Saturday 17 October 2015

دوبارہ رتی گلی۔۔۔قسط نمبر دو

مظفر آباد کا بس اڈا اسی حالت میں تھا جیسا ملک بھر کا کوئ بھی بس اڈا ہوتا ہے  وہی کھینچ تان وہی گھسیٹ ویسا ہی ہارن اور سواریاں کھینچنے والوں کا شور فرق صرف اتنا تھا کہ رات بھر ہونے والی بارش کی وجہ سے وہاں گھٹنوں گھٹنوں نہیں تو ٹخنوں ٹخنوں کیچڑ تھی اور اسی کیچڑ میں پھچ پھچ کرتے ہم سب دواریاں کیلئے کسی بس یا کوسٹر کی تلاش میں گھوم رہے تھے ۔
"رانا صاحب کوئ چھت والی بس پکڑ لیں پہلے جیسی" میں نے رانا صاحب سے کہا
"او نہیں یار بہت ٹائم لگ جانا ہے پچھلی باری بھی شام کرادی تھی"
"تو ہم کون سا برات میں جارہے ہیں کسی کی دیر ہوجائے تو ہوجائے کیا فرق پڑتا ہے"
"نہیں یار اس بار ٹائم تھوڑا ہے کوئ ٹیکسی پکڑیں گے ادھر  سے بھی" رانا صاحب کی اس بات سے میں قدرے اداس ہوگیا
"یار کوئ سامان بھی نہیں لینا کیا ٹریک پر کیا کریں گے ہم کھانا وانا؟" رانا صاحب بس کسی طرح یہاں سے نکل جانا چاہتے تھے اس پر مجھے خیال آیا کہ ہم نے کوئ خریداری کھانا پکانے یا بنانے کے حوالے سے نہیں کی نہ ہی کوئ بات چیت اس بارے میں ہوئ تھی اب تک
"نہیں وہ سارا انتظام ہوچکا ہے تو فکر نہ کر "
میں اور رانا صاحب بس کی تلاش میں تھوڑا آگے نکل آئے جبکہ چودھری اور بلوچ پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی الگ الگ یہی کچھ کر رہے تھے کہ جلد از جلد مظفر آباد سے نکل جانے کا سامان ہوجائے  اچانک ہی رانا صاحب کا فون بجنے لگا دوسری طرف چودھری صاحب تھے اور کہ رہے تھے بھاگ کر آجاؤ کوسٹر نکل رہی ہے ہم دونوں بھاگم بھاگ ان تک پہنچے تو وہ ایک چودہ سیٹر کوسٹر کا دروازہ تھامے فاتحانہ انداز میں کھڑے تھے دیکھتے ہی شور مچانے لگے کہ جلدی بیٹھو بلوچ صاحب بس کے اندر ایک سیٹ میں پھنسے ہوئے بیٹھ چکے تھے اور تب ہی چودھری صاحب نے راز کی بات بتائ کہ"رانا صاحب بات یہ ہے کہ اگلی گاڑی نکلنی ہے گھینٹے بعد اسمیں تین سیٹیں ہیں ایک بندے کو دروازے کے ساتھ بیٹھنا ہوگا وہ میں بیٹھ جاؤنگا آپ اندر بیٹھو یہ بھائ (ایک صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تھوڑی دور پر آگے اترجائیں گے تو جگہ ہوجائے گی"
یہ سن کر رانا صاحب باغی ہوگئے کہ ایسے سفر نہیں کرنا  اور یہ کہ کمر ٹوٹ جائے گی آڑھا ترچھا راستہ ہے "تم میری بات نہیں سمجھ رہے ہو"
بلوچ صاحب کو حکم ہوا  اور وہ بھی اتر گئے اور انکے اترتے ہی تین مسافر جو سوار ہوگئے اور بس نکل گئ ہم وہیں کھڑے وہ گئے جس پر چودھری صاحب خفا ہوگئے اور بلوچ صاحب بھی اور بولے
"سرکار آپ ایویں جذباتی ہوگئے چلے جاتے اسی میں کچھ نہیں ہوتا"
"ہاں تمہیں تو جگہ مل گئی تھی شامت اسکی آتی جو دروازے پر بیٹھتا" رانا صاحب نے جواب دیا
"یار کیا ہوجاتا بدل بدل کر سفر گزر جاتا ویسے بھی جگہ آگے تو خالی ہونی ہی تھی کبھی نہ کبھی"
"اتنا شوق تھا خود بیٹھتے دروازے پر اندر کیوں گھس گئے تھے"
"واہ جی واہ سرکار میں کیوں بیٹھتا مجھے تو سیٹ مل گئ تھی " بلوچ صاحب کی اس بات پر سب کھلکھلا کر ہنس دئے۔
"او جی کوئ نہیں۔۔۔اڈے پر کھڑے ہیں مل جائے کی کوئ گاڑی ایسی کون سی جلدی ہے ابھی تو بس ساڑھے سات ہوئے ہیں ناشتہ نہ کرلیں ویسے بھی ایک گھنٹے میں دوسری کوسٹر کو نکلنے والی ہے آلریڈی بات کرچکا ہوں میں" چودھری نے صلاح دی جس پر بلوچ صاحب بولے
" لو جی سبحان اللہ رانا صاحب ویسے بھی صبح کوئ بغیر ناشتہ سفر کرتا ہے کیا آپ کو جلدی پڑی ہے چلو چلو چلو"
"گاڑی میں سب سے پہلے خود گھس کربیٹھ گئے جلدی مجھے پڑی ہے واہ جی واہ خیر چلو" رانا صاحب نے کہا
ہم سب اڈے سے نکل کر مظفر آباد کے مرکزی بازار پہنچے دھیما دھیما نیچی چھتوں والی دوکانیں برتن، سبزیاں، گوشت سب فروخت ہورہا تھا لیکن ہمیں کوئ ہوٹل نظر نہیں آیا چلتے چلتے ہم پل تک پہنچے اور سب سے پہلے نظر آنے والے ہوٹل میں بیٹھ گئے۔
"رانا صاحب کترینہ کیف" میں نے رانا صاحب کو مخاطب کیا ہوٹل کے عین سامنے ماسٹر ڈی وی ڈی کے بورڈ کے نیچے کترینہ کیف کا بڑا سا پوسٹر لگا ہوا تھا۔
رانا صاحب پوسٹر اور پھر مجھے دیکھ کر مسکرائے پچھلی بار رانا صاحب کو شکایت تھی کہ ہم نے کترینہ کیف کا پوسٹر انہیں کیوں نہیں دکھایا لیکن مظفر آباد میں کنٹرول لائن سے کچھ ہی فاصلے پر ہندوستانی کترینہ کیف یوں ہمارے شہر میں موجود ہونا قدرے تشویش ناک ہی ہے خیر ہم نے ناشتہ کیا اور  واپس پورا راستہ طے کرکے بس اڈے پر پہنچ گئے ساڑھے آٹھ بجنے والے تھے کوسٹر تیار کھڑی تھی ہم نے پیچھے والی سیٹ جو قدرے کشادہ تھی اپنے قبضے میں کرلی اور وہاں بیٹھ گئے سامان چھت پر چڑھا دیا گیا۔
بس چلی اور انہی راستوں سے گزرتی ہوئ منزل  کی طرف روانہ ہوئ فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار منظر ایک کھڑکی میں قید ہوکر نظر آرہا تھا باہر جاتی ہوئ بہار تھی سبزہ کہیں تو بالکل سیاہی مائل سبز تھا اور کہیں مرجھایا ہوا بھورے رنگ کا البتہ نیلم کافی سبز رنگ میں بہ رہا تھابس چلی تو مجھے نیند آنے لگی بلوچ صاحب سو چکے تھے اور چودھری صاحب  کھڑکی کے ساتھ بیٹھے تھے کہ تصویریں بنا سکیں اور رانا صاحب ایک اچھے شاگرد کی طرح انکے ساتھ لگے ہوئے تھے مجھے کوئ کام نہیں تھا میں بھی اونگھ گیا سوتے جاگتے منظر دیکھتے ہم چلتے رہے  اور سوئے منزل بڑھتے رہے ایک دو جگہ بس رکی مسافر چڑھے اترے اور دوپہر ہوتے ہوتے دو بجے کے قریب ہم دواریاں پہنچ گئے چھوٹی کوسٹر نے بس کے مقابلے میں بہت کم وقت لیا۔
بس سے اتر کر ہم سب وہیں پل کے ساتھ ہی کھڑے ہوگئے کیوں کہ جیپ کو یہاں ہی آنا تھا رانا صاحب اور بلوچ بازار کی طرف جیپ کی تلاش میں چلے گئے ۔
پچھلے سال کی مقابلے میں جگہ میں کافی تبدیلی آچکی تھی کچھ موسم کا اثر تھا اور کچھ کام جو اس وقت مکمل نہیں تھے وہ اب مکمل ہوچکے تھے جیسے پل کے ساتھ دیوار کی تعمیر کا کام پچھلے سال ابتدائ مراحل میں تھا جبکہ اب وہ مکمل ہوچکا تھا دوسرے وہ درخت جو پل کے نیچے دریا کے کنارے بالکل ٹنڈمنڈ تھا اب ہرا بھرا تھا ہرا بھرا تو نہیں اپنی بہار دکھاکر اب مرجھانے کے قریب ہونے کو تھا چند ایک سفید پھول باقی تھے اور دیگر درخت بھی کچھ پھل پھول دکھا رہے تھے پل سے اور پر دیکھنے میں ایک گیسٹ ہاؤس کے برامدے میں لگا ہوا سیب کا درخت پھلوں سے بھرا ہوا تھا ہرے ہرے کشمیری سیب دل چاہا چند ایک تو توڑ کرکھا ہی لوں لیکن وہ کافی بلندی پر تھے اس لئے باز رہا۔
رانا صاحب تھوڑے انتظار کے بعد واپس آتے نظرآئے اور ان کے ساتھ ہی ایک اور  نظیر بھی یہ نظیر وہی صاحب ہیں جو پچھلی مرتبہ ہمارے آنے سے چند گھٹے قبل نکل گئے تھے اور  جن کے نہ ہونے کی وجہ سے ابرار ہمارے پلے پڑا تھا لیکن دواریاں پہنچنے کے بعد میرا دل ابرار سے ملنے کو کررہا تھا  لیکن نظیر سے ہی معلوم ہوا کہ ابرار پنڈی میں تھا خیر نظیر سے تعارف ہوا ٹریک کے متعلق سوال ہوئے دوپہر کا کھانا بھی وہی کھا لیا گیا جیپ بھی تیار ہوچکی تھی سامان لادا گیا اور پھر ہم سب بھی لوڈ ہوگئے۔
