tag:blogger.com,1999:blog-55284248332705477622024-02-02T14:31:26.272+05:00متاعِ لوح و قلمہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گےFaizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.comBlogger40125tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-51227457068436333682018-01-28T02:13:00.001+05:002018-01-28T02:13:44.272+05:00Let's Travel- Karachi se Lahore<iframe allowfullscreen="" frameborder="0" height="270" src="https://www.youtube.com/embed/dAmJl_9Q9YQ" width="480"></iframe>Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-17733629320997171132017-12-12T12:21:00.002+05:002017-12-12T12:52:10.400+05:00سرکاری نوکری<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
گریجویشن کے بعد میں فارغ تھا جب ابا کی طبیعت خراب ہوئ میں نے ایم بی اے کا ارادہ فی الوقت موخر کردیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
ابا کی طبیعت بگڑتی گئ اور وہ چھٹی لیکر کبھی ہسپتال اور کبھی گھر میں پڑے رہتے۔</div>
<div style="text-align: right;">
دن گزرتے گئے اور ایک صبح ابا ہمیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ گئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
ابا کے محکمے میں سرکاری سن کوٹہ میری تقرری ہوگئ۔</div>
<div style="text-align: right;">
میری خالہ میری نوکری ہونے کی مٹھائ لیکر آئیں اور کہنے لگیں "بہت مبارک ہو بیٹا تمہاری سرکاری نوکری ہوگئی آجکل ویسے بھی سرکاری نوکری اتنے آرام سے نہیں ملتی"</div>
<div style="text-align: right;">
مجھے یوں لگا جیسے مجھے سرکاری نوکری کی نہیں باپ کے مرنے کی مٹھائ کھلائ جارہی تھی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjMN1qQNI1pxUCwxYmS9VcMCELz-xVpC-bjOVQjwDZJKdD8oEdCbFcE-bZtH5CHr4lbfI9FTfg9yHKRv6SKqRe3CjU74un_xJdjN_W6kW35jtEPC8fxp-H20J-02rYSd77cSIeSZqKpNRw1/s1600/jobless.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="330" data-original-width="600" height="352" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjMN1qQNI1pxUCwxYmS9VcMCELz-xVpC-bjOVQjwDZJKdD8oEdCbFcE-bZtH5CHr4lbfI9FTfg9yHKRv6SKqRe3CjU74un_xJdjN_W6kW35jtEPC8fxp-H20J-02rYSd77cSIeSZqKpNRw1/s640/jobless.jpg" width="640" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-88271885681558838362017-10-08T02:49:00.000+05:002017-10-15T23:05:10.606+05:00والدین کی خدمت<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میرے دفتر کے ایک ساتھی کی والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا، چند دن غیر حاضر رہ کر جب وہ دفتر واپس آئے تو ہم نے کہتعزیت کے بعد دریافت کیا کہ انتقال کی وجہ کیا بنی حالانکہ جس کا وقت پورا ہوگیا اسے جانا ہی ہے لیکن کوئ نہ کوئ بہانہ تو بنتا ہی ہے سو دریافت کرلیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کہنے لگے کہ کوئ بیماری وغیرہ کچھ نہیں تھی بس ایک دن ہلکا سابخار بوا اور رات میں انتقال ہوگیا۔ وجہ بتا کر غمگین ہوگئے اور کہنے لگے امی کے جانے کا غم الگ لیکن اس بات کا بہت غم ہے کہ ہمیں خدمت کا موقع بھی نہیں ملا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ان کے منہ سے یہ بات سن کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ہم والدین کی خدمت سے مراد صرف یہ لیتے ہیں کہ وہ آخری عمر میں بیمار ہوں اور بیماری میں اس حد تک گھر جائیں کہ انکا چلنا پھرنا کھانا پینا حتیٰ کے حوائج ضروریہ بھی دوسروں کی ذمہ داری بن جائے اور تکلیف اٹھانے کے بعد جب وہ اس دنیا سے چلے جائیں تب ہمیں سکون حاصل ہوتا ہے کہ ہم نے والدین کی خدمت کا حق ادا کردیا ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کیا والدین کی خدمت صرف اسے ہی کہتے ہیں؟</div>
<div style="text-align: right;">
ہمارا دین تو والدین سے حسن سلوک کا حکم دیتا ہے ان سے نرم رویہ رکھنے کا حکم دیتا ہے ۔</div>
<div style="text-align: right;">
اور والدین کی خدمت تو اور بھی بہت طرح ہوتی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
روزانہ صبح اٹھ کر کام پر جانا اور رزق کمانا بھی خدمت ہی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
والدین سے ان کی زندگی میں ہی اچھا رویہ رکھنا ان کی قدر کرنا اہم ہے نہ کے ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد افسوس کرنا کہ ہم ان کی خدمت نہ کرسکے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ضروری نہیں کہ والدین جب بستر مرگ پر ہی ہوں تب ہی ان کو ہماری خدمت کی ضرورت ہو۔۔باپ جب دھوپ سے گھر واپس آئے تو اسے پانی پلادینا بھی اتنا ہی ثواب ہے جتنا بیماری کی حالت میں اپنے ہاتھ سے اس کے پیر دھونا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا۔ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی ومحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا۔ اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پرودگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔۔۔۔۔ (سورہ بنی اسرائیل 23،24،)۲</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
* حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کرنے کے لئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس شخص نے کہا : (الحمد للہ) دونوں حیات ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا : کیا تو واقعی اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کا طالب ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے والدین کے پاس جا اور ان کی خدمت کر۔ مسلم</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
* ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا: میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کو ن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا باپ۔ بخاری</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-82294035810712713222017-09-08T00:37:00.003+05:002017-09-08T00:45:41.944+05:00ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="right" style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 20pt;">ہم ایک ایسی قوم ہیں جو زندوں کی نسبت انسان کی قدر اس وقت کرتے ہیں
جب وہ اس دنیا کو چھوڑ جاتا ہے ابھی پھچلے دنوں میرے خاندان کے دو بزرگوں کا یکے
بعد دیگرے انتقال ہوگیا اللہ جانے والوں کی مغفرت فرمائے اور انکو جوار رحمت
میں جگہ نصیب فرمائے آمین۔</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 20pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 20pt;">دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جیسے ہی کوئ انسان
دنیا سے چلا جاتا ہے تمام ہی افراد کے نزدیک وہ اس دنیا کا سب سے بہترین
نسان ہوچکا ہوتا ہےا ور اسکا ٹھکانہ جنت ہونے کی گارنٹی لوگ اسکے جنازے سے
پہلے ہی دینا شروع کردیتے ہی</span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 20pt;">ں۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 20pt;">ایک صاحب جن کا انتقال ہوا انکا جب تک زندہ تھے یہ حال تھا
کہ زندگی بھر محنت کی سعودیہ اور امارات میں تپتی دھوپ میں کام کرکے روپیہ کمایا اور یہاں بچوں کا پڑھا
لکھا کر کسی قابل کیا واپس آئے تو بھی ایک دوکان کھول کر رات دن بیٹھا کرتے رات جب
تھکے ہوئے واپس آتے تو نہ انکی بیوی نہ ہی کوئ اولاد پانی کو بھی پوچھتی۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 20pt;">میں نے کئ مرتبہ ان کو دیکھا کہ رات میں گھر سے
نکل کر سگریٹ خریدنے بھی خود ہی جارہے ہوتے انتقال سے ایک رات پہلے بھی اسی حالت
میں گھر آئے اور جو سوئے تو صبح اٹھ نہ سکے نیند میں ہی اللہ کوپیارے ہوگئے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 20pt;">تعزیت کرنے گیا تو انکا جوان بیٹا افسوس میں
آنسو بہا رہا تھا کہ میرا باپ ایسے ہی چلا گیا مجھے کوئ خدمت کا موقع ہی نہ
دیا ۔۔۔۔ہائے میں کیسا بیٹا تھا کہ جسکا
باپ مرگیا اور وہ سوتا رہا اور یہ خیال
بھی دل میں نہ آیا کہ شاید ابا کو میری ضرورت ہو ۔دل میں تو آیا کہ کہ دوں لیکن مجبور خاموش رہا کہ میاں ضروری تو نہیں کہ
باپ پلنگ پر پڑا ہو تو ہی اسکی خدمت کی جائے یعنی جب یقین ہوجائے کہ اب یہ بچنے والا نہیں تب ہی کیوں کی جائے باپ کی خدمت جب تونے دیکھا
کہ میرا باپ بوڑھا ہوگیا ہے تو کم از کم اتنا ہی کرتا کہ ان سے کہتا کہ ابا آپ نے
زندگی بھر محنت کی ہے اب آپ گھر رہ کر آرام کریں لیکن ہمیشہ یہی شکوہ سنا کہ
ابا کو تو ڈھنگ سے دوکان بھی چلانا نہیں
آتی دن کی پانچ سو کی سیل بھی نہیں کرتے ۔ <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 20pt;">دوسرے جب دنیا سے گئے تو انکی اولادیں رو رو کر
ہلکان ہورہی تھیں لیکن کہ ہم بے آسرا ہوگئے ہمارا باپ مرگیا اب ہمارا کیا ہوگا لیکن اس سے پہلے تک کسی نے انکی زبان سے اپنے باپ
کیلئے کبھی کلمہ خیر نہیں سنا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 20pt;">میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ کیوں ہم ایک ایسے
ہوگئے کہ ہماری محبت کے حقدار زندوں سے زیادہ مردے ہوگئے؟ ہم کیوں انسان کی قدر تب نہیں کرتے جب کہ وہ
زندہ ہوتا ہےا ور ہمارے محبت اور توجہ کا زیادہ حقدار ہوتا ہے؟ کیوں ہم اپنی زبان
سے اور اپنے فعل سے اس کی زندگی میں اس شخص سے محبت کا اظہار نہیں کرپاتے کیوں اس
کے تب کام نہیں آتے جب وہ ابھی ہمارے درمیان ہوتا ہے؟ ہمیں ایک انسان کی کیفیات کا
خیال تب ہی کیوں آتا ہے جب وہ مرچکا ہوتا ہے کہ فلاں وقت ہم نے اپنی کسی بات سے یا
اپنے کسی فعل سے اس شخص کا دل دکھایا؟ اور ہمیں کیوں افسوس ہوتا ہے کہ ہمیں اس سے
معافی مانگنے کا موقع بھی نہیں ملا حالانکہ ہمیں موقع ملاہوتا ہے لیکن ہمیں احساس
صرف اس کے جانے کے بعد ہی کیوں آتا ہے؟<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 20pt;">اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مردو پرست قوم ہیں اور
ہمیں احساس تب ہی ہوتا ہے کہ جب موقع ہمارے ساتھ سے نکل جاتا ہے اس کے بعد چاہے
باپ کی قبر پر سونے کی اینٹوں سے بھی مزار بنوا دیں کیا فائدہ۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right;">
</div>
<div align="right" style="margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 20pt;">کاش کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کا وقت پر احساس
کرنے والے ہوجائیں تاکہ تاکے ہمارے بعد آنے والے بھی ہمارا احساس ہماری زندگی میں
کرلیں۔<o:p></o:p></span></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-66168191831441278122017-04-06T15:00:00.001+05:002017-04-06T16:34:11.830+05:00لاہور آوارگی. مستنصر حسین تارڑ۔ ایک تعارف<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiCVgplOg6BGYte0WBPvmDscVEtD9uy_r8z5WabYgvQh9mxHiLV2kPGun5W6XhzQgciiEWJGf4ZcM2t9jDKNLe3-8RFmrdo1qfJi6O2Qd_ctPCvz1VEhKnVq6Xe0hk0Yl8-7CqQTGCWhJth/s1600/lahore-awargi-500x500.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiCVgplOg6BGYte0WBPvmDscVEtD9uy_r8z5WabYgvQh9mxHiLV2kPGun5W6XhzQgciiEWJGf4ZcM2t9jDKNLe3-8RFmrdo1qfJi6O2Qd_ctPCvz1VEhKnVq6Xe0hk0Yl8-7CqQTGCWhJth/s320/lahore-awargi-500x500.jpg" width="320" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
لاہور آوارگی۔ ایک تعارف</div>
<div style="text-align: right;">
کتاب: لاہور آوارگی (سفرنامہ)</div>
<div style="text-align: right;">
مصنف: مستنصر حسین تارڑ</div>
<div style="text-align: right;">
اشاعت: جنوری 2017</div>
<div style="text-align: right;">
لاہور آوارگی مستنصر حسین تار ڑ صاحب کی تازہ اشاعت شدہ کتاب ہے اور حال میں ہی میں میں نے اس کتاب کا مطالعہ مکمل کیا ہے اور دوران مطالعہ ہمیشہ کی طرح مکمل طور پر اس کتاب کے سحر میں جکڑا رہا اور یہ تارڑ صاحب کی تحریر کا خاصہ ہے کہ وہ قاری کو جکڑے رکھتی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اس کتاب کی ابتدا تارڑ صاحب کے اپنے صبح کے سیر کے ساتھیوں کے ساتھ کئے گئے اندرون لاہور کے دوروں سے ہوتی ہے ابتدائیہ میں تارڑ صاحب نے اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ " یہ ایک مبسوط بیانیہ نہیں ہے، بکھرا بکھرا سا ہے کہ لاہور بھی ایک مبسوط شہر نہیں ہے ،بکھرا بکھرا سا ہے"۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
تو اس بکھرے بکھرے بیانئے کی شروعات لاہور کے قدیم محلوں، حویلیوں، بیٹھکوں، مزاروں مسجدوں ، مندروں اور گردواروں کے گرد گھومتی ہے ان کی تاریخ پر گفتگو ہوتی ہے اور پھر تارڑ صاحب ماضی میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور کتاب کا رنگ ہی بدل جاتا ہے یہ کتاب ایک سفرنامے سے ایک سوانح حیات بن جاتی ہے جسکا موضوع تارڑ صاحب اور انکا شہر لاہور ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
تارڑ صاحب کی حیات کے اٹھتر برسوں کہ کہانی ہے ان صبحوں اور شاموں کے قصے ہیں جو انہوں نے اس شہر میں گزاریں، ان میلوں اور تہواروں کی باتیں ہیں جو آج کے دور میں ختم ہوچکے ہیں، ان لوگوں کی باتیں ہیں جو خاک نشین ہوچکے ہیں جنہیں تارڑ صاحب نے اس کتاب کے ذریعہ پھر یاد کیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
لاہور کی سڑکیں اور ان پر زندگی کی وہ تصاویر ہیں جو اب صرف خواب ہیں، سینما ہال، ریسٹورنٹ، لائبریریاں، لاہور کے مصور، شعراء، مصنفین، گلوار، لاہور کی ادبی محفلیں اور وہ تمام افراد جن کا تارڑ صاحب کی زندگی میں کسی طور بھی کوئ تعلق رہا چاہے وہ دوستی ہو، محلے داری ہو یا صرف لاہوری ہونا اسکاتذکر ہ اس کتاب میں موجود ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
لاہور میں بسنت کی سرکاری سطح پر بندش پر تارڑ صاحب کے جذبات کچھ یوں ہیں" اور اب لاہور کا آسمان بسنت کے روز بھی ایک بیاباں ہوتا ہے اس میں کسی خوش رنگ پتنگ کا پھول نہیں کھلتا، ایک بنجر آسمان ہوتا ہے" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
لاہور میں ہونے والی تعمیرات اور ان کے نتیجے میں تاریخٰی ورثے کوہونے والے نقصان پر لکھتے ہیں کہ</div>
<div style="text-align: right;">
""لاہور آوارگی" محض ایک تاریخی اور تاثراتی بیانیہ نہیں ہے ایک احتجاج ہے، نہ صرف ایک مرتبہ پھر افغانیوں نے اس شہر پر قبضہ کرلیا ہے بلکہ ترقی کے نام پر اس کے چہرے کو مسخ کیا جارہا ہے، اس کی سب تاریخی نشانیاں مسمار کی جارہی ہیں، اس کے درمیان میں ایک دیوار برلن تعمیر کرکے اس کی پہچان کو معدوم کردیا گیا ہے۔۔میں اس شہر بے مثال کا نوحہ گر ہوں، میں جانتا ہوں کہ میری فغاں کا کچھ اثر نہ ہوگا، میں نے بھی تو اسطو کا کہا نہ مانا کہ کبھی سوداگر کو اپنا حکمران نہ بنانا وہ تمہارے قدیم معبد ڈھا دے گا ، عہد رفتہ کے سب قصر مسمار کرکے وہاں تجارتی منڈیاں قائم کردے گا"</div>
<div style="text-align: right;">
گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والے لیٹریچر فیسٹیول میں تارڑ صاحب نے ایک پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا اور میں بھی وہیں موجود تھا کہ انہوں نے بہت سے سفرنامے تحریر کئے جن میں پاکستان کے بارے میں اور دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کے بارے میں لکھے گئے سفرنامے شامل ہیں لیکن پنجاب کے بارے میں اور خاص طور پر لاہور کے بارے میں کوئ کتاب تحریر نہیں کی تو جب انہوں نے پنجاب کے بارے میں کتاب لکھنا شروع کی تو ابتدا میں لاہور بھی اسی کتاب کا حصہ بننا تھا لیکن بعد میں انہوں نے لاہور کو ایک الگ کتاب کی صورت میں شایع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائ کہ میں نے پوری زندگی جس شہر میں بسر کی اسکا میرے اوپر قرض ہے اور یہ کتاب اس قرض کی ادائیگی کی ایک صورت ہے گو کہ میں وہ قرض کبھی اتار نہیں سکتا۔</div>
<div style="text-align: right;">
میری کوئ اوقات نہیں کہ میں تارڑ صاحب کی کتب پر تبصرہ کی جسارت کروں کہ وہ یہ قرض اتارنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں یہ بس اس کتاب کا مختصر تعارف ہے مقصد آپ کو اس کتاب کے مطالعے پر ابھارنا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"میں اب بھی کبھی کبھی کسی سویر باغ جناح میں جا نکلتا ہوں۔۔ ستتر برس کا ہوچکا ہوں تب بھی اس باغ میں قدم رکھتا ہوں تو میرا بدن نوجوانی کے بخار سے آشنا ہونے لگتا ہے۔۔سب کچھ وہی ہے۔۔۔صرف اب شیر نہیں دھاڑتا اور میں اس گھنے شجر کے نیچے کھڑے ہوکر نہایت سوگواری اور سرگوشی میں "کوہو کوہو" ہولے سے پکارتا ہوں لیکن جواب نہیں آتا۔۔</div>
<div style="text-align: right;">
وہ پرندہ۔۔ وہ پکھیرو۔۔ جس سے میں باتیں کیا کرتا تھا۔۔ یا تو مرگیا تھا یا کوچ کرچکا تھا۔۔</div>
<div style="text-align: right;">
میں نے بھی اب مرجانا تھا۔۔ کوچ کرجانا تھا"(لاہور آوارگی صفحہ نمبر 2477)<br />
<br /></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com3Karachi, Pakistan24.826624956562167 67.0385742187524.596215956562165 66.71585071875 25.057033956562169 67.36129771875tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-52246232903766296602016-12-28T15:18:00.001+05:002016-12-28T17:20:27.014+05:00اشفاق احمد<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
تحریر اشفاق احمد</div>
<div style="text-align: right;">
ﺯﺍﺭﺍ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮍﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺑﺮﺱ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﯾﮟ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺟﺐ</div>
<div style="text-align: right;">
ﯾﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﮮ ﻧﺎﺯ ﻧﺨﺮﮮ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺟﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﺍﻭﻻﺩ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﮯ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺷﺮﻭﻉ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﭼﻮﺭ ﺭﮨﯽ، ﺻﺤﺖ ﺑﮭﯽ ﻋﺎﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﮩﺖ ﺍﯾﮑﭩﯿﻮ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﯿﻦ ﺗﮭﯽ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﭼﻠﻨﮯ، ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻧﮯ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﮍﺍ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﻣﺰﯾﺪﺍﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﺳﻨﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺟﺴﺎﻣﺖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭼﺎﺭ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮕﻢ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﻭﯾﻦ ﻟﮕﺎ ﺩﯼ۔ ﻋﻤﻮﻣﺎ ﺑﭽﮯ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮨﻮﺋﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﯾﮧ ﺑﭽﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮔﺌﯽ۔ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺗﯽ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺗﯽ۔ ﺭﻭﺯ ﺍﭘﻨﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﯽ ﮐﭽﯽ ﭘﮑﯽ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﺳﻨﺎﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻭ ﻣﺎﮦ ﮔﺬﺭﮮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺍﺏ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺳﮯ ﺁﺗﯽ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺭﺍ ﺳﻮﺟﺎﺗﯽ، ، ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﮨﻮﻡ ﻭﺭﮎ ﮐﺮﺗﯽ۔ ﻣﯿﮟ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺩﻓﺘﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﺗﻮ ﻧﻈﻢ ﺳﻨﺎﺩﻭ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﻧﻈﻢ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺧﻼﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﺭ ﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﯽ ﺑﺎﺑﺎ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮨﻮﮞ۔ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﭘﺮ ﮐﺎﺭﭨﻮﻥ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺯﺍﺭﺍ ﮨﻮﻡ ﻭﺭﮎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻻﺗﯽ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﮕﻢ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﺯ ﮨﻮﻡ ﻭﺭﮎ ﮐﺮﻭﺍﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﮐﺎﭘﯿﺎﮞ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺗﻮ</div>
<div style="text-align: right;">
ﭘﭽﮭﻠﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺻﻔﺤﮯ ﭘﮭﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﻠﮯ۔ ﺯﺍﺭﺍ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺵ۔ ﭨﯿﭽﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺷﮑﺎﯾﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺒﺎﺭ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﺑﯿﮕﻢ ﺯﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﺎﻧﮯ ﺑﯿﭩﮭﺘﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭘﮍﮬﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ، ﺻﺮﻑ</div>
<div style="text-align: right;">
ﭘﯿﻨﺴﻞ ﺳﮯ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ﻣﺎﺭﺗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﺎ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﺱ ﮐﯽ ﮈﮬﭩﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﺎﺭﺍ ﺑﮭﯽ۔ ﺯﺍﺭﺍ ﺭﻭﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮔﺬﺭ ﮔﯿﺎ ﺯﺍﺭﺍ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﮔﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﮔﺌﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺭﻭﻧﻖ ﺑﻦ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ، ﺑﯿﮕﻢ ﮐﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺗﻮﺟﮧ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﯿﮍﺍ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﺎﻧﮯ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﻭﮨﯽ ﺭﮨﺎ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﺑﯿﮕﻢ ﻧﮯ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻨﺎﻟﯿﺎ ﺯﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭩﻨﮯ ﮐﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﺑﮯ ﺍﺛﺮ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﻮ ﭘﺎﺭﮎ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﺎﻭٔ ﮐﮭﯿﻠﻮ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﺯﺍﺭﺍ ﺟﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﻼﺋﯿﮉ</div>
<div style="text-align: right;">
ﭘﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﺑﭽﮯ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺳﻼﺋﯿﮉ ﻟﯿﻨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﮬﮑﺎ ﺩﯾﺘﮯ، ﮐﮩﻨﯽ ﻣﺎﺭﺗﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﮐﮭﮍﯼ ﺭﮨﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺧﻦ ﭼﺒﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮨﺎﮞ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺑﮭﺌﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ؟ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﮐﻤﺎﻝ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺩﻻﯾﺎ ﺑﺎﺑﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮏ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮔﺌﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﯼ ﺳﻼﺋﯿﮉ ﻟﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﺏ ﮔﮭﺮ ﭼﻠﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻼ ﮈﺍﻻ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﮭﺎﻭﮔﯽ؟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﺎ ﻟﻨﭻ ﺑﮭﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻟﮯ ﻟﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﻮ ﻣﺮﺿﯽ ﻟﮯ ﻟﯿﮟ ﺑﺎﺑﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﮭﺎﻟﻮﮞ ﮔﯽ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻻ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻋﻤﺮ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺧﻮﺍﮨﺸﺎﺕ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﻤﭙﺮﻭﻣﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮈﮬﯿﺮ ﺳﺎﺭﯼ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﺁﮔﯿﺎ۔ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﮧ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻭﯾﻦ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮈﺭﺍﭖ ﮐﺮﻭﮞ۔ ﺷﺎﻡ ﺩﻓﺘﺮ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ</div>
<div style="text-align: right;">
ﭘﺎﺭﮎ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺯﺍﺭﺍ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ ﺑﺎﺑﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﺁﺝ ﻭﯾﻦ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﺑﮩﺖ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻨﭻ ﺁﺝ ﺻﺒﺢ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺳﮑﺎ ﺗﻮ ﺍﻥ ﺳﺐ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺎﺭﺍ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺯﺍﺭﺍ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺧﻮﻑ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺭﻭﺯ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻟﻨﭻ ﺑﭽﮯ ﮐﮭﺎﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺟﯽ ﺭﻭﺯ ﻭﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍﻥ ﻟﻨﭻ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺑﭽﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﻨﺴﻠﺰ ﭼﺒﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﺎﻏﺬ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﮯ ﮔﻮﻟﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺑﺎﺑﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﻮ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﺭﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺗﻀﺤﯿﮏ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﯿﮓ ﺳﮯ ﮐﺎﭘﯿﺎﮞ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﭼﮭﭙﺎﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ، ﮨﻮﻡ ﻭﺭﮎ ﭘﮭﺎﮌ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺑﻮﺗﻞ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ</div>
<div style="text-align: right;">
ﭘﺮ ﮈﺍﻻ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﻮﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﭨﯿﭽﺮ ﺳﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺳﺰﺍ ﭘﺎﺗﯽ، ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﺑﻨﺘﯽ، ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﻧﻮﻟﯽ ﺭﻧﮕﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻧﺎﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﺗﮭﯽ، ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﺑﮭﻮﻟﻨﮯ ﻟﮕﯽ، ﭘﮭﺮ ﭨﯿﺒﻞ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ</div>
<div style="text-align: right;">
ﭘﯿﭙﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﻟﮕﯽ، ﻣﯿﺮﯼ ﺯﺍﺭﺍ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ،</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﮭﻠﻮﻧﮯ ﺭﯾﮏ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮮ ﻣﭩﯽ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﺭﮨﮯ، ﻻﻥ ﮐﺎ ﺟﮭﻮﻻ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺳﺎ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺎ، ﺟﮩﺎﮞ ﺩﻭ ﻟﻮﮒ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﮦ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺗﺒﺪﯾﻞ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﯾﺎ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﻻﺋﭧ ﺁﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﻮ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻭﮦ ﺗﮑﯿﮧ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﯽ، ﭼﮫ ﺳﮯ ﺳﺎﺕ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺿﺪﯼ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺑﺎﺕ ﮐﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻦ ﻣﺎﻧﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ، ﮐﺌﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﺍﺭﻧﻨﮓ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮧ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺟﺎ ﮈﺍﻧﭧ ﮈﭘﭧ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﮞ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔ ﺍﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺑﻌﺪ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺑﯿﭩﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﺌﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺯﺍﺭﺍ ﺍﯾﮏ ﺷﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺍﺳﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﮯ ﮨﻮﻟﮉﺭ ﻣﯿﮟ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺳﮯ ﺑﻠﺐ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺗﮭﺎ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﺗﯽ۔ ﺑﺎﮨﺮ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﻢ ﮐﺴﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺟﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﭼﮭﮍ ﺟﺎﺗﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺯﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﯾﮏ ﻣﻼﺯﻣﮧ ﮐﻮ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺳﻨﮉﮮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﻮ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﺎﻓﯽ ﺑﺮﺍ ﻟﮕﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺯﺍﺭﺍ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺭﻭﮎ ﭨﻮﮐﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﺱ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺳﭩﺎﻟﺰ ﭘﺮ ﻣﺤﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮈﮬﯿﺮﻭﮞ ﺍﺳﭩﻮﺭﯼ ﺑﮑﺲ ﺩﻻﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﯾﺪ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺩﻻﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ، ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺑﺎﺑﺎ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﺭﭺ ﭼﺎﺋﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﺟﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺩﻻﺩﯼ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﭽﮫ ﺭﻭﺯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻭﮦ ﮐﺘﺎﺏ ﭨﺎﺭﭺ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮪ ﺭﮨ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻧﻈﺮ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﯽ۔ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻗﺮﯾﺐ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺁﺗﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﺮﯼ ﭘﻮﺭﭨﺮ ﭘﮍﮬﺘﯽ ﯾﺎ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﭙﺎ ﺩﯾﺘﯽ۔ ﻣﯿﮟ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻧﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﻼﺱ ﺳﮑﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﺮﯾﮉﺯ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺫﮨﯿﻦ ﺗﻮ ﻭﮦ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺷﺮﻭﻉ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﺑﻨﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﮯ ﭨﺎﺋﻢ ﭘﺮ ﺍﺱ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﺗﻼﺷﯽ ﻟﯽ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺻﻔﺤﮯ ﻣﻠﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻟﮑﮭﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯﺍﮦ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮨﺮ ﻧﻈﻢ ﻣﯿﮟ دکھ، ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ، ﺧﻮﻑ، ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ ﭼﮭﻠﮏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﭘﻠﻨﮓ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮈﺑﮧ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﭻ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﭨﻮﭨﮯ ﺑﻠﺐ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ</div>
<div style="text-align: right;">
ﭨﻮﭨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﻼﺱ ﮐﮯ ﺗﮭﮯ ﮨﺮ ﮨﻔﺘﮯ ﮨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻼﺱ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﺯﺍﺭﺍ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﭘﯿﻨﮯ ﺟﺎﺗﯽ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺎﻧﭻ ﺍﺱ ﮈﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭ ﺳﺎ ﻟﮕﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﭽﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﻟﮯ۔ ﺳﻮﭼﺎ ﮈﺑﮧ ﻏﺎﺋﺐ ﮐﺮﺩﻭﮞ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ۔ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺯﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﻣﻨﺎﯾﺎ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﮧ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﮎ ﮐﺮﻟﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮯ ﺩﻟﯽ ﺳﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺿﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﻨﺎﺋﯽ۔ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺗﯿﻦ ﮐﺎﻧﭻ ﮐﯽ ﭘﻠﯿﭩﯿﮟ ﭨﻮﭦ ﮔﺌﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺍﺩﺍ ﻧﮯ ﺑﮍﺍ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻣﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺎﻧﭻ ﮐﻮﮌﮮ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﮯ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﭼﺒﮫ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﺍ ﺗﯿﺰ ﺗﮭﺎ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺁﺩﮬﯽ ﺭﺍﺕ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺎﻧﭻ ﭼﻦ ﮐﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﭩﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺳﮯ ﮔﺘﮯ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﺎﻧﭻ ﮐﻮ ﭼﭙﮑﺎﯾﺎ، ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺭﻧﮓ ﻻﯾﺎ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺭﻧﮓ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺟﻤﻊ ﮐﺌﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﺳﮯ ﻓﺮﯾﻢ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔ ﺍﺑﺎ ﮐﯽ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺗﺤﻔﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺎ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﭘﻠﯿﭩﯿﮟ ﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻡ ﺁﮔﺌﯿﮟ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺯﺍﺭﺍ ﮐﺎ ﺍﮔﻼ ﺳﻮﺍﻝ ﺁﯾﺎ ﯾﮧ ﺭﻧﮓ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﻓﺮﯾﻢ ﮐﮩﺎﮞ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﮩﺎ ﮐﻞ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﮔﻠﮯ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﭘﺮ ﺯﺍﺭﺍ ﺑﻨﺎﺀ ﻓﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﭨﻮﭨﮯ ﮐﺎﻧﭻ ﮐﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﯾﮏ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﻻﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺑﺎﺑﺎ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻓﺮﯾﻢ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﺍ ﻟﯿﺠﺌﮯ ﮔﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻓﺮﯾﻢ ﺑﻨﻮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻻﻭٔﻧﺞ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎﻟﯿﺎ۔ ﻧﮧ ﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮑﻞ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺼﻮﺭ ﻟﯿﮑﻦ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﺍﺭﺍ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﮐﯽ ﮔﺮﮨﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﻥ ﭨﻮﭨﮯ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﮐﺎﻧﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺑﮯ ﺭﺑﻂ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﻨﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﺎﺭﺙ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﯽ ﺟﮕﻤﮕﺎﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺑﻮﻟﮯ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﺳﺪﺭﮦ ! ﮨﻢ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﮭﻮﻝ ﮨﻮﺋﯽ، ﺯﺍﺭﺍ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮔﺌﯽ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺗﻮ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﮯ، ﺑﺎﻗﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﺭﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻏﻠﻂ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍﺋﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﺑﻨﺎﯾﺎ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺟﺐ ﺑﭽﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﮧ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻃﻠﺒﮕﺎﺭ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮈﺭ، ﺧﻮﻑ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﭼﮑﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻭﮦ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﺑﺎ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﺮﺍ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺁﺝ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﻮ ﺟﺎﻭٔﮞ؟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺁﺟﺎ ﯾﺎﺭ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﮔﮩﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺳﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻭﮦ ﻭﺍﺣﺪ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻭﮦ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﺤﻔﻆ ﭘﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﮨﺮ ﮨﻔﺘﮯ ﯾﺎ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺑﺎﺭ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﮔﻼﺱ ﭨﻮﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮈﺍﺋﺮﯼ ﮐﮯ ﺻﻔﺤﮯ ﭘﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺍﺏ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﺮﺱ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﮭﭙﺎﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺑﮯ ﺭﺑﻂ ﺳﮯ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﮐﺌﯽ ﺍﺳﮑﯿﭻ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﺎﺵ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻥ ﺗﺒﺪﯾﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺳﻨﺠﯿﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻟﮯ ﻟﯿﺘﮯ۔</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﺘﮏ ﺁﻣﯿﺰ ﺳﻠﻮﮎ ﺍﺱ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺁﮔﮯ ﻧﮧ ﺑﮍﮬﺘﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﮑﻮﻝ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺘﮯ ﯾﺎ ﻧﮧ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮐﮧ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﻣﮩﻨﮕﮯ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ، ﮐﻤﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﮐﺎﺵ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻭﺟﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺑﻨﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺳﺨﺘﯽ ﻧﮧ ﺑﺮﺗﺘﯽ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﺎ ﺳﺪ ﺑﺎﺏ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺁﺝ ﯾﮧ ﺯﺍﺭﺍ ﺍﻟﮓ ﺯﺍﺭﺍ ﮨﻮﺗﯽ۔ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﻨﮭﮯ</div>
<div style="text-align: right;">
ﻣﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﺟﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﻃﺮﺡ ﺑﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﮐﺲ ﺍﺫﯾﺖ ﺳﮯ ﺩﻭﭼﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﮞ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮔﮯ۔ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺐ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺧﺎﺹ ﻧﻈﺮ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻥ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺑﮭﯿﮍ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ؟ ﮐﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﭘﮭﻮﻝ ﻣﺮﺟﮭﺎ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ۔ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ</div>
<div style="text-align: right;">
ﮨﮯ ﯾﮧ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﮨﯽ ﻏﻠﻂ ﮨﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻭﮦ ﺑﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﺎ۔ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ</div>
<div style="text-align: right;">
ﺁﭖ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺯﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ.</div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-37506579504380603152016-12-26T10:51:00.000+05:002016-12-26T10:51:31.175+05:00اعمال کا دارو مدار<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhewnD_wQkRQPR-fXvF-4K8Y8mHp7tqbmY3M4OAOfzITreokJCsIWzFkOxo4oPRoRwydyc_Jp22v7fzic3lt2fABlgDmxlXBQD0vpdfmsvxm5gJ4yN2zy5alGrbuCLXE3A6j6L_yla0dJQL/s1600/anar.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="283" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhewnD_wQkRQPR-fXvF-4K8Y8mHp7tqbmY3M4OAOfzITreokJCsIWzFkOxo4oPRoRwydyc_Jp22v7fzic3lt2fABlgDmxlXBQD0vpdfmsvxm5gJ4yN2zy5alGrbuCLXE3A6j6L_yla0dJQL/s400/anar.jpg" width="400" /></a></div>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
جب ہم چھوٹے چھوٹے تھے اور امی ہمیں روز صبح گھر سے نکال کر سکول بھیج دیا کرتی تھیں یعنی روزانہ ہی ایک سزا تھی حالانکہ جس مبارک دور میں ہمارا بچپن گزرا ہے اس دور میں والدین کو ابھی اتنی عقل نہیں آئ تھی کہ بچہ جونہی چلنا سیکھ لے اسے گھر سے نکال کر کسی مونٹیسری میں بہترین تربیت کے لئے بھیج دینا عین ثواب کا کام ہے اور ثواب کے ساتھ ساتھ بچے کی بنیاد بھی اتنی مضبوط ہوجائے گی کہ دنیا کی کوئ طاقت اسے سے ٹکر نہیں لے سکے گی خیر تو اسی دور میں ہمیں سکول میں پڑھایا گیا کہ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="color: red;"><b>"اعمال کا دارومدار نیت پر ہے" </b></span></div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یہ حدیث مبارکہ ہے اور اس کی تفسیر ہمیں یوں سمجھائ گئ کہ بچو! کسی بھی کام کو کرنے کی جو نیت ہوگی ویسا ہی نتیجہ حاصل ہوگا بری نیت کے ساتھ اچھا کام بھی فائدہ مند نہیں جیسے کسی کی مدد اس لئے کرنا کہ وہ بھی آپ کی مدد کرے گا غلط ہے کسی کی مدد کبھی اس نیت سے نہ کرو کہ وہ بھی آپ کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریگا بلکہ کسی کی مدد صرف اس لئے کرو کہ اسے مدد کی ضرورت ہے اور اللہ آپ کو اسکا اجر دیگا, ایک اور بات بھی سمجھ آئ کہ اچھی نیت ہو تو کام بن جاتے ہیں اور نیت خراب ہو تو بنتے کام بگڑ جاتے ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ہم نے اس بات کو اپنا نصب العین بنا لیا کہ نیت ہمیشہ اچھی رکھنی ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے اور جہاں کہیں ہماری نیت میں کھوٹ تھا اسکا نتیجہ بھی ہم نے بھگتا جیسے یونیورسٹی میں خالدہ اور رقیہ کو پورا سمیسٹر اسائنمنٹ کاپی کر کرکے دیئے، لیکچر چھاپ چھاپ کردئے ، حاضریاں لگوائیں لیکن پس پردہ نیت یہی رہی کہ یہ دونوں نہ سہی کوئ ایک تو ہمارے اچھے کردار سے متاثر ہوگی اور ہماری زندگی کی بنجر زمین پر بارش کے پہلے قطرے کی طرح گرے گی تو ہر طرف خوشبو ہی خوشبو پھیل جائے گی لیکن ایک دن جب ہم نے دونوں کو باری باری شکیل بھائ کےساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا تو بچپن میں پڑھائےگئے سبق کی صداقت پر کامل یقین آگیا ۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ایک حکایت ہماری دادی مرحومہ نے ہمیں سنائ تھی کہ ایک بادشاہ تھا جسے شکار کا بہت شوق تھا اور وہ اپنے اس شوق کی تکمیل کیلئے لمبے لمبے سفر اختیار کرتا رہتا۔ ایک مرتبہ وہ ایسے ہی ایک سفر میں تھا اور شکار کا پیچھا کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور کافی آگے نکل گیا شکار تو خاک ملتا وہ اپنے ساتھیوں کو بھی نہ ڈھونڈ پایا اور بھٹکتے بھٹکتے ایک گاؤں میں جا پہنچا اور کیا دیکھتا ہے کہ سامنے ایک انار کا باغ ہے ۔بادشاہ باغ میں داخل ہوگیا اور باغ کے مالک سے پانی کی درخواست کی باغ کے مالک نے اس نیت سے کہ ایک مسافر کو کیا صرف پانی پلانا اپنے ہی باغ سے ایک انار توڑا اور چند منٹوں میں ہی پورا پیالہ انار کے رس کا بھر کر پیش کردیا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ صرف ایک انار کے رس سے پورا پیالہ بھر گیا اور ذائقہ بھی نہایت عمدہ اور بہترین تب ہی اسے یہ خیال آیا کہ یہ جو کہ اس بیابان میں ایسے عمدہ اور رسیلے انار اگا رہا ہے انکی فروخت سے اچھا منافع بھی کمارہا ہوگا لیکن چونکہ اس کی خبر اب تک ہمیں نہیں تھی تو اس پر ٹیکس بھی نہیں لگتا اور اسکی آمدن میں سے سرکار کو کوئ حصہ نہیں ملتا اور تب ہی اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ واپس جاکر اپنے نمائندے یہاں بھیج کر اس باغ سے ٹیکس وصولی کا انتظام کروائے گا ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiPVXtFUeO7d4SPNNlpQnVkU5hhZ4aPLZZMWRorBxk9-Fl0ajZLfEeEp0UvvkSJ9sSJjqhQpwbs2UEz2CoI4z76qXsA0uq2mMQo-Mp9rKtuQfVwy4jJdWxoEov-Xtr61xOh4aPVS469MPpN/s1600/king.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="197" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiPVXtFUeO7d4SPNNlpQnVkU5hhZ4aPLZZMWRorBxk9-Fl0ajZLfEeEp0UvvkSJ9sSJjqhQpwbs2UEz2CoI4z76qXsA0uq2mMQo-Mp9rKtuQfVwy4jJdWxoEov-Xtr61xOh4aPVS469MPpN/s200/king.jpg" width="200" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
مزید کچھ دیر گزری تو بادشاہ نے ایک اور گلاس کی فرمائش کردی لیکن اس بار دو انار بھی ایک پیالہ نہ بھر سکے تو بادشاہ نے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا کہ پہلے تو ایک انار ہی کافی ہوا اور اب کی بار دو بھی ناکافی ہوئے ایک پیالہ بھرنے میں جس پر باغ نے مالک نے مختصر جواب دیا کہ "ہمارے حکمران کی نیت بدل گئی" اور بادشاہ حیران رہ گیا کہ اسے یہ بات کیسے معلوم ہوگئ یہ تو اس بات سے بے خبر ہے کہ میں ہی بادشاہ ہوں خیر قصہ مختصر بادشاہ اپنے فیصلے پر دل ہی دل میں شرمندہ ہوا (حالانکہ بادشاہ تھا چاہتا تو نہ بھی ہوتا تو تب بھی کوئ کیا کرلیتا) اور اپنے ارادے سے باز آیا اور پھر کچھ دیر بعد دوبارہ فرمائش کی اور اس مرتبہ وہ جام دوبارہ بھر گیا ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یہاں میں نے دادی سے شکایت کی کہ غلط تو بادشاہ کی نیت تھی تو اسکا نقصان بے چارے باغ کے مالک کو کیوں ہوا بادشاہ کے گلاس میں مکھی گر جاتی تو زیادہ اچھا ہوتا تو دادی نے ہمیں سمجھایا کہ بیٹا حکمران عوا م کا ذمہ دار ہوتا ہے اور اسکی نیت کا اثر عوام پر براہ راست ہوتا کہ یعنی حکمران چاہے جو بھی خباثت کرے بھگتے گی عوام خیر یہ ایک الگ بحث رہی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یہی حکایت ایک دوسرےی جگہ کچھ یوں نظر سے گزری کہ جب بادشاہ نے دوسرے گلاس کی فرمائش کی تو باغ کے مالک نے دل میں کہا کہ "مفت خورے کو مزے لگے گئے اب شام تک اسکے ساتھی نہ ملے تو یہ تو پورا باغ اجاڑ دیگا" اور پھر یہ ہوا کہ دو اناروں سے بھی ایک گلاس نہ بھر پایا اور تب بادشاہ نے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا تو باغ کا مالک شرمندہ ہوا اور بولا "میری نیت بدل گئ تھی"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
خیر ان تمام مثالوں سے ہم یہی ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ نیت کا براہ راست اثر آپ کے کام پر پڑتا ہے کام نیک ہو لیکن ارادہ برا تو بھی نتیجہ اچھا نہیں ہوگا اور کام بگڑے گا ہی بگڑے گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے اپنی نیت کو اچھی طرح چیک کرلیں کہ وہ "نیک " ہی ہے اور بعد میں بھی "نیک " ہی رہے گی اور اگر نیت کا نیکی سے بدی کی طرف سفر شروع ہوا تو یاد رکھئیے کہ آپ کامیابی سے خود دور ہونا شروع ہوجائیں گے اور تب ادارہ ذمہ دار نہ ہوگا۔</div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-59947649686940491242016-09-29T10:10:00.003+05:002016-09-29T10:36:06.553+05:00دوبارہ رتی گلی --- قسط تین<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<div align="right" class="MsoNormal">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار فیضان میری بس ہوگئ ہے" راناصاحب نے دہائ دی<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار آپ تو کہ رہے تھے آپ نے بڑے ٹریک کئے
ہیں"میں نے ابرار کے انداز میں کہا حالانکہ میرا اپنا حال بھی پتلا ہی تھا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"او بکواس نہ کر رک جا" میں جو پہلے ہی رکا ہوا
تھا قریب آکر انکے ساتھ بیٹھ گیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"ارے کیا ہوا بھائ تھوڑا سا راستہ ہے بس یہ چڑھائ ہے
اور آگے کھلا میدان ہے"میں نے ہمت بندھانے کی کوشش کی حالانکہ میں اندر سے ڈر
رہا تھا کہ اگر میرے ہمت دینے سے اگر رانا صاحب کھڑے ہوگئے تو بڑی مشکل ہوجائے گی
ہم دونوں راستے ہی ہٹ کر ایک ٹیلے نما جگہ سے ٹیک لگا کر سستانے لگے کہ پیچھے سے
چودھری صاحب تشریف لے آئے اور دور سے ہمیں دیکھتے ہی ایک موٹی سی گالی دی<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"</span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "times new roman" , serif; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ــــ </span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">او
تم لوگ ادھر بیٹھے ہو میری ادھر موت واقع
