Friday 15 May 2015

زندہ دلان کراچی


کراچی کے بارے میں لکھنے کو قلم اٹھاتا ہوں تو قلم روشنائ کے بجائے خون اگلتا ہے ہمیشہ ہی جب میں شہر سے باہر جاتا ہوں تو ایک سوال جو مجھ سے یہ جاننے کے بعد ضرور کیا جاتا ہے وہ یہ کہ کراچی میں تو حالات بہت خراب ہیں ہر روز ہی کچھ نہ کچھ ہورہا ہوتا ہے اور میرے پاس کوئ جواب نہیں ہوتا میں خاموش ہوجاتا ہوں شرمندگی سے سر جھکا لیتا ہوں کہ میرے پاس اس بات کا کوئ جواب نہیں ہوتا واقعی میڈیا پر ہر روز ہی کراچی کے حوالے سے کوئ نہ کوئ منفی خبر ضرور ہوتی ہے۔

سنہ دوہزار چودہ میں(2014) صرف کراچی میں مختلف واقعات میں دوہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یاد رہے کہ یہ صرف قتل و غارت گری کی وارداتوں کے اعداد و شمار ہیں جن میں ٹارگٹ کلنگ سر فہرست ہے لوٹ مار اور دیگر واقعات میں مارے جانے والوں کی تعداد اسکے علاوہ ہے۔

اس سال یعنی دوہزار چودہ میں ہی چالیس ہزار سے زائد لوٹ مار کے واقعات ایسے ہیں جو پولیس کے ریکارڈ میں درج کئے گئے جن میں سرفہرست رہزنی یعنی گن پوائنٹ پر موبائل فون اور نقدی وغیرہ چھیننے کے واقعات ہیں اسکے علادہ گاڑیاں 
اور موٹر سائکلیں چھیننے کے واقعات ہیں۔

اغوا برائے تاوان، زنا بالجبر اور اجتماعی زیادتی جیسے مکروہ واقعات کا تذکرہ اگر کیا جائے تو یہ فہرست مزید لمبی ہوتی چلی جائے گی

جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے کراچی کو آگ وخون میں گھراہوا ہی دیکھا ہے اس شہر میں کبھی بھی آپ کے ساتھ کسی قسم کی واردات ہوسکتی ہے گن پوئنٹ پر آپ کا موبائل یا گاڑی چھینی جاسکتی ہے یابزور بندوق آپ کے اے ٹی ایم سے منچاہی رقم نکلوائ جاسکتی ہے یا گھر میں گھس کر واردات ہوسکتی ہے اور سب سے تکلیف دہ بات کہ یہ لٹیرے اپنی کارروائ مکمل کرنے کے بعد آرام سے نکل جاتے ہیں اور آپ کی کوئ سنوائ نہیں ہوتی سنوائ ہوبھی جائے حل کوئ نہیں نکلتا نا ہی یہ سب بند ہوتا ہے۔

اسکا ذمہ دار کون ہے اوریہاں حالات بہتر نہ ہونے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں یہ میرا موضوع نہیں یہ بالکل بھی کوئ سیاسی مضمون نہیں ہے۔

شہر قائد کبھی لسانی فسادات کی گردش میں رہا اور یہاں کی سڑکوں پر مسلمانوں کے ایک دوسرے کا قتل عام صرف اس وجہ سے کیا کہ سامنے والا کوئ دوسری زبان بولنے والی وقوم سے تعلق رکھتا تھا کبھی اردو بولنے والوں کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی پشتو کبھی بلوچی تو کبھی سندھی ہر کوئ ایک دوسرے پر اپنی حق تلفی کا الزام لگاتا رہا اور اپنا اور دوسروں کا خون بہاتا رہا۔

کبھی یہ شہر مذہبی فسادات کی لپیٹ میں رہا شیعہ سنی آپس میں دست وگریبان رہے کبھی شیعہ امام بارگاہوں میں لاشیں گرتیں تو کبھی سنی مساجد میں نمازیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا پھر دونوں جماعتوں کو عقل آگئ اور یہ کھلم کھلا لڑائ بند ہوئ ہوتا اب بھی ایسا ہی ہے اور زیادہ تر بیچارے شیعہ حضرات نشانہ بنتے ہیں سنی بھی بچے ہوئے نہیں ہیں لیکن اب ایک دوسرے پر الزام تراشیاں نہیں کرتے بلکہ کسی بیرونی ہاتھ کو اسکا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور حقیقت بھی شاید یہی ہے۔