جیپ سٹارٹ ہوئ اور پل سے نیچے اتر کر اسی راستے پر چڑھ گئ جہاں سے ہم پچھلی مرتبہ گئے تھے چل پڑی اونچے نیچے راستوں پر ڈولتی اسی لکڑی کے پل پر پہنچی پہلے کی نسبت پل مزید خستہ ہوچکا تھا جیپ کے وزن سے چرچرایا اور ایک وقت آیا جب ایسا لگا کہ پل ٹوٹ جائے گا اور جیپ نالے کے تیز پانی میں بہ جائے گی لیکن ڈرائیور  صدیق نے کمال مہارت سے جیپ کو پار لگا دیا۔
دواریاں سے دومیل تک ایک پکا جیپ ٹریک بن چکا ہے اب یہ فاصلہ بس دو گھنٹے میں سمٹ چکا ہے سیری، چھک، جھبہ،د ورے بن سب جیپ میں بیٹھے گزر جاتا ہے اور تمام مناظر بھی جو اس راستے میں آتے ہیں بس ایک سرسری نظارہ ملتا رہتا ہے۔
میں اور رانا صاحب جیپ کے اگلے حصہ میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ باقی تینوں پیچھے  یہ ایک تین سیٹوں والی جیپ تھی یعنی ویگن کی طرز پر ایک کے پیچھے ایک سیٹیں لگا کر نو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش پیدا کی گئ تھی اور سامان  کیلئے اوپر جنگلا لگایاگیا تھا تو کافی گنجائش تھی آگے بیٹھنے سے منظر بھی صاف نظروں میں آرہا تھا کہیں کہیں سبزے کے درمیان جلی ہوئ بھوری گھاس ایسے لگ رہی تھی جیسے آگ لگی ہوئ ہو دھوپ ڈھلنے لگی تھی ساڑھے تین اور چار کے درمیان کا وقت ہوگا دھوپ چمک رہی تھی اور  درمیان میں بہتے ہوئے نالے میں سے شعائیں پھوٹ رہی تھیں ایک عجیب شوں شوں کی آواز آرہی تھی نالے کے بہاؤ کی پچھلی مرتبہ یہ نالہ بغیر آواز کے ٹنوں کے برف کے اندر اندر بہ رہا تھا پہاڑوں کے اوپر سے آتے ہوئے چھوٹے چھوٹے نالے بھی اس میں مل رہے تھے اور ٹریک پر سے گزرنے کی وجہ سے جیپ جب جب ایسے کسی بہتے پانی پر سے گزرتی چھپ چھپ کی آواز آتی ایک جگہ ایسی آئ کہ ایسا ہی ایک نالہ اوپر سے بڑی زوروں میں بہتا ہوا نیچے جارہا تھا اور اس جگہ پہاڑ کا کٹاؤ کافی زیادہ تھا  یعنی کوئ دس بارہ فیٹ اندر ایک غار جیسی جگہ بن گئ تھی جیسے ہی ہم اس جگہ پہنچے جیپ رکوالی گئے صدیق نے بھی جیپ چھوٹے چھوٹے پتھروں پر چڑھا کر جیپ اس غار کے نزدیک لیجا کر روک دی ایک ایک کرکے ہم سب باہر آگئے اور  باہر آتے ہی سفر میں پہلی مرتبہ ہماری جسموں سے ٹھنڈی یخ ہوا ٹکرائ باہر اتر کر ہم نے انگڑائیاں لیکر بدن کو سیدھا کیا نالے کے دوسری طرف جگہ پہچان میں آگئ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے پہلی مرتبہ آتے ہوئے ہم نے کافی نیچے اتر کر ایک پل صراط کی طرح اس جگہ کو پار گیا تھا اس سے آگے دورے بن تھا جہاں ہم نے رات گزاری تھی۔
جیپ سے اتر کر تھوڑی سے چہل قدمی کی چودھری نے رانا صاحب سے پوچھا
"رانا صاحب کوئ انتظام ہے چائے بناتے ہیں ادھر سوہنی جگہ ہے بڑی"
"ہاں یا نظیر کوئ انتظام ہے ادھر چائے کا؟" رانا صاحب نے الٹا نظیر سے سوال کیا
"نہیں سر ادھر کدھر ہوگا انتظام آس پاس کوئ گاؤں بھی نہیں ورنہ ادھر سے ہوجاتا" نظیر کے اس جواب پر بلوچ کو تشویش ہوئ
"یار رانا صاحب کھانے کا کوئ سامان لیا نہیں ساتھ کھائیں گے کیا ادھر برف؟" اس سوال پر چودھری کا قہقہ گونجا کہ بلوچ کو اپنی فکر پڑگئ کھائے گا نہیں تو چلے گا کیسے "یار بلوچ ابھی دوپہر کو تونے چھتیس سو روٹیاں کھائی تھیں وہ سب ہضم ہوگئیں؟"
اور جواب میں بلوچ کے جو ایک پتھر سے ٹیک لگا کر لیٹ چکے تھے نہایت معصومانہ انداز میں گردن ہلاکر اقرار کیا جس پر چودھری نے اپنے سر سے ٹوپی اتار کر اپنے گھٹنے پر ماری "شاباش اے بھئی"
کچھ دیر ادھر ادھر بیٹھنے اور گھومنے اور چائے کی جگہ  چشمے کا پانی خوب خوب پی کر ہم دوبارہ  جیپ میں بیٹھے اور آگے چلے دورے بن سے تھوڑا ہی آگے جھگیاں آگیا اور دوسرے طرف آبادی نظر آنے لگی ان ہی گھروںمیں سے کسی ایک میں ہم نے ایک رات گزاری تھی دور سے اس گھر کی پہچان کرنا آسان نہیں تھا آبادی میں چند بچے گھوم رہے تھے اور مال مویشی بندھے ہوئے نظر آرہے تھے ذہن بار بار وہی واقعات دہرا رہا تھا جو گزر چکے تھے۔
ہم نے جھگیاں کو بھی  پیچھے چھوڑ دیا اور وہاں سے آگے ٹریک کچھ کچھ ناہموار ہوگیا چھوٹے بڑے پتھر ٹائروں کے نیچے آتے اور جیپ ڈولنے لگتی اور ناہمواری کے ساتھ ساتھ ٹریک کافی تنگ بھی ہوگیا تھا جیپ بہت کنارے پر چلنے لگی بہت نیچے رتی گلی نالہ  پوری آب و تاب سے بہ رہا تھا اور خطرہ محسوس ہوتا کہ کہ اگر ایک انچ بھی ہم ادھر ادھر ہوئے تو سیدھا اس نالے میں جاگریں گے اور اس کے بعد اللہ ہی حافظ لیکن شکر خدا کا کہ ایسا کچھ ہوا نہیں اور صدیق نے مہارت سے گاڑی کو قابو میں رکھا اور ہمیں پار لے گیا دومیل پر ٹریک کا اختتام ہوتا ہے اور وہاں ایک خیمہ بستی پہلے سے آباد تھی رنگ رنگ کے خیمے دور سے نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔
کیمپ سائٹ پر ہمارا استقبال رئیس خان انقلابی صاحب نے کیا اور یہاں ہمارے قیام کی تمام ذمہ داری انکی ہی تھی اس وقت سائٹ پر  سات مختلف رنگوں کے خیمے ساتھ ساتھ لگے ہوئے تھے اور کچھ خیمے وہاں سے الگ کچھ دوری پر لگے ہوئے تھے اور وہاں کیا ہی خوب نظارہ تھا شام ہونے والی تھی اور بالکل سامنے والے پہاڑ کی چوٹی پر دھوپ کسی ایسے زاوئے سے پڑر ہی تھی کہ وہ بس آدھا روشن تھا اور باقی اندھیرے میں اور پہاڑ پر سبزے کے ساتھ ساتھ  پتلی پتلی نالیوں کی صورت میں جمی ہوئ برف ایسے لگ تھی جیسے چونا ڈالا گیا ہو کیمپ سائٹ پر گھاس بھوری سے ہوچکی تھی اور  اسی بھوری گھاس میں ننھے ننھے سفید، نیلے اور خون رنگ پھول بہار دکھا رہے تھے یہاں انسانی قدموں کے باعث یہ بہت کم تعداد میں باقی رہ گئے تھے اور کہیں کہیں صرف کناروں پر باقی تھے لیکن سامنے کی طرف پہاڑوں کی دوسری طرف یہ یوں لگ رہے تھے کہ انکی کثرت کی وجہ سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پورے پہاڑ پر زنگ لگ چکا ہو اور ان زنگ آلود پہاڑوں کے اورپر اتنا صاف  آسمان کہ  گمان ہوتا تھا کہ کسی پردے پر نیلا رنگ پھیر دیا گیا ہو اور اس پردے پر سفید روئ کے گالے جیسے بادل  یقین نہیں ہوتا تھا کہ اتنا شفاف آسمان بھی ہوسکتا ہے۔
 دوپہر میں جب  دواریاں سے نکلے تھے تو موسم خوشگوار تھا گرمی نہیں تھی لیکن دھوپ چبھ رہی تھی راستے میں جہاں ہم کچھ دیر کورکے وہاں خنکی تھی لیکن سردی محسوس نہیں ہورہی تھی لیکن ڈھلتی شام میں کیمپ سائٹ پر ہوا ایسی تیز ٹھنڈی تھی کہ لگتا تھا سینکڑوں سوئیاں جسم کو چھید رہی ہوں جیکٹ نکال کر پہنا   باقی تینوں بھی ادھر ادھر بیٹھے ہوئے نظارہ کررہے تھے  اچانک ہی غیب سے ایک لڑکا پیالیوں میں سوپ لئے حاضر ہوا اور ہم سب کوپکڑا کر غائب ہوگیا ایسی تیز سردی میں گرم گرم سوپ یا یخنی جو بھی تھی بہت مزا دے گئ ایک تازگی آگئ ہمیں ایک خیمہ الاٹ ہوچکا تھا جسمیں ہم چاروں کا سامان رکھا جاچکا تھا اور ہم  خیمے کے باہر ہی تختوں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ رانا صاحب  اپنے جوتے کس کر کھڑے ہوگئے اور ہم سب سے بھی کھڑے ہونے کو کہا
"یا ابھی اندھیرا ہونے میں ٹائم ہے جب تک چھوٹی جھیل کا چکر لگا آتے ہیں"
"چلو جی بسم اللہ" بلوچ صاحب کھڑے ہوگئے
"چل یا ر مولوی اٹھ یار رانا صاحب نے آرام سے نہیں بیٹھنے دینا" چودھری صاحب نے  میرے کندھے پر زور ڈال کر اٹھتے ہوئے کہا تھا اور کھڑے ہونے کے بعد مجھے ہاتھ دیا اور کھینچ کر کھڑا کردیا