ہوجاتی پیچھے" ہم دونوں کو ہی چودھری کی حالت دیکھ کر ہنسی آگئ بے چار ے کی
حالت واقعی غیر تھی سردی کی وجہ سے گرم
ٹوپی کو گردن تک کھینچا ہوا تھا اور چھوٹی بڑی چڑھائیوں اور ناہموار راستے کی وجہ
سے سانس دھونکی کی طرح چل رہا تھا ۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"کیوں ہنس رہے ہو خبیثو۔۔۔ اور رانا صاحب یہ سب کیا
دھرا تیرا ہی ہے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"او ادھر آجا آرام سے بڑ بڑ نہ کر" رانا صاحب نے
ہانک لگائ اور چودھری تھوڑی دیر میں ہم تک پہنچ کر زمین پر لیٹ کر ہاؤ ہاؤ کرکے
سانس درست کرنے لگا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"بلوچ کہاں گیا" میں نے پوچھا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"زندہ بچ گیا" چودھری نے جواب دیا جس کی سانسیں
اب قدرے قابو میں آچکی تھیں<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"کیا مطلب؟" میں نے دوبارہ پوچھا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"تم دونوں تو بھاگ گئے آگے میں اور بلوچ پیچھے تھے
پہلی اترائ پر پہلے میں سلپ ہوا اور میرے ساتھ بلوچ بھی کافی دور تک پھسلے پھر ایک
بڑے پتھر کی وجہ سے رک گئے ورنہ جانا تھا نیچے ملنا بھی نہیں تھا" چودھری نے
تفصیل بتائ<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"بلوچ کدھر گیا پھر" رانا صاحب نے تشویش سے پوچھا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اسکو چوٹ آئ ہے کمر میں اور ٹانگ نظیر واپس لے گیا اسے کیمپ میں" چودھری
نے بات مکمل کی تو رانا صاحب نے پوچھا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"تجھے نہیں لگی؟"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"واہ واہ</span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "times new roman" , serif; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ـــــــ</span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> بڑا ارمان ہے تجھے نہیں لگی" چودھری نے ایک اور موٹی گالی دیکر جواب
مکمل کیا پھر خود ہی بولا "نہیں میں پہلے ہی رک گیا تھا بلوچ زیادہ سلپ ہوا
بے چارے کولگی ہے کس کے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اب کیا کریں چلیں واپس؟ اندھیرا ہوجائے گا نہیں
تو" رانا صاحب نے صلاح مانگی<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار اب آگئے ہیں تو چلتے ہیں دیکھ لیں گے اندھیرا ہوا
تو اللہ مالک ہے بلوچ کی فکر نہ کرو وہ کیمپ میں سویا پڑا ہوگا اب اور دیر بھی
رانا صاحب آپ کی وجہ سے ہوئ ہے کچھ تو سزا ملنی چاھئے آپ کو بھی" چودھری نے واپس پلٹنے سے انکار کا
فیصلہ سنا دیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ہوا کچھ یوں تھا کہ جب ہم سب نے ایک دوسرے کو کھینچ کھانچ
کر کھڑا کرلیا تو رانا صاحب نے ہی کہا تھا کہ ابھی سورج غروب ہونے میں کافی وقت ہے
کیمپ لگا کر اور سامان پیک کرکے چلتے ہیں کیمپ چودھری صاحب ساتھ لائے تھے جو کہ
بالکل "زیرو میٹر " تھا یعنی بازار سے خرید کر سیدھا اپنے ساتھ لے آئے
تھے اس زیرو میٹر خیمے کو نصب کرنے میں ایک تو کافی دقت ہوئ دوسرے وقت بھی کافی
لگا گیا کیوں کہ ایک تو اسکی تیلیاں مکمل
نہیں تھیں اور تھیں تو انکی ترتیب سمجھ نہیں آرہے تھے رانا صاحب بار بار کوشش کرتے
اور پھر جھنجھلا کر کہنے لگے "یار چودھری تو چیک تو کرلیتا"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">جس پر چودھری صاحب نے جواب دیا"یا ر میں نے ادھر دوکان
میں پورا کا پورا لگوا کر دیکھا تھا فل اتنا بڑا بن گیا تھا کہ بارات لیکر گھس جاؤ
اندر" جس پر رانا صاحب دوبارہ کوشش کرنے میں لگ گئے"نہیں یار یہ تیلیاں
پوری نہیں ہیں خیمہ ایسے کھڑا نہیں ہوتا تو چیک کر بیگ میں دیکھ کچھ اور بھی
ہوگا"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">چودھری نے ایک ایک کرکے اپنے بیگ سے تمام سامان نکال کر
زمین پر ڈھیر کرنا شروع کیا اور ایک تھیلی رانا صاحب کی طرف اچھالی "یار چیک
کر کچھ نیٹ بولٹس ہیں"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"نیٹ بولٹس نہیں ہیں یار یہی باقی کا سامان ہے"
رانا صاحب نے سامان چیک کیا اور پھر چندمنٹوں میں ہی خیمہ اٹھا کر کھڑا کردیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ہم سب نے اپنا اپنا سامان خیمے کے اندر ڈالا اور رانا صاحب
نے کہا "چلو بھائ چلو"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار عثمان چھوڑ یار نہیں جاتے ابھی دیر ہوگئ ہے"
چودھری نے ایکدم سے فیصلہ سنا دیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"ہاں نظیر بتا یار جاسکتے ہیں یا نہیں" بلوچ نے
نظیر سے صلاح مانگی<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"جاسکتے ہیں سر آرام سے واپسی میں شاید سورج ڈوب جائے
اگر ادھر زیادہ ٹائم جھیل پر لگاؤ گے تو" نظیر کی طرف سے گرین سگنل تھا سب ہی
تیار ہوگئے اور چل پڑے ابتدا میں ہم سب ساتھ ساتھ تھے لیکن تھوڑی ہی دور جاکر بلوچ
اور چودھری الگ رہ گئے جب کہ میں اور رانا صاحب پہلے سے بنی ہوئ پکڈنڈی پر چلتے
رہے ایک چڑھائ چڑھ کر پار اترے تو ہمارے پس منظر میں کیمپ سائیٹ غائب ہوچکی تھی
اور بس وہی زنگ آلود پہاڑ، نیلے اور سرخ پھول
رہ گئے تھے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار رانا صاحب کیسا عجیب سا منظر ہے" میں نے کہا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار منظر میں کچھ نہیں ہوتا انسا ن کے اندر ہوتا
ہے" رانا صاحب شاید فلسفے کے موڈ میں تھے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"تو پھر لودھراں میں ایسا کیوں محسوس نہیں ہوتا یا پھر
حیدرآباد میں کیوں نہیں ہوتا" میں نے دوبارہ سوال کیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"ہوتا ہوگا جس کیلئے لودھرا یا حیدرآباد اہم ہوگا اسے
ضرور ہوتا ہوگا" رانا صاحب نے پھر فلسفے کا سہارا لیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار آپ تو فریدہ خانم اور شکیرا کو ایک صف میں کھڑا
کرہے ہیں فریدہ خانم کو سن کر بندہ عبادت کی طرف راغب ہوجائے جبکہ شکیرا کی تو
آواز میں ہی آوارگی ہے واللہ" میری با ت سب کر رانا صاحب نے قہقہ لگایا اور
بولے یار مولوی تو بھی کیسی باتیں کرتا ہے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">چھوٹی جھیل کا ٹریک کوئ ایسا آسان ٹریک بھی نہیں تھا کوئ
باقاعدہ راستہ نہیں ہے بس آڑے ترچھے قدموں کے نشان سے ایک پکڈنڈی کی صورت میں
موجود تھے او ر کہیں کہیں وہ بھی غائب ہوجاتے تھے اور ہم یونہی ہوا میں رہ جاتے
دوسرے ہوا اتنی تیز تھی کہ باقاعدہ سوئیوں کی طرح چھیدتی ہوئ محسوس ہورہی تھی ہم
دونوں کے پاس ہی دستانے نہیں تھے اور ہماری ہاتھ زیادہ دیر کھلے رہتے تو سن ہوتے
ہوئے محسوس ہونے لگتے مسلسل اترائ چڑھائ کی وجہ سے ہم تھک بھی زیادہ رہے تھے اور
تب ہی رانا صاحب تھک کر بیٹھ گئے "یار فیضان میری بس ہوگئی ہے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">رانا صاحب کی بس ہونے کے باوجود چوہدری کے زور دینے پر ہم
بادل ناخواستہ اٹھے اور اٹھ کر چلے، چلے کیا خود کو گھسیٹتے رہے کسی ایک کو رکتا
دیکھ کر اسکا ساتھ دینے کے بہانے سب رک جاتے
اور دم درست کرتے سانس بحال کرتے اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے کہ کوئ منع کردے
کہ وہ نہیں جائے گا تو وہیں سے واپس پلٹ جائیں۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">تھوڑی دیر یونہی ایک دوسرے کے آسرے رکتے رکتے چلتے رہے بلکہ رلتے رہے آخر چوہدی نے کہا" چھوڑ
یار رانا چل واپس چلتے ہیں چھوٹی جھیل کیا دیکھنے بندہ دیکھے تو کوئ بڑی شے
دیکھے کیوں"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">رانا صاحب جو چوہدری کو جھکتا دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں
سما رہے تھے لیکن ظاہر ایسا کررہے تھے
کہ جیسے انہیں اس فیصلے سے خوشی نہیں ہوئ
"ابے چوہدری بس پہنچ گئے ہیں ہمت کرلے تھوڑی ویسے بھی تجھے ہی شوق چڑھا تھا ادھر"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار رانا صاحب ضد چھوڑ دے کتی ٹریک ہے بڑی اور اس سے بھی کتی ٹھنڈ ہے چل تو جیتا میں ہار گیا واپس مڑ اب"
چوہدری کے ہار ماننے پر رانا صاحب واپسی پر رضامند نظر آنے لگے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">واپس مڑے اور کیمپ سائٹ کی طرف دوبارہ چلے تو تقریبا"
آدھے راستے میں ہی اندھیرا ہوگیا جس پر چوہدری نے کہا تھا " دیکھ لو رانا
صاحب تیری ضد کے چکر میں رہ جاتے تو واپسی میں کسی کھو میں پڑے ہونا تھا یا بھیڑیا
کھا جاتا ادھر ہی کدھر ہمیں"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"میری ضد کا چکر کہاں سے آگیا میں نے تو تب ہی بولا
تھا واپس چلے چلو جب تو آیا تھا بلوچ کو
چھوڑ کر" رانا صاحب نے جواب دیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"چل یار چھوڑ اب سویرے دیکھیں گے کیا کرنا ہے"
چوہدری نے بھی زیادہ بحث کو فضول سمجھا <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">چلتے چلتے واپس کیمپ تک پہنچے بلوچ کی خیریت معلوم کی ان کی
طبیعت کافی بہتر تھی اور وہ کچھ دیر سو کر دوبارہ
تازہ دم ہوچکے تھے کھانا بھی تیار تھا اور بھوک بھی زوروں پر تھی تو کھانا
کھا لیا گیا اور اسکے بعد چائے کافی اور مزید چائے اور مزید کافی کا دور چلا اور تھوڑی
دیر میں ہی اندھیرا گھپ ہوتا چلا گیا روشنی بس کیمپ میں موجود مصنوعی بلب اور ٹارچوں کی تھی چاند کی آخری تاریخیں
تھیں اور موسم صاف نہ ہونے کی وجہ سے تارے میں ظاہر نہیں تھے ۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یا ر رانا تو ہمیں سیدھا لاہور سے یہاں لے آیا سوچ کل اس وقت ہم لاہور میں تھے اور ابھی
ادھر" چوہدری صاحب بیٹھے بیٹھے گویا ہوئے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"شکر کر ادھر ہی رات گزر رہی ہے اگر تو رکتا نہیں ناں
تو میری تو دریا کے اندر ہونی تھی" بلوچ صاحب نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بات مکمل کی۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اور اللہ کا شکر ادا کر بے وقوف انسان بچ گئے ورنہ ہماری رات پھر سفر
میں گزر جاتی تجھے واپس لے جانے میں"چوہدری نے پھتی کسی جس پر بلوچ صاحب
واقعی ناراض ہوگئے اور اپنا جوتا کھینچ کر مارا پھر یہ بولتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ " میں چلا سونے ویسے بھی میں انجرڈ ہوں" بلوچ صاحب گئے تو پھر
ہم سب بھی تھکن محسوس کرنے لگے میں تو سیدھا کراچی سے پنڈی اور پنڈی سے یہاں کیمپ
تک بغیر رکے چلا آیا تھا اس خیال کے آنے کے بعد سے تھکاوٹ شدت سے محسوس ہونے لگی
اور نیند بھی تو میں اٹھا اور خیمے کے اندر سلیپنگ بیگ میں جالیٹا اور کچھ ہی دیر
میں سوبھی گیا رانا صاحب اور چوہدری باہر
ہی بیٹھے باتیں کررہے تھے اس رات اتنی گہری نیند آئ کہ کیا کبھی کسی فائیو سٹار
ہوٹل کے لگژری کمرے میں آتی ہوگی۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">صبح مجھے رانا صاحب نے بہت جلدی کھینچ کھینچ کر اٹھا دیا خیمے سے باہر نکلے تو ابھی سورج نکلے میں کچھ
وقت باقی تھا یعنی اندھیرا تھا لیکن دم
توڑتا ہوا اندھیرا اور سورج نہ نکلے کی وجہ سے شدید ٹھنڈک محسوس ہورہی تھی ہوا بند
تھی لیکن ٹھنڈک پورے ماحول میں موجود تھی۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">سوچا نماز پڑھ لوں ٹھنڈے یخ پانی سے ٹھٹھرتا ہوا وضو کیا قبلہ کا اندازے سے تعین کرکے کپکپاتے
ہوئے نماز ادا کرلی پہاڑوں پر ادا کی جانے والی نماز کا اپنا ہی مزا ہے اور
شاید ان نمازوں کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہو اپنی بات کروں تو مجھے خدا سے تعلق کا
جو احساس کسی پہاڑی علاقے میں ہوتا ہے اتنا کبھی شہروں میں نہیں ہوتا۔</span><span lang="EN-GB" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span>"یار آجا ایک چکر لگا کر آئیں" رانا صاحب نے کہا جب میں جوتے پہن رہا تھا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"چلیں کدھر کو چلنا ہے" میں نے بے وقوفانہ سا سوال کرلیا <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"کہیں نہیں بس ادھر ہی کیمپ سائٹ کا راؤنڈ لگاتے
ہیں"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">اور ہم دونوں راؤنڈ لگانے نکل چلے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">رات کو بارش ہوئ تھی جسکے آثار نمایاں تھے گوکہ ایسی بارشیں
ان علاقوں اکثر ہوجایا کرتی ہیں اور اس
بارش کی وجہ سے فضا میں ایک خاص قسم کی تازگی کا احساس تھا چلتے چلتے ہم نے پوری
کیمپ سائٹ کا ایک چکر لگایا ہمارے خیمے کے علاوہ وہاں چار پانچ خیمے اور بھی لگے
ہوئے تھے لیکن جب ہم وہاں پہنچے تھے تو اس وقت وہ خیمے موجود نہیں تھے شاید جب ہم
جھیل کی طرف چلے گئے تھے تو ہمارے پیچھے میں کچھ مزید سیاح وہاں آئے تھے لیکن اس
وقت سناٹا تھا دور دور تک پہاڑ مرجھائے ہوئے سبزے کی وجہ سے کہیں کہیں گندمی اور
کہیں کہیں زنگ آلود نظر آرہے تھے سبزہ بھی تھا لیکن اتنے رنگوں کی بہتات کی وجہ سے
نمایاں نہیں ہورہا تھا ۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">کیمپ سائٹ کے پیچھے کی جانب ٹریک کے دوسری جانب سرکنڈے نماں
پھول لہلہا رہے تھے اور یہ پھول کچھ تو
ساہی مائل سرخ تھے اور کچھ جامنی
رنگت لئے ہوئے تھے لیکن تعداد میں بہت کم
تھے بس چند ایک جھاڑیاں ہی تھیں یعنی ماحول تو تھا لیکن بے دیوانہ کرسکنے کے قابل
نہیں تھا یعنی ابھی بچہ تھا بالغ نہ ہوا
تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">خیموں کے دائیں جانب چلتے چلتے ہم ایک چھوٹی سی پہاڑی کے
اوپر پہنچ کر رک گئے وہاں سے منظر کچھ یوں تھا کہ
کیمپ سائٹ ہمارے بائیں جانب نیچے
کی طرف ہوگئی اور اس پر لگے ہوئے خیمے تین خیمے ایک ساتھ سرخ رنگ کے اور ان سے کچھ
پرے نیلے رنگ کا چوکور خیمہ جو کہ انقلابی صاحب کا تھا اور سب سے الگ تھلگ ہمارا
پیلے رنگ کا خیمہ جیسے کوئ مایوں کی دلہن
اور وہاں سے مزید نیچے بائیں جانب
بہت نیچےرتی گلی نالہ گزرتا ہوا اور اسکے گزرنے کا شور بہت ہی مدھم مدھم ہماری
سماعتوں سے ٹکراتا ہوا اور سامنے تاحد نگاہ تک پہاڑوں کا ایک سلسلہ اور ہر پہاڑ
ایک دوسرے میں گم ہوتا ہوا گویا کراچی سے طویل مسافت طے کرنے کے بعد پہلی صبح ایسی
شاندار تھی کہ میری ساری تھکن اتر گئ اور آنے کا مقصد پورا ہوگیا اب آگے اس سفر میں مجھے کچھ بھی نہ ملتا
اور وہیں سے واپس لوٹ جانے کا اذن ملتا تو
بھی ایسی کوئ ناامیدی نہیں ہوتی یا شاید یہ میرا صرف گمان تھا کہ آگے جو کچھ میرے
لئے تھا اور جو کچھ مجھے دکھادیا گیا اسے دیکھ لینے کے بعد بھی میرے اندر ایسے
مناظر کی ہوس ختم تو کیا کم بھی نہیں ہوتی بلکہ مزید بڑھتی ہی رہی اور شاید بڑھتی
ہی رہے گی۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار کیا ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئ مرجائے تو اسکی روح اسی دنیا
میں بھٹکتی رہ جائے؟" رانا صاحب نے بالکل ہی آؤٹ اور سلیبس سوال پوچھ لیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"ہو سکتا ہے
ایسا ممکن ہو قدرت اللہ شہاب نے ایک واقعہ اسی نوعیت کا ذکر کیا ہے لیکن
ہوسکتا ہے وہ بس زیب داستان کیلئے کیا ہو، میرا اپنا کوئ ذاتی تجربہ نہیں ہے"
میرے جواب سے رانا صاحب مطئن نہیں ہوئے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"نہیں فرض کر کہ کوئ بندہ یہاں پہنچ جائے اور پہنچ کر
مرجائے یا یہاں آنے کی طلب ہو اسکے دل میں لیکن یہاں آنہ سکے اور آنے سے پہلے ہی
مرجائے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ اسکی روح یہاں بھٹکتی پھرے؟"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار اس بات
کا جواب تو کوئ صاحب علم ہی دے سکتا ہے ویسے محمد احسن اس قسم کی خواہش
کرتے پائے گئے ہیں انہیں علم ہوگا ان سے پوچھئے گاویسے میں نے کہیں پڑھا تھا کہ
جسم روح کا ایک لباس ہے جیسے آپ شرٹ پہن لیتے ہیں تو وہ شرٹ آپ کی طرح ہوجاتی ہے
یعنی اس وقت وہ آپ ہی ہوتی ہے لیکن جب آپ اسے اتار دیتے ہیں تو وہ صرف شرٹ ہوجاتی
ہے تو ایسے ہی جسم بھی روح کے نکل جانے کے بعد صرف جسم رہ جاتا ہے
ویسے بھی یہ تو قران میں بھی ہے کہ اللہ
نے تمام ارواح کو جمع کیا اور ان سے اقرار لیا کہ تمہارا رب کون ہے اور جب حضرت
ابراہیم نے خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کرلی تو انکو بھی حکم ہوا تھا کہ پکارو اور
انہوں نے پکارا تو اللہ نے انکی آواز پورے عالم میں پہنچا دی اور تمام جن و انس
اور ارواح نے وہ پکار سنی اور لبیک کہا لیکن رانا صاحب میں یہ بات نہیں کہ سکتا کہ
روح اپنی مرضی سے بھی بھٹکتی پھرتی رہے وہ بہر حال حکم کی تابع ہے" رانا صاحب پھر بھی مطمئن نہ ہوئے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار ایک بات ہے لیکن تم لوگ میرا مذاق اڑاؤ گے بعد
میں اس لئے چھوڑ ابھی"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار بتاد یں کیا ہوا کوئ بھوت دیکھ لیا کیا؟" <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار رات تم تو سوگئے جلدی اور بلوچ بھی سوگیا میں او
رنوید بیٹھے تھے باہر تب موسم بھی صاف ہوگیا تھا کچھ دیر باتیں کرتے رہے نظیر اور
وہ دوسرا بندہ بھی ساتھ بیٹھا تھا ایوں
شغل لگا رہے تھے جب وہ دونوں چلے گئے تو پھر تھوڑی دیرمیں نوید بھی چلا گیا سونے اور میں
بھی اندر لیٹ گیا باہر سردی ہورہ تھی کافی
لیکن نیند نہیں آئ کافی دیر لیٹا رہا پھر
اٹھ کر باہر آگیا کہ کچھ نائٹ فوٹو گرافی کرلوں"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"رات میں یہ جو ٹینٹ دیکھ رہا ہے" راناں صاحب نے
ان تین خیموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا" یہاں بھی چھ سات لڑکے آئے تھے وہ دیر سے پہنچے تو غل غپاڑا مچارہے تھے پتہ
نہیں کیا چرچ شراب کیا پی کر آئے تھےبہت مستی میں تھے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"میں کیمرہ اٹھا کر تھوڑی دور نکل گیا ٹرائ پاڈ لگا کر
کھڑا تھا ٹارچ میں نے بند کیا ہوا تھا کبھی کبھی جلا لیا کرتا فوکس دیکھنے کیلئے
خیردوتین تصویریں کھینچی ہونگی کہ سامنے کی طرف سے ایک لڑکی آئ خوبصورت سی جینز
پہنی ہوئ"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"صرف جینز؟؟" میں نے اشتیاق میں بے صبرے پن سے
پوچھ لیا جس پر رانا صاحب غصہ کرگئے لیکن
کچھ بولے نہیں اپنی بات جاری رکھی<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"جینز شرٹ اور سر پر ہیٹ جیسے ٹوپی ہاتھ میں سٹک پکڑی
تھی اس نے میرے پاس آکر بولی کہ آپ مجھے آگے تک راستہ دکھا دیں گے میرے پاس ٹارچ
نہیں ہے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اکیلی لڑکی تھی رات میں؟"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"ہاں اکیلی تھی خیر میں نے ٹارچ جلایا اور آگے آگے چلا
ابھی چار قدم ہی چلا تھا کہ پیچھے روشی
دکھانے پلٹا تو پیچھے کوئ نہیں دور دور روشنی ماری لیکن کوئ تھا ہی نہیں "<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"پھر؟" میں نے پوچھا لیکن مجھے رانا صاحب کی کسی
بات پر یقین نہیں آرہا تھا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"پھر کچھ نہیں میری حالت خراب ہوگئ بھاگا وہاں سے تو ٹینٹ میں آکر دم لیا تم تینوں
سو رہے تھے آیت الکرسی پڑھ پڑھ کر رات گزاری ہے کیمرہ بھی میرا ادھر ہی پڑا ہوگا
ابھی تک بارش بھی ہوگئ رات میں کیمرے کی تو ماں بہن ہوگئ ہوگی"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار سرجی آپ کو بھوت بھی نظر آیا تو لڑکی کا سچ میں
آپ کے نصیب میں بڑی لڑکیاں ہیں مجھے آپ کی قسمت پر رشک آنے لگا ہے۔۔ہاہاہا"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"مجھے معلوم تھا کہ تجھے جھوٹ ہی لگے گا خیرکوئ با ت
نہیں چل آجا کیمرے کی خیریت لے کر آتے ہیں"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ہم وہاں سے نیچے اتر کر خیمے تک آئے اندر جھانکا نویدین
سورہے تھے پھر وہاں سے تھوڑا نیچے اتر کر
آگے گئے تو رانا صاحب کا کیمرہ بمع ٹرائ پاڈ زمین پر گرا ہوا نظر <span style="text-transform: uppercase;">آگیا اور اسکی واقعی ماں بہن ہوچکی تھی۔<o:p></o:p></span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; text-transform: uppercase;">رانا صاحب دوڑ کر گئے کیمرے کو
مٹی سے اٹھایا سینے سے لگایا جھاڑا پونچھا لیکن سب بے سود وہ زندگی کی جنگ شاید
ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی ہار چکا تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; text-transform: uppercase;">کیمرے کو اس حالت میں دیکھ کر
رانا صاحب نے اس رات والی لڑکی کو وہ
پنجابی میں وہ گالیاں سنائیں کہ اگر وہ ان
کو سن سکتی تو اس کے کانوں سے دھواں نکل
آتا مجھے رانا صاحب کو بمشکل قابو کرنا پڑا کہ اگر وہ دوبارہ نظر آگئ اور ان
مغلظات پر سوال کر بیٹھی تو لینے کے دینے پڑجائیں گے ۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; text-transform: uppercase;">خیر رانا صاحب ان لوگو ں میں سے
نہیں جو گزری پر ماتم کرتے ہیں بلکہ ان میں سے ہیں بلکہ ان میں سب سے آگے ہیں جو
کہ گزری پر بہت جلد تین حرف پڑھ کر آگے کے بارے میں سوچتے ہیں تھوڑی دیر کیمرے کو
الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے اور پوری طرح معائنہ کرنے کے بعد بولے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; text-transform: uppercase;"> "یار دیکھنے میں تو ٹھیک ہی ہے بس آن نہیں
ہورہا ہے شاید بیٹری ختم ہوگئ ہو چل اب تو لاہور واپس جاکر ہی چیک ہوگا" کچھ دیر وہی بیٹھے رہے پھر رانا صاحب بولے :<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; text-transform: uppercase;">" یار میں اسے رکھ کر آتا
ہوں " ا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; text-transform: uppercase;">ور چلے گئے واپس آئے تو اپنے بیگ سے بسکٹ اور نمکو نکال کر لے آئے اور اس وقت تقریبا ساڑھے چھ بجے ہونگے تو بلوچ صاحب بخار میں مبتلا تھے اور چوہدری بھی
فوری اٹھنے کا کوئ ارادہ نہیں رکھتے تھے تب ہی رانا صاحب اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور
بولے :<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; text-transform: uppercase;">"یار چل چھوٹی جھیل سے ہوکر
آتے ہیں یہ دونوں سو رہے ہیں جلدی کر
گھنٹے ڈیڑھ میں واپس آجائیں گے"</span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار رانا صاحب آدھے راستے میں آپ کی بس ہوجاتی ہے کل
بھی آپ بیٹھ گئے آدھےراستے میں ہی" میں نے کہا تو رانا صاحب بولے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اب نہیں ہوگا تو بس تیار ہوجا جلدی فٹا فٹ جائیں گے
اور گھنٹے ڈیڑھ میں واپس"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">اور فٹافٹ ہی ہم نکل کھڑے ہوئے اور واقعی رانا صاحب وہ چال
چلے کہ بس کیا بتاؤں یوں سمجھیں کہ جیسے
پارک میں واک کررہے ہوں بغیر رکے بغیر لڑکھڑائے خود بھی چلے اور مجھے بھی چلایا
اور واقعی وہاں کا راستہ رات کے مقابلے میں بہت آسان معلوم ہوا سورج نکل چکا تھا موسم صاف
ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور ٹھنڈ
کے باوجود چلنے میں پسینہ آرہا تھا.نیلے رنگ کے سرکنڈے کے مشابہ پھول صبح کی ہوا میں لہلہا رہے تھے اور یہ پھول بہت سارے تھے یوں سمجھیں جیسے کھیت کے کھیت وہاں موجود تھے جلد ہم جھیل تک پہنچے میں کامیاب ہوگئے یہ جھیل اچانک ہی سامنے آگئ تھی گو کہ ابھی
ہماری پہنچ سے بہت دور تھی لیکن پوری وسعت میں ہمارے سامنے موجود تھی پیچھے پہاڑ
وہی زنگ رنگ میں سرخی بکھیر رہے تھے اور جھیل کی
سبزی مائل نیلی سطح پر ہوا سے پانی
پر لہریں بن رہی تھیں میرے پہلے منظر میں ایک پرندہ کہیں سے اڑتا ہوا آیا جھیل کی
سطح پر تیزی سے چہل قدمی کرکے ایک طرف اڑ
گیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">میں نے رانا صاحب کی طرف دیکھا اور محسوس کیا کہ وہ اپنے کیمرے کر بہت مس
کررہے ہیں لیکن کیا کرسکتے تھے موبائل سے
ایک آدھ تصویر کھینچ لی کیمرے میں لے جانے کو کچھ نہیں تھا لیکن بہت کچھ یادوں میں
بسایا جاسکتا تھا وہ منظر کچھ کم انوکھا
نہیں تھا بالکل ہی بہشتی منظر تھا میں نے سوچا کہ نہ جانے کیوں اس منظر کو سیاحوں
میں مقبولیت کیوں حاصل نہیں ہوئ اور ایک خوشی بھی ہوئ کہ اچھا ہی ہوا ورنہ یہ جگہ
بھی بہت جلد تباہ ہوجاتی شیوسر جھیل میں پانی کی بوتل تیرتے تو میں خود دیکھ کر
آیا ہوں۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">منظر کچھ ایسا ہی تھا کہ ہمارے جیسے مناظر کے پیاسے اپنی پیاس بجھائے جاتے لیکن وہ بجھتی
نہیں بلکہ اور بھڑکتی ہے ہم ہوس کے مارے
شرابیوں کی طرح جام پر جام لنڈھاتے لیکن پھر بھی یہی کہتے کہ: <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">یہ دور جب چلے چلائے جا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">تیرے قربان ساقی عالم<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">یہ مئے عشق ہے پلائے جا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">مجھ کو بھرپور ابھی تک نہ کوئ جام ملا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ساقیا اور پلا اور پلا اور پلا<o:p></o:p></span></div>
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">کافی وقت اسی مستی کے عالم میں گزر
گیا اور پھر مصیبت کہ جب خمار چڑھنا شروع بھی نہیں ہوتا ہمیں مے خانہ چھوڑنے کا حکم ہوتا ہے اور تب بھی
ایسا ہی ہوا اورا ٹھنا پڑا ہمارے دونوں ساتھے اٹھ چکے ہونگے اور ہمیں اگلی منزل
کیلئے کوچ کرنا تھا بے دلی سے اٹھے اور واپس اسی راستے پر پلٹ گئے جہاں </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">سے چل کر
آئے تھے لیکن اب ہماری دل خوشی سے بھرے ہونے کے باوجود بھی بھاری تھے۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiVuiRxqXKfO8bHD4cKBdKFXJ1063v9Q0tDJafqVw1pyt1Vo-FbREdRi6e2A3x4d0FROZ9sCRn8tbkv_XBs6pcd5MwV3jM9BXMoSCxfquDRuvj7e0PIdAnBa1oGysDx3K8mWpVcs_vQ4r_P/s1600/14536539_1221100501296668_473485574_o.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiVuiRxqXKfO8bHD4cKBdKFXJ1063v9Q0tDJafqVw1pyt1Vo-FbREdRi6e2A3x4d0FROZ9sCRn8tbkv_XBs6pcd5MwV3jM9BXMoSCxfquDRuvj7e0PIdAnBa1oGysDx3K8mWpVcs_vQ4r_P/s400/14536539_1221100501296668_473485574_o.jpg" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><a href="https://www.facebook.com/ranausman2266" target="_blank">تصویر رانا صاحب</a></td></tr>
</tbody></table>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhIJJYun-8IZ97MtploI648_fA6S8Be7UCLySt7jcakMY6EhY4MhvYjC4dZil7Q3UUF_S5SWZIIXAzEt0WAk6BPtY0uAD-MAxxCL2TEJBan21pOntuHd9s1hhTpB_BXYjFZh2z-VkVgzchq/s1600/14489528_1221101847963200_2018453950_o.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhIJJYun-8IZ97MtploI648_fA6S8Be7UCLySt7jcakMY6EhY4MhvYjC4dZil7Q3UUF_S5SWZIIXAzEt0WAk6BPtY0uAD-MAxxCL2TEJBan21pOntuHd9s1hhTpB_BXYjFZh2z-VkVgzchq/s400/14489528_1221101847963200_2018453950_o.jpg" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><a href="https://www.facebook.com/ranausman2266" target="_blank">فوٹو رانا عثمان</a></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><a href="http://faizanqadri.blogspot.com/2015/10/blog-post_16.html" target="_blank">دوسرا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں</a></span><br />
<br />
<a href="http://faizanqadri.blogspot.com/2015/09/blog-post_27.html" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: x-large;" target="_blank">پہلا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں</a><br />
<br /></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com6tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-18546179543101495102016-09-18T15:02:00.000+05:002016-09-20T10:20:54.832+05:00The Whole thing is that......<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<!--[if gte mso 9]><xml>
<o:OfficeDocumentSettings>
<o:AllowPNG/>
</o:OfficeDocumentSettings>
</xml><![endif]--><br />
<!--[if gte mso 9]><xml>
<w:WordDocument>
<w:View>Normal</w:View>
<w:Zoom>0</w:Zoom>
<w:TrackMoves/>
<w:TrackFormatting/>
<w:PunctuationKerning/>
<w:ValidateAgainstSchemas/>
<w:SaveIfXMLInvalid>false</w:SaveIfXMLInvalid>
<w:IgnoreMixedContent>false</w:IgnoreMixedContent>
<w:AlwaysShowPlaceholderText>false</w:AlwaysShowPlaceholderText>
<w:DoNotPromoteQF/>
<w:LidThemeOther>EN-US</w:LidThemeOther>
<w:LidThemeAsian>X-NONE</w:LidThemeAsian>
<w:LidThemeComplexScript>AR-SA</w:LidThemeComplexScript>
<w:Compatibility>
<w:BreakWrappedTables/>
<w:SnapToGridInCell/>
<w:WrapTextWithPunct/>
<w:UseAsianBreakRules/>
<w:DontGrowAutofit/>
<w:SplitPgBreakAndParaMark/>
<w:EnableOpenTypeKerning/>
<w:DontFlipMirrorIndents/>
<w:OverrideTableStyleHps/>
</w:Compatibility>
<m:mathPr>
<m:mathFont m:val="Cambria Math"/>
<m:brkBin m:val="before"/>
<m:brkBinSub m:val="--"/>
<m:smallFrac m:val="off"/>
<m:dispDef/>
<m:lMargin m:val="0"/>
<m:rMargin m:val="0"/>
<m:defJc m:val="centerGroup"/>
<m:wrapIndent m:val="1440"/>
<m:intLim m:val="subSup"/>
<m:naryLim m:val="undOvr"/>
</m:mathPr></w:WordDocument>
</xml><![endif]--><!--[if gte mso 9]><xml>
<w:LatentStyles DefLockedState="false" DefUnhideWhenUsed="false"
DefSemiHidden="false" DefQFormat="false" DefPriority="99"
LatentStyleCount="371">
<w:LsdException Locked="false" Priority="0" QFormat="true" Name="Normal"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" QFormat="true" Name="heading 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 7"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 8"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 9"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 6"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 7"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 8"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 9"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 7"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 8"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 9"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Normal Indent"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="footnote text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="annotation text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="header"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="footer"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index heading"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="35" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="caption"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="table of figures"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="envelope address"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="envelope return"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="footnote reference"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="annotation reference"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="line number"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="page number"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="endnote reference"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="endnote text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="table of authorities"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="macro"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="toa heading"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Bullet"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Number"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Bullet 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Bullet 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Bullet 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Bullet 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Number 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Number 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Number 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Number 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="10" QFormat="true" Name="Title"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Closing"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Signature"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="1" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="Default Paragraph Font"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text Indent"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Continue"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Continue 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Continue 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Continue 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Continue 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Message Header"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="11" QFormat="true" Name="Subtitle"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Salutation"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Date"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text First Indent"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text First Indent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Note Heading"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text Indent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text Indent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Block Text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Hyperlink"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="FollowedHyperlink"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="22" QFormat="true" Name="Strong"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="20" QFormat="true" Name="Emphasis"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Document Map"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Plain Text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="E-mail Signature"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Top of Form"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Bottom of Form"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Normal (Web)"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Acronym"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Address"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Cite"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Code"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Definition"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Keyboard"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Preformatted"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Sample"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Typewriter"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Variable"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Normal Table"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="annotation subject"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="No List"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Outline List 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Outline List 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Outline List 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Simple 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Simple 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Simple 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Classic 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Classic 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Classic 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Classic 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Colorful 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Colorful 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Colorful 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Columns 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Columns 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Columns 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Columns 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Columns 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 6"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 7"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 8"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 6"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 7"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 8"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table 3D effects 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table 3D effects 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table 3D effects 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Contemporary"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Elegant"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Professional"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Subtle 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Subtle 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Web 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Web 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Web 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Balloon Text"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" Name="Table Grid"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Theme"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" Name="Placeholder Text"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="1" QFormat="true" Name="No Spacing"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" Name="Revision"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="34" QFormat="true"
Name="List Paragraph"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="29" QFormat="true" Name="Quote"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="30" QFormat="true"
Name="Intense Quote"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="19" QFormat="true"
Name="Subtle Emphasis"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="21" QFormat="true"
Name="Intense Emphasis"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="31" QFormat="true"
Name="Subtle Reference"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="32" QFormat="true"
Name="Intense Reference"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="33" QFormat="true" Name="Book Title"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="37" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="Bibliography"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="TOC Heading"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="41" Name="Plain Table 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="42" Name="Plain Table 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="43" Name="Plain Table 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="44" Name="Plain Table 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="45" Name="Plain Table 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="40" Name="Grid Table Light"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46" Name="Grid Table 1 Light"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51" Name="Grid Table 6 Colorful"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52" Name="Grid Table 7 Colorful"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46" Name="List Table 1 Light"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51" Name="List Table 6 Colorful"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52" Name="List Table 7 Colorful"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 6"/>
</w:LatentStyles>
</xml><![endif]--><!--[if gte mso 10]>
<style>
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri","sans-serif";
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
</style>
<![endif]-->
<br />
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">ہمارے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>قریبی دوست<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہیں زوہیب شیخ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بڑے دلچسپ اور بزلہ سنج آدمی ہیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بات بات پر قہقہ لگانا اور لگوانا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انکا مشغلہ<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>ہے خالص کراچیائ انداز کی اردو بولتے ہیں کہ سننے والا صرف سن کر ہی محضوظ
ہوتا رہے ایک مشہور یونیورسٹی سے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سیلز
اینڈ مارکٹنگ میں ڈگری لے رکھی ہے اپنے کام کے ماہر بھی ہیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور شاید پیدا بھی اسی کام کیلئے ہوئے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہیں کہ
زبان کے لپیٹوں سے بڑے بڑوں کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جلد زیر کر
لیتے ہیں دوستوں کے حلقہ میں بہت مقبو ل ہیں اور کوئ بھی ان سے صلاح لئے بغیر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کوئ کام نہیں کرتا چاہے وہ گاڑی خریدنے کا
معاملہ ہو یا کسی محبوبہ کے گھر شادی کا پیغام بھیجنا ہو اور اب ان کو صلاح دینے
کی ایسے عادت ہوچکی ہے کہ اگر صلاح نہ لی گئ اور انکو بعد میں معلوم ہوا تو اکثر
روٹھ جاتے ہیں اور پھر دوست ان کو مناتے پھرتے ہیں اور یہ اس شرط پر کہ آئندہ ایسا
نہیں ہوگا مان بھی جاتے ہیں۔ </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">بڑے دن غائب رہے پھر ایک دن اچانک<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>فون آیا کہ تشریف لارہے ہیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>خبر سن کر ہی دل باغ باغ ہوگیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کہنے لگے کہ بس پانچ منٹ میں پہنچ رہے ہیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چائے تیار رکھی جائے پابندئ وقت کی بالکل
پابندی نہیں کرتے تو پانچ منٹ کوئ پونے دو گھنٹے بعد پورے ہوئے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آئے تو ایک ہاتھ میں مٹھائ کا ڈبہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور دوسرے میں اپنا بستہ تھامے ہوئے تھے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آتے ہی بولے</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">" سوری بھائ<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>دیر ہوگئ "</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"وہ تو آپ کی پرانی عادت ہے لیکن یہ مٹھائ کس خوشی
میں"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"ابے تیرےبھائ کی جاب لگ گئ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہے دادا۔۔<span style="mso-spacerun: yes;">
</span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>دبئ میں بارہ ہزار درہم سیلری "</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"ارےواہ بھائ مبارک ہو بہت بہت <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بہت خوشی کی خبر ہے اور صرف مٹھائ پر ٹرخارہے ہو
لڑکے"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">بولے"ابے لونڈے کیوں بے صبرا ہوا جارہا ہے جانے تو دے
بھائ کو <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پھر جمیرا بیچ پر پارٹی دیگا تیرا
بھائ فکر کیوں کرتا ہے نوٹ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تو آنے دے پہلے
" </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">کچھ دیر خاموش رہے اسکے بعد پھر دوبار بولے"ویسے دادا
ایک بات دیکھ لی تیرے بھائ نے کہ پیسے میں بڑی پاور ہے" </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"وہ تو ہے لیکن آپ نے کیسے اور کب دیکھی"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">" ابے دیکھ لی بھائ اور بڑے اچھے سے دیکھ لی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>خیر چل ایک واقعہ سناتا ہوں ۔۔۔ شیخ سعدی کا
نام سنا ہے؟ ابے بڑے مشہور شاعر تھے ایران کے خیر نہیں پتہ تو سن لے"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"ایران کا بادشاہ بھی بڑا کوئ افلاطون تھا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہر وقت<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>علم کی باتیں کرتا گھر میں کوئ یونیورسٹی ٹائپ بھی کچھ سیٹ اپ ڈالا ہوا تھا
بڑے بڑے علامہ بھرے ہوئے تھے جیب سے سیلری دیتا مزے لگے ہوئے تھے سب کے"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"ایک دن بادشاہ کو لگا کہ وہ بھرتی والے علاماؤں کی
باتیں سن سن کر پک گیا ہے تو اس نے پورے ملک سے سارے بڑے بڑے عالم فاضل سب کو بولا
کہ باس فلاں فلاں دن ہمارے محل میں آئیں کھانا بھی پھوڑیں اور بھاشن بھی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سنیں<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>اور سنائیں"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"خیر بھائ بادشاہ کے بندے ہر ہر عالم کے گھر گھر گئے
تب سیٹ اپ ایسا ایڈوانس نہیں تھا کہ ایک ویٹس ایپ میسج کردیا سب کو پتہ لگ
گیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"بادشاہ کا بندہ شیخ سعدی کے گھر بھی پہنچا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور انکو بولا کہ دادا یہ سین ہے آنا پڑے
گا"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"شیخ سعدی بھن ہوگئے بولے ابے پاگل واگل ہوگیا ہے کیا
بادشاہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جا کر بول دو نکل لے اپنے پاس
فالتو <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ٹائم<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کوئ ہے"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"ابے بھائ بادشاہ کے بندوں کی ہوا شاٹ ہوگئ کہ واپس
جاکر کیا بولیں الٹا ڈنڈے پڑ جائیں گے کہ ایک بابا نہ پٹا کر لاسکے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تم<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تو
انہوں نے جاکر بول دیا کہ بھئ وہ کہ رہے ہیں کہ بادشاہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو کام ہے تو خود آئے"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"یہ سب کر بادشاہ ایک منٹ کو سن ہوگیا پھر بولا ہاں
استاد بات تو ٹھیک ہے مجھے کام ہے تو مجھے جانا چاھئے تھا آخر کو اپنا بڑا بندہ ہے
تو وہ صاحب تیا ر ہوئے اور پہنچ گئے"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"وہاں پہنچے تو شیخ صاحب بولے "اور لڑکے سب سیٹ
کوئ نئ تازی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کیسے آنا ہوا؟"، یعنی
کوئ لفٹ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہی نہیں کرائ سائڈ کرادیا
بلکل"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"بادشاہ کی ہٹی تو بہت<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>لیکن شریف<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>بندہ تھا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چپ کرگیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آجکل کا کوئ بادشاہ ہوتا ناں تو گن نکال لیتا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کہ ابے بڈھے ایک تو طالبان تیار کررہاہے مدرسہ
کھول کر اوپر سے بھرم دکھا رہا ہے خیر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس
نے کیا مولوی صاحب آپ کے بھائ نے دعوت رکھی ہے اور آپ کو آنا پڑے گا"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"شیح صاحب بولے ابے نہیں بھائ میں ویں نہیں آتا جا تا
کہیں ٹائم کے لسن لگ جاتے ہیں اس سے اچھا ہے کہ بندہ یہاں بیٹھ کر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کچھ کرلے گلستان بوستان کے ایک دو چیپٹر نکال
لیگا تیرا بھائ"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"بادشاہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نے
بڑی منت کرلی کہ دادا اور بھی آپ کے دوست ہونگے وہاں اچھی گیدرنگ رہے گی مزا آئے
گا لش پش لیکن مولانا مان کے نہیں دئے"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"خیر بھی بادشاہ تھک ہار کر اٹھا کہ چل بھائ یہ تو
مانے گا نہیں ہم نکلتے ہیں تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>شیخ صاحب
بولے کہ چل تو خود آیاہے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بلانے تو تیرا
بھائ آجائے گا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>لیکن زیاد لمبی نہیں کرنا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بس تھوڑی دیر میں کھا پی کے نکل لیں گے "</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"بادشاہ راضی ہوگیا کہ خیر ہوگئ آپ آئیں تو سہی آپ کے
آتے ہی کھانا کھول دیں گے اور پھر بولا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چلو دادا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>یہ تو ہوگیا اب ملتے ہیں پارٹی میں"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"خیر دعوت والے دن شیخ صاحب بھی گھر سے نکلے کہ چلو اب
بلایا ہے تو جانا تو پڑے گا لیکن تھے بڑے درویش آدمی جس حلیہ میں گھر میں بیٹھے
تھے اسی میں اٹھ کر پہنچ گئے وہاں اب چوکیدار نے روک لیا کہ بھیا کدھر ؟ یہاں بادشاہ
کی پارٹی چل رہی ہے"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"شیخ صاحب نے بھی بولاکہ دادا گیٹ کھولو ہم بھی بادشاہ
کے مہمان ہیں تو چوکیدار ہنسنے لگے کہ بڑے میاں بادشاہ کے مہمان ایسے حلیہ میں آتے
ہیں کیا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تو شیخ صاحب نے بھی بولا کہ بیٹا
مجھے بھی کوئ شوق نہیں تھا وہ تیرا باپ ہی آیا تھا بھائ کو بلانے گھر تو میں آیا
ہوں لیکن چوکیدار پھر بولا کہ جائیں سرکار کسی نے دیکھ لیا کہ میں یہاں آپ سے بحث
میں لگا ہوں تو میری نوکری تیل ہوجائے گی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میرے بھی بچے ہیں مجھے بھی بیگم کو سنا