اگر کسی کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ کراچی انکا ہے تو اسکا ثبوت پیش کرنے کیلئے وہ کراچی بند کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ آج بھی ہم ساڑھے سات منٹ میں پورا شہر بند کرواسکتے ہیں اگر کروالیتے ہیں تو کوئ کمال نہیں کرتے وہ ایک مزدور جو صبح روزی کمانے نکلتا ہے اور شام کو آپ کی وجہ سے خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے وہ ان خالی ہاتھوں سے آپ کیلئے تالیاں نہیں پیٹتا بلکہ وہی ہاتھ اٹھا کر آپ کیلئے بد دعا کرتا ہے۔

ہر کسی کا جس کا جہاں جہاں زور چلتا ہے وہ اپنا زور دکھانے کو وہاں کے مزدوروں کو خالی ہاتھ گھر لوٹاتا ہے کاروبار بند کرواتا ہے کچھ گھروں میں چولہا نہیں جل پاتا تو کیا ہوا انکا زور تو ثابت ہوجاتا ہے۔

سوگ ، ہڑتالیں ،احتجاج، ریلیاں ،جلسے جلوس اور سڑکیں بند کرنا اور اسکے نتیجے میں پولیس اور عوام کا تصادم اور دنگا فساد اسکے علاوہ ہے جو عام شہریوں کیلئے ہمیشہ ہی تکلیف کا باعث بنتا آیا ہے۔

ان جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کے دوران جو املاک کو تقصان پہنچتا ہے وہ الگ کتنی ہی گاڑیاں ،منی بسیں،ٹرک، ٹرالر، دوکانیں، پٹرول پمپس اسکے علاوہ ہزاروں ٹائر اور فرنیچر ایسا ہے جو اس شہر کی سڑکوں پر جل کی خاک ہوا ہے۔ 

ملک کی سب بڑی جامعہ میں ان سب واقعات کی وجہ سے طلباء کا پورا تعلیمی سال برباد ہوجانا کوئ اچھنبے کی بات نہیں آئے دن ہونے والے طلبا تنظیوں کے مابین تصادم اور جامعہ میں ہمہ وقت رینجرز کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ہار مان چکے ہیں۔

ان سب کے علاوہ آئے دن ہونے والے بم دھماکے الگ ہیں جن میں ایک بہت زور دار دھماکے کے ساتھ ہی بہت کچھ ختم ہوجاتا ہے سینکڑوں مر جاتے ہیں اتنے ہی زندگی بھر کیلئے اپاہج ہوجاتے ہیں لاکھوں روپے کی املاک مٹی میں مل جاتی ہے بیسیوں لوگ کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

کراچی کی مٹی کی بلاتخصیص بچہ بوڑھا، عورت مرد، کالا گورا، امیر غریب، جاہل عالم، سب کے خون سے سینچائ ہوئ ہے کہتے ہیں کراچی کی مٹی ذرخیز نہیں یہاں پھل پھول نہیں کھلتے سبزہ نہیں ہوتا بھلا جس شہر کی مٹی میں خون کی ملاوٹ اتنی زیادہ ہو وہاں کون سا پھل پیدا ہوگا سوائے نفرت کے اور کون سا پھول کھلے گا سوائے قبر پر ڈلنے والے گلاب کے۔ 

اس شہر کی زندگی میں کب کیا ہوجائے کچھ اندازہ نہیں صبح آپ گھر سے نکلیں تو شام میں گھر واپس آسکیں یہ ضروری نہیں یا رات کوسوئیں تو پتہ نہیں ہوتا کہ صبح کیا حالات ہوں ہوا کس رخ چلے کوئ نہیں بتا سکتا ایک "ان سرٹین" زندگی ہے۔

کراچی کے حالات کے پیش نظر زمبابوے کی کرکٹ ٹیم جہاں خود خانہ جنگی کے حالات ہیں دورہ کرنے سے منع کردیتی ہے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم تو ایک طرف ملک کے وزیر اعظم سمیت بڑے بڑے سیاستدانوں کے سامنے جب دورہ کراچی کی بات آتی ہے تو کراچی کے محاورے کے مطابق " خوف سے پھٹ کے ہاتھ میں آجاتی ہے"

اس شہر میں اتنا سب کچھ ہوتا رہا ہے، ہورہا ہے اور میری دعا ہے کہ ایسا ہوتا نہ رہے لیکن پھر بھی آج بھی کراچی ہی پورے ملک کا آدھے سےرزق پیدا کررہا ہے آج بھی اس شہر میں نئے روزگار کے مواقع موجود ہیں، آج بھی شہر کی سڑکوں پر نئے ماڈل کی گاڑیاں چل رہی ہیں۔