ہم چاروں اور نظیر وہاں سے اٹھ کر چھوٹی جھیل کی طرف چلنے لگے گوکہ میرا خیال تھا کہ جب تک ہم 
وہاں پہنچتے وہاں اندھیرا ہوجائے گا لیکن رانا صاحب کو یقین تھا کہ ہم روشنی میں واپس بھی آجائیں گے۔

پہلا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

تیسرا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

Monday 28 September 2015

دوبارہ رتی گلی



میں ایک مرتبہ پھر مظفر آباد میں تھا گوکہ یہ میرے پروگرام کا حصہ نہیں تھا اور مجھے اس وقت کہیں اور ہونا چاھئے تھا ایسا بھی نہیں کہ میں کہیں اور کے ارادے سے نکلا تھا اور مظفر آباد جا پہنچا   بلکہ اس سال میرے پروگرام میں کسی قسم کا ٹریک کرنا شامل نہیں تھا اور میں کافی صبر (جبر)سے خود کو آمادہ کرچکا تھا کہااس سال گھر میں بیٹھنا ہے اور جو کام زندگی میں زیادہ اہم ہیں ان پر توجہ کرنی ہے لیکن میں پھر مظفر آباد پہنچ چکا تھا۔
ایک شام میں گھر میں صوفے پر لیٹا ٹی وی چینل بدل بدل کر  اشتہار دیکھ رہا تھا  تو میرے پاس ایک فون آگیا داتا کی نگری والے رانا عثمان دوسری جانب موجود تھے اور کسی دوسرے نمبر سے مجھ سے بات کررہے تھے رانا صاحب فون پر زیادہ تو عجلت میں رہتے ہیں اور جلدی کام کی بات ختم کرکے "ہور دس کی حال اے" کہ کر دل لگی پر اتر آتے ہیں فون اٹھانے پر جب سلام دعا اور حال احوال کے بعد رانا صاحب نے کہا " اور سناؤ کیا نئی تازی ہے" تو میں سمجھ گیا کہ انہوں نے بس دل لگی کیلئے فون کیاہے۔
"نئی تازی کیا ہوگی رانا صاحب بس وہی پرانی ہے"
"اچھا تو کوئ نئی کرلے"
"ایک ہو نہیں رہی آپ نئی کی بات کررہے ہیں" ہماری مراد اپنی شادی تھی
"اچھا سن مذاق چھوڑ" رانا صاحب اچانک سنجیدہ ہوگئے
"جی سے حکم"
"حکم شکم کچھ نہیں بس تو ایک کام کر  لاہور آجا جمعہ کو ہم رتی گلی جارہے ہیں تو بھی چل رہاہے ساتھ" یہ فون اتوار کی شام کو آیا تھا یعنی چھٹے دن مجھے لاہور پہنچنا تھا ایک لمحہ کو میں گھوم گیا
"اگلے جمعہ کو میں کیسے آؤنگا لاہور بھائ"
"ٹرین میں آجا یا بس میں آجا جیسے دل کرے"
"بھائ میرا مطلب تھا کہ میں ایسے کیسے آجاؤں بہت مشکل ہے میں نہیں آسکتا"
"اچھا میری بات سن میرا بھی کوئ لمبا چوڑا پرگرام نہیں ہے بس تجھے دو دن چھٹی لینی ہوگی جمعہ اور پیر ہفتہ اتوار تیری چھٹی ہوتی ہے بس  کوئ مسئلہ نہیں ہوگا تو آجا"
میں نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی کچھ ادھر ادھر کے بہانے کچھ توجیہات وغیرہ وغیرہ لیکن رانا صاحب نے فون اس نیت سے ہی کیا تھا کہ میرے ہر سوال کا جواب دیں گے اور آخر میں فیصلہ اپنے حق میں کراکر ہی دم لیں گے یعنی رتی گلی میں مجھے اپنا ہمسفر کریں گے۔
کافی وقت انہوں نے مجھے مختصر الفاظ میں پورا پروگرام بار بار سمجھانے میں صرف کیا کہ کیسے ہم سفر شروع کریں گے پہلادن کہا صرف ہوگا پہلی رات کہاں گزاری جائے گی پھر آگے سفر کیسے شروع ہوگا اور کیسے کیسے ہم  سفر مکمل کرکے واپس لوٹیں گے مجھے رانا صاحب کی پلاننگ پر کوئ شک و شبہ نہیں تھا لیکن اچانک سے خود کو سفر پر آمادہ کرلینا مشکل ہورہا تھا۔
"یار رانا صاحب میرے پاس کوئ سامان بھی نہیں ہے" میں نے آخری با ت کی
"کدھر گیا تیرا سامان"
"یار وہ زین لیکر چلا گیا"
"کون زین"
"یار میرے دفتر میں ہے مصطفیٰ کے ساتھ گیا ہے وہ میرا سب سامان لیکر چلا گیا جوتوں سمیت، رک سیک سلیپنگ بیگ میٹرس ،سٹک سب کچھ"
جب یہ فون آیا اس سے ایک روز قبل ہی مصطفیٰ صابر دفتر کے کچھ لڑکوں کے ساتھ شمال یاترا کیلئے نکلا تھا  انہوں نے بھی مجھے ساتھ ملانے کی بہت کوشش کی  لیکن میں انکے چنگل سے بھی نکل گیا تھا خیر تو ایک رات زین جو ان میں سے ایک تھامیرے گھر آیا اور میرے سامان میں سے مذکورہ بالا سامان اپنے ساتھ لیکر چلا گیا اب میں بغیر ہتھیار کا سپاہی تھا جسے جنگ پر بلایا جارہا تھا۔
"تمہارا سارا سامان میں لیکر آجاؤنگا تم بس اپنے پہننے کے کپڑے لیکر آجاؤ" رانا صاحب نے اس مشکل کو بھی حل کردیا
"اچھا سنیں تو سہی۔۔۔ مجھے گھر پر تو بتانے دیں میں امی کو بتا کر آپ کو بتاتا ہوں"
"چلو مجھے بتاؤ گھر پر بات کرکے اور سن جب تو آئے گا ناں تو پنڈی سے کراچی ڈائیوو کا ٹکٹ میری طرف سے ہوگا تیرا واپسی کا" رانا صاحب نے آفر دی ایک دو اور باتیں ہوئیں اور فون بند ہوگیا فون بند کرنے کے بعد میں گھر سے باہر نکل گیا تھوڑی دیر بے مقصد ادھر ادھر گھوم کر واپس آیا اور گھر میں داخل ہوتے ہیں مجھے کچھ یاد آگیا اور میں نے رانا صاحب کو فون گھما دیا
"رانا صاحب میرے پاس کیمرہ بھی نہیں ہے" رانا صاحب یہ سن کر غصہ ہوگئے
"اور یار ۔۔۔۔۔ تو میرا کیمرہ لے لینا اب بند کر" کہنے کو تو رانا صاحب نے کہ دیا لیکن پورے سفر میں کیمرہ نوزائیدہ بچے کی طرح سینے سے لگائے گھومتے رہے اور ہماری جو تصویریں کھینچیں وہ اب تک ہمیں دینے سے بھی انکاری نہیں ہیں تو دے بھی نہیں رہے جبکہ اپنی تصاویر روز تبدیل کر رہے ہیں ویسے مذاق ایک طرف ہم نے خود یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس سفرنامہ کے لکھنے سے پہلے نہ تو بتائیں گے اور نہ ہی کوئ تصویر لگائیں تاکہ ایک طرح کا سرپرائز ہوجائے خیر۔
اگلی صبح  ناشتے کی میز پر  ویسے تو ہم ناشتہ میز پر نہیں کرتے دسترخوان بچھا کر کرتے ہیں چلیں  اسکو ایسے کہ لیتے ہیں اگلی صبح ناشتے کے وقت میں نے امی سے کہا
"امی وہ کل عثمان بھائ کو فون آیا تھا"
"لاہور والے عثمان کا؟ پھر کوئ نیا فتور ڈالا ہوگا اسنے تمہارے دماغ میں" امی ایک دم غصہ کرگئیں میرے حلق میں نوالہ اٹک گیا
"کہیں جانے کیلئے کہا ہوگا تم سے؟"
"نہیں وہ کہ رہے تھے کہ ایک گروپ لیکر کشمیر جارہے ہیں تو میں بھی اگر چل سکتا ہوں تو چلوں" میں نے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے بات آگے بڑحائ۔
 " مجھے گروپ لیکر جانے میں انکی مدد کرنی ہوگی پورے سفر کا خرچہ انکا بلکہ دوچار ہزار کما بھی لونگا۔۔۔معاونت کرنا ہوگی انکی مجھے" پتہ نہیں ان معاملات میں اتنی ڈھٹائ سے اتنا صاف جھوٹ کیسے بول جاتا ہوں میں۔
"دیکھ لو تمکو چھٹی مل جائے گی دفتر سے اور کتنے دن کا ہوگا یہ ٹور۔۔گھر میں ویسے ہی کوئ نہیں ہوتا اور تم بھی نکل جاتے ہو ہفتوں ہفتوں کیلئے" جیب سے پیسے نہ لگنے اور الٹا کچھ کما کر لوٹنے والی بات کام کرگئ میں نے امی کو سرسری سی معلومات دیں اور یہ کہ کر کہ واپسی پر آپکو مکمل معلومات دیدونگا سب معاملات کی دفتر چلا گیا۔
دفتر پہنچ کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ معاملات گرم ہیں اور ایسے میں چھٹی چاہے ایک دن کی ہی سہی کی بات کرنا فضول ہے پورا دن چپ کرکے کام کرتے نکل گیاشام ہوئ تو پھر رانا صاحب کا فون آگیا
"ہاں بات ہوئ؟"
"گھر پر تو بات ہوگئ امی نے تو اجازت دے دی ہے لیکن دفتر میں نہیں ہوئ کل ماحول دیکھ کر بات کرتا ہوں"
"چلو خیر ہے کوئ بات نہیں تو تیاری کر انشاءاللہ ساتھ جائیں گے دونوں بھائ"
دو دن اور گزر گئے اور میں چھٹی کی بات نہیں کرسکا تب ہی میں نے ارادہ کیا کہ دفتر میں بغیر بتائے نکل جاؤں گا اور بعد میں کوئ بہانہ کردونگا  بدھ کے دن گھر آکر میں نے ایک بڑے تھیلے میں مختصر سامان باندھا اور ایک دوست سے بات کی کہ وہ مجھے صبح دفتر چھوڑ دے کیوں کہ واپسی میں دفتر سے ہی سیدھا سٹیشن جانا تھا  صبح اپنا تھیلا اٹھا کر اور جینز اور ٹی شرٹ پہن کر دفتر چلا گیا تھیلا میں نے دفتر کے نیچے ایک پان والے کے کیبن پر رکھوا دیا کیوں کہ ساتھ لیکر جانا وبال جان بن سکتا تھا شام میں گھر  پر کچھ ضروری کا م کا بہانہ کرکے جلدی نکل گیا اور پان والے سے اپنا تھیلا اٹھا کر ساڑھے چار بجے  سیدھا کینٹ سٹیشن پہنچ گیا وہاں معلوم ہوا کہ راولپنڈی کیلئے تیز گام شام پانچ بجے روانہ ہوگی ریزرویشن نہ ہوسکی اور میں صرف ٹکٹ لیکر پلیٹ فارم پر انتظار کرنے لگا  آپ اگر عادی مجرم نہیں اور کبھی کبھی چوری کرتے ہیں تو چوری کرتے ہوئے آپ کو ایسا  ہی محسوس ہوتا ہے کہ تمام دنیا کی نظریں آپ پر لگی ہوئ ہیں  مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہونے لگا کہ  پلیٹ فارم پر موجود ہر انسان مجھے عجیب نظروں سے گھور رہا ہے  سب جانتے ہیں کہ میں دفتر میں جھو ٹ بول کر اس وقت پلیٹ فارم پر ٹرین کے انتظار میں کھڑا ہوں میرے لیئے زیادہ دیر کھڑا ہونا محال ہونے لگا اور میں ادھر ادھر بے مقصد گھومنے لگا ۔
معمول کے مطابق ٹرین ایک گھنٹہ لیٹ تھی جو کہ تقریبا پونے دوگھنٹے بعد  پلیٹ فارم پر ایک ارتعاش پیدا کرتی ہوئ آگئ میرے پاس چونکہ کسی مخصوص ڈبے کی سیٹ نہیں تھے لہٰذا میں پہلا ڈبہ جو میرے سامنے آکر رہا اسی میں سوار ہوگیا ٹرین کے اندر ایک عجیب افرا تفری کا عالم تھا اور ایک بھی سیٹ خالی نہیں تھی اپنے سامان کا تھیلا بغل میں دابے میں ایک کونے میں کھڑا ہوگیا ٹکٹ چیکنگ کے دوران میں نے ٹی ٹی سے کہاکہ میرے لئے کسی سیٹ کا بندوبست کردے تو وہ بے اعتنائ سے بولا کہ فی الحال ممکن نہیں آگے سٹیشن پر چیک کرلیجئے گا اگر ہوا تو ٹکٹ بنادیں گے جب میں نے اس سے کہا کہ مجھے پنڈی تک سفر کرنا ہے اور ایسے سفر بہت مشکل ہوجائے گا تو وہ یہ بول کر کہ آپ کو پہلے خیال کرنا چاھئے تھاآگے بڑھ گیا میں دل میں ایک موٹی سے گالی دیکر دوسرے میرے جیسے دربدرمسافروں کی دیکھا دیکھی گیٹ کے ساتھ زمین پر اپنے سامان سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا محبوب سے ملاقات کیلئے سفر کی دربدری کا آغاز ہوچکا تھا۔