سفیناز<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>دلانا ہے عید <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پر نوکری چلی گئ تو اپنا تو گیم بج جائے گا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس لئے معاف کرو بابا" </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">" خیر اب تو شیخ صاحب کی بھن ہوگئ بولے واہ بھئ بلایا
اور اندر بھی نہیں آنے دیا خیر آدمی تیز تھے فورا" کسی ڈیزائنر کے پاس پہنچ گئے
اور فل ٹپ ٹاپ کپڑے وپڑے پہن کر تیار ہوکر دوبارہ پہنچ گئے ادھر پارٹی میں"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"اب کی بار جو پہنچے تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>دیکھا کہ بادشاہ خود باہر کھڑا ہوا ہے نکل کر
جیسے ہی شیخ صاحب وہاں پہنچے لپک کر بازو پکڑ لیا اور اندر کھینچتے ہوئے بولا کہ
دادا کہاں رہ گئے تھے کب سے سب ویٹ کر رہے ہیں بھوک لگ رہی ہے ٹائٹ انتظار ہورہا
ہے تو شیخ صاحب نے ٹوپی کرادی کی بس سگریٹ لینے رک گیا تھا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یا کوئ بھی ٹوپی کرادی پان وان کی اس سے کوئ
فرق نہیں پڑتا خیر۔۔۔"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"کھانا لگ گیا سب شروع ہوگئے لیکن شیخ صاحب بیٹھے رہے
تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بادشاہ بولا چلو بھیا شروع کردو اور
کھینچ کے رکھو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بہت آئٹم ہیں"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"شیخ صاحب نے ایک پلیٹ میں کھانا نکالا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور اپنے سوٹ کا دامن شوربہ میں ڈبا دیا
اور<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کچھ سالن وغیرہ سے اپنا عمامہ رنگین
کردیا "</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"اس پر وہ بولا کی ابے بھائ یہ کیا کر رہا ہے؟"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">تو شیخ صاحب بولے "میری بات سن لے اب ذرا کان کھول کر،
یہ جو مجھے دیر ہوئ ہے آنے میں یہ میں کوئ ٹریفک میں نہیں پھنسا ہوا تھا یا کوئ
سگریٹ پان لینے نہیں گیا تھا پوچھ لے اپنے چوکیدار کو میں نارمل کپڑوں میں آیا تھا
تو انہوں نے مجھے گیٹ سے بھگا دیا کہ ایسے حلیہ میں پارٹی میں نہیں گھس سکتے کیوں
کی بادشاہ کی پارٹی ہے"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"اس کے بعد ہی یہ کرایہ پر سوٹ لیا ہے عمامہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>لیا اور تو جو یہ پھنکتا ہے ناں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کہ تجھے علم ولم کی باتیں کرنی ہیں اور سننی
ہیں تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یہ سب<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تو جھوٹ بولتا ہے یہ سب ڈرامہ بند کر یہ سب جو
دعوت ہے وہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اسی لباس کی دعوت ہے تو کھانا
بھی اسی کو ملنا چاھئے ناں ہماری عزت کوئ نہیں اگر اچھے کپڑے نہ ہوں یا لش پس
دکھتے نہ ہوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>علم ولم اور کتابیں شاعری سب
اس کے بعد ہے"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">ہم انتظار میں تھے کہ آگے بھی کچھ سنائیں گے تو پوچھ لیا
" پھر"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">بولے" ابے کوئ فلم کی سٹوری تھوڑی تھی ختم ہوگئ
بس"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">ہم نے پوچھا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>"لیکن آج اس داستا ن کو سنانے کی وجہ کیا تھی؟"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">بولے" وجہ سادہ سی تھی تجھے پتہ ہے تیرا بھائ جاب لیس
تھا کنگال تھا سگریٹ بھی ابا کے ڈبے سے چوری کرکے پیا کرتا تھا یعنی کہ کوئ سین ہی
نہیں تھا اپنا "</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"ہاں تو"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"ابے خاندان میں تو کیا گھر میں بھی کوئ منہ نہیں
لگاتا تھا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بھائ کہ یہ فالتو چیز ہے کسی
کام کا نہیں صرف امی بیچاری چوری چھپے خیال کیا کرتی تھیں پیسے ویسے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>دے دیا کرتی تھیں"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"لیکن دادا کل تو بھئ انت ہی ہوگیا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ناں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>شام
میں دیکھا تو اپنے ماموں ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں اور بڑی ہنس ہنس کر باتیں ہورہی
ہیں ہم سے استاد اٹھ کر گلے ملے مبارکباد<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>دی کب جارہے ہو کیا سیٹ اپ ہے وغیرہ وغیرہ<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>پھر بولے جارہے پھر سیٹ ہوجاؤ تو اپنے بھائیوں کا بھی دیکھنا کچھ سیٹنگ بن جائے
تو"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"صبح امی نے بتایا کہ باتوں باتوں میں عارفین کے رشتے
کی بات کرگئے ہیں تمہارے لئے۔ امی نے ہی کہا کہ میں نے کہ دیا کی ابھی تو جارہا ہے
کچھ دن رک جائیں </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">سیٹ ہوجائے پھر اس سے بات کرتے ہیں تو اصل میں یہ جو ماموں ہمارے لئے رشتہ لیکر آئے تھے وہ ہمارے لئے نہیں بارہ ہزار درہم سلیری کیلئے لے کر آئے تھے"</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;">"یعنی میرے عزیز کل ملا کہ یہ کہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span> </span></div>
<div class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%;"><a href="https://www.youtube.com/watch?v=Hb1woVazefM" target="_blank">"نہ باپ بڑا نہ بھیا۔ دا ہول تھنگ از دیٹ کہ بھیا سب سے بڑاروپیہ" </a></span></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-11055208057074860612016-09-17T14:57:00.000+05:002016-09-17T14:57:00.409+05:00ماضی کی یادوں سے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<!--[if gte mso 9]><xml>
<o:OfficeDocumentSettings>
<o:AllowPNG/>
</o:OfficeDocumentSettings>
</xml><![endif]--><br />
<!--[if gte mso 9]><xml>
<w:WordDocument>
<w:View>Normal</w:View>
<w:Zoom>0</w:Zoom>
<w:TrackMoves/>
<w:TrackFormatting/>
<w:PunctuationKerning/>
<w:ValidateAgainstSchemas/>
<w:SaveIfXMLInvalid>false</w:SaveIfXMLInvalid>
<w:IgnoreMixedContent>false</w:IgnoreMixedContent>
<w:AlwaysShowPlaceholderText>false</w:AlwaysShowPlaceholderText>
<w:DoNotPromoteQF/>
<w:LidThemeOther>EN-US</w:LidThemeOther>
<w:LidThemeAsian>X-NONE</w:LidThemeAsian>
<w:LidThemeComplexScript>AR-SA</w:LidThemeComplexScript>
<w:Compatibility>
<w:BreakWrappedTables/>
<w:SnapToGridInCell/>
<w:WrapTextWithPunct/>
<w:UseAsianBreakRules/>
<w:DontGrowAutofit/>
<w:SplitPgBreakAndParaMark/>
<w:EnableOpenTypeKerning/>
<w:DontFlipMirrorIndents/>
<w:OverrideTableStyleHps/>
</w:Compatibility>
<m:mathPr>
<m:mathFont m:val="Cambria Math"/>
<m:brkBin m:val="before"/>
<m:brkBinSub m:val="--"/>
<m:smallFrac m:val="off"/>
<m:dispDef/>
<m:lMargin m:val="0"/>
<m:rMargin m:val="0"/>
<m:defJc m:val="centerGroup"/>
<m:wrapIndent m:val="1440"/>
<m:intLim m:val="subSup"/>
<m:naryLim m:val="undOvr"/>
</m:mathPr></w:WordDocument>
</xml><![endif]--><!--[if gte mso 9]><xml>
<w:LatentStyles DefLockedState="false" DefUnhideWhenUsed="false"
DefSemiHidden="false" DefQFormat="false" DefPriority="99"
LatentStyleCount="371">
<w:LsdException Locked="false" Priority="0" QFormat="true" Name="Normal"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" QFormat="true" Name="heading 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 7"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 8"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="9" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="heading 9"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 6"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 7"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 8"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index 9"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 7"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 8"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="toc 9"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Normal Indent"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="footnote text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="annotation text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="header"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="footer"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="index heading"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="35" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="caption"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="table of figures"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="envelope address"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="envelope return"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="footnote reference"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="annotation reference"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="line number"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="page number"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="endnote reference"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="endnote text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="table of authorities"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="macro"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="toa heading"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Bullet"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Number"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Bullet 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Bullet 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Bullet 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Bullet 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Number 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Number 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Number 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Number 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="10" QFormat="true" Name="Title"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Closing"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Signature"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="1" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="Default Paragraph Font"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text Indent"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Continue"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Continue 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Continue 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Continue 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="List Continue 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Message Header"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="11" QFormat="true" Name="Subtitle"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Salutation"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Date"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text First Indent"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text First Indent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Note Heading"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text Indent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Body Text Indent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Block Text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Hyperlink"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="FollowedHyperlink"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="22" QFormat="true" Name="Strong"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="20" QFormat="true" Name="Emphasis"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Document Map"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Plain Text"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="E-mail Signature"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Top of Form"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Bottom of Form"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Normal (Web)"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Acronym"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Address"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Cite"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Code"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Definition"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Keyboard"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Preformatted"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Sample"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Typewriter"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="HTML Variable"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Normal Table"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="annotation subject"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="No List"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Outline List 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Outline List 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Outline List 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Simple 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Simple 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Simple 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Classic 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Classic 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Classic 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Classic 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Colorful 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Colorful 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Colorful 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Columns 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Columns 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Columns 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Columns 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Columns 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 6"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 7"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Grid 8"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 4"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 5"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 6"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 7"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table List 8"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table 3D effects 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table 3D effects 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table 3D effects 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Contemporary"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Elegant"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Professional"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Subtle 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Subtle 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Web 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Web 2"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Web 3"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Balloon Text"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" Name="Table Grid"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" UnhideWhenUsed="true"
Name="Table Theme"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" Name="Placeholder Text"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="1" QFormat="true" Name="No Spacing"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" SemiHidden="true" Name="Revision"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="34" QFormat="true"
Name="List Paragraph"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="29" QFormat="true" Name="Quote"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="30" QFormat="true"
Name="Intense Quote"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="60" Name="Light Shading Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="61" Name="Light List Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="62" Name="Light Grid Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="63" Name="Medium Shading 1 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="64" Name="Medium Shading 2 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="65" Name="Medium List 1 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="66" Name="Medium List 2 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="67" Name="Medium Grid 1 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="68" Name="Medium Grid 2 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="69" Name="Medium Grid 3 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="70" Name="Dark List Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="71" Name="Colorful Shading Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="72" Name="Colorful List Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="73" Name="Colorful Grid Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="19" QFormat="true"
Name="Subtle Emphasis"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="21" QFormat="true"
Name="Intense Emphasis"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="31" QFormat="true"
Name="Subtle Reference"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="32" QFormat="true"
Name="Intense Reference"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="33" QFormat="true" Name="Book Title"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="37" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" Name="Bibliography"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="39" SemiHidden="true"
UnhideWhenUsed="true" QFormat="true" Name="TOC Heading"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="41" Name="Plain Table 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="42" Name="Plain Table 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="43" Name="Plain Table 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="44" Name="Plain Table 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="45" Name="Plain Table 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="40" Name="Grid Table Light"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46" Name="Grid Table 1 Light"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51" Name="Grid Table 6 Colorful"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52" Name="Grid Table 7 Colorful"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="Grid Table 1 Light Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="Grid Table 2 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="Grid Table 3 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="Grid Table 4 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="Grid Table 5 Dark Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="Grid Table 6 Colorful Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="Grid Table 7 Colorful Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46" Name="List Table 1 Light"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51" Name="List Table 6 Colorful"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52" Name="List Table 7 Colorful"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 1"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 2"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 3"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 4"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 5"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="46"
Name="List Table 1 Light Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="47" Name="List Table 2 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="48" Name="List Table 3 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="49" Name="List Table 4 Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="50" Name="List Table 5 Dark Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="51"
Name="List Table 6 Colorful Accent 6"/>
<w:LsdException Locked="false" Priority="52"
Name="List Table 7 Colorful Accent 6"/>
</w:LatentStyles>
</xml><![endif]--><!--[if gte mso 10]>
<style>
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri","sans-serif";
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
</style>
<![endif]-->
<br />
<div align="center" class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<br /></div>
<br /><div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">یہ قصہ ہے ہمارے بچپن کا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ویسے تو یہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>قصہ کوئ زیادہ پرانا نہیں ہمارا بچپن ابھی گزرا
کہا ں ہے یہی کوئ سال دو سال پرانی بات لگتی ہے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>قصہ یوں شروع ہوتا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہے کہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ایک مرتبہ ہم اپنی پھوپھی کے گھر گئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہمارے
پھوپھا خیر سے سرکاری افسر تھے اور رہنے کو انکو <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انگریز کے زمانے کا بنا ہوا ایک سرکاری کواٹر
ملا ہوا تھا ۔کواٹرمیں رہنے کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کمرے کم
لیکن صحن، دالان ،برامدے بہت <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سارے تھے گھر
سے سامنے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی طرف پکی دیوار تھی جس پر لکڑی
کا ایک دروازہ لگا تھا لیکن پچھواڑے ایک دروازے کے بعد ایک بہت بڑا میدان بھی گھر
کے حصہ میں شامل تھا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جسے آپ بیرونی صحن کہ
سکتے ہیں اور اس کے آخری سرے پر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کیکر کی
ایک باڑ بنا کر چھوٹا تین فٹا ایک دروازہ لگا ہوا تھا اور ہر دو گھروں کے درمیان
بھی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ایسی ہی ایک باڑ تھی جوایک گھر کو
دوسرے سے جدا کرتی تھی اور یہی دروازہ آمد و رفت کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;"><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>خیر قصہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>شروع ہوتا ہے جب ہم ایک دن اپنی ان<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہی پھوپھی کے گھر پہنچ جاتے ہیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>شاید کوئ دعوت تھی یا معلوم نہیں کسی بچے کے
عقیے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یا ختنے کا کوئ پروگرام<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تھا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بہر حال وہاں ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے ہمارے
ہم عمر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بچے بچیاں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جمع تھے۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">کم عمر بچوں کیلئے اس گھر میں بہت سا دلچسپی کا سامان موجود
تھا جیسے کہ ہر کمرے میں ایک چمنی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور
ایسی کھڑکیاں جہاں ایک بندہ آرام سے بیٹھ سکتا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>تھا ، روشن دان جو چھت پر کھلتے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>اور ان روشندانوں سے کمروں میں جھانکنے کیلئے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چھت پر جاناپڑتا اور وہاں جانے کیلئے لوہے کا
ایک گول زینہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>خاص بات یہ تھی کہ کالونی کے ایک لائن میں بنے
تمام مکانوں کی چھتیں ملی ہوئ تھیں تو چھت پر پہنچ کر صرف وہی روشن دان ایسا نہیں
تھا جس سے ہم اندر جھانکتے بلکہ ہر ہر کھلے روشندان سے اندر جھانکنا اپنا فرض
سمجھتے اب سوچتا ہوں کبھی کبھی انسان کو نعمتیں تب عطا ہوجاتی ہے جب انہیں انکی
افادیت کا شعور نہیں ہوتا ان کھلے روشندانوں سے وہ وہ مناظر نظر آنے کے قوی
امکانات موجود تھے جن کا بیان یہاں قطعی غیر مناسب ہے خیر چھوڑئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کیا جلے دل کے پھپھولے پھوڑنا۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">تو صاحبان ہمارا قصہ شروع ہوتا ہے جب ہم ایک دن کسی تقریب
میں پھوپھی کے گھر پہنچ گئے اب جہاں بہت سے بچے ہوں تو ظاہر ہے بڑے بھی ہوتے ہیں
اور جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ان گھروں میں کمرے کم اور دالان اور برامدے
اور صحن زیادہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تھے تو ایک کمرے میں خواتین
نے غیبت چوک کھول لیا دوسرے میں مرد حضرات نے کرکٹ ، سیاست ، دفتر وغیرہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وغیرہ<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>جیسے پھیکے موضوعات پر گفتگو کا بازار گرم کردیا ظاہرہے ان دونوں میں بچوں
کا کوئ خاص دلچسپی نہیں ہوتی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">پہلے زمانوں کے بچے بھی عجیب ہوا کرتے تھے پہلے پہل جب کسی
رشتہ دار کے گھر جاتے تو امی کے پلو یا ابو کے پہلو سے لگ کر بیٹھ جاتے اور اس بات
کا انتظار کرتے کہ بڑے خود ان سے کہ دیں کہ جاکر کھیلو <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تو اس
دن بھی ہم ابو کے پہلو میں بیٹھے عمران ، میانداد اور ضیا الحق کے بارے میں جاری
ہونے والے بیان سن رہے تھے اور سنے جارہے تھے اور سامنے کسی اور انکل کے پہلو میں
بیٹھا کوئ اور بچہ بھی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اسی امتحان سے گزر
رہا تھا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور اندر کمرے میں بھی بہت سے بچے
امیوں کے پلوؤں سے بندھے اپنی دادیوں اور دیگر خواتین<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>بارے میں ہونے والی گفتگو سن رہے تھے اور جب گفتگو میں کوئ ایسا خطرناک موڑ
آیا کہ بچوں کی موجودگی کو ناموزوں جاناگیا تو ان کو اذن ملا کہ "جاؤ باہر
جاکر کھیلو" اور اگلے ہی لمحے کئ ایک جانے پہچانے چہرے دروازے میں کھڑے
نظرآنے لگے جنہیں دیکھ کر ہماری بےچینی عروج کو پہنچنے لگی تو ہماری کسی دادا نما
شخصیت نے ہماری آزادی کا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پروانہ جاری
کردیا اور ہم وہاں سے رفو چکر ہوئے اور دروازے کھڑے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>دیگر بچوں میں پہنچ کر دوسرا سانس لیا۔ </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">اب جو سب بچے مل گئے تو وہ شور ڈالا کی الامان الحفیظ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بڑوں نےحکم جاری کردیا کہ گھر سے باہر جاکر
کھیلو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ساتھ ہی یہ حکم بھی ملا کہ سب بچے صرف گھر کے
سامنے کھلییں گے ،بچوں کی تو عید ہی ہوگئی باہر نکل کر ادھر ادھر بھاگ دوڑ پکڑم
پکڑائ اور چھپن چھپائ شروع ہوگیا کھیلنے کو ایک بہت بڑا میدان<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جو میسر آگیا۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">چھپن چھپائ کے دوران ہی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ایک باری میں ہم چور تھے اور <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پھوپھی کے گھر کے سامنے روڈ کی دوسری طرف موجود
مسجد<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی دیوار کے ساتھ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اصول<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>کے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مطابق با آواز بلند گنتی گن کر
سب کو چھپنے کا موقع فراہم کر رہے تھے کہ اچانک پاس ہی سے ایک غراہٹ سنائ دی اور
جو پلٹ کر دیکھا تو ایک کتیا ننھے ننھے پلوں کے ساتھ اسے دیوار کے ساتھ موجود تھی
جہاں ہم کھڑے گنتی گننے میں مشغول تھے ایک لمحے میں سٹی گم اور گنتی بھول کر جو دم
دبا کر بھاگے تو <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>معلوم نہیں کہاں تک دم
واپس سیدھا نہ کرسکے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور جب رکے تو میدان
کے دوسری طرف سڑک پر کھڑے ہانپ رہے تھے خیر جب دم میں دم آیا تو اپنے ساتھیوں کو
آوازیں لگانا شروع کیں لیکن جواب ندارد<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>ایک بات جو ہم بتانا بھول گئے ہیں وہ یہ کہ کالونی کے تمام ہی مکان باہر سے
بھی ایک جیسے دکھتے تھے یعنی وہی چھوٹا سا گیٹ اور وہی لیمپ وہی باڑ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مکان نمبر اس دور میں یاد ہوتے نہیں تھے ،تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہم تب تک اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ ہم <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بھٹک چکے ہیں لیکن مکانوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور گلیوں کی یکسانیت کی وجہ سے خود کو راہ
راست پر سمجھ رہے تھے۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">کچھ دیر دوستوں کو آوازیں دینے کے بعد ہم نے یہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سمجھا کہ وہ سب چھپے ہوئے ہیں اسی وجہ سے ہماری
آواز کے جواب میں کوئ بول نہیں رہا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور
انکی تلاش میں کئ گز اور ادھر ادھر نکل گئے لیکن کوئ بھی نظر نہ آیا تو ایک لمحہ
کو تو بہت غصہ آیا کہ بھلا یہ کیا حرکت ہوئ کہ چھپ گئے تو کوئ آواز ہی نہیں نکال
رہا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور دوسرے لمحے فیصلہ کرلیا ہے کہ ان
کو چھپا چھوڑ کر ہم گھر چلے جاتے ہیں اب جو نظر اٹھا کر دیکھا تو سب کے سب گھر ایک
شکل کے لیکن پھوپھی کے گھر کی نشانی تھی کہ انکے گھر کے سامنے کچھ دور مسجد تھی
سوچا واپس مسجد تک چلتے ہیں اور وہاں پہنچ گئے تو سمجھو گھر پہنچ گئے اب جو پلٹے
اور مسجد کی طرف چلے تو مسجد تو وہاں تھی ہی نہیں خیال آیا کہ شاید ہم زیادہ آگے
نکل آئے ہیں تھوڑا اور چلیں گے تو مسجد مل جائے گی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>لیکن تھوڑا اور چلنے پر ایک ڈبل روڈ آگیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور ہم وہاں حیران پریشان کھڑے رہ گئے۔ </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">ایک طرف تو یہ ہوا اب دوسری طرف کا حال بھی سن لیں کہ جب ہم
گنتی پوری کرکے واپس نہیں آئے تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بچے ہمیں
تلاش کرتے مسجد کی دیوار تک آئے اور ہمیں وہاں نہ پاکر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>دوڑے ہوئے گھر آئے اور بڑوں کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اطلا ع دی کہ فیضان گم ہوگیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کچھ بچوں کے یہ بھی کہا کہ مسجد کی دیوار کے
ساتھ نیم کے درخت پر جو جن ہے وہ اسے اٹھا کر لے گیا ہے ایک بچے نے تو گواہی بھی
دی کہ اس نے خود ہمیں وہاں کھڑا کسی سے باتیں کرتے اور پھر غائب ہوتے دیکھا ہے۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">جب یہ اطلاع ہماری والدہ تک پہنچی تو انہوں نے سینے پر
دوہتڑ مارا اور با آواز بلند رونا شروع کردیا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>وہاں موجود<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>باقی خواتین نے ان کو
سنبھالا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور فوری طور پر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>امدادی ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وہ ہماری تلاش میں کالونی کے طول و عرض میں گشت
کرنے نکل کھڑی ہوئیں۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">دوسری طرف ہم<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس
ڈبل روڈ کے کنارے کھڑے سوچتے رہے کہ کدھر کو چلنا چاہئے اور جب کچھ سمجھ نہ
آیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تو رونے لگے اور روتے روتے ہی واپس
اسی راستے پر پلٹ گئے جدھر سے چلے تھے اب حال یہ ہے کہ روتے جارہے ہیں اور چلتے
چلتے گھروں میں جھانکتے جارہے ہیں کہ کونسا گھر ہماری پھوپھی کا ہے ایسے ہی ایک
گھر میں جھانکا تو اندر بھیڑ بھاڑ نظر آئ تو پھاٹک اٹھا کر اندر داخل ہوگئے اور
لمبے صحن سے گزر کر روتے روتے ہی اندر جھانک لیا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>ابھی ہم باہر ہی کھڑے تانکا جھانکی کررہے تھے کہ اچانک دروازہ کھلا اور ایک
انکل نما صاحب باہر آگئے اور ہمیں ڈانتے ہوئے بولے کہ " یہاں کھڑے کھڑے کیا
رو رہے ہو اندر جاؤ تمہارے پیچھے میں کیک کٹ جائے گا یہ سن کر ہم بغیر سوچے سمجھے
اندر بھاگ گئے اور جونہی اندر پہنچے ہماری عمر کے کسی بچے نے ہمارے سر پر سالگرہ
والی تکون ٹوپی پہنادی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سامنے ہی ایک ٹیبل
پر بڑا سا کیک رکھا ہوا تھا اور قریب ہی تھا کہ ایک بچی کیک پر لگی موم بتیوں کو
پھونک مار کر بجھاتی اور ایسا ہی ہوا سب بچوں بڑوں نے مل ہر ہیپی برتھ ڈے ٹو یو
گایا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کیک کٹا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تالیاں بجیں اور ہم بھی ان سب میں شامل رہے
لیکن ان سب کے دوران بھی ہماری نگاہیں کسی آشنا چہرے کی متلاشی تھیں لیکن کوئ بھی
دکھائ نہ دیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اسی دوران کسی نے ایک پلیٹ میں کیک کا ٹکرا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہمیں بھی پکڑا دیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>طرح طرح کے وسوسے ذہن میں جنم لینے لگے کہ جب
ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم ان کے مہمان نہیں ہیں تو نہ جانے کیا سلوک کریں گے
ہمارے ساتھ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وغیرہ وغیرہ ۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">اب حال یہ تھا کہ کیک بھی کھاتے جارہے ہیں اور بھاں بھاں
روتے بھی جارہے ہیں پہلے تو بڑے بزرگوں نے نظر انداز کیا لیکن جب ہمارا رونا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ختم نہ ہوا اور کوئ بھی ہماری جانب متوجہ نہ
ہوا تو ایک شفیق سی خاتون جو غالبا" خاتون خانہ تھیں ہمارے پاس آئیں پہلے تو
بلند آواز میں سوال کیا کہ " یہ کس کا بچہ ہے" کہ مبادا ہماری والدہ یا
والد وہاں موجود ہوں لیکن اتنے بچوں کی موجودگی میں ہماری آواز ان تک نہ پہنچ پائ
ہو لیکن جب کوئ بھی متوجہ نہ ہوا تو وہ ہمارے پاس آئیں پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا
اور پوچھا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>"بیٹا کس کے ساتھ آئے ہو
" <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انکی آواز میں ایسا پیار اور
اپنائیت تھی کہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہم انہیں اپنا ہمدرد جان
کر <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور بھی اونچے سروں میں رونا شروع
ہوگئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس پر وہ خاتون اور بھی پریشان
ہوگئیں اور اسی پریشانی کے عالم میں بولیں " آئے ہائے لگتا ہے بچہ کہیں سے
بھٹک کر یہاں آگیا ہے" تب تک ہمارے ارد گرد دیگر بچوں کا جمگھٹا بھی لگ چکا
تھا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور جوں ہی ان شفیق خاتون کا جملہ
مکمل ہوا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہم اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ
انکو ہمارا مسئلے کا علم ہوگیا ہے اور دل میں خیال پیدا ہوا کہ اب اگر انہوں نے
کان پکڑ کر ہمیں یہاں سے نکال دیا تو ہم کہاں جائیں گے اور مزید انہوں نے مفت کے
کیک کے پیسے طلب کر لئے تو کیا ہوگا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر انہوں نے لاوارث
جان کر ہمیں اپنے گھر نوکر بنا کر رکھ لیا تو پھر ہمارا کیا بنے گا اوریہ سب سوچ
کر ایسے بکھر کر روئے کہ کیا کسی نے آنسو بہائے ہونگے ہچکی ہی بندھ گئ۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">پھر ہم سے پوچھا گیا کہ "بیٹا کس کے گھر آئے تھے"
تب لے دے کہ ہمیں اپنی بیچاری پھوپھی کا ہی نام ذہن میں آیا " بے بی
پھپی" آگے سے سوال ہوا " کہاں رہتی ہیں" اب اسکا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہم کیا جواب دیتے اگر معلوم ہوتا تو خود نہ چلے
جاتے وہاں۔۔۔ بےوقوف لوگ۔ </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">ہمیں پانی پلایا گیا اور<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>تب ہماری جان میں جا ن آئ جب ہم نے سنا کہ کوئ کہ رہا ہے "بیٹا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہم تمہیں ڈھونڈ کر تمہاری پھپھی کے گھر پہنچا
دیں گے تم یہ بتاؤ پھوپھا کا کیا نام ہے" اب ہم پھوپھاکو انکل کہتے تھے اور
وہی بتا دیا کہ انکا نام" انکل "ہے ا ب کون سے انکل ہیں اور ان کے ماں
باپ نے انکا کیا نام رکھا تھا اسکا تب ہمارے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">وہاں پر موجود کسی صاحب نےصلاح دی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کہ بچے کو لیکر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کالونی کا ایک چکر لگا لیں جس کسی گھر میں
تقریب ہورہی ہوگی یہ وہیں آیا ہوگا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہم سے
ہمارا نام اور ابو کا نام بھی پوچھ لیا گیا تھا کہ اگر نوبت آئ تو مسجد سے اعلان
کرو ا دیں گے کالونی میں زیادہ گھر نہیں ہیں اور جس گھر کا بچہ ہے وہ بھی اسے تلاش
کر ہی رہے ہونگے تو اسی گھر کے دو افراد <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہماری انگلی پکڑے باہر نکلے اور چلتے ہوئے گلی
کے کونے تک چلے گئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>گلی کی دوسری طرف سے
دو بچے چلے آرہے تھے ہمیں یوں روتا دیکھ کر ان میں سے ایک نے ہم سے پوچھا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>" تم مدثر کے کزن ہو؟" یہ سننا تھا
کہ ہمارے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چہرے پو گویا رونق آگئی ایسے ہی
روتے بسورتے مشکل<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اقرار کیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تو بچوں نے بتایا کہ وہ لوگ ہمیں دھونڈ رہے ہیں
اور ابھی مدثر انہیں ملا تھا تو اس نے بتایا کہ اسکا کزن گم ہوگیا ہے جسے تلاش کیا
جارہا ہے ان دونوں انکلز نے بچوں سے مدثر کا گھر معلوم کیا اور وہ دونوں بھی ہمارے
ساتھ ہی چلے اور ہمیں لئے لئے جونہی وہ مسجد کے پاس پہنچے جہاں سے ہماری گمشدگی کا
آغاز ہوا تھا ہمیں سب کچھ جیسے یاد آگیا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>جھٹ ہاتھ چھڑایا اور سیدھا گیٹ تک پہنچے اور تیر کی طرح اندر داخل ہوگئے
صحن میں ہی ہمارے ابو اور چند اور بزرگ موجود تھے ہم سیدھا جاکر ابو سے<span style="color: red;"> </span>لپٹ<span style="color: red;"> </span>گئے اور پھر وہاں
سے جو بھاگے تو امی کی گود میں جاکر دم لیا اور سسک سسک کر رونے لگے کچھ دیر میں
جب<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>معاملات نارمل ہوگئے ہماری تلا ش میں
بھیجی گئی ٹیمیں بھی واپس آگئیں اور ہم بھی رو دھو کر چپ ہوگئے تو کسی نے چھیڑنے
کی خاطر سوال کیا کی " فیضان تم کہاں چلے گئے تھے" تو ہم نے بظاہر تمام
گزری باتوں کو بھلاتے ہوئے کہا تھا کہ "دوست کی سالگرہ میں" جس پر ایک
بھرپور قہقہ لگا تھا اور پھر اس رات جب تک وہ تقریب جاری رہی سب کی توجہ کا مرکز
ہم ہی رہے۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 107%; mso-bidi-language: ER;">اس کے بعد یہ ہوا کہ جب بھی ہم کسی رشتہ دار کے گھر جاتے تو
ہمیں انکے گھر کا نمبر اور انکل کا نام پہلے سے یاد کرایا جاتا۔</span></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com5tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-92051565033204078762016-07-20T19:24:00.002+05:002016-07-20T19:41:56.087+05:00ٹیمون اور پمبا.....ایک لازاوال دوستی کی داستان<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
...چلیں آج ایک کہانی سناتا ہوں آپ کو</div>
<div style="text-align: right;">
لائن کنگ دیکھی ہے آپ نے؟</div>
<div style="text-align: right;">
..دیکھی ہی ہوگی بھلا لائن کنگ دیکھے بغیر آپ بڑے کیسے ہوگئے</div>
<div style="text-align: right;">
.ٹیمون بھی یاد ہوگا غار میں رہنے والا میر کیٹ</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ٹیمون کو غار میں رہنا پسند نہیں تھا اسکو باہر کی دنیا دیکھنی تھی سامنے نظر آنے والے ٹیلے سے پرے کی دنیا دیکھنے کا شوق تھا لیکن اسکی ماں کو ڈر تھا کہ اپنے بل سے باہر نکلنے پر ٹیمون باہر کی دنیا کا مقابلہ نہیں کرپائے گا باہر پھرنے والے جنگلی جانور اسے مار ڈالیں گے اگر وہ ان سے بچ بھی گیا تو بھوک پیاس سے مر جائے گا اپنی خوراک کا بندوبست نہیں کرسکے گا</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
لیکن اپنی مختصر زندگی کو ٹیمون ایک بل میں گزارنے سے بہتر سمجھتا تھا کہ باہر نکل جائے چاہے جنگلی جانوروں کی غذا بن جائے ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ایک دن اس نے اپنی ماں سے کہا کہ "میری ماں میری دنیا اس ٹیلے کے پار ہے مجھے وہاں جانے دو" اور تب ہی اسکی ماں نے یہ جانا کہ اسکی زندگی واقعی اس ٹیلے کے پار ہے اور اس نے ٹیمون کو اجازت دے لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ "اگر تم اس ٹیلے کے پار نہ جاسکو یا راستے میں خطرہ ہو تو واپس پلٹ آنا" جواب میں ٹیمون نے کہا " میں ڈر کر واپس آنے کیلئے نہیں جارہا ہوں ماں اب میں تب ہی واپس آونگا جب اس ٹیلے کے پار جو دنیا ہے اسے دیکھ نہ لوں"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgQReBk8ZrNule1h2_ZGhqfnH1ihyphenhyphen6KOFbDEgX11lxaJufdVJR1xskNJMP92-ipE-QBAq2KvAMkgeLLDt23nJyJB3nercP1v15ooWgLrsYW65PHo3FbZyPRpFOE4JmOROtsmd0S-4639ptU/s1600/timon+and+mother.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgQReBk8ZrNule1h2_ZGhqfnH1ihyphenhyphen6KOFbDEgX11lxaJufdVJR1xskNJMP92-ipE-QBAq2KvAMkgeLLDt23nJyJB3nercP1v15ooWgLrsYW65PHo3FbZyPRpFOE4JmOROtsmd0S-4639ptU/s400/timon+and+mother.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">ٹیمون اور اسکی اماں جان</span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یوں ٹیمون اپنے بل سے نکلا اور ٹیلے کے رخ چلااور خوش خوش چلا آتے جاتے راستے میں ملنے والے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں پر "شو" مارتا ہوا کہ وہ اپنے بل سے نکل کر باہر کی دنیا دیکھنے نکل چکا ہے اور سب نے ہی حیرت کا اظہار کیا کچھ نے اسکی بات کو ہنسی میں آڑایا غرض جتنے منہ اتنی باتیں</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کہانی آگے بڑھتی ہے ٹیمون یونہی چلتا نظارے مارتے ایک بڑے گھنے جنگل میں پہنچتا ہے بھوک پیاس اور گرمی سے نڈھال پریشان حال ناتجربہ کاری کے باعث کھانا پینا تلاش کرنا بھی اسکے بس میں نہ تھا جب ہی اس نے سوچا کہ واپس گھر لوٹ جائے اور اپنے خیال سے باز رہے لیکن وہ واپس نہ پلٹا اور اسی جنگل میں بھوک اور گرمی سے نڈھال ہوگر گر پڑا اور بےہوش ہوگیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh39gP4mLAZh3DuOeXuuqBulkfjC6yEaqJejCNd4YiEBCgSH3YyWcAs8Afx3fzXbsTWYwx_LktVeCEKTZUkYooEzOselNzTLc053Bj8TolvW5eBg0cyIlPlPIOKVhuD9czmJBclcpA_gHAD/s1600/timon.png" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh39gP4mLAZh3DuOeXuuqBulkfjC6yEaqJejCNd4YiEBCgSH3YyWcAs8Afx3fzXbsTWYwx_LktVeCEKTZUkYooEzOselNzTLc053Bj8TolvW5eBg0cyIlPlPIOKVhuD9czmJBclcpA_gHAD/s200/timon.png" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کچھ گھنٹے گزرے یا کچھ دن جب ٹیمون کو ہوش آیا تو وہ حیران ہوا کہ وہ زندہ کیسے بچ گیا سورج ڈھل چکا تھا اور تب ہی اسکی ملاقات پمبا سے ہوئ</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgE_cpXC73iUQBoJGFZw_z0J1Qnj1fYrtv4dpzvWWqulaFHRl-1ZGINeNiL5EewX6myrwao1BiS5Fr7CWRydF8ojVal2bN9n9_4eK-dwrgxatzrgy1YIXkO_qtxeWPLQgnyeHyoNsunhHL7/s1600/pumba.png"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgE_cpXC73iUQBoJGFZw_z0J1Qnj1fYrtv4dpzvWWqulaFHRl-1ZGINeNiL5EewX6myrwao1BiS5Fr7CWRydF8ojVal2bN9n9_4eK-dwrgxatzrgy1YIXkO_qtxeWPLQgnyeHyoNsunhHL7/s200/pumba.png" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
پمبا ایک عجیب الخلقت اور عجیب انوکھی فطرت کا بھاری جسم اور باریک ٹانگوں والا جانور جسکے دکھانے کے دانت بہت بڑے بڑے دیکھنے میں جتنا خطرناک اندر سے اتنا ہی نرم اور رحمدل اور ہمدرد</div>
<div style="text-align: right;">
ٹیمون کو جنگل میں اکیلے اس حالت میں دیکھ کر پمبا نے ہی اسکی مدد کی</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
دونوں میں تعارف ہوا</div>
<div style="text-align: right;">
دونوں ہی گھروں سے دنیا دیکھنے نکلے تھے اپنے اپنے بلوں سے باہر ٹیلے کے پار جو دنیا ہے اسکی سیاحت کی خاطر اب جو دونوں ساتھ ہوئے تو خوشی سے پھولے نہ سمائے ٹیمون جو چھوٹا منحنی سا تھا بڑے دیو ہیکل پمبا پر سوار ہوگیا اور پمبا اپنے بھاری جسم اور باریک مظبوط ٹانگوں کے ساتھ اسے اٹھائے پھرتا یوں ٹیمون کو سواری مل گئ اور پمبا کو ایک ساتھ۔</div>
<div style="text-align: right;">
دونوں ساتھ کھاتے ساتھ پیتے اور ساتھ گھومتے پھرتے اور یوں ان دونوں نے آدھی دنیا کے گرد چکر لگا لیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhY9f138MTh2nXINjpsrEHf-CDACy9TFkkFyVTOA7veNQRJAIj2-yfcW4JhuG4rTNwfYUwgpWETmNW0g_MPlL2dbx2FBJg1XbU5zDgUXIhpTuX1DK0w3RhlXPiTv3fQ92cyMhWrI3k_Mh2T/s1600/timon+riding+pumba.jpg" style="clear: left; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhY9f138MTh2nXINjpsrEHf-CDACy9TFkkFyVTOA7veNQRJAIj2-yfcW4JhuG4rTNwfYUwgpWETmNW0g_MPlL2dbx2FBJg1XbU5zDgUXIhpTuX1DK0w3RhlXPiTv3fQ92cyMhWrI3k_Mh2T/s320/timon+riding+pumba.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">ٹیمون اور پمبا ایک ساتھ خوش باش</span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
جب گھروں سے نکلے بہت دن ہوئے تو ایک روز ٹیمون پمبا سے بولا "اے میرے دوست میرے ہمدم یوں تو مجھے کوئ غم نہیں جیسی زندگی میں نے چاہی تھی تیرے ملنے کے بعد مجھے وہ سب کچھ ملا تیرے ساتھ میں بہت خوش ہوں لیکن اب دل کرتا ہے کچھ روز اپنے گھر ہو آوں ماں، باپ بھائ بہن اور یار دوستوں سے مل آوں اب انکی یاد آتی ہے نہ جانے کس حال میں ہونگے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اس پر پمبا بولا "میرے دوست حال تو میرا بھی یہی ہے میں بھی اپنے گھر جانا چاہتا ہوں تو یہی بہتر ہے کہ ہم دونوں کچھ دنوں کیلئے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور پھر ہم واپس اسی جگہ ملیں جہاں ہم پہلی مرتبہ ملے تھے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
پمبا نے ٹیمون کو اپنے اوپر سوار کیا اور اسے اسکے گھر چھوڑ آیا</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
دونوں اپنے اپنے گھروں کو پہنچے ٹیمون کے گھر والے خوش ہوئے کہ وہ لوٹ آیا ہے کچھ دن تو آدھی دنیا کے سفر کی داستان سنانے میں ہی گزر گئے ایک رات جب وہ اپنے ماں کے ساتھ لیٹا باتیں کررہا تھا تو اسکی ماں نے وہ بات کردی جسکا اسے ہمیشہ سے ڈر تھا "کہ بیٹا تم نے شادی کے بارے میں کیا سوچا"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اب ٹیمون انکو سمجھاتا کہ وہ شادی نہیں کرسکتا کیوں کہ اسے واپس انے دوست کے پاس جانا ہے اور پھر وہاں سے باقی آدھی دنیا کے سفر کا آغاز کرنا ہے لیکن اسکی ماں نہ مانی اور ہونہی اسے مناتی رہی کبھی روٹھ جاتی کبھی زبردستی اپنی بات منواتی بلاخر اسے مانتے ہی بنی تب ہی اسکی ماں نے بتایا کہ جب وہ سفر میں تھا تب ہی اس نے ٹیمون کیلئے لیڈی ٹیمون بھی پسند کر رکھی تھی اور جونہی ٹیمون نے ہار مانی جھٹ پٹ اسکی شادی کردی گئ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg_YW0ub16720G9LPovpu6mieprTYQV2o9eAmJ-QFt_sybbVH91-71QoiraSOz0uwXP1Z1ACpS6GcXWE9U_ppZx8phSIaljEGKknI5BweyhO7FebbQrDM2YOa2fwwfcQQCTKvveB4CmYT6_/s1600/timon+and+wife+2.jpg" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg_YW0ub16720G9LPovpu6mieprTYQV2o9eAmJ-QFt_sybbVH91-71QoiraSOz0uwXP1Z1ACpS6GcXWE9U_ppZx8phSIaljEGKknI5BweyhO7FebbQrDM2YOa2fwwfcQQCTKvveB4CmYT6_/s320/timon+and+wife+2.jpg" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">ٹیمون اور اسکی لیڈی ٹیمون</span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ٹیمون اپنی نئ زندگی میں مگن ہوا اور ہنسی خوشی رہنے لگا وہ اکثر پمبا کا ذکر اپنی لیڈی ٹیمون کے ساتھ کرتا اور اسے اپنے سفر کے قصے سناتا رہتا یوں اسکے دن اور رات گزرتے رہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
