داس اور پھر دس بالا کے قصبے آتے ہیں اس سے آگے چلم چوکی ہمارے پاس ہر مقام پر رک کر نظارے کرنے کا وقت نہیں تھا جیپ میں بیٹھے بیٹھے تمام مناظر گزرتے گۓ اور ہم چلم چوکی پہنچ گۓ لیکن یہاں قدرت نے کچھ موقع دیا جیب کا ایک ٹائر راستے میں کچھ خراب ہو گیا تھا اور مزید سفر کے لیۓ اسکا ٹھیک کرانا ضروری تھا تو ہم چلم چوکی پر رکے دوپہر ہو رہی تھی اور کھانا بھی کھانا تھا چلم چوکی فوج کی چھاؤنی سی ہے یہاں انٹری کرا کر ہم ایک ورک شاپ پر آۓ اور ٹائر کی مرمت شروع ہوئ ہمارے پاس کچھ وقت تھا ہم باہر آۓ اور آس پاس گھومنا شروع کیا۔

جو پانی ہمارے ساتھ ساتھ بہتا آیا تھا اسکو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہم کنارے پر آۓ اور کنارے سے کچھ دور ہی زمین نرم تھی اور ہمارے چلنے سے دبتی چلی جاتی تھی گھاس اتنی دبیز اور ملائم تھی اور زمین کا نرم ہونا ایسا لگتا تھا کہ کوئ بہت دبیز ایرانی قالین بچھا ہو گھاس جو تھی تو اس میں ایسے ننھے ننھے سفید پھول تھے جو ہرطرف پھیلے ہوۓ تھے اور روئ کے گالوں کی طرح فضا میں اڑتے تھے چاروں طرف ہم کنارے سے مزید قریب ہوۓ پانی کا ساز بجتا تھا کنارے پر پڑے بڑے بڑے سیاہ پتھر ادھے سے زیادہ پانی میں ڈوبے ہوۓ تھے کچھ مکمل طور پر پانی میں تھے ہم ان تک گۓ جوتے اتار کر ان تک گۓ برف پانیوں سے اپنے ہاتھ پیر گیلے کۓ اور شفاف پانی پیا پانی کی تہ میں پڑے پتھر اندر تک نظر آتے تھے اس سے پرے سامنے کی طرف ٹیلے نما پہاڑ تھے مکمل طور پر سبز کمبل اوڑھے ہوۓ اور اوپر شفاف نیلا آسمان کہیں کہیں روئ کے گالوں کی طرح بادل ٹکے ہوۓ اور کہیں مکمل سایا کۓ ہوۓ کہ پہاڑوں پر بڑے دلکش نقش بن گۓ تھے تقریباَ 4500 فیٹ اوپر آپ بادلوں کے نزدیک آجاتے ہیں اور آسمان اور انکے خالق سے بھی کچھ منظر ایسے ہوتے ہیں جو صرف انکے لیۓ بنے ہوتے ہیں جو گھر کا آرام سکون چھوڑ کر سفر کی تھکان اور صعوبتیں برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور سامنے والا منظر بھی ایسا ہی تھا جو ہمارے لیۓ تھا وہ سبزہ بادل پانی آسمان پھول ہمارے لیۓ سجاۓ گۓ تھے اور ہمارا انتظار کرتے تھے کہ ہم کو دیکھنے والے آرہے ہیں  ہمارے ساتھ وہیں چلم چوکی پر سڑک کے ساتھ بنے ہوٹل میں کھانا کھاتے تھے اور چاۓ پیتے تھے لیکن ہم نے کھانے اور چاۓ پر اس منظر کو ترجیح دی تھی جو ہمارا منتظر تھا۔

اور وہاں پھول تھے نیلے بھول چھوٹے چھوٹے اور گچھوں کی صورت میں اور پیلے کچھ کچھ سورچ مکھی کے پھول سے مشابہ اور لہلاتے تھے مست ہوتے تھے اٹھلاتے تھے اور کچھ پھول پیگنی رنگ کے تھے یہ سب چھوٹی چھوٹی ٹکریوں میں تھے کچھ گہرے اور کچھ ہلکے جامنی رنگ کے اور بے شمار تھے اور ہمیں مجبور ہوتے تھے اس ذات اقدس کی صناعی کے ایک تصویر میں اتنی رنگ اور سارے رنگ بھی اسی تھے اور سارے منظر بھی اسی کے ایک "کن" سے وجود میں آنے والے اور جب سے یہ دنیا وجود میں آئ ہے تب سے اسی طرح موجود تھے بعض اوقات ایسا خیال آتا ہے کہ جب موت آۓ جو کے بہر طور آنی ہی ھے چاہے میں اس سے کتنی ہی فرار حاصل کرنے کی کوشش کروں وہ آنی ہے تو جب موت آۓ تو میں ایسی ہی کسی جگہ موجود ہوں اور مر کر ایسی ہی کسی جگہ دفن ہو جاؤں اور اس ماحول کا حصہ بن جاؤں میری قبر پر وہ پھول کھلیں جو اور کہیں موجود ہی نہ ہوں اور وہاں برف کی سی ٹھنڈک والے پانی آتے ہوں ان پھولوں کی سیرابی کی لیۓ اور کوئ اور نہ ہو اس خیال کے آنے کی ایک وجہ ایک یہ بھی تھی کہ وہ جگہ اور ایسی تمام جگہیں مجھے بہشت کی یاد دلاتی ہیں اور جنت سے نکالا گیا انسان جنت کا تمنائ ہوتا ہے اور اگر اسے وہ جنت دوبارہ مل جاۓ تو واپس آنے کا دل نہیں کرتا۔

اور جب میں واپس چوکی کی طرف آیا تو میں نے غور کیا وہاں ایک ہیلی پیڈ زمین پر چونے سے بنایا گیا اور باہر سڑک کی طرف ایک بورڈ لگا تھا "چلم چوکی 0 کیلومیٹر" اور سڑک کے ساتھ ایک بڑا پتھر لگا جس پر سفید پینٹ کرکے ایک نقشہ سا بنایا گیا تھا اور وہاں ایک تیر کا نشان یہ بتا رہا تھا کہ دیوسائ کے اوپر اور ساتھ ہی تصویں بنانے کی ممانعت کی ہدایت درج تھی لیکن خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کسی کارروائ کا زکر نہیں تھا وہاں فوجی جوان تھے مجھے ڈر ہوا کہ کہیں سزا کے طور پر یہ حکم نہ مل جاۓ کہ آپ آگے نہیں جا سکتے میں واپس پلٹ کر وہاں آگیا جہاں ہماری جیپ کھڑی تھی اور بیگ سے ڈائری نکال لی ٹائر بن چکا تھا اور بس دوبارہ لگانا رہ گیا تھا جیپ تیار تھی اور ہم دیوسائ میں داخل ہونے کو تھے۔