اتنا سب کچھ ہوتا ہے لیکن آج بھی یہاں کے رہائشی ہنستے ہیں مسکراتے ہیں خوشیاں بھی مناتے ہیں، آج بھی ہمارے شہر کے پارکوں میں رش ہوتا ہے بچے بوڑھے سب ہی موجود ہوتے ہیں۔

اتنا سب کچھ ہوتا ہے لیکن ہمارے چائے خانوں پر آج بھی رش ہے، سینما ہال آج بھی ہاؤس فل ہوتا ہے، نئے شاپنگ مال آج بھی بن رہے ہیں اور چل بھی رہے ہیں لوگ خریداری کر رہے ہیں آج بھی آپ ہفتہ اور اتوار کو کسی ریسٹورنٹ میں کھانے کی غرض سے جاتے ہیں تو لکھوا کر لے لیجئے کہ آپ بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ پہنچتے ہی آپ کو بیٹھنے کی جگہ مل جائے۔

اتنا سب کچھ ہوتا ہے لیکن ہفتہ کی رات کو ساحل سمندر پر موٹر سائیکل کی ریس اب بھی لگتی ہے، پورے شہر سے ہفتہ بھر کی تھکن ختم کرنے لوگ اپنے بال بچوں کے ساتھ ہفتہ کی رات کلفٹن کے ساحل پر بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں کراچی کی سڑکوں پر نوجوان آپ بھی نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کرتے ہیں۔

آپ شاید یہ سوچیں کہ کراچی کی عوام بے حس ہوچکی ہے یہ بے حسی نہیں کراچی زندہ دلوں کا شہر ہے ہم نے مشکل حالات میں جینا سیکھ لیا ہے ہمارے پاس کوئ دوسرا آپشن موجود نہیں یہ تحریر کراچی کی عوام کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ادنیٰ سی کوشش ہے جو نہایت کٹھن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔

کراچی واقعی زندہ دلوں کا شہر ہے۔

فیضان قادری

Sunday 10 May 2015

کیا آپ کی شادی نہیں ہورہی؟


(صرف لڑکیاں پڑھیں)

کیا آپ کی شادی نہیں ہورہی؟

کیا آپ کو اپنی پسند کا شریک زندگی نہیں مل رہا؟
یا کیا آپ ابھی تک اپنے خوابوں کے شہزادے کا انتظار کر رہی ہیں؟
اگر ایسا کچھ بھی ہے تو آپ کیلیۓ خوش خبری ہے آپ کی رکی ہوئ شادی ہوسکتی ہے

آپ کو اپنا من پسند جیون ساتھی بھی مل سکتا ہے

اور آپ کے خوابوں کا شہزادہ سفید رنگ کے گھوڑے پر سوار اڑتا ہوا آپ کی والدہ ماجدہ سے آپ کا ہاتھ مانگنے آسکتا ہے لیکن کیسے؟؟

اتنی بے صبری اچھی نہیں تھوڑا سا انتظار اور کیجئے اور آگے پڑھتی جائیے۔

ہمارے ملک کی تقریبا تمام ہی ماؤں کا ارمان ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اونچے گھرانے میں کسی اچھا خاصا کمانے والے لڑکے سے کردیں کچھ لڑکیاں تو کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں ہی کوئ ایسا لڑکا "سیٹ" کرلیتی ہیں جو بعد میں "شوہر" بنایا جا سکے اور جو بچ جاتی ہیں انکے لیۓ ایسے کسی "شکار" کیلیۓ اچھے خاصے جتن کئے جاتے ہیں اور اس کے حصول کیلیۓ خاندان اور محلے پڑوس کی عورتیں بھی اس جتن میں شریک ہوتی ہیں بعض مرتبہ رشتے لگانی والیوں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں یہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی کبھی کوئ اچھا اور مناسب رشتہ نہیں مل پاتا اور لڑکیاں گھر بیٹھی رہ جاتی ہیں اب کیا کریں؟ پریشان نہ ہوں یہ تحریر انکے ہی لئے ہے۔

اگر آپ بھی ان میں سے ہیں جو ابھی تک گھر بیٹھی ہیں اور خواب بن رہی ہیں اور جلد از جلد اپنا گھر بسانا چاہتی ہیں تو آپ مجھ سے دوستی کر لیجئے۔

اتنی جلدی تنیجہ نہ نکالئے میرا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنا رشتہ آفر کررہا ہوں بقول شخصے میں تو ان لوگوں میں سے ہوں جو گول گپے والے سے دوبار کھٹائ بھی نہیں مانگ سکتے کسی لڑکی کا ہاتھ کیا مانگیں گے۔