ملتان تک یونہی  سفر کیا دن گیارہ بجے کے قریب ملتان پہنچ کر  تین سو روپےرشوت کے عوض ایک برتھ مل گئ اور میں اپنا تھیلا سر کے نیچےد با کر سوگیا کئ گھنٹے سونے کے بعد گرمی اور حبس سے آنکھ کھلی تو معلوم ہوا ٹرین کسی بیابان میں کھڑی ہے دھوپ ڈھل چکی تھی اور سورج اپنا سفر پورا کرنے کے بعد غروب کی تیاری میں تھا گھڑی دیکھی تو چھ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے فون نکالا تو رانا صاحب  اس دوران کئ مرتبہ فون کرچکے  اور  میرے فون کی بیٹری بھی تقریبا مردہ کرچکے تھے انکو فون کیا تو وہ دفتر سے گھر کیلئے نکل چکے تھے اور گھر پینچتے ہی بقول انکے وہ پنڈی کیلئے روانہ ہوجاتے باقی ساتھ بھی تیار ہیں اور انکے گھر پر انکا انتظار کررہے ہیں اس وقت تک مجھے باقی ساتھیوں کا کچھ علم نہ تھا کہ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں خیر فون پر تفصیل میں جانا مناسب نہیں تھا انہوں نے میری بابت دریافت کیا اور میں نے ظاہر ہے لاعملی کا اظہار کردیا کہ میں خود نہیں جانتا تھا کہ میں کہا ہوں۔
اسی طرح رکتے رکتے چلتے رہے رات اندھیری ہوگئ وقت مقررہ سے سات گھنٹے تاخیر سے میں پنڈی سٹیشن پر اتر گیا  یعنی رات تقریبا گیارہ بجے اور اس وقت تک میرے موبائل کی بیٹری مکمل طور پر مردہ ہوچکی تھی اب مجھے جو پریشانی لاحق تھی وہ یہ کہ رانا صاحب  کو اطلاع کیسے کروں گئے وقتوں میں لوگ چیزیں یادکرنے کیلئے انہیں لکھ لیا کرتے تھے ہمارے اساتذہ بھی ہمیں یاد کرنے کا یہی گر بتاتے تھے کہ چیزوں کو لکھ لیا کرو تاکہ وہ ازبر ہوجائیں نئے وقتوں میں ہم نے یہ سارا کام موبائل پر چھوڑ دیا   نام، پتے، فون نمبر اور دیگر معلومات بھی فون میں ہی موجود ہوتی ہیں ضرورت پڑنے پر ہر قسم کی معلومات سامنے آجاتی ہیں اصل مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب فون ساتھ نہ ہو یا ہماری طرح فون کی بیٹری مردہ ہوچکی ہو بارہا پر زور ڈالنے پر بھی رانا صاحب کا فون نمبر ذہن  میں نہ آیا تب ہی میں نے بھاگ دوڑ شروع کی کہ کسی طرح فون کو چارج کرلوں اور اپنے آمد کی اطلاع کرسکوں اور میں فون اور اسکا چارجر ہاتھ میں لئے سٹیشن سے ہاہر نکلا اور  فون چارج کرنے کی سعی میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ایک آواز سنائ دی
"اوئے فیضان" یہ رانا صاحب تھے جو ایک سفید رنگ کی  پرانے ماڈل کی ٹویوٹا کرولا سے برامد ہوئے تیزتیز قدموں سے چلتے ہوئے آئے اور مجھ سے لپٹ گئے
"یقین جان تجھے یہاں دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہورہی ہے کہ انتہا نہیں" رانا صاحب اردو کے  نیم لاہوری لہجے  میں الف پر زبر کے ساتھ انتہا کہتے ہیں مزا اور بھی دوبالا ہوجاتاہے وہیں کھڑے کھڑے خیر خیریت دریافت کرتے رہے پھر چونک کر بولے
 "تیرا سامان کدھر ہے؟"
"کون سا سامان آپ نے تو کہا تھا سامان میں لیکر آؤنگا تم خالی ہاتھ آجاؤ میں بس یہ لیکر آیا ہوں"میں نے اپنے سامان کے تھیلے کو ہوا میں جھلایا
رانا صاحب  فوری طور پر پریشان ہوگئے وہ قطعی یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ میں واقعی ہاتھ ہلاتا پہنچ جاؤنگا اور کچھ بھی ساتھ نہیں لاؤنگا اور اسی خیال میں وہ میرے لئے کسی قسم کا سامان نہیں لائے تھے فوری طور پر ایمرجنسی نافظ ہوگئ
"جوتے توہیں ناں تمہارے پاس؟"
"آپ نے کہا تھا کہ سب سامان آپ لارہے ہیں تو میں جوتے بھی نہیں لایا بس پہنے کے دوجوڑے ساتھ لایا ہوں"
رانا صاحب نے پریشانی میں اپنا ماتھا کھجایا اور بولے چل کچھ کرتے ہیں گاڑٰ ی میں بیٹھو ابھی چلو اور میں گاڑی میں بیٹھ گیا رانا صاحب کہتے ہیں کچھ کرتے ہیں تو مطلب سب کچھ وہ خود ہی کرلیں گے۔
گاڑی کے اندر دو افراد مزید سوار تھے پچھلی سیٹ پر ایک صاحب پیلی ٹی شرٹ میں ملبوس تھے اور اپنے کیمرے پر نظریں جمائے بیٹھے  تھے میرے اندر بیٹھنے پر انہوں نے ہاتھ ملایا  اور اپنا تعارف کرایا "نوید"
اگلی سیٹ سے ایک اور ہاتھ آیا "حافظ محمد نوید" ایک لمحے یوں لگا کہ جیسے اگلی سیٹ والے صاحب پہلے والے صاحب کا مکمل تعارف کرارہے ہیں
میں نے دونوں سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کرایا پہلے والے نوید صاحب نے اگلے والے نوید صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "یہ بلوچ ہے"
یہ شاید کسی قسم کی انتباہ تھی یا کیا تھا مجھے سمجھ نہیں آیا لیکن اگلی سیٹ والے بلوچ صاحب نے ایک چھوٹا سا قہقہ لگایا اور بولے "پراؤڈ ٹوبی بلوچ"
اس گاڑی میں میرے علاوہ ایک رانا صاحب تھے دوسرے کیمرے والے نوید صاحب جو چودھری  تھے پکے لاہورئے اور جب انکو معلوم ہوا کہ مجھے پنجابی نہیں آتی تو تھوڑے سے بور ہوگئے اور دوسرے حافظ محمد نوید  پراؤڈ ٹو بی بلوچ سوار تھے  جو ڈیرا غازی خان سے آئے تھےسب سے پہلے میرے سامان کا انتظام شروع ہوا  ایک اضافی بیگ جو رانا صاحب کے ساتھ تھا خالی کیاگیا ایک جیکٹ چودھری  صاحب کے پاس تھی وہ مجھے دی گئ  بلوچ صاحب نے جرابیں اور مفلر اگر ضرورت ہوئ تو میرے لئے مخصوص کردیا  گاڑی گھمائ گئ اور راجہ بازار میں ایک بند ہوتی ہوئ دوکان میں گھس کر جوتے خریدے گئے یوں میرا سامان مکمل ہوگیا چوھدی صاحب مجھے چھیڑتے ہوئے کہنے لگے
"مولوی تو اتنی دور سے آم لینے آیا ہے کوئ سامان نہیں لایا منہ اٹھا کے خالہ کے گھر آیا ہے یا ٹریک کرنے۔۔ ہیں؟"یہ جملہ انہوں نے خالص پنجابی میں ادا کیا جسے میں نے صرف کامن سینس کی مدد سے سمجھا اور جواب میں  میں نے  کہا کہ میں تو رانا صاحب کی وعدے پر آگیا ایسے ہی انہوں نے دھوکہ کردیا تو میری کمر پر کس کے دھپ رسید کرکے بولے "شاباش اے بھئ"
سامان مکمل ہوا تو سوال ہوا کہ اب سفر شروع کیا جائے اچانک رانا صاحب کو جیسے کچھ یاد آیا "اوئے تونے کھانا کھایا ہے کہ نہیں؟"
میں نے نفی میں گردن ہلائ تو گاڑی ایک ریسٹورنٹ پر رکوائ گئ اور میرے اعزاز میں سب نے دوبارہ کھانا کھایا پراؤڈ بلوچ صاحب خاموشی سے کھانا کھاتے رہے جس پر چودھری  صاحب نے  کہا کہ بلوچ کھاتے ہوئے سانس بھی روک لیتا کہ ہوا اندر چلی جائے گی تو ایک نوالے کی جگہ کم پڑجائے گی جس پر بلوچ صاحب نے لقمہ ہاتھ میں پکڑے پکڑے زور زور سے قہقہے لگائے اور آخر میں یہ کہ کر نوالہ منہ میں ڈال لیا کہ "چودھری تو بھی نا یار ڈسٹرب کرتا ہے"
کھانے اور چائے کے بعد سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا اس وقت رات کے ڈھائ بجنے والے تھے شہر کے اندر ہی ایک لمبا چکر کاٹ کر ہم مرکزی بس اڈے پر آئے اور وہاں ڈرائیور نے ٹائر چیک کرانے گاڑی روک لی رانا صاحب موقع غنیمت جان کر خود کو ہلکا کرنے کیلئے اتر گئے اور اندھیر ے میں غائب ہوگئے انکے جانے پر چودھری صاحب بھی باہر آگئے اور سگریٹ سلگا کر گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے چند سیکنڈ گزرے ہونگے کہ قدرے حیرانی کے ساتھ مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے
"او مولوی تو واقعی بغیر سامان کے ٹریک پر نکلا تھا گھر سے؟" میں نے اثبات میں گردن ہلائ تو دوبارہ ایک دھپ کمر پر رسید کی "شاباش اے بھئ"
جب سفر دوبارہ شروع ہوا تو اس وقت رات کے تین بجے تھے راولپنڈی کے آخری چوک پر آئے اور آخری چیز جو روشنی میں تھی وہ سڑک کے دائیں جانب لگا ہوا بورڈ تھاجس پر جلی حروف میں مری لکھا ہوا تھا اور تیر کا نشان سیدھا چلے جانے کا اشارہ کر رہا تھا۔
گاڑی کے اندر مدھم آواز میں نصرت فتح علی خان صاحب کی آواز میں کوئ غزل لگی ہوئ تھی اور اگلی سیٹ سے بلوچ صاحب کے دھیمے خراٹوں کی آواز آرہی تھی اور گاڑی کے اندر کی بتی گل تھی میں تھوڑی دیر میں غنودگی میں چلا گیا کبھی آنکھ کھلتی تو گاڑی کی ہیڈ لائٹ میں مری کے چیڑ کے درخت ہیولوں کی صورت گزرتے ہوئے نظر آتے کسی موڑ پر نیچے وادی میں جلتے بجلی کے بلب چھوٹے چھوٹے ٹمٹماتے جگنوؤں کی مانند نظر آتے او ر کبھی غائب ہوجاتے ہاں البتہ ان علاقوں کی مخصوص مہک  پوری فضا میں موجود تھی ایسے ہی اونگھتے سوتے جاگتے اندھیرے میں مری کو ہم نے پیچھے چھوڑ دیا رات کے سیاہ اور سفید دھاگے جدا ہوئے اور آسمان پر سرمئ سویرا ابھرنے لگا ایسے میں جو آواز سب سے پہلے گونجی وہ آذان کی آواز تھی آذان کی آواز کان میں پڑتے ہی چودھری نے شورمچا دیا "روکو روکو روکو گاڑی روکو" سڑک کے کنارے گاڑی رک گئ ہم سب گاڑی میں بیٹھے رہے یہاں تک کہ آذان مکمل ہوگئ ایک انجانے مقام پر فرحت دیتی ہوئ خنک ہوا میں آذان کی آواز نے ہمیں یوں جکڑا کہ ہم گاڑی سے باہر آئے انگڑایاں لیکر اپنے جسموں کو سیدھا کیا  پاس ہی کہیں ایک پہاڑی جھرنے کے بہنے کی آواز آرہی تھی بلوچ نے اندھیرے میں اسے دریافت کیا اور ہم سب نے باری باری اسی چشمے سے وضو کیا اور اس مسجد کو تلاش کرکے داخل ہوگئے اس روز فجر کی نماز میں اس مسجد میں امام اور موذن صاحب کے علاوہ داخل ہونے والے نمازی بس ہم پانچ ہی تھے۔