Tuesday 6 May 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۹



اللہ تعالیٰ  نے ہر انسان کے اندر کوئ نہ کوئ چیز ایسی ضرور رکھی ہوتی ہے جو چاہے کتنے ہی کٹھن حالات کیوں نہ ہو جائیں اسکو ان حالات سے باہر لا سکتی ہے چاہے وقتی طور پر ہی کیوں نہ ہو یہ خدا تعالیٰ نے اسکی شرست میں اسکے بنانے کے وقت سے ڈالی ہوتی ہے کچھ کو اسکا علم ہو جاتا ہے اور کچھ ساری زندگی اس سے محروم بھی رہ جاتے ہیں۔

کوئ موسیقی سے یہ حاصل کرتا ہے کوئ رقص سے کچھ اسکی قربت والوں کو رب کے ذکر میں یہ حاصل ہوتا ہے خواہ نماز ہو یا مراقبہ خدا کی یاد کے اور بھی طریقے ہیں اور سب ہی طریقے الگ ہیں۔ ہر مذہب کا ماننے والے کا طریقہ بس الگ ہے افریقہ میں بعض قبیلوں میں نروان کے حصول کے لیۓ ڈھول پیٹا جاتا ہے اور آگ کے گرد رقص کیا جاتا ہے ایک بدھ مت کے ماننے والے کے لیۓ کوئ اور دیگر کے  لیۓ کوئ اور یہ میرا موضوع نہیں صرف یہ کہ ہر کسی کے لیۓ اسکے رب نے کچھ الگ رکھا ہوتا ہے جو اسکو ان سب سے پرے لے جاتا ہے جن سے وہ دور ہونا چاہتا ہے ایک ایزیٹ ایک راہ ِفرار۔

میرے لیۓ ہمیشہ سے کوئ ایک پھول ، پرندے ، بارش ، خوشگوار موسم ،  سردیوں کی ہوا یا کچھ بھی خدا کی کائنات میں سے کچھ بھی جو خوبصورتی سے متعلق چاہے ایک پھول یا ایک خوبصورت لڑکی میرے لئے وہ ایگزٹ یا راہِ فرار رہی ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے میرے تایا نے بہت سے پرندے پالے ہوے تھے اور جب بھی میں جایا کرتا بہت سا وقت ان پرندوں کے ساتھ گزارا کرتا اور واپسی میں اکثر اداس ہوتا تھا آج بھی جب کبھی میں پریشان ہوتا ہوں تو سمندر میرے لۓ ایک ایسی جاۓ پناہ ہوتی ہے جہاں جہاں میں کچھ وقت گزار کر دوبارہ حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہوں نیچر یا قدرتی مناظر میرے لیۓ وہی ایگزٹ ہے جو مجھے باہر کی دنیا سے راستہ جوڑتی ہے یا میرے لیۓ فلنگ سٹیشن ہے جہاں میں تازہ دم ہو کر اپنے فیول کی مقدار پوری کر لیتا ہوں۔

آج میں راما لیک پر تھا اور اس مکمل سکوت والے ماحول میں پوری طرح گم اس سحر میں اور پورے منظر کو جلدی جلدی دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ جس جگہ میں تھا وہاں سے گزوں نیچے اور میرے سامنے کی طرف کافی دور تک پھیلی ہوئ ایک جھیل جسکا پانی ایسا نیلا دکھائ دیتا ہے جیسے ڈھیروں ڈھیر نیل ملایا گیا ہو مگر جب ہوا چلتی اور پانی پر ہلکی ہلکی سی لہریں بنتیں تو یہ نگ بدلتا اور کچھ ہریالی مائل ہو جاتا اور ہوا کبھی رک رک کر چلتی کبھی مستقل لیکن ایک ٹھراؤ کے ساتھ کہ پانی پر بنتی ہوئ لہریں کبھی ایک مخصوص تعداد سے زیادہ نہیں بنتی تھیں اور نہ ہی پانی کے رنگ بدلنے کا سلسلہ رکتا تھا۔
میں جہاں  کھڑا تھا وہاں سبزہ تھا چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں سی سخت اور کھردری سی لیکن ہر ایک پر گچھے گچھے اور چھوٹے چھوٹے سے پھول تھے بنفشئ اور کچھ جامنی رنگ کے ملتے جلتے اور وہاں گھاس تھی دبیر لیکن ملائم نہیں عجیب سخت اور چبھنے والی ان پر بیٹھنے کے لیۓ پہلے انہیں ھاتھ سے دبا کر ہموار کرنا پڑتا تھا اور وہیں پر ایک بیل تھی اور ایسی بیل میں نے آج تک نہیں دیکھی  بڑے بڑے پتوں والی اور سفید پھولوں والی خاصیت ایسی تھی کہ پتوں کے بیچ تھوڑے فاصلے سے سفید پھولوں کا ایک چھوٹا سا گچھا اور کچھ فاصلے پر ایک بڑا سفید پھول جسکی بناوٹ ان چھوٹے پھولوں سے بلکل الگ پہلے میرا گمان تھا کہ شائد کوئ اور بیل یا پودا ساتھ الجھ رہا ہے جسکی وجہ سے ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ایک ہی ہیں مگر وہ واقعئ ایسا ہی تھا عقل دنگ ہوتی ہی اور انسان سمجھ نہیں سکتا۔
میں جہاں کھڑا تھا وہاں سے میرے سامنے ایک پہاڑبرف چادر اوڑھے کھڑا تھا اور بادل وہاں ٹکے ہوۓ تھے اور ہلتے نہیں تھے برف سے لگ کر وہاں تھمے ہوۓ اور بائیں طرف ایک پہاڑ کی اوٹ سے ایک مکمل برف پوش چوٹی جھانک رہی تھی اور حیرت انگیز طور پر حسین تھی وہاں بھی بادل اسی طرح پہرا لگاۓ کھڑے تھے۔
جہاں میں کھڑا تھا وہاں ایسی خاموشی تھی کہ ہوا چلنے اور پتوں کے سرسرانے کی آواز بھی اسمیں مخل ہو ہو رہی تھی کیمرے کے شٹر کھلے اور بند ہونے کی آوازیں آرہی تھیں میرے ساتھی تصویریں بنا رہے تھے کسی نے مجھے آواز دی میں انکے درمیان گروپ میں کھڑا ہوا ایک کلک اور وہ منظر محفوظ ہو گیا کبھی کبھی ایک پرندہ ایک نا مانوس سی آواز میں بولتا لیکن نظر نہیں آرہا تھا بس ایک نا مانوس آواز تھا نیچے جھیل کے ساتھ کچھ گائیں چر رہی تھیں وہاں سبزہ نرم اور گہرا سبز تھا دھوپ تھی اور آسمان بلکل صاف اور جھیل کے پانی سے میل کھاتا ہوا نیلا بادل صرف برف کے ساتھ لگے پہاڑوں پر تھے اسکے علاوہ کہیں نہیں تھے۔