خیر بات کہیں اور چلی جائے گی تو میں یہ کہ رہا تھا کہ اگر آپ ان میں سے ہیں جو ابھی تک گھر بیٹھی ہیں تو آپ مجھ سے دوستی کرلیں اور کوشش کریں کہ کسی طرح میرے دل میں آپ سے شادی کرنے کا خیال پیدا ہوجائے تو آپ کی والدہ ماجدہ کو پسند کا رشتہ بھی مل جائے گا یا آپ کے خوابوں کا شہزادہ آسمان سے نازل ہوجائے گا میرا یقین کیجئے۔

اب میں نے بات کی ہے تو ثابت بھی کرنا ہوگا یعنی کہ پروف دینا ہوگا تو اسکے لیے تھوڑا سا ماضی میں چلتے ہیں۔

یہ تب کی بات ہے جب ہم کالج میں تھے اور ہمارے ساتھ ایک بڑی "کیوٹ" سے لڑکی بھی پڑھا کرتی تھی شیکسپئر نے کہا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے تو نام نہیں بتاتا لیکن ساتھ پڑھتے پڑھتے بات دوستی تک پہنچی اور جب میں نے کالج سے فارغ ہونے کے بعد اگلے دس سالوں کی پلاننگ کرنا شروع کی تو ایک دن مجھے بتایا گیا کہ کالج کے فورا بعد یہ اسکی شادی ہونے والی ہے انکے ابا کے کوئ بچپن کے بھٹکے ہوۓ دوست کہیں سے واپس آگئے اور انکو اس لڑکی میں اپنی بہو نظر آگئ اور کچھ دنوں میں وہ اسے بیاہ کر لے گئے کچھ عرصہ کے بعد راہ چلتے وہ مجھے ملی اور بقول شاعر

دل کے ارماں آنسؤں میں بہ گئے
انکے بچے آج ہمیں ماموں کہ گئے


یہ تو ہوا ماضی کا واقعہ اب کچھ حال میں آجاتے ہیں.

چند سال پہلے سوکھی سوکھی نوکری کرتے کرتے دل میں خیال آیا کہ کچھ کاروبار بھی کیا جائے بہت سوچ بچار کے بعد ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک بوتیک کھول لیا خواتین کا کام تو ساتھ کوئ خاتون بھی ہونی چاہئیں کسی کے ریفرنس سے ایک صاحبہ نے ہمیں جوائن کیا جو کہ تجربہ کار بھی تھیں یعنی اس سے پہلے اپنے کپڑے خود ڈیزائن کیا کرتی تھیں ویسے تو محترمہ "لوکل" تھیں لیکن سٹائل اور رکھ رکھاؤ میں کافی "ہائ فائ" انکا واحد مسئلہ یہ تھا کہ انکی انگریزی عامر خان کے الفاظ میں "تھڑکی دیر چلے پھر لول ہوئ جائے" کبھی کبھی انکو کوئ بات سمجھائ جاتی تو کہتیں

" کہ مجھ میں اتنی "مچیورنس" تو ہے کہ میں یہ بات خود بھی سمجھ سکتی ہوں"