Monday 24 August 2015

ہنگول نیشنل پارک بلوچستان۔ ایک سفر عجب دنیا کا

تصویر فیضان قادری

رات کی تاریکی میں ایک سیاہ اور ہموار سڑک پر ہماری بس چلی جارہی تھی بس کے باہر باندھا گیا پاکستانی پرچم پھڑپھڑ رہا تھا اور اندر سناٹا زیادہ تر مسافر سوئے ہوئے تھے اور جو سوئے ہوئے نہیں تھے وہ یا تو خاموش تھے یا اونگھ رہے تھے بس کے ساؤنڈ سسٹم مسلسل کبھی آہستہ اور کبھی تیز آواز میں ہندوستانی گانے بجا رہا تھا یہ چودہ اگست کی رات تھی اور ہماری بس براستہ مکران کوسٹل ہائے وے کنڈ ملیر کے ساحل کی طرف رواں دواں تھی۔

میرے ساتھ تین اور افراد تھے مصطفیٰ صابر، وسیم احمد اور عمر رشید جو لوگ میرا لکھا ہوا پہلے برداشت کر چکے ہیں وہ مصطفیٰ سے واقف ہونگے لیکن جنہوں نے نہیں پڑھا ان کیلئے مختصر یہ تینوں افراد میرے دفتر کےساتھی ہیں۔

بلوچستان کا نام سنتے ہی اکثر لوگوں کے ذہن میں جو نقشہ آتا ہے وہ یہی ہے کہ جیسے ہی آپ کراچی سے نکل کر بلوچستان میں داخل ہونگے سیاہ ڈھاٹا باندھے ایک یا زیادہ افراد آپ کو روک لیں گے آپ کا سارا قیمتی سامان لوٹ کر آپ کو جان سے مار کر آرام سے وہیں کرسیاں ڈال کر بیٹھ جائیں گے اور آپ کے پیچھے آنے والوں کا انتظار کریں گے اس دوران وہ چائے پیتے رہیں گے چرس کے سوٹے لگائیں گے اور تاش کھیلتے رہیں گے جب تک کہ دوسرا کوئ شکار ادھر نہیں آنکلتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کا نام آتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور آپ کو بھی منع کرتے ہیں کہ آپ خودکشی کا ارادہ ترک کردیں اور گھومنے کا اتنا ہی شوق ہے تو مری وری چلے جائیں وہاں کم از کم جان محفوظ رہے گی۔

اندرون سندھ کے بارے میں بھی عام رویہ یہی ہے کہ وہاں ہر جگہ ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں اور بس انتظار میں ہیں کہ کب آپ تشریف لائیں اور کب وہ آپ کو لوٹ کر گولی ماریں۔

اگر ایسا واقعی ایسا ہوتا تو میں ان علاقوں سے واپسی کے بعد ان سطور کو لکھنے کے قابل نہ ہوتا تو ضمانت میں میں خود کو پیش کرتا ہوں۔