پمبا سے رابطہ ہوئے بہت عرصہ ہوگیا اور ٹیمون جب اسکی یاد میں اداس ہونے لگا تو اسنے ارادہ باندھا کہ وہ پمبا کی کچھ خبر لے اور اسی ارادے سے وہ وہاں جا پہنچا جہاں ایک مرتبہ دوران سفر پمبا نے نشاندہی کی تھی کہ وہاں سے قریب اسکا گھر ہے جہاں وہ رہا کرتا تھا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
آخر کار ٹیمون نے پمبا کو تلاش کرلیا دونوں دوست ملے حال چال کے بعد گلے شکوے ہوئے اور تب پہ ٹیمون نے جانا کے پمبا نے بھی شادی کرلی ہے اور اپنا گھر بسا لیا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiUsnyXPEKoRa7e0M0Dy0RNYhNNlzPLi1-pviKPMPmd2YIToxYtvEQpdAlEU6PQGXYIS3r5agz8xq8O15SYwihKiW1OfkGg7Krlc7kgk-0HTQIA2TUJG7EZSIe-mCq4C2zvrrpt_bTsjLcm/s1600/pumba+and+wife.png" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiUsnyXPEKoRa7e0M0Dy0RNYhNNlzPLi1-pviKPMPmd2YIToxYtvEQpdAlEU6PQGXYIS3r5agz8xq8O15SYwihKiW1OfkGg7Krlc7kgk-0HTQIA2TUJG7EZSIe-mCq4C2zvrrpt_bTsjLcm/s320/pumba+and+wife.png" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">پمبا اور اسکی بیگم</span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ٹیمون کچھ دن پمبا کے پاس گزار کر واپس اپنے گھر آگیا پمبا کے پاس وہ جتنے دن رہا وہ پہاڑوں ، جھرنوں ندی نالوں اور مختلف وادیوں کی باتیں کرتے رہے اور پرانے سفروں کو یاد کرتے رہے جاتے جاتے ٹیمون نے پمبا سے کہا جانے اب دوبارہ انہیں یوں گھومنا میسر آئے گا بھی کہ نہیں کیونکہ دونوں ہی اپنی اپنی زندگیوں مصروف ہوچکے ہیں اس پر پمبا نے ٹیمون کو یقین دلایا کہ اگر وہ کچھ دن فرصت کے نکال کر اسکے پاس آسکتا ہے تو وہ پھر پہلے کی طرح ساتھ سفر کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں اور ٹیمون اس سے وعدہ کر آیا کہ جیسے بھی ممکن ہوا وہ ضرور کچھ وقت نکالنے کا بندوبست کریگا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ٹیمون واپس آیا اور پھر دوبارہ زندگی کی مصروفیات میں مگن ہوگیا لیکن پمبا سے کیا ہوا وعدہ اسے یاد تھا اور پھر ایک وقت آیا کہ ٹیمون اداس رہنے لگا ہر پل بس پمبا کو یاد کرتا اور اس وقت کو جو اس نے پمبا کے ساتھ سفر میں گزارا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اور ایک روز اسکی بیوی نے کہا کہ جو وقت تم میرے ساتھ گزارتے ہو لیکن میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی میرے ساتھ نہیں ہوتے تو تم جاو اور سفر کرو لیکن یہ وعدہ کرو کے تم جلد لوٹ کر میرے پاس آو گے۔</div>
<div style="text-align: right;">
ٹیمون کی خوشی کی انہتا نہ رہی اور اس نے وعدہ کیا کہ وہ جلد سفر کو مختصر کرکے اسکے پاس واپس آجائے گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ٹیمون نے پمبا کو اطلاع پہنچائ اور تیاری میں مگن ہوا پمبا بھی خوش ہوا اور وہ بھی تیاری میں مگن ہوگیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhBPoZoI6QDR1kKxlqvrh2oveUJEVTm9QwdOMMHNv5IqOGaPc4upEqN9j1n-wiDlMKPoV6LVasur57KgyOhPzLEZrsxMH7TVe4aZmqlNQYhrd6Owmr__jFLnBvtZleOex6DWRluqYsnCmeD/s1600/Animated-Dancing-Image-Of-Timon-And-Pumbaa.gif" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhBPoZoI6QDR1kKxlqvrh2oveUJEVTm9QwdOMMHNv5IqOGaPc4upEqN9j1n-wiDlMKPoV6LVasur57KgyOhPzLEZrsxMH7TVe4aZmqlNQYhrd6Owmr__jFLnBvtZleOex6DWRluqYsnCmeD/s320/Animated-Dancing-Image-Of-Timon-And-Pumbaa.gif" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">ٹیمون اور پمبا خوش ہیں کہ وہ دوبارہ ساتھ سفر کریں گے</span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ٹیمون اور پمبا خوش ہیں کہ وہ دوبارہ ساتھ سفر کریں گے گو کہ یہ سفر پہلے جتنا طویل نہ ہوسکے گا لیکن پھر بھی وہ امید رکھتے ہیں کہ جو وقت انکو میسر ہوگا وہ اسے یادگار بنا کر آنے والے دنوں میں اچھی یادوں کا ذخیرہ بڑھانے کی کوشش کریں گے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<div>
اگر ٹیمون اور پمبا ساتھ سفر کرتے ہیں تو یقین کریں کہ واپسی پر انکے دونوں کے پاس سب کو سنانے کیلئے بہت سی کہانیاں ہونگی۔</div>
<div>
دعا کریں کہ انکا سفر کامیاب رہے۔</div>
</div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-85197198150317531302015-10-17T02:35:00.002+05:002016-09-29T10:28:55.628+05:00دوبارہ رتی گلی۔۔۔قسط نمبر دو<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">مظفر آباد کا بس اڈا اسی حالت میں تھا جیسا ملک بھر کا کوئ
بھی بس اڈا ہوتا ہے وہی کھینچ تان وہی
گھسیٹ ویسا ہی ہارن اور سواریاں کھینچنے والوں کا شور فرق صرف اتنا تھا کہ رات بھر
ہونے والی بارش کی وجہ سے وہاں گھٹنوں گھٹنوں نہیں تو ٹخنوں ٹخنوں کیچڑ تھی اور
اسی کیچڑ میں پھچ پھچ کرتے ہم سب دواریاں کیلئے کسی بس یا کوسٹر کی تلاش میں گھوم
رہے تھے ۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"رانا صاحب کوئ چھت والی بس پکڑ لیں پہلے جیسی"
میں نے رانا صاحب سے کہا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"او نہیں یار بہت ٹائم لگ جانا ہے پچھلی باری بھی شام
کرادی تھی"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"تو ہم کون سا برات میں جارہے ہیں کسی کی دیر ہوجائے
تو ہوجائے کیا فرق پڑتا ہے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"نہیں یار اس بار ٹائم تھوڑا ہے کوئ ٹیکسی پکڑیں گے
ادھر سے بھی" رانا صاحب کی اس بات سے
میں قدرے اداس ہوگیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار کوئ سامان بھی نہیں لینا کیا ٹریک پر کیا کریں گے
ہم کھانا وانا؟" رانا صاحب بس کسی طرح یہاں سے نکل جانا چاہتے تھے اس پر مجھے
خیال آیا کہ ہم نے کوئ خریداری کھانا پکانے یا بنانے کے حوالے سے نہیں کی نہ ہی
کوئ بات چیت اس بارے میں ہوئ تھی اب تک<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"نہیں وہ سارا انتظام ہوچکا ہے تو فکر نہ کر " <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">میں اور رانا صاحب بس کی تلاش میں تھوڑا آگے نکل آئے جبکہ
چودھری اور بلوچ پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی الگ الگ یہی کچھ کر رہے تھے کہ جلد از
جلد مظفر آباد سے نکل جانے کا سامان ہوجائے اچانک ہی رانا صاحب کا فون بجنے لگا دوسری طرف
چودھری صاحب تھے اور کہ رہے تھے بھاگ کر آجاؤ کوسٹر نکل رہی ہے ہم دونوں بھاگم
بھاگ ان تک پہنچے تو وہ ایک چودہ سیٹر کوسٹر کا دروازہ تھامے فاتحانہ انداز میں کھڑے
تھے دیکھتے ہی شور مچانے لگے کہ جلدی بیٹھو بلوچ صاحب بس کے اندر ایک سیٹ میں
پھنسے ہوئے بیٹھ چکے تھے اور تب ہی چودھری صاحب نے راز کی بات بتائ کہ"رانا
صاحب بات یہ ہے کہ اگلی گاڑی نکلنی ہے </span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%;">گھینٹے </span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">بعد اسمیں تین سیٹیں ہیں ایک بندے کو دروازے کے ساتھ بیٹھنا ہوگا وہ میں بیٹھ
جاؤنگا آپ اندر بیٹھو یہ بھائ (ایک صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تھوڑی دور پر آگے
اترجائیں گے تو جگہ ہوجائے گی"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">یہ سن کر رانا صاحب باغی ہوگئے کہ ایسے سفر نہیں کرنا اور یہ کہ کمر ٹوٹ جائے گی آڑھا ترچھا راستہ ہے
"تم میری بات نہیں سمجھ رہے ہو"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">بلوچ صاحب کو حکم ہوا
اور وہ بھی اتر گئے اور انکے اترتے ہی تین مسافر جو سوار ہوگئے اور بس نکل
گئ ہم وہیں کھڑے وہ گئے جس پر چودھری صاحب خفا ہوگئے اور بلوچ صاحب بھی اور بولے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"سرکار آپ ایویں جذباتی ہوگئے چلے جاتے اسی میں کچھ
نہیں ہوتا"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"ہاں تمہیں تو جگہ مل گئی تھی شامت اسکی آتی جو دروازے
پر بیٹھتا" رانا صاحب نے جواب دیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار کیا ہوجاتا بدل بدل کر سفر گزر جاتا ویسے بھی جگہ
آگے تو خالی ہونی ہی تھی کبھی نہ کبھی"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اتنا شوق تھا خود بیٹھتے دروازے پر اندر کیوں گھس گئے
تھے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"واہ جی واہ سرکار میں کیوں بیٹھتا مجھے تو سیٹ مل گئ
تھی " بلوچ صاحب کی اس بات پر سب کھلکھلا کر ہنس دئے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"او جی کوئ نہیں۔۔۔اڈے پر کھڑے ہیں مل جائے کی کوئ
گاڑی ایسی کون سی جلدی ہے ابھی تو بس ساڑھے سات ہوئے ہیں ناشتہ نہ کرلیں ویسے بھی
ایک گھنٹے میں دوسری کوسٹر کو نکلنے والی ہے آلریڈی بات کرچکا ہوں میں"
چودھری نے صلاح دی جس پر بلوچ صاحب بولے <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">" لو جی سبحان اللہ رانا صاحب ویسے بھی صبح کوئ بغیر
ناشتہ سفر کرتا ہے کیا آپ کو جلدی پڑی ہے چلو چلو چلو"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"گاڑی میں سب سے پہلے خود گھس کربیٹھ گئے جلدی مجھے
پڑی ہے واہ جی واہ خیر چلو" رانا صاحب نے کہا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ہم سب اڈے سے نکل کر مظفر آباد کے مرکزی بازار پہنچے دھیما
دھیما نیچی چھتوں والی دوکانیں برتن، سبزیاں، گوشت سب فروخت ہورہا تھا لیکن ہمیں
کوئ ہوٹل نظر نہیں آیا چلتے چلتے ہم پل تک پہنچے اور سب سے پہلے نظر آنے والے ہوٹل
میں بیٹھ گئے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"رانا صاحب کترینہ کیف" میں نے رانا صاحب کو
مخاطب کیا ہوٹل کے عین سامنے ماسٹر ڈی وی ڈی کے بورڈ کے نیچے کترینہ کیف کا بڑا سا
پوسٹر لگا ہوا تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">رانا صاحب پوسٹر اور پھر مجھے دیکھ کر مسکرائے پچھلی بار
رانا صاحب کو شکایت تھی کہ ہم نے کترینہ کیف کا پوسٹر انہیں کیوں نہیں دکھایا لیکن
مظفر آباد میں کنٹرول لائن سے کچھ ہی فاصلے پر ہندوستانی کترینہ کیف یوں ہمارے شہر
میں موجود ہونا قدرے تشویش ناک ہی ہے خیر ہم نے ناشتہ کیا اور واپس پورا راستہ طے کرکے بس اڈے پر پہنچ گئے
ساڑھے آٹھ بجنے والے تھے کوسٹر تیار کھڑی تھی ہم نے پیچھے والی سیٹ جو قدرے کشادہ
تھی اپنے قبضے میں کرلی اور وہاں بیٹھ گئے سامان چھت پر چڑھا دیا گیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">بس چلی اور انہی راستوں سے گزرتی ہوئ منزل کی طرف روانہ ہوئ فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار
منظر ایک کھڑکی میں قید ہوکر نظر آرہا تھا باہر جاتی ہوئ بہار تھی سبزہ کہیں تو
بالکل سیاہی مائل سبز تھا اور کہیں مرجھایا ہوا بھورے رنگ کا البتہ نیلم کافی سبز
رنگ میں بہ رہا تھابس چلی تو مجھے نیند آنے لگی بلوچ صاحب سو چکے تھے اور چودھری
صاحب کھڑکی کے ساتھ بیٹھے تھے کہ تصویریں
بنا سکیں اور رانا صاحب ایک اچھے شاگرد کی طرح انکے ساتھ لگے ہوئے تھے مجھے کوئ
کام نہیں تھا میں بھی اونگھ گیا سوتے جاگتے منظر دیکھتے ہم چلتے رہے اور سوئے منزل بڑھتے رہے ایک دو جگہ بس رکی
مسافر چڑھے اترے اور دوپہر ہوتے ہوتے دو بجے کے قریب ہم دواریاں پہنچ گئے چھوٹی
کوسٹر نے بس کے مقابلے میں بہت کم وقت لیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">بس سے اتر کر ہم سب وہیں پل کے ساتھ ہی کھڑے ہوگئے کیوں کہ
جیپ کو یہاں ہی آنا تھا رانا صاحب اور بلوچ بازار کی طرف جیپ کی تلاش میں چلے گئے
۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">پچھلے سال کی مقابلے میں جگہ میں کافی تبدیلی آچکی تھی کچھ
موسم کا اثر تھا اور کچھ کام جو اس وقت مکمل نہیں تھے وہ اب مکمل ہوچکے تھے جیسے
پل کے ساتھ دیوار کی تعمیر کا کام پچھلے سال ابتدائ مراحل میں تھا جبکہ اب وہ مکمل
ہوچکا تھا دوسرے وہ درخت جو پل کے نیچے دریا کے کنارے بالکل ٹنڈمنڈ تھا اب ہرا
بھرا تھا ہرا بھرا تو نہیں اپنی بہار دکھاکر اب مرجھانے کے قریب ہونے کو تھا چند
ایک سفید پھول باقی تھے اور دیگر درخت بھی کچھ پھل پھول دکھا رہے تھے پل سے اور پر
دیکھنے میں ایک گیسٹ ہاؤس کے برامدے میں لگا ہوا سیب کا درخت پھلوں سے بھرا ہوا
تھا ہرے ہرے کشمیری سیب دل چاہا چند ایک تو توڑ کرکھا ہی لوں لیکن وہ کافی بلندی
پر تھے اس لئے باز رہا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">رانا صاحب تھوڑے انتظار کے بعد واپس آتے نظرآئے اور ان کے
ساتھ ہی ایک اور نظیر بھی یہ نظیر وہی
صاحب ہیں جو پچھلی مرتبہ ہمارے آنے سے چند گھٹے قبل نکل گئے تھے اور جن کے نہ ہونے کی وجہ سے ابرار ہمارے پلے پڑا
تھا لیکن دواریاں پہنچنے کے بعد میرا دل ابرار سے ملنے کو کررہا تھا لیکن نظیر سے ہی معلوم ہوا کہ ابرار پنڈی میں
تھا خیر نظیر سے تعارف ہوا ٹریک کے متعلق سوال ہوئے دوپہر کا کھانا بھی وہی کھا
لیا گیا جیپ بھی تیار ہوچکی تھی سامان لادا گیا اور پھر ہم سب بھی لوڈ ہوگئے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">جیپ سٹارٹ ہوئ اور پل سے نیچے اتر کر اسی راستے پر چڑھ گئ
جہاں سے ہم پچھلی مرتبہ گئے تھے چل پڑی اونچے نیچے راستوں پر ڈولتی اسی لکڑی کے پل
پر پہنچی پہلے کی نسبت پل مزید خستہ ہوچکا تھا جیپ کے وزن سے چرچرایا اور ایک وقت
آیا جب ایسا لگا کہ پل ٹوٹ جائے گا اور جیپ نالے کے تیز پانی میں بہ جائے گی لیکن
ڈرائیور صدیق نے کمال مہارت سے جیپ کو پار
لگا دیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">دواریاں سے دومیل تک ایک پکا جیپ ٹریک بن چکا ہے اب یہ
فاصلہ بس دو گھنٹے میں سمٹ چکا ہے سیری، چھک، جھبہ،د ورے بن سب جیپ میں بیٹھے گزر
جاتا ہے اور تمام مناظر بھی جو اس راستے میں آتے ہیں بس ایک سرسری نظارہ ملتا رہتا
ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">میں اور رانا صاحب جیپ کے اگلے حصہ میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ
باقی تینوں پیچھے یہ ایک تین سیٹوں والی
جیپ تھی یعنی ویگن کی طرز پر ایک کے پیچھے ایک سیٹیں لگا کر نو افراد کے بیٹھنے کی
گنجائش پیدا کی گئ تھی اور سامان کیلئے
اوپر جنگلا لگایاگیا تھا تو کافی گنجائش تھی آگے بیٹھنے سے منظر بھی صاف نظروں میں
آرہا تھا کہیں کہیں سبزے کے درمیان جلی ہوئ بھوری گھاس ایسے لگ رہی تھی جیسے آگ
لگی ہوئ ہو دھوپ ڈھلنے لگی تھی ساڑھے تین اور چار کے درمیان کا وقت ہوگا دھوپ چمک
رہی تھی اور درمیان میں بہتے ہوئے نالے
میں سے شعائیں پھوٹ رہی تھیں ایک عجیب شوں شوں کی آواز آرہی تھی نالے کے بہاؤ کی
پچھلی مرتبہ یہ نالہ بغیر آواز کے ٹنوں کے برف کے اندر اندر بہ رہا تھا پہاڑوں کے
اوپر سے آتے ہوئے چھوٹے چھوٹے نالے بھی اس میں مل رہے تھے اور ٹریک پر سے گزرنے کی
وجہ سے جیپ جب جب ایسے کسی بہتے پانی پر سے گزرتی چھپ چھپ کی آواز آتی ایک جگہ
ایسی آئ کہ ایسا ہی ایک نالہ اوپر سے بڑی زوروں میں بہتا ہوا نیچے جارہا تھا اور
اس جگہ پہاڑ کا کٹاؤ کافی زیادہ تھا یعنی
کوئ دس بارہ فیٹ اندر ایک غار جیسی جگہ بن گئ تھی جیسے ہی ہم اس جگہ پہنچے جیپ
رکوالی گئے صدیق نے بھی جیپ چھوٹے چھوٹے پتھروں پر چڑھا کر جیپ اس غار کے نزدیک
لیجا کر روک دی ایک ایک کرکے ہم سب باہر آگئے اور
باہر آتے ہی سفر میں پہلی مرتبہ ہماری جسموں سے ٹھنڈی یخ ہوا ٹکرائ باہر
اتر کر ہم نے انگڑائیاں لیکر بدن کو سیدھا کیا نالے کے دوسری طرف جگہ پہچان میں
آگئ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے پہلی مرتبہ آتے ہوئے ہم نے کافی نیچے اتر کر ایک پل
صراط کی طرح اس جگہ کو پار گیا تھا اس سے آگے دورے بن تھا جہاں ہم نے رات گزاری
تھی۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">جیپ سے اتر کر تھوڑی سے چہل قدمی کی چودھری نے رانا صاحب سے
پوچھا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"رانا صاحب کوئ انتظام ہے چائے بناتے ہیں ادھر سوہنی
جگہ ہے بڑی"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"ہاں یا نظیر کوئ انتظام ہے ادھر چائے کا؟" رانا
صاحب نے الٹا نظیر سے سوال کیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"نہیں سر ادھر کدھر ہوگا انتظام آس پاس کوئ گاؤں بھی
نہیں ورنہ ادھر سے ہوجاتا" نظیر کے اس جواب پر بلوچ کو تشویش ہوئ<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار رانا صاحب کھانے کا کوئ سامان لیا نہیں ساتھ
کھائیں گے کیا ادھر برف؟" اس سوال پر چودھری کا قہقہ گونجا کہ بلوچ کو اپنی
فکر پڑگئ کھائے گا نہیں تو چلے گا کیسے "یار بلوچ ابھی دوپہر کو تونے چھتیس
سو روٹیاں کھائی تھیں وہ سب ہضم ہوگئیں؟"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">اور جواب میں بلوچ کے جو ایک پتھر سے ٹیک لگا کر لیٹ چکے
تھے نہایت معصومانہ انداز میں گردن ہلاکر اقرار کیا جس پر چودھری نے اپنے سر سے
ٹوپی اتار کر اپنے گھٹنے پر ماری "شاباش اے بھئی"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">کچھ دیر ادھر ادھر بیٹھنے اور گھومنے اور چائے کی جگہ چشمے کا پانی خوب خوب پی کر ہم دوبارہ جیپ میں بیٹھے اور آگے چلے دورے بن سے تھوڑا ہی
آگے جھگیاں آگیا اور دوسرے طرف آبادی نظر آنے لگی ان ہی گھروںمیں سے کسی ایک میں
ہم نے ایک رات گزاری تھی دور سے اس گھر کی پہچان کرنا آسان نہیں تھا آبادی میں چند
بچے گھوم رہے تھے اور مال مویشی بندھے ہوئے نظر آرہے تھے ذہن بار بار وہی واقعات
دہرا رہا تھا جو گزر چکے تھے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ہم نے جھگیاں کو بھی
پیچھے چھوڑ دیا اور وہاں سے آگے ٹریک کچھ کچھ ناہموار ہوگیا چھوٹے بڑے پتھر
ٹائروں کے نیچے آتے اور جیپ ڈولنے لگتی اور ناہمواری کے ساتھ ساتھ ٹریک کافی تنگ
بھی ہوگیا تھا جیپ بہت کنارے پر چلنے لگی بہت نیچے رتی گلی نالہ پوری آب و تاب سے بہ رہا تھا اور خطرہ محسوس
ہوتا کہ کہ اگر ایک انچ بھی ہم ادھر ادھر ہوئے تو سیدھا اس نالے میں جاگریں گے اور
اس کے بعد اللہ ہی حافظ لیکن شکر خدا کا کہ ایسا کچھ ہوا نہیں اور صدیق نے مہارت
سے گاڑی کو قابو میں رکھا اور ہمیں پار لے گیا دومیل پر ٹریک کا اختتام ہوتا ہے
اور وہاں ایک خیمہ بستی پہلے سے آباد تھی رنگ رنگ کے خیمے دور سے نظر آنا شروع
ہوگئے تھے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">کیمپ سائٹ پر ہمارا استقبال رئیس خان انقلابی صاحب نے کیا
اور یہاں ہمارے قیام کی تمام ذمہ داری انکی ہی تھی اس وقت سائٹ پر سات مختلف رنگوں کے خیمے ساتھ ساتھ لگے ہوئے
تھے اور کچھ خیمے وہاں سے الگ کچھ دوری پر لگے ہوئے تھے اور وہاں کیا ہی خوب نظارہ
تھا شام ہونے والی تھی اور بالکل سامنے والے پہاڑ کی چوٹی پر دھوپ کسی ایسے زاوئے
سے پڑر ہی تھی کہ وہ بس آدھا روشن تھا اور باقی اندھیرے میں اور پہاڑ پر سبزے کے
ساتھ ساتھ پتلی پتلی نالیوں کی صورت میں
جمی ہوئ برف ایسے لگ تھی جیسے چونا ڈالا گیا ہو کیمپ سائٹ پر گھاس بھوری سے ہوچکی
تھی اور اسی بھوری گھاس میں ننھے ننھے
سفید، نیلے اور خون رنگ پھول بہار دکھا رہے تھے یہاں انسانی قدموں کے باعث یہ بہت
کم تعداد میں باقی رہ گئے تھے اور کہیں کہیں صرف کناروں پر باقی تھے لیکن سامنے کی
طرف پہاڑوں کی دوسری طرف یہ یوں لگ رہے تھے کہ انکی کثرت کی وجہ سے ایسا محسوس
ہورہا تھا کہ پورے پہاڑ پر زنگ لگ چکا ہو اور ان زنگ آلود پہاڑوں کے اورپر اتنا
صاف آسمان کہ گمان ہوتا تھا کہ کسی پردے پر نیلا رنگ پھیر
دیا گیا ہو اور اس پردے پر سفید روئ کے گالے جیسے بادل یقین نہیں ہوتا تھا کہ اتنا شفاف آسمان بھی
ہوسکتا ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> دوپہر میں جب دواریاں سے نکلے تھے تو موسم خوشگوار تھا گرمی
نہیں تھی لیکن دھوپ چبھ رہی تھی راستے میں جہاں ہم کچھ دیر کورکے وہاں خنکی تھی
لیکن سردی محسوس نہیں ہورہی تھی لیکن ڈھلتی شام میں کیمپ سائٹ پر ہوا ایسی تیز
ٹھنڈی تھی کہ لگتا تھا سینکڑوں سوئیاں جسم کو چھید رہی ہوں جیکٹ نکال کر پہنا باقی تینوں بھی ادھر ادھر بیٹھے ہوئے نظارہ
کررہے تھے اچانک ہی غیب سے ایک لڑکا پیالیوں
میں سوپ لئے حاضر ہوا اور ہم سب کوپکڑا کر غائب ہوگیا ایسی تیز سردی میں گرم گرم
سوپ یا یخنی جو بھی تھی بہت مزا دے گئ ایک تازگی آگئ ہمیں ایک خیمہ الاٹ ہوچکا تھا
جسمیں ہم چاروں کا سامان رکھا جاچکا تھا اور ہم
خیمے کے باہر ہی تختوں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ رانا صاحب اپنے جوتے کس کر کھڑے ہوگئے اور ہم سب سے بھی
کھڑے ہونے کو کہا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یا ابھی اندھیرا ہونے میں ٹائم ہے جب تک چھوٹی جھیل
کا چکر لگا آتے ہیں"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"چلو جی بسم اللہ" بلوچ صاحب کھڑے ہوگئے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"چل یا ر مولوی اٹھ یار رانا صاحب نے آرام سے نہیں
بیٹھنے دینا" چودھری صاحب نے میرے
کندھے پر زور ڈال کر اٹھتے ہوئے کہا تھا اور کھڑے ہونے کے بعد مجھے ہاتھ دیا اور
کھینچ کر کھڑا کردیا<o:p></o:p></span></div>
<br />
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ہم چاروں اور نظیر وہاں سے اٹھ کر چھوٹی جھیل کی طرف چلنے
لگے گوکہ میرا خیال تھا کہ جب تک ہم </span><br />
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">وہاں پہنچتے وہاں اندھیرا ہوجائے گا لیکن رانا
صاحب کو یقین تھا کہ ہم روشنی میں واپس بھی آجائیں گے۔<o:p></o:p></span><br />
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span>
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><a href="http://faizanqadri.blogspot.com/2015/09/blog-post_27.html" target="_blank">پہلا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں</a></span><br />
<br />
<a href="http://faizanqadri.blogspot.com/2016/09/blog-post_28.html" target="_blank">تیسرا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں</a></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-27099245528871585902015-09-28T00:04:00.000+05:002016-09-22T15:06:55.610+05:00دوبارہ رتی گلی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<div align="right" class="MsoNormal">
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjksuDGVajrS6FEYakLJuwax8gcQO3CyxqBM94_e5R6lkYsuRWr9QqSgBVCQuqpJ76YFidFm3yIQQ7azrKLNXcvdI0nILXTGqYLbEeUoGgK25Ma4AVcEAUOODUlQY6swOsMK1Wf1NaZUhTC/s1600/ratti+gali+cover.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="260" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjksuDGVajrS6FEYakLJuwax8gcQO3CyxqBM94_e5R6lkYsuRWr9QqSgBVCQuqpJ76YFidFm3yIQQ7azrKLNXcvdI0nILXTGqYLbEeUoGgK25Ma4AVcEAUOODUlQY6swOsMK1Wf1NaZUhTC/s400/ratti+gali+cover.jpg" width="400" /></a></div>
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">میں ایک مرتبہ پھر مظفر آباد میں تھا گوکہ یہ میرے پروگرام
کا حصہ نہیں تھا اور مجھے اس وقت کہیں اور ہونا چاھئے تھا ایسا بھی نہیں کہ میں
کہیں اور کے ارادے سے نکلا تھا اور مظفر آباد جا پہنچا بلکہ اس سال میرے پروگرام میں کسی قسم کا ٹریک
کرنا شامل نہیں تھا اور میں کافی صبر (جبر)سے خود کو آمادہ کرچکا تھا کہااس سال
گھر میں بیٹھنا ہے اور جو کام زندگی میں زیادہ اہم ہیں ان پر توجہ کرنی ہے لیکن
میں پھر مظفر آباد پہنچ چکا تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ایک شام میں گھر میں صوفے پر لیٹا ٹی وی چینل بدل بدل
کر اشتہار دیکھ رہا تھا تو میرے پاس ایک فون آگیا داتا کی نگری والے
رانا عثمان دوسری جانب موجود تھے اور کسی دوسرے نمبر سے مجھ سے بات کررہے تھے رانا
صاحب فون پر زیادہ تو عجلت میں رہتے ہیں اور جلدی کام کی بات ختم کرکے "ہور
دس کی حال اے" کہ کر دل لگی پر اتر آتے ہیں فون اٹھانے پر جب سلام دعا اور
حال احوال کے بعد رانا صاحب نے کہا " اور سناؤ کیا نئی تازی ہے" تو میں
سمجھ گیا کہ انہوں نے بس دل لگی کیلئے فون کیاہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"نئی تازی کیا ہوگی رانا صاحب بس وہی پرانی ہے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اچھا تو کوئ نئی کرلے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"ایک ہو نہیں رہی آپ نئی کی بات کررہے ہیں" ہماری
مراد اپنی شادی تھی<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اچھا سن مذاق چھوڑ" رانا صاحب اچانک سنجیدہ
ہوگئے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"جی سے حکم"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"حکم شکم کچھ نہیں بس تو ایک کام کر لاہور آجا جمعہ کو ہم رتی گلی جارہے ہیں تو بھی
چل رہاہے ساتھ" یہ فون اتوار کی شام کو آیا تھا یعنی چھٹے دن مجھے لاہور
پہنچنا تھا ایک لمحہ کو میں گھوم گیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اگلے جمعہ کو میں کیسے آؤنگا لاہور بھائ"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"ٹرین میں آجا یا بس میں آجا جیسے دل کرے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"بھائ میرا مطلب تھا کہ میں ایسے کیسے آجاؤں بہت مشکل
ہے میں نہیں آسکتا"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اچھا میری بات سن میرا بھی کوئ لمبا چوڑا پرگرام نہیں
ہے بس تجھے دو دن چھٹی لینی ہوگی جمعہ اور پیر ہفتہ اتوار تیری چھٹی ہوتی ہے
بس کوئ مسئلہ نہیں ہوگا تو آجا"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">میں نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی کچھ ادھر ادھر کے بہانے
کچھ توجیہات وغیرہ وغیرہ لیکن رانا صاحب نے فون اس نیت سے ہی کیا تھا کہ میرے ہر
سوال کا جواب دیں گے اور آخر میں فیصلہ اپنے حق میں کراکر ہی دم لیں گے یعنی رتی
گلی میں مجھے اپنا ہمسفر کریں گے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">کافی وقت انہوں نے مجھے مختصر الفاظ میں پورا پروگرام بار
بار سمجھانے میں صرف کیا کہ کیسے ہم سفر شروع کریں گے پہلادن کہا صرف ہوگا پہلی
رات کہاں گزاری جائے گی پھر آگے سفر کیسے شروع ہوگا اور کیسے کیسے ہم سفر مکمل کرکے واپس لوٹیں گے مجھے رانا صاحب کی
پلاننگ پر کوئ شک و شبہ نہیں تھا لیکن اچانک سے خود کو سفر پر آمادہ کرلینا مشکل
ہورہا تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار رانا صاحب میرے پاس کوئ سامان بھی نہیں ہے"
میں نے آخری با ت کی<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"کدھر گیا تیرا سامان"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار وہ زین لیکر چلا گیا"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"کون زین"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یار میرے دفتر میں ہے مصطفیٰ کے ساتھ گیا ہے وہ میرا
سب سامان لیکر چلا گیا جوتوں سمیت، رک سیک سلیپنگ بیگ میٹرس ،سٹک سب کچھ"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">جب یہ فون آیا اس سے ایک روز قبل ہی مصطفیٰ صابر دفتر کے
کچھ لڑکوں کے ساتھ شمال یاترا کیلئے نکلا تھا
انہوں نے بھی مجھے ساتھ ملانے کی بہت کوشش کی لیکن میں انکے چنگل سے بھی نکل گیا تھا خیر تو
ایک رات زین جو ان میں سے ایک تھامیرے گھر آیا اور میرے سامان میں سے مذکورہ بالا
سامان اپنے ساتھ لیکر چلا گیا اب میں بغیر ہتھیار کا سپاہی تھا جسے جنگ پر بلایا
جارہا تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"تمہارا سارا سامان میں لیکر آجاؤنگا تم بس اپنے پہننے
کے کپڑے لیکر آجاؤ" رانا صاحب نے اس مشکل کو بھی حل کردیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اچھا سنیں تو سہی۔۔۔ مجھے گھر پر تو بتانے دیں میں
امی کو بتا کر آپ کو بتاتا ہوں"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"چلو مجھے بتاؤ گھر پر بات کرکے اور سن جب تو آئے گا
ناں تو پنڈی سے کراچی ڈائیوو کا ٹکٹ میری طرف سے ہوگا تیرا واپسی کا" رانا
صاحب نے آفر دی ایک دو اور باتیں ہوئیں اور فون بند ہوگیا فون بند کرنے کے بعد میں
گھر سے باہر نکل گیا تھوڑی دیر بے مقصد ادھر ادھر گھوم کر واپس آیا اور گھر میں
داخل ہوتے ہیں مجھے کچھ یاد آگیا اور میں نے رانا صاحب کو فون گھما دیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"رانا صاحب میرے پاس کیمرہ بھی نہیں ہے" رانا
صاحب یہ سن کر غصہ ہوگئے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اور یار ۔۔۔۔۔ تو میرا کیمرہ لے لینا اب بند کر"
کہنے کو تو رانا صاحب نے کہ دیا لیکن پورے سفر میں کیمرہ نوزائیدہ بچے کی طرح سینے
سے لگائے گھومتے رہے اور ہماری جو تصویریں کھینچیں وہ اب تک ہمیں دینے سے بھی
انکاری نہیں ہیں تو دے بھی نہیں رہے جبکہ اپنی تصاویر روز تبدیل کر رہے ہیں ویسے
مذاق ایک طرف ہم نے خود یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس سفرنامہ کے لکھنے سے پہلے نہ تو
بتائیں گے اور نہ ہی کوئ تصویر لگائیں تاکہ ایک طرح کا سرپرائز ہوجائے خیر۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">اگلی صبح ناشتے کی
میز پر ویسے تو ہم ناشتہ میز پر نہیں کرتے
دسترخوان بچھا کر کرتے ہیں چلیں اسکو ایسے
کہ لیتے ہیں اگلی صبح ناشتے کے وقت میں نے امی سے کہا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"امی وہ کل عثمان بھائ کو فون آیا تھا"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"لاہور والے عثمان کا؟ پھر کوئ نیا فتور ڈالا ہوگا
اسنے تمہارے دماغ میں" امی ایک دم غصہ کرگئیں میرے حلق میں نوالہ اٹک گیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"کہیں جانے کیلئے کہا ہوگا تم سے؟"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"نہیں وہ کہ رہے تھے کہ ایک گروپ لیکر کشمیر جارہے ہیں
تو میں بھی اگر چل سکتا ہوں تو چلوں" میں نے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے بات آگے
بڑحائ۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> " مجھے گروپ
لیکر جانے میں انکی مدد کرنی ہوگی پورے سفر کا خرچہ انکا بلکہ دوچار ہزار کما بھی
لونگا۔۔۔معاونت کرنا ہوگی انکی مجھے" پتہ نہیں ان معاملات میں اتنی ڈھٹائ سے
اتنا صاف جھوٹ کیسے بول جاتا ہوں میں۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"دیکھ لو تمکو چھٹی مل جائے گی دفتر سے اور کتنے دن کا
ہوگا یہ ٹور۔۔گھر میں ویسے ہی کوئ نہیں ہوتا اور تم بھی نکل جاتے ہو ہفتوں ہفتوں
کیلئے" جیب سے پیسے نہ لگنے اور الٹا کچھ کما کر لوٹنے والی بات کام کرگئ میں
نے امی کو سرسری سی معلومات دیں اور یہ کہ کر کہ واپسی پر آپکو مکمل معلومات
دیدونگا سب معاملات کی دفتر چلا گیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">دفتر پہنچ کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ معاملات گرم ہیں اور
ایسے میں چھٹی چاہے ایک دن کی ہی سہی کی بات کرنا فضول ہے پورا دن چپ کرکے کام
کرتے نکل گیاشام ہوئ تو پھر رانا صاحب کا فون آگیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"ہاں بات ہوئ؟"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"گھر پر تو بات ہوگئ امی نے تو اجازت دے دی ہے لیکن
دفتر میں نہیں ہوئ کل ماحول دیکھ کر بات کرتا ہوں"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"چلو خیر ہے کوئ بات نہیں تو تیاری کر انشاءاللہ ساتھ
جائیں گے دونوں بھائ"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">دو دن اور گزر گئے اور میں چھٹی کی بات نہیں کرسکا تب ہی
میں نے ارادہ کیا کہ دفتر میں بغیر بتائے نکل جاؤں گا اور بعد میں کوئ بہانہ
کردونگا بدھ کے دن گھر آکر میں نے ایک بڑے
تھیلے میں مختصر سامان باندھا اور ایک دوست سے بات کی کہ وہ مجھے صبح دفتر چھوڑ دے
کیوں کہ واپسی میں دفتر سے ہی سیدھا سٹیشن جانا تھا صبح اپنا تھیلا اٹھا کر اور جینز اور ٹی شرٹ
پہن کر دفتر چلا گیا تھیلا میں نے دفتر کے نیچے ایک پان والے کے کیبن پر رکھوا دیا
کیوں کہ ساتھ لیکر جانا وبال جان بن سکتا تھا شام میں گھر پر کچھ ضروری کا م کا بہانہ کرکے جلدی نکل گیا
اور پان والے سے اپنا تھیلا اٹھا کر ساڑھے چار بجے سیدھا کینٹ سٹیشن پہنچ گیا وہاں معلوم ہوا کہ
راولپنڈی کیلئے تیز گام شام پانچ بجے روانہ ہوگی ریزرویشن نہ ہوسکی اور میں صرف
ٹکٹ لیکر پلیٹ فارم پر انتظار کرنے لگا آپ
اگر عادی مجرم نہیں اور کبھی کبھی چوری کرتے ہیں تو چوری کرتے ہوئے آپ کو
ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ تمام دنیا کی
نظریں آپ پر لگی ہوئ ہیں مجھے بھی ایسا ہی
محسوس ہونے لگا کہ پلیٹ فارم پر موجود ہر
انسان مجھے عجیب نظروں سے گھور رہا ہے سب
جانتے ہیں کہ میں دفتر میں جھو ٹ بول کر اس وقت پلیٹ فارم پر ٹرین کے انتظار میں
کھڑا ہوں میرے لیئے زیادہ دیر کھڑا ہونا محال ہونے لگا اور میں ادھر ادھر بے مقصد
گھومنے لگا ۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">معمول کے مطابق ٹرین ایک گھنٹہ لیٹ تھی جو کہ تقریبا پونے
دوگھنٹے بعد پلیٹ فارم پر ایک ارتعاش پیدا
کرتی ہوئ آگئ میرے پاس چونکہ کسی مخصوص ڈبے کی سیٹ نہیں تھے لہٰذا میں پہلا ڈبہ جو
میرے سامنے آکر رہا اسی میں سوار ہوگیا ٹرین کے اندر ایک عجیب افرا تفری کا عالم
تھا اور ایک بھی سیٹ خالی نہیں تھی اپنے سامان کا تھیلا بغل میں دابے میں ایک کونے
میں کھڑا ہوگیا ٹکٹ چیکنگ کے دوران میں نے ٹی ٹی سے کہاکہ میرے لئے کسی سیٹ کا
بندوبست کردے تو وہ بے اعتنائ سے بولا کہ فی الحال ممکن نہیں آگے سٹیشن پر چیک
کرلیجئے گا اگر ہوا تو ٹکٹ بنادیں گے جب میں نے اس سے کہا کہ مجھے پنڈی تک سفر
کرنا ہے اور ایسے سفر بہت مشکل ہوجائے گا تو وہ یہ بول کر کہ آپ کو پہلے خیال کرنا
چاھئے تھاآگے بڑھ گیا میں دل میں ایک موٹی سے گالی دیکر دوسرے میرے جیسے دربدرمسافروں
کی دیکھا دیکھی گیٹ کے ساتھ زمین پر اپنے سامان سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا محبوب سے
ملاقات کیلئے سفر کی دربدری کا آغاز ہوچکا تھا۔</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ملتان تک یونہی سفر
کیا دن گیارہ بجے کے قریب ملتان پہنچ کر
تین سو روپےرشوت کے عوض ایک برتھ مل گئ اور میں اپنا تھیلا سر کے نیچےد با
کر سوگیا کئ گھنٹے سونے کے بعد گرمی اور حبس سے آنکھ کھلی تو معلوم ہوا ٹرین کسی
بیابان میں کھڑی ہے دھوپ ڈھل چکی تھی اور سورج اپنا سفر پورا کرنے کے بعد غروب کی
تیاری میں تھا گھڑی دیکھی تو چھ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے فون نکالا تو رانا صاحب اس دوران کئ مرتبہ فون کرچکے اور میرے فون کی بیٹری بھی تقریبا مردہ کرچکے تھے
انکو فون کیا تو وہ دفتر سے گھر کیلئے نکل چکے تھے اور گھر پینچتے ہی بقول انکے وہ
پنڈی کیلئے روانہ ہوجاتے باقی ساتھ بھی تیار ہیں اور انکے گھر پر انکا انتظار
کررہے ہیں اس وقت تک مجھے باقی ساتھیوں کا کچھ علم نہ تھا کہ کون ہیں اور کیا
چاہتے ہیں خیر فون پر تفصیل میں جانا مناسب نہیں تھا انہوں نے میری بابت دریافت
کیا اور میں نے ظاہر ہے لاعملی کا اظہار کردیا کہ میں خود نہیں جانتا تھا کہ میں
کہا ہوں۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">اسی طرح رکتے رکتے چلتے رہے رات اندھیری ہوگئ وقت مقررہ سے
سات گھنٹے تاخیر سے میں پنڈی سٹیشن پر اتر گیا
یعنی رات تقریبا گیارہ بجے اور اس وقت تک میرے موبائل کی بیٹری مکمل طور پر
مردہ ہوچکی تھی اب مجھے جو پریشانی لاحق تھی وہ یہ کہ رانا صاحب کو اطلاع کیسے کروں گئے وقتوں میں لوگ چیزیں
یادکرنے کیلئے انہیں لکھ لیا کرتے تھے ہمارے اساتذہ بھی ہمیں یاد کرنے کا یہی گر
بتاتے تھے کہ چیزوں کو لکھ لیا کرو تاکہ وہ ازبر ہوجائیں نئے وقتوں میں ہم نے یہ
سارا کام موبائل پر چھوڑ دیا نام، پتے، فون نمبر اور دیگر معلومات بھی فون میں
ہی موجود ہوتی ہیں ضرورت پڑنے پر ہر قسم کی معلومات سامنے آجاتی ہیں اصل مسئلہ تب
شروع ہوتا ہے جب فون ساتھ نہ ہو یا ہماری طرح فون کی بیٹری مردہ ہوچکی ہو بارہا پر
زور ڈالنے پر بھی رانا صاحب کا فون نمبر ذہن
میں نہ آیا تب ہی میں نے بھاگ دوڑ شروع کی کہ کسی طرح فون کو چارج کرلوں
اور اپنے آمد کی اطلاع کرسکوں اور میں فون اور اسکا چارجر ہاتھ میں لئے سٹیشن سے ہاہر
نکلا اور فون چارج کرنے کی سعی میں ادھر
ادھر نظریں دوڑائیں ایک آواز سنائ دی<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"اوئے فیضان" یہ رانا صاحب تھے جو ایک سفید رنگ
کی پرانے ماڈل کی ٹویوٹا کرولا سے برامد
ہوئے تیزتیز قدموں سے چلتے ہوئے آئے اور مجھ سے لپٹ گئے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"یقین جان تجھے یہاں دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہورہی ہے
کہ انتہا نہیں" رانا صاحب اردو کے
نیم لاہوری لہجے میں الف پر زبر کے
ساتھ انتہا کہتے ہیں مزا اور بھی دوبالا ہوجاتاہے وہیں کھڑے کھڑے خیر خیریت دریافت
کرتے رہے پھر چونک کر بولے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"> "تیرا سامان
کدھر ہے؟"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"کون سا سامان آپ نے تو کہا تھا سامان میں لیکر آؤنگا
تم خالی ہاتھ آجاؤ میں بس یہ لیکر آیا ہوں"میں نے اپنے سامان کے تھیلے کو ہوا
میں جھلایا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">رانا صاحب فوری طور
پر پریشان ہوگئے وہ قطعی یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ میں واقعی ہاتھ ہلاتا پہنچ
جاؤنگا اور کچھ بھی ساتھ نہیں لاؤنگا اور اسی خیال میں وہ میرے لئے کسی قسم کا
سامان نہیں لائے تھے فوری طور پر ایمرجنسی نافظ ہوگئ<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"جوتے توہیں ناں تمہارے پاس؟"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"آپ نے کہا تھا کہ سب سامان آپ لارہے ہیں تو میں جوتے
بھی نہیں لایا بس پہنے کے دوجوڑے ساتھ لایا ہوں"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">رانا صاحب نے پریشانی میں اپنا ماتھا کھجایا اور بولے چل
کچھ کرتے ہیں گاڑٰ ی میں بیٹھو ابھی چلو اور میں گاڑی میں بیٹھ گیا رانا صاحب کہتے
ہیں کچھ کرتے ہیں تو مطلب سب کچھ وہ خود ہی کرلیں گے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">گاڑی کے اندر دو افراد مزید سوار تھے پچھلی سیٹ پر ایک صاحب
پیلی ٹی شرٹ میں ملبوس تھے اور اپنے کیمرے پر نظریں جمائے بیٹھے تھے میرے اندر بیٹھنے پر انہوں نے ہاتھ
ملایا اور اپنا تعارف کرایا
"نوید"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">اگلی سیٹ سے ایک اور ہاتھ آیا "حافظ محمد نوید"
ایک لمحے یوں لگا کہ جیسے اگلی سیٹ والے صاحب پہلے والے صاحب کا مکمل تعارف کرارہے
ہیں<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">میں نے دونوں سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کرایا پہلے والے
نوید صاحب نے اگلے والے نوید صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "یہ بلوچ
ہے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">یہ شاید کسی قسم کی انتباہ تھی یا کیا تھا مجھے سمجھ نہیں
آیا لیکن اگلی سیٹ والے بلوچ صاحب نے ایک چھوٹا سا قہقہ لگایا اور بولے
"پراؤڈ ٹوبی بلوچ"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">اس گاڑی میں میرے علاوہ ایک رانا صاحب تھے دوسرے کیمرے والے
نوید صاحب جو چودھری تھے پکے لاہورئے اور
جب انکو معلوم ہوا کہ مجھے پنجابی نہیں آتی تو تھوڑے سے بور ہوگئے اور دوسرے حافظ
محمد نوید پراؤڈ ٹو بی بلوچ سوار تھے جو ڈیرا غازی خان سے آئے تھےسب سے پہلے میرے
سامان کا انتظام شروع ہوا ایک اضافی بیگ
جو رانا صاحب کے ساتھ تھا خالی کیاگیا ایک جیکٹ چودھری صاحب کے پاس تھی وہ مجھے دی گئ بلوچ صاحب نے جرابیں اور مفلر اگر ضرورت ہوئ تو
میرے لئے مخصوص کردیا گاڑی گھمائ گئ اور
راجہ بازار میں ایک بند ہوتی ہوئ دوکان میں گھس کر جوتے خریدے گئے یوں میرا سامان
مکمل ہوگیا چوھدی صاحب مجھے چھیڑتے ہوئے کہنے لگے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"مولوی تو اتنی دور سے آم لینے آیا ہے کوئ سامان نہیں
لایا منہ اٹھا کے خالہ کے گھر آیا ہے یا ٹریک کرنے۔۔ ہیں؟"یہ جملہ انہوں نے
خالص پنجابی میں ادا کیا جسے میں نے صرف کامن سینس کی مدد سے سمجھا اور جواب
میں میں نے کہا کہ میں تو رانا صاحب کی وعدے پر آگیا ایسے
ہی انہوں نے دھوکہ کردیا تو میری کمر پر کس کے دھپ رسید کرکے بولے "شاباش اے
بھئ"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">سامان مکمل ہوا تو سوال ہوا کہ اب سفر شروع کیا جائے اچانک
رانا صاحب کو جیسے کچھ یاد آیا "اوئے تونے کھانا کھایا ہے کہ نہیں؟"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">میں نے نفی میں گردن ہلائ تو گاڑی ایک ریسٹورنٹ پر رکوائ گئ
اور میرے اعزاز میں سب نے دوبارہ کھانا کھایا پراؤڈ بلوچ صاحب خاموشی سے کھانا
کھاتے رہے جس پر چودھری صاحب نے کہا کہ بلوچ کھاتے ہوئے سانس بھی روک لیتا کہ
ہوا اندر چلی جائے گی تو ایک نوالے کی جگہ کم پڑجائے گی جس پر بلوچ صاحب نے لقمہ
ہاتھ میں پکڑے پکڑے زور زور سے قہقہے لگائے اور آخر میں یہ کہ کر نوالہ منہ میں
ڈال لیا کہ "چودھری تو بھی نا یار ڈسٹرب کرتا ہے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">کھانے اور چائے کے بعد سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا اس وقت رات
کے ڈھائ بجنے والے تھے شہر کے اندر ہی ایک لمبا چکر کاٹ کر ہم مرکزی بس اڈے پر آئے
اور وہاں ڈرائیور نے ٹائر چیک کرانے گاڑی روک لی رانا صاحب موقع غنیمت جان کر خود
کو ہلکا کرنے کیلئے اتر گئے اور اندھیر ے میں غائب ہوگئے انکے جانے پر چودھری صاحب
بھی باہر آگئے اور سگریٹ سلگا کر گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے چند سیکنڈ گزرے
ہونگے کہ قدرے حیرانی کے ساتھ مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">"او مولوی تو واقعی بغیر سامان کے ٹریک پر نکلا تھا
گھر سے؟" میں نے اثبات میں گردن ہلائ تو دوبارہ ایک دھپ کمر پر رسید کی
"شاباش اے بھئ"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">جب سفر دوبارہ شروع ہوا تو اس وقت رات کے تین بجے تھے
راولپنڈی کے آخری چوک پر آئے اور آخری چیز جو روشنی میں تھی وہ سڑک کے دائیں جانب
لگا ہوا بورڈ تھاجس پر جلی حروف میں مری لکھا ہوا تھا اور تیر کا نشان سیدھا چلے
جانے کا اشارہ کر رہا تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">گاڑی کے اندر مدھم آواز میں نصرت فتح علی خان صاحب کی آواز
میں کوئ غزل لگی ہوئ تھی اور اگلی سیٹ سے بلوچ صاحب کے دھیمے خراٹوں کی آواز آرہی
تھی اور گاڑی کے اندر کی بتی گل تھی میں تھوڑی دیر میں غنودگی میں چلا گیا کبھی
آنکھ کھلتی تو گاڑی کی ہیڈ لائٹ میں مری کے چیڑ کے درخت ہیولوں کی صورت گزرتے ہوئے
نظر آتے کسی موڑ پر نیچے وادی میں جلتے بجلی کے بلب چھوٹے چھوٹے ٹمٹماتے جگنوؤں کی
مانند نظر آتے او ر کبھی غائب ہوجاتے ہاں البتہ ان علاقوں کی مخصوص مہک پوری فضا میں موجود تھی ایسے ہی اونگھتے سوتے
جاگتے اندھیرے میں مری کو ہم نے پیچھے چھوڑ دیا رات کے سیاہ اور سفید دھاگے جدا
ہوئے اور آسمان پر سرمئ سویرا ابھرنے لگا ایسے میں جو آواز سب سے پہلے گونجی وہ
آذان کی آواز تھی آذان کی آواز کان میں پڑتے ہی چودھری نے شورمچا دیا "روکو
روکو روکو گاڑی روکو" سڑک کے کنارے گاڑی رک گئ ہم سب گاڑی میں بیٹھے رہے یہاں
تک کہ آذان مکمل ہوگئ ایک انجانے مقام پر فرحت دیتی ہوئ خنک ہوا میں آذان کی آواز
نے ہمیں یوں جکڑا کہ ہم گاڑی سے باہر آئے انگڑایاں لیکر اپنے جسموں کو سیدھا
کیا پاس ہی کہیں ایک پہاڑی جھرنے کے بہنے
کی آواز آرہی تھی بلوچ نے اندھیرے میں اسے دریافت کیا اور ہم سب نے باری باری اسی چشمے
سے وضو کیا اور اس مسجد کو تلاش کرکے داخل ہوگئے اس روز فجر کی نماز میں اس مسجد
میں امام اور موذن صاحب کے علاوہ داخل ہونے والے نمازی بس ہم پانچ ہی تھے۔<o:p></o:p></span></div>
<br />
<div align="right" class="MsoNormal">
<a href="http://faizanqadri.blogspot.com/2015/10/blog-post_16.html" target="_blank">دوسرا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں</a></div>
</div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com11Karachi, Pakistan24.836595553891183 67.022094726562524.375654053891182 66.3766477265625 25.297537053891183 67.6675417265625tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-83022041887374675082015-08-24T02:03:00.001+05:002015-08-24T10:26:33.162+05:00ہنگول نیشنل پارک بلوچستان۔ ایک سفر عجب دنیا کا<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgHmSWR16BTR9VxNVgvZTqo0Q_iaLTJ1_QVwG0NazfE5cdqfW0apkRsTB8VfkAdq5Io28DGrnSjLK2GG4ozQ_bPKsfQF36WaCKj_IqYwIxagZkuDhnPejGeSxJjCQi572YpZIV5Z4QwINa6/s1600/KundMalir1.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgHmSWR16BTR9VxNVgvZTqo0Q_iaLTJ1_QVwG0NazfE5cdqfW0apkRsTB8VfkAdq5Io28DGrnSjLK2GG4ozQ_bPKsfQF36WaCKj_IqYwIxagZkuDhnPejGeSxJjCQi572YpZIV5Z4QwINa6/s400/KundMalir1.jpg" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">تصویر فیضان قادری</td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
رات کی تاریکی میں ایک سیاہ اور ہموار سڑک پر ہماری بس چلی جارہی تھی بس کے باہر باندھا گیا پاکستانی پرچم پھڑپھڑ رہا تھا اور اندر سناٹا زیادہ تر مسافر سوئے ہوئے تھے اور جو سوئے ہوئے نہیں تھے وہ یا تو خاموش تھے یا اونگھ رہے تھے بس کے ساؤنڈ سسٹم مسلسل کبھی آہستہ اور کبھی تیز آواز میں ہندوستانی گانے بجا رہا تھا یہ چودہ اگست کی رات تھی اور ہماری بس براستہ مکران کوسٹل ہائے وے کنڈ ملیر کے ساحل کی طرف رواں دواں تھی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میرے ساتھ تین اور افراد تھے مصطفیٰ صابر، وسیم احمد اور عمر رشید جو لوگ میرا لکھا ہوا پہلے برداشت کر چکے ہیں وہ مصطفیٰ سے واقف ہونگے لیکن جنہوں نے نہیں پڑھا ان کیلئے مختصر یہ تینوں افراد میرے دفتر کےساتھی ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
بلوچستان کا نام سنتے ہی اکثر لوگوں کے ذہن میں جو نقشہ آتا ہے وہ یہی ہے کہ جیسے ہی آپ کراچی سے نکل کر بلوچستان میں داخل ہونگے سیاہ ڈھاٹا باندھے ایک یا زیادہ افراد آپ کو روک لیں گے آپ کا سارا قیمتی سامان لوٹ کر آپ کو جان سے مار کر آرام سے وہیں کرسیاں ڈال کر بیٹھ جائیں گے اور آپ کے پیچھے آنے والوں کا انتظار کریں گے اس دوران وہ چائے پیتے رہیں گے چرس کے سوٹے لگائیں گے اور تاش کھیلتے رہیں گے جب تک کہ دوسرا کوئ شکار ادھر نہیں آنکلتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کا نام آتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور آپ کو بھی منع کرتے ہیں کہ آپ خودکشی کا ارادہ ترک کردیں اور گھومنے کا اتنا ہی شوق ہے تو مری وری چلے جائیں وہاں کم از کم جان محفوظ رہے گی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اندرون سندھ کے بارے میں بھی عام رویہ یہی ہے کہ وہاں ہر جگہ ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں اور بس انتظار میں ہیں کہ کب آپ تشریف لائیں اور کب وہ آپ کو لوٹ کر گولی ماریں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اگر ایسا واقعی ایسا ہوتا تو میں ان علاقوں سے واپسی کے بعد ان سطور کو لکھنے کے قابل نہ ہوتا تو ضمانت میں میں خود کو پیش کرتا ہوں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میں ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا باہر اتنا ادھیرا تھا کہ صرف بس کی ہیڈ لائٹ سے پڑنے والے دائرے کے اندر جتنا منظر تھا وہ نظر آرہا تھا یا سامنے سے آتی ہوئ گاڑی کی ہیڈ لائٹ ڈرائیور خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا جبکہ اسکا ساتھی (کو پائیلٹ) جو درمیان میں اس لئے بیٹھا تھا کہ ڈرائیور سے باتیں کرے تاکے اسے نیند نہ آئے مسلسل مجھ سے باتیں کئے جارہا تھا بلوچی لہجے کی اردو اور بات کرنے کا خاص انداز اور ہر بات میں "اڑے" کا اڑنگا لگا کر معنی گرانا ویسے تو بڑا اچھا لگتا ہے لیکن اسکا موضوع کچھ ایسا تھا کہ مجھے الجھن ہونے لگی</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"فے زان بھائ آپ کدھر کدھر گھوما ہے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
جواب میں میں نے دوچار جگہیں بتادیں</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"واہ آپ تو خوب گھوما ہوا ہے" ایک لمحے کا وقفہ لیا اور دوبارہ بولا" گھوما ہوا مطلب یہ والا نہیں "اپنی کن پٹی پر فون ڈائل کرنے کے انداز میں انگلی گھماتے ہوئے سمجھایا "مطلب گھوما پھرا ہوا ہے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
جواب میں میں نے ایک قہقہ لگایا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"صرف مولک میں ہی گھوما یا باہر بھی گیا کبھی"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"ہاں گیا باہر بھی" میں نے جواب دیا "کہاں کہاں گیا"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"بس دوبئی ،سعودیہ، عمان وغیرہ۔۔۔ بحرین بس"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"ایران نہیں گیا یہ برابر میں ہے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"نہیں ایران نہیں گیا ویسے برابر میں تو انڈیا بھی ہے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"اڑے چھوڑو انڈیا منڈیا وہ کافر کا مولک ہے ایرا ن جاؤ"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"مسلمان ملک تو افغانستان بھی ہے اور برابر میں بھی"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"اڑے ادھر جنگ لگا ہواہے ۔۔۔طالبان تمہارا گلاں کاٹ کے رکھ لیگا باقی کا سمندر میں پھینکے گا"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"کون سے سمندر میں پھیکے گا" افغانستان کے سمندر میں پھینکا جانا بھی اچھا تجربہ ہوگا</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"آپ کو کوئ فرق پڑجاوے گا کدھر میں بھی پھینکے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میں کچھ دیر خاموش رہا تو پھر سوال کیا"آپ گوادر بھی نہیں گیا فے زان بھائ"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"نہیں گوادر ابھی تک نہیں گیا لیکن جانے کی خواہش ہے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"اڑے خواہش مواہش چھوڑو چلو گوادر ہم لوگ لوکل ہے ادھر کا گوادر ہمارا مولک ہے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"آپ کب جاؤ کے گوادر مجھے بتانا موقع ہوا تو ضرور چلوں گا"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"ابھی اگلے چار دن میں جارہا ہوں آپ اپنا نمبر دو دفون کا ہمارا گاؤں ہے آپ کو لیکر جائیں گے ساتھ میں ادھر سارا خرچہ ہمارا ذمہ آپ کو کھانا پینا گھر بھی ہے اپنا ہوٹل موٹل کا ٹیشن نہیں ہے آپ کو کوئ"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"آپ گوادر چلو ساتھ پھر وہاں سے آپ کا راہداری بنوا کر آپ کو ایران لیکر جائیں گے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"کیا بنوا کر"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"راہداری آپ کا شناختی کارڈ رکھوا کر آپ کا ایران کیلئے انٹری پرمٹ بنے گا پاکستان ڈی سی بناکردیگا اس پر آپ ایران جاؤ گھومو پھرو پھر ادھر سے واپسی میں اپنا شناختی کارڈ اٹھاؤ اور جاؤ"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یعنی کہ کوئ بات ہی نہیں نہ ویزا نہ پاسپورٹ اور آپ کے پاس جو شناخت ہے وہ بھی آپ سے لیکر ایک کاغذ پکڑا کر آپ کو سرحد پار ایک دوسرے ملک بھیج دیاجائے اور وہاں آپ گھومو پھرو کوئ مسئلہ نہیں اسکے بعد میری اس اسے اسی موضوع پر بات ہوتی رہی وہ مجھے قائل کرتا رہا یہ بتاتا رہاکہ وہ کتنی بات ایسے گیا ہے اور کچھ نہیں ہوتا وہاں اسکے جاننے والے ہیں سرکاری گاڑی میں گھومیں گے خیر بہت دیر اسی پر بحث کرتا رہا آخر میں نے اسکے منہ پر بڑی بڑی دو تین جماہیاں لیں اور سیٹ کی پشت سے گردن ٹکا کر آنکھیں موند لیں پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے میرے ساتھ دفتر ی امور پر بات چیت ، بحث اور غیبت میں مشغول تھے مجھے خاموش ہوتا دیکھ کر عمر نے پیچھے سے ہی پوچھا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"ابے تو کیا لگا ہوا ہے اسکے ساتھ؟" عمر رشید ایک بزلہ سنج اور شوخ طبیعت کا مالک انسان ہے جو ہر کسی سے بغیر عمر و مرتبہ کے مذاق یا جملہ بازی کرسکتا ہے پورے دفتر میں سب اس بات سے خوف کھاتے ہیں کہ ان کے بارے میں کوئ بھی ایسی بات جس میں مزاح کا عنصر ہو کسی کو بھی پتہ چل جائے عمر کو پتہ نہ چلے کیونکہ یہ کبھی بھی کسی کا بھی ریکارڈ لگا سکتا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"یہ مجھے ایران سمگل ہونے کیلئے قائل کررہا ہے" میں نے کہا</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"تو کب جارہے ہو؟؟ میں نے خاموشی اختیار کی اور اسی طرح سونے کی کوشش کرتا رہا اور شاید میری آنکھ بھی لگ گئ یا میں غنودگی میں تھا اور میری آنکھ تب کھلی جب ہماری بس نے سامنے سے آتے ہوئے ایک ٹرک کو بہت خطرناک انداز میں کاٹا اور اسکے بعد مجھے نیند نہیں آئ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ہمیں اس سفر میں کل تقریبا دوسو چون (254) کلومیٹر کا سفر طے کرنا تھا اور اتنا ہی واپسی کراچی سے براستہ حب چوکی بوچستان میں داخلے کے بعد حب، وندر، اگور اور ہنگول اس سے آگے کنڈ ملیر کا ساحل اور پھر بوزی پاس سے پہلے پرنسس آف ہوپ تک اور وہاں سے واپسی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کنڈ ملیر کےساحل تک سفر ہے اور اس سے آگے "اصل "سفر ہے جو یہ سفر کر چکے ہیں وہ میری بات سے اتفاق کریں گے اور جنہوں نے نہیں کیا وہ تھوڑا سا صبر کریں آگے اس بارے میں معلومات آنے والی ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