بحرحال بات کہیں اور نکلتی جارہی ہے ساتھ کام کرتے کرتے بہت سی باتیں انہوں نے خود ہی بتا دیں مثلا یہ کہ انکی شادی ہوچکی تھی پھر طلاق ہوگئ وجہ یہ تھی کہ جن سے شادی ہوئ تھی وہ برادری کے نہیں تھے اوپر سے عمر بھی کچھ زیادہ تھی اور شائد کچھ نفسیاتی بھی تھے گھر میں بیٹھ بیٹھ کر ڈیپریشن ہورہا تھا تو گھر والوں نے کام پرلگنے کا مشورہ دیا یہ محترمہ اپنے کام میں تیز تھیں پورا دن انٹرنیٹ پر بیٹھ کر ڈیزائن نکالتی رہتیں اور چار پانچ ڈیزائن ملا کر ایک اور نیا ایجاد کرتیں بولنے کی بہت شوقین اور انکا پسندیدہ موضوع اپنے سابق شوہر کی برائیاں کرنا اور اسکی کسی طرح ایک بار پٹائ کرنے کی پلانگ کرنا تھا انہوں نے ایک سوا سال کی شادی شدہ زندگی کی اسقدر تفصیل بار بار بتائ کہ ہمیں واقعات مع کرداروں کے یاد ہوگئیں خیر اتنا کچھ جان جانے کے بعد ہمارے دل میں بھی نرم گوشہ پھوٹ ہی گیا اور ہم نے انکے ساتھ مل کر کئ مرتبہ اس کارروائ کو عملی جامہ پہنانے کی پوری نیک نیتنی سے پلاننگ کی اور ساتھ ہی انکا ضبط شدہ جہیز کا سامان اور گاڑٰی بازیاب کرانے کیلیے علاقے کے غنڈے مدمعاشوں سے معاملات بھی طے کرنے کی کوشش کی خیر یہ الگ بحث ہے کہ نتیجہ کیا نکلا جو بھی نکلا ہو چونکہ دل میں نرم گوشہ پھوٹ پڑا تھا تو ہم نے انکو اس بات پر آمادہ کرنا شروع کیا کہ یہ سب جھنجھٹ چھوڑ کر دوبارہ شادی کرلیں جیسا کہ گھر والے بھی چاہتے ہیں اور جب وہ اپنی اس ضد سے کہ اب وہ زندگی بھر دوبارہ شادی نہیں کریں گی دستبردار ہوگئیں تو میں نے محترمہ سے اپنا مدعہ بیان کرنے سے پہلے اپنی والدہ ماجدہ سے اس بات کو کرنے کا سوچا اور ابھی میں کسی مناسب موقع کی تاک میں ہی تھا کہ ایک دن وہ آئیں اور آتے ہی ہولیں کہ "بھائیو" آپ لوگ یہاں کیلئے کسی اور کو دیکھ لومیری شادی ہورہی ہے اور شادی کے بعد میں کام نہیں کرسکوں گی "ان کو" پسند نہیں ہے اس سے پہلے انہوں نے ہم میں سے کسی کیلئے بھائ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا اس کے بعد وہ تقریبا ایک مہینہ ہمارے ساتھ رہیں اور اس دوران اپنی شادی کے کپڑے ڈیزائن کرتی رہیں اور پھر شادی کرکے چلی گئیں ہم بھی مدعو تھے اور افسوس کی بات ہے کہ گئے بھی۔

یہ تو ہوگئے دو واقعات اب ایک تیسرا بھی سن لیجئےکہ تین سے سند رہتی ہے اسی لئے شائد نکاح کے وقت بھی تین مرتبہ قبول ہے قبول ہے اگلوایا جاتا ہے تاکہ بعد میں دونوں میں سے کوئ مکر نہ سکے خیر چلئے ہماری۔

اب یہ بالکل لیٹسٹ ہےہماری ایک دور کی رشتہ دار ہیں ہم سے کوئ پانچ سات سال عمر میں بڑی ہونگی شادی نہیں ہوئ اب تک پہلے پہل رشتے آتے تھے تو انکی طرف سےکوئ نہ کوئ نقص نکال کر انکار ہوجاتا  نتیجہ یہ ہوا کہ رشتے آنا ہی بند ہوگئے بڑھتی عمر کی وجہ سے اماں الگ پریشان رہنے لگیں باقی بھائیوں کی بھی شادیاں ہوگئیں ہم بھی اب ایسے کوئ بچے نہیں رہے ایک دن سوچا کہ چلو ثواب کی نیت سے ہی رشتہ بھیج دیں اور ان سے شادی کرکے نکاح کے علادہ ثواب کا مزہ بھی چکھ لیں ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اڑتی اڑتی خبر آئ کہ موصوفہ کا رشتہ آیا ہے آج ہم تانک جھانک کی نیت سے پہنچے تو دیکھا کہ گھر میں ڈھولک پٹ رہی ہے اور انکا مایوں چل رہا ہے سنا ہے ہونے والے میاں کہیں بیرون ملک مقیم ہیں تو شادی کے فورا بعد یہ بھی چلی جائیں گی۔

ان تین پر ہی بس نہیں گلی محلے کی کون سی ایسی لڑکی بچی ہے جس پر ہم نے اتفاق سے بھی نظر اتلفات ڈالی ہو اور ایک ہی ہفتہ میں گھر پر ڈھولک نہ بجی ہو اب یا تو ہماری ٹائمنگ خراب ہے یا کوئ اور وجہ لیکن یہ بات تو طے ہے آج ہم نے اپنا ٹیلنٹ ڈھونڈ لیا ہے۔