میں ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا باہر اتنا ادھیرا تھا کہ صرف بس کی ہیڈ لائٹ سے پڑنے والے دائرے کے اندر جتنا منظر تھا وہ نظر آرہا تھا یا سامنے سے آتی ہوئ گاڑی کی ہیڈ لائٹ ڈرائیور خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا جبکہ اسکا ساتھی (کو پائیلٹ) جو درمیان میں اس لئے بیٹھا تھا کہ ڈرائیور سے باتیں کرے تاکے اسے نیند نہ آئے مسلسل مجھ سے باتیں کئے جارہا تھا بلوچی لہجے کی اردو اور بات کرنے کا خاص انداز اور ہر بات میں "اڑے" کا اڑنگا لگا کر معنی گرانا ویسے تو بڑا اچھا لگتا ہے لیکن اسکا موضوع کچھ ایسا تھا کہ مجھے الجھن ہونے لگی

"فے زان بھائ آپ کدھر کدھر گھوما ہے"

جواب میں میں نے دوچار جگہیں بتادیں

"واہ آپ تو خوب گھوما ہوا ہے" ایک لمحے کا وقفہ لیا اور دوبارہ بولا" گھوما ہوا مطلب یہ والا نہیں "اپنی کن پٹی پر فون ڈائل کرنے کے انداز میں انگلی گھماتے ہوئے سمجھایا "مطلب گھوما پھرا ہوا ہے"

جواب میں میں نے ایک قہقہ لگایا 

"صرف مولک میں ہی گھوما یا باہر بھی گیا کبھی"

"ہاں گیا باہر بھی" میں نے جواب دیا "کہاں کہاں گیا"

"بس دوبئی ،سعودیہ، عمان وغیرہ۔۔۔ بحرین بس"

"ایران نہیں گیا یہ برابر میں ہے"

"نہیں ایران نہیں گیا ویسے برابر میں تو انڈیا بھی ہے"

"اڑے چھوڑو انڈیا منڈیا وہ کافر کا مولک ہے ایرا ن جاؤ"

"مسلمان ملک تو افغانستان بھی ہے اور برابر میں بھی"

"اڑے ادھر جنگ لگا ہواہے ۔۔۔طالبان تمہارا گلاں کاٹ کے رکھ لیگا باقی کا سمندر میں پھینکے گا"

"کون سے سمندر میں پھیکے گا" افغانستان کے سمندر میں پھینکا جانا بھی اچھا تجربہ ہوگا

"آپ کو کوئ فرق پڑجاوے گا کدھر میں بھی پھینکے"

میں کچھ دیر خاموش رہا تو پھر سوال کیا"آپ گوادر بھی نہیں گیا فے زان بھائ"

"نہیں گوادر ابھی تک نہیں گیا لیکن جانے کی خواہش ہے"

"اڑے خواہش مواہش چھوڑو چلو گوادر ہم لوگ لوکل ہے ادھر کا گوادر ہمارا مولک ہے"

"آپ کب جاؤ کے گوادر مجھے بتانا موقع ہوا تو ضرور چلوں گا"

"ابھی اگلے چار دن میں جارہا ہوں آپ اپنا نمبر دو دفون کا ہمارا گاؤں ہے آپ کو لیکر جائیں گے ساتھ میں ادھر سارا خرچہ ہمارا ذمہ آپ کو کھانا پینا گھر بھی ہے اپنا ہوٹل موٹل کا ٹیشن نہیں ہے آپ کو کوئ"

"آپ گوادر چلو ساتھ پھر وہاں سے آپ کا راہداری بنوا کر آپ کو ایران لیکر جائیں گے"

"کیا بنوا کر"

"راہداری آپ کا شناختی کارڈ رکھوا کر آپ کا ایران کیلئے انٹری پرمٹ بنے گا پاکستان ڈی سی بناکردیگا اس پر آپ ایران جاؤ گھومو پھرو پھر ادھر سے واپسی میں اپنا شناختی کارڈ اٹھاؤ اور جاؤ"

یعنی کہ کوئ بات ہی نہیں نہ ویزا نہ پاسپورٹ اور آپ کے پاس جو شناخت ہے وہ بھی آپ سے لیکر ایک کاغذ پکڑا کر آپ کو سرحد پار ایک دوسرے ملک بھیج دیاجائے اور وہاں آپ گھومو پھرو کوئ مسئلہ نہیں اسکے بعد میری اس اسے اسی موضوع پر بات ہوتی رہی وہ مجھے قائل کرتا رہا یہ بتاتا رہاکہ وہ کتنی بات ایسے گیا ہے اور کچھ نہیں ہوتا وہاں اسکے جاننے والے ہیں سرکاری گاڑی میں گھومیں گے خیر بہت دیر اسی پر بحث کرتا رہا آخر میں نے اسکے منہ پر بڑی بڑی دو تین جماہیاں لیں اور سیٹ کی پشت سے گردن ٹکا کر آنکھیں موند لیں پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے میرے ساتھ دفتر ی امور پر بات چیت ، بحث اور غیبت میں مشغول تھے مجھے خاموش ہوتا دیکھ کر عمر نے پیچھے سے ہی پوچھا 

"ابے تو کیا لگا ہوا ہے اسکے ساتھ؟" عمر رشید ایک بزلہ سنج اور شوخ طبیعت کا مالک انسان ہے جو ہر کسی سے بغیر عمر و مرتبہ کے مذاق یا جملہ بازی کرسکتا ہے پورے دفتر میں سب اس بات سے خوف کھاتے ہیں کہ ان کے بارے میں کوئ بھی ایسی بات جس میں مزاح کا عنصر ہو کسی کو بھی پتہ چل جائے عمر کو پتہ نہ چلے کیونکہ یہ کبھی بھی کسی کا بھی ریکارڈ لگا سکتا ہے۔

"یہ مجھے ایران سمگل ہونے کیلئے قائل کررہا ہے" میں نے کہا

"تو کب جارہے ہو؟؟ میں نے خاموشی اختیار کی اور اسی طرح سونے کی کوشش کرتا رہا اور شاید میری آنکھ بھی لگ گئ یا میں غنودگی میں تھا اور میری آنکھ تب کھلی جب ہماری بس نے سامنے سے آتے ہوئے ایک ٹرک کو بہت خطرناک انداز میں کاٹا اور اسکے بعد مجھے نیند نہیں آئ۔

ہمیں اس سفر میں کل تقریبا دوسو چون (254) کلومیٹر کا سفر طے کرنا تھا اور اتنا ہی واپسی کراچی سے براستہ حب چوکی بوچستان میں داخلے کے بعد حب، وندر، اگور اور ہنگول اس سے آگے کنڈ ملیر کا ساحل اور پھر بوزی پاس سے پہلے پرنسس آف ہوپ تک اور وہاں سے واپسی۔

کنڈ ملیر کےساحل تک سفر ہے اور اس سے آگے "اصل "سفر ہے جو یہ سفر کر چکے ہیں وہ میری بات سے اتفاق کریں گے اور جنہوں نے نہیں کیا وہ تھوڑا سا صبر کریں آگے اس بارے میں معلومات آنے والی ہیں۔

وندر سے آگے ایک مقام زیرو پوائنٹ آتا ہے یہاں سے راستہ دو لخت ہورہا ہے ایک خصدار اور کوئٹہ کی طرف اور ایک ہنگول کی طرف جہاں ہماری بس نے سامنے سے آتے ہوئے ٹرک سے آمنا سامنا کیا وہ جگہ زیرو پوائنٹ سے تھوڑا پہلے تھی اور یہاں ہمارا سٹاپ تھا تمام بسیں رک گئیں دونوں ڈرائیور اتر کر غائب ہوگئے میں بس کے دروازے کے ساتھ کھڑا ہواتھا میری والے بس میں پچھلی سیٹ پر ایک باریش صاحب بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی باہر ہی کھڑے تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا "آپ پہلے آئے ہیں یہاں" "جی"میں نے جواب دیا تو کہنے لگے بڑی ہمت ہے آپ کی دوبارہ جارہے ہیں میں نے پوچھا کہ انکو مزہ نہیں آرہا تو انہوں نے جواب میں کہا " ارے بھی میں تو بیزار ہوگیا ہوں بس یہ ہماری بیگم ہیں نا انکوہی شوق ہے ہر وقت گھومتے رہنے کا میں نے کہا کہ بھی سمند ر ہی دیکھنا ہے تو کراچی میں کم ہیں ساحل لیکن نہیں بس اتنا لمبا سفر کرکے ساحل دیکھنا ہے میری توبہ ہے آئندہ جوآیا ادھر کبھی"

میں نے انکو انکے حال پر چھوڑا اور پاس بنے چائے کے ہوٹل میں آگیا باقی مسافر بھی یہاں ہی جمع تھے ہمارے ڈرائیور حضرات غائب تھے ہوٹل کے ساتھ ایک جھونپڑا سا بنا ہوا تھا اندر جھانکا تو دونوں وہاں بیٹھے بارے بارے سوٹے لگارہے تھے اور ایک ناگوار بو پھیلی ہوئ تھی بات واضح تھی بغیر کسی ابہام کے

مجھے دیکھ کر ڈرائیور عبدل وہاب بولا" اڑے آنکھیں بند ہورہا ہے ابھی ہمارا چوبیس والٹ کا بیٹری اڑتالیس والٹ کا ہوجائے گا" اور یہ کہتے ہوئے سگریٹ میری طرف بڑھائ " یہ لو آپ بھی لگاؤ" میں نے انکار کیا اور باہر آگیا۔

کچھ دیر میں قافلہ دوبارہ چلا اور اب کی بار عبدالوہاب واقعی راکٹ ہوچکا تھا اور بس کو بھی جہاز سمجھ کر اڑا رہا تھا لیکن چونکہ پورے قافلے کو ایک ساتھ سفر کرنا تھا اس لئے عبدالوہاب کی مشکیں کسی گئیں اور تین میں سے ایک بس ہم سے آگے آگئ اور راستہ روک کر ہمارے آگے چلتی رہی عبدالوہاب پیچ وتاب کھا کر صبر کرگیا اور گٹکا منہ میں ڈال کر خاموشی سے ایک ٹانگ سیٹ پر رکھ کر بس چلاتا رہا۔