وندر سے آگے ایک مقام زیرو پوائنٹ آتا ہے یہاں سے راستہ دو لخت ہورہا ہے ایک خصدار اور کوئٹہ کی طرف اور ایک ہنگول کی طرف جہاں ہماری بس نے سامنے سے آتے ہوئے ٹرک سے آمنا سامنا کیا وہ جگہ زیرو پوائنٹ سے تھوڑا پہلے تھی اور یہاں ہمارا سٹاپ تھا تمام بسیں رک گئیں دونوں ڈرائیور اتر کر غائب ہوگئے میں بس کے دروازے کے ساتھ کھڑا ہواتھا میری والے بس میں پچھلی سیٹ پر ایک باریش صاحب بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی باہر ہی کھڑے تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا "آپ پہلے آئے ہیں یہاں" "جی"میں نے جواب دیا تو کہنے لگے بڑی ہمت ہے آپ کی دوبارہ جارہے ہیں میں نے پوچھا کہ انکو مزہ نہیں آرہا تو انہوں نے جواب میں کہا " ارے بھی میں تو بیزار ہوگیا ہوں بس یہ ہماری بیگم ہیں نا انکوہی شوق ہے ہر وقت گھومتے رہنے کا میں نے کہا کہ بھی سمند ر ہی دیکھنا ہے تو کراچی میں کم ہیں ساحل لیکن نہیں بس اتنا لمبا سفر کرکے ساحل دیکھنا ہے میری توبہ ہے آئندہ جوآیا ادھر کبھی"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میں نے انکو انکے حال پر چھوڑا اور پاس بنے چائے کے ہوٹل میں آگیا باقی مسافر بھی یہاں ہی جمع تھے ہمارے ڈرائیور حضرات غائب تھے ہوٹل کے ساتھ ایک جھونپڑا سا بنا ہوا تھا اندر جھانکا تو دونوں وہاں بیٹھے بارے بارے سوٹے لگارہے تھے اور ایک ناگوار بو پھیلی ہوئ تھی بات واضح تھی بغیر کسی ابہام کے</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
مجھے دیکھ کر ڈرائیور عبدل وہاب بولا" اڑے آنکھیں بند ہورہا ہے ابھی ہمارا چوبیس والٹ کا بیٹری اڑتالیس والٹ کا ہوجائے گا" اور یہ کہتے ہوئے سگریٹ میری طرف بڑھائ " یہ لو آپ بھی لگاؤ" میں نے انکار کیا اور باہر آگیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کچھ دیر میں قافلہ دوبارہ چلا اور اب کی بار عبدالوہاب واقعی راکٹ ہوچکا تھا اور بس کو بھی جہاز سمجھ کر اڑا رہا تھا لیکن چونکہ پورے قافلے کو ایک ساتھ سفر کرنا تھا اس لئے عبدالوہاب کی مشکیں کسی گئیں اور تین میں سے ایک بس ہم سے آگے آگئ اور راستہ روک کر ہمارے آگے چلتی رہی عبدالوہاب پیچ وتاب کھا کر صبر کرگیا اور گٹکا منہ میں ڈال کر خاموشی سے ایک ٹانگ سیٹ پر رکھ کر بس چلاتا رہا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کچھ دیر میں روشنی ہوئ تو ایک عجیب منظر تھا سڑک کے دونوں طرف جھاڑیاں اور درخت تھے وہ تمام کے تمام ایک طرف پیلے پیلے پھول لگےہوئے تھے اور دوسری طرف سے بالکل گنجے ایک پتہ بھی نہیں ایسا شاید کسی زور دار آندھی کی وجہ سے ہوا ہوگا اور یہی منظر تمام راستے ساتھ رہا سورج نکل آیا تو تیز دھوپ پھیل گئ اور سیاہ سڑک سورج کی روشنی کو منعکس کرنے لگی تمام منظر ایک اوور ایکسپوز تصویر کی طرح ہوگیا ہم نے آنکھوں پر دھوپ کے چشمے چڑھا لئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
صبح ساڑھے چھ بجے ہم کنڈ ملیر ساحل پر پہنچ گئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کنڈ ملیر کا ساحل پاکستان کے خوبصورت ترین ساحلوں میں سے ایک ہے صاف شفاف پانی اور صاف ساحل لیکن جب سے عوام کا رجحان اس طرف بڑھا ہے بس تو اس سے آگے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے بس کچھ سالوں کی بات ہے ہر جانےوالا سیاح اپنا قومی فریضہ ایسے ہی ادا کرتا رہا تو بہت جلد ہی وہاں چھوڑی چھوٹی کچرے کی پہاڑیاں نظر آنا شروع ہوجائیں گی یہ تو ہمارا عام رویہ ہے افسوس کی کوئ بات نہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کی بات ہوتی ہے یا عام طور پر سیاحت کی بات کی جاتی ہے تو شمالی علاقہ جات کو خاص توجہ دی جاتی ہے قدرتی حسن سے مالا مال وادیاں چاہے کوہ مری ہو یا وادئ نیلم یا پھر گلگت بلتستان کی جنت ارضی جہاں کوہ ہندو کش، قراقرم اور ہمالیہ کے طویل پہاڑی سلسلے اور انہی میں کے ٹو، نانگا پربت یا راکاپوشی کے حسین پہاڑ بھی ہیں اور دیومالائ حسن کا حامل ویوسائ کا میدان اور فیری میڈوز کا حسین سبزہ زار بھی اور وادئ کاغان اور جھیل سیف الملوک بھی اور ان سب کے علاوہ پاکستان کے شمال میں ہر ہر قدم پر سبزہ اور جھیلیں پھول اور درخت آپ کا استقبال کرتے ہیں لیکن کیا حسن صرف سبزہ جھیلیں اور پہاڑہی ہیں؟ کیا قدرتی حسن کا مطلب صرف پھول جھرنے اور آپشاریں ہی تصور کی جاتی ہیں یا کچھ اور بھی اس معنی میں تصور کیا جاسکتا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
پاکستانی مصنفین نے بھی اگر کتابیں لکھیں تو شمال پر صرف سلمان راشد صاحب ہی ہیں جن کے کئ بلاگز اور تحاریر سندھ اور بلوچستان کے حوالے سے ملتی ہیں اور فوٹوگرافر حضرات کا رجحان بھی ادھر ہی رہا نوے فیصد ڈاکومنٹریز بھی جو بنیں تو شمالی علاقہ جات پر مجھے یاد ہے پاکستان ٹیلیوژن پر شام کے وقت ایک پروگرام "فوڈ اینڈ ٹریول آف پاکستان" کے نام سے آیا کرتا تھا جسکی میزبانی ایوب کھوسہ صاحب کیا کرتے تھے بنیادہ طور پر یہ پروگرام بلوچستان کیلئے مخصوص تھا اور دور افتادہ وادیوں اور قبیلوں اور انکے روایتی کھانوں کے بارے میں ہوا کرتا تھا اور اسی پروگرام نے میرے اندر بلوچستان دیکھنے کی ایسی آگ لگائ جو ابھی تک جل رہی ہے بہت ہی کم موقع مل سکا خیر اور سندھ کے حوالے سے بھی مجھے پی ٹی وی کا ایک پروگرام یاد پڑتا ہے جو پروفیسر عبد الرؤف نامی ایک صاحب کیا کرتے تھے اور اسکی صرف چند ہی اقساط تھیں وہ بھی ٹھٹہ، مکلی، اور کینجھر جھیل تک ہی محدود تھیں خیر یہ میرا شکوہ نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوتا رہا لیکن شاید یہی وجہ ہے کہ عوام الناس کا رجحان بھی شمال کی طرف رہا اور دوسرے علاقے خصوصا صوبہ سندھ اور بلوچستان کی طرف دھیان نہیں دیا گیا لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
صبح صبح ساحل کی ٹھنڈی ہوا نے جب ہمارے بدنوں کو چھوا تو ایک تو سب تازہ دم ہوگئے دوسرے سب کی بھوک خوب چمک اٹھی اور کراچی کے محاورے کے مطابق"کتے کی طرح بھوک لگ رہی تھی" اب مجھے نہیں معلوم کہ کتے کو کیسے بھوک لگتی ہے لیکن اگر ویسے ہی لگتی ہے جیسے ہمیں لگی تھی تو واقعی بڑی کتی بھوک ہے تو ہمارے میزبان جو ہمیں اپنی ذمہ داری پر لائے تھے وہ ہمیں اس کتی بھوک میں فوری ناشتہ فراہم کرنے سے قاصر ثابت ہوئے بلکہ بے بس ثابت ہورہے تھے ہائ وے کے ساتھ ہی ساحل پر ایک "بیچ ویو ریزارٹ ہوٹل" بنا ہوا ہے اسکی واحد خصوصیت ساحل سمندر پر ہونے کی وجہ سے سمندر کا نظارہ ہے اب ساحل پر ہو سمند ر بھی نہ دکھے تو تف ہے لیکن چلیں خیر بیٹھنے کی جگہ ہے ایک پکی چھت ہے ٹیبل اور کرسیاں لگی ہوئ ہیں پہلے پہل بسوں سے ان لوڈ کرکے ہمیں یہاں بٹھایا گیا کہ ناشتہ کریں اور پھر جو کرنا ہے کریں لیکن ایک توا جو باہر کھلے آسمان تلے لگاہوا تھا درجن بھر لکڑیاں ڈالنے کے بعد بھی جب گرم نہ ہوا اور جب یہ معلوم ہوا کہ پہلے انکو ناشتہ دیا جائے گا جنکی بکنگ پہلے سے آئ ہوئ ہے تو اعلان ہوا کہ جوکرنا ہے کرلیں پھر ناشتہ کریں اس اعلان پر ہال میں سے کئ ایک لوگ اٹھ گئے اور جب وہ سرخ سرخ آنکھوں کے ساتھ واپس آئے تو وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں تھے بس مسکراتے رہ گئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ناشتے کے انتظار میں باہر توے کے گرد ایسے رش لگا ہوا تھا جیسے سڑک پر کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجانے پر لگ جاتا ہے یعنی کرتا کراتا کوئ کچھ نہیں ہے بس گھیر کر کھڑے ہوجاتے ہیں یہاں بھی یہی ہورہاتھا درجن بھر سے زیادہ لڑکے لڑکیاں توے کوگھیر کر کھڑے تھے اترتے ہوئے پراٹھوں کو دیکھ کر اپنی بھوک بہلارہے تھے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ناشتے کے انتظار میں بیٹھا بیٹھا جب بیزار ہوا تو باہر نکلا ہوٹل کے باہر ایک میلا لگا ہواتھا دس کے قریب چھوٹی بڑی بسیں اور اسی حساب کے گاڑیاں پارک تھیں ان کے علاوہ نوجوانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد اپنی موٹرسائیکلوں پر وہاں موجود تھی بائیں طرف دیوار پر ایک ہاتھ سے بنی برقع پوش خاتون کی تصویر تھی یعنی دیوار پر کوئلے سے بنائ گئ تھی اور لکھا تھا "لیڈیز واش روم" اور ایک تیر کا نشان راستے کی آگاہی کیلئے بنا ہوا تھا تیر کے نشان کے دوسری طرف مردانہ واش روم تھے جس کی نشاندی کیلئے کوئ نشان یا تصویرنہیں تھی گویا کہ راستے الگ الگ تھے لیکن بیچ کی کاغذی دیوار ایک ہی تھی فرق صرف اتنا تھا کہ مردانہ استراحت خانوں کے سامنے ایک بلوچ بچہ کرسی ڈال کر بیٹھا تھا اور انہیں استعمال کرنے کے اپنی مرضی سے پیسے وصول کررہا تھا جیسے کہ کوئ کم عمر لڑکا ہے اور بال بچے دار نہیں لگتا تو وہ دس یا بیس روپے وصول لیگا لیکن اگر عمر کچھ زیادہ لگے یا بندہ شادی شدہ لگے تو پھر وہ پچاس روپے وصول لیگا کہ آپ کے ساتھ لیڈیز ہوگا ادھر کوئ پیسہ نہیں لیتا وہ بھی ادھر لیگا ایک صاحب سے جب زیادہ پیسے وصولے تو انہوں نے اعتراض کیا کہ جتنے پیسے تونے نکالنے کے لئے ہیں اتنے کا تو میں نے کچھ کھایا بھی نہیں تھاتو بچے نے جواب دیا کہ ادھر اپنا لیڈیز کو بھیج دو ادھر کوئ پیسہ نہیں ہے تو وہ صاحب بولے کہ انکے ساتھ کوئ لیڈیز نہیں ہے اس پر بچے نے یہ کہ کر بات ختم کردی کہ اسمیں تمہارا قصور ہے اس جگہ پر گھٹن اور تعافن اس قدر ہے کہ تھوڑی دیر کھڑا ہونا محال تھا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اس باتھ روم سے تھوڑا آگے ایک طرف ہوٹل کا کچا باورچی خانہ ہے جوکہ اینٹوں سےگھیر کر بنادیا گیا ہے اور چھت پر چھپر ہے اسی کے ساتھ ہی دودھ کے خالی ڈبے، چائے کی پتی، بسکٹ کے ریپر کولڈ ڈرنک کے بوتلیں اور دیگر کچرا ڈھیر کی صورت جمع ہورہاہے جسکی صفائ کا کوئ انتظام نہیں باتھ روم کی نکاسی کا بھی کوئ انتظام نہیں ہے اور استعمال شدہ پانی تھوڑی دور پر ساحل پر نکال دیا جاتا ہے ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
باہر گھوم پھر کر واپس آیا تو اتنا وقت گزر چکا تھا کہ ہال کے اندر ناشتہ بانٹا جارہا تھا پراٹھا اور انڈا اور ایک گلاس چائے ناشتے کے بعد بھی پیٹ میں بہت سی خالی جگہ بچ رہی اور ہم نے بیرے سے کہا کہ اب ہمیں ہمارے خرچ پر کچھ کھلادے تو اس نے اول تو ہمیں بہت بیزاری سے دیکھا پھر کھڑکی سے باہر توے کی طرف اشارہ کرکے بولا پہلے سب کا آرڈر ہوگا پھر آپکا آرڈر لگے گا یہ سن کر ہمارے پیٹ ویسے ہی بھر گئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
بات اگر کریں ٹریول اینڈ ٹورزم انڈسٹری کی تو پاکستان میں حکومتی سطح پر کوئ خاطر خواہ پزیرائ نہیں لیکن پرائیوٹ ٹور آپریٹرز ہی ہیں جن کی وجہ سے یہ اب تک زندہ ہے انفرادی طور پر اب بھی کافی بڑی تعداد سفر کرتی ہے لیں عموما فیملیز ٹور آپریٹرز کے ساتھ سفر کرنا پسند کرتے ہیں کہ اس میں ذاتی طور پر کوئ سر درد نہیں ہوتا ساری ذمہ داری اس شخص کی ہوتی ہے جو اس سفر کا آرگینائزر ہے یعنی ٹراسپورٹ رہائش اور کھانا پینا تو جہاں اس کاروبار میں پیشہ ور لوگ ہیں وہیں کچے بچے بھی آگئے ہیں اور فیس بک کے عام ہونے کے بعد سے ایک بہت بڑی تعداد ایسے کچے بچوں کی اس دھندے میں آگئ ہے جن کا واحد مقصد پیسا کمانا ہے اور یہ کوئ بری بات بھی نہیں لیکن جن لوگوں کو آپ اپنے ساتھ لیکر جارہے ہیں ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا بھی ان کی ذمہ داری میں شامل ہے جہاں آپ ان سے پیسے نکلوا کر انکو لےکر جارہے ہیں اس جگہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنا بھی اسی ذمہ داری میں شامل ہے جو کام آپ کررہے ہیں اس بارے میں مکمل معلومات ہونا بھی بہت ضروری ہے لیکن ایسا دیکھنے میں بہت کم ہی آتا ہمارے ساتھ بھی ایسے ہی کچے بچے تھے لیکن وقت گزرنے پر یہی کچے بچے بڑے ہوجائیں گے بس انکو کچھ وقت دینا چاھئے لیکن درست رہنمائ بھی ضروری ہے یعنی گروپ ممبران سے جتنا پیسا لیا جائے اسکا کم از کم آدھا تو ان پر خرچ کرہی دیا جائے باقی آدھا آپ بچا بھی لیں تو کوئ مضائقہ نہیں مقصد کچے بچوں پر تنقید نہیں بس درست سمت میں رہنمائ کی کوشش ہے ویسے بھی ہم تو اب رانا صاحب کے ساتھ سفر کرکر کے اضافی اشیاء کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ جہاں ایک سے کام چل سکتا ہو وہاں بھی چار چار لیتے ہیں مبادہ کہیں کم نہ پڑجائیں یعنی حساب لگائیں تین بندوں کیلئے چھ کلو مرغی یعنی کہ ۔۔۔۔اندازہ کرو۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ہم رات گئے کراچی سے چلے اور صبح صبح جو کنڈ ملیر پہنچ گئے تو کچھ تو اسکا سہرا عبدالوہاب کوجاتا ہے لیکن ایک بہترین سڑک کی موجودگی کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مکران کوسٹل ہائے وے جسکا افتتاح سن 2002 میں جناب جنرل مشرف صاحب کے دور میں ہوا اور تین سال کے قلیل عرصہ میں مکمل ہوا چھ سو تریپن (653) کلومیٹر طویل اس شاہراہ کو بنانے کا بنیادی مقصد اول تو یہ تھا کہ کراچی اور گوادر پورٹ جو کہ سن 1990 سے التوا کا شکار تھی کے درمیان بہتر زمینی راستے کا قیام عمل میں لایا جائے کیوں اب جو سفر باآسانی چھ سے سات گھنٹوں میں طے پاجاتا ہے وہ کوسٹل ہائے سے پہلے کم از کم دو سے تین دن کا اور مشکل ترین سفر ہوا کرتا تھا دوسرا راستہ کراچی سے براستہ کوئٹہ گوادر کیلئے اختیار کیا جاتا جس کے بہتر حالت میں ہونے کے باوجود طوالت کے باعث وقت اتنا ہی درکار ہوتا اس شاہراہ کے قیام کے بعد اب گوادر شہر اور اسکے علاوہ پسنی ، اوڑمارہ اور لیاری بھی پورے پاکستان سے زمینی راستے سے جڑ چکے ہیں اور ساحل مکران سے حاصل ہونے والے سمندری حیات کی ترسیل ملک بھر میں اور اسکے بعد ملک سے باہر جانے میں کافی ہمواری میسر ہوئ ہے اور یہ شاہراہ ان شہروں کی ترقی کی وجہ بھی بنی ہے یہ بات ویسے تو سب جانتے ہی ہیں لیکن پھر بھی یاددہانی کیلئے بتادی جاتی ہے کہ اس کی تکمیل دوست پڑوسی ملک چین کے تعاون سے عمل میں آئ آخر کو چین ہمارا بڑا بھائ ہے دیکھ ریکھ کی ذمہ داری نیشنل ہائے وے اتھارٹی کی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ایران سے بذریعہ لانچ سمندری راستے سے ایرانی پٹرول اور ڈیزل پاکستان میں سمگل کیا جاتا ہے اور ملک بھر میں ترسیل کیلئے اسی شاہراہ کا استعمال کیا جاتا ہے اسی لئے جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کرکے اس کے سد باب کی کوشش کی گئ ہیں تمام ہی اہم مقامات پر چکنگ کی جاتی ہے لیکن لانے والے قیامت کا ذہن رکھتے ہیں کہ لے ہی آتے ہیں شہر قائد میں جگہ جگہ سڑک کنارے یہ ایرانی پٹرول قدرے ارزاں قیمت پر مل جاتا ہے جو کہ معیاری نہ ہونے کہ وجہ سے استعمال کرنے والے کی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی ایسے کی تیسی کرتا رہتا ہے خیر یہی جگہ جگہ چیک پوسٹیں اور فوج اور رینجرز کی موجودگی کہ وجہ سے یہاں لوٹ مار کے واقعات کافی کم ہیں اور امن امان ہے یعنی سفر کرنے میں جان کا خطرہ نہیں ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
مکران کوسٹل ہائ وے کا قیام بلا شبہ ملکی اور خاص کر اس سے جڑے ہوئے شہروں اور یہاں کی عوام کی ترقی کیلئے ایک احسن قدم ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
خیر تو ہم کنڈ ملیر کے ساحل پر موجود تھے اور ناشتے سے فارغ ہوکر ہم نے ساحل پر چلے گئے اور ایک کراچیائیٹ ہونے کہ وجہ سے سمندر سے ہمارا رشتہ کافی گہرا ہے اور ہر کراچی والے کی طرح ہمیں بھی سمندر دیکھ کر اسمیں چھلانگ لگانے کا دل کرنے لگتا ہے بچپن سے اب تک پکنک کے نام پر ہم سمندر کا رخ کرتے آئے ہیں تو دلوں میں سمندر کا خوف نہیں اور ویسے بھی اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے ساحل کو دیکھ کر تو یہ لازم ٹھہرا تو دوچار ڈبکیاں لگانے کے بعد ہی باہر آئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اس سے پہلے جب میں یہاں آیا تھا تو وہ دسمبر کا مہینہ تھا پانی کا رنگ گہرا نیلا اور آسمان پر سائیبرا سے نقل مکانی کر کے آنے والے پرندوں کے غول کے غول منڈلارہے تھے اور چونکہ دسمبر میں مچھلی کا شکار جائز ہوتا ہے تو گہرے سمندر میں کشتیاں کافی بڑی تعداد میں موجود تھیں مئ سے اگست چونکہ مچھلی کے شکار پر ممانعت ہوتی ہے اس لئے اس مربتہ کشتیاں بھی نہیں تھیں اور آنے والے پرندے واپس جاچکے تھے آسمان جوکہ گہرا نیلا تھا اب مٹیالا اور گہرا نیلا اور سبز پانی اب گدلا اور سفید جھاگ والا ہورہا تھا انسانی عادت ہے کہ چیزوں کو موازنے میں دیکھتا ہے تو میں نے بھی موازنہ کیا اور آج کا پھیکا ساحل مجھے اس قدر نہ بھایا جیسے پہلی مرتبہ یہ میرے دل میں گھر کرگیا تھا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
خیر نظارہ پھر بھی بہت خوب ہی تھا اور ویسے بھی سمند کو بیٹھ کر بس دیکھنا بھی ایک بھی ایک خوب مشغلہ ہے ساحل پر بنتی مٹتی لہریں اور ان میں بھیگتے لڑکے اور لڑکیاں تو جہاں اتنا کچھ ہو وہاں بندہ بور تو ہرگز نہیں ہوتا میں نے نظارے کیلئے ایک چٹان کا انتخاب کیا اور یہاں چڑھنے کیلئے ایک لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف سے اوپر پہنچنا پڑتا ہے اور وہاں پہنچنے کے دوران چھوٹی موٹی ٹریکنگ اور ہائکنگ کا کیڑا بھی سکون پاجاتا ہے خیر وہاں پہنچ کر ادھر ادھر کیمرے کا بٹن دبا کر کچھ تصویریں بنانے کے بعد میں مصطفیٰ کی تصویریں کھینچتا رہا اور وہ میری خراب کرتا رہا باقی دونوں وہیں ساحل پر رک گئے اور ہمارے ساتھ چلنے سے انکاری ہوکر بیٹھ گئے اسی چٹان پر کچھ اور لڑکے بھی چڑھے ڈوریاں ڈال ڈال کرمچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرتے رہے اور ایک بھی مچھلی حاصل نہ ہونے پر واپس چلے گئے نیچے ذرا پرے ایک جھونپڑے کے ساتھ سات آٹھ کشتیاں کھڑی ہوئی تھیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
جغرافیہ اور راستے کا بار بار بیان پڑھنے والوں کو اکثر بے مزا کرتا ہے لیکن ان خواہش مند حضرات کیلئے فائدہ مند ہوتا ہے جو آپ کی روداد کو پڑھ کر اس جگہ جانے کا سوچیں تو کنڈ ملیر کا یہ ساحل جہاں میں اس وقت موجود تھا کراچی سے کل دو سو چھتیس (236) کلومیٹر کے فاصلے پر ہے کراچی سے براستہ حب چوکی لسبیلہ کے بعد آخری بڑا شہر وندر آتا ہے اور یہاں ہی اورماڑہ سے پہلے آخری پٹرول پمپ آتا ہے تو اگر آپ ارادہ کریں اپنی ذاتی گاڑی یا موٹرسائیکل پر سفر کرنے کا تو وندر میں اپنے گاڑی اور موٹر سائیکل کا پٹرول ضرور چیک کرلیں مبادہ آگے چل کر پریشانی کا سامنا ہو وندر سے آگے زیرو پوائنٹ یہاں سے دائیں ہاتھ پر مڑ کر اگلا سٹاپ اگور ہے راستے بھر میں رہنمائ کرنے والے بورڈ آویزاں ہیں راستہ بھٹکنے سے بچنے کیلئے ان پر نظر رکھیں تو کوئ پریشانی ہونے کا اندیشہ نہیں اور اگور سے آگے پڑھتے ہی دریائے ہنگول کا پل آجاتا ہے دریا تو بیچارہ ایک کونے میں سمٹا ہوا پڑا ہے اور نقاہت کے مارے بہنے سے بھی قاصر ہے لیکن اس پر بنایا گیا پل بڑا شاندار اور مضبوط ہے یہ ساتھ ہی ایک ہوٹل ہے جہاں پر ناشتہ چائے اور کھانے وغیرہ کی سہولت موجود ہے یہ علاقہ ہنگول نیشنل پار ک کی حدودمیں آتا ہے سولہ سو پچاس (1650) مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو کہ تین اضلاع لسبیلہ، گوادر اور اوروان پر پھیلا ہوا ہے۔ انیس سو اٹھاسی (1988) میں باقاعدہ اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا اور اسکے بعد یہ پاکستان کا واحد نیشنل پارک ہے جو بیک وقت سمندری، دریائ، صحرائ اور پہاڑی جنگلی حیات کے تحفظ کرنے کا دعوہ کرتا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یہاں پائ جانے والی جنگلی حیات کی درست تعداد کا ابھی تک درست اندازہ نہیں لگایا جاسکا لیکن اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ہنگول نیشنل پارک میں تین ہزار مارخود، پندرہ سو کے قریب اڑیال اور تقریبا بارہ سو کے قریب پہاڑی غزال موجود ہیں اس کے علاوہ پائ جانے والی حیات میں سندھی چیتا، لومڑی، لگڑبھگے، پہاڑی بکرے،سیہا، نیولے اور جنگلی بلوں کی مختلف اقسام ہیں دریائے ہنگول میں پائے جانے والے مگرمچھ اور دریائ اور سمندری کچھووں کی مختلف اقسام موجود ہیں، پرندوں میں مستقل پائے جانے والے مخلتف اقسام کے عقاب اسکے علاوہ الو ہیں اور پہاڑی کوے اور نقل مکانی کر کے آنے والے پرندے جو کہ سال کا کچھ حصہ گزار کر لوٹ جاتے ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اسی ہنگول پل سے کوئ دس منٹ کے فاصلے پر یعنی کوئ پانچ کلومیٹر مزید سفر کرنے پر کنڈ ملیر کا ساحل موجود ہے اور ہم یہیں موجود تھے اور یہاں سے ہماری روانگی کا وقت گیارہ بجے دن کا طے ہوا تھا کچھ دیر میں یہ وقت بھی آیا اور ہم دوبارہ اپنی اپنی بسوں میں لوڈ ہونا شروع ہوئے اب مزید آگے کی طرف سفر کرنا تھا اور اس سفر کی حد بوزی پاس سے کچھ پہلے "امید کی شہزادی " یعنی پرنسس آف ہوپ تک تھی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ساحل سے آگے سفر شروع ہوتے ہیں ایک عجیب دنیا شروع ہوتی ہے سب سے پہلے ایک چڑھائ ہے بس کا انجن زور لگاتا ہوا اس پر چڑھ گیا اب آپ کے دونوں طرف چٹانیں ہیں جو قدرتی طور پر عجیب و غریب پراسرار شکلیں لئے ہوئے ہے اور کہیں کہیں پر سڑک کے دونوں جانب صحرائ ریت آجاتی ہے یعنی ریت کے چھوٹے بڑے ٹیلے اور دور پرے پہاڑ اور بائیں ہاتھ ہر بہت دور سمند اس جگہ کا الفاظ میں اظہار مشکل ہے جیسے کسی پھل کے ذائقہ کو بیان کرنا تو آپ اس کو الفاظ نہیں دے سکتے شاید مختلف مثالوں سے سمجھا سکتے ہیں یا وہی پھل چکھنے کو پیش کرسکتے ہیں میں بھی کوشش کر دیکھتا ہوں میری ناکامی کی صورت میں یہاں کا سفر اختیار کرلیں بات بالکل واضح ہوجائے گی ذائقہ منہ میں گھل کر خود ہی اپنے آپ سمجھ آجائے گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
سامنے تین چٹانیں ایسے ابھری ہوئ ہیں جیسے اہرام مصر فراعین مصر خافو، خوفو اور خفران کے مقبرے ہوں لیکن یہ تینوں ایک جسامت کے ہیں اور جسامت میں مختصر بھی اسکے علاوہ کچھ اسی شکل کی اور چٹانیں ہیں جو سڑک کے اوپر سایہ کئے کھڑی ہیں انکی شکلیں بھی کچھ کچھ ان اہراموں سے ملتی ہوئ ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کچھ اور آگے چلیں اور یہ آگے چلنا سیدھا سیدھا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ سڑک گھومتی ہوئ چل رہی ہے تو کوئ منظر جو سامنے ہوتا ہے وہ بس کچھ دیر ہی ہوتا ہے اور ایک چکر کھانے پر غائب ہوجاتا ہے تو بائیں ہاتھ ہر ایک دیوار ساتھ چلتی ہے اور اپنی ساخت میں ایک مکمل قلعہ نما ہے یعنی ایک سیدھی دیوار جو اوپر سے سپاٹ نہیں بلکہ ایک مناسب فاصلے پر تکون تکون سے برج نما ابھار ہیں دور سے دیکھنے پر یہ قدیم دور کا کوئ قلعہ ہی معلوم ہوتا ہے چونکہ گھمن گھیریوں کی وجہ سے وقت کم ہوتا ہے اس لئے میرے پاس اسکی مکمل تصویر موجود نہیں ہے لیکن جتنی یہ دیوار میں چلتی گاڑی سے کیمرے میں محفوظ کر سکا وہ بھی ایک کمال تصویر ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
مزید اس راستے پر ایک مختصر سا قلعہ ہے جو ایک ٹیلے پر واقع ہے دیکھنے میں کسی عمارت کی باقیات محسوس ہوتا ہے جو بالکل درست حالت میں موجود رہ گیا ہو اب میں کیسے سمجھاؤں کہ اسکی شباہت کیسی ہے کہ یہ بس دیکھ کر ہی سمجھ میں آنے والا ہے سمجھ لیں کہ گاتھک طرز تعمیر میں جو بڑے بڑے ستون ہوا کرتے ہیں اور اوپر چھت جیسے پاکستان کے بیشتر ریلوے سٹیشن ہیں تو کچھ کچھ ویسا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اسی طرز کی مختلف محیر العقول قسم کی تخلیقات پورے رستے آپ کے ساتھ رہتی ہیں کہیں دیکھنے میں کوئ لائبریری ہے کوئ آپ کے تخیل پر منحصر ہے کہ یونیورسٹی کا کوئ پانی میں لنگر انداز جہاز۔ ایک مجسمہ نما بھی آتا ہے جو کہ مناسب ترمیم کے بعد سنگاپور کی شناخت مچھلی کے جسم والے شیر سے شباہت کھانے لگتا ہے اور اس سے آگے مکمل جسامت والے ابوالہول صاحب موجود ہے فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ بیچارے ذرا زمین سے نزدیکی پر ہیں لیکن ان کی شان و شوکت بھی کچھ کم نہیں دیکھ کر حیرت ہوئ ہے کہ اتنی مماثلت کیونکر ہوسکتی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ہونہی چلتے چلتے ہمارے سفر کا آخری مقام آتا ہے اور اسکے بعد واپسی یہاں آپ کو الواع کہنے اور آپ کی آمد کا شکریہ ادا کرنے کو سب سے اونچی چوٹی پر دامن پھیلائے ایک خاتون موجودہیں جو کہ اپنی جاہ وجلال میں ایک شہزادی کی مانند ہیں اور انکو ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ جو کہ اپنی فلموں کے بولڈ سین کے علاوہ اپنے فلاحی کاموں کے حوالے سے بھی پہچانی جاتی ہے نے دوہزار دس (2010) میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران پرنسس آف ہوپ یعنی امید کی شہزادی کا نام دیا اور یہ پاکستان کی واحد خاتون ہیں جو اتنے طویل عرصہ سے امیدسے ہیں لیکن انکی امید بر نہیں آتی کوئ صورت نظر نہیں آتی لیکن صورت حال فرق ہوتی جارہی ہے وہاں ہر ہفتے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں ایسی صورتیں پہنچتی ہیں جو ایک بیابان میں ایک خاتون کو چاہے مجسمہ ہی سہی کھڑا دیکھ کر اس پر چڑھ دوڑتی ہیں اور ساتھ سلفیاں بنانے کیلئے ان سے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرتی ہیں جس کے نتیجے میں مٹی سرکتی ہے اور پچھلے کچھ سالوں کے دوران اسے کافی نقصان ہوا ہے اور اس قدرتی مجسمے کی بنیاد سے کافی مٹی سرک چکی ہے اگر صورت حال یہی رہی تو آنے والے سالوں میں روڈ کے ساتھ لگے بورڈ میں تبدیلی کرکے یہ لکھنا ہوگا کہ پرنسس آف ہوپ واز ہئیر یعنی گزرے زمانوں میں کبھی یہاں ایک مجسمہ ہوا کرتا تھا جسے لوگوں کی حوس اور سلفیاں کھا گئیں صورت حال ملکی حالات کی طرح نازک ہے اور فوری سد باب ضروری ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یہاں تک کا سفر بھی ایک شاندار تجربہ ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ پکچرابھی باقی ہے میرے دوست تو اگر آپ سفر کا ارادہ کریں تو یہاں پر یہ بس نہ کریں بلکہ اس آگے بوزی پاس تک سفر ضرور کریں کیوں کہ کوسٹل ہائی سے کی اصل پکچر اس سے آگے شروع ہوتی ہے اصل گھمن گھیریاں اور عجیب الخلقت قدرتی عجائبات اس مقام سے آگے نظر آتے ہیں اور اصل لطف اس سے آگے ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میرے پیچھے بیٹھے ہوئے عمر نے مجھ سے سوال کیا تھا "داد ا یہ تو بڑی عجیب جگہ ہے یہ سب کیسے بنا ہے؟" تو اس وقت میرے پاس کوئ جواب نہیں تھا اور اس بارے میں کوئ تحقیق بھی میسر نہیں ایک روایت ہے جو کہ درست بھی معلوم ہوتی ہے کہ قریب دو ہزار سال پہلے یہ تمام علاقہ زیر آب تھا آہستہ آہستہ پانی اترتا گیا اور یہ تمام تصاویر بنتی گئیں لیکن اصل جواب کوئ جیولوجسٹ ہی دے سکتا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یہاں سے ہم سب واپس پلٹے اور اب ہماری منزل اسی ہنگول نیشنل پارک میں موجود ایک قدیمی مندر ہنگلاج ماتا مندر جسے عرف عام میں نانی مندر کہا جاتا ہے تھا یہاں تک آتے ہوئے ہم اسے واپسی حاضری کی نیت سے بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے اب یہاں سے پلٹے تو ارادہ مندر میں حاضری کا تھا لیکن پہلے رک کر جمعہ ادا کیا گیا اور دوپہر کا کھانا بھی اسی دوران میں کھایا گیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
دریائے ہنگول کے ساتھ ایک راستہ اندر کی طرف جارہا ہے جس کے باہر ایک چوکی ہے اور چند اہلکار وہاں موجود ہیں فی گاڑی شاید سو روپے فیس ادا کرنی پڑتی ہے اور داخلے دروازہ کھل جاتا ہے ایک خستہ سڑک چٹانوں کے درمیان اور دریا اپنی سمٹی ہوئ حالت میں آپ کے بائیں جانب ہوجاتا ہے یہاں بھی عجیب و غریب شکلوں کے پہاڑ ساتھ ساتھ چلتے ہیں داخلے دروازے سے اندر آتے ہیں سامنے ایک جھریوں بھرا پہاڑ اپنی قدامت کی داستان سنا رہا ہے اور ساتھ ہی ایک پتھر کی سل پر جلی حروف میں پانی کے قریب جانے کی ممانعت درج ہے کیوں کہ مگرمچھ موجود ہیں دائیں اور بائیں دونوں اطراف میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مٹی کے کچے گھر بنے ہوئے ہیں اور آباد ہیں یہ لوگ کون ہیں اور یہاں کیوں رہتے ہیں اور سب سے اہم بات کہ انکا ذریعہ معاش کیا ہے یہ سارے سوال ہمارے ذہنوں میں بارہا آئے لیکن ان کا خاطر خواہ جواب نہ مل سکا اس وقت کسی ٹور کمپنی کے ساتھ سفر کرنے کا نقصان سمجھ آیا کہ اگر اکیلے آیا ہوتا تو ان سے مل کر اور بات چیت کرکے اسکا جواب تو حاصل کرنے کی کم از کم کوشش کر دیکھتا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
پہاڑوں کے شوقین افراد نے کنکورڈیا کے ٹرینگو ٹاورز کی کم از کم تصاویر تو دیکھی ہی ہونگی اور جنہوں نے نہیں دیکھیں وہ باآسانی گوگل پر دیکھ سکتے ہیں گلگت بلتستان کی مشہور پسو کونز بھی اپنی منفرد نوکیلی چوٹیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں لیکن مشہور وہی ہوتا ہے جس پر دنیا کی نظر پڑی ہو لوگ جانتے ہوں پہچانتے ہوں لیکن اگر کچھ چاہے وہ اپنی تخلیق میں یکتا ہو گمنامی میں رہ جائے تو اسمیں قصور اس تخلیق کا نہیں بلکہ اس آنکھ کا ہے جس نے اسے دیکھا لیکن دنیا تک اسکی خبر نہیں پہنچائی یہاں بھی دو ایسے چٹانیں موجود ہیں جو بلندی میں تو نہیں لیکن شکل و شباہت میں پسو کونز اور ٹرینگو ٹاورسے کافی مشابہت رکھتی ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ایسے ہی راستوں پر سفر کرتے کرتے ہم ایک ہرے رنگ کے دروازے کے سامنے پہنچے اور وہاں لگے بورڈ پر نارنجی رنگ سے پینٹ کیا گیا ہے</div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
<div style="text-align: center;">
"ہنگلاج ماتا مندر ہنگول بلوچستان۔</div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
<div style="text-align: center;">
جے ماتا دی"</div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ایک قدرتی غار میں موجود ماتا کے مندر کے بارے میں دعوہ کیا جاتا ہے کہ یہ دولاکھ سال پرانا ہے اور اسکے بنانے میں انسانی ہاتھ استعمال نہیں ہوا یعنی مکمل طور پر قدرتی ہے موجودہ دور میں اس مندر میں سیڑھیاں بھی بنی ہیں اور مندر کے اندرونی حصے میں ٹائل بھی لگے ہوئے ہیں اور اگر غور کیا جائے تو یہ مکمل غار بھی نہیں بلکہ ایک پہاڑی کھو نما ہے اور یہاں دو مورتیاں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسانوں نے نہیں بنائیں بلکہ ماتا خود اپنے ساتھ لیکر آسمان سے اتری تھیں ایک سندور ملا ہوا بے شکلا پتھر ماتا کی نشانی کے طور پر پوجا جاتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی دور میں سندھ کے صوفی بزرگ حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائ رحمۃاللہ علیہ نے یہاں کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے ہی اس مندر کو نانی مندر کا نام دیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یہ تو ہوا سب سے مشہور مندر لیکن اس کے علاوہ اور بھی مندر یہاں موجود ہیں جن میں گنیش دیوا مندر، کالی ماتا مندر، گرو گورکھ ناتھ دانی مندر، براہم خود اور تیر خود مندر، گرانانک کھارو اور دیگر مندر جو کہ اسی دروازے کے اندر مختلف مقامات پر موجود ہیں اور ہر سال ہزاروں کے تعداد میں زائرین یہاں آتے ہیں اور مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں ہر سال اپریل میں سالانہ چار روزہ پوجا کا اہتمام ہوتا ہے جس میں پورے ملک اور اسکے علاوہ ہندوستان سے بھی ہندو زائرین یہاں آتے ہیں اور مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں ان کے ٹھہرنے اور کھانے پینے کیلئے یہاں پر سرائے اور کھانا پکانے کی جگہ بنائ گئ ہے لیکن زیادہ رش کی وجہ سے اکثر زائرین ان سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور خیموں میں یا کھلے آسمان کے نیچے وقت گزارتے ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ویکیپیڈیا پر اس مندر کے حوالے سے کافی معلومات موجود ہیں خواہش مند حضرات مزید معلومات وہاں پڑھ سکتے ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میری ذاتی طور پر ان مسلم زائرین سے جو اس مندر کو یا کسی بھی ایسے جگہ جو کہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کہی جو سکے صرف ایک تاریخی حیثیت میں دیکھنے جاتے ہیں ایک درخواست یہ ہے کہ ان مقامات کے تقدس کا پامال کرکے ان کی دل آزاری کا باعث نہ بنیں اور ان جگہوں کا ویسے ہی احترام کریں جیسے اپنی مسجد کا کرتے ہیں مندر کے اندر جوتوں سمیت داخل ہونا یا مندر کے احاطے میں سگریٹ نوشی کرنا بھی اسی زمرے میں آتی ہے اس سے اجتناب کریں دوسروں کا اور ان کے مذہب کا احترام کریں تاکہ وہ آپ کا اور آپ کے مذہب کا احترام کریں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ مندر ہمارے سفر کا آخری مقام تھا اسکے بعد واپسی کا سفر شروع ہونا تھا تو طے شدہ پروگرام </div>
<div style="text-align: right;">
کے تحت ہم دوبارہ بسوں میں لوڈ کئے گئے بسیں سٹارٹ ہوئیں اور ایک پرلطف دن کے اختتام کا آغاز ہوگیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEip719SSiFOR92md_wfC9q15oiYjJ716YU9UimDcLAv0DNEZK5cDvHwCKBFbnvS5wpASgmHvqVWxEzEYHtve3FdtlsYVqkP9N6pbk_yTsf1JDwUtDd5mWsS57c_wyUK228QyCKPbpaYLnm1/s1600/Coastal+Highway.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEip719SSiFOR92md_wfC9q15oiYjJ716YU9UimDcLAv0DNEZK5cDvHwCKBFbnvS5wpASgmHvqVWxEzEYHtve3FdtlsYVqkP9N6pbk_yTsf1JDwUtDd5mWsS57c_wyUK228QyCKPbpaYLnm1/s400/Coastal+Highway.jpg" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">تصویر فیضان قادری</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjWkO9-DYx_LIIlhXgLscv8bbfypEub2dHtvtxJtE2irGCw3FTMc-NuCDFZfXPNAku_G8gAaZ2rVOsuu9bO9rg4Gfou5yttTyLlgJbWf0-Ocih8TM3_LTeKSmGCoxbal6-oFowpgiLyG5xF/s1600/highway2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjWkO9-DYx_LIIlhXgLscv8bbfypEub2dHtvtxJtE2irGCw3FTMc-NuCDFZfXPNAku_G8gAaZ2rVOsuu9bO9rg4Gfou5yttTyLlgJbWf0-Ocih8TM3_LTeKSmGCoxbal6-oFowpgiLyG5xF/s400/highway2.jpg" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">تصویر فیضان قادری</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiuTkbjtZzVhyphenhyphenmY2kLwJonYkpbxJokKCbgOknfsVbjLPYwUAzDWOhHKPzOiRSXPpYwJAj0bIuGd61GM-mpf_DfkpL_gp92iNlA-Z8T1fmSRWbvX9PLTfbq5oEeqNj8M5ia9IK6zSly5UprA/s1600/KundMalir.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="367" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiuTkbjtZzVhyphenhyphenmY2kLwJonYkpbxJokKCbgOknfsVbjLPYwUAzDWOhHKPzOiRSXPpYwJAj0bIuGd61GM-mpf_DfkpL_gp92iNlA-Z8T1fmSRWbvX9PLTfbq5oEeqNj8M5ia9IK6zSly5UprA/s400/KundMalir.jpg" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">تصویر فیضان قادری</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhRLqigLsYcljzQTHtlbAFv_Ti0eKeVv_DwnorOPMx0y5hdgxQgI0y5RTwiXpg8yINzSbEhPK3pZDPbx__2URW4dvHM8JlUrfTeP9ajcqohy56Q5-li1Lm0SThZMa9EEvCfgAuOaqERuKDh/s1600/Princes+and+haul.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhRLqigLsYcljzQTHtlbAFv_Ti0eKeVv_DwnorOPMx0y5hdgxQgI0y5RTwiXpg8yINzSbEhPK3pZDPbx__2URW4dvHM8JlUrfTeP9ajcqohy56Q5-li1Lm0SThZMa9EEvCfgAuOaqERuKDh/s400/Princes+and+haul.jpg" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">تصویر فیضان قادری</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgsumrknuas4FHcn_FutgxQBUmQqHM5pXT61DIwd0q7mNWBVrEiuCsuTMTue6HNTNzeZjwdUx2jSpEnZU0l4p9_NZKqYRhpk8wOX6Ql_YW8IayzWmwFKzrKxw-oGzAu55qfGfgCtpnD7uMm/s1600/WE.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgsumrknuas4FHcn_FutgxQBUmQqHM5pXT61DIwd0q7mNWBVrEiuCsuTMTue6HNTNzeZjwdUx2jSpEnZU0l4p9_NZKqYRhpk8wOX6Ql_YW8IayzWmwFKzrKxw-oGzAu55qfGfgCtpnD7uMm/s400/WE.jpg" width="400" /></a></div>
<br />
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiL51OTJQzmUx63bJpys6tVpnGXpFIGwubf_L6oyus0iSnrw7aOjFxSXpKY4LKPi9pDz-CxnA0SFbX_xV-0HkkxEMx_v5gLI6PWdA4NznJrmbZDb2ulqCxcxexMJ0gFmGcV2Jm5A3McjYsi/s1600/highway.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiL51OTJQzmUx63bJpys6tVpnGXpFIGwubf_L6oyus0iSnrw7aOjFxSXpKY4LKPi9pDz-CxnA0SFbX_xV-0HkkxEMx_v5gLI6PWdA4NznJrmbZDb2ulqCxcxexMJ0gFmGcV2Jm5A3McjYsi/s400/highway.jpg" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">تصویر فیضان قادری</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhXSTueYXGOkxXM4fyWXqJs0o6550ddV1zptgbjH7SOzDABOEGFmISlMp_CEq6pocEfxxDsyM1aWNhs0XroJSz-MBwOyOU6zJr_NliUHNbCiy0MMsXQarzzHTFVc1xia97NgCjBs5CtMxx1/s1600/Highway1.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhXSTueYXGOkxXM4fyWXqJs0o6550ddV1zptgbjH7SOzDABOEGFmISlMp_CEq6pocEfxxDsyM1aWNhs0XroJSz-MBwOyOU6zJr_NliUHNbCiy0MMsXQarzzHTFVc1xia97NgCjBs5CtMxx1/s400/Highway1.jpg" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">تصویر فیضان قادری</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrEsGkqWcFzgABEoCj0bhgPNnD_Yvdbb-kr1HJYbYYTFLFdkqjyLWIJd7UXheC9IVC7eKMrvtT_mKUyvytmjm38ones7Is-QGVA181xIf2E42C0bY5bn92GZ5JrMrnsA3_0Z6v9WNDDESX/s1600/Coastal+Highway.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrEsGkqWcFzgABEoCj0bhgPNnD_Yvdbb-kr1HJYbYYTFLFdkqjyLWIJd7UXheC9IVC7eKMrvtT_mKUyvytmjm38ones7Is-QGVA181xIf2E42C0bY5bn92GZ5JrMrnsA3_0Z6v9WNDDESX/s400/Coastal+Highway.jpg" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">تصویر فیضان قادری</td></tr>
</tbody></table>
<br />
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiVdaeOvkSQnYoTfvAJaUubYQgEqRs7DqAjmEnkPGieTd1ObQq-MBeloJjAR-I3Vvb430Ko6HshW3zCP6Ebmo_ax7zQMiTUowRTxe6iKX4T5fioMW7YTNLl8W8X840603fqzA5nvo3FdYaL/s1600/animals.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiVdaeOvkSQnYoTfvAJaUubYQgEqRs7DqAjmEnkPGieTd1ObQq-MBeloJjAR-I3Vvb430Ko6HshW3zCP6Ebmo_ax7zQMiTUowRTxe6iKX4T5fioMW7YTNLl8W8X840603fqzA5nvo3FdYaL/s400/animals.jpg" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">تصویر فیضان قادری</td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com7tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-81334382667541776532015-08-06T01:52:00.001+05:002015-08-06T13:42:37.870+05:00ایش ٹرے میں بجھایا گیا ایک سگریٹ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhPgGzQlPhDRN7wF4-0VX09qo79_IbOlc8zOt7vCO_3-5koAJm-I4hJ8qVGdOuBTDm6TMnhvDWjDsemlsuoR-Q5U54PYC6MjDROaLmGxU3Wr-dC_L8awVeofR1LGUbTx9P67Ym_SmXJIGVS/s1600/ashtray-full-of-cigarette-stubs-matthias-hauser.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="265" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhPgGzQlPhDRN7wF4-0VX09qo79_IbOlc8zOt7vCO_3-5koAJm-I4hJ8qVGdOuBTDm6TMnhvDWjDsemlsuoR-Q5U54PYC6MjDROaLmGxU3Wr-dC_L8awVeofR1LGUbTx9P67Ym_SmXJIGVS/s400/ashtray-full-of-cigarette-stubs-matthias-hauser.jpg" width="400" /></a></div>
<br />
<br />جب ابھی سگریٹ ڈبوں میں بند ہوکر نہیں ملا کرتے تھے یا شاید ملتے ہوں لیکن پرانے لوگوں میں سے اکثر جو تمباکو نوشی <br />کے عادی تھے وہ اپنا سگریٹ خود بنا کرپیا کرتے تھے تمباکو کا ڈبہ، سگریٹ بنانے کا کاغذ، سلائ اور ماچس اپنے ساتھ رکھا کرتے اور جب کبھی سگریٹ کا من ہوتا پیپر میں تمباکو رکھنے سے لیکر سلگانے تک کا عمل اپنے ہاتھ سے کرتے اور شوق فرماتے میرے دادا مرحوم میں نے کبھی دیکھا تو نہیں سنا ضرور ہے کہ اسی طرز پر تمباکو نوشی کیا کرتے تھے یعنی اپنی ہاتھ سے سگریٹ بناتے اور اگر کبھی سگریٹ بنانے کا دل نہ ہوتا یا لوازمات میں سے کوئ ایک بھی کم ہوتا تو حقہ گڑگڑایا کرتے۔<br /><br />یوسفی صاحب نے بھی ایک ایسے ہی خان صاحب کا ذکر اپنی کتاب "زرگزشت" میں کیا ہے اب وہ وقت نہیں اب نہ لوگوں کے پاس اتنا وقت ہے نہ ہی شوق کی وہ انتہا رہی اب وہ لوگ جو سگریٹ میں "کچھ" بھر کر پینے کے عادی ہیں وہ اس پیچیدہ عمل سے گزرتے ہیں پہلے سگریٹ خالی کی جاتی ہے پھر مصالحہ ملا کر تمباکو دوبارہ بھرا جاتا ہے اور پھر دم لگائے جاتے ہیں گو کہ عمل تھوڑا وقت اور دقت طلب ہے لیکن کہتے ہیں اتظار طلب بڑھادیتا ہے تو اس کے بعد پھر جو سرور ہے وہ وہی جان سکتے ہیں جو کبھی اس عمل سے گزرے ہوں خیر موضوع یہ نہیں۔<br /><br />اب زمانہ بدل گیا ہے۔<br /><br />تمباکو نوشی اب بھی کی جاتی ہے سگریٹ اب پیکٹ میں بند باآسانی مہیا ہوجاتا ہے اور ہر سگریٹ نوش ڈبیا سے پہلے سگریٹ نکال کر پیار سے انگلیوں کے درمیان میں رکھتا ہے پھر بڑے پیار سے ہونٹوں سے لگاتا ہے پھر سلگا کر تمباکو کے کڑوے ذائقہ سے لطف اندوز ہوتا ہے اور جب تک سگریٹ ختم نہیں ہوجاتی سگریٹ نوش کے اتنے قریب ہوتی ہے جتنی محبوبہ یا بیوی ہونی چاھئے لیکن جیسے ہی سگریٹ اختتام تک پہنچتی ہے وہ اسے ایش ٹرے میں رگڑ کر یا پیر کے نیچے مسل کر آگے بڑھ جاتا ہے۔<br /><br />بعض سگریٹ نوش ایک فرض کی طرح سگریٹ پیتے ہیں اسے سلگانے کے بعد پے درپے کش پر کش لگا کر اس کوشش میں ہوتے ہیں جلد از جلد سے ختم کرکے فارغ ہوجائیں اور پھر کوئ اور کام کریں اور بعض بہت آرام آرام سے دھیرے دھیرے کش لگاتے ہیں ساتھ ساتھ گپیں بھی لگاتے ہیں کام بھی کرتے جاتے ہیں ساتھ وقفے وقفے سے کش بھی لگاتے رہتے ہیں ایسے لیکن ایک وقت پر دونوں اس سگریٹ سے ایک جیسا ہی سلوک کرتے ہیں یعنی جب انکا کام پورا ہوجاتا ہے اسے ایش ٹرے میں یا پیر کے نیچے رگڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔<br /><br />سگریٹ نوشوں کی بھی دو اہم اقسام ہیں نمبر ایک شوقیہ اور دوسرے عادی, شوقیہ سگریٹ نوش کبھی کبھی سگریٹ پی کر اسے رگڑتے ہیں اور دوسرے عادی اور یہ بڑے خطرناک ہوتے ہیں یہ عادتا روزانہ بیسیوں مرتبہ سگریٹ کو اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہیں اور پھر مسل کر پھینک دیتے ہیں۔<br /><br />تمہید بہت لمبی ہوگئ جی ہاں تمہید بات سمجھانا ضروری تھا موضوع تمباکو نوشی اور تمباکو نوشوں کی اقسام پر بحث نہیں تھا بلکہ کہنا یہ تھا کہ کچھ لوگ رشتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں پہلے اسے قریب کرتے ہیں پیار سے دیکھتے ہیں پھر ہونٹوں سے لگاتے ہیں پھر سلگادیتے ہیں اور جب رشتے سلگتے ہیں تو یہ مزہ لیتے ہیں اور پھر ایک دن اسی رشتے کو پیروں تلے رگڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں دیکھتے بھی نہیں ان کے وزن سے اور پیروں تلے روندے جانے سے اس رشتے کا کیا حال ہوا ہے بالکل ویسے ہی جیسے ایک سگریٹ نوش کبھی نہیں دیکھتا کہ اس کے رگڑنے سے اس سگریٹ کا کیا حشر ہوا ہے۔<br /><br />ایسے افراد کی بھی دو اقسام ہیں شوقیہ اور عادی اب شوقیہ تو کبھی کبھار ایسا کرجاتے ہیں اور بعدمیں شاید اپنی اس حرکت پر افسوس بھی ہوجاتا ہو جیسے شوقیہ سگریٹ نوش اگر ایک دو سگریٹ پی لیں تو اکثر ان کے سینے میں درد شروع ہوجاتا ہے اور یہ دھڑکا بھی لگ جاتا ہے کہ اب ان کو دل کا دورہ پڑا ہی پڑا اور وہ افسوس ہی کرتے ہیں کہ پی ہی کیوں لیکن ایک عادی سگریٹ نوش ایک ہی نشست میں بیسیوں سگریٹ پھونک جائے احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنے سگریٹ پھونک چکے ہیں اور کتنے ہیں روند چکے ہیں اسی طرح رشتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والوں کو بھی احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنے ہی رشتے روند چکے ہیں اور جب احساس ہی نہ ہو تو انسان اپنی عادت سے پیچھا بھی نہیں چھڑاتا نہ ہی اسے برا جانتا ہے۔<br />مقصد تنقید نہیں بس ایک یاددہانی ہے جیسے ہرسگریٹ کے ڈبے پر لکھا ہوتا ہے<b><br /></b><blockquote class="tr_bq">
<b>"تمباکو نوشی صحت کیلئے مضر ہے وزارت صحت حکومت پاکستان"</b></blockquote>
<br />والسلام<br /></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-16285472609908566892015-07-26T03:30:00.002+05:002015-09-22T14:30:02.083+05:00فراست بھائ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiN0wsqO6r7jjF-NKXgwd4rHG6V0grI1Udh4tYlUJmWWNQbcmuewjaQlvchkTzJNvCsCFPJbbVW47BlheeOfnWtVLQ1TbpUMWWtd9NMd34LKVplIDlwJmIUveVwyffuN5BEZ7aC8i5C-s5f/s1600/memory.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="212" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiN0wsqO6r7jjF-NKXgwd4rHG6V0grI1Udh4tYlUJmWWNQbcmuewjaQlvchkTzJNvCsCFPJbbVW47BlheeOfnWtVLQ1TbpUMWWtd9NMd34LKVplIDlwJmIUveVwyffuN5BEZ7aC8i5C-s5f/s320/memory.jpg" width="320" /></a></div>
<br /></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"السلام وعلیکم ارے
ماموں کیسے ہیں بڑے دنوں بعد نظر آئے۔" میں اپنے ایک دوست سے ملنے
اپنے پرانے محلے گیا تو ماموں نظر آگئے یہ میرے سگے یا رشتے کے ماموں نہیں ہیں
بلکہ ہر محلے میں ایک صاحب ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہر ملنے والا ماموں ہی بلاتا ہے
مجھے انکا اصلی نام بھی معلوم نہیں ہمشہ ان کو ماموں ہی کہا اور سنا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"ارے بھیا ہم تو یہاں ہی ہیں آپ ہی عید بقر عید نظر
آتے ہیں" ماموں نے شکوہ کیا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"بس مصروفیات اتنی ہوگئ ہیں کہ وقت ہی نہیں ملتا ادھر
آنے کا ایک دو مرتبہ آیا تھا لیکن آپ سے ملاقات نہیں ہوئ آپ سنائیں کیا حال چال
ہیں"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"ارے بھیا کیا حال چال سنائیں ٹھیک ٹھاک ہیں اللہ کا
کرم ۔ارے ہاں وہ فراست بھائ کا انتقال
ہوگیا "<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"اپنے فراست بھائ؟ "میں نے قدرے حیرت سے پوچھا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"ہاں بھئ اپنے ہی اور کون سے۔ میں گیا تھا اور تو کوئ
تھا نہیں محلے والوں نے دفنادیا مجھے تو
پرانے جاننے والے نے اطلاع کردی ورنہ معلوم بھی نہ چلتا۔"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"کب ہوا انتقال؟"مجھے یقین نہیں آیا تو میں نے
دوبارہ پوچھا <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"ارے اسی رمضانوں کے مہینے میں شروع کے دنوں میں ہوگیا
بس بھئ اللہ بچائے ایسی تنہائ کی موت سے مرنا تو سب نے ہی ہے لیکن ایسے مرنا نہیں
چاہتے ہم۔مالک کرم کرے بس"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"ہوا کیسے ویسے تو ٹھیک ٹھاک تھے"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"ارے بھیا خاک ٹھیک ٹھاک تھے۔۔۔ خیر بس وقت ہوگیا تھا
چلے گئے" قدرے توقف کے بعد بولے "چلو بھیا ہم چلتے ہیں کچھ کام سے جا رہے تھے ذرا پھر ملاقات ہوگی خدا
حافظ"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ماموں چلے گئے لیکن میں سوچتا رہ گیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">میں میٹرک کے امتحان دے کر فارغ ہوا تھا اور اکثر وقت گھر
سے باہر رہتا انہی دنوں میں میری ماموں سے
اچھی دوستی ہوگئ ماموں کی عمر ہم سے کوئ دس سال ہی زیادہ ہوگی لیکن پورے علاقے کا
ماموں ہونے کی وجہ سے خود پر ایک بزرگی طاری رکھتے ایک دن کہنے لگے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"ادریس بھائ عمرے پر گئے ہیں اپنا سکوٹر چھوڑ گئے ہیں
ہمارے ہاں آپ کو چلانا آتا ہے" ماموں نے مجھ سے پوچھا اور میں تب اپنی عمر کے
ان دنوں میں تھا جب کسی بھی سواری کو چلانا جاننا باعث فخر ہوتا ہے گوکہ مجھے
سکوٹر ایسا کوئ خاص چلانا نہیں آتا تھا لیکن میں نے پھر بھی حامی بھر لی جس پر
ماموں نے مجھے چابی پکڑائ اور ہم دستگیر سے لیاقت آباد کے ایک پرانے محلے تک محض
خود اعتمادی اور ماموں کی حوصلہ افزائ کی وجہ سے پہنچ پائے ورنہ راستے میں چلنے
والے دوسرے تمام افراد نے ہمیں کہیں اور بھیجنے کی پوری کوشش کی خیر اس پرانے محلے
میں پہنچے پر ہم نے موٹر سائیکل ایک دوکان
کے آگے کھڑا کیا اور وہاں سے پیدل چلے آگے گلیاں تنگ تھیں اور ان میں راہگیر بھی
تھے اور دوکانیں بھی ایک گلی کے نکڑ پر بنے ہوئے چائے خانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
ماموں نے کہا "یہ ہوٹل یاد رکھئے گا" اسی گلی میں چند گھر چھوڑ کر ماموں نے خوب جانچ کرنے کے بعد زور سے دروازہ پیٹا اور کئ مرتبہ پیٹنے پر اندر سے
دروازہ کھلا اور صرف لنگی پہنے ادھیڑ عمر کے ایک صاحب برامد ہوئے یہی فراست بھائ
تھے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">بڑے تپاک سے ملے اور دروازے پر ہی باتیں شروع کردیں حال
احوال اور ہمارے تعارف کے بعد جیسے انہیں
یاد آیا اور بولے "ارے آپ یہیں کھڑے رہیں گے کیا اندر آجائیں۔"<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">دروازے کے ساتھ ایک برامدہ تھا اور ایک دیوار سے دوسری
دیوار تک ایک الگنی اس طرح بندھی ہوئ تھی کہ گھر کے اندر جانے کیلئے اسے اٹھا کر
اور خود جھک کر اس کے نیچے سے گزرنا پڑتا اسی الگنی پر ایک پتلون بھی ٹنگی ہوئ تھی
جو اپنے ہی وزن سے سرک کر الگنی کے درمیانی حصہ میں آگئ تھی اور وہ یقینا کئ
مہینوں سے سوکھ رہی تھی کہ اس پر گرد جم چکی تھی اسی برامدے میں ایک دیوار کے ساتھ
چند سوکھے ہوئے گملے تھے اور دیوار کےساتھ ہی ایک ٹرالی اور بیلچہ رکھا ہوا تھا اس
کے علاوہ بھی بہت سا کاٹھ کباڑ جس میں ایک لوہے کا زنگ آلود دروازہ بھی تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اس دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک کمرہ تھا جسے بیٹھک کہ سکتے
ہیں یہاں آدھے فرش پر ایک چٹائ بچھی ہوئ تھی اور ایک کونے میں چادر سے عاری ایک
پلنگ بچھا ہوا تھا جس پر کتابوں کا ایک انبار پڑا ہواتھا اور نیچے کچھ سوٹ کیس اور چند ایک دیگر سامان
گھسایا ہوا تھا اوراس پلنگ کے ساتھ ہی دو
کرسیاں تھیں جن کے بان اس قدر ڈھیلے پڑ چکے تھے کہ ان پر بیٹھا نہیں جا سکتا تھا
اسی چٹائ پر چند تکیے اور چادر پڑی ہوئ
تھی کئ کتابیں رسالے اور اخبار بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے دیواروں کا رنگ یا تو
تھا نہیں اور تھا تو بھی سیاہ پڑ چکا تھا خاص کر ان جگہوں کا جہاں جہاں ہاتھ اکثر
لگتے ہیں جیسے بجلی کے بٹن کے ارد گرد اور دروازے کے ساتھ والی دیواریں سیاہ ہوچکی تھیں چھت سب سے صاف تھی بس مکڑیوں
کے بڑے بڑے جالے لگے ہوئے تھے چٹائ کے
پیچھے دیوار پر دو جگہ سر لگنے کے گول گول
نشان تھے ایک کمرے کی کھڑکی کے نیچے جو
باہر برامدے میں کھلتی تھی اور دوسری بجلی کے بلب کے نیچے والی جگہ اور یہ وہ
جگہیں تھی جن پر سر ٹکا کر وہ مطالعہ کیا کرتے ہونگے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہمیں بٹھا کر وہ اندر چلے گئے اور جب واپس آئے تو وہ ایک
بنیا ن پہنے ہوئے تھے ماموں نے کہیں سے ڈھونڈ کر سگریٹ کا پیکٹ برامد کرلیا تھا
اور بیٹھے پھونک رہے تھے فراست بھائ نے واپس آکر ان دو کرسیوں میں سے ایک میں ٹنگ
گئے اور ہمارا انٹرویو شروع کردیا کیا نام ہے کیا کرتے ہو کیا پڑھتے ہو کتنے بھائ
بہن ہیں والد صاحب کیا کرتے ہیں اور یہ جان کر کہ میرے والد صاحب ٹیچر ہیں وہ اس
کرسی میں سے ہل ہل کر باہر نکلے اور مجھ سے مصافحہ کرکے واپس اسی کرسی میں چلے گئے
وہ خود بھی کسی مقامی اسکول میں اردو پڑھایا کرتے تھے مزید کچھ دیر ایسے ہی سوال
جواب کرتے رہے اس دوران ماموں چٹائ پر پڑی کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف رہے اور