بطور آزمائش ہی کوشش کردیکھیں کیا پتہ بھلا ہوجائے۔



Friday 8 May 2015

خالو

دوران گفتگو ہمارے ایک خالو کا ذکر آیا تو سوچا کچھ باتیں ان کی شخصیت پر بھی کرلی جائیں ایسے خالو کسی کےبھی ہوسکتے ہیں کہ خالو پر کسی کا زور نہیں چلتا اور ہمارے خالو پر تو خالہ کا بھی نہیں چلتا۔
خالو کے والد صاحب جوکہ شاید مغل بادشاہوں کے بہت بڑے فین تھے انکا نام سید جلال الدین محمد اکبر رکھا دوسرے بیٹے کا نام جہانگیر رکھا گیا مزید انکا کوئ بیٹا نہ ہوا ورنہ یہ سلسلہ یقینا بہادر شاہ تک جاتا۔
بیٹیوں میں البتہ انہوں نے اردو نثر سے متاثرہ ناموں کی ترویج کی نجم السحر خاتون، رفعت جہاں، شوکت آرہ سنجیدہ، عشرت آرہ، جمیلہ، شکیلہ، نزہت پروین، انجم آرا، صاحبزادی، کلثوم بیگم اور دیگر کسی اورنگزیب عالمگیر کو دنیا میں لانے کی کوشش کے دوران بس پیدا ہوگئیں۔
بات یہاں وہاں ہواس سے پہلے اسے واپس خالو کی طرف واپس موڑنا ضروری ہے خیر اپنے نام کی طرح خالو بہت جلالی واقع ہوئے اتنے کہ غصہ ہر دم ناک پر رہتا ہے اور اللہ میاں نے انکو ناک بھی بہت لمبی عطا کی ہے تو تادیر وہاں ٹکا رہتا ہے بہت آصولی آدمی ہیں کوئ بات مزاج کے خلاف یا کوئ چیز اس جگہ نہ ملے جہاں وہ ہونی چاھئے تھی تو بس غصہ چڑھنا شرورع اور بات چیت بند۔
عادات کے اتنے پکے ہیں کہ جیسے وہ صبح ناشتے میں رات کی باسی روٹی چائے میں توڑ کر کھاتے ہیں اور ایسا بچپن سے کرتے آرہے ہیں تو اپنی شادی کی اگلی صبح بھی انہوں نے یہی ناشتہ کیا۔
صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں چاہےدنیا ادھر سے ادھر ہوجائے گرمیوں میں جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو چونکہ سورج جلدی نکل آتا ہے اور انکے اٹھنے کا وقت نہیں ہوا ہوتا تو سحری نہیں کرتے پتہ نہیں روزہ کیسے رکھ لیتے ہیں کیوں کہ دوپہر بارہ بجے انکےکھانے کا وقت طےہے۔