کچھ دیر میں روشنی ہوئ تو ایک عجیب منظر تھا سڑک کے دونوں طرف جھاڑیاں اور درخت تھے وہ تمام کے تمام ایک طرف پیلے پیلے پھول لگےہوئے تھے اور دوسری طرف سے بالکل گنجے ایک پتہ بھی نہیں ایسا شاید کسی زور دار آندھی کی وجہ سے ہوا ہوگا اور یہی منظر تمام راستے ساتھ رہا سورج نکل آیا تو تیز دھوپ پھیل گئ اور سیاہ سڑک سورج کی روشنی کو منعکس کرنے لگی تمام منظر ایک اوور ایکسپوز تصویر کی طرح ہوگیا ہم نے آنکھوں پر دھوپ کے چشمے چڑھا لئے۔

صبح ساڑھے چھ بجے ہم کنڈ ملیر ساحل پر پہنچ گئے۔

کنڈ ملیر کا ساحل پاکستان کے خوبصورت ترین ساحلوں میں سے ایک ہے صاف شفاف پانی اور صاف ساحل لیکن جب سے عوام کا رجحان اس طرف بڑھا ہے بس تو اس سے آگے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے بس کچھ سالوں کی بات ہے ہر جانےوالا سیاح اپنا قومی فریضہ ایسے ہی ادا کرتا رہا تو بہت جلد ہی وہاں چھوڑی چھوٹی کچرے کی پہاڑیاں نظر آنا شروع ہوجائیں گی یہ تو ہمارا عام رویہ ہے افسوس کی کوئ بات نہیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کی بات ہوتی ہے یا عام طور پر سیاحت کی بات کی جاتی ہے تو شمالی علاقہ جات کو خاص توجہ دی جاتی ہے قدرتی حسن سے مالا مال وادیاں چاہے کوہ مری ہو یا وادئ نیلم یا پھر گلگت بلتستان کی جنت ارضی جہاں کوہ ہندو کش، قراقرم اور ہمالیہ کے طویل پہاڑی سلسلے اور انہی میں کے ٹو، نانگا پربت یا راکاپوشی کے حسین پہاڑ بھی ہیں اور دیومالائ حسن کا حامل ویوسائ کا میدان اور فیری میڈوز کا حسین سبزہ زار بھی اور وادئ کاغان اور جھیل سیف الملوک بھی اور ان سب کے علاوہ پاکستان کے شمال میں ہر ہر قدم پر سبزہ اور جھیلیں پھول اور درخت آپ کا استقبال کرتے ہیں لیکن کیا حسن صرف سبزہ جھیلیں اور پہاڑہی ہیں؟ کیا قدرتی حسن کا مطلب صرف پھول جھرنے اور آپشاریں ہی تصور کی جاتی ہیں یا کچھ اور بھی اس معنی میں تصور کیا جاسکتا ہے۔

پاکستانی مصنفین نے بھی اگر کتابیں لکھیں تو شمال پر صرف سلمان راشد صاحب ہی ہیں جن کے کئ بلاگز اور تحاریر سندھ اور بلوچستان کے حوالے سے ملتی ہیں اور فوٹوگرافر حضرات کا رجحان بھی ادھر ہی رہا نوے فیصد ڈاکومنٹریز بھی جو بنیں تو شمالی علاقہ جات پر مجھے یاد ہے پاکستان ٹیلیوژن پر شام کے وقت ایک پروگرام "فوڈ اینڈ ٹریول آف پاکستان" کے نام سے آیا کرتا تھا جسکی میزبانی ایوب کھوسہ صاحب کیا کرتے تھے بنیادہ طور پر یہ پروگرام بلوچستان کیلئے مخصوص تھا اور دور افتادہ وادیوں اور قبیلوں اور انکے روایتی کھانوں کے بارے میں ہوا کرتا تھا اور اسی پروگرام نے میرے اندر بلوچستان دیکھنے کی ایسی آگ لگائ جو ابھی تک جل رہی ہے بہت ہی کم موقع مل سکا خیر اور سندھ کے حوالے سے بھی مجھے پی ٹی وی کا ایک پروگرام یاد پڑتا ہے جو پروفیسر عبد الرؤف نامی ایک صاحب کیا کرتے تھے اور اسکی صرف چند ہی اقساط تھیں وہ بھی ٹھٹہ، مکلی، اور کینجھر جھیل تک ہی محدود تھیں خیر یہ میرا شکوہ نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوتا رہا لیکن شاید یہی وجہ ہے کہ عوام الناس کا رجحان بھی شمال کی طرف رہا اور دوسرے علاقے خصوصا صوبہ سندھ اور بلوچستان کی طرف دھیان نہیں دیا گیا لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔

صبح صبح ساحل کی ٹھنڈی ہوا نے جب ہمارے بدنوں کو چھوا تو ایک تو سب تازہ دم ہوگئے دوسرے سب کی بھوک خوب چمک اٹھی اور کراچی کے محاورے کے مطابق"کتے کی طرح بھوک لگ رہی تھی" اب مجھے نہیں معلوم کہ کتے کو کیسے بھوک لگتی ہے لیکن اگر ویسے ہی لگتی ہے جیسے ہمیں لگی تھی تو واقعی بڑی کتی بھوک ہے تو ہمارے میزبان جو ہمیں اپنی ذمہ داری پر لائے تھے وہ ہمیں اس کتی بھوک میں فوری ناشتہ فراہم کرنے سے قاصر ثابت ہوئے بلکہ بے بس ثابت ہورہے تھے ہائ وے کے ساتھ ہی ساحل پر ایک "بیچ ویو ریزارٹ ہوٹل" بنا ہوا ہے اسکی واحد خصوصیت ساحل سمندر پر ہونے کی وجہ سے سمندر کا نظارہ ہے اب ساحل پر ہو سمند ر بھی نہ دکھے تو تف ہے لیکن چلیں خیر بیٹھنے کی جگہ ہے ایک پکی چھت ہے ٹیبل اور کرسیاں لگی ہوئ ہیں پہلے پہل بسوں سے ان لوڈ کرکے ہمیں یہاں بٹھایا گیا کہ ناشتہ کریں اور پھر جو کرنا ہے کریں لیکن ایک توا جو باہر کھلے آسمان تلے لگاہوا تھا درجن بھر لکڑیاں ڈالنے کے بعد بھی جب گرم نہ ہوا اور جب یہ معلوم ہوا کہ پہلے انکو ناشتہ دیا جائے گا جنکی بکنگ پہلے سے آئ ہوئ ہے تو اعلان ہوا کہ جوکرنا ہے کرلیں پھر ناشتہ کریں اس اعلان پر ہال میں سے کئ ایک لوگ اٹھ گئے اور جب وہ سرخ سرخ آنکھوں کے ساتھ واپس آئے تو وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں تھے بس مسکراتے رہ گئے۔

ناشتے کے انتظار میں باہر توے کے گرد ایسے رش لگا ہوا تھا جیسے سڑک پر کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجانے پر لگ جاتا ہے یعنی کرتا کراتا کوئ کچھ نہیں ہے بس گھیر کر کھڑے ہوجاتے ہیں یہاں بھی یہی ہورہاتھا درجن بھر سے زیادہ لڑکے لڑکیاں توے کوگھیر کر کھڑے تھے اترتے ہوئے پراٹھوں کو دیکھ کر اپنی بھوک بہلارہے تھے۔

ناشتے کے انتظار میں بیٹھا بیٹھا جب بیزار ہوا تو باہر نکلا ہوٹل کے باہر ایک میلا لگا ہواتھا دس کے قریب چھوٹی بڑی بسیں اور اسی حساب کے گاڑیاں پارک تھیں ان کے علاوہ نوجوانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد اپنی موٹرسائیکلوں پر وہاں موجود تھی بائیں طرف دیوار پر ایک ہاتھ سے بنی برقع پوش خاتون کی تصویر تھی یعنی دیوار پر کوئلے سے بنائ گئ تھی اور لکھا تھا "لیڈیز واش روم" اور ایک تیر کا نشان راستے کی آگاہی کیلئے بنا ہوا تھا تیر کے نشان کے دوسری طرف مردانہ واش روم تھے جس کی نشاندی کیلئے کوئ نشان یا تصویرنہیں تھی گویا کہ راستے الگ الگ تھے لیکن بیچ کی کاغذی دیوار ایک ہی تھی فرق صرف اتنا تھا کہ مردانہ استراحت خانوں کے سامنے ایک بلوچ بچہ کرسی ڈال کر بیٹھا تھا اور انہیں استعمال کرنے کے اپنی مرضی سے پیسے وصول کررہا تھا جیسے کہ کوئ کم عمر لڑکا ہے اور بال بچے دار نہیں لگتا تو وہ دس یا بیس روپے وصول لیگا لیکن اگر عمر کچھ زیادہ لگے یا بندہ شادی شدہ لگے تو پھر وہ پچاس روپے وصول لیگا کہ آپ کے ساتھ لیڈیز ہوگا ادھر کوئ پیسہ نہیں لیتا وہ بھی ادھر لیگا ایک صاحب سے جب زیادہ پیسے وصولے تو انہوں نے اعتراض کیا کہ جتنے پیسے تونے نکالنے کے لئے ہیں اتنے کا تو میں نے کچھ کھایا بھی نہیں تھاتو بچے نے جواب دیا کہ ادھر اپنا لیڈیز کو بھیج دو ادھر کوئ پیسہ نہیں ہے تو وہ صاحب بولے کہ انکے ساتھ کوئ لیڈیز نہیں ہے اس پر بچے نے یہ کہ کر بات ختم کردی کہ اسمیں تمہارا قصور ہے اس جگہ پر گھٹن اور تعافن اس قدر ہے کہ تھوڑی دیر کھڑا ہونا محال تھا۔

اس باتھ روم سے تھوڑا آگے ایک طرف ہوٹل کا کچا باورچی خانہ ہے جوکہ اینٹوں سےگھیر کر بنادیا گیا ہے اور چھت پر چھپر ہے اسی کے ساتھ ہی دودھ کے خالی ڈبے، چائے کی پتی، بسکٹ کے ریپر کولڈ ڈرنک کے بوتلیں اور دیگر کچرا ڈھیر کی صورت جمع ہورہاہے جسکی صفائ کا کوئ انتظام نہیں باتھ روم کی نکاسی کا بھی کوئ انتظام نہیں ہے اور استعمال شدہ پانی تھوڑی دور پر ساحل پر نکال دیا جاتا ہے ۔