جب سوال جواب ختم ہوئے تو ہمیں بولے نوجوان اب آپ چائے بنالیں سب کیلئے اور اندر کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا
کہ باورچی خانہ کہاں ہے اور باورچی خانے کا سماں کچھ یوں تھا کہ بیسن میں گندے
برتنوں کا انبار لگا ہوا تھا اور وہاں پڑا
ہوا سڑ رہا تھا اور باقاعدہ بدبو آرہی تھی اور جو وہاں نہیں آسکتے تھے وہ ہر جگہ
موجود تھے جیسے چولہے کے اوپر نیچے زمین پر
چمچے چمچیاں استعمال کے بعد ہر جگہ بکھرے ہوئے تھے چولہے پر بھی تیل کی ایک
تہ جمی ہوئ تھی وہاں کا ماحول دیکھ کر
طبیعت مالش کرنے لگی میں ابھی ماحول ہی دیکھ رہا تھا کہ کہ فراست بھائ اندر آگئے <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں کہ سامان کہاں رکھا ہوا
ہے<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> انہوں نے مجھے چینی
اور چائے کی پتی نکال کردی چینی کے پیکٹ میں چونٹیاں بھری ہوئ تھیں اور ننھے ننھے
لال بیگ بھی اور چائے کی پتی جس طرح بازار سے آئ تھی ویسے ہی رکھی ہوئ تھی تو بچی
ہوئ تھی "برتن آپ کو نکانے پڑیں گے اس میں سے" انہوں نے مسکراتے ہوئے
ہماری طرف دیکھا "اصل میں ہماری بیگم اپنے گھر گئ ہیں ناں" انہوں نے
بتایا<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"کہیں دوسرے شہر گئیں ہیں کیا کافی دنوں سے نہیں ہیں
شاید لگ رہا ہے" میں نے کہا تو وہ بولے کہ نہیں وہ تو اسی شہر میں ہی ہیں اصل
میں وہ شادی کے چار روز بعد ہی چلی گئ تھیں ہم کئ مرتبہ گئے منانے مانیں نہیں ہم
نے بھی پھر تین حرف پڑھ دئے کہ کیوں باندھ کر رکھیں نہیں رہنا چاہتیں تو نہ رہیں
پھر انہیں اچانک یاد آیا کہ چائے کیلئے دودھ بھی چاھئے ہوگا اور کچھ پیسے پکڑا کر
بولے کہ بازار سے دودھ لے آؤں میں گھر سے باہر آیا اور اسی نکڑ کی دوکان سے چائے
خرید کر لے آیا واپس آیا تو وہ ماموں سے کسی بہت ہی گہرے موضوع پر گفتگو کررہے تھے
ہم چائے کے بعد کافی دیر وہیں بیٹھے رہے اور واپس آگئے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ان سے دوسری ملاقات میری اردو بازار میں ہوئ انٹر میں میں
نے ڈی جے کالج برنس روڈ میں داخلہ لیا اور زیادہ تر وقت پرانے شہر میں گھومتا رہتا
اردو بازار کے ساتھ ہی ایک لڑکیوں کا کالج تھا میں اکثر چھٹی سے کچھ دیر پہلے اردو
بازار پہنچ جاتا اور جیسی ہی چھٹی ہوتی باہر آجاتا اور وہیں سے بس پکڑتا اس طرح
راستہ بھی ٹھیک ٹھاک گزر جاتا اس طرح کالج کی چھٹی سے کچھ دیر پہلے میں اردو بازار
پہنچا تو فراست بھائ ایک دوکان کے باہر کھڑے بحث کررہے تھے ان کے پاس کچھ پیسے کم
تھے اور وہ اپنا شناختی کارڈ گروی رکھوا کر کتابیں لے جانا چاہتے تھے جس پر وہ
راضی نہیں تھا اور فراست بھائ پہلے تو اسے آرام سے سمجھاتے رہے اور بعد میں
دوکاندار کو احمق اور الو کا پٹھا قسم کے شریفانہ القابات سے نوازنے لگے مجھے
پہچان کر انہوں نے پوری کہانی سنائ میں ان دنوں ٹیوشن پڑھایا کرتا تھا میرے پاس کچھ پیسے تھے جس میں نے بقایا رقم
پوری کی اور کتابیں انکے حوالے کیں اور انکو کھینچ کر وہاں سے الگ کیا اس کے بعد
وہ مجھے بس میں اپنے گھر لے کر گئے اور میری رقم واپس کردی۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اس کے بعد میری ان سے کئ مرتبہ ملاقات ہوئ کبھی راہ چلتے
کبھی دوران سفر گھر سے باہر دیکھ کر کوئ بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ صاحب
کس قسم کی زندگی گزار رہے ہیں ہمیشہ صاف اور اجلے استری شدہ کپڑوں میں ہوتے قرینے
سے سجے ہوئے بال اور شیو کبھی بڑھا ہوا نہیں ہمیشہ ٹھیک ٹھاک حلیہ میں ہوتے لیکن
گھر پہنچتے ہی تمام کپڑے اتار کر ہینگر میں لٹکاتے اور وہی لنگی باندھ لیا کرتے
گھر میں بس ایک یہی کام کپڑوں کو ہینگر میں لٹکانے کا قرینے سے کرتے اس کے علاوہ
شاید ہی کوئ کام ہو جو اس گھر میں ترتیب سے ہو۔ <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ان ملاقاتوں کے بعد میں اکثر ان کے گھر جانے لگاکبھی کبھی
بساط کے مطابق میں انکا گھر صاف کردیا کرتا وہ کبھی منع بھی نہیں کرتے تھے ہاں
لیکن کبھی خود سے نہیں کہا کسی کام کو کھانا بنانے کے شوقین تھے اور اکثر بریانی
بنایا کرتے طبیعت کے ملنگ تھے اور بلا کے شاہ خرچ پیسہ خرچ کرتے وقت کبھی ایک لمحہ
کو نہیں سوچتے تھے کہتے کہ یہ جائے گا تو اور لیکر واپس آئے گا اور واقعی میں نے
انکو کبھی پیسے کی تنگی میں نہیں دیکھا حالانکہ جس اسکو ل میں وہ پڑھاتے تھے وہاں
انکی تنخواہ ایسی کچھ زیادہ بھی نہیں تھی۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">بلا کے حجتی آدمی تھے کسی بھی بات پر بحث کرسکتے تھے ایک
مرتبہ میں ان کے گھر پہنچا تو ان کے دوتین دوست بھی موجود تھے اور اس بات پر بحث
ہورہی تھی کہ گوشت بھوننے سے پہلے ٹماٹر ڈالناچاھئے یا بعد میں فراست بھائ اپنی بات ثابت کرنے کیلئے بعد میں کئ
کھانا پکانے کے رسالے اور کتابیں خرید لائے اور اپنی غلطی ثابت ہونے پر پھر بھی
نہیں مانی کہنے لگے ان کو کیا پتہ گوشت
کیسے بھونا جاتا ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">مذہب کے بارے میں ہمیشہ مجھے ایک بات کہتے کہ نوجوان کبھی
اس بارے میں پریشان نہیں ہونا بہت آسان ہے بس آپ کو جو اچھا لگتا ہے وہ کرو اور
دوسروں کو وہ کرنے دو جو وہ کرتے ہیں ان پر خدائ فوجدار نہ بنو لیکن اللہ رسول ؐ
کے حکم سے آگے نہ بڑھو غیبت کرنے اور سننے کے سخت خلاف تھے کبھی ان کے سامنے بات نکل
جاتی تو کہتے "میاں کیوں میری عاقبت خراب کرنے پر تلے ہیں آپ" دوسرا اگر
مشورہ کی نیت سے کوئ بات کرتا تو پوری بات سنتے اور پھر اپنی رائے دیتے اپنے بارے
میں کہتے کہ <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">"بھئ ہم تو پیٹ کے ہلکے ہیں ہمیں راز نہ بتایا کریں
کسی کو کہ دیں اور کل کو روز قیامت آپ ہمارا گریبان پکڑے کھڑے ہوں" لیکن
حقیقت میں ان کے سینے میں ہزاروں لوگوں کے انتہائ اہم راز دفن تھے کسی سے کبھی
تذکرہ بھی نہیں کیا ہوگا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑاتے لیکن دوران گفتگو جملہ بازی
بڑی سخت کرتے کوئ بھی بات ایسی مل جاتی جوقابل گرفت ہو تو چھوڑتے نہیں تھے ہمیشہ
جملہ لگا کر حاضرین سے داد وصولتے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">رہتے بھلے ہی گندے گھر میں تھے لیکن دل بڑا صاف تھا کبھی
کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں پہنچائ اگر خود کسی کی بات سے دل دکھا تو فورا
معاف کرتے کہتے کہ<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">" اللہ کہ ہاں پکڑ ہوجاتی ہے میں معاف کروں گا تو لوگ
مجھے معاف کریں گے یہ تو چین ری ایکشن ہے نوجوان" </span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Times New Roman","serif"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; mso-bidi-language: ER; mso-hansi-font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">پڑھائ اور اسکے بعد نوکری ہونے کی وجہ سے میرا فراست بھائ
کے گھر آنا جانا کافی کم ہوگیا کبھی کبھی
ملاقات ہوجایا کرتی ایک مرتبہ ملے تو معلوم ہوا کہ السر کی شکایت ہوگئ ہے اسکی وجہ
یقینی طور پر روز روز باہر کھانا کھانا ہی تھی۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">السر اور کثرت سگریٹ نوشی کی وجہ سے وہ دن بدن کمزور ہوتے
گئے لیکن عادات اسی طرح قائم رہیں باہر کھانا کھانا اسکول کے بعد اسی طرح گھومتے
رہنا کبھی کچھ نہیں تو کراچی پریس کلب میں بیٹھے رہنا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ماموں سے ہی معلوم ہوا کہ انتقال کے دو دن بعد جب گھر کے اندر سے بدبو آ ئی تو محلے والوں کو
پتہ لگا کہ یہ مر چکے ہیں ان کا کوئ بھی رشتہ دار کراچی میں نہیں تھا محلے والوں
نے ہی کفن دے کر دفنایا دو دن کی سڑی ہوئ
لاش کر دفنانا کوئ اچھا تجربہ نہیں ہوتا چند ایک افراد نے دور دور سے مٹی ڈال کر
جلدی جلدی قبر بند کردی اور پھر اسکول وغیرہ سے معلومات کر کے گھر ان کے رشتہ
داروں کو اطلاع دی جو رشتے دار ان کی زندگی اور بیماری میں کبھی نہیں آئے وہ مرنے
کے بعد کیوں آتے میں انکی قبر پر گیا اور وہاں سے انکے گھر مالک مکان نے اسے کسی
دوکان والے کو کرایہ پر دے دیا تھا انکا سامان اور کتابیں اسی پلنگ پر ڈھیر تھیں
میں نے اس ڈھیر سے چن کر چند ایک کتابیں اٹھالیں سب پر فراست بھائ کے دستخط بمع
تاریخ کے موجود تھے اور یہ کتابیں لے کر گھر آگیا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">گوکہ مجھے آخری بار ان سے ملے کئ سال گزر چکے ہیں اور مجھے
ان کی عادت بھی نہیں رہی تھی لیکن ان کے چلے جانے پر آنسو بہانے کو دل کرتا ہے وہ
کہتے ہیں کہ یار زندہ صحبت باقی درحقیقت یار تو مر کر بھی نہیں مرتا بس صحبت ختم
ہوجاتی ہے دل بوجھل کیوں نہ ہو۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">لیکن موت کیا صرف موت ہوتی ہے؟<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> ایک ایسا تجربہ ہے
جس کے بارے میں کوئ بھی نہیں بتا سکتا ۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">مرنے سے پہلے ایک انسان پر کیا کچھ بیت جاتا ہے اس کے بارے
میں کوئ نہیں بتا سکتا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> کتنے سارے خیالات
کتنی ساری کیفیات وابستہ ہوتی ہیں اس واقعہ کے ساتھ جن کے بارے میں کوئ نہیں جانتا
اور جو یہ جھیل جاتا ہے وہ بتا نہیں سکتا۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> بے شک ایک دن ہم سب
اسی تجربہ سے گزریں گے۔<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">میرے بچھڑ جانے والے دوست کے نام<o:p></o:p></span></div>
<br />
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> اللہ ان پر ڈھیروں
رحمتیں اور راحتیں نازل فرمائے اور انکا شمار اپنے مقرب بندوں میں فرمائے آمین۔<o:p></o:p></span></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-18893327193088062092015-07-06T13:29:00.000+05:002015-07-06T13:29:15.489+05:00غیر شرعی پوسٹ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
آج کا مسلمان نو جوان ہولی، دیوالی، ویلنٹائن ڈے، مدرز ڈے، فادرز ڈے، نیو ائیر نائٹ اور ہیلووین جیسے ایونٹ منارہا ہے</div>
<div style="text-align: right;">
لیکن ہمارے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ شب برات، سب معراج، ۱۲ ربیع الاول، گیارہویں شریف اور میلاد وغیرہ منعقد کرنا شرک و بدعت ہے یعنی یہ سب غیر اسلامی تہوار ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اسی بات پر ایک واقعہ سن لیجئے</div>
<div style="text-align: right;">
یہ واقعہ قدرت اللہ شہاب صاحب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں تحریر کیا ہے واقعہ کچھ یوں ہے کہ شہاب صاحب اپنی کسی سرکاری پوسٹنگ کے نتیجے میں ہندوستان کے کسی دور دراز علاقے میں پہنچے تو وہاں کہ رہائشی خود کو مسلمان توکہتے تھے لیکن کلمہ نماز اور دین سے بالکل دور تھے اور بنیادی معلومات بھی نہیں رکھتے تھے پورے علاقے میں ایک مسجد تھی اور سال میں ایک مرتبہ شہر یا کسی دوسرے گاوں سے ایک مولانا صاحب تشریف لاتے اور سال بھر میں پیدا ہونے والے بچوں کے کانوں میں اذان دیتے اور ان کی چھریوں پر تکبیر پڑھ کر دم کرجاتے جس سے وہ سال بھر اپنے جانور ذبح کرتے۔</div>
<div style="text-align: right;">
اپنے مسلمان ہونے کی واحد علامت جو انہیں معلوم تھی وہ محرم الحرام میں تعزیے کا جلوس نکالنا تھا وہ کہتے کہ ہم مسلمان ہیں اس لئے محرم میں تعزئے نکالتے ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
ایک زمانے میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ جو کہ دارالعلوم دیو بند کے بانی ہیں نے اس علاقے کا دورہ کیا تو انہوں نے اس بستی والوں کو جہاں دین کی بنیادی تعلیم دی وہیں اس بات کی تلقین کی کہ کبھی محرم کے تعزئے نکالنا نہ چھوڑیں اور ہر سال اہتمام سے تعزئے نکالا کریں۔</div>
<div style="text-align: right;">
جب مولانا سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے اس "غیر شرعی" کام کی اتنی تلقین کیوں کی تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ لوگ آج تک خود کو مسلمان کہتے آئے صرف اسی وجہ سے ان سے اگر یہ وجہ بھی چھین لی جائے تو دین سے جو کچے دھاگے سے جڑا ہوا رشتہ ہے وہ بھی ٹوٹ جائے گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ آج کے بہت سے مسلمانوں کا بھی دین سے انہی شب برات اور جشن ولادت مصطفیٰ ﷺ کے جلوسوں اور محفل میلاد کی وجہ سے جڑا ہوا ہے اب اگر ان سے یہ رشتہ بھی چھین لیں گے تو پھر کل آنے والا مسلمان بچہ بھی ہولی، دیوالی اور ویلنٹائن کو اپنا دین سمجھے گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
دین کو کلچر میں آنے دیں اور ان دنوں کا منانے دیں خود کو ہی حق نہ سمجھیں دوسروں کو بھی دین میں آنے دیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
یہ سطور کسی مسلکی فرقہ کو ہوا دینے کیلئے نہیں ہے بس سوچنے سمجھنے کیلئے ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
والسلام</div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-86355480576156382322015-06-16T01:22:00.000+05:002015-08-26T18:33:18.938+05:00موت کے سائے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">"میں نے کبھی کسی انسان کو مرتے ہوئے نہیں دیکھا" </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">"مرے ہوئے انسان دیکھے ہیں بہت دیکھے ہیں لیکن کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ کسی انسان کو مرتے ہوئے دیکھ سکوں زندگی اور موت کے درمیانی وقفے میں ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس کر سکوں ایک انسان کو ایک لاش میں تبدیل ہوتے دیکھ سکوں۔"</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">بعض اوقات قدرت کی طرف سے انسان کو ایسی طاقت عطا کردی جاتی ہے جس کا اسے اندازہ نہیں ہوتا اور جب اس طاقت کے بارے میں معلوم ہوتا ہے تو انسان صرف بے بس محسوس کرتا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">مجھے لوگوں کے چہرے پر موت کے سائے نظر آجاتے ہیں موت کی سیاہی ۔۔۔۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص اب مرنے والا ہے اسکے پاس وقت اب سالوں یا دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں بچا ہے کچھ ہی گھنٹوں میں اسکی گھڑی میں لگایا گیا الارم بجنے والا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اگر آپ یہ جان جائیں کہ جس شخص کو آپ دیکھ رہیں یہ مر نے والا ہے تو آپ اس شخص کیلئے کیا کرسکتے ہیں ۔۔۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کچھ نہیں۔۔۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">آپ اسے تو کیا کسی کو بتا بھی نہیں سکتے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کسی کو یہ بتانا کہ اسکا وقت پورا ہوچکا ہے کل اسکی گھڑی میں لگائے گئے الارم کے بجنے کا دن ہے اور اسی کے ساتھ اسے اٹھنا ہوگا کتنا مشکل کام ہے یہ کوئ نہیں جان سکتا اور جسے یہ خبر دی جائے تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اس بات پر یقین کرلے۔۔۔۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کبھی نہیں معلوم سب کوہے لیکن جانا کوئ نہیں چاہتا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کبھی سوچا ہے کہ موت ہے کیا؟</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ یہ جسے ہم زندگی کہتے ہیں یہی موت ہو اور زندگی ہماری اس موت سے شروع ہو یعنی جسمانی مو ت سےجیسے رات سونے کے بعد صبح دوبارہ اٹھنا اور زندگی شروع کرنا بہرحال جہاں ہیں وہاں نہ ہونا موت ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">مجھے لوگوں کے چہرے پر موت کی تاریکی نظر آجاتی ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">گزرتی زندگی میں بہت سے مقامات پر میں اپنے اندر پیدا ہونے والی اس قوت کا مشاہدہ کیا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اٹھارویں منزل سے دیکھنے پر سڑک پرچلتی ہوئ گاڑیاں چونٹیاں لگتی ہیں تیزی سے رینگتی ہوئ رنگ برنگی اور سڑک پر چلنے والے لوگ کیڑے مکوڑے بے وقعت بے فائدہ اور فالتو جلدی جلدی گاڑیوں سے بچتے ہوئے سڑک پر ادھر ادھر بھاگتے ہوئے میں گھنٹوں اپنے دفتر سے دبیز شیشوں کے پیچھے سے ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں بیٹھ کر سڑک کا مشاہدہ کرتا رہتا ہوں صرف کچھ بلندی پر آجانے سے زندگی کتنی بے وقعت ہوجاتی ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ایسے ہی چلتے ٹریفک میں ایک روز جب گاڑیاں ہارن بجاتی زور سے دوڑ رہی تھیں ایک شخص آتی جاتی گاڑیوں کے درمیان راستہ بناتا دوسرے کنارے جانا چاہتا تھا گزرتی گاڑیوں سے ایک سرکس کے کھلاڑی کی طرح بچتا سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا تھا میں اپنی اسی کھڑکی میں بیٹھ کر اس منظر کواوپر سے دیکھ رہا تھا اورتب ہی میں نے اس شخص کے اوپر منڈلاتی ہوئ موت کو دیکھ لیا چانک بریکیں چرچرائیں شور ہوا مجمع اکٹھا ہواگیا وہ کھلاڑی آخر کو گرگیا ایسے ہی بچتے ہوئے ایک گاڑی اسے چھو گئ اور تب ہی موت نے جھپٹا مارا اور وہ ڈھیر ہوگیا بہت سے انسانوں نے اسے گھیر لیا اور مجھے میری اس امید سے دور کردیا کہ میں ایک زندہ کو مردہ میں تبدیل ہوتا دیکھ سکوں کچھ دیر میں ایمبولینسیں آئیں اور مردہ جسم اٹھا کر لےگئیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کئ سال پہلے انگلستان میں میرے ایک چچا صرف مجھے ملنے لندن سے مانچسٹر اپنی گاڑی پر آئے وہ جتنے دن میرے پاس مقیم رہے مجھ سے صرف موت کے بارے میں باتیں کرتے رہے مجھے بتاتے رہے کہ کب انہوں نے پہلی بار موت کا مشاہدہ کیا کب انہوں نے پہلی با ر کسی مردے کو غسل دیا اور اسی قسم کے بور کرنے والی باتیں دنیا کی بے ثباتی اور موت کے متعلق باتیں کسی نوجوان کو جو ایک آزاد معاشرے میں رہ رہا ہوں اور یہ بھی جانتا ہو کہ وہ ہمیشہ یہاں نہیں رہے گا بہت بور کردینے کوکافی ہیں لیکن میں پھر بھی انکی یہ سب باتیں سنتا رہا جانے سے پہلے وہ مجھ سے ایسے ملے جیسے آخری مرتبہ مل رہے ہوں اگلے دن میرے پاس خبر آئ کہ واپسی پر ہائ وے پر کار ایسیڈنٹ میں انکا موقع پر انتقال ہوگیا انگلستان کا موسم اکثر ابر آلود رہتا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">میری پیاری نانی کا جب آخری وقت آیا ان کے آخری وقت میں ہسپتال کی انتظار گاہ میں لوگوں کے ہجوم کے آگے دم توڑتے اے سی کی گرمی میں اور عوام کے پسینے سے نچڑتے ہوئے جسموں سے گیلی ہوتی ہوئ کرسیوں پر ایک قیدی کی طرح بیٹھے ہوئے صرف میں ہی تھا جو ہر روز اس خبر کا انتظار کیا کرتا تھا اور اسی خبر کے ساتھ میری آزادی بھی پوشیدہ تھی کہ اب یہ اس دنیا میں نہیں رہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">انہیں گھر سے ہسپتال لاتے ہوئے انکے سرخ وسفید چہرے پر میں نے موت کی سیاہی دیکھ لی تھی بے رحم اور ظالم موت۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">موت انسان کے خوابوں کے توڑنے والی چیز ہے سب ارادے ملیامیٹ کرنے والی ۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">میرے گھر کے سامنے ایک جوڑا آکر آباد ہوا نئی نئی زندگی مستقبل کے خواب، بچے اور انکا مستقبل پھر ان بچوں کے بچے لیکن ایک روز وہ مرد تکلیف کی حالت میں اپنی بیوی کو لیکر بھاگا اور اس سے پہلے اس نے مجھے ہی مدد کیلئے پکاراجب میں اس عورت کو اٹھانے اس کمرے میں گیا جہاں وہ موجود تھی تب ہی میں نے اس عورت کے چہرے پر بھی وہی تاریکی دیکھی ایک زندگی کا آغاز اور اسی لمحے ایک کا اختتام دو جڑواں بچوں کو جنم دینے کے دوران ہی وہ عورت مر چکی تھی۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اپنے ایک عزیز کی عیادت کیلئے میں ایک ہسپتال گیا تووہاں کچھ لوگ اپنے مرتے ہوئے مریض کیلئے اپنی تمام جمع پونجی لگاچکنے کے بعد بھی پیسے جوڑ رہے تھے حالانکہ فیصلہ ہوچکا تھا میں نے ان سے کہا کہ مزید روپے خرچ کرنے کے بجائے یہ پیسے کفن دفن کیلئے سنبھال رکھیں تو ان میں سے ایک شخص جو شاید مریض کا باپ تھا مجھے ایسی نظروں سے دیکھا کہ میں لرز اٹھا اپنے جسم کی تمام قوت جمع کرنے پر بھی میں ایک قدم نہ اٹھا سکا تب مجھے معلوم ہوا کہ اب آئندہ اس خبر کا بوجھ مجھے اکیلے ہی اٹھانا ہوگا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">جب میں کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تو مجھے کیوں یہ طاقت عطا ہوئ کیا میں ہمیشہ یہ جان کر خاموش رہونگا کہ میرا کوئ بہت ہی پیارا اس دنیا سے جانے والا ہے اور یہ جان جانے کے باوجود میں غم بھی نہیں منا سکونگا مجھے ایسے لوگوں سے ہنس کرملنا ہوگا جن کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ یہ کل اس دنیا سے جانے والا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">میں نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا گھر سے نکلتا بھی تو اپنی نظریں جھکا کر چلتا کوشش یہ کرتا کہ کسی کے چہرے پر نظر نہ پڑے لیکن پھر بھی بازاروں میں گھومتے ہنستے مسکراتے بے خبر چہروں پر نظر پڑ ہی جاتی۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">میں نے ٹیلیوژن دیکھنا بھی چھوڑ دیا دن بھر گھر میں رہتا سوتا یا کتابیں پڑھتا اور رات دو چار ورق سیاہ کرکے اپنی روزی کما نے کے اسباب پیدا کرلیتا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ایک دن ہونہی خیال آیا کہ ایک دن ایسا بھی تو آئے گا۔۔۔ اس سے آگے میں سوچ نہ سکا مجھے جھرجھری آگئ</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">بے شک سب اس دنیا سے جائیں گے سب ہی کو جانا ہے ۔۔۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">لیکن میں۔۔۔نہیں میں کیسے جاسکتا ہوں میرے بعد اس دنیا کا ستیاناس نہیں ہوجائے گا</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">لیکن کبھی نہ کبھی تو پھر بھی۔۔۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کبھی نہ کبھی کب؟؟</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">یہ تو کو ئ نہیں جانتا یا شاید میرے علاوہ کوئ اور بھی ہوجو یہ بتا سکے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">لیکن پھربھی کب؟</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">یہ کوئ نہیں بتا سکتا میں بھی نہیں مجھے تو بس کچھ لمحہ قبل ہی خبر ہوتی ہے ۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">لیکن کب؟</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">شاید جلد ہی۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اور جب مجھے خبر ہوگی تو میں کیا کرونگا؟</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">آج صبح شیو کرتے ہوئے آئنے میں اپنا چہرہ دیکھا تو مجھے اپنے چہرے پر بھی وہی سیاہی نظر آئ۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اب صرف انتظار کرنا ہے۔۔۔</span></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-27820383148987407272015-06-10T16:00:00.000+05:002015-06-12T11:18:13.654+05:00ماضی سے جڑے ہوئے لوگ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">پچھلے دنوں میں اپنی گاڑی کاکام کرانے مکینک کے پاس گیا میں چونکہ بہت صبح پہنچ گیا تھا تو وہاں زیادہ لوگ نہیں تھے میرے علاوہ ایک اور صاحب تھے جنہوں نے وہاں موجود ایک اور صاحب سے انکے گاڑی کے متعلق بات چیت شرورع کی ہوئ تھی وہ ان سے گاڑی کا سودا کرنا چاہتے تھے اور دوسرے صاحب بیچنے پر رضامند نہیں تھے کافی دیر گزرنے پر دوسرے صاحب نے موضوع بدلنے کے غرض سے میری گاڑی کی طرف اشارہ کرکے ان سے پوچھا کہ یہ آپ کی گاڑی ہے تو انہوں نے حقارت سے نفی میں گردن ہلادی اور اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ میری گاڑی ہے جس پر میں نے ان دوسرے صاحب کو بتایا کہ یہ میری گاڑی ہے</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">جواب میں وہ بولے کہ یہ گاڑی اپنے وقت کی بہترین گاڑی تھی اور ایک کامیاب ماڈل رہا ہے تو پہلے والے صاحب بولے:</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">''گھوڑا جاہے جتنی بھی اچھی نسل کا رہا ہو لیکن جب وہ بوڑھا ہو جاتا ہے تو کسی کام کا نہیں رہتا''</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اس بات پر میں نے انکو جواب دینا چاہا کہ بوڑھا ہونے پر بھلے ہی وہ کسی کام کا نہ رہے لیکن اس مالک کیلئے جسے اس نے بہت سی ریسیں جیت کر دی ہوتی ہیں اور پوری زندگی اسکی خدمت کی ہوتی ہے اس بوڑھے گھوڑے کی اہمیت کم نہیں </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ہوتی لیکن مصحتاً خاموش رہا اسی بات پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ہمارے محلے میں ایک بزرگ رہا کرتے تھے جو ایسی ایک گاڑی کے مالک تھے بڑھاپے کہ وجہ سے گاڑی چلانے سے معذور تھے لیکن روز صبح اپنی نگرانی میں گاڑی دھلواتے چمکواتے ریڈیئٹر کا پانی چیک کراتے اور اسکے بعد کافی دیر وہیں بیٹھے رہتے کبھی کبھی گاڑی کے بانٹ کو لاڈ سے سہلاتے ہوئے بھی دیکھے جاتے ایک دن انہون نے مجھے بلایا اور اور چابی حوالے کی کہ گاڑی سٹارٹ کرو اور خود برابر میں بیٹھ گئے اور پھر ہم نے ایک لمبا چکر لگایا اسی دوران وہ مجھے بتاتے رہے کہ گزشتہ چالیس برس سے وہ اس گاڑی کے مالک ہیں گھر میں دوسری گاڑیاں ہیں بچے کہتے ہیں کہ اسے بیچ دیں تو کہتے ہیں اپنی زندگی میں تو وہ ایسا نہیں کر سکتے ہاں جب انکا اتقال ہوجائے تو پھر اس گاڑی کا جو </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">مرضی آئے کرنا چالیس سال کے ساتھ اور انسیت کی وجہ سے وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ایک اور صاحب کو میں جانتا ہوں جو کسی اچھی پوسٹ سے ریٹائرڈ ہیں کئ نئ ماڈل کی گاڑیاں انکے گھر میں کھڑی ہیں لیکن وہ اپنی کھٹارا گاڑی ہر ہفتے کو نکالتے ہیں مکینک کے پاس جاتے ہیں اور اسکے بعد مسلسل دو دن اسی گاڑی کو چلاتے رہتے ہیں اس سے اسکا انجر پنجر کو پہلے ہی ڈھیلا ہے وہ مزید ڈھیلا ہوجاتا ہے اور دوبارہ مرمت کی ضرورت پڑ جاتی ہے لیکن نہ تو وہ اس گاڑی کو بیچتے ہیں نہ ہی چلانا چھوڑتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ گاڑی انکے پاس تب سے ہے جب انکے پاس کوئ اور گاڑی نہیں تھی بچوں کی پیدائش کے بعد وہ اسے گاڑی پر انکو گھر لائے تھے پھر اسی گاڑی میں وہ اپنے بچوں کو پہلی مرتبہ اسکول چھوڑنے گئے انکے والدین نے اس گاڑی میں انے ساتھ سفر کیا ہے وہ نہ تو اسکو بیچنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں نہ ہی اسکو چلانا چھوڑ سکتے ہیں انکا کہنا ہے یہ انکے گھر کے ایک فرد کی طرح ہے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">میرے ایک ماموں ہیں انہوں نے بچوں کے دباؤ میں آکر اپنی پرانی گاڑی فروخت کردی جسمیں ہماری مرحومہ نانی جان سفر کیا کرتی تھی بیچنے کو بیچ دی لیکن اسکے بعد واقعتاً انکا کھانا پینا چھوٹ گیا نتیجتاًانکی بیگم نے کچھ پیسے اوپر دیکر وہ گاڑی واپس خرید لی۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">بعض پرانی چیزوں کی ہمیں عادت ہوجاتی ہے یا ان کے ساتھ کچھ ایسی یادیں وابستہ ہوجاتی ہیں کہ خود سے الگ کرنےکے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا لیکن یہ بات انکو کون سمجھائے جو اس بات کے قائل ہیں کہ گھوڑا اگر بوڑھا ہوجائے تو اسے گولی مار دینا چاہئے۔</span></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com12tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-74275710554224417252015-06-04T15:01:00.000+05:002016-07-22T12:51:32.130+05:00سیف الملوک ایک سرد رات کا احوال<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
رتی گلی کی برف ابھی پگھلی نہیں تھی اور وہاں کے سحر سے ابھی ہم پوری طرح باہر بھی نہیں آئے تھے کہ ہمارے پیر ایک مرتبہ پھر آبلوں کیلئے ترسنے لگے گھر کے آرام سے تنگ آچکے بدن ایک مرتبہ پھر سفر کی بے آرامی اور مشقت کیلئے بےچین ہونے لگے دماغ پر دھن سوار ہوگئ اور نئے سال کی ابتدا کے ساتھ ہی سالانہ چھٹیوں کا اکاؤنٹ جب دوبارہ بھر گیا تو میں نے رانا صاحب پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ جلد از جلد کوئ سفر اختیار کرلیا جائے اور وہ مجھے تسلی دیتے رہے کہ جب سفر کا وقت آئے گا سفر کے اسباب خود بخود بننا شروع ہوجائیں گے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
لیکن شاید بے چینی تب ہی ہوتی ہے جب وقت آچکا ہوتا ہے رانا صاحب اپنی نجی مصروفیات کی وجہ سے وقت نہیں نکال پارہے تھے اور انہوں نے مجھے بارہا سفر کی تاریخ آگے بڑھانے کوبولا لیکن جیسے میں نے کہا کہ وقت آچکا تھا تو میں ٹکٹ کٹا کر لاہور جانے کیلئے تیار ہوگیا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
روانگی سے قبل ہم نے سفر کے ضروری سامان کے حصول کراچی کے مختلف بازاروں کے چکر کاٹنا شروع کردئے جس میں گرم جیکٹ، موزے ،دستانے اور جوتے وغیرہ شامل تھے یہ سب سامان جمع کرنے کے بعد ہم جانب لاہور عازم سفر ہوگئے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
کراچی سے مصطفیٰ صابر جو رتی گلی کے سفر میں بھی میرے ساتھ تھا اور لاہور سے رانا عثمان کے علاوہ راولپنڈی سے فرخ شہزاد میرے ہمسفر تھے ہمسفر اچھے ہوں تو سفر اچھا کٹ جاتا ہے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کراچی سے ہم لاہور پہنچے وہاں رانا صاحب ہمارے منتظر تھے اور وہاں پہنچتے ہی ہم مانسہرہ کیلئے روانہ ہوگئے فرخ کو اسی بس میں ہمارے ساتھ شامل ہونا تھا ڈائیو سروس کی یہ بس زیادہ تر خالی ہی تھی جس کا فائدہ اٹھا کر میں اور رانا صاحب پچھلی سیٹوں پر دراز ہوگئے گوکہ جگہ تنگ تھی لیکن کہتے ہیں دل میں جگہ ہونی چاہئے ہم دونوں دل سے دل ملا کر اسی طرح سوتے رہے یہاں تک کہ اسلام آباد چنگی نمبر چھبیس سے فرخ شہزاد بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
صبح فجر کے کچھ پہلے ہم مانسہرہ پہنچ گئے ہمارے بس سٹینڈ پر اترتے ہی چاروں طرف سے کمبلوں کی بکل ماری ہوئ ایک فوج نے ہمیں گھیر لیا کوئ ہمارے بیگ کھینچ رہا تھا اور کوئ ہمیں دکھیل کر اپنی گاڑی میں بٹھانے کی کوشش میں مصروف جیسے ہمیں اغوا کرنا چاہتا ہو صبح کے نیم اندھیرے میں ایسی صورت حال خاصی پریشان کن تھی ہمیں سب سے محفوظ مقام خدائے ذولجلال کا گھر ہی معلوم ہوا اور ہم سب اپنا سامان اٹھائے وہیں بس سٹینڈ پر بنی مسجد میں داخل ہوگئے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
باہر آنے پر پھر وہی جمگھٹا وہی لڑائ وہی اغوا کی کوششیں کچھ تو اس قدر جزباتی ہوئے کہ آپس میں گالم گلوچ پر اتر آئے قبل اسکے کہ وہ ہاتھا پائ پر اتر آتے رانا صاحب نے ایک شریف اور اس تمام لڑائ سے دور کھڑے ایک مسکراتے ہوئے ایک گاڑی والے سے سودا طے کرلیا کہ وہ ہمیں بالاکوٹ تک چھوڑ آئے وہاں سے آگے کے تمام انتظامات عدیل حسین کی ذمہ داری تھے جن سے ہماری بات پہلے سے طے ہوچکی تھی۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
مانسرہ سے بالا کوٹ کا راستہ مکمل گولائیوں والی سڑک پر مشتمل ہے اور کچھ کچھ اسی راستے سے مشابہ ہے جو راولپنڈی سے مری جاتا ہے ایک طرف پہاڑپر زمین سے سروں اوپر دیار کے درخت ہیں اور نیچے گہرائ میں سبزہ اور ان میں بنے ہوئے حسین گاؤں فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ فاصلہ طے کرنے پر دریائے کنہار ساتھ چلنے لگتا ہے کبھی قریب اور کبھی دوری پر ایسی ہی گولائیوں پر چکراتے چکراتے ہم بالاکوٹ سے نزدیک ہوتے جارہے تھے کہ اچانک ہمیں گاڑی روکنا پڑی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے رانا صاحب کی طبیعت بگڑ گئ تھی۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یہ طبیعت بگڑنا ہمارے لئے کافی مفید ثابت ہوا اور اسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرخ اور میں دونوں ہی کیمرے اٹھا کر ادھر ادھر بٹھک گئے سڑک کے پرے تھوڑا نیچےایک جنگل نما علاقہ تھا اور اس سے بھی نیچے ایک گاؤں بلندی سے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<div>
صرف اکا دکا گھر نظر آرہے تھے حالانکہ وہاں اور بھی ہونگے۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
<br /></div>
<div>
رانا صاحب کی طبیعت سنبھلی تو سفر دوبارہ شروع ہوا اور ابکی مرتبہ جو ہم چلے تو بالاکوٹ میں ہی رکے جہاں سے ہمیں عدیل کی قیادت میں سرنگوں کرنا تھا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
بالاکوٹ ایک دلبر شہر ہے اور اس شہر نے ہمارا استقبال بہت اچھےطریقے سے کیا سورج جو ابھی بادلوں میں تھا پوری طرح روشن ہوکر چمکنے لگا اور ہلکی سی کہر میں پہاڑوں کا جو منظر تھا وہ قدرے واضح ہوگیا اور ان پہاڑوں پر جمی برف کی ہلکی سی تہ سورج کی ان شعاؤں کے پڑنے سے دمکنے لگیں گوکہ جہاں سے مجھے یہ منظر دکھائ دے رہا تھا وہاں بجلی کی تاروں ،جا بجا لگے اشتہاری بینروں اور دوکانوں پر لگے بورڈز کی وجہ سے منظر کافی بدنما ہوچکا تھا لیکن پھر بھی یہ ایک قابل دید منظر بلاشبہ تھا کچھ وقت اور گزرا اور سورج کی روشنی نے جان پکڑی تو دھوپ کی چمک اس قدر بڑھ گئ کہ آنکھیں چندھیانے لگیں سردی کی اپنی جگہ قائم تھی اور دھوپ بھی سردی میں کوئ کمی نہیں لا سکی تھی سانس کے ساتھ منہ ناک سے بھاپ نکلے کے عمل میں کسی قدر کمی البتہ ضرور آچکی تھی۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
وہیں بازار میں جہاں عدیل کو ہمیں وصول کرنا تھا ہم اپنا سامان رکھ کر ایک ہوٹل میں ناشتہ کی غرض سے داخل ہوگئے اور رانا صاحب اپنا فون کان پر لگائے باہر کھڑے ہوگئے اور کچھ دیر بعد جب وہ اندر واپس آئے تو چہرے پر پریشانی کے آثار نمایا تھے۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"کیا ہوا رانا صاحب" میں نے پوچھا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"ہاں کیا ہوا عثمان؟" فرخ نے بھی میرے ساتھ ہی سوال کیا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"کچھ نہیں یار ناشتہ آرڈر کیا؟" رانا صاحب نے موبائل کی سکرین جیکٹ سے رگڑ کر صاف کی </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"بات ہوئ عدیل سے؟" فرخ نے رانا صاحب سے پوچھا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"نہیں موبائل بند آرہا ہے لیکن میں نے لاہور سے نکلتے ہوئے بتا دیا تھا وہ پہنچ جائے گا راستے میں ہوگا سگنل نہیں مل رہا ہوگا" رانا صاحب نے جواب دیا اور اسی دوران ناشتے کا آرڈر بھی دیا جا چکا تھا۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
ناشتہ آیا اور ابھی ہم ناشتہ کر ہی رہے تھے کہ رانا صاحب کے فون کی گھنٹی بجی اور وہ اٹھ کر باہر چلے گئے اور پھر غائب ہوگئے ہم ناشتے سے فارغ ہوچکے اور دو دو پیالی چائے چڑھا چکنے کے بعد بھی جب رانا صاحب واپس نہ آئے تو ہمیں تشویش ہوئ اور سب سے پہلے فرخ باہر گیا اور اسکے پیچھے مصطفیٰ اور آخر میں میں اٹھا پھر خیال آیا کہ یوں سب سامان چھوڑ کر چلے جانا مناسب رہے گا یا نہیں لیکن بعد میں جانے والے بھی جب واپس نہ پلٹے تو میں نے بھی ارادہ کیا کہ باہر جانا ہی چاہئے پتہ نہیں کیا ہوگیا کہ جو باہر جاتا ہے واپس نہیں آتا سامان کے بارے میں ہوٹل والے سے کہ کر میں باہر نکلا تو تینوں میں سے کوئ بھی موجود نہیں تھا ادھر ادھر نظریں دوڑانے پر رانا صاحب تو نہیں لیکن فرخ اور مصطفیٰ نظر آگئے وہ ایک جیپ والے کے ساتھ کھڑے بات چیت میں مصروف تھے جب میں قریب ہوا تو انکے درمیان جو گفتگو ہورہی تھی وہ کچھ اس قسم کی تھی میں نے جہاں سے اس مکالمے کو پکڑا وہاں سے ہی لکھ رہا ہوں </div>
<div>
<br /></div>
<div>
جیپ والا:"تو اسکو چھوڑو ناں وہ آجائے گا پیچھے" </div>
<div>
<br /></div>
<div>
فرخ:" یار ایسا تھوڑی ہوسکتا ہے" </div>
<div>
<br /></div>
<div>
جیپ والا:" آپ کا بکنگ کس کے ساتھ ہے" </div>
<div>
<br /></div>
<div>
مصطفیٰ:"بھائ نام ہمیں نہیں معلوم لیکن بکنگ ہے ہماری کوئ ہمیں لینے آنے والا ہے" </div>
<div>
<br /></div>
<div>
جیپ والا:"بھائ ادھر سب گاڑی انجیر کا چلتا ہے ہم بھی انجیر کیلئے کام کرتا ہے" </div>
<div>
<br /></div>
<div>
ایک لڑکا جو جیپ کی صفائ میں مصروف تھا اس جیپ والے سے کوئ سگنل ملتے ہی غائب ہوگیا اور چند منٹوں میں دو کندھوں پر ہمارے دوبیگ لاد کر باہر آیا اور جیپ پر لوڈ کرنے لگا۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
فرخ:" بھائ کیا کررہے ہو رکو ابھی بڑابھائ آجائے سامان کیوں اٹھا لائے ہو" </div>
<div>
<br /></div>
<div>
اسی موقع پر رانا صاحب کہیں سے نمودار ہوئے اور آتے ہیں اونچی آواز میں سلام کیا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"السلام وعلیکم " مصافحہ کے بعد سوال کیا "عدیل نہیں آیا؟" </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"یار یہ عدیل کے ساتھ نہیں ہے پتہ نہیں کون ہے زبردستی سامان رکھ رہا ہے گاڑی میں آپ بھی غائب ہوگئے اچانک" مصطفیٰ نے جلدی جلدی معلومات مہیا کیں۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
رانا صاحب جو پہلے ہی کچھ پریشان لگ رہے تھے اچانک غصہ کر بیٹھے "یار تم لوگ بچے ہو کیا کوئ بھی سامان اٹھا کر رکھ رہا ہے اور تم لوگ دیکھ رہے ہے کھڑے کھڑے بچوں کی طرح" اسکے بعد جیپ والے سے بولے "یار تم سامان نکالو میری بات ہوگئ ہے بندہ آرہا ہے" </div>
<div>
<br /></div>
<div>
جیپ والا ہمارا سامان باہر رکھ کر وہیں جیپ کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور منہ میں کوئ بہت ہی بدبودار سگریٹ سلگا کر دبا لیا اور اس سے پہلے اس نے ہم سے یہ کہا کہ وہ یہیں بیٹھا ہوا ہے اگر ہمارا بندہ نہیں آتا تو ہم اسکے ساتھ ناران جائیں کسی اور کے ساتھ نہیں اور ہم اس سے وعدہ کرکے کہ اگر واقعی ایسا ہوا تو بالکل اسی کے ساتھ جائیں گے واپس ہوٹل کے اندر آکر بیٹھ گئے رانا صاحب نے چونکہ ناشتہ نہیں کیا تھا چناچہ انکو ناشتہ کرایا گیا اوروہ بے دلی سے ناشتہ کرتے رہے۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
کچھ دیر بعد میں فوٹوگرافی کے غرض سے باہر نکلا ہوٹل کے سامنے ہی ایک کالے رنگ کا بالوں سے بھرا لیکن کیچڑ اور مٹی میں اٹا لیکن معصوم کتورا بھاگتا پھر رہا تھا جب وہ رکتا میں اپنے کیمرے کا زوم اور فوکس سیٹ کرکے اسکی تصویر لینے کیا کوشش کرتا وہ بھاگ جاتا کافی بھاگ دوڑ کے بعد جب اسے کچھ چین آیا تو ایک تو تصویریں ہی بنا سکا اور وہ بھی اسکی مسلسل حرکت کی وجہ سے آؤٹ آف فوکس خیر اسی دوران میں عدیل اپنی ٹیم کے ساتھ ہمیں وصول کرنے پہنچ چکا تھا ابتدائ تعارف کے ہم سب اپنی آگے سفر کیلئے ضروری سامان خریدنے کی غرض سے بازار کی </div>
<div>
طرف چل دئے۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
دو ٹیمیں بنائ گئیں ایک میری اور مصطفیٰ کی اور دوسری فرخ اور رانا صاحب سامان آدھا آدھا بانٹ دیا گیا کافی دماغ کھپانے کے بعد جب یہ خریداری مکمل ہوئ اور ہم دونوں بازار میں ٹیم کے باقی افراد کو ڈھونڈتے ہوئے جب اسی ہوٹل تک واپس پہنچے تو دیکھا کہ نہ تو وہاں ہمارا سامان موجود ہے نہ ہی کوئ اور ٹیم ممبر ہم یہ سوچ کر کہ شاید سامان جیپ میں لوڈ کیا جاچکا ہے ہوٹل سے وہاں تک پہنچے جہاں جیپ کھڑی تھی تو وہاں بھی نہ تو جیپ تھی نہ ہی ہوئ ٹیم ممبر وہی جیپ والا ابھی تک اپنی جیپ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ہم نے آواز لگا کر اس سے دریافت کیا کہ ہماری والی جیپ کدھر چلی گئ تو وہ اطمنان سے بولا کہ " وہ تو سب لوگ گیا" </div>
<div>
<br /></div>
<div>
اب اگر یہ مذاق تھا تو کافی بھونڈا لیکن نہ تو جیپ تھی نہ ہی سامان نہ کوئ اور فرد تو ہمیں اس بات کو سنجیدگی سے لینا پڑا ہم اپنے خرید شدہ سامان کے ساتھ واپس ان تمام دوکانوں میں جھانکتے ہوئے جہاں ہمارے باقی ساتھ خریداری کرتے ہوئے دیکھے گئے تھے پورے بازار کا ایک چکر لگا آئے ہمیں یہ اطمنان تو تھا کہ ہمیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے لیکن سوال یہ کہ گئے تو کہاں گئے اور ایسے گئے کہ واپسی کا کوئ نشان ہی نہیں پورے بازار اور منسلک مقامات پر ڈھونڈائ کرنے کے بعد ہم دونوں واپس آکر اسی ہوٹل کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ کافی دیر ہم دونوں ایسے ہی بے مقصد سیڑھیوں پر بیٹھے رہے اور انتظار میں رہے کہ ابھی جیپ آتی ہوگی لیکن جیپ کو آنا تھا نہ آئ چنانچہ بلا سوچے سمجھے ہم دونوں اٹھے اور دوبارہ بازار کی طرف چل دئے خیال یہ تھا کہ دوبارہ بازار میں ان سب کو تلاش کریں گے شاید ہم نے دیکھنے میں کوئ غلطی ہوئ ہو بازار پہنچنے پر دور سے فرخ شہزاد اپنا کیمرہ سنبھالے مناظر کو اپنے لینس میں محفوظ کرتے نظر آگئے میں نے دور سے ہی آواز لگا ئ"فرخ کہاں چلے گئے تھے بھائ""میں تو ادھر ہی ہوں" فرخ کی ایک خاص عادت ہے وہ ہر بات مسکرا کر ہی کرتے ہیں لیکن سنجیدگی حد سے زیادہ طاری رکھتے ہیں اور بہت سوچ کر الفاظ کا کم سے کم استعمال کرتے ہیں اور جہاں اپنے دخیرہ الفاظ میں کسی قسم کی کمی کا اندیشہ ہو وہاں صرف مسکرا کر ہی گزارا کرلیتے ہیں۔"یہاں کیا کر رہے ہو بھائ باقی لوگ کہاں گئے" میں نے دوبارہ ہمت کرکے سوال کیا"وہ ادھر گئے ہیں" فرخ نے ایک جانب اشارہ کرکے اپنا جواب مکمل کردیا</div>
<div>
<br /></div>
<div>
"کیا کرنے چلے گئے اور سب کا سامان کہاں ہے؟" مزید ہمت کرنی پڑی معلومات نکلوانا آسان ثابت نہیں ہورہا تھا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"شاید پٹرول ڈلوانے" شاید کافی پریشان کن تھا یعنی فرخ کو کوئ تشویش نہیں تھی کہ باقی ساتھی کہاں چلے گئے وہ اکیلے ہی گھوم کر تصویریں بنا رہے تھے۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
ہم دونوں نے بھی تمام پریشانی کو پرے رکھا اور دوکانوں میں تانک جھانک شروع کردی اور کچھ ضروری اور زیادہ تر غیر ضروری سامان کی خریداری بھی کرڈالی اسی دوران میں رانا صاحب اور باقی کی ٹیم بھی آگئ وہ واقعی ڈیزل بھروانے چلے گئے تھے وہاں رش ہونےکی وجہ سے انکو وقت زیادہ لگ گیا ہمارا سامان پہلے ہی جیپ میں لوڈ کیا جا چکا تھا ۔ </div>
<div>
اب یہاں مناسب رہے گا کہ ان تمام لوگوں کا تعارف کرادیاجائے جو عدیل کے ساتھ ہمیں بالاکوٹ میں ملے۔ </div>
<div>
کفیل جو سب سے کم عمر تھا اور سب سے زیادہ ہنس مکھ بھی بلکہ اسکے چہرے پر تمام وقت مسکراہٹ سجی رہی </div>
<div>
یاسر جو ایک جرمن اوور کوٹ پہن کر ہم سب پر بڑی کڑی نظر رکھتا رہا اور ساتھ ہی ہر جگہ کہ مکمل معلومات بھی رکھتا تھا </div>
<div>
مسکین خاموش طبع جو بھی کام سپرد کیا جاتا خاموشی سے مکمل کرکے کنارے ہوجاتا پورے وقت میں شاید دو یا چار جملے یہ منہ سے ادا کئے ہونگے </div>
<div>
اور عدیل جو کہ اس تمام ٹیم کا لیڈر اور اب سے ہمارا لیڈر پورے علاقے کی مکمل معلومات رکھنے کے ساتھ ساتھ ادب سے بھی کافی گہرا لگاؤ کافی کتابیں پڑھ رکھی اور تارڑ صاحب کی کافی کتابوں کے حوالے سے ہمارے درمیان بات چیت بھی ہوئ۔ </div>
<div>
ان کے علادہ چاچا جی جو جیپ ڈرائیو کر رہے تھے انکا نام نہ تو میں نے پوچھا نا ہی ضرورت محسوس ہوئ ۔ </div>
<div>
رانا صاحب واپس آگئے تو مزید کچھ خریداری کی گئ جسمیں زیادہ تر پکانے والے اشیاء تھیں پچھلی مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی کھانا پکانے کا شعبہ میرے ذمہ تھا لیکن اس بار ذیشان ساتھ نہیں تھا تو کسی نے مجھے زبیدہ آپا کے لقب سے نہیں نوازا ۔ </div>
<div>
خریداری مکمل ہوجانے پر ہم سب جیپ میں سوار ہوئے فرخ اور مصطفیٰ باقی چاروں کے ساتھ پچھلے حصہ میں جبکہ میں اور رانا صاحب ڈرائیور چاچا کے ساتھ آگے بیٹھے سفر شروع ہوا اور تب تک سورچ کافی اوپر چڑھ چکا تھا آسمان صاف تھا</div>
<div>
اور ایک چمکیلا دن نکلا ہوا تھا۔ </div>
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg1mjuOcZGzRbXYZE1F7NVl_bExyCcDOYy86zM5V1R3hGLO7PCTshoWk8LMfNkTZH1SduwtTTwYSsLW0BjFLGWOD0N5UHVZhf26aD2KLJwpv96nZv4pYbqkht68yrJuLUcDrNI0EZyIf3lM/s1600/IMG_9365.JPG" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg1mjuOcZGzRbXYZE1F7NVl_bExyCcDOYy86zM5V1R3hGLO7PCTshoWk8LMfNkTZH1SduwtTTwYSsLW0BjFLGWOD0N5UHVZhf26aD2KLJwpv96nZv4pYbqkht68yrJuLUcDrNI0EZyIf3lM/s400/IMG_9365.JPG" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">راستے میں پڑنے والا ایک گاوں </span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: right; margin-left: 1em; text-align: right;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiE59gi0jp_pKp_NlwgCR7b2MeGA8rQo84A7cU0JnSU23RTKuQEer84z3M4-23-jU9xEhetEjm1UE8MlUp4UlAtHiwA-A1pj6ISJ3CT2fEH5eqNovZKk7aj8rfJ9ldohkjkfHw0rbWdTNTg/s1600/IMG_9387.JPG" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiE59gi0jp_pKp_NlwgCR7b2MeGA8rQo84A7cU0JnSU23RTKuQEer84z3M4-23-jU9xEhetEjm1UE8MlUp4UlAtHiwA-A1pj6ISJ3CT2fEH5eqNovZKk7aj8rfJ9ldohkjkfHw0rbWdTNTg/s400/IMG_9387.JPG" width="400" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">بالاکوٹ<br /></span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="float: left; margin-right: 1em; text-align: left;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjpKZQMiCSPilCcsA7GkJ0L8Alj5Iv5KBq7k7s5WGV4FQFqKLiG2tokJpRt5dKrhjEdAkVwYAaubstWouEpARJ7uGrl5neVi063w_HzQC1-seO51xD645jDRDIsCEV1uVKhkmilUJ_vq0U5/s1600/IMG_9379.JPG" style="clear: left; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="320" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjpKZQMiCSPilCcsA7GkJ0L8Alj5Iv5KBq7k7s5WGV4FQFqKLiG2tokJpRt5dKrhjEdAkVwYAaubstWouEpARJ7uGrl5neVi063w_HzQC1-seO51xD645jDRDIsCEV1uVKhkmilUJ_vq0U5/s320/IMG_9379.JPG" width="212" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">دوران انتظار مصطفیٰ صابر<br /></span><div style="font-size: medium; text-align: right;">
</div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
بالا کوٹ سے نکل کر ہم پہلی مرتبہ کاغان پہنچ کر رکے چائے پی گئ چند ایک تصاویر بنائ گئیں اور پھر سفر دوبارہ شروع ہوا اس سے آگے کا سفر بلند و بالا پہاڑ دریائے کنہار کا ساتھ اور پھیلا ہوا وادی کا منظر راستے میں مکڑا پیک کے علادہ بہت سے دوسری چوٹیاں بھی نظر آتی ہیں جو تمام کی تمام برف پوش تھیں یونہی چلتے رہے کہ ہمارے سامنے کا منظر بدل گیا سڑک جو ابھی تک سیاہ تھی اچانک سفید ہوگئ اب ہم وادئ ناران کی حدود میں داخل ہورہے تھے۔ </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
"سر اس سال تو برف باری ابھی کم ہوئ ہے ورنہ ابھی تک تو گزرنے کا راستہ بھی بند ہوچکا ہوتا ہے ادھر پرسوں پہلی برف باری ہوئ ہے نیچے اور کاغان میں تو ابھی برف گری ہی نہیں " عدیل نے پچھلی سیٹ سے ہمیں معلومات مہیا کیں </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
ایسا ہی کچھ شکوہ صبح ان صاحب نے بھی کیا تھا جن کےساتھ ہم نے مانہسرہ سے بالا کوٹ کا سفر کیا تھا پچھلے کچھ سالوں میں اگر دیکھا جائے تو ملک میں بارش اور برف باری کا سلسلہ کافی کم ہوتا جا رہا ہے قسمت سے اگر کسی سال یہ مقدار ضرورت کے مطابق ہوئ بھی ہے تو ملک کے نشیبی علاقوں میں سیلاب کی صورت میں اسکا اثر دیکھنے میں آیا ہے میں غلط بھی ہوسکتا ہوں لیکن اسکی وجہ بارش یا برف باری کے بجائے خود ہماری نا اہلی ہے ہم نے نہ تو پانی ذخیرہ کرنے کا کوئ بہتر انتظام کیا نہ ہی کوئ دوسرا حل نکالا نتیجہ یہ کہ ہم آج بھی 1960 میں ہی کھڑے ہیں جبکہ دیگر ممالک اس دوڑ میں ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
گھومتی ہوئ اس سڑک پر جو کہ ناران جارہی تھی ہماری جیپ آہستہ خرامی سے (آہستہ خرامی درست لفظ ہے ؟ میں نے یہ لفظ اسی طرح پڑھا ہوا ہے لیکن مجھے شک ہے کہ یہ غلط بھی ہو سکتا ہے اگر یہ غلط ہے تو میری اصلاح کریں اور صحیح لفظ سے میری معلومات میں اضافہ کریں شکریہ) چلتی جارہی تھی کچھ سفر کرنے کے بعد دریائے کنہار ہمارے بائیں ہاتھ پر آگیا آہستہ آہستہ نیلی بلکہ سبز رنگت میں بہتا ہوا اور سردی کی وجہ سے اسکا پاٹ اتنا ہوچکا تھا کہ پیدل بھی اسکو پار کیا جا سکتا تھا دوسرے کنارے پر بہت سے درخت خزاں کی بہار دکھارہے تھے یعنی پتوں اور پھولوں سے بے نیاز ایک مقام پر ایسے ہی درختوں کا پورا جھنڈ نظر آیا جن کے پتے سوکھ کر گرنے کے قریب تھے اور اس عمر کو پہنچے پر سرخی مائل بھورے رنگ کے ہوچکے تھے یہ ایسا نظارہ تھا کہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ اگر میں کسی اور موسم میں یہاں آیا ہوتا تو میرا دھیان کبھی ان درختوں کی طرف یوں نہ جاتا جیسا کہ بھی میں ان کو دیکھ رہا ہوں یعنی کہ سبز رنگ میں درخت دوسرے بہت سے درختوں کے درمیان اپنی الگ پہچان کرانے میں ناکام رہتے لیکن اس وقت اپنی منفرد رنگت کی وجہ سے بہت ہی نمایاں نظر آرہے تھے۔ </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
خیر ہم یونہی آگے بڑھتے رہے سڑک آگے چل کر سیدھی ہوئ اور سامنے رنگ برنگی چھتوں والے ہوٹل نظر آنا شروع ہوگئے یعنی کہ ناران شہر آچکا تھا دور سے سفید پیش منظر میں پہاڑوں کے دامن میں یہ رنگ برنگی چھتیں اور انکے پس منظر میں ایک برف پوش چوٹی اور ایک باریک لکیر کی صورت میں بہتا سبز رنگ دریائے کنہار اس نظارے میں بس چند چیزیں ایسی تھیں جو اس با ت یا یقین دلا رہے تھے کہ یہ اسی دنیا کا نظار ہے ایک تو پکی سڑک اگر سڑک سے صرف نظر کرلیں تو وہاں ایک موبائل فون کمپنی کا ٹاور بھی تھا ایک نہیں کئ ایک تھے لیکن پہلی نظر میں ایک ہی نظر آیا۔ </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
دریا پر بنے ایک کنکریٹ کا پل پار کرکے ہم ناران شہر میں داخل ہوگئے شروع میں لکڑی کے بنے کچھ کیبن ہیں اور اس سے آگے سڑک کے دونوں جانب ہوٹل ،ریسٹ ہاؤسز اور دوکانیں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بنے ہوئے ہیں اور اس دن وہ تما م کے تمام بند تھے کچھ کے دروازوں پر تالے لگے ہوئے تھے بعض نے دروازے اور کھڑکیوں پر لکڑی کے تختے ٹھونک کر انکو بند کیا ہوا تھا اس وقت شہر میں داخل ہونے والے صرف ہم تھے اور ہم ایسے داخل ہوئے جیسے کوئ فاتح داخل ہوتا ہے بغیر کسی مزاحمت کے ہماری سواری ایک سرے سے دوسرے سرے تک بغیر روک ٹوک کے گزرتی گئ کسی نے راستے میں آکر یہ نہیں کہا کہ ہمارے یہاں سستے کمرے کرائے پر خالی ہیں ناں ہی کسی نے اس بات پر اصرار کیا کہ اصل پشاوری کچن کڑھائ یا ناران کے مشہور چپلی کباب کھائے بغیر آگے سفر کرنا کفران نعمت کے مترادف ہےہم چلتے رہے یہاں تک کہ ناران کا پل آگیا جہاں سے ایک راستہ پی ٹی ڈی سی ناران کی طرف جا رہا ہے اس وقت دوپہر کےکوئ ڈیڑھ بج رہے تھے ہم چونکہ ارادہ کرکے آئے تھے کہ آج کی رات ناران میں قیام کریں گے اور کل صبح جھیل کا ٹریک کریں گے تو سب سے پہلا کام ایک کمرے کی تلاش کرنا تھا جو کہ عام حالت میں اتنا مشکل نہیں ہوتا لیکن اس روز کافی مشکل کام ثابت ہوا کیوں کہ سب سے پہلے تو ایک ایسے ہوٹل کی تلاش جو کھلا ہوا ہو اور ایسا کوئ ہوٹل نہیں تھا پھر کسی ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار کی تلاش جس کے پاس چابی بھی ہو یہ اتنا آسان نہیں ہم ایک ایسا کمرہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن وہ اتنا مختصر تھا کہ آٹھ افراد کو اپنے اندر سما تو سکتا تھا سلا نہیں سکتا تھا سونے کی اگر کوئ ترتیب بنا بھی لی جاتی پھر بھی کم از کم دوافراد کو باتھ روم میں سونا پڑتا اس دوڑ دھوپ میں کچھ وقت ضائع ہوا اور تب ہی ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ پہلے کھانا کھا لیا جائے سو ہم واپس آکر وہیں جہاں جیپ سے اترے تھے بیٹھ گئے ایک کھانے کا ہوٹل کھلا ہوا تھا اور ہمارا سامان جیپ سے اتار کر یہیں رکھا ہوا تھا کھانا تیار ہوا اور ابھی ہم نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ جیپ والے چاچا ہمارے پاس آئے اور رانا صاحب کو مخاطب کرکے بولے </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
"عثمان بھائ آپ نے اوپر جانا ہے تو کل کا انتظار نہیں کرو ابھی جاؤ آج موسم کیسا شاندار ہے کل کا کیا بھروسہ بارش </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
آجائے کہ طوفان ہو" </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
اور بات واقعی قابل غور تھی کہ واقعی اس دن موسم بہت شاندار تھا تیز چمکیلی دھوپ نکلی ہوئ تھی اور آسمان بالکل صاف کہیں ایک بادل کا ٹکرا بھی نہیں تھا کسی بھی برفانی ٹریک کیلئے ایک نہایت موزوں دن انگریزی میں کہتے ہیں کہ "آئیڈیل ٹائم" وہ واقعی آئیڈیل ٹائم تھا </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
یعنی بقول شاعر </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
سر من فدائ راہی کہ سوار خواہی آمد </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