پانی کی سطح سے کچھ اوپر کنارے کنارے کچھ سبزہ تھا وہی سخت گھاس اور جھاڑیاں دوسرے کنارے پر جو پہاڑ  تھے اس پر درخت بھی تھے لیکن فاصلہ اتنا تھا کہ ہو چھوٹے جھاڑی نما پودے نظر آرہے تھے۔
وہاں ہم سات لوگ تھے ایک پرندے کی آواز تھی چند چرتی ہوئ گائیں اور کوئ نہیں تھا پورا منظر ایک مکمل تصویر تھا میں ابھی تک اوپر ہی کھڑا تھا اور اب میں نے نیچے اترنا شروع کیا اور جھیل کی سطح تک آگیا اور یہاں سے منظر یکسر مخلتف تھا جھیل کے شفاف پانی میں کچھ دور تک پڑے ہوۓ پتھر نظر آرہے تھے اور جھیل کا پانی تا حدِنظر تک پھیلا ہوا تھا ایک طلسماتی منظر تھا ایک بڑے پیا لے کی طرح چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری راما لیک مجھے اوپر کھڑے میرے ساتھ بہت دور نظر آرہے تھے مجھے یوں لگا کے کسی  نے جادو کے زور سے میرا قد چھوٹا کردیا ھے اور مجھے یہاں قید کردیا ہے اس پر ہیبت منظر میں اور مجھے ایسا بھی محسوس ہوا کہ وہ تصویر جسے میں اوپر سے دیکھ رہا تھا اب اسکے اندر آگیا ہوں ایک خوف کا احساس تھا وہاں ایک ہیبت تھی جسکا بیان ممکن نہیں ہے۔
جھیل کے ساتھ جہاں میں تھا وہاں ایک تیز بو تھی معلوم نہیں کس چیز کی مگر کافی تیز جیسی کسی حد تک کسی حکیم کے مطب میں ہوتی ہے اور جڑی بوٹیاں پیسنے سے پیدا ہوتی ہے کسی درجہ میں ویسی ہی لیکن اس سے الگ اور تیز سر پر چڑہتی ہوئ کچھ دیر میں مجھے محسوس ہونے لگا کے میں بیہوش ہو جاؤنگا۔ میں نے چاروں طرف گھوم گھوم کر دیکھا کنارے پر جو پتھر پڑے تھے ان میں سے بعض ایسے لگتے تھے کے شائد انکو ترتیب سے رکھا گیا ہو اور رکھتے وقت سلیقہ اور حسن کا خیال خاص طور پر رکھا گیا ہو کچھ پتھر انتے بڑے اور وزنی تھے کہ انکا ہلانا بھی ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں تھی مشین اور کرین کے ذریعہ یہ بات ممکن تھی لیکن انکا یہاں تک لانا ایک نا ممکن امر تھا تو بلاشبہ یہ اسی کی ترتیب تھی جس نے انسان کو سلیقہ اور شعور دیا۔

کسی بھی جھیل کو آپ پہلی نظر میں شائد پسند ناں کریں اور مکمل طور پر ریجکٹ کر دیں اور ایسا اکژر ہوتا ہے کئ بہت سے مناظر ایسے ہوتے ہیں جو پہلی نظر میں پسند نہیں آتے یا وہ ہر عام انسان کے لۓ تخلیق نہیں کۓ جاتے وہ منتظر ہوتے ہیں اس آنکھ کے جس کے لیۓ انکو بنایا گیا ہوتا ہے  ایسے منظر ایک نظر کے لیۓ نہیں ہوتے انکو بیٹھ کر کافی دیر ایک ٹک دیکھنا ہوتا ہے تب یہ آپ پر آشکار ہوتے ہیں اپنا آپ دیکھاتے ہیں لیکن اگر اس طرح سے بھی نہ ہو تو جان لیجیۓ کہ یہ آپ کے لیۓ نہیں تخلیق ہوا۔

میرا کافی جھیلوں پر جانے کا اتفاق ہوا سندھ اور پنجاب کی جھیلیں یا بلوچستان کی جھیلیں گلگت بلتستان کی چند جھیلیں اور ہر جگہ مخلتف تجربات رہے کچھ نے مجھے قبول کیا اور کچھ نے نہیں اصل میں ہم منظر کو پسند یا نا پسند نہیں کرتے منظر ہمیں پسند یا نا پسند کرتا ہے کبھی وہ اپنا آپ ظاہر کرتا ہے اور کبھی بلکل نہیں کرتا اگر ایسا ہو کہ آپ کوئ نظارہ دیکھیں اور وہ آپکو پسند آۓ تو شکر ادا کرنا چاھیۓ اس منظر کا بھی اور اس کے تخلیق کرنے والے کا بھی۔

میں واپس اوپر آچکا تھا اور ہم واپسی کے راستے پر تھے میں خوش تھا واپسی کا راستہ ہمیشہ ہی کم لگتا ہے اور پہاڑوں کی اگر آسان ہو تو پھر اترنے میں کوئ محنت نہیں کرنی پڑتی بس خود پر قابو رکھنا پڑتا ہے جتنے وقت میں ہم اوپر گۓ تھے اس سے آدھے وقت میں ہم نیچے آچکے تھے اور پی ٹی ڈی سی موٹل راما میں سستا رہے تھے ہماری چاۓ تیار ہو رہی تھی اور ہمارا دیوسائ کا سفر شروع ہونے والا تھا۔۔۔

Thursday 1 May 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۸


پی ٹی ڈی سی موٹل کے بلکل سامنے چند خیمے لگے ہوۓ تھے اور کچھ نوجوان اپنے کیمرے ٹرائ پاڈ پر نصب کرکے تصویریں لینے میں مشغول تھے ہم نے اپنا سفر شروع کیا دھوب بہت تیز تھی اور چاروں طرف روشن کرتی تھی اور کچھ گرمی بھی ہم خراما خراما آگے چلنا شروع ہوۓ۔

راما سے اوپر کی طرف ٹریک کرتے ہوۓ جب آپ تھوڑا آگے جاتے ہیں تو ایک پھریلا میدان سا آتا ہے سبز پتھریلا میدان اور یہاں منظر بہت دلکش ہوجاتا ہے پہاڑ آپ سے نزدیک آجاتے ہیں اتنے کے ایسا لگتا ہے کے اس میدان پر ابھرے کچھ ٹیلے ہیں اور کچھ کی چوٹی پر برف ہے اور وہیں سے کچھ نالیاں سی نیچے اترتی ہیں اور جب چوٹی کی برف پگھلتی ہے تو انہی کے راستے نیچے تک آتی ہے میرے سامنے ویسے ہی کچھ نالیاں تھیں جن پر برف جمی تھی کہیں کہیں کیونکہ پانی کی سپلائ اتنی نہیں تھی اور ٹھنڈ کی وجہ سے برف جم رہی تھی۔

اسی میدان سے کچھ پرے ایک راستہ انہی پہاڑوں میں اوپر کو جا رہا تھا اور یہاں سے ہی راما لیک کا اصل ٹریک شروع ہوتا ہے۔