باہر گھوم پھر کر واپس آیا تو اتنا وقت گزر چکا تھا کہ ہال کے اندر ناشتہ بانٹا جارہا تھا پراٹھا اور انڈا اور ایک گلاس چائے ناشتے کے بعد بھی پیٹ میں بہت سی خالی جگہ بچ رہی اور ہم نے بیرے سے کہا کہ اب ہمیں ہمارے خرچ پر کچھ کھلادے تو اس نے اول تو ہمیں بہت بیزاری سے دیکھا پھر کھڑکی سے باہر توے کی طرف اشارہ کرکے بولا پہلے سب کا آرڈر ہوگا پھر آپکا آرڈر لگے گا یہ سن کر ہمارے پیٹ ویسے ہی بھر گئے۔

بات اگر کریں ٹریول اینڈ ٹورزم انڈسٹری کی تو پاکستان میں حکومتی سطح پر کوئ خاطر خواہ پزیرائ نہیں لیکن پرائیوٹ ٹور آپریٹرز ہی ہیں جن کی وجہ سے یہ اب تک زندہ ہے انفرادی طور پر اب بھی کافی بڑی تعداد سفر کرتی ہے لیں عموما فیملیز ٹور آپریٹرز کے ساتھ سفر کرنا پسند کرتے ہیں کہ اس میں ذاتی طور پر کوئ سر درد نہیں ہوتا ساری ذمہ داری اس شخص کی ہوتی ہے جو اس سفر کا آرگینائزر ہے یعنی ٹراسپورٹ رہائش اور کھانا پینا تو جہاں اس کاروبار میں پیشہ ور لوگ ہیں وہیں کچے بچے بھی آگئے ہیں اور فیس بک کے عام ہونے کے بعد سے ایک بہت بڑی تعداد ایسے کچے بچوں کی اس دھندے میں آگئ ہے جن کا واحد مقصد پیسا کمانا ہے اور یہ کوئ بری بات بھی نہیں لیکن جن لوگوں کو آپ اپنے ساتھ لیکر جارہے ہیں ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا بھی ان کی ذمہ داری میں شامل ہے جہاں آپ ان سے پیسے نکلوا کر انکو لےکر جارہے ہیں اس جگہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنا بھی اسی ذمہ داری میں شامل ہے جو کام آپ کررہے ہیں اس بارے میں مکمل معلومات ہونا بھی بہت ضروری ہے لیکن ایسا دیکھنے میں بہت کم ہی آتا ہمارے ساتھ بھی ایسے ہی کچے بچے تھے لیکن وقت گزرنے پر یہی کچے بچے بڑے ہوجائیں گے بس انکو کچھ وقت دینا چاھئے لیکن درست رہنمائ بھی ضروری ہے یعنی گروپ ممبران سے جتنا پیسا لیا جائے اسکا کم از کم آدھا تو ان پر خرچ کرہی دیا جائے باقی آدھا آپ بچا بھی لیں تو کوئ مضائقہ نہیں مقصد کچے بچوں پر تنقید نہیں بس درست سمت میں رہنمائ کی کوشش ہے ویسے بھی ہم تو اب رانا صاحب کے ساتھ سفر کرکر کے اضافی اشیاء کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ جہاں ایک سے کام چل سکتا ہو وہاں بھی چار چار لیتے ہیں مبادہ کہیں کم نہ پڑجائیں یعنی حساب لگائیں تین بندوں کیلئے چھ کلو مرغی یعنی کہ ۔۔۔۔اندازہ کرو۔

ہم رات گئے کراچی سے چلے اور صبح صبح جو کنڈ ملیر پہنچ گئے تو کچھ تو اسکا سہرا عبدالوہاب کوجاتا ہے لیکن ایک بہترین سڑک کی موجودگی کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مکران کوسٹل ہائے وے جسکا افتتاح سن 2002 میں جناب جنرل مشرف صاحب کے دور میں ہوا اور تین سال کے قلیل عرصہ میں مکمل ہوا چھ سو تریپن (653) کلومیٹر طویل اس شاہراہ کو بنانے کا بنیادی مقصد اول تو یہ تھا کہ کراچی اور گوادر پورٹ جو کہ سن 1990 سے التوا کا شکار تھی کے درمیان بہتر زمینی راستے کا قیام عمل میں لایا جائے کیوں اب جو سفر باآسانی چھ سے سات گھنٹوں میں طے پاجاتا ہے وہ کوسٹل ہائے سے پہلے کم از کم دو سے تین دن کا اور مشکل ترین سفر ہوا کرتا تھا دوسرا راستہ کراچی سے براستہ کوئٹہ گوادر کیلئے اختیار کیا جاتا جس کے بہتر حالت میں ہونے کے باوجود طوالت کے باعث وقت اتنا ہی درکار ہوتا اس شاہراہ کے قیام کے بعد اب گوادر شہر اور اسکے علاوہ پسنی ، اوڑمارہ اور لیاری بھی پورے پاکستان سے زمینی راستے سے جڑ چکے ہیں اور ساحل مکران سے حاصل ہونے والے سمندری حیات کی ترسیل ملک بھر میں اور اسکے بعد ملک سے باہر جانے میں کافی ہمواری میسر ہوئ ہے اور یہ شاہراہ ان شہروں کی ترقی کی وجہ بھی بنی ہے یہ بات ویسے تو سب جانتے ہی ہیں لیکن پھر بھی یاددہانی کیلئے بتادی جاتی ہے کہ اس کی تکمیل دوست پڑوسی ملک چین کے تعاون سے عمل میں آئ آخر کو چین ہمارا بڑا بھائ ہے دیکھ ریکھ کی ذمہ داری نیشنل ہائے وے اتھارٹی کی ہے۔

ایران سے بذریعہ لانچ سمندری راستے سے ایرانی پٹرول اور ڈیزل پاکستان میں سمگل کیا جاتا ہے اور ملک بھر میں ترسیل کیلئے اسی شاہراہ کا استعمال کیا جاتا ہے اسی لئے جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کرکے اس کے سد باب کی کوشش کی گئ ہیں تمام ہی اہم مقامات پر چکنگ کی جاتی ہے لیکن لانے والے قیامت کا ذہن رکھتے ہیں کہ لے ہی آتے ہیں شہر قائد میں جگہ جگہ سڑک کنارے یہ ایرانی پٹرول قدرے ارزاں قیمت پر مل جاتا ہے جو کہ معیاری نہ ہونے کہ وجہ سے استعمال کرنے والے کی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی ایسے کی تیسی کرتا رہتا ہے خیر یہی جگہ جگہ چیک پوسٹیں اور فوج اور رینجرز کی موجودگی کہ وجہ سے یہاں لوٹ مار کے واقعات کافی کم ہیں اور امن امان ہے یعنی سفر کرنے میں جان کا خطرہ نہیں ہے۔

مکران کوسٹل ہائ وے کا قیام بلا شبہ ملکی اور خاص کر اس سے جڑے ہوئے شہروں اور یہاں کی عوام کی ترقی کیلئے ایک احسن قدم ہے۔

خیر تو ہم کنڈ ملیر کے ساحل پر موجود تھے اور ناشتے سے فارغ ہوکر ہم نے ساحل پر چلے گئے اور ایک کراچیائیٹ ہونے کہ وجہ سے سمندر سے ہمارا رشتہ کافی گہرا ہے اور ہر کراچی والے کی طرح ہمیں بھی سمندر دیکھ کر اسمیں چھلانگ لگانے کا دل کرنے لگتا ہے بچپن سے اب تک پکنک کے نام پر ہم سمندر کا رخ کرتے آئے ہیں تو دلوں میں سمندر کا خوف نہیں اور ویسے بھی اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے ساحل کو دیکھ کر تو یہ لازم ٹھہرا تو دوچار ڈبکیاں لگانے کے بعد ہی باہر آئے۔

اس سے پہلے جب میں یہاں آیا تھا تو وہ دسمبر کا مہینہ تھا پانی کا رنگ گہرا نیلا اور آسمان پر سائیبرا سے نقل مکانی کر کے آنے والے پرندوں کے غول کے غول منڈلارہے تھے اور چونکہ دسمبر میں مچھلی کا شکار جائز ہوتا ہے تو گہرے سمندر میں کشتیاں کافی بڑی تعداد میں موجود تھیں مئ سے اگست چونکہ مچھلی کے شکار پر ممانعت ہوتی ہے اس لئے اس مربتہ کشتیاں بھی نہیں تھیں اور آنے والے پرندے واپس جاچکے تھے آسمان جوکہ گہرا نیلا تھا اب مٹیالا اور گہرا نیلا اور سبز پانی اب گدلا اور سفید جھاگ والا ہورہا تھا انسانی عادت ہے کہ چیزوں کو موازنے میں دیکھتا ہے تو میں نے بھی موازنہ کیا اور آج کا پھیکا ساحل مجھے اس قدر نہ بھایا جیسے پہلی مرتبہ یہ میرے دل میں گھر کرگیا تھا۔

خیر نظارہ پھر بھی بہت خوب ہی تھا اور ویسے بھی سمند کو بیٹھ کر بس دیکھنا بھی ایک بھی ایک خوب مشغلہ ہے ساحل پر بنتی مٹتی لہریں اور ان میں بھیگتے لڑکے اور لڑکیاں تو جہاں اتنا کچھ ہو وہاں بندہ بور تو ہرگز نہیں ہوتا میں نے نظارے کیلئے ایک چٹان کا انتخاب کیا اور یہاں چڑھنے کیلئے ایک لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف سے اوپر پہنچنا پڑتا ہے اور وہاں پہنچنے کے دوران چھوٹی موٹی ٹریکنگ اور ہائکنگ کا کیڑا بھی سکون پاجاتا ہے خیر وہاں پہنچ کر ادھر ادھر کیمرے کا بٹن دبا کر کچھ تصویریں بنانے کے بعد میں مصطفیٰ کی