Sunday 8 October 2017

والدین کی خدمت


میرے دفتر کے ایک ساتھی کی والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا، چند دن غیر حاضر رہ کر جب وہ دفتر واپس آئے تو ہم نے کہتعزیت کے بعد دریافت کیا کہ انتقال کی وجہ کیا بنی حالانکہ جس کا وقت پورا ہوگیا اسے جانا ہی ہے لیکن کوئ نہ کوئ بہانہ تو بنتا ہی ہے سو دریافت کرلیا۔

کہنے لگے کہ کوئ بیماری وغیرہ کچھ نہیں تھی بس ایک دن ہلکا سابخار بوا اور رات میں انتقال ہوگیا۔ وجہ بتا کر غمگین ہوگئے اور کہنے لگے امی کے جانے کا غم الگ لیکن اس بات کا بہت غم ہے کہ ہمیں خدمت کا موقع بھی نہیں ملا۔

ان کے منہ سے یہ بات سن کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ہم والدین کی خدمت سے مراد صرف یہ لیتے ہیں کہ وہ آخری عمر میں بیمار ہوں اور بیماری میں اس حد تک گھر جائیں کہ انکا چلنا پھرنا کھانا پینا حتیٰ کے حوائج ضروریہ بھی دوسروں کی ذمہ داری بن جائے اور تکلیف اٹھانے کے بعد جب وہ اس دنیا سے چلے جائیں تب ہمیں سکون حاصل ہوتا ہے کہ ہم نے والدین کی خدمت کا حق ادا کردیا ۔

کیا والدین کی خدمت صرف اسے ہی کہتے ہیں؟
ہمارا دین تو والدین سے حسن سلوک کا حکم دیتا ہے ان سے نرم رویہ رکھنے کا حکم دیتا ہے ۔
اور والدین کی خدمت تو اور بھی بہت طرح ہوتی ہے۔
روزانہ صبح اٹھ کر کام پر جانا اور رزق کمانا بھی خدمت ہی ہے۔
والدین سے ان کی زندگی میں ہی اچھا رویہ رکھنا ان کی قدر کرنا اہم ہے نہ کے ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد افسوس کرنا کہ ہم ان کی خدمت نہ کرسکے۔

ضروری نہیں کہ والدین جب بستر مرگ پر ہی ہوں تب ہی ان کو ہماری خدمت کی ضرورت ہو۔۔باپ جب دھوپ سے گھر واپس آئے تو اسے پانی پلادینا بھی اتنا ہی ثواب ہے جتنا بیماری کی حالت میں اپنے ہاتھ سے اس کے پیر دھونا۔

اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا۔ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی ومحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا۔ اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پرودگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری  پرورش کی ہے ۔۔۔۔۔ (سورہ بنی اسرائیل 23،24،)۲


* حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کرنے کے لئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس شخص نے کہا : (الحمد للہ) دونوں حیات ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا : کیا تو واقعی اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کا طالب ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے والدین کے پاس جا اور ان کی خدمت کر۔ مسلم

* ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا: میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کو ن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا باپ۔ بخاری