یعنی کہ جب مجھے یہ خبر ملی کہ محبوب نے ارادہ کیا ہے میری جانب آنے کا تو میں نے اپنا سر اس راہ پر قربان کردیا جس پر چل کر وہ آنے والا ہے </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
تمام بادل چھٹ گئے ،سورج نکل آیا ،راستے صاف ہوگئے ،حالات سازگار ہوگئے ،گری ہوئ طبیعت بحال ہوگئ، ہمت جوان ہوگئ جب سیف الملوک کی طرف ہم نے رخت سفر باندھا ۔ </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
چاچا مزید بولے کہ جیپ کیلئے زنجیر کا پوچھا ہے اگر مل جائے تو اوپر جھیل تک جیپ ہی چلی جائے گی یعنی کہ ٹریک کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی جس پر ہمیں اعتراض تھا کہ ہم تو ٹریک کرنے ہی آئے تھے پھر طے یہ پایا کہ جیپ میں سامان لاد کر اوپر بھیج دیا جائے اور ہم سب ٹریکنگ کرکے اوپر پہنچیں اور جو جیپ میں جانا چاہےوہ جیپ میں بھی جاسکتا ہے۔ </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
ویسے بھی کہتے ہیں کہ کل کس نے دیکھا ہے تو جب یہ فیصلہ ہوگیا کہ اوپر کا سفر آج ہی کیا جائے گا تو ہم سب کے اندر بجلیاں سے بھر گئیں جلدی جلدی تمام تیاریاں مکمل کی گئیں جو گرم کپڑے ، موزے جوتے ، دستانے، ٹوپیاں اور وہ سب جو کچھ ضروری تھا وہ نکال کر پہن اوڑھ لیا گیا کھانے کا ارداہ ترک کیا گیا اور اسکی جگہ بس ہلکا پھلکا آسرا کرلیا گیا باقی سامان جو ساتھ لیکر چلے تھے وہ اس ترتیب سے رکھ لیا گیا کہ بوقت ضرورت نکالنے میں آسانی رہے۔ </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
سب تیاریاں مکمل ہوگئیں عدیل نے سلیپنگ بیگ اور کمبلوں کا انتظام کسی ریسٹ ہاؤس سے کرلیا یہ سب سامان جیپ میں رکھ کر ہم بھی بیٹھ گئے فیصلہ یہ ہوا تھا کہ ہم آدھے راستے تک جیپ میں جائیں گے اور اسکے بعد جیپ سامان لیکر اوپر پہنچ جائے گی اور ہم باقی کا راستہ پیدل طے کریں گے فرخ اور مصطفیٰ پورا راستہ پیدل طے کرنا چاہتے تھے انکو روکا تو نہیں گیا لیکن وہ خود ہی ہمارے ساتھ جیپ میں سوار ہوچکے تھے جب سب بیٹھ گئے تو چاچا نے چابی گھما کر جیپ سٹارٹ کی انجن نے زور لگایا ہم راستے سے ہٹ کر تھوڑا نیچے اترے اور پھر ایک راستے پر ہوگئے محبوب کی طرف سفر شروع ہوچکا تھا دید کی طلب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔جب ہم سب جیپ میں تما سامان کے ساتھ ٹھس ٹھسا کر بیٹھ گئے تو ڈرائیور چاچا نےتمام تیاریاں چیک کرنے کے بعد پوچھا "چلیں جی" </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
"چلیں" رانا صاحب نے پچھلی سیٹ سے جواب دیا </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
"چلو جی بسم اللہ" جیپ سٹارٹ ہوگئ </div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
<br /></div>
<div style="font-size: medium; text-align: right;">
ہوٹل سے ہم ناران پل تک آئے اور وہاں نے سے ہم نے سڑک چھوڑ دی اور جھیل تک جانے والے ٹریک پر آگئے۔ </div>
<div>
<br /></div>
<span style="font-size: small; text-align: right;"><br /></span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<br /><br /><table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjteGu7U8AVTz9YRPTYU7_7s6QUeg2AXGYee6-fkGA0tM6MHyDZfT0iv6Yzlc4CBCP5jS9rj5K5nfcdoM-v3BmTsXrtyAxqHyOKZPDWvTMtnTt1RCBVKZi4LMyB0AXc2QgEVpFuH20hgs-p/s1600/IMG_9474.JPG" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjteGu7U8AVTz9YRPTYU7_7s6QUeg2AXGYee6-fkGA0tM6MHyDZfT0iv6Yzlc4CBCP5jS9rj5K5nfcdoM-v3BmTsXrtyAxqHyOKZPDWvTMtnTt1RCBVKZi4LMyB0AXc2QgEVpFuH20hgs-p/s640/IMG_9474.JPG" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">آئیڈیل ٹائم </span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgAn0NZWexjKG2tPr2H01X84MFLhOg-d_vAaSHcZgXhfaCn7Y8YIfiJPm3hdmrxWW8V9QFyR3TyLaYdQ1csTP0Wu-KPHeFY7rpJ3tvNF8guBGTb0BqGUUqJTL2gmmbJgnBaWgfoOMemM01e/s1600/IMG_9475.JPG" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgAn0NZWexjKG2tPr2H01X84MFLhOg-d_vAaSHcZgXhfaCn7Y8YIfiJPm3hdmrxWW8V9QFyR3TyLaYdQ1csTP0Wu-KPHeFY7rpJ3tvNF8guBGTb0BqGUUqJTL2gmmbJgnBaWgfoOMemM01e/s640/IMG_9475.JPG" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">نارن شہر دھوپ میں</span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgxUH9WwvaVJHETYjc9BqTXU75AtaXqqxXpNYvlE0XCQw5hnzP6XKOdpKaAAjqMitlU3P7f5eY0p_6GMQALzCZWQNvd3wXofqbXXPgeSFSwUT0bbXHAIHAyeAAvefdwldWDrD4uo-enuNis/s1600/IMG_9485.JPG" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgxUH9WwvaVJHETYjc9BqTXU75AtaXqqxXpNYvlE0XCQw5hnzP6XKOdpKaAAjqMitlU3P7f5eY0p_6GMQALzCZWQNvd3wXofqbXXPgeSFSwUT0bbXHAIHAyeAAvefdwldWDrD4uo-enuNis/s640/IMG_9485.JPG" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">جانے کی تیاریاں</span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<div>
ہر عروج کو زوال ہے اور ہر بلندی کو پستی اسی طرح ہر سفر کی کوئ نہ کوئ منزل کوئ نہ کوئ پڑاؤ کوئ نہ کوئ اختتام کبھی یوں بھی تو ہوتا ہے کہ انسان نہیں چاہتا کہ منزل آجائے اور سفر ختم ہوجائے یوں بھی ہوتا ہے کہ جس محبوب کی دید کی طلب دل میں ہر پل بسا کر جیتے رہے وہ سامنے آئے تو آنکھیں بند کرلیں کہ دیکھ لینے پر دل میں طلب وہ نہیں رہے گی جو کہ دیکھنے سے پہلے تھی آپ انہیں کتابی باتیں کہ سکتے ہیں لیکن کیا کتابی باتوں کا حقیقت سے کوئ تعلق نہیں ہوتا؟ ہوتا ہوگا جبھی کتابیں لکھی جاتی ہیں آپ یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ میں بہت زیادہ رومانٹک ہورہا ہوں ممکن ہے آپ ٹھیک سمجھ رہے ہوں یا میں الفاظ کی ڈگڈگی بجا کر خود کو بڑا اور منجھا ہوا مصنف ثابت کرنا چاہتا ہوں تو بھی آپ اپنی جگہ درست ہونگے کیونکہ ہر کسی کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ جیسا چاہے سمجھ سکتا ہے۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
جب بھی منزل قریب آنے لگتی ہے میرے اوپر کچھ دیر کیلئے ایک مایوسی طاری ہوناشروع ہوجاتی ہے یہ وہی کیفیت ہے جسکا اوپر ذکر کیا گیا ہے اسی لئے جب جیپ چل پڑی تو میرے دل میں وہی کیفیت بیدار ہوئ منزل قریب ہوتی جارہی ہے منزل تک پہنچنا اور پھر واپسی کا سفر شروع لیکن کیا کریں کہ ایسا کرنا بھی ضروری ہے خیر چھوڑئے ان باتوں کو کام کی بات کرتے ہیں۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
جیپ نے چڑھائ شروع کی ابتدا میں یہ خاصی ہموار اور آسان چڑھائ ثابت ہوئ لیکن آگے چلنے پر جب پیچ و خم شروع ہوا تو کئ جگہ ایسا ہوا کہ جیپ اوپر جانے کو زور مار رہی ہے لیکن برف میں پھسل کر نیچے آتی جارہی ہے پہیوں پر زنجیر چڑھے ہونے کی وجہ سے ہر چکر پر عجیب سی ایک آواز نکل رہی تھی جیسے کوئ آرا مشین چل رہی ہو۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
چڑھائ کے ساتھ ساتھ منظر کھلتا چلا جا رہا تھا ایک مقام سے نیچے دیکھنے پر ناران شہر ایک پیالے کی صورت نظر آنے لگا اور جہاں سے چڑھائ شروع ہوئ تھی وہاں بنا ہوا لال چھت والا "ہوٹل ڈیمنچی" یہ بتا رہا تھا کہ ہم کتنا اوپر آچکے ہیں اس ہوٹل کی خاص بات اسکی پیشانی پرلکھی ہوئ ایک عبارت " ایڈونچر ودھ کمفرٹ" پتہ نہیں انکی مراد اپنے ہاں کی رہائشی سہولیات کی تشہیر تھا یا کہ مہم جوئ سہولت سے کرانا چاہتے ہیں فرخ کو اعتراض تھا کہ یہ عبارت صحیح نہیں ہے خیر انکا ہوٹل انکی مرضی فی الحال یہ ہمیں ہماری بلندی سے آگاہی دے رہا تھا ہم اتنا اوپر آچکے تھے کہ یہ ہمیں صرف ایک لال دھبہ نظر آنے لگا۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
اسی آہستگی اور احتیاط سے چڑھائ کے دوران ایک موڑ آیا حسب معمول جیپ نے زور لگایا اور کئ گز نیچے کھسک آئ لیکن اس مرتبہ ہوا کچھ یوں کہ جیپ کھسک کر صرف نیچے ہی نہیں آئ بلکہ ایک جھٹکے کے ساتھ پھسل کر کنارے تک چلی آئ اور قریب تھا کہ کھائ میں گر جاتی لیکن اللہ کا کرم ہوا اور جند فیٹ ادھر ہی رک گئ جیپ کے گھسٹنے سے برف میں لمبے لمبے نشان پڑگئے تھے جیپ کو قابو میں کرنے کے بعد ڈرائیور چاچا نے پیچھے مڑ کر ہمیں دیکھا انکے چہرے پر عجیب مسکراہٹ تھی جسکااکوئ بھی مطلب ہوسکتا تھا ۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
آرا مشین کی گرگراہٹ سے ساتھ جیپ ہلتی ڈولتی کچھ دیر اور چلی اور رک گئ ہمیں یہاں اترنا تھا اور یہاں سے آگے پیدل ٹریک کرنا تھا ہم جیپ سے اترے اور باہر ایک تیز اور سخت موسم نے ہمارا استقبال کی اترے ہی تیز ہوا کا تھپیڑا منہ پر لگا اور ٹھنڈک ہڈیوں تک اتر گئ۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
جیپ سے اترتے ہی مصطفیٰ نے بولا "جب جیپ پھسلی تو میں نے کلمہ پڑھ لیا تھا موت سامنے نظر آرہی تھی" </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"میں نے بھی تم لوگ تو آگے تھے ضرورت پڑنے پر کود سکتے تھے لیکن پیچھے سے نکلنا تو ناممکن ہی تھا" میں نے جواب دیا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
ہمارا سامان اتار لیا گیا تھا اور برف میں چلنے کیلیے ہم ضروری تیاریاں کر رہے تھے سردی کی وجہ سے ہماری انگلیاں سن ہورہی تھیں سب سے مشکل ٹانگوں پر گیٹرز چڑھانا ہورہا تھا کیوں کہ پنڈلیوں پر پلیٹنے کے بعد زپ چڑھا کر اسے کسنا ہوتا ہے جوکہ ہاتھ سب ہوجانے کی وجہ سے بہت مشکل ثابت ہورہا تھا خیر اس تیاری کے بعد ہم چلنا شروع ہوئے۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
جہاں ہم کحڑے تھے وہاں زمین مکمل طور پر برف میں چھپی ہوئ تھی برف نرم تھی اور ہمارے پاؤں اسمیں دھنس رہے تھے چاروں طرف بھی باقی سب کچھ تو برف میں تھا لیکن پیچھے کی طرف ایک پہاڑ بھورے رنگ میں تھا اور اس پر ہلکی سی برف کی تہ کہیں کہیں جمی ہوئ تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے تھوڑا سا چونا کہیں کہیں مل دیا گیا ہو اور اسکے ٹھیک سامنے ایک دوسرا پہاڑ مکمل برف میں دفن تھا لیکن کہیں کہیں بھورا رنگ جھلک رہا تھا اور اسی پہاڑ پر چند برف کے بوجھ سے جھکے ہوئے درخت تھے جنکا سبزہ پوری طرح چھپا تو نہیں تھا لیکن نمایاں بھی نہیں ہورہا تھا اور ان دونوں کے پس منظر میں ایک عظیم الجثہ چوٹیوں کا سلسلہ تھا جہاں برف ابھی پوری طرح پڑ نہیں سکی تھی۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
ہم نے چلنا شروع کیا لیکن اس سے پہلے ایسا کیسا ہوسکتا تھا کہ رانا صاحب ساتھ ہوں اور ہم تصویریں نہ بنائیں چلنے سے پہلے ڈھیروں ڈھیر تصاویر بنائ گئیں کچھ تصاویر میں ایسی بنائ گئیں جسمیں چہرے پر خوف طاری کیا گیا مخفلف پوز مارے گئے گروپ بندیاں اورانفرادی یہ سلسلہ بہت زیادہ طول پکڑ جاتا لیکن اس مقام پر ہوا اتنی تیز اور ٹھنڈ ی تھی کہ چند لمحوں میں ہی محسوس ہونے لگا کہ خون رگوں میں جم جائے گا اور یونہی کھڑے کھڑے ہی موت گلے لگا لےگی میں نے ہی زور ڈالا اور قافلہ رواں ہوگیا فرخ البتہ ہمارا انتظار کئے بغیر ہی آگے جا چکا تھا۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
ہماری جیپ ہمیں اتار کر اوپر جاچکی تھی ایک جیپ جو ہم سے آگے چل رہی تھی ہمیں رکی ہوئ نظر آئ اور کچھ ہی دیر میں ہماری برابر آگئ ہمیں دیکھ کر ڈرائیور نے گاڑی روکی سلام جواب کے بعد ہم سے پوچھا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"سر جی کدھر جل ساں" </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"جھیل تے بھائ اتھے رات گزاراں گے" رانا صاحب نے جواب دیا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"کیوں مرنے چلے ہو ۔۔۔۔سردی بہت زیادہ ہے واپس پلٹ جاؤ"جیپ والے نے گویا ہمیں وارننگ دی تھی </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"نہیں جی اللہ مالک ہے" رانا صاحب نے جواب دیا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"اللہ تو مالک ہے ہی بندے کو بھی عقل کرنی چاہئے" جیپ کے اندر ایک ادھیڑ عمر کے صاحب اور تین لڑکے بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمیں جھانک کر ایسے دیکھ رہے تھے گویا ہمارا آخری دیدار کرنا چاہ رہے ہوں شاید انہوں نے ایسے دیوانے پہلے نہیں دیکھے تھے </div>
<div>
<br /></div>
<div>
اس با ت کے جواب میں عادل نہیں اس جیپ ڈرائیور سے مقامی زبان میں کچھ بات چیت کی جس پر وہ "چلو جی اللہ کے حوالے" کہ کر جیپ آگے بڑھا گیا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"کیا بولا تم نے اسے" میں نے عدیل سے پوچھا </div>
<div>
<br /></div>
<div>
"بولنا کیا تھا بھائ میں نے بولا کہ جب دیکھ رہے ہو میرے ساتھ آئے ہیں تو میری ذمہ داری ہے ہم انتظام کرکے آئے ہیں " </div>
<div>
<br /></div>
<div>
ہم چلتے رہے برف اتنی تھی کہ چلتے ہوئے ہمارے پیر دھنس جاتے یہ بالکل تازہ اور نرم برف تھی چلنے کیلئے زور نہیں لگانا پڑتا تھا لیکن احتیاط بحرحال ضروری تھا۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
<br /></div>
<div>
عادل نے ہمیں بتایا کہ اس وقت درجہ حرارت منفی پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تھا یہ نہیں پوچھا گیا کہ یہ ٹمپریچر کہاں نوٹ کیا تھا اور ہوا کا زاویہ معلوم نہیں کیسا تھا کہ ہر طرف سے گھس رہی تھی پورے جسم کو ڈھانپنے کے بعد چہرے کا جو حصہ کھلا تھا خاص طور پر ناک اور آنکھیں وہ اس ہوا کی وجہ سے کافی پریشانی میں تھیں ہر سانس کے ساتھ ٹھنڈی ہوا اندر جاتی اور جسم کو گرما جاتی(جی ہاں گرما جاتی کبھی برف سے دھواں نکلتا دیکھا ہے ویسی ہی گرمی) آکسیجن کہ کمی یا شاید سردی کی وجہ سے سانس ذرا سا چلنے سے چڑھنے لگتا یا وجہ شاید خوف رہی ہو موت کا خوف۔ </div>
<div>
<br /></div>
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhfwhWnWC2zEt500cfAAclPl6hqdv1Gdiu1GAVxD3Bk8Y3K5Wx-SgPYwsGEn8iuG6bJUbOUekTsUDpWjBMPiLht37V5zySfZ57DMA0Wnj36LJWhjYk7bfV4jVYoqJvE2QNn8G49xHtFdMtc/s1600/IMG_9492.JPG" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhfwhWnWC2zEt500cfAAclPl6hqdv1Gdiu1GAVxD3Bk8Y3K5Wx-SgPYwsGEn8iuG6bJUbOUekTsUDpWjBMPiLht37V5zySfZ57DMA0Wnj36LJWhjYk7bfV4jVYoqJvE2QNn8G49xHtFdMtc/s640/IMG_9492.JPG" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">جہاں سے سفر شروع ہوا</span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ہم آدھا گھنٹہ چلیں ہونگے کہ منزل قریب آگئ جھیل سیف الملوک پاکستان کی شاید ان چند جھیلوں میں سے ایک ہے جو کہ آسانی سے ہاتھ آجاتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ دیگر آسانی سے ہاتھ آجانے والی جھیلوں کی طرح سیاحوں نے اسکا ناطقہ بند کیا ہوا ہے فرض کریں آپ ایک حسین لڑکی ہیں ( مرد حضرات بھی کریں) اورہر روز رشتہ کیلئے لوگ آپ کو دیکھنے آجائیں شروع میں تو یقینا دل میں لڈو پھوٹیں گے لیکن جب یہ سلسلہ زور زور چل نکلے اور سینکڑوں لوگ آپ کا دیدار کرنے آنا شروع ہوجائیں تو آپ کیسا محسوس کریں گے / گی؟ یہی حال کچھ اس جھیل کا بھی ہے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح یہاں آتے ہیں اور اگر آپ بھول سے پیک سیزن میں یہاں پہنچ جائیں تو یہاں آپ کو ہزاروں سیاحوں کے ساتھ سینکڑوں خوانچے والے، اور مختلف اشیاء فروخت کرنے والوں کے علاوہ بے حساب "تاڑو" بھی مل جائیں گے اگر آپ کے ساتھ خواتین ہیں تو آپکو انہیں ان سےبچانے میں کافی پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے کیوں کہ ایک چھوڑو ہزار اور مل جائیں گے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<div>
خیر بات کسی اور رخ نکل گئ چلتے چلتے ہم مڑے تو اچانک ہی جھیل کو اپنے سامنے پایا گو کہ وہ مکمل طور پر برف کی چادر میں پردہ پوش تھی اور ہم جھیل سے کافی بلندی پر تھے لیکن محبوب کا سامنے ہونا ایک الگ ہی کیفیت ہے پردہ دار ہونے سے کوئ خاص فرق نہیں پڑتا ہمارے باقی ساتھی یعنی عدیل اینڈ کمپنی ہماری رہائش کیلئے کوئ مناسب جگہ ڈھونڈنے چلے گئے تھے ۔ </div>
<div>
<br /></div>
</div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEir-Yh4X3dZI78oyhSFw7GLB4ZlieJiN09w_xeyPjGBACjxCK8zfljKvPU2hXbkQ30UIE06nYsvLeLyzBqhQZRD3j2NF3ONcezDdxtSnb7r2l-XKfbW_hWqmFMianK-RbWLcjGwE3zEYnjy/s1600/IMG_9536.JPG" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEir-Yh4X3dZI78oyhSFw7GLB4ZlieJiN09w_xeyPjGBACjxCK8zfljKvPU2hXbkQ30UIE06nYsvLeLyzBqhQZRD3j2NF3ONcezDdxtSnb7r2l-XKfbW_hWqmFMianK-RbWLcjGwE3zEYnjy/s640/IMG_9536.JPG" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">پہلی ملاقات </span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<div>
فرخ ایک کشتی میں سوار ہمارا انتظار کررہا تھا آپ میں سے اکثر نے جھیل سیف المکوک کی تصاویر میں جھیل میں چلتی ایک کشتی دیکھی ہوگی یہ وہی کشتی تھی لیکن تب وہ کشی برف میں دھنسی ہوئ تھی برف میں پھنسی اس کشتی کو دیکھ کر مجھے پتہ نہیں کیوں کشتی نوح یاد آگئ برف میں دھنسی ہوئ مسافروں کے انتظار میں جس کیلئے اسے ابھی بہت انتظار کرنا تھا فرخ ہمیں دیکھتے ہی بولا "کہاں رہ گئے تھے یہاں بیٹھ بیٹھ کر سوکھ گیا" </div>
<div>
"یار ہم ناتجربہ کار ٹریکر ہیں آرام آرام سے ٹریک کرتے ہیں" رانا صاحب نے مزاح کے انداز میں جواب دیا </div>
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<div>
بہت سے لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ انہیں سکون کی نیند صرف اپنے بستر پر آتی ہے چاہے دوسری جگہ کتنا ہی آرامدہ بستر اور ماحول مہیا کردیا جائے وہ مزہ نہیں آتا جو اپنے بستر پر ہونے میں آتا ہے بات بھی درست ہے اصل چیز وابستگی ہے جو آپکی اس مقام کے ساتھ ہے وابستگی کی بات ہے تو بہت سے ایسے ہیں جو روزگار اور دوسرے سلسلوں میں پاکستان سے باہر مقیم ہیں لیکن وہ ہمیشہ یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان پاکستان ہے اور اس جیسا ملک دوسرا کوئ نہیں ہے میرے بہت سے دوست اور جاننے والے یہی کہتے ہوئے پائے گئے ہیں اور بہت تھوڑے عرصہ کیلئے میراذاتی تجربہ بھی یہی رہا تارڑ صاحب نے بھی کچھ ایسا ہی تجربہ بیان کیا ہے کہ وہ ملک سے وابستگی کیلئے پاکستان کا جھنڈا اپنے رک سیک پر لگایا کرتے تھے اور دوسرے ملکوں کے جھنڈوں کے بیچ انکی آنکھیں اپنے ملک کا جھنڈا تلاش کرتی تھیں جھنڈا ایک علامت ہے ایک اعلان ہے قوم سے وابستگی کا دنیا بھر میں جتنے بھی پاکستانی سفارت خانے ہیں ان پر پرچم لہرایا جاتا ہے، ملک بھر کی تمام سرکاری عمارتوں پر پرچم لگایا جاتا ہے یوم آزادی اور دیگر قومی دنوں کے موقع پر ملک کے تقریبا ہر گھر میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے، تمام فوجی شہدا کے تابوت بھی قومی پرچم سے ڈھکے جاتے ہیں ایسا ہی ایک پاکستانی پرچم میں نے اس برف زار میں بھی لہراتا دیکھا سفید پس منظر میں شان سے لہراتا ہواپاکستانی پرچم تیز ہوا کے باعث پھڑپھڑاتا ہوا کچھ کچھ بوسیدہ ہوچلا تھا لیکن تب بھی اسکی شان میں کوئ کمی نہیں آئ تھی میرے دل سے ہمشہ دعا نکلتی ہے کہ یہ ملک ہمشہ قائم ودائم رہے اور یہ پرچم ہونہی لہراتا ہے اور جو اس ملک کے خلاف ہیں اور اسکی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں انکو ہمیشہ رسوائ کا سامنا رہے آمین ہم نے رک کر پرچم کو سلامی دی اور رانا صاحب نے اس منظر کو کیمرے میں محفوظ کرلیا ہم آگے چلے جہاں ہمارا سامان ایک ڈھیر کی صورت برف پر پڑا ہواتھا۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
اس مقام سے جھیل کا منظر اپنی پوری وسعت کے ساتھ نظر آرہا تھا پورے منظر میں واحد مصنوعی چیز جھیل پر بنایا گیا لکڑی کا پل تھا اور ہاں چند لوہے کے بنے کچرہ دان بھی تھے جو صرف برفباری کے دنوں میں پورے بھرتے ہیں سال کا باقی حصہ اسکے ارد گرد اور جھیل میں اور جھیل کے ساحل پر کچرہ پھینک کر اسکا منہ چڑاتے ہیں کسی اکا دکا نے کوئ کچرہ ان میں ڈال دیا تو ڈال دیا۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
جہاں سے ہم چل کر آرہے تھے وہاں پیچھے کی طرف برف کے بیچوں بیچ بغیر چھت دیوار کے ایک دروازہ کھڑا ہوا تھا جسکے دونوں پٹ بند تھے یقینا یہ کسی گھر کا دروازہ ہی تھا گھر گر جائے اور دروازہ بچ جائے یہ کیونکر ممکن ہو یہ بھی ممکن تھا کہ وہ بہشتی دروازہ ہو لیکن جب آپ خود بہشت میں ہوں تو کسی دروازے کی کیا ضرورت ہم اس دروازے کی پرسرائیت پر غور کر ہی رہے تھے کہ عدیل اور باقی لڑکے ہمارے پاس آگئے وہ ہمارے ٹھکانے کیلئے کوئ مناسب جگہ دیکھ آئے تھے سامان اٹھایا گیا ہمارا رخ جھیل پر بنے اس لکڑی کے پل کی طرف تھا جھیل کے ساتھ ہی فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کا ایک ہٹ بنا ہوا ہے سیزن نہ ہونے کی وجہ سے وہ بند تھا عدیل نے اس کے نزدیک ہی خیمہ نصب کرنے کا کہا تھا کیوں کہ ہم کمرے بند ہونے کے باوجود اسکے بارامدے کی چھت کو استعمال کر سکتے تھے۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
خیمہ نصب ہونا شروع ہوا شام ڈھلنے والی تھی اور سورج کی آخری بچ جانے والی چند کرنیں چوٹیوں کو سونا بنا رہی تھیں اس پوری سلطنت میں آج داخل ہونے والے ہم تھے اور کوئ نہیں تھا میں اپنا سامان رکھ کر باہر آگیا میرے عین سامنے جھیل سیف المکوک تھی مکمل برف پوش لیکن اسکے باجود اسکے حسن میں کوئ کمی نہیں تھی تین اطراف سے پہاڑوں میں گھری اور دور کہیں بادلوں میں ملکہ پربت بھی تھی یہ میری اس رات سیف الملوک سے پہلی ملاقات تھی۔ </div>
<div>
<br /></div>
<div>
تھا تخیل جو ہم سفر میرا </div>
<div>
آسماں پر ہوا گزر میرا </div>
<div>
اڑتا جاتا تھا،اور نہ تھا کوئ </div>
<div>
جا ننے والا چرخ پر میرا </div>
<div>
تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے </div>
<div>
راز سربستہ تھا سفر میرا </div>
<div>
حلقہ صبح و شام سے نکلا </div>
<div>
اس پرانے نظام سے نکلا </div>
<div>
کیا سناؤں تمہیں ارم کیا ہے؟ </div>
<div>
خاتم آرزوئے دیدہ وگوش </div>
<div>
شاخ طوبیٰ پر نغمہ ریز طیور </div>
<div>
بے حجابانہ حور جلوہ فروش </div>
<div>
ساقیان جمیل بدست </div>
<div>
پینے والوں میں شور نوشانوش</div>
<div>
<br /></div>
<div>
اقبال نے تو کتنی آسانی سے اپنے جنت کے سفر کی داستان بیان کردی لیکن بس مجبور ہیں کہ ہم کو وہ طرز عطا نہ ہوا کہ جو محسوس کریں وہ بتا بھی سکیں</div>
<div>
<br /></div>
<div>
خیمہ لگ چکا تو سب سامان اندر رکھ دیا گیا بس کھانے کا سامان اورلکڑیاں ہٹ کے برامدے میں پہنچا دی گئیں کفیل اور یاسر اندھیرا ہونے سے پہلے تمام کام مکمل کر لینا چاہتے تھے انہوں نے جلانے کیلئے لکڑیاں کاٹنا شروع کردیں مسکین نے برامدے کو صاف کرکے بیٹھنے کی جگہ بنالی اور عدیل پکانے کا گوشت اور سبزیاں وغیرہ لیکر دھونے کیلئے جھیل کے اس حصہ کی طرف چلا گیا جہاں پانی ابھی جما نہیں تھا۔ </div>
<div>
اندھیرا ہونے میں تھوڑی ہی دیر تھی سورج کی آخری کرنیں اپنے نور سے پہاڑوں کی چوٹیوں سے منعکس ہورہی تھیں اور رنگ بکھیر رہی تھیں وہاں سکوت تھا خاموشی تھی سکون تھا اور ہمارے بالکل سامنے بدیع الجمال جھیل سیف الملوک تھی۔</div>
<div>
<br /></div>
</div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjCZFsQPwGv6nH-4J7qYLkvwCuaYvk0lMmqAXM361sR0idqtsCXztfLiKkS6Mq2VCvqPQtcptzfp-hcxATspAHMRUZgYrKhNlqawZtZolaJU4ejQ4BrpPQHmLDOFaGw_8o86ZifrjjsJpEY/s1600/IMG_9545.JPG" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjCZFsQPwGv6nH-4J7qYLkvwCuaYvk0lMmqAXM361sR0idqtsCXztfLiKkS6Mq2VCvqPQtcptzfp-hcxATspAHMRUZgYrKhNlqawZtZolaJU4ejQ4BrpPQHmLDOFaGw_8o86ZifrjjsJpEY/s400/IMG_9545.JPG" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">رات گزارنے کی تیاریاں </span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhZw0CqE0SivcUbzpxVX6ODl_neZl6_dpPlBb3XQ8-hr5pVh_bB7ymTerLPqDuTgpNVMYHyQ7NsuZXhQTo_vACLoNZ6PyzI85H4HGn5thr4fQRGdMjAm2bQ3ZZp-bkhQ14KmfphyphenhyphenTt5z1mo/s1600/IMG_9547.JPG" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhZw0CqE0SivcUbzpxVX6ODl_neZl6_dpPlBb3XQ8-hr5pVh_bB7ymTerLPqDuTgpNVMYHyQ7NsuZXhQTo_vACLoNZ6PyzI85H4HGn5thr4fQRGdMjAm2bQ3ZZp-bkhQ14KmfphyphenhyphenTt5z1mo/s400/IMG_9547.JPG" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">رات گزارنے کی تیاریاں</span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgdHPZj2kbDL3FLDv24i4JJTcotaUMKlbsYJojKs5kfIAfd5CcqJrcnO8ZODYluuoDz4msi6FjGALaaki0o9WdL8R6CoYCrGP2gfOBAVcV1PpqCy1K7zMSvuCWVoXZqI44pQguq2FZslTFO/s1600/IMG_9564.JPG" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgdHPZj2kbDL3FLDv24i4JJTcotaUMKlbsYJojKs5kfIAfd5CcqJrcnO8ZODYluuoDz4msi6FjGALaaki0o9WdL8R6CoYCrGP2gfOBAVcV1PpqCy1K7zMSvuCWVoXZqI44pQguq2FZslTFO/s400/IMG_9564.JPG" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">گم ہوتی ہوئی روشنی میں جھیل کا منظر </span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjuW-Gv-A08QDUf7QTET33pQgm3soH6cSbsiKxK4z5iK5LlOrrn5rNMTPxH-Bn93nqKrx6TPQHDje64D1Buq7e_agvDiQQEtq0e6jse3Ca1e1PJGt7mZqv9nxLllT1-7l3GZ_FWy2-m_eqQ/s1600/IMG_9593.JPG" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjuW-Gv-A08QDUf7QTET33pQgm3soH6cSbsiKxK4z5iK5LlOrrn5rNMTPxH-Bn93nqKrx6TPQHDje64D1Buq7e_agvDiQQEtq0e6jse3Ca1e1PJGt7mZqv9nxLllT1-7l3GZ_FWy2-m_eqQ/s400/IMG_9593.JPG" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-size: small; text-align: right;">جھیل پر لگا ہوا ہمارا خیمہ اور چمکتے تارے</span></td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiuBV8GhjPYQuHFqomhg6kow7i8TBaNSGiKV9faMRKQM6p2s5GA0sgnkrkqnu9-yNlF-98vxo0IEX3s5Wvrxv8ynNR6BOm8df6j3j1_EMfgR1EGb5gs7n1JAXRFEahIx1skK5BJIAHftBOp/s1600/IMG_9503.JPG"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiuBV8GhjPYQuHFqomhg6kow7i8TBaNSGiKV9faMRKQM6p2s5GA0sgnkrkqnu9-yNlF-98vxo0IEX3s5Wvrxv8ynNR6BOm8df6j3j1_EMfgR1EGb5gs7n1JAXRFEahIx1skK5BJIAHftBOp/s640/IMG_9503.JPG" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjfPuQZ8ewB6OmStCgacCRHHX0IL5MOIJdbhUITD1k0qnQwkx4BeuEW_hl4SrZ-GxcVFbNI8b1vMGx9T5-ZAxmNPM5JNjJDhvxxFi31spk27gtfSF-pk2OqtwmaxBEvYogq2_7eBQnwnol/s1600/IMG_9526.JPG"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjfPuQZ8ewB6OmStCgacCRHHX0IL5MOIJdbhUITD1k0qnQwkx4BeuEW_hl4SrZ-GxcVFbNI8b1vMGx9T5-ZAxmNPM5JNjJDhvxxFi31spk27gtfSF-pk2OqtwmaxBEvYogq2_7eBQnwnol/s640/IMG_9526.JPG" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiupX6CDM2YaqXh0ieGnSUp765QTUVSsizJ3PdfQPLigce07aN_-UnCZCT0evJdE1B17B_0oqRDAIPFmwwEH5WK_BIW0fEBcem3XBlrl2Ks1Wbq4M_fjYh5bNaA2OnZCI8XZzARd5tUztzC/s1600/IMG_9600.JPG"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiupX6CDM2YaqXh0ieGnSUp765QTUVSsizJ3PdfQPLigce07aN_-UnCZCT0evJdE1B17B_0oqRDAIPFmwwEH5WK_BIW0fEBcem3XBlrl2Ks1Wbq4M_fjYh5bNaA2OnZCI8XZzARd5tUztzC/s640/IMG_9600.JPG" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
فرخ ہٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا جبکہ میں رانا صاحب اور مصطفیٰ جھیل کو تھوڑا اور قریب سے دیکھنے کیلئے کافی آگے تک چلے آئے مدھم ہوتی ہوئ روشنی میں جھیل کا منظر کسی کو بھی ہیپناٹائز کرنے کیلئے کافی تھا پچھلی رات ہونے والی برف باری سے بننے والی لہریں جھیل کی سطح پر واضح تھیں ہمیں بتایا گیا تھا کہ چند دن ہوئے کسی منچلے نے جھیل پر سائیکل چلائ تھی اور اسکے پہیوں کے نشان اس وقت تک دیکھے جا سکتے تھے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"میں نے اپنے سفر کا آغاز یہاں سے ہی کیا تھا" رانا صاحب گویا ہوئے " انیس سو ننانوے میں جب میں نے میٹرک کیا تھا تو گھر سے پہلی بار نکلا تھا اس وقت یہاں کچھ بھی نہیں تھا" وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"وہ سامنے دیکھ رہے ہو" انہوں نے جھیل کے دوسرے کنارے پر ملکہ پربت کی جانب اشارہ کیا "وہاں پر ایک بابا جی ہوتے تھے ایک چھوٹا سا کھوکھا تھا صرف چائے اور پکوڑے ملتے تھے" رانا صاحب ناسٹلجک ہونے لگے تھے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"تب یہاں اتنے لوگ بھی نہیں آتے تھے اب تو ---- یہاں اتنا رش ہونے لگا ہے کہ جیسے مری کی مال روڈ ہو </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"ہاں وقت کے ساتھ ایسا ہوتا ہی ہے اس سے مقامی آبادی کا فائدہ بھی ہے انکا کاروبار بھی چلتا ہے اسی سے" مصطفیٰ نے جواب دیا جوکہ ایسا کچھ غلط بھی نہیں تھا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"ہاں لیکن جب ہمارے جیسا کوئ پاگل یہاں آتا ہے تو اسے اچھا نہیں لگتا یہ سب" رانا صاحب نے جواب دیا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"سر جی ہمارے جیسے پاگلوں کی وجہ سے دنیا کی ترقی تو نہیں روکی جاسکتی ناں وقت کے ساتھ خود کو بدلنا پڑتا ہے ایڈجسٹمنٹس کرنی پڑتی ہیں ماحول کے ساتھ ساتھ" مصطفیٰ نے جواب دیا اور اسکے بعد خاموشی ہوگئ ہم ایک اندازے کے مطابق جھیل کے اندر تقریبا چانچ چھ فٹ تک جاچکے تھے عام حالات میں ایسا قطعی ممکن نہیں تھابرف اتنی تھی کہ ہمارے پیر پنڈلیوں تک دھنسے ہوئے تھے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کافی دیر تو ہم محویت کے عالم میں اس پورے منظر کو دیکھتے رہے پھر سورج غروب ہوا اندھیرا جیسے جیسے گہرا ہونا شروع ہوا آسمان سینکڑوں ہزاروں تاروں سے بھرتا چلا گیا اور ذرا سی دیر میں گویا ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک چھوٹے بڑے تیز اور دھیمے کچھ ٹمٹماتے کچھ روشن جگنو سے پھیل گئے ہمارے خیمے کے اوپرسیا ہی مائل آسمان پر اور جھیل کے اوپر پہاڑوں سے پرے انکی وجہ سے رات کے حسن میں یوں اضافہ ہورہا تھا جیسے بقول شاعر </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ع</div>
<div style="text-align: right;">
یکے چشم سیاہ داری، یوئم سرمہ درو کردی </div>
<div style="text-align: right;">
اہا ظالم چہا کردی، بلا اندر بلا کردی </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یعنی ایک تو تمہاری آنکھیں پہلے سے ہی کالی تھیں اوپر سے تم نے ظلم یہ کیا کہ سرمہ لگا لیا یہ تو تم نے غضب ہی کردیا ہماری تو موت کا سامان ہوگیا کہ جھیل کا حسن پہلے ہی ناقابل برداشت ہورہا تھا اوپر ظلم یہ کہ تاروں نے تو مزید سنگھار کرادیا ہم آنکھیں چار کرتے رہے اور بہکتے رہے مدہوش ہوتے رہے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ع </div>
<div style="text-align: right;">
خدا بچائے تیرے مست مست آنکھوں سے </div>
<div style="text-align: right;">
فرشتہ ہو تو بہک جائے آدمی کیا ہے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ہم دیکھتے رہے اور بہکتے رہے کہ قصور اس منظر کا تھا جو ہمارے سامنے تھا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ع </div>
<div style="text-align: right;">
رگ رگ میں عوض خون کے مئے دوڑ رہی ہے </div>
<div style="text-align: right;">
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مخمور نظر سے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یعنی کہ شراب میں نے نہیں پی یہ تو قصور ان شرابی آنکھوں کا ہے جو مجھے دیکھتی ہیں تو نشہ بڑھتا جاتا ہے یعنی یہ ماحول کا اثر تھاجو بڑھتا جارہا تھا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
پس منظر میں آسمان پہلے سرمئ ہوا پھر جامنی پھر آہستہ آہستہ سیاہ ہوتا گیا کچھ دیر میں سب کچھ اس اندھیرے میں ڈوب گیا اور صرف اندھیرا باقی رہا اور تارے اور ہم ۔اندھیرا بڑھنے کے ساتھ ہم نے اوپر واپسی کا سفر شروع کیا لیکن آدھے راستے میں الگ الگ ہوکر رک گئے ایسا کچھ آسان نہیں تھا وہاں سے خود کو واپس لانا ۔ </div>
<div style="text-align: right;">
ہٹ کے برامدے میں لکڑیاں جلا کر آگ لگالی گئ تھی اندھیرا ہونے پر سردی کی شدت میں واضح طور پر اضافہ محسوس ہونے لگا تھا ہم سب جہاں کہیں مدہوشی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے آگ کے نزدیک جمع ہوگئے یا زبردستی آواز لگا کر بلالئے گئے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
یخنی تیار کی گئ اور ذرا دیر میں سب گرم گرم یخنی کی چسکیاں لے رہے تھے </div>
<div style="text-align: right;">
"یار کہتے ہیں ادھر رات میں پریاں اترتی ہیں" اندھیر ے میں سے سوال ہوا </div>
<div style="text-align: right;">
"کہنے کی باتیں ہیں سب" رانا صاحب نے دل توڑ دیا </div>
<div style="text-align: right;">
"یار تنی رومینٹک باتیں صرف کہنے کی کیسے ہوسکتی ہیں" مصطفیٰ شایدکسی پری سے ملاقات کا خواہش مند تھا </div>
<div style="text-align: right;">
"رات باہر گزارو کوئ آئ تو دیکھ لینا ہمیں بھی بلا لینا" فرخ نے مشورہ دیا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"یار کوئ نہیں آتا ادھر آیا بھی تو برفانی چیتا آئے گا رات بس" ہنس مکھ پورٹر کفیل نے یقینا" مسکراتے ہوئے یہ جملہ ادا کیا ہوگا </div>
<div style="text-align: right;">
"واقعی آتا ہے یا مذاق کررہے ہو" رانا صاحب نے پوچھا </div>
<div style="text-align: right;">
"نہیں نہیں واقعی آتا ہے کبھی کبھی" عدیل نےکفیل کی بات کی تصدیق کی </div>
<div style="text-align: right;">
"اگر واقعی آتا ہے تو میں دعا کرتا ہوں کہ آج رات آجائے میں اپنی زندگی کا سب سے انوکھا تجربہ کرنا چاہونگا" رانا صاحب ایسے لہجے میں کہا جیسے وہ نیند میں ہوں </div>
<div style="text-align: right;">
"رانا صاحب خیر ہوگئ بعد میں آکر دیکھ لینا سب کو شوق نہیں ہوا"میں نے کہا </div>
<div style="text-align: right;">
ایسی ہی گپ شب کچھ دیر اور چلی اور رات جوں جوں گہری ہوتی گئ سردی کا زور بڑھتا ہی گیا منہ سے دھواں تو پہلے ہی جاری تھا لیکن ان ہاتھوں کو کھلا رکھنا مشکل ہونے لگا ذرا دیر کو اگر دستانے اتارتے تو انگلیاں سن ہوجاتیں اور تصویریں کھینچے والوں کو یہ مشکل لاحق تھی کہ دستانے پہن کر کیمرہ چلانا بھی کوئ آسان نہیں ۔ </div>
<div style="text-align: right;">
ہم سب آگ کے گرد جمع تھے لیکن ایک مصیبت یہ کہ گیلی لکڑیوں کے جلنے سے پیدا ہونے والا دھواں آنکھوں کی سخت آزمائش کررہا تھا سب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے لیکن اگر منہ موڑتے تو سردی اور ہوا کا زور ہمارے رخ دوبارہ ادھر ہی موڑدیتا کوئ مشکل سی مشکل تھی حل یہ نکالا گیا کہ ہم سب اس چھت تلے جمع ہوگئے اب ہوا کا زور کم ہوگیا اورہم آگ سے منہ موڑ کر بیٹھ گئے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
جب ہمیں بیٹھے بیٹھے بہت دیر گزر چکی ہماری باتوں کا ذخیرہ جو کہ پہلے ہی کم تھا ختم ہونے لگا رانا صاحب کی سپیکر سے بجنے والے گانے دہرائے جانے لگے تو خیال آیا کہ وقت کافی ہوچکا ہوگا لیکن جب معلوم ہوا کہ ابھی صرف ساڑھے چھ بجے ہیں تو ایک لمحہ تو سوچ کر روح فنا ہوگئ کہ اتنی لمبی رات کیسے گزرے گی جب کہ ابھی تو بس ابتدا ہی تھی۔ </div>
<div style="text-align: right;">
کھانے بنانے کی ذمہ داری میری تھی اور کھانا بنانے کا سامان عدیل نے پہلے ہی تیار رکھا ہوا تھا اندھیرے میں کھانا بنانے کا تجربہ میں اس سے پہلے بھی کرچکا تھا لیکن اس وقت اتنی سردی نہیں تھی اگر وہ چاروں میرے ساتھ نہ ہوتے تو شاید کچھ بھی نہ بن پاتا بس اندازے سے ہوتا چلا گیا میں نے جذبات میں تین کلو گوشت میں تقریبا آدھا پاؤ کٹی ہوئ لال مرچیں اور اس سے کچھ زیادہ تیز ہری مرچیں ڈال دیں اور جب یہ کھانا کھایا گیا تو بعد میں سب ہی جام جیلی کی بوتلوں میں انگیاں ڈال ڈال کر چاٹ رہے تھے اور گڑ کی ڈلیاں چبارہے تھے حلق اور معدے تک تیزابیت پھیل چکی تھی۔ </div>
<div style="text-align: right;">
کھانے کے بعد کافی کا دور چلا اور پھر کافی دیر بے سر پیر گفتگو جو کہ اصل رنگ ہے کسی بھی رت گجے کا کبھی لطیفہ گوئ ہوتی اور زور دار قہقہے لگتے مردانہ محافل میں جو لطیفے عموما گردش کرتے ہیں اور ایسے شریفانہ نہیں ہوتے کہ یہاں ذکر کئے جاسکیں اور اگر انکو شرافت کا جامہ کسی طرح پہنا بھی دیا جائے تو سارا لطف اسی جامے میں رہ جاتا ہے باہر کچھ نہیں رہتا خیر بے جا صفائ برطرف یہ محفل یونہی چلتی رہی سب سے پہلے مصطفیٰ نے اٹھنے کا ارادہ کیا سردی اور تھکن اب اسکی برداشت ہونے لگی تھی خیمہ کے اندر بستر لگ چکے تھے وہ اٹھا اور پردہ گرا کر خیمہ میں روپوش ہوگیا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
تخیل اگر مضبوط ہو تو جو سوچا جائے وہ ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے کوئ بھی مصور اپنا خیال ہی پینٹ کرتا ہے جو وہ سوچتا ہے اور جو وہ دیکھتا ہے وہ اپنے رنگوں کے ذریعے دنیا کو دکھاتا ہے یہ اسکو عطا کردا صلاحیت ہے ہم سب ہی اپنے تخیل میں بہت کچھ دیکھتے ہیں جب بھی آپ کوئ کتاب پڑھتے ہیں تو مناظر اور کرداروں کی تصاویر آپ کے ذہنوں میں خود بخود بنتی جاتی ہیں کردار اپنے آپ حرکت کرنا شروع کردیتے ہیں جب کچھ اور وقت گزرا تو فرخ بھی اٹھ کر اندر چلا گیا صرف میں اور رانا صاحب بیٹھے رہے اور باقی چاروں عدیل ،کفیل، مسکین اور یاسر ہم کچھ دیر مزید انکے ساتھ بیٹھے رہے پھر کمبلوں میں خود کو لپیٹ کر ہٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے ہمارے سامنے ایک خالی کینوس تھا اور ہمارا تخیل اتنا مضبوط تھا کہ جو کچھ سوچا وہ دیکھا بھی۔ </div>
<div style="text-align: right;">
سب سے پہلے جھیل کے دوسرے کنارے پر ملکہ پربت کی طرف سے گھڑ سوار آنا شروع ہوئے وہ چند سو کی تعداد میں آکر جمع ہوگئے ان کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں ہوا سے پھڑپھڑاتی ہوئ شعلے لپک رہے تھے وہ کچھ دیر وہیں رکے رہے پھر ان میں سے چند ایک آگے بڑھے اور اپنے گھوڑوں کولیکر جھیل میں اتر گئے اور جھیل کی سطح پر گھوڑے دوڑاتے ہوئے درمیان تک آئے باقی سب دوسرے کنارے پر کھڑے رہے ان میں سے کسی کی نظر ہم پر پڑی اور وہ رک گیا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"کون ہوتم؟" ان میں سے کسی نے وہیں سے سوال کیا </div>
<div style="text-align: right;">
جواب میں ہم نے اپنی سانس تک روک لی کوئ جواب نہ دیا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
دوبارہ کوئ سوال نہیں ہوا جھیل کے درمیان میں انہوں نے الاؤ روشن کرنا شروع کیا لیکن ہم پر بھی نگاہ رکھی ہم دم سادھے بیٹھے رہے الاؤ روشن ہوگیا آگ بھڑک اٹھی شعلے اوپر اٹھنے لگے اور انکی نارنجی روشنی میں ہم نے ملکہ پربت کا حسن دیکھا پھروہ سب غائب ہوگئے آگ روشن رہی الاؤ بھڑکتا رہا پھر ڈھول کی تھاپ پر اس آگ کے گرد رقص شروع ہوا رقص کرنے والوں کی شکلیں واضح نہیں تھیں ہم بھی ان رقص کرنے والوں میں شامل تھے تیرےعشق نچایا تھیا تھیا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
رقص ختم ہوا وہ سب جہاں سے آئے تھے وہیں چلے گئے الاؤ بجھ گیا ادندھیرا ہوگیا ہم وہیں بیٹھے رہے ہمارا دل بہلانے کو آسمان پر لاکھوں تارے موجود تھے بڑی دیر تک ہم ان سے کھیلتے رہے ہم جو چاہتے تارے وہی شکل اختیار کرلیتے پھر بادل آتے گئے تارے چھپتے چلے گئے آسمان بے نور ہوگیا ہمارا جلایا ہوا الاؤ بھی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا تھا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میں نے سوچا ہم یہاں کیوں آئے ہیں کیا بس ایک برف میں چھپی ہوئ جھیل کو دیکھنے یا یہ ثابت کرنے کہ ہم انتہائ سخت موسم میں زندہ رہ سکتے ہیں یا کوئ اور وجہ تھی شائد ہم وہ پروانے تھے جو شمع پر قربان ہونے پہنچ گئے تھے بلا سوچے سمجے نتیجہ یا نقصان کی پروا کئے بغیریہی عشق کی پہلی سیڑھی ہے نتیجہ سے بے پروا ہونا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"سلسلہ قاف کی ایک جھیل میں جہاں صنوبر کے بہت سے درخت ایستادہ ہیں اور جس کے کنارے گھنے بید کی شاخیں صدیوں سے سورج کو روکے کھڑی ہیں ایک ڈونگا تیر رہتا ہے جس میں ایک جواں سال شہزادی بال کھولے لیٹی رہتی ہے اس علاقے کے متعدد دیو مالا نے اس شہزادی کی زندگی سے وقت کو خارج کردیا ہے اور شہزادی کی عمر آج بھی اتنی ہی ہے جتنی آج سے کئ ہزار برس پہلے تھی۔ جب شہزادی کو اس گھو راندھیرے میں زندگی بسر کرتے کے قرن گزر گئے تو اس نے بید کے جھنڈ میں چہچہانے والی چڑیوں سے درخواست کی کہ وہ کہیں سے اسے روشنی کی ایک کرن لادیں لیکن چڑیاں اسی طرح چہچہاتی رہیں۔ اس نے صنوبر کی شاخوں میں بسیرا لینے والے پرندوں سے گڑگڑا کر کہا کہ وہ روشنی کے پہاڑ سے اجالے کی ایک ڈلی توڑ کر لادیں پر اسکی گڑگڑاہٹ جھیل میں ڈوب کر رہ گئ۔ان تاریک لمحوں میں ایک شام وہ رشنی کی تمنا میں سسکیاں بھر رہی تھی تو پروانوں کا ایک گروہ ادھر آنکلا۔ شہزادی نے انہیں پکار کر اپنی طرف بلایا اور کراہتے ہوئے کہا۔"میں روشنی کی ایک کرن کیلئے ترس گئ ہوں اور میرے ساتھی میری مدد نہیں کرتے تم میں سے جو کوئ مجھے روشنی لادے گا میں اس کے ساتھ شادی کرلوں گی" یہ سنتے ہی پروانے دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل گئے اور روشنی حاصل کرنے کیلئے شمعوں پر جل جل کر مرنے لگے کئ سال گزر گئے ان پروانوں کے بچے اور پھر ان کے بچے اور ان بچوں کے بچے شہزادی کا سوئمبر جیتنے کی غرض سے دھڑا دھڑ جلتے رہے لیکن وہ اس ڈونگے کا کوئ کونہ منور نہ کرسکے۔ صدیاں گزر گئیں زمانے بنتے اور بگڑتے رہے اور پروانے جلتے رہے ایک دن ایک کاہل جگنو اچانک اس وادی میں جانکلا اور اڑتا گھومتا بید کی شاخوں سے ہوتا ہوا اس جھیل کے کنارے پہنچ گیا شہزادی خوشی سے چلا اٹھی اس نے اپنی بانہیں آگے پھیلا کر کہا "تم میرے لئے روشنی لے آئےمیرے پروانے" جگنو شہزادی کی بات سمجھے بغیر اس کی جھولی میں گرگیا اور شہزادی کے چہرے پر روشنی کی لہریں مٹنے ابھرنے لگیں اس نے جگنو سے شادی کرلی اور ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے لیکن اس شادی کی خبر پروانوں کو آج تک نہیں ملی وہ اسی طرح جل رہے ہیں اور شعلوں پر جھپٹ رہے ہیں آج بھی ہر پروانہ جو سر سے کفن لپیٹے شعلے کی طرف لپکتا ہے یہی سمجھتا ہے کہ اس نے سہرا باندھ رکھا ہے اور وہ شہزادی کو بیاہنے جا رہا ہے۔"(اشفاق احمد گڈریا ۔۔ایک پرانی روایت) </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ہم بھی ایسی ہی پروانے تھے جو اس رات جھیل کی شہزادی کیلئے اپنے پروں میں آگ لگا کر روشنی لئے پہنچے تھے اور ہم اسی آگ کی حدت کے سہارے زندہ تھے جو ہمارے پروں میں لگی تھی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اسکی حدت میں کمی آتی جارہی تھی گزرتی رات ہماری زندگی کی آخری رات ثابت ہوسکتی تھی ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا تھا اس سے بچنے کیلئے ہم اٹھے اور خیمہ کے اندر اپنے بستروں میں جاگھسے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
سنا ہے کہ جو لوگ سردی سے اکڑ کر مرتے ہیں وہ مسکراتے ہوئے ملتے ہیں ایسا عضلات کے اکڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن موت کیا صرف موت ہوتی ہے ایک ایسا تجربہ ہے جس کے بارے میں کوئ بھی نہیں بتا سکتا مرنے سے پہلے ایک انسان پر کیا کچھ بیت جاتا ہے اس کے بارے میں کوئ نہیں بتا سکتا کتنے سارے خیالات کتنی ساری کیفیات وابستہ ہوتی ہونگی اس کے ساتھ جن کے بارے میں کوئ نہیں جانتا جو یہ جھیل جاتا ہے وہ بتا نہیں سکتا بے شک ایک دن ہم سب اسی تجربہ سے گزریں گے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ہمارے خیمے کی چادر کے نیچے کچی برف تھی اور اس پر ہمارے بستر لگے ہوئے تھے تو جب ہمارے جسموں کے وزن اس برف پر پڑتے تو وہ دھنسنا شروع ہوجاتی کروٹ بدلنے پر یہ عمل ہو بار ہوتا اور "کھر کھر اور کھرچ کھرچ " کی آواز نکلتی اور ایسا ہر چند لمحے بعد ہوتا یعنی ہم سب ہی بے آرام تھے جب ہم اندر آئے تھے تو میں نے گھڑی میں وقت دیکھا تھا تب رات کے پونے دس بجے تھے یعنی ابھی بہت رات کاٹنا تھی برف میں کافی دیر چلنے پھرنے سے میرے جوتے گیلے ہوگئے تھے اور موزے بھی جب تک میں باہر تھا تو سردی اس قدر نہیں محسوس ہورہی تھی جتنی کہ اندر آنے پر جوتے اتارنے کے بعد سے ہونا شروع ہوگئ تھی دوسرے اپنے بیگ کے مکمل چھان بین کے بعد میں موزوں کی دوسری جوڑی ڈھونڈنے میں ناکام رہا تھا وہ تو اللہ بھلا کرے رانا صاحب کا کہ انہوں نے اپنے بیگ سے مجھے دوسرے موزے نکال دئے تھے لیکن ٹھنڈے پیروں پر صرف موزے چڑھا لینے سے سردی میں کوئ کمی نہیں آئ تھی میں اپنے سلیپنگ بیگ کے اندر لیٹا کبھی ہلکے ہلکے اور کبھی بری طرح کانپ رہا تھا مجھے لگ رہا تھا جیسے میری ٹانگیں ٹخنوں کے نیچے سے کٹ چکی ہیں </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"یار ایسا سونا تو بہت مشکل ہے" میرے الفاظ کچھ اندر ہی جم گئے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"سو چا چپ چاپ" رانا صاحب نے بھی ہلکورے لیتی ہوئ آواز میں ڈانٹا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"چپ تو کرجاؤنگا لیکن سو نہیں پاؤنگا" میں نے دہائ دی لیکن کوئ جواب نہیں آیا تھوڑی دیر بعد میں نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولنا چاہا تو میرے دانت کٹکٹانا شروع ہوگئے اور دوسری طرف سے رانا صاحب کے خراٹے بلند ہوئے مجھے انکی اس نیند پر رشک آمیز غصہ آیا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میں آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کرتا لیکن نیند تو کیا آتی میں نے محسوس کیا کہ مصطفیٰ اور فرخ بھی اپنے بستروں میں پڑے کانپ رہے تھے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"یار ٹمپریچر کیا ہوگا ابھی" میں نے دونوں سے ہی سوال کیا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"مائنس ٹویلو سے زیادہ ہوگا(زیادہ مطلب کم)" فرخ کا جواب آگیا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"یہ کیسے پتہ بھائ" میں نے پوچھا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"یار میرا سلیپنگ بیگ اتنا ہی سپورٹ کرتا ہے اور مجھے بھی سردی لگ رہی ہے شاید منفی پندرہ سے نیچے ہو کچھ" فرخ کے جواب کے بعد سردی اور زیادہ محسوس ہونا شروع ہوگئ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"واہ بھائ کیا تیرا تھرمامیٹر ہے" مصطفیٰ نے داد دی </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"فرخ بھائ ابھی کوئ نہیں کوئ نہیں مائنس اٹھارہ انیس ہوگا ٹمپریچر" عدیل نے تصیح کی </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"اور بھائ چپ ہوجا یار اور سردی لگ رہی ہے" مصطفیٰ ٹھہر ٹھہر کر اپنا جملہ مکمل کیا جس پر کفیل نے ایک دھیما قہقہ لگایا ساتھ ہی میں بھی ہنسنے لگا اور مصطفیٰ اور فرخ بھی شاید یاسر بھی کیمپ کے اندر ہم سب چاہتے ہوئے بھی اپنی ہنسی روک نہیں پارہے تھے سانس پھولنے لگا اور آنکھوں سے پانی نکلنے کی نوبت آپہنچی لیکن ہنسی نہ رک پائ ایسے میں رانا صاحب کی زور دار "ہوں" کی آواز آئ وہ شاید خواب میں کسی پری سے ملاقات کر رہے تھے اور ہم مخل ہوگئے پھر رانا صاحب کی نیند میں آواز آئ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
" پانی" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کسی نے بھی جواب نہیں دیا انہوں نے بھی دوبارہ کوئ آواز نہیں دی سب ہی خاموش ہوگئے اور خاموشی طویل ہوگئ کافی دیر گزری میں اپنے پیروں کو گرم کرنے میں ناکام رہا اور سردی سے بے حال اٹھ کر بیٹھ گیا کیمپ کے اندر ایک ٹارچ روشن چھوڑ دی گئ تھی یاسر نے مجھ سے وجہ پوچھی اور پھر ایک گرم شال میرے طرف پھینکی کہ اس سے اپنے پیر ڈھانپ لوں سلیپنگ بیگ کے اندر میں نے وہ شال اپنے پیروں کے گرد لپیٹ لی اور دوباری لیٹ گیا میرے اٹھنے اور دوبارہ لیٹنے میں مشکل سے کوئ بیس سیکنڈ کا وقفہ ہوگا لیکن تب تک بستر ٹھنڈہ ہوچکا تھا اور ایسا پہلی بات نہیں ہوا تھا چت لیٹ کر بستر گرما لیں اور کروٹ لیں اور فورا دوبارہ اسی رخ پر پلٹ جائیں تو بھی بستر ٹھنڈا ہی ملتا تھا میں نے وقت دیکھا گیارہ بجے تھے ایک طویل سرد رات کو ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی بلکہ شہری اعتبار سے تو ابھی رات شروع بھی نہیں ہوئ تھی۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کہتے ہیں کہ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے ویسے تو یہ باکل غلط بات ہےلیکن کچھ دیر بعد میری آنکھ لگ گئ اور تب کھلی جب رانا صاحب پانی کیلئے ایک مرتبہ پھر آواز لگا رہے تھے اس بات کفیل اپنے بستر سے نکلا اور سامان میں دبی ہوئ پانی کی ایک بوتل نکالی اسے ہلایا بوتل ہلانے پر اندر سے "کڑ کڑ " کی آوازآئ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"عثمان بھائ پانی جم گیا ہے" کفیل نے اعلان کیا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"یار کوئ مالٹا پڑا ہوگا دیکھو میرا حلق سوکھ گیا ہے" رانا صاحب واقعی پیاسے ہورہے تھے </div>
<div style="text-align: right;">
کفیل نے ایک مالٹا چھیل کر رانا صاحب کو دیا اور اسے منہ میں رکھتے ہی رانا صاحب نے کہا "یار یہ بھی جما ہوا ہے" </div>
<div style="text-align: right;">
"سر جی ابھی تو کچھ نہیں کرسکتے آپ تھوڑا سا کھا لیں حلق تو گیلا ہوجائے گا" کفیل نے صورت حال سے آگاہ کیا </div>
<div style="text-align: right;">
رانا صاحب اپنے بسترمیں دراز ہوچکے تھے رات بھر اسی طرح آنکھ لگتی اور کھلتی رہی ایک مرتبہ آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ فرخ اپنے بستر میں بیٹھا ہوا تھا اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی آخری مربتہ جب آنکھ کھلی تو مجھے خیمے کے پردے کے باہر روشنی محسوس ہوئ یعنی کہ ایک طویل سرد رات اختتام کو پہنچنے والی تھی باقی سب بھی اپنے اپنے بستروں میں پڑے کسمسا رہے تھے کچھ دیر میں جب سورج نکل آیا تو ایک ایک کرکے باہر نکلے ہمارے باہر آتے ہی عدیل اور باقی لڑکوں نے سامان باندھنا شروع کردیا سورج نکل چکا تھا اور تمام جہاں روشن تھا تمامتر منظر سفید براق صبح کی روشنی میں سفیدی کچھ نیلگوں سی تھی رات کے اندھیرے میں جو کچھ چھپ گیا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
تھا وہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے سامنے عیاں ہوگیا اور ایسی اجلی صبح اس منظر کو چھوڑ کر ہمیں چلے جانا تھا یہ ایسا ہی تھا کہ بھری محفل سے کوئ دنیا چھوڑ کر جاتا ہے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ع</div>
<div style="text-align: right;">
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آجائے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
لیکن ہم خود بھٹک رہے تھے اپنی مرضی سے سامنے منزل کو چھوڑ کر جارہے تھےمیں جھیل کی طرف چہرہ کئے کھڑا تھا </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