راما لیک کا ٹریک نسبتاّ ایک آسان اور بہت خوبصورت ٹریک ہے سیدھا اور ہموار اگر آپ درمیانی رفتار سے بھی چلیں تو ذیادہ سے ذیادہ ڈیڑھ گھنٹہ میں راما لیک تک پہنچھ سکتے ہیں بشرط کہ آپ کیمرہ ساتھ نہ لیکر جائیں کیونکہ نہ چاھتے ہوۓ بھی آپ جگہ جگہ رکتے ہیں اور تصویریں بناتے ہیں اور یہ کوئ قبیح فعل بھی نہیں ہے کیونکے جب واپس آکر آپ اپنی مشین کے ساتھ دوبارہ جڑ جااتے ہیں طویل کاروباری اوقات اور زندگی کی دیگر پریشانیوں میں گھر جاتے ہیں تو یہی تصاویر  آپ کو واپس ان لمحات اور مقامات پر لے جاتی ہیں جہاں کچھ پل آپ گزار آۓ ہوتے ہیں اور یہی آپکا سرمایہ ہوتےہیں تو ہم نے بھی بہت تصاویر بنائیں۔

 ہم سب نے جوگرز اور ٹریکنگ بوٹس پہن رکھتے تھے اور چلنے میں کوئ دشواری نہیں تھی میں نے بھی اپنے پیلے ٹریکنگ بوٹس پہنے ہوۓ تھے اور ایک مرتبہ میں انکی وجہ سے مرتے ہوۓ بچ چکا تھا اسی سال آزاد کشمیر میں وادئ نیلم میں ایک ٹریک پر جب بارش ہو رہی تھی اور میں اور میرا ایک ساتھی ٹریک چھوڑ کرایک ایسی پہاڑی پر اوپر جا رہے تھے جو ہمارے خیال سے ہمیں کم وقت میں اوپر پہچا سکتی تھی بارش ہو رہی تھی اور آپ پاس کافی پھسلن ہو چکی تھی ایسے میں ہم دو نا تجربیکار پتھروں اور درختوں کو پکڑ کر اور اپنا راستہ بنا کر اوپر ہی اوپر جا رہے تھے اور ہر دو قدم پر رک کر اس ہوشربا منظر میں گم ہورہے تھے جس میں بادل تھے سبزہ تھا اور نیچے دریاء نیلم اپنی پوری روانی سے بہ رہا تھا بارش ہو رہی تھی اور دریا کا نیلگوں پانی اس تیزی سے رواں تھا کے سینکڑوں فیٹ بلندی پر ہونے کے باوجود ہم اسکا شور سن سکتے تھے اور دور کسی وادی میں جو بھارتی کشمیر میں آتی تھی وہاں کہیں پر دھوپ تھی اور ایسا لگتا تھا کے وہ پورا منظر اصل نہ ہو بلکہ ایک تصویر ہو جسمیں اپنی پسند کے حساب سے رنگ بھرے گۓ ہوں کشمیر کو ویسے ہی جنت نظیر نہیں کہتے ہمارے سامنے جتنے درخت تھے وہ سب ایک سے ایک اور منفرد رنگوں کے تھے سبز، گہرے سبز ، گلابی مائل کتھئ ، کچھ کے پھول بلکل سفید اور اتنی تعداد میں تھے کہ پورے درخت پر یہی گمان ہوتا تھا اور اسی طرح سے گلابی پھولوں سے بھرا درخت اور کچنار جو بے شمار تھے اور اور آتش رنگ پھول کھلے تھے پورے ماحول پر سکوت تھا لکڑی اور سبزے کی خوشبو تھی اور وقت تھم چکا تھا ایسے میں ہم دو نا تجربہ کار بارش میں ایک "شارٹ کٹ" لینے کے چکر میں اوپر ہی اوپر جا رہے تھے۔

ہم نے اوپر چڑھنے کا یہ طریقہ اپنایا تھا کے پہلے ایک نیچے کسی جگہ پوزیشن لیتا یعنی اس چیز کا اطمنان کرتا کہ جگہ پکی ہو اور آس پاس کوئ درخت وغیرہ ہو جسے بوقت ضرورت سہارا بنایا جا سکے اور پھر دوسرا اوپر چڑھنا شروع کرتا اور اوپر جا کر ایسے ہی کسی مقام کا انتخاب کرتا اور رک جاتا اور نیچے والا اوپر پہلے والے کے قدموں کو دیکھتا ہوا اوپر جاتا اور یہی ہماری غلطی تھی بہاڑی راستوں اور خاص کر بارش میں اگر ایک جگہ بظاہر پختہ ہو لیکن اگر وہاں پر دباؤ ڈالاجاۓ تو مٹی اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے اور دوبارہ وہاں پیر رکھنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے تو اسی طرح کے ایک مقام پر میرا پیر پڑا اور میں مکمل طور پر توازن کھو  کر نیچے گرنے لگا کوشش کے باوجود رکنا ممکن نہیں ہوا اور مجھے واضح طور پر اندازہ ہو چکا تھا کے کچھ ہی لمحوں میں میرا جسم دریاۓ نیلم کے نیلگوں اور یخ بستہ  پانی میں گر کر فوراّ ہی ٹھنڈا ہو جاۓ گا اور شائد کئ دن تلاش کے بعد جسم کا کچھ حصہ مل جاۓ اور قوی امید ہے کہ نا بھی ملے اخبار میں ایک خبر لگ جاۓ گی ایک سیاح دریاۓ نیلم آزاد کشمیر میں گر کر ھلاک اسکا تعلق کراچی سے بتایا جا رہا ہے نیز اطراف میں لاش کی تلاش کا  کام جاری ہے خیر ایسا کچھ ہوا نہیں ورنہ ان سطور کے لیۓ میں موجود نہ ہوتا۔۔

راستہ آسان تھا اور ہم جوتوں اور دیگر ساز و سامان سے لیس تھے دیگر ساز میں ہمارے ایک ساتھی کے پاس ایک چھڑی تھی جسے وہ بطور واکنگ اسٹک استعمال کر رہے تھے اور سامان میں کیمرے تھے چڑھائ کے بیچ ایک مقام ایسا آیا جہاں ایک گلیشئر سے آتا ہوا پانی ہمارے راستے سے کچھ نیچے ہمارے ساتھ بہتا ہوا نیچے جا رہا تھا تھوڑا آگے جہاں سے یہ پانی آرہا تھا وہاں برف کی ایک محراب سی بن گئ تھی اور پانی اس محراب کے نیچے سے بہ کر آتا تھا اور بہت سے بڑے بڑے پتھر تھے جو ساتھ ساتھ وہاں پڑے تھے ہم نے ان پتھروں سے ساتھ نیچے اترنا شروع کیا دھوپ اپنی جگہ پر تھی لیکن ماحول اس نہر نما پانی کے آجانے کی وجہ سے تبدیل ہو گیا تھا ہم نیچے آۓ اور ان پتھروں پر پانی کے ساتھ بیٹھ گۓ فرمان بھائ اور دوسرے جو ہم سے آگے چل رہے تھے ہمیں نیچے جاتا دیکھ کر رک گۓ اور وہیں سے پوچھا "تھک گۓ آپ کیا؟" ہم نے انکار کیا اور ذرا مزہ لینے کی بات تو وہ یہ کہ کر آگے چلے گۓ کے جلدی کرلیں آج کے دن بہت سفر کرنا ہے اوپر لیک پر جا کر مزہ کر لینا آپ لوگ ابھی اٹھو آگے چلو۔۔