رات آٹھ بجے وہ گھر سے نکل جاتے ہیں اور جا کر گھر سے کچھ دور چوک پر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ وہ بچپن سے وہاں بیٹھتے آرہے ہیں پہلے شروع میں انکے کچھ دوست وغیرہ بھی بیٹھا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ سب ہی مصروف ہوتے گئے اب سنا ہے کہ اکیلے بیٹھتے ہیں اور اپنا ایک گھنٹہ وہاں گزار کر گھر واپس آجاتے ہیں اب چاہے بارش ہو یا حالات خراب اس ایک گھنٹے کے دوران آپکو ان سےملنا ہو وہیں ملیں گے۔
اپنے بسترپر ہیں سوئیں گے کہیں بھی اور نہیں انکے لڑکپن میں انکی چھوٹی بہن شوکت آرا سنجیدہ انکے بستر پر سوگئیں یہ انتظار کرتے رہے کہ انکے سونے کا وقت ہو اس سے پہلے وہ خود اٹھ جائیں یا کوئ اٹھا کر انکی جگہ تبدیل کردے لیکن جب یہ نہ ہوا اور انکے سونے کا وقت قریب ہونے لگا تو انکو گود میں اٹھا کر دوسرے کمرے میں فرش پر پھینک آئے انکی اپنی شادی کے موقع پر جب خاندان کے ایک بزرگ انکے بستر پر لیٹ کر سوگئے تو پوری رات چھت پر کرسی ڈال کر بیٹھے رہےکہ انکو اٹھا کر پھینک نہیں سکتے تھے حالانکہ دل یہی چاہتا ہوگا یہاں تک کے انکے اٹھنے کا وقت ہوگیا۔
گھر میں استعمال کی کوئ بھی مشین جیسے گرائنڈر، جوسر، پانی کی موٹر وغیرہ اگر خراب ہوجائے تو خود ٹھیک کریں گے چاہے وہ کتنی ہی ضروری استعمال کی چیز ہو اور انکو وقت نہ مل پارہا ہو اگر باہر کے کسی مکینک سے مرمت کرالی گئ تو حرام ہے کہ اس کا خود استعمال کریں یا اسکے استعمال سے کسی قسم کا فائدہ اٹھا لیں سالوں پرانی بات ہے گھر کی پانی موٹر خراب ہوگئ تو اسکی مرمت باہر سے کسی مستری کو بلا کر کرالی گئ تو کئ سال تک ٹینکی میں ڈول ڈال کر پانی نکالتے اور استعمال کرتے سالوں ایسا ہی کرتے رہے جب عمر کے ساتھ ہڈیوں میں جان کم ہونے لگی اور بالٹی بھرنا دوبھر ہونے لگا تو اپنی اس ضد سے باز آئے۔
جب بچے چھوٹے تھے تو اکثر رات میں کسی ضرورت سے خالہ کمرے کی بتی جلایا کرتیں جس سے انکی نیند میں خلل پڑتا روز خالہ سے تلخ کلامی ہوتی کہ انکی نیند خراب ہورہی ہے اور انکو خیال نہیں کسی روز خالہ نے جواباً شاید کہ دیا کہ آپ کیسے باپ ہیں اپنے بچے کیلئے تھوڑی سی نیند خراب کرنا گوارہ نہیں آخر کیسے وہ اندھیرے میں تمام کام انجام دیں اس بات سے انکو اتنا غصہ چڑھا کہ آج تک رات میں آنکھوں پر پٹی چڑھا کر اور بتی جلا کر سوتے ہیں شروع میں جب خالہ اپنے کام ختم کرکے بتی بجھا دیتیں تو اٹھ کر دوبارہ جلادیا کرتے آہستہ آہستہ کئ سالوں میں یہ عادت چھوڑ دی۔
شروع میں سگریٹ نوشی کے عادی تھی اور روزانہ ایک ڈبیا سگریٹ پینا لازم تھا اگر دن بھر میں پورا پیکٹ ختم نہ ہوتا تو رات سونے سے پہلے پے درپے سگریٹ پھونکتے اور سونے سے پہلے پورا پیکٹ ختم کرتے اصولی آدمی ہیں ایک دن سوچ لیا کہ کل سے سگریٹ نہیں پئیں گے بس جس دن یہ سوچا اس دن اتنی تبدیلی آئ کہ رات سونے سے پہلے تک انہوں نے دو ڈبے سگریٹ ختم کئے اور اسکے بعد سے آج تک دوبارہ کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔
انکے اصول کے خلاف ہے کہ چاہے کچھ ہوجائے کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گے دیسی طریقے سے اپنا علاج خود کریں گے ایک مرتبہ گرمی میں چھت پر چڑھے عین دوپہر کے وقت کس کام میں لگے ہوئے تھے لو لگنے سے بے ہوش ہوگئے گھر والے اٹھا کر ہسپتال لے گئے جونہی ہوش میں آئے اور خود کو وہاں پایا غصے میں ڈرپ کھینچ کر نکالی اورپیدل ہی گھر روانہ ہوگئے۔
ہمیشہ ایک ہی درزی سے کپڑے سلواتے ہیں ایک ہی ڈیزائن کی چپل پہنتے ہیں اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سب کی خریداری ایک ہی دوکان سے نہ کرتے ہوں جی ہاں بالکل ممکن نہیں ہے۔
پوری زندگی استرے سے شیو بناتے آئے ہیں کہ جب شیو بنانا شروع کیا اس وقت یہی اوزار استعمال کیا تھا۔
یہ تو کچھ باتیں ہوگئیں پختہ عادات کی اس کے علادہ کچھ اور باتیں بھی انکی شخصیت میں قابل ذکر ہیں۔