آخری منظر کو یاد بنا کر اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا پھر میں پلٹا جھیل کی طرف سے آواز آئ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"رک جاؤ ۔۔۔نہ جاؤ" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"میں نہیں رک سکتا" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"تم تو کہتے تھے تمہیں مجھ سے محبت ہے" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"مجھے تم سے محبت ہے لیکن میں رک نہیں سکتا" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"میں نے پہلے ہی کہا تھا یہاں کوئ زندگی نہیں بتا سکتا" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"تم نے ٹھیک کہا تھا۔۔۔۔مجھے اجازت دو" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"تم بھی ان ہزاروں لوگوں میں سے نکلے جو مجے چھوتے ہیں، میرے بدن سے اپنی خوشی کے لمحات نچوڑتے ہیں اور پھر پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے چلے جاتے ہیں آتے ہیں تو صرف مجھ سے جھوٹی محبت کا دعوہ کرتے ہیں" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"میری محبت جھوٹی نہیں لیکن میں رک نہیں سکتا" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"رک جاؤ ۔۔۔مجھے بھی تم سے محبت ہے" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"ہم ایک دوسرے سے محبت نباہ نہیں سکتے بہتر ہے مجھے اجازت دو بہت کچھ ہے جس سے میں جکڑا ہواہوں" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"کوئ نشانی دے جاؤ" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"کیایہ کافی نہیں کہ میں یہاں آیا تھا اور میری کچھ سانسیں ابھی بھی موجود ہیں" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"کچھ دیر ہی رک جاؤ" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"نہیں بس اتنا ہی وقت لکھا تھا جو دے چکا" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"اچھا۔۔۔۔جاؤ تمہیں اجازت ہے" </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میں نے ایک آخری نظر ڈالی اور پلٹ گیا اور واپسی کے راستے پر چل دیا کفیل میرے برابر سے گزرا اس کے کندھے پر سامان لدا ہوا تھا اور اس میں وہ خیمہ بھی تھا جس میں ہم نے رات گزاری تھی </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgB7m3ALDJUq5N9KvCg5chrX1q0PhsVUl4RG08TNrrmDS8cVEPrRCHvvOh5IILw0JskbBjZe5ReJmvzMA0ajsTw9K1GtqwHAoj2V7WZFgt1Eq1qyGKof1h_24C_GZPd52NSt8bcfofruyTU/s1600/IMG_9650.JPG"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgB7m3ALDJUq5N9KvCg5chrX1q0PhsVUl4RG08TNrrmDS8cVEPrRCHvvOh5IILw0JskbBjZe5ReJmvzMA0ajsTw9K1GtqwHAoj2V7WZFgt1Eq1qyGKof1h_24C_GZPd52NSt8bcfofruyTU/s640/IMG_9650.JPG" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg7RzKDMhiDfbjoIKFIB2QQcatSDz9R8XWo1q9WvWhlqVhEAKNVdx31AtR1UfkwuucwOQODRQjTFO_PflOfRZQFv4Ih3UWOHndbIRKRwu1twcW4h9JeQaoDxmNZO0252-HFl8GPlYfpHLvA/s1600/IMG_9506.JPG"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg7RzKDMhiDfbjoIKFIB2QQcatSDz9R8XWo1q9WvWhlqVhEAKNVdx31AtR1UfkwuucwOQODRQjTFO_PflOfRZQFv4Ih3UWOHndbIRKRwu1twcW4h9JeQaoDxmNZO0252-HFl8GPlYfpHLvA/s640/IMG_9506.JPG" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhXPhVBACGj6hWZyQV8mri4a3CnR8Rw1X4G_tdlXfw1mB9-Lsz-TdI3d5XtPJ0JAwHe2juezJzfQTvvRo-SYIcxcm9lckEDEN67tSUrGJzyd-7-FyOZoVZe6ZKn8hbR18gBvHv-X3p86x8U/s1600/IMG_9710.JPG"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhXPhVBACGj6hWZyQV8mri4a3CnR8Rw1X4G_tdlXfw1mB9-Lsz-TdI3d5XtPJ0JAwHe2juezJzfQTvvRo-SYIcxcm9lckEDEN67tSUrGJzyd-7-FyOZoVZe6ZKn8hbR18gBvHv-X3p86x8U/s640/IMG_9710.JPG" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjFDFrE1BMQVuh2ObpEalTMuhQm7Nq_KFNvJIkLLaTs05QWLmlOtmidk-nfdX2Vvj-681aaoIMKpbdt6y6O9CcNzimF7ltVWaSHHyG6HFo9vflJX67nNk3Z5R2beXPpeipIib__NG_GPeLU/s1600/IMG_9720.JPG"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjFDFrE1BMQVuh2ObpEalTMuhQm7Nq_KFNvJIkLLaTs05QWLmlOtmidk-nfdX2Vvj-681aaoIMKpbdt6y6O9CcNzimF7ltVWaSHHyG6HFo9vflJX67nNk3Z5R2beXPpeipIib__NG_GPeLU/s640/IMG_9720.JPG" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi8VuYhQO3-44q78YPXVySC7m276jmhQUCCqOnCWxgy_KT3Ilolztt4bj9eVjJmTwym-oxPpy5-8O47qa1tosHY7RH346N0K894V8SfFhyphenhyphenJ3f0lYZYGg47I1wqE_2_kGELhHWDwRWspPEJU/s1600/IMG_9481.JPG"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi8VuYhQO3-44q78YPXVySC7m276jmhQUCCqOnCWxgy_KT3Ilolztt4bj9eVjJmTwym-oxPpy5-8O47qa1tosHY7RH346N0K894V8SfFhyphenhyphenJ3f0lYZYGg47I1wqE_2_kGELhHWDwRWspPEJU/s640/IMG_9481.JPG" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg_ye_lvu0IWEgmzx0DMrzsqCHrPXBjmVbuKTcJCcMPvFnDr06ITDWM6n0iQzxB2kRIBW7DOH5prrCDhMNsTCgCbLprytA6K0WsDQnhIsxZkr0Yu5pobdTZQhKXB7L0V_U6WYfAigAQzKiC/s1600/IMG_9790.JPG"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg_ye_lvu0IWEgmzx0DMrzsqCHrPXBjmVbuKTcJCcMPvFnDr06ITDWM6n0iQzxB2kRIBW7DOH5prrCDhMNsTCgCbLprytA6K0WsDQnhIsxZkr0Yu5pobdTZQhKXB7L0V_U6WYfAigAQzKiC/s640/IMG_9790.JPG" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: justify;">
<div style="background-color: white; color: #141823; display: inline; line-height: 19.3199996948242px; margin-top: 6px; text-align: right;">
</div>
<span style="font-family: "times" , "times new roman" , serif;">
</span>
<br />
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: "times" , "times new roman" , serif;"><span style="line-height: 19.3199996948242px;"></span></span>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<span style="font-family: "times" , "times new roman" , serif;"><span style="line-height: 19.3199996948242px;">
</span>
</span><br />
<span style="line-height: 19.3199996948242px;"><span style="font-family: "times" , "times new roman" , serif;">
</span></span></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
</div>
</div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com19tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-9758889168675342902015-06-03T12:48:00.002+05:002015-07-02T15:24:23.193+05:00صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کوئ بھی اگر مجھ سے پوچھتا ہے کہ اور آپ کے کیا شوق ہیں تو میرا جواب دھڑ سے یہ ہوتا ہے کہ "مجھے مطالعہ کا شوق ہے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ایک جاب انٹرویو میں جب میں نے یہی جواب دیا تو انٹرویو لینے والے صاحب بھی شاید مطالعہ کے شوقین تھے انہوں نے سوال کرلیا " آجکل آپ کے مطالعہ میں کونسی کتاب ہے"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میں اس سوال پر گھبرا گیا کیوںکہ اس وقت کسی ایسی کتاب کا نام میرے ذہن میں فوری طور پر نہیں آیا جو کہ میرے مطالعہ میں ہوسکتی تھی آئیں بائیں شائیں کرکے بات گھمائ اور جان بچی لیکن نوکری نہ مل سکی خیر۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اسکے بعد میں محتاط ہوگیا</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ایک اور جگہ جب یہی جواب دیا تو آگے سے سوال آیا کہ " کس قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"میں تو تمام ہی قسم کی کتب کا مطالعہ کرتا ہوں مخصوص کوئ موضوع نہیں"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"لیکن پھر بھی کوئ تو پسندیدہ صنف ہوتی ہی ہے" وہ صاحب لٹک رہے تھے</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"جی پسندیدہ تو نہیں ہاں ناول زیادہ پسند ہیں" ہم نے اپنے تئیں بات ختم کی</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
جواب میں انہوں نے چار پانچ مصنفین کے نام لئے دو چار مشہور ناولوں کے بارے میں سوال کئے اور ہم بغلیں جھانکتے رہ گئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اس واقعہ کے بعد ہم نے دو چار کتابوں کا آدھا سودھا مطالعہ کیا چند ایک مصنفین کا نام یاد کرلیا اور اردو ادب میں کتابوں کی فہرست دیکھ کر کافی کتابوں کے نام یاد کرلئے اور انکو موضوعات کے حساب سے بانٹ کر ذہن نشین کرلیا جیسے ناول، فلسفہ، سفرنامے،طنز و مزاح,ترقی پسندادب وغیرہ اور اس فہرست کی بنیاد پر مباحث میں حصہ لینا شروع کیا کہیں کہیں تو اپنے مطالعہ اور علم کی دھاک بٹھانے میں کامیاب ہوجاتے اور کہیں ہمارا پول کھل جاتا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
پھر ہم نے ایک اور حربہ آزمایا اور کافی کامیابی حاصل کی ہم نے ایسے مصنفین کی ایک فہرست نکالی جو کہ عام طور پر عوام کے زیر مطالعہ نہیں رہے ہوتے جن میں زیادہ تر غیر ملکی تھے جیسے پولینڈ، فرانس، روس، ترکی، ایران اور ان میں سے چند کے مشکل مشکل نام رٹ لئے اور انٹرنیٹ اور گوگل سے ان کے بارے میں گفتگو کرنے کو چیدہ چیدہ معلومات اور مشہور کتابوں کے نام بھی رٹ لئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اب اگر کوئ مجھ سے کہتا کہ آپ نے قراۃالعین حیدر کا " آگ کا دریا پڑھا ہے" تو میرا جواب ہوتا وہ تو نہیں پڑھا لیکن اس موضوع پر ایک پولش رائٹر ہیں"برونو شیولز" انکا ناول پڑھا ہے آپ نے پڑھا ہے انکو؟" اکثر بلکہ ہمیشہ جواب نفی میں ہوتا تو ہم بڑی بے نیازی سے انکو شیولز صاحب کی چند ایک کتابوں کے نام بتاتے اور کہتے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"پڑھئے گا اگر وقت ملے مارکیٹ سے تو شاید نہ مل سکیں میرے پاس ہیں اگلی مرتبہ آپ کو لادوںگا پڑھ کر واپس کردیجئے گا"</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
روسی ادباء میں صرف میگسم گورکی کی کتاب" ماں" اور دوستووسکی کی "ذلتوں کے مارے لوگ" پڑھنے کے بعد میں پورے روسی ادب پر دسترس حاصل کرلی اور گفتگو میں دیگر مصنفین کا ذکر شامل کرکے بات میں وزن پیدا کرنے کا ہنر تو میں بتا ہی چکا ہوں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
فلسفہ پر بات ہوتی ہے تو ہم <b>"نٹشے"</b> کا تیر چلاتے ہیں کیوں کہ وہ ایک مانا ہوا اور جانا ہوا فلسفی گزرا اوراس وقت ہمیں ایک ہی نام معلوم تھا کوئ پیچیدہ مسئلہ ہو یا بات میں زیادہ وزن زیادہ درکار ہو تو <b>"جون لوھک"</b> یا <b>"پلاٹو"</b> یا زمانہ قبل از تاریخ کا کوئ فلسفی یا مفکر نکال لاتا ہوں تاکہ کوئ بات کرنے کے قابل نہ رہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
دوسری چیز ہے اختلاف رائے اگر کوئ بات کرے کہ انتظار حسین اس صدی کے سب سے بڑے افسانہ نگار ہیں تو ابتدائ بحث کے بعد فوراّ کسی مغربی افسانہ نگار کو انکے مد مقابل لا کھڑا کرتا ہوں اور میرا ترپ بتا یہ ہوتا ہے کہ پہلے انکو بھی پڑھ لیں پھر موازنہ کریں انتظار حسین کی چند ایک کتابوں کے نام دوران گفتگو درمیان میں لانا ضروری ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میرے پاس تھوڑی بہت کتابیں ہیں اور ان میں سے بھی بہت کم ایسی ہیں جو میں نے پوری پڑھ رکھی ہیں زیادہ تر کچھ صرف آدھی یا اس سے کم چند ایک کو صرف ابتدائ حصہ پڑھ کر چھوڑا لیکن شیلف میں سجا کر سب کو رکھا اور آج بھی پرانی کتابوں کے ٹھیلے سے سستی قیمت میں پرانی کتابیں لاکر شیلف سجاتا رہتا ہوں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میں نے تو سچ بول دیا ہے یقین کرنا یا نہ کرنا پڑھنے والے پر منحصر ہے</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com7tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-24676278038545886322015-05-15T03:06:00.000+05:002015-06-11T19:13:59.188+05:00زندہ دلان کراچی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کراچی کے بارے میں لکھنے کو قلم اٹھاتا ہوں تو قلم روشنائ کے بجائے خون اگلتا ہے ہمیشہ ہی جب میں شہر سے باہر جاتا ہوں تو ایک سوال جو مجھ سے یہ جاننے کے بعد ضرور کیا جاتا ہے وہ یہ کہ کراچی میں تو حالات بہت خراب ہیں ہر روز ہی کچھ نہ کچھ ہورہا ہوتا ہے اور میرے پاس کوئ جواب نہیں ہوتا میں خاموش ہوجاتا ہوں شرمندگی سے سر جھکا لیتا ہوں کہ میرے پاس اس بات کا کوئ جواب نہیں ہوتا واقعی میڈیا پر ہر روز ہی کراچی کے حوالے سے کوئ نہ کوئ منفی خبر ضرور ہوتی ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">سنہ دوہزار چودہ میں(2014) صرف کراچی میں مختلف واقعات میں دوہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یاد رہے کہ یہ صرف قتل و غارت گری کی وارداتوں کے اعداد و شمار ہیں جن میں ٹارگٹ کلنگ سر فہرست ہے لوٹ مار اور دیگر واقعات میں مارے جانے والوں کی تعداد اسکے علاوہ ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اس سال یعنی دوہزار چودہ میں ہی چالیس ہزار سے زائد لوٹ مار کے واقعات ایسے ہیں جو پولیس کے ریکارڈ میں درج کئے گئے جن میں سرفہرست رہزنی یعنی گن پوائنٹ پر موبائل فون اور نقدی وغیرہ چھیننے کے واقعات ہیں اسکے علادہ گاڑیاں </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اور موٹر سائکلیں چھیننے کے واقعات ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اغوا برائے تاوان، زنا بالجبر اور اجتماعی زیادتی جیسے مکروہ واقعات کا تذکرہ اگر کیا جائے تو یہ فہرست مزید لمبی ہوتی </span><span style="font-size: large;">چلی جائے گی</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے کراچی کو آگ وخون میں گھراہوا ہی دیکھا ہے اس شہر میں کبھی بھی آپ کے ساتھ کسی قسم کی واردات ہوسکتی ہے گن پوئنٹ پر آپ کا موبائل یا گاڑی چھینی جاسکتی ہے یابزور بندوق آپ کے اے ٹی ایم سے منچاہی رقم نکلوائ جاسکتی ہے یا گھر میں گھس کر واردات ہوسکتی ہے اور سب سے تکلیف دہ بات کہ یہ لٹیرے اپنی کارروائ مکمل کرنے کے بعد آرام سے نکل جاتے ہیں اور آپ کی کوئ سنوائ نہیں ہوتی سنوائ ہوبھی جائے حل کوئ نہیں نکلتا نا ہی یہ سب بند ہوتا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اسکا ذمہ دار کون ہے اوریہاں حالات بہتر نہ ہونے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں یہ میرا موضوع نہیں یہ بالکل بھی کوئ سیاسی مضمون نہیں ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">شہر قائد کبھی لسانی فسادات کی گردش میں رہا اور یہاں کی سڑکوں پر مسلمانوں کے ایک دوسرے کا قتل عام صرف اس وجہ سے کیا کہ سامنے والا کوئ دوسری زبان بولنے والی وقوم سے تعلق رکھتا تھا کبھی اردو بولنے والوں کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی پشتو کبھی بلوچی تو کبھی سندھی ہر کوئ ایک دوسرے پر اپنی حق تلفی کا الزام لگاتا رہا اور اپنا اور دوسروں کا خون بہاتا رہا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کبھی یہ شہر مذہبی فسادات کی لپیٹ میں رہا شیعہ سنی آپس میں دست وگریبان رہے کبھی شیعہ امام بارگاہوں میں لاشیں گرتیں تو کبھی سنی مساجد میں نمازیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا پھر دونوں جماعتوں کو عقل آگئ اور یہ کھلم کھلا لڑائ بند ہوئ ہوتا اب بھی ایسا ہی ہے اور زیادہ تر بیچارے شیعہ حضرات نشانہ بنتے ہیں سنی بھی بچے ہوئے نہیں ہیں لیکن اب ایک دوسرے پر الزام تراشیاں نہیں کرتے بلکہ کسی بیرونی ہاتھ کو اسکا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور حقیقت بھی شاید یہی ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اگر کسی کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ کراچی انکا ہے تو اسکا ثبوت پیش کرنے کیلئے وہ کراچی بند کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ آج بھی ہم ساڑھے سات منٹ میں پورا شہر بند کرواسکتے ہیں اگر کروالیتے ہیں تو کوئ کمال نہیں کرتے وہ ایک مزدور جو صبح روزی کمانے نکلتا ہے اور شام کو آپ کی وجہ سے خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے وہ ان خالی ہاتھوں سے آپ کیلئے تالیاں نہیں پیٹتا بلکہ وہی ہاتھ اٹھا کر آپ کیلئے بد دعا کرتا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ہر کسی کا جس کا جہاں جہاں زور چلتا ہے وہ اپنا زور دکھانے کو وہاں کے مزدوروں کو خالی ہاتھ گھر لوٹاتا ہے کاروبار بند کرواتا ہے کچھ گھروں میں چولہا نہیں جل پاتا تو کیا ہوا انکا زور تو ثابت ہوجاتا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">سوگ ، ہڑتالیں ،احتجاج، ریلیاں ،جلسے جلوس اور سڑکیں بند کرنا اور اسکے نتیجے میں پولیس اور عوام کا تصادم اور دنگا فساد اسکے علاوہ ہے جو عام شہریوں کیلئے ہمیشہ ہی تکلیف کا باعث بنتا آیا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ان جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کے دوران جو املاک کو تقصان پہنچتا ہے وہ الگ کتنی ہی گاڑیاں ،منی بسیں،ٹرک، ٹرالر، دوکانیں، پٹرول پمپس اسکے علاوہ ہزاروں ٹائر اور فرنیچر ایسا ہے جو اس شہر کی سڑکوں پر جل کی خاک ہوا ہے۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ملک کی سب بڑی جامعہ میں ان سب واقعات کی وجہ سے طلباء کا پورا تعلیمی سال برباد ہوجانا کوئ اچھنبے کی بات نہیں آئے دن ہونے والے طلبا تنظیوں کے مابین تصادم اور جامعہ میں ہمہ وقت رینجرز کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ہار مان چکے ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ان سب کے علاوہ آئے دن ہونے والے بم دھماکے الگ ہیں جن میں ایک بہت زور دار دھماکے کے ساتھ ہی بہت کچھ ختم ہوجاتا ہے سینکڑوں مر جاتے ہیں اتنے ہی زندگی بھر کیلئے اپاہج ہوجاتے ہیں لاکھوں روپے کی املاک مٹی میں مل جاتی ہے بیسیوں لوگ کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کراچی کی مٹی کی بلاتخصیص بچہ بوڑھا، عورت مرد، کالا گورا، امیر غریب، جاہل عالم، سب کے خون سے سینچائ ہوئ ہے کہتے ہیں کراچی کی مٹی ذرخیز نہیں یہاں پھل پھول نہیں کھلتے سبزہ نہیں ہوتا بھلا جس شہر کی مٹی میں خون کی ملاوٹ اتنی زیادہ ہو وہاں کون سا پھل پیدا ہوگا سوائے نفرت کے اور کون سا پھول کھلے گا سوائے قبر پر ڈلنے والے گلاب کے۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اس شہر کی زندگی میں کب کیا ہوجائے کچھ اندازہ نہیں صبح آپ گھر سے نکلیں تو شام میں گھر واپس آسکیں یہ ضروری نہیں یا رات کوسوئیں تو پتہ نہیں ہوتا کہ صبح کیا حالات ہوں ہوا کس رخ چلے کوئ نہیں بتا سکتا ایک "ان سرٹین" زندگی ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کراچی کے حالات کے پیش نظر زمبابوے کی کرکٹ ٹیم جہاں خود خانہ جنگی کے حالات ہیں دورہ کرنے سے منع کردیتی ہے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم تو ایک طرف ملک کے وزیر اعظم سمیت بڑے بڑے سیاستدانوں کے سامنے جب دورہ کراچی کی بات آتی ہے تو کراچی کے محاورے کے مطابق " خوف سے پھٹ کے ہاتھ میں آجاتی ہے"</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اس شہر میں اتنا سب کچھ ہوتا رہا ہے، ہورہا ہے اور میری دعا ہے کہ ایسا ہوتا نہ رہے لیکن پھر بھی آج بھی کراچی ہی پورے ملک کا آدھے سےرزق پیدا کررہا ہے آج بھی اس شہر میں نئے روزگار کے مواقع موجود ہیں، آج بھی شہر کی سڑکوں پر نئے ماڈل کی گاڑیاں چل رہی ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اتنا سب کچھ ہوتا ہے لیکن آج بھی یہاں کے رہائشی ہنستے ہیں مسکراتے ہیں خوشیاں بھی مناتے ہیں، آج بھی ہمارے شہر کے پارکوں میں رش ہوتا ہے بچے بوڑھے سب ہی موجود ہوتے ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اتنا سب کچھ ہوتا ہے لیکن ہمارے چائے خانوں پر آج بھی رش ہے، سینما ہال آج بھی ہاؤس فل ہوتا ہے، نئے شاپنگ مال آج بھی بن رہے ہیں اور چل بھی رہے ہیں لوگ خریداری کر رہے ہیں آج بھی آپ ہفتہ اور اتوار کو کسی ریسٹورنٹ میں کھانے کی غرض سے جاتے ہیں تو لکھوا کر لے لیجئے کہ آپ بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ پہنچتے ہی آپ کو بیٹھنے کی جگہ مل جائے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اتنا سب کچھ ہوتا ہے لیکن ہفتہ کی رات کو ساحل سمندر پر موٹر سائیکل کی ریس اب بھی لگتی ہے، پورے شہر سے ہفتہ بھر کی تھکن ختم کرنے لوگ اپنے بال بچوں کے ساتھ ہفتہ کی رات کلفٹن کے ساحل پر بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں کراچی کی سڑکوں پر نوجوان آپ بھی نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کرتے ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">آپ شاید یہ سوچیں کہ کراچی کی عوام بے حس ہوچکی ہے یہ بے حسی نہیں کراچی زندہ دلوں کا شہر ہے ہم نے مشکل حالات میں جینا سیکھ لیا ہے ہمارے پاس کوئ دوسرا آپشن موجود نہیں یہ تحریر کراچی کی عوام کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ادنیٰ سی کوشش ہے جو نہایت کٹھن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کراچی واقعی زندہ دلوں کا شہر ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">فیضان قادری</span></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-61971207630075903832015-05-10T15:17:00.002+05:002015-06-15T15:26:22.986+05:00کیا آپ کی شادی نہیں ہورہی؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">(صرف لڑکیاں پڑھیں)</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کیا آپ کی شادی نہیں ہورہی؟</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">کیا آپ کو اپنی پسند کا شریک زندگی نہیں مل رہا؟</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">یا کیا آپ ابھی تک اپنے خوابوں کے شہزادے کا انتظار کر رہی ہیں؟</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اگر ایسا کچھ بھی ہے تو آپ کیلیۓ خوش خبری ہے آپ کی رکی ہوئ شادی ہوسکتی ہے</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">آپ کو اپنا من پسند جیون ساتھی بھی مل سکتا ہے</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اور آپ کے خوابوں کا شہزادہ سفید رنگ کے گھوڑے پر سوار اڑتا ہوا آپ کی والدہ ماجدہ سے آپ کا ہاتھ مانگنے آسکتا ہے لیکن کیسے؟؟</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اتنی بے صبری اچھی نہیں تھوڑا سا انتظار اور کیجئے اور آگے پڑھتی جائیے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ہمارے ملک کی تقریبا تمام ہی ماؤں کا ارمان ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اونچے گھرانے میں کسی اچھا خاصا کمانے والے لڑکے سے کردیں کچھ لڑکیاں تو کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں ہی کوئ ایسا لڑکا "سیٹ" کرلیتی ہیں جو بعد میں "شوہر" بنایا جا سکے اور جو بچ جاتی ہیں انکے لیۓ ایسے کسی "شکار" کیلیۓ اچھے خاصے جتن کئے جاتے ہیں اور اس کے حصول کیلیۓ خاندان اور محلے پڑوس کی عورتیں بھی اس جتن میں شریک ہوتی ہیں بعض مرتبہ رشتے لگانی والیوں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں یہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی کبھی کوئ اچھا اور مناسب رشتہ نہیں مل پاتا اور لڑکیاں گھر بیٹھی رہ جاتی ہیں اب کیا کریں؟ پریشان نہ ہوں یہ تحریر انکے ہی لئے ہے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اگر آپ بھی ان میں سے ہیں جو ابھی تک گھر بیٹھی ہیں اور خواب بن رہی ہیں اور جلد از جلد اپنا گھر بسانا چاہتی ہیں تو آپ مجھ سے دوستی کر لیجئے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اتنی جلدی تنیجہ نہ نکالئے میرا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنا رشتہ آفر کررہا ہوں بقول شخصے میں تو ان لوگوں میں سے ہوں جو گول گپے والے سے دوبار کھٹائ بھی نہیں مانگ سکتے کسی لڑکی کا ہاتھ کیا مانگیں گے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">خیر بات کہیں اور چلی جائے گی تو میں یہ کہ رہا تھا کہ اگر آپ ان میں سے ہیں جو ابھی تک گھر بیٹھی ہیں تو آپ مجھ سے دوستی کرلیں اور کوشش کریں کہ کسی طرح میرے دل میں آپ سے شادی کرنے کا خیال پیدا ہوجائے تو آپ کی والدہ ماجدہ کو پسند کا رشتہ بھی مل جائے گا یا آپ کے خوابوں کا شہزادہ آسمان سے نازل ہوجائے گا میرا یقین کیجئے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اب میں نے بات کی ہے تو ثابت بھی کرنا ہوگا یعنی کہ پروف دینا ہوگا تو اسکے لیے تھوڑا سا ماضی میں چلتے ہیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">یہ تب کی بات ہے جب ہم کالج میں تھے اور ہمارے ساتھ ایک بڑی "کیوٹ" سے لڑکی بھی پڑھا کرتی تھی شیکسپئر نے کہا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے تو نام نہیں بتاتا لیکن ساتھ پڑھتے پڑھتے بات دوستی تک پہنچی اور جب میں نے کالج سے فارغ ہونے کے بعد اگلے دس سالوں کی پلاننگ کرنا شروع کی تو ایک دن مجھے بتایا گیا کہ کالج کے فورا بعد یہ اسکی شادی ہونے والی ہے انکے ابا کے کوئ بچپن کے بھٹکے ہوۓ دوست کہیں سے واپس آگئے اور انکو اس لڑکی میں اپنی بہو نظر آگئ اور کچھ دنوں میں وہ اسے بیاہ کر لے گئے کچھ عرصہ کے بعد راہ چلتے وہ مجھے ملی اور بقول شاعر</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<span style="font-size: large;">دل کے ارماں آنسؤں میں بہ گئے</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<span style="font-size: large;">انکے بچے آج ہمیں ماموں کہ گئے</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">یہ تو ہوا ماضی کا واقعہ اب کچھ حال میں آجاتے ہیں.</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">چند سال پہلے سوکھی سوکھی نوکری کرتے کرتے دل میں خیال آیا کہ کچھ کاروبار بھی کیا جائے بہت سوچ بچار کے بعد ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک بوتیک کھول لیا خواتین کا کام تو ساتھ کوئ خاتون بھی ہونی چاہئیں کسی کے ریفرنس سے ایک صاحبہ نے ہمیں جوائن کیا جو کہ تجربہ کار بھی تھیں یعنی اس سے پہلے اپنے کپڑے خود ڈیزائن کیا کرتی تھیں ویسے تو محترمہ "لوکل" تھیں لیکن سٹائل اور رکھ رکھاؤ میں کافی "ہائ فائ" انکا واحد مسئلہ یہ تھا کہ انکی انگریزی عامر خان کے الفاظ میں "تھڑکی دیر چلے پھر لول ہوئ جائے" کبھی کبھی انکو کوئ بات سمجھائ جاتی تو کہتیں</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">" کہ مجھ میں اتنی <b>"مچیورنس"</b> تو ہے کہ میں یہ بات خود بھی سمجھ سکتی ہوں"</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">بحرحال بات کہیں اور نکلتی جارہی ہے ساتھ کام کرتے کرتے بہت سی باتیں انہوں نے خود ہی بتا دیں مثلا یہ کہ انکی شادی ہوچکی تھی پھر طلاق ہوگئ وجہ یہ تھی کہ جن سے شادی ہوئ تھی وہ برادری کے نہیں تھے اوپر سے عمر بھی کچھ زیادہ تھی اور شائد کچھ نفسیاتی بھی تھے گھر میں بیٹھ بیٹھ کر ڈیپریشن ہورہا تھا تو گھر والوں نے کام پرلگنے کا مشورہ دیا یہ محترمہ اپنے کام میں تیز تھیں پورا دن انٹرنیٹ پر بیٹھ کر ڈیزائن نکالتی رہتیں اور چار پانچ ڈیزائن ملا کر ایک اور نیا ایجاد کرتیں بولنے کی بہت شوقین اور انکا پسندیدہ موضوع اپنے سابق شوہر کی برائیاں کرنا اور اسکی کسی طرح ایک بار پٹائ کرنے کی پلانگ کرنا تھا انہوں نے ایک سوا سال کی شادی شدہ زندگی کی اسقدر تفصیل بار بار بتائ کہ ہمیں واقعات مع کرداروں کے یاد ہوگئیں خیر اتنا کچھ جان جانے کے بعد ہمارے دل میں بھی نرم گوشہ پھوٹ ہی گیا اور ہم نے انکے ساتھ مل کر کئ مرتبہ اس کارروائ کو عملی جامہ پہنانے کی پوری نیک نیتنی سے پلاننگ کی اور ساتھ ہی انکا ضبط شدہ جہیز کا سامان اور گاڑٰی بازیاب کرانے کیلیے علاقے کے غنڈے مدمعاشوں سے معاملات بھی طے کرنے کی کوشش کی خیر یہ الگ بحث ہے کہ نتیجہ کیا نکلا جو بھی نکلا ہو چونکہ دل میں نرم گوشہ پھوٹ پڑا تھا تو ہم نے انکو اس بات پر آمادہ کرنا شروع کیا کہ یہ سب جھنجھٹ چھوڑ کر دوبارہ شادی کرلیں جیسا کہ گھر والے بھی چاہتے ہیں اور جب وہ اپنی اس ضد سے کہ اب وہ زندگی بھر دوبارہ شادی نہیں کریں گی دستبردار ہوگئیں تو میں نے محترمہ سے اپنا مدعہ بیان کرنے سے پہلے اپنی والدہ ماجدہ سے اس بات کو کرنے کا سوچا اور ابھی میں کسی مناسب موقع کی تاک میں ہی تھا کہ ایک دن وہ آئیں اور آتے ہی ہولیں کہ "بھائیو" آپ لوگ یہاں کیلئے کسی اور کو دیکھ لومیری شادی ہورہی ہے اور شادی کے بعد میں کام نہیں کرسکوں گی "ان کو" پسند نہیں ہے اس سے پہلے انہوں نے ہم میں سے کسی کیلئے بھائ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا اس کے بعد وہ تقریبا ایک مہینہ ہمارے ساتھ رہیں اور اس دوران اپنی شادی کے کپڑے ڈیزائن کرتی رہیں اور پھر شادی کرکے چلی گئیں ہم بھی مدعو تھے اور افسوس کی بات ہے کہ گئے بھی۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">یہ تو ہوگئے دو واقعات اب ایک تیسرا بھی سن لیجئےکہ تین سے سند رہتی ہے اسی لئے شائد نکاح کے وقت بھی تین مرتبہ قبول ہے قبول ہے اگلوایا جاتا ہے تاکہ بعد میں دونوں میں سے کوئ مکر نہ سکے خیر چلئے ہماری۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">اب یہ بالکل لیٹسٹ ہےہماری ایک دور کی رشتہ دار ہیں ہم سے کوئ پانچ سات سال عمر میں بڑی ہونگی شادی نہیں ہوئ اب تک پہلے پہل رشتے آتے تھے تو انکی طرف سےکوئ نہ کوئ نقص نکال کر انکار ہوجاتا نتیجہ یہ ہوا کہ رشتے آنا ہی بند ہوگئے بڑھتی عمر کی وجہ سے اماں الگ پریشان رہنے لگیں باقی بھائیوں کی بھی شادیاں ہوگئیں ہم بھی اب ایسے کوئ بچے نہیں رہے ایک دن سوچا کہ چلو ثواب کی نیت سے ہی رشتہ بھیج دیں اور ان سے شادی کرکے نکاح کے علادہ ثواب کا مزہ بھی چکھ لیں ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اڑتی اڑتی خبر آئ کہ موصوفہ کا رشتہ آیا ہے آج ہم تانک جھانک کی نیت سے پہنچے تو دیکھا کہ گھر میں ڈھولک پٹ رہی ہے اور انکا مایوں چل رہا ہے سنا ہے ہونے والے میاں کہیں بیرون ملک مقیم ہیں تو شادی کے فورا بعد یہ بھی چلی جائیں گی۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">ان تین پر ہی بس نہیں گلی محلے کی کون سی ایسی لڑکی بچی ہے جس پر ہم نے اتفاق سے بھی نظر اتلفات ڈالی ہو اور ایک ہی ہفتہ میں گھر پر ڈھولک نہ بجی ہو اب یا تو ہماری ٹائمنگ خراب ہے یا کوئ اور وجہ لیکن یہ بات تو طے ہے آج ہم نے اپنا ٹیلنٹ ڈھونڈ لیا ہے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">بطور آزمائش ہی کوشش کردیکھیں کیا پتہ بھلا ہوجائے۔</span><br />
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjZgF82Ev3lGPoPCUFDcjHIsZrzGaQLYtZnAeIMmBvj4dCqdXEnyrPJqmzFOnbJ9uuxEfkze2lQC19z4h2jJ4s8-YI28q7pjW_u_5I2J9hjUmeq3kZfTpkMqyIT3DZgmX6plPYw1-KmWS-q/s1600/bride.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="271" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjZgF82Ev3lGPoPCUFDcjHIsZrzGaQLYtZnAeIMmBvj4dCqdXEnyrPJqmzFOnbJ9uuxEfkze2lQC19z4h2jJ4s8-YI28q7pjW_u_5I2J9hjUmeq3kZfTpkMqyIT3DZgmX6plPYw1-KmWS-q/s400/bride.jpg" width="400" /></a></div>
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com6tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-54030855516262205482015-05-08T15:09:00.005+05:002016-04-19T23:31:58.712+05:00خالو<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="background-color: white; color: #141823; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; font-size: 14px; line-height: 19.3199996948242px; margin-bottom: 6px; text-align: right;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">دوران گفتگو ہمارے ایک خالو کا ذکر آیا تو سوچا کچھ باتیں ان کی شخصیت پر بھی کرلی جائیں ایسے خالو کسی کےبھی ہوسکتے ہیں کہ خالو پر کسی کا زور نہیں چلتا اور ہمارے خالو پر تو خالہ کا بھی نہیں چلتا۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">خالو کے والد صاحب جوکہ شاید مغل بادشاہوں کے بہت بڑے فین تھے انکا نام سید جلال الدین محمد اکبر رکھا دوسرے بیٹے کا نام جہانگیر رکھا گیا مزید انکا کوئ بیٹا نہ ہوا ورنہ یہ سلسلہ یقینا بہادر شاہ تک جاتا۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">بیٹیوں میں البتہ انہوں نے اردو نثر سے متاثرہ ناموں کی ترویج کی نجم السحر خاتون، رفعت جہاں، شوکت آرہ سنجیدہ، عشرت آرہ، جمیلہ، شکیلہ، نزہت پروین، انجم آرا، صاحبزادی، کلثوم بیگم اور دیگر کسی اورنگزیب عالمگیر کو دنیا میں لانے کی کوشش کے دوران بس پیدا ہوگئیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">بات یہاں وہاں ہواس سے پہلے اسے واپس خالو کی طرف واپس موڑنا ضروری ہے خیر اپنے نام کی طرح خالو بہت جلالی واقع ہوئے اتنے کہ غصہ ہر دم ناک پر رہتا ہے اور اللہ میاں نے انکو ناک بھی بہت لمبی عطا کی ہے تو تادیر وہاں ٹکا رہتا ہے بہت آصولی آدمی ہیں کوئ بات مزاج کے خلاف یا کوئ چیز اس جگہ نہ ملے جہاں وہ ہونی چاھئے تھی تو بس غصہ چڑھنا شرورع اور بات چیت بند۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">عادات کے اتنے پکے ہیں کہ جیسے وہ صبح ناشتے میں رات کی باسی روٹی چائے میں توڑ کر کھاتے ہیں اور ایسا بچپن سے کرتے آرہے ہیں تو اپنی شادی کی اگلی صبح بھی انہوں نے یہی ناشتہ کیا۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں چاہےدنیا ادھر سے ادھر ہوجائے گرمیوں میں جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو چونکہ سورج جلدی نکل آتا ہے اور انکے اٹھنے کا وقت نہیں ہوا ہوتا تو سحری نہیں کرتے پتہ نہیں روزہ کیسے رکھ لیتے ہیں کیوں کہ دوپہر بارہ بجے انکےکھانے کا وقت طےہے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"></span></div>
<div style="background-color: white; display: inline; font-family: 'lucida grande', tahoma, verdana, arial, sans-serif; line-height: 19.3199996948242px; margin-top: 6px; text-align: right;">
</div>
<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">رات آٹھ بجے وہ گھر سے نکل جاتے ہیں اور جا کر گھر سے کچھ دور چوک پر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ وہ بچپن سے وہاں بیٹھتے آرہے ہیں پہلے شروع میں انکے کچھ دوست وغیرہ بھی بیٹھا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ سب ہی مصروف ہوتے گئے اب سنا ہے کہ اکیلے بیٹھتے ہیں اور اپنا ایک گھنٹہ وہاں گزار کر گھر واپس آجاتے ہیں اب چاہے بارش ہو یا حالات خراب اس ایک گھنٹے کے دوران آپکو ان سےملنا ہو وہیں ملیں گے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">اپنے بسترپر ہیں سوئیں گے کہیں بھی اور نہیں انکے لڑکپن میں انکی چھوٹی بہن شوکت آرا سنجیدہ انکے بستر پر سوگئیں یہ انتظار کرتے رہے کہ انکے سونے کا وقت ہو اس سے پہلے وہ خود اٹھ جائیں یا کوئ اٹھا کر انکی جگہ تبدیل کردے لیکن جب یہ نہ ہوا اور انکے سونے کا وقت قریب ہونے لگا تو انکو گود میں اٹھا کر دوسرے کمرے میں فرش پر پھینک آئے انکی اپنی شادی کے موقع پر جب خاندان کے ایک بزرگ انکے بستر پر لیٹ کر سوگئے تو پوری رات چھت پر کرسی ڈال کر بیٹھے رہےکہ انکو اٹھا کر پھینک نہیں سکتے تھے حالانکہ دل یہی چاہتا ہوگا یہاں تک کے انکے اٹھنے کا وقت ہوگیا۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">گھر میں استعمال کی کوئ بھی مشین جیسے گرائنڈر، جوسر، پانی کی موٹر وغیرہ اگر خراب ہوجائے تو خود ٹھیک کریں گے چاہے وہ کتنی ہی ضروری استعمال کی چیز ہو اور انکو وقت نہ مل پارہا ہو اگر باہر کے کسی مکینک سے مرمت کرالی گئ تو حرام ہے کہ اس کا خود استعمال کریں یا اسکے استعمال سے کسی قسم کا فائدہ اٹھا لیں سالوں پرانی بات ہے گھر کی پانی موٹر خراب ہوگئ تو اسکی مرمت باہر سے کسی مستری کو بلا کر کرالی گئ تو کئ سال تک ٹینکی میں ڈول ڈال کر پانی نکالتے اور استعمال کرتے سالوں ایسا ہی کرتے رہے جب عمر کے ساتھ ہڈیوں میں جان کم ہونے لگی اور بالٹی بھرنا دوبھر ہونے لگا تو اپنی اس ضد سے باز آئے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">جب بچے چھوٹے تھے تو اکثر رات میں کسی ضرورت سے خالہ کمرے کی بتی جلایا کرتیں جس سے انکی نیند میں خلل پڑتا روز خالہ سے تلخ کلامی ہوتی کہ انکی نیند خراب ہورہی ہے اور انکو خیال نہیں کسی روز خالہ نے جواباً شاید کہ دیا کہ آپ کیسے باپ ہیں اپنے بچے کیلئے تھوڑی سی نیند خراب کرنا گوارہ نہیں آخر کیسے وہ اندھیرے میں تمام کام انجام دیں اس بات سے انکو اتنا غصہ چڑھا کہ آج تک رات میں آنکھوں پر پٹی چڑھا کر اور بتی جلا کر سوتے ہیں شروع میں جب خالہ اپنے کام ختم کرکے بتی بجھا دیتیں تو اٹھ کر دوبارہ جلادیا کرتے آہستہ آہستہ کئ سالوں میں یہ عادت چھوڑ دی۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">شروع میں سگریٹ نوشی کے عادی تھی اور روزانہ ایک ڈبیا سگریٹ پینا لازم تھا اگر دن بھر میں پورا پیکٹ ختم نہ ہوتا تو رات سونے سے پہلے پے درپے سگریٹ پھونکتے اور سونے سے پہلے پورا پیکٹ ختم کرتے اصولی آدمی ہیں ایک دن سوچ لیا کہ کل سے سگریٹ نہیں پئیں گے بس جس دن یہ سوچا اس دن اتنی تبدیلی آئ کہ رات سونے سے پہلے تک انہوں نے دو ڈبے سگریٹ ختم کئے اور اسکے بعد سے آج تک دوبارہ کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">انکے اصول کے خلاف ہے کہ چاہے کچھ ہوجائے کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گے دیسی طریقے سے اپنا علاج خود کریں گے ایک مرتبہ گرمی میں چھت پر چڑھے عین دوپہر کے وقت کس کام میں لگے ہوئے تھے لو لگنے سے بے ہوش ہوگئے گھر والے اٹھا کر ہسپتال لے گئے جونہی ہوش میں آئے اور خود کو وہاں پایا غصے میں ڈرپ کھینچ کر نکالی اورپیدل ہی گھر روانہ ہوگئے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">ہمیشہ ایک ہی درزی سے کپڑے سلواتے ہیں ایک ہی ڈیزائن کی چپل پہنتے ہیں اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سب کی خریداری ایک ہی دوکان سے نہ کرتے ہوں جی ہاں بالکل ممکن نہیں ہے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">پوری زندگی استرے سے شیو بناتے آئے ہیں کہ جب شیو بنانا شروع کیا اس وقت یہی اوزار استعمال کیا تھا۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">یہ تو کچھ باتیں ہوگئیں پختہ عادات کی اس کے علادہ کچھ اور باتیں بھی انکی شخصیت میں قابل ذکر ہیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><span style="line-height: 19.3199996948242px;">پرانی چیزوں سے لگاؤ اس قدر ہے کہ کوئ بھی چیز استعمال کے بعد پھینکنے کے قائل نہیں انکا یقین ہے کہ</span><span style="line-height: 19.3199996948242px;"> </span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">ع نہیں کوئ چیز نکمی زمانے میں</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">شاعر نے تو یہ بات بس یونہی کہ دی لیکن اسکا عملی مظاہرہ اگر وہ خود دیکھ لیتے تو اپنے اس شعر سے دستبرداری کا اعلان باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے کرتے کہ خدا کہ قسم میرا اس شعر سے وہ مطلب نہیں تھا جو انہوں نے لیا ہے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">انکے گھر کی چھت پر ایک کمرہ ہے اب اسمیں داخلے کہ جگہ ختم ہوچکی ہے اسمیں ہر وہ چیز جو شاید ریسائیکل ہو سکتی ہے سینت کر رکھی ہوئ ہے بعض چیزیں دیکھ کر سوال خود بخود پیدا ہوجاتا کہ انکا کیاکام مثلاً دیوار پر چابیوں کا ایک بڑا گچھا ٹنگا ہوا ہے جس میں تقسیم ہند سے قبل بننے والے تالوں کی جو اپنی زندگیاں پوری کرکے کب کے مٹی میں مل چلے ہیں انکی بھی چابیاں محفوظ ہیں کم از کم ایک ہزار زنگ آلود چابیاں لٹکی ہوئ ہیں کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں اگر سڑک پر چلتے ہوئے انہیں کوئ چابی گری ہوئ مل جاتی اٹھا کر گھر لے آتے اور لاکر اسی گچھے کا حصہ بنا دیتے کہ شاید کبھی کام آجائے لیکن کبھی گھر کا کوئ تالا کھلوانا ہو تو باہر سے تالے چابی والے کو بلایا جاتا ہے مبادہ استعمال سے کوئ چابی ٹوٹ جائے اور اس خزانے میں سے ایک چابی کم ہوجائے۔ ایک کونے میں ایک ریک رکھا ہے اس پر اوپر نیچے تمام جگہ شیشے کی خالی بوتلیں اور مرتبان رکھے ہوئے ہیں اور اپنی قسمت کو رو رہے ہیں ان میں کئ کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے یہ تو ایک طرف رہی انکی ایک بہن کینیڈا میں مقیم ہیں کئ سال پہلے جب وہ پاکستان آئیں تو پینے کیلئے منرل واٹر کی بوتلیں استعمال کرتی رہیں اور یہ ان بوتلوں کو جمع کرتے رہے یہاں تک کہ تمام بوتلیں اوپر کمرے میں پہنچ گئیں انکے جانے کے بعد یہ خبر ان تک پہنچی تو اب وہ یہ کرتی ہیں کہ جب بھی آتی ہیں خالی ہوجانے والی بوتلوں کو ہاتھ کے ہاتھ ٹھکانے لگاتی رہتی ہیں اور جمع کرنے کا موقع نہیں دیتیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">ایک ٹرنک میں گھر کے تمام پرانے لحاف گدے تکیے موجود ہیں، گھر میں سالوں پہلے جو فرج آیا تھا اسکا ڈبہ بھی سنبھال کر رکھا ہوا ہے زمانے کی ہوا اور دھوپ لگنے سے وہ تقریباً برادا بن چکا ہے کہ ہاتھ لگانے سے چھڑنے لگتا ہے اس لئے اسے اب کوئ ہاتھ نہیں لگاتا۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">گھر کی پرانی چوکھٹیں جو دیمک لگنے کہ وجہ سے نکال دی گئ تھیں آج بھی چھت پر رکھی ہوئ ہیں سال چھ مہینے میں ان پر دیمک مار سپرے کرتے ہیں کہ شاید اس طرح وہ قابل استعمال ہوجائیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">بڑے بیٹے کی شادی پر جو پھول کمرہ سجانے کیلئے استعمال کئے گئے تھے وہ ایک ٹوکرے میں رکھ کر اسی کمرے میں رکھ آئے تھے آج بھی اسی طرح رکھا ہوا ہے پھول مرجھاگئے اور اس حجلہ عروسی میں ہونے والے واقعات کے نتیجے میں جنم لینے والے بچے اب بستے لٹکا کر سکول جانے کی عمر کو پہنچے حال یہ ہے ٹوکرے کے پھول اب بھی رکھے ہوئے ہیں بالکل برادہ ہوچکے ہیں اور کمرے کا دروازہ کھولنے پر ہوا کے دباؤ کے باعث اڑتے رہتے ہیں لیکن وہ پھینکنے پر رضامند نہیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">اسی کمرے میں ایک سیمنٹ کی بوری میں استعمال شدہ سکرو اور کیلیں جمع ہیں جو نصف صدی سے جمع ہوتے ہوتے اب بوری کہ منہ تک آچکی ہیں اسی کمرے میں سیمنٹ کی وہ خالی بوریاں بھی موجود ہیں عرصہ بیس سال قبل گھر کا فر ش پکا کرانے میں استعمال ہوئ تھیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">خالو کی عادات اور انکی شخصیت پر بات تو بہت ہوسکتی ہے لیکن وقت اجازت نہیں دیتا</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">ع وقت ہوا تمام مدح باقی ہے</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">سوچتا ہوں کہ اگر وہ ایک عام ہی زندگی گزار رہےہوتے تو کچھ بھی ایسا دلچسپ وجود میں ہی نہ آتا اللہ خالو کی عمر دراز کرے کبھی دوبارہ باقی بچ جانے والے واقعات ذکر کرونگا۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">آخر میں بس اتنا ہی کہ اگر یہ کسی اور کے پاس بھی ایسے خالو ہیں تومجھے ضرور مطلع کریں مجھے ایسے </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large; line-height: 19.3199996948242px;">دوسرے انسان کو دیکھنے کابچپن سے اشتیاق ہے</span></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com5tag:blogger.com,1999:blog-5528424833270547762.post-19015977898821455002014-06-06T02:22:00.002+05:002015-06-11T18:44:45.652+05:00پریوں کی چراگاہ فیری میڈوز قسط ۴<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<span style="font-size: large;"><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
جو صاحب ہماری جیپ کے ڈرائیور تھے انکے جسم پر گوشت کم اور ہڈیاں زیادہ تھیں یا یوں اگر کہا جاۓ کے انکی ہڈیوں پر صرف کھال منڈھی تھی تو بھی غلط نہیں ہوگا سفید شلوار قمیض جو اپنی اصل رنگت کھو کرمٹیالا ہو چکا تھا اسپر ایک واسکٹ اور سر پر روائتی بلتی ٹوپی پہنی ہوئ تھی اور اس جگہ جہاں فیری میڈو میں خوش آمدید کا بورڈ لگا ہوا تھا اس وقت شام ساڑھے چار بجے اتنی گرمی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ بغیر کسی مبالغہ کے ایسا لگتا تھا کہ سورج سوا نیزے پر ہو سڑک پہاڑ پتھر حتیٰ کہ درخت اور اکے تمام پتے حدت خارج کر رہے تھے اور ہر ایک چیز پر مٹی کی دبیز تہ جمی ہوئ تھی اور اسکے علاوہ وہاں سکوت سناٹا گہرا اور گرم سناٹا قراقرم ہائ وے پر تین موٹر سائیکلیں فراٹے بھرتی ہوئ آئیں اور گزر گئیں دور تک انکی آوازیں ہمارے کانوں میں رہیں اور پھر وہی گہرا اور پریشان کن سکوت اور حدت جیب پر سوار ہونے کے لیۓ میں نے جب لوہے کے ڈنڈے کو پکڑا تو بخدا ایسا محسوس ہوا کہ جیسے گرما گرم توے پر ہاتھ رکھ دیا ہو اور اندر پہنچ کو یوں لگا کہ برضا و رغبت میں ایک تنور میں آگیا ہوں اور کچھ دیر میں روسٹ ہو جاؤنگا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
"ہم چل کیوں نہیں رہے ہیں؟" میں نے بلتی ٹوپی والے ڈرائیور سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ احمد آجاۓ تو چلتے ہیں بس اور پھر مجھ سے پوچھنے لگے"آپ</div>
<div style="text-align: right;">
لوگ کو آنے میں ڈر تو نہیں لگا ناں سر؟</div>
<div style="text-align: right;">
اصل میں جب ٹورسٹ کا واقعہ ہوا تو ٹی وی والوں نے پھیری میڈو بولا ناں یہی بہت غلط کیا اتنا لوگ ڈر کی وجہ سے نہیں آیا ناں ادھر آپ لوگ کہاں سے آیا ہیں سر؟"</div>
<div style="text-align: right;">
ہم نے دو چار رسمی سی باتیں کیں اور اپنی ناراضی کا اظہار بھی کیا ٹی وی والوں نے غلط کیا لیکن جو بھی اسکی سزا ہمیں دینا اس گرمی میں ایک تنور نما جیب میں بٹھا نا اور اس دنیا میں جہنم کی یاد دلانا کہاں کا انصاف تھا؟</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
احمد بھائ کے جیپ میں آنے پر یہ انتظار ختم ہوا اور بلتی ٹوپی نے چابی گھما کر جیپ سٹارٹ کی انجن کا شور بلند ہوا فضا کا جامد سکوت ٹوٹا اور یہ آواز سفر کرتی ہوئ تمام بلندیاں طے کرتی ہوئ فیری میڈو کے جنگل پہنچی اور وہاں میرے استقبال کی تیاریاں شروع ہوئیں اور یہی آواز قراقرم ہائ وے پر سفر کرتی ہوئ دریاۓ سندھ کے ساتھ ساتھ بہتی ہوئ میرے گھر پہنچی اور اسی وقت میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی شائد میری امی ہوں اور انکو خبر مل گئ ہو کہ میں ایک خطرناک اور مشکل راستے پر سفر کرنے والا ہوں میں نے اپنا موبائل فون نکالا اور وہ مردہ حالت میں تھا راۓ کوٹ برج اور اطراف کے تمام علاقوں میں موبائل کی کوئ سہولت میسر نہیں ہے تو پھر یہ گھنٹی؟ میں خوف زدہ تھا فیری میڈوز کا جیپ ٹریک دنیا کا ایک مشکل ترین ٹریک ہے اگر کسی بھی قسم کا کوئ حادثہ ہو جاۓ یا جیپ اپنا ٹریک بھول جاۓ کسی بھی دوسری صورت میں آپکی یقینی موت ہوتی ہے اگر آپ خوش قسمت ہوۓ اور کسی ایسی جگہ حادثہ کا شکار ہوۓ جہاں سے آپ کا جسم صحیح حالت میں مل جاۓ اور آپ کے سامان سے آپکا شناختی کارڈ وغیرہ حاصل کرکے آپ کو گھر پہچا دیا جاۓ نہیں تو دوسری صورت بہت خوفناک اور میں کسی بھی ایسی صورت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا پہلی یا دوسری میں زندہ سلامت اپنے گھر واپس جانا چاہتا تھا مجھے میرے ماں یاد آرہی تھی میں بات کرنا چاہتا تھا کہنا چاہتا تھا کہ امی سفر تھوڑا پیچیدہ ہے آپ دعا کریں لیکن ایسی کوئ صورت نہیں تھی اور مجھے اسکی ضرورت بھی نہیں تھی مجھے معلوم تھا کے میرے لیۓ دعاؤں کا ایک نا ختم ہونے والا ذخیرہ ساتھ ہے اور ہر لمحہ بڑھتا ہی جا رہا ہے لیکن میں نے پھر بھی خیال کرکے امی کو مخاطب کیا اور اپنی درخواست گوش گزار کردی خود بھی جو دعائیں یا آتی گئیں وہ سب پڑھ کر دم کیا مضبوطی سے جم کر پیٹھ گیا.</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
گھوں گھوں کرتا جیپ کا انجن واپس تاتو کی طرف پلٹا اور راستے سے ہٹ کر کچے راستے پر آگیا ہمارے پیچھے مٹی کا ایک طوفان تھا چھوٹے چھوٹے پتھر جیپ کے پہیوں کے نیچے آتے اور کڑکڑا کر نیچے گرتے اور گرد کے طوفان میں گم ہوجاتے دو تین مرتبہ گھوم گھوم پر جب ہم تھوڑا اوپر ہوۓ تو نیچے کا کا منظر کچھ ایسا تھا کہ کسی نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے یہاں پر بمباری کی گئ ہے اور کسی فلم کا ایسا منظر لگ رہا ہے جیسے کسی بڑی تباہی کے بعد کے لمحات کو فلمایا گیا ہو اور سیٹ کو ویسے ہی محفوظ کر لیا گیا ہو ایک بڑا میدان اور چھوٹے بڑے پتھر بے ترتیبی سے یا انکی ترتیب ہی ایسی تھی پڑے ہو تھے اور گرمی کی وجہ سے بھاپ اٹھتی ہوئ نظر آتی تھی اور ایک پرسراری تھی مجھے یہ منظر کسی دوسرے سیارے کی ایک تصویر لگا کسی سیٹالائیٹ سے اتاری گئ ایک بڑے فریم کی تصویر پھر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جب سے کائینات تخلیق ہوئ ہے یہ منظر ایسا ہی ہے اور جب تک یہ کائینات رہے گی یہ منظر بھی ایسا ہی رہے گا اور جب حشر قائم ہوگا تب بھی یہ منظر ایسا ہی ہوگا گویا میرے سامنے ایک ایسی تصویر تھی جسمیں کائنات کی ابتدا اور انتہا دونوں بیک وقت نمایاں تھیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
جیپ اوپر ہوتی گئ انجن اسی طرح زور لگاتا رہا گول گول چکر کاٹتے ہوۓ دائیں طرف پہاڑ ایک دیوار کی طرح راستے کے ساتھ لگا ہوا اور راستہ کسی بھی مقام پر اس سے زیادہ چوڑا نہیں تھا کہ اس پر ایک جیپ سے زیادہ گزرنے کی جگہ ہو دو ایک مقامات پر ہمیں اوپر سے آنے والے جیپوں کو جگہ دینا پڑی اور جس انداز سے جگہ فراہم کی گئ وہ کسی بھی کمزور دل انسان کی جان نکالنے کے لیۓ کافی ہے جان تو ہماری بھی حلق میں ہی تھی لیکن ہم بظاہر بہادر بنے ہوۓ تھے بائیں طرف دور ایک اور پہاڑ تھا اور دونوں کادرمیانی فاصلہ کم از کم ڈیڑھ سے دو کلومیٹر رہا ہوگا اور ان دونوں کے درمیاں میں نیچے بہت نیچے بال برابر باریک ایک پانی کی لکیر تھی جو کبھی تو نظر آتی اور کبھی پتھروں میں گم ہو جاتی یہ راۓ کوٹ گلیشئر سے آنے والا پانی تھا جو آگے جا کر دریاۓ سندھ کا حصہ بن جاتا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
بعض راستے اتنے دشواز گزار ہوتے نہیں جتنا آپ محسوس کرتے ہیں لیکن راۓ کوٹ سے فیری پوائنٹ تک کا جیپ ٹریک اتنا ہی دشوار گزار ہے جتنا آپ محسوس کرتے ہیں یا شائد ایک وقت کے بعد آپ محسوس کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا آپ کی حس جواب دے جاتی ہے کم از کم اگر یہ سفر پہلی مرتبہ کیا جاۓ تب ضرور یہی حالت ہوتی ہے مجھے پل صراط پر سفر کرنا اس ٹریک کے مقابلے میں آسان محسوس ہو رہا تھا اور کئ مقامات پر میرا دل کیا کہ میں التجا کرکے جیپ رکوا لوں اور باقی کا سفر پیدل طے کرلوں تقریبا" ڈیڑھ گھنٹہ جیب انہی اونچے نیچے دل دہلا دینے والے راستوں پر سفر کرتی رہی راۓ کا پانی جو شروع میں ایک سوئ کے برابر نظر آتا تھا اب اپنی اصلیت پر واپس آتا ہو محسوس ہوتا تھا اور اسکا یہ مطلب تھا کہ ہم کافی اونچائ پر آچکے تھے ایک موڑ پر میں نے دیکھا دو جیپیں کھڑی ہوئ ہیں اور کچھ نوجوان پاس کھڑے ہیں اور ایک گاؤں کے آثار اکتا دینے والی یکسانیت کا سفر ختم ہوا مجھے اپنے زندہ بچ جانے کی زیادہ خوشی تھی جیپ سے باہر آۓ اپنے ہاتھ پیر ہلا کر خون کی روانی بحال کی جیپ والے کا شکریہ ادا کیا اپنی واپسی کا دن بتایا اور اپنے بیگ اپنے کاندھوں پر لٹکانے بے بعد کچھ دور چل کر فیری پوائنٹ ہوٹل تک آۓ یہاں ہمارے کھانے کا انتظام تھا اور پھر فیری میڈو کا اصل ٹریک کا آغاز ہونا تھا۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiznJB65GCCtKTPAuU92BfuH6cCs-AtkaXsBg74NVguuTz50X4KZzJc3_rw8zwJUYPevrxmd3NfTcUQxBYlIAz8hmO1zPrk0742TXHl6Qp7dwOlQ0NANVzVyGt7a5oTXpF4FBuybcIZqKHc/s1600/fm1.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="480" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiznJB65GCCtKTPAuU92BfuH6cCs-AtkaXsBg74NVguuTz50X4KZzJc3_rw8zwJUYPevrxmd3NfTcUQxBYlIAz8hmO1zPrk0742TXHl6Qp7dwOlQ0NANVzVyGt7a5oTXpF4FBuybcIZqKHc/s640/fm1.jpg" width="640" /></a></div>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjhoGir3nQRTfCdWZAn-tCml1KTHvekxz4clrtxbApxh2O38wkKCQc6dg38YqWUrGuzrIqvcYdrf5dvsAFIMBW3uvII41P8e2_5DahSTAojP70DN5Y448hGE-5VeWNvHRGusqQwXwMrqDmp/s1600/fm2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="480" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjhoGir3nQRTfCdWZAn-tCml1KTHvekxz4clrtxbApxh2O38wkKCQc6dg38YqWUrGuzrIqvcYdrf5dvsAFIMBW3uvII41P8e2_5DahSTAojP70DN5Y448hGE-5VeWNvHRGusqQwXwMrqDmp/s640/fm2.jpg" width="640" /></a></div>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgCuZXu4xw8GtiuGOz_51x12y7oAysiJ6Nnt27sxKsfKAkD3XSKdZ8IgcKPEOihW4k6hUvah6K4qgLOB0hXovGxB4R3wRZuIhaEvV8q8e6MotE9vvfhvmJDZRmHwHw6cu6YltMUgQh2gwm_/s1600/fm3.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="480" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgCuZXu4xw8GtiuGOz_51x12y7oAysiJ6Nnt27sxKsfKAkD3XSKdZ8IgcKPEOihW4k6hUvah6K4qgLOB0hXovGxB4R3wRZuIhaEvV8q8e6MotE9vvfhvmJDZRmHwHw6cu6YltMUgQh2gwm_/s640/fm3.jpg" width="640" /></a></div>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhfIs0nQTwnVM-Tq9ucK8V80tpnCz7QZ5-45kv-baoFqEx8DBlqhhuHCdrbWNYZVAjJ6LhRV6GWcq_gfyT6l-mG78xOQ5m4N8WGNCb6TJGyRNPSG5nlO8xjzxLbY48Ia-Dg2YZafJOVHrAR/s1600/fm4.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="480" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhfIs0nQTwnVM-Tq9ucK8V80tpnCz7QZ5-45kv-baoFqEx8DBlqhhuHCdrbWNYZVAjJ6LhRV6GWcq_gfyT6l-mG78xOQ5m4N8WGNCb6TJGyRNPSG5nlO8xjzxLbY48Ia-Dg2YZafJOVHrAR/s640/fm4.jpg" width="640" /></a></div>
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj85IN2M8SMC9Fd5kixeCAQH22pihIq4c7IypKOaDec7rKTUvu2Muhaoad3UrwJNptGPVy9L7lahHFzB6GIQE_2FOw01tccmsFFiE6JYN3rGNN-NNHuiS88WPB-G6h9TlJnUObus3nIbblS/s1600/fm5.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="480" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj85IN2M8SMC9Fd5kixeCAQH22pihIq4c7IypKOaDec7rKTUvu2Muhaoad3UrwJNptGPVy9L7lahHFzB6GIQE_2FOw01tccmsFFiE6JYN3rGNN-NNHuiS88WPB-G6h9TlJnUObus3nIbblS/s640/fm5.jpg" width="640" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Faizan Qadrihttp://www.blogger.com/profile/01318995072988738075noreply@blogger.com0