راما لیک کے اس ٹریک پر جو چیز مجھے سب سے زیادہ پسند آتی تھی وہ یہ تھی اس اس پر چلنے والے صرف ہم سات لوگ تھے باقی کوئ اور نہیں تھا اور یہی اسکی سب سے بڑی خوبی تھی تنہائ میں ہمیشہ ایسی ہی کسی جگہ جانا چاھتا تھا جہاں صرف میں ہوں اور لوگ نہ ہوں پورے واستے میں ابھی تک مجھے ایک بھی خالی لفافہ کا کوئ کچرا نہیں نظر آیا تھا جو واضح گواہی تھا ابھی تک اس طرف سفر کرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے

ہم وہاں سے واپس اوپر آۓ اور دوبارہ چڑھائ شروع کی کئ مقام ایسے آۓ جو مکمل برف میں تھے اور ہم انکے اوپر سے چل کے آگے گۓ ایک موڑ مڑنے پر ہمیں اپنے ساتھی مل گۓ جو ایک چھوٹی سی جھیل سے سامنے کھڑے تھے جسکا پانی نیلاہت لۓ ہوۓ ہریالی مائل تھا اور جسکا کل رقبہ ایک سوئمنگ پول سے بڑا نہیں ہوگا ہمارے پہنچنے پر فرمان بھائ نے کہاں یہی راما لیک ہے۔۔۔۔

مجھے اس لیک کو دیکھ کر گو کے دیکھنے میں حسین تھا لیکن میرے دل میں یہی خیال تھا کے اگر یہی راما لیک ہے تو اسکو دیکھنا اتنا ضروری کیوں تھا؟؟ کیا اسکو دیکھنے کے لیۓ ہم دیوسائ کا راستہ چھوڑ کر اتنا اوپر آۓ تھے؟؟ اگر واقعی ایسا تھا تو اتنا سفر کرکے ہم نے اپنا وقت ٖفضول برباد کیا تھا لیکن اگر آہی گۓ تھے تو ہم نے وہاں تصویریں بنوائیں اکیلے اور گروپس میں اوپر کی جانب ایک راستہ جا رہا تھا اور وہاں سے ایک گلیشئر کا بہت خوبصورت منظر نظر آرہا تھا اور تب عدنان نے کہا کہ یہ راما لیک نہیں ہے یہ تو ویسے ہی گلیشئر کا پانی ہے یہاں عام طور پر ایسا پانی کھڑا ہو جاتا ہے راما لیک ابھی اور اوپر ہے۔۔

تقریبا بیس منٹ اور چڑھائ کے بعد ایک اور ویسا ہے مقام آیا ایک چھوٹی سی جھیل لیکن یہ قدرے لمبائ میں تھی اور چند قدم پر ایک اور ایسا ہی منظر اور ایک موڑ مڑتے ہے سامنے ایک بے انتہا وسعت لۓ جہاں ہم تھے وہاں سے گزوں نیچے نیلے پانی کی ایک جھیل خوبصورتی اور حسن میں اپنی مثال آپ جس کے چاروں کناروں پر گھاس اور سبزہ مکمل سکوت میں تھی ایک طلسم تھا جو پورے ماحول کو سحر میں جکڑتا تھا اور چند گائیں جو چرتی ہوئی جھیل کے کنارے تک چلی گئ تھیں اور میں اس پورے منظر کو جلدی جلدی دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا اور پوری طرح سے اس ماحول کے جادو کے اثر میں آچکا تھا اور یہی راما لیک تھی۔۔۔۔

Saturday 26 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۷


اگر آپکے چاروں طرف سبز گھاس ہو اور اس گھاس میں رنگ رنگ کے پھول ہوں سامنے ایک برف پوش پہاڑ ہو خوبصورت پہاڑی راستے ہوں  اور جھرنے ہوں جن سے دودھ رنگ اور برف جیسا ٹھنڈا پانی بہتا ہو اور انکے بہنے کی آواز تمام وقت آپکے ساتھ چلے اور کئ کئ کیلومیٹر کوئ ایسا خطہ نہ ہو جہاں سبزہ نہ ہو دھوپ ایسی چمکتی ہوئ ہو کہ سارا منظر آپ کو پیلاھٹ لیا نظر آۓ اور منظر ہر قدم پر بدل جاتا ہو کھیت ہو جن میں گندم اور مکئ کاشت کی گئ ہو اور ہر کھیت میں ایک خطہ پھولوں کا ہو جہاں بیش رنگ پھول ہوں اور انہی پھولوں کے رنگ کے جوڑے پہنی عورتیں کام کرتی ہوں اور اپنے پلو سے آپ کو دیکھ کر اپنا گلاب رنگ چہرا چھپاتی ہوں اور بچے جنکی جلد تازہ خوبانی کی طرح گالوں پر لالی ہو اور انکا دیکھنا آپکو خوش کرتا ہو انکا حسن آپکی آنکھوں کو خیرا کرتا ہو اور یہ سب کچھ اتنا اچانک ہو کے آپ حواس باختہ ہو جائیں تو یقینی طور پر آپ راما میں ہیں۔

استور تک کا راستہ  زیادہ سے زیادہ کوئ 14 سے 15 کیلومیٹر طویل ہے لیکین جیب کے ذریعہ بھی  یہ راستہ آپ کم سے کم ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ میں طے کرتے ہیں جوں جوں آپ استور سے راما کی طرف سفرکرتے ہیں اور استور سے باہر نکلتے ہیں سبزہ بڑھتا جاتا ہے پکڈنڈی نما باریک سی سڑک جسکے ایک طرف پہاڑ اور ایک طرف نیچے گاؤں جہاں کھیت ہیں اور گھر ہیں ایک نہ ختم ہو نے والی غلام  گردش کی طرح گھوہتی ہوئ اوپر اٹھتی جا رہی ہے اور آپ اسکے ساتھ ساتھ ہر منٹ ہر لمحہ اوپر کی طرف جا رہے ہیں راستے میں کئ جگہ ایسا ہوا کے ہبت ساری بکریاں اچانک ہمارے راستے میں آجا تیں اور ہمیں  رک کر انکو راستہ دینا پڑتا اور وہ گھبرا کر کبھی پہاڑ پر اور کبھی نیچے کی طرف بھاگتیں اور ہمیں راستہ دیتیں۔

اسی طرح چکراتے ہوۓ ہم نے ایک موڑ کاٹا اور سامنے ایک دم نیا منظر تھا ایک وسعت تھی اور گھنے درخت اور سبزہ ایک میدان کی سے کیفیت تھی اور اتنا اچانک تھا کہ ہم حیران رہ گۓ اب سامنے ایک سیدھی سڑک جسکے دونوں اطراف دیودار کے گھنے درخت اور کوئ ایک بھی سو فیٹ سے کم لمبا نہ ہوگا اور یہ اتنی تعداد میں تھے اور اتنے گھنے تھے کہ اگر آپ انکے ساۓ میں چلے جائیں تو اندر مکمل اندھیرا تھا یا میری آنکھیں بہت تیز دھوپ کی وجہ سے چندھیا گئ تھیں کے مجھے اندھیرا معلوم ہو رہا تھا بہرحال جونہی یہ میدان آیا اور ہم نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہماری جیپ کو روک لیا گیا آگے ایک چیک پوسٹ تھی۔