پرانی چیزوں سے لگاؤ اس قدر ہے کہ کوئ بھی چیز استعمال کے بعد پھینکنے کے قائل نہیں انکا یقین ہے کہ 
ع نہیں کوئ چیز نکمی زمانے میں
شاعر نے تو یہ بات بس یونہی کہ دی لیکن اسکا عملی مظاہرہ اگر وہ خود دیکھ لیتے تو اپنے اس شعر سے دستبرداری کا اعلان باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے کرتے کہ خدا کہ قسم میرا اس شعر سے وہ مطلب نہیں تھا جو انہوں نے لیا ہے۔
انکے گھر کی چھت پر ایک کمرہ ہے اب اسمیں داخلے کہ جگہ ختم ہوچکی ہے اسمیں ہر وہ چیز جو شاید ریسائیکل ہو سکتی ہے سینت کر رکھی ہوئ ہے بعض چیزیں دیکھ کر سوال خود بخود پیدا ہوجاتا کہ انکا کیاکام مثلاً دیوار پر چابیوں کا ایک بڑا گچھا ٹنگا ہوا ہے جس میں تقسیم ہند سے قبل بننے والے تالوں کی جو اپنی زندگیاں پوری کرکے کب کے مٹی میں مل چلے ہیں انکی بھی چابیاں محفوظ ہیں کم از کم ایک ہزار زنگ آلود چابیاں لٹکی ہوئ ہیں کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں اگر سڑک پر چلتے ہوئے انہیں کوئ چابی گری ہوئ مل جاتی اٹھا کر گھر لے آتے اور لاکر اسی گچھے کا حصہ بنا دیتے کہ شاید کبھی کام آجائے لیکن کبھی گھر کا کوئ تالا کھلوانا ہو تو باہر سے تالے چابی والے کو بلایا جاتا ہے مبادہ استعمال سے کوئ چابی ٹوٹ جائے اور اس خزانے میں سے ایک چابی کم ہوجائے۔ ایک کونے میں ایک ریک رکھا ہے اس پر اوپر نیچے تمام جگہ شیشے کی خالی بوتلیں اور مرتبان رکھے ہوئے ہیں اور اپنی قسمت کو رو رہے ہیں ان میں کئ کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے یہ تو ایک طرف رہی انکی ایک بہن کینیڈا میں مقیم ہیں کئ سال پہلے جب وہ پاکستان آئیں تو پینے کیلئے منرل واٹر کی بوتلیں استعمال کرتی رہیں اور یہ ان بوتلوں کو جمع کرتے رہے یہاں تک کہ تمام بوتلیں اوپر کمرے میں پہنچ گئیں انکے جانے کے بعد یہ خبر ان تک پہنچی تو اب وہ یہ کرتی ہیں کہ جب بھی آتی ہیں خالی ہوجانے والی بوتلوں کو ہاتھ کے ہاتھ ٹھکانے لگاتی رہتی ہیں اور جمع کرنے کا موقع نہیں دیتیں۔
ایک ٹرنک میں گھر کے تمام پرانے لحاف گدے تکیے موجود ہیں، گھر میں سالوں پہلے جو فرج آیا تھا اسکا ڈبہ بھی سنبھال کر رکھا ہوا ہے زمانے کی ہوا اور دھوپ لگنے سے وہ تقریباً برادا بن چکا ہے کہ ہاتھ لگانے سے چھڑنے لگتا ہے اس لئے اسے اب کوئ ہاتھ نہیں لگاتا۔
گھر کی پرانی چوکھٹیں جو دیمک لگنے کہ وجہ سے نکال دی گئ تھیں آج بھی چھت پر رکھی ہوئ ہیں سال چھ مہینے میں ان پر دیمک مار سپرے کرتے ہیں کہ شاید اس طرح وہ قابل استعمال ہوجائیں۔
بڑے بیٹے کی شادی پر جو پھول کمرہ سجانے کیلئے استعمال کئے گئے تھے وہ ایک ٹوکرے میں رکھ کر اسی کمرے میں رکھ آئے تھے آج بھی اسی طرح رکھا ہوا ہے پھول مرجھاگئے اور اس حجلہ عروسی میں ہونے والے واقعات کے نتیجے میں جنم لینے والے بچے اب بستے لٹکا کر سکول جانے کی عمر کو پہنچے حال یہ ہے ٹوکرے کے پھول اب بھی رکھے ہوئے ہیں بالکل برادہ ہوچکے ہیں اور کمرے کا دروازہ کھولنے پر ہوا کے دباؤ کے باعث اڑتے رہتے ہیں لیکن وہ پھینکنے پر رضامند نہیں۔
اسی کمرے میں ایک سیمنٹ کی بوری میں استعمال شدہ سکرو اور کیلیں جمع ہیں جو نصف صدی سے جمع ہوتے ہوتے اب بوری کہ منہ تک آچکی ہیں اسی کمرے میں سیمنٹ کی وہ خالی بوریاں بھی موجود ہیں عرصہ بیس سال قبل گھر کا فر ش پکا کرانے میں استعمال ہوئ تھیں۔
خالو کی عادات اور انکی شخصیت پر بات تو بہت ہوسکتی ہے لیکن وقت اجازت نہیں دیتا
ع وقت ہوا تمام مدح باقی ہے
سوچتا ہوں کہ اگر وہ ایک عام ہی زندگی گزار رہےہوتے تو کچھ بھی ایسا دلچسپ وجود میں ہی نہ آتا اللہ خالو کی عمر دراز کرے کبھی دوبارہ باقی بچ جانے والے واقعات ذکر کرونگا۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ اگر یہ کسی اور کے پاس بھی ایسے خالو ہیں تومجھے ضرور مطلع کریں مجھے ایسے 
دوسرے انسان کو دیکھنے کابچپن سے اشتیاق ہے