ہم سب کو اتارا گیا اور مکمل تفتیش کی سب کے شناختی کارڈ طلب ہوۓ کتابچہ میں اندراج ہوا چوکی پر دو سپاہی موجود اور دونوں ہی ہمارا اندراج کرنے اور روکے جانے پر جیسے شرمندہ سے تھے اور بار بار اپنے ڈیوٹی پر ہونے کا عذر پیش کرہے تھے کے جناب ہماری بھبی ڈیوٹی ہے یوں مہمانوں کو پریشانی ہوتی ہے لیکن حالات اب اچھے نہیں ہیں نا تو اس لیۓ روکنا پڑتا ہے اس طرح آپ لوگ اتنی دور سے آے ہیں اس طرح پریشان کرنے میں اچھا تو نہیں لگتا ناں اور بضد ہوگۓ کے آپ لوگ ادھر ادھر گھومیں تصویریں وغیرہ بنائیں کچھ دیر آپ کے لۓ چاۓ آ رہی ہے ہم نے بڑی مشکل سے انکو روکا اپنے آگے مزید سفر اور ناشتہ کر کے آنے کا یقین دلا کر اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔

ہم آگے چلے راستے میں ہمیں کسی سکول کے بچے ملے جو اپنی استانیوں کے ساتھ پکنک منانے کے لیۓ جا رہے تھے ہر بچے کے ہاتھ میں کوئ نہ کوئ سامان تھا اور استانیاں ساتھ ساتھ چلتی تھیں جنہوں نے ناں تو ہمیں دیکھ کر کوئ خاص تاثر دیا نہ ہی اپنی چادریں ڈال کر اپنا چہرہ چھپایا ہمیں تھوڑی حیرت کا سامنا ہوا کہ یہ پہلا واقعہ تھا  کچھ اور آگے چلے تو لکڑی اور پتھر کی بنی ایک نہایت خوبصورت عمارت آگی یہ پی ٹی ڈی سی موٹل راما کی پر شکوہ عمارت تھی اسکی بناوٹ میں کہیں بھی کوئ کمی نہیں چھوڑی گئ تھی اور اگلے حصے میں لکڑی کا کام اس صفائ اور خوبصورتی سے کیا گیا تھا جسکی مثال ملنا مشکل ہے بلا شبہ یہ پاکستان کی سب دلکش ترین عمارتوں میں سے ایک ہے عمارت کو خوبصورتی وہاں کا ماحول بھی دے رہا تھا چاروں طرف درخت اور پیچھے ایک پہاڑ کا منظر جسکی چوٹی پر ہلکی سی برف ابھی بھی باقی تھی۔

یہیں ہم نے اپنی گاڑی چھوڑی اور باقی کا سفر یہاں سے پیدل کرنا تھا ویسے تو جیپ اس مقام سے آگے بھی جا سکتی تھی لیکن ہم چونکے تازہ دم تھے لہذُا یہی فیصلہ ہوا کے آگے کا سفر پیدل کیا جاۓ میری شدید خواہش تھی اس عمارت کو اندر سے دیکھنے کی لیکن وقت کی کمی کے باعث اس وقت مکمن نہیں تھا تو یہ فیصلہ کیا گیا کے واپسی پر اگر وقت ہوا تو ہم یہاں پر ایک پیالی چاۓ پی کر کچھ وقت گزاریں گے۔
ہم تیار ہوۓ اور راما لیک کی طرف سفر شروع کیا۔


Monday 21 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۶


اگلی صبح میں جلدی اٹھا اتنا جلدی کے ابھی سورج بھی نہیں نکلا تھا وہیں بستر میں لیٹا دریا کے بہنے کی مسلسل موسیقی سنتا رہا جب وقت کافی گرز گیا اور کچھ روشنی ہو گئ تو کمرے سے باہر آیا ہوٹل کی پچھلی سمت جہاں دریا تھا اس طرف چلا گیا یہ والا حصہ دریا کی سمت ہونے کی وجہ سے اونچائ پر تھا اور دریا وہاں سے کچھ دور پر تھا نیچے ایک بازار تھا ایک سڑک نیچے کی طرف ڈھلان میں اتر رہی تھی کئ مکانوں کی چھتیں نظر آرہی تھیں کچھ گھروں کی چمنیاں دھواں دے رہیں تھیں نیچے بازار میں ایک بھی انسان نہیں تھا کچھ مرغے مرغیاں گھوہ رہے تھے دو بکریاں بندھی تھیں ایک کتا لا پرواہی سے چلتا ہوا نیچے کی طرف سے آیا اور اہستہ آہستہ چلتا ہوا بازار سے ہو کر گلیوں میں غائب ہو گیا۔۔۔۔

دریا کا پانی مٹیالی رنگت لیۓ بہتا جا رہا تھا مجھے دریا کا بہت تھوڑا حصہ نظر آرہا تھا اور کنارے پر شائد پورے بازار کی گندگی پھینکی جاتی تھی خالی ڈبے، تھیلیاں ، پلاسٹک کے گلاس بوتلیں اور نہ جانے کیا کیا ہہت بدبو ہو رہی تھی اور پورے ماحول کو بربار کر رہی تھی۔ پاکستان جہاں قدرتی حسن سے مالا مال ہے لیکن ہم لوگوں کے اندر صفائ کا خیال نہ ہونا ایک المیہ سے کم نہیں ہے اچھی بھلی جگہ پر کچرا پھیلا کر اسکے حسن کو غارت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جو لوگ باہر سے جاتے ہیں وہ بھی اور جو وہاں کے باسی ہوتے ہیں وہ بھی۔ تھوڑی دیر میں وہاں کھڑا رہا پھر نیچے اتر آیا۔

نیچے کمرے میں واپس آیا میرے دونوں ساتھی سوۓ ہوۓ تھے اور ہمارے باقی ساتھ بھی ابھی تک سوۓ تھے یا جاگ رہے تھے مجھے معلوم نہیں تھا مگر انکا کمرا بند تھا ابھی میں دوبارہ باہر نکلا سورج کافی اوپر آچکا تھا اور استور مکمل روشنی میں تھا میں ہوٹل سے باہر آیا یہ میری استور سے پہلی ملاقات تھی جہاں میں تھا وہ ایک بازار تھا عموماٗ جیسے پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے اونچے نیچے راستے ہمارا ہوٹل بلندی پر تھا اور وہاں سے نیچے کی طرف بازار تھا جہاں اب تقریباٗ ساری دوکانیں کھل چکی تھیں میں نے واپس آکے اپنے ساتھیوں کو جگا کر تیار ہونے کا کہا اور انکو بتا کر کے میں باہر جا رہا ہوں وہ بھی نیچے ہی آجائیں۔

زیادہ تر دوکانیں لکڑی کے دروازے والی اور چھوٹی چھوٹی تھیں کریانے کی گوشت سبزی کی بیکری اور ہوٹل وغیرہ میرا دل لسی پینے کو چاھنے لگا حالانکہ کراچی میں ایسا کوئ صبح لسی پینے کا رواج نہیں ہے لیکن پھر بھی میرا دل چاہ رہا تھا لسی پینے کو وہیں بازار میں ایک صاحب سے پوچھ لیا کہ یہاں دودھ کی دوکان کہاں ہے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ لاھور سے آۓ ہیں؟ میں نے کہا نہیں کراچی تو وہ بولے جناب آپ کو دودھ سے کیا کرنا ہے؟ میں نے بتایا کے جناب مجھے لسی پینا ہے وہ صاحب بولے بھائ یہاں ایسی کوئ دوکان نہیں ہے جہاں دودھ یا لسی ملے آپکو استور میں رہنے کا کیا فائدہ جب دودھ خرید کر پینا پڑے یہ لوگ گھر میں بکریاں اور گاۓ پالتے ہیں اور انکا ہی دودھ استعمال کرتے ہیں پورے استور میں کوئ دودھ دہی کی دوکان نہیں ہے وہ صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر بولے آپ میرے ساتھ چلیں میرے گھر اور دودھ پیئں میں نے کہیں سن رکھا تھا کے دودھ کی دعوت کو نہیں ٹھکرانا چاھیۓ لیکن اس وقت مجھے سمجھ نہیں آیا کے کیا کرنا بہتر ہے کیونکہ میرے ساتھی بھی آنے والے بھی اور معلوم نہیں ان صاحب کا گھر کتنی دور ہے اگرچہ وہ ضرور کہ رہے تھے کے یہیں پاس میرا گھر ھے اور مجھے اس بات کا کافی تجربہ تھا کہ کسی مقامی کا پاس کتنا دور ثابت ہو سکتا ہے میں نے معذرت کرلی۔

تھوڑی ہی دیر میں میرے باقی دونوں ساتھی بھی آگۓ دونوں مکمل تیار ہو کر آۓ تھے ہم سامنے موجود ایک ہوٹل میں ناشتہ کے غرض سے داخل ہو گۓ معلوم ہوا کے صرف چاۓ اور پراٹھا ملے گا اور کچھ نہیں آج اگر کوئ مجھ سے پوچھے پورے پاکستان میں سب سے اچھا چاۓ پراٹھا کہاں ملتا ہے وہ میں بلا جھجھک استور مین بازار چوک جواب دونگا اتنے خستہ اور ھلکے پراٹھے میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں کھاۓ تھے نا جانے کتنے پراٹھے اور بہت سے چاۓ کے کپ کے بعد ہم باہر آۓ لیکن پیٹ پر ذرا بوجھ نہ تھا۔

واپس ہوٹل آۓ اور اپنا سامان وغیرہ باندھ کر جیپ کے پچھلے حصے میں باندھنا شروع کیا صرف گرم کپڑے اپنے ساتھ رکھ لیۓ جیپ کا اوپری پردہ ھٹا دیا گیا تھا سب سامان وغیرہ باندھ کر اور مکمل اطمنان کرنے کے بعد ہم سب جیپ میں سوار ہوۓ۔ جیپ ایک جھٹکے سے سٹارٹ ہوئ آہستہ آہستہ رینگتی ہوئ ہوٹل سے باہر آئ ہوٹل والے الیاس صاحب گیٹ پر کھڑے ہم کو ہاتھ ہلاتے اور خیر کی دعائیں دیتے رخصت کرتے تھے ہم باہر سڑک پر آۓ اسی رفتار میں بازار کی پتلی گلی کو کراس کرکے بڑی سڑک پر آۓ جیپ نے رفتار پکڑنا شروع کی عدنان نے یو ایس بی لگا کر موسیقی لگائ کوئ شنا زبان کا گیت شروع ہوا جیپ اونچے نیچے راستوں پر رفتار پکڑتی جا رہی تھی ہم راما لیک جا رہے تھے۔

Saturday 19 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۵


ہم استور میں تھے لیکن وہاں چکور نہیں تھے ایک بھی چکور نہیں شائد اس لۓ کہ چاندنی نہیں تھی اور استور کے سارے چکور چاندنی رات میں چاند کی طرف پرواز کر گۓ تھے میں نے کئ لوگوں سے سنا اور مجھے بتایا گیا کے چکور پہلے کبھی ہوا کرتے تھے اورشاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ پیاڑوں میں رہا کرتے تھے اب جب کے آبادی بڑھتی جا رہی ھے اور شاہراہ ریشم پر ٹریفک بڑھتا جا رہا ہے تو اب چکور پرواز کر گۓ اور اوپر پہاڑوں میں چلے گۓ میں یقین سے کچھ نہیں کہ سکتا کہ میری اپنی کوئ تحقیق نہیں اس بارے میں چکور پہاڑ پر گۓ یا چاند پر لیکن مجھے افسوس ضرور تھا انکے چلے جانے گا۔۔۔

جس وقت ہم استور پہچے تھے تو رات گہری ہو چکی تھی ہمیں کہا گیا تھا کے وہاں جاتے ہی تھانہ میں اندراج کروانا ہوگا ہم ہوٹل سے پتہ کرکے تھانے پہچے تو معلوم ہوا کے تھانہ بند ہو چکا ہے ہم حیران تھے پھر بھی اندر گۓ تھانے کے اندر ہی سپایہوں کے رہنے کے کمرے بھی تھے ایک سپاہی جو گیٹ پر ڈیوٹی دیتا تھا ہمارے ساتھ اندر گیا اور کمروں میں جا کر کسی کو بلا لایا معلوم ہوا وہ بھی سپاہی تھا اور اندراج نہیں کر سکتا تھا یہ کام منشی کرے گا جو گھر جا چکا تھا ایک صاحب جو سب سے سینیر تھے شائد انہوں نے چارج لیا اور ہم پر خفا ہوۓ کے آپکو یہی وقت ملا یہاں آنے کا؟

انہوں نے اندراج کرنا شروع کیا تو میں نے آخر پوچھ لیا کے کہ جناب یہ تھانا بند ہوجانا اور سب کا "آف ڈیوٹی" ہوجانا کچھ سمجھ نہیں آیا کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے پولیس کی کہیں بھی تو انہوں نے کہا:

"جناب یہ استور ہے آپکا کراچی نہیں ہے یہاں چوری ڈکیتی کی کوئ واردات نہیں ہوتی نہ ہی کسی کو سڑک پر گولی ماری جاتی ھے یہاں امن ہے سر اور اگر ضرورت پڑ جاۓ تو سب آس پاس ہی رہتے ہیں آجائیں گے 5 منٹ میں 

مجھے شرم سی آگئ اور اس سے بڑھ کر دکھ ہوا اپنے شہر کے حالات پر۔۔۔ ہم اٹھے اور واپس آگۓ

ہوٹل میں کمرہ مل چکا تھا اور ہوٹل کے مینیجر صاحب ہمارے کمرے میں آے اور پوچھا کے سر کھانا تو کھائیں گے نا آپ لوگ؟؟

ہم کو کھانے کی کوئ ایسی خواہش نہیں تھی اور ہم اپنے ساتھ خشک خوراک لیکر چلے تھے جسمیں بسکٹ بھنے ہوۓ چنے اور کھجور وغیرہ تھی لیکن وہ ہمارا جواب سنے بغیر بولے کے سر کھانا کھا لیں آپ مہمان ہیں اور سفر کر کے آرہے ہیں۔۔

تو سر کیا کھائیں گے آپ لوگ؟

ہم نے ان سے پوچھا کے آپکے پاس کیا ھے کھانے میں جو جواب ملا کے ابھی تو صرف دال ہی بچی ھے لیکن بہت اچھی ھے بائ گاڈ۔۔

ہم نے کہا جی لے آئیں وہی وہ گۓ اور پانچ منٹ بعد دوبارہ آگۓ کے سر میں نے چیک کیا ہے آدھا چکن رکھا ہوا تھا میں نے وہ بھی لگوا دیا ھے آپکے لیۓ سر آپ مہمان ہیں نا تو خیال کرنا ہمارا فرض ہے۔۔ویسے کہاں سے آرہے ہیں آپ لوگ؟؟

ہم نے بتایا کے ہم فیری میڈوز سے آرہے ہیں تو وہ بولے سنا ہے بہت خوبصورت جگہ ہے میں تو گیا نہیں کبھی وقت ہی نہیں ملتا جب سیزن ہوتا ہے تو یہاں رش بہت ہوتا ہے اب تو ٹورسٹ بھی نہیں آتے سر ملک کے حالات نے ہم کو سب سے زیادہ نقصان دیا ہے کراچی کے حالات خاص طور پر اور کراچی کو چھوڑ کر پورے ملک کے کون سے اچھے رہ گۓ ہیں حالات اب تو ہمارے علاقے میں بھی مار دۓ نانگا پربت میں سر آپ جانتے ہیں نا کے ٹورسٹ آتا ہے تو روزگار لاتا ہے ہمارے لۓ ہمارے علاقے میں پورے گلگت بلتستان میں ہمارے لوگ پریشان ہیں سر ہم تو امن والے لوگ ہیں سر ہمارے لوگ محنت کرتے ہیں سامان لاد کر پہاڑوں میں جاتے ہیں حفاظت کرتے ہیں ٹورسٹوں کی سر یہ جو دوکانیں کھول کر بیٹھے ہوۓ ہیں سر مارکیٹ میں تو یہ کس کے لیۓ بیٹھے ہیں یہاں والا تو نہیں لیتا ناں یہ سب سر؟؟ حکومت کچھ نہیں کرتی ہماری ہم خود کرتے ہیں سب یا چائنا کرتا ہے اور وہ بھی ادھر ھنزہ میں کرتا ہے کیونکہ اسکا فائدہ ہے ناں وہاں سے ٹریڈ ہوتا ہے ناں سر یہاں اتنا فائدہ نہیں ہے تو ادھر کے لوگ خود کرتے ہیں۔۔۔۔ حالات اگر ایسے رہے ناں سر تو بہت کم وقت میں یہ سب لوگ یہاں سے جانا پڑے گا سر بھوکا تھوڑی مرنا ھے بیوی بچے ہیں سر ہمارے بھی۔۔۔۔"

ہمارا کھانا آگیا تھا وہ ہمیں یہ بول کر کے سر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو میں سامنے ہی بیٹھا ہو ہوں ریسپشن پر نہیں تو میرا کمرہ بھی ساتھ ہی ھے اتنے میں ہوٹل کے اندر تین چار جیپیں داخل ہوئیں جن میں سے کئ نو جوان لڑکے لڑکیاں اترے کچھ بزرگ بھی تھے لڑکیاں دیکھ کر ہمارے خون کی گردش میں اضافہ ہوا کے نا جانے کتنے دن ہوگۓ تھے کسی بھی لڑکی کو دیکھے ہوۓ۔۔۔

کھانے کے بعد میرے دونوں ساتھی لڑکیاں دیکھنے کمرے سے باہر چلے گۓ اور میں ڈائری نکال کر دن بھر کی روداد لکھ رہا تھا موبائل کے سگنل لوٹ آے تھے اور مسلسل پیغامات آرہے تھے امی بھائ بہنوں کو خیریت دینے کے بعد میں نے موبائل بند کردیا کہ میں سفر میں رابطے کا زیادہ قائل نہیں ہوں صرف خیریت کی حد تک ہی محدود رکھتا ہوں اسکا استعمال۔۔۔

ہمارا کمرہ کچھ اس طرح تھا کے سامنے سے تو ہوٹل کا مین گیٹ اور کھانے کا کمرہ دیکھائ دیتا تھا لیکن پیچھے کی طرف ایک کھڑکی تھی جہاں سے دریا کے بہنے آواز مسلسل آرہی تھی اور یہ مسلسل شور پورے ماحول کا حصہ ھی محسوس ہوتا تھا اور اگر وہ نہ ہوتا تو وہ ماحول مکمل نہیں ہوتا تھا۔۔ بلکل ایسا ہی ایک کمرہ گلمت میں میرے زیر استعمال رہ چکا تھا اور یہاں کا ماحول مجھے پرانا وقت بھی یاد دلا رہا تھا گلمت جو اب اس انیا کے نقشے پر موجود ھی نہیں رھا تھا اور مکمل طور پر ایک جھیل بن چکا ھے۔۔۔۔

میں اس مکمل ماحول والے کمرے میں اکیلا لیٹا ہوا سوچ رہا تھا ہوٹل والے کی اور جب سے میں یہاں آیا تھا ہر دوسرا بندہ ںاراض تھا ملکی حالات اور حکومت کی نا اھلی پر کاروبار نہ ہونے پر فیری میڈوز والے قاری رحمت سخت ناراض تھے ان لوگوں پر جنہوں نے نانگا پربت بیس کیمپ والے واقعے کو فیری میڈوز بتایا حالانکہ اسکا کوئ تعلق نہیں اس جگہ سے بقول انے پاس ایک امریکی اور کئ غیر ملکی بکنگ ملتوی کروا دی گئ تھی۔۔ میں سوچ رہا تھا کے ان سب میں قصور کسکا ھے اور ذمہ داری کس پر ڈالنی چاہیۓ کے میرے دونوں ساتھی اندر داخل ہوۓ اور باہر جو دیکھ کر آۓ تھے انکے بارے میں بتانا شروع کر دیا انکی تعداد نین نقش خدوخال ایک دو سے تو گپیں بھی لڑا آۓ تھے اور معلوم کر آۓ تھے کہ لاھور اور فیصل آباد سے ہیں اور گلگت سے استور آۓ ہیں آگے کہاں جانا ہے وہ انکو پتہ نہیں ہے جن دو سے وہ مل کر آۓ تھے ان میں ایک شائد کسی میڈکل کالج سے تھی اور دوسری نے سیکنڈ ایئر کے پیپر دیۓ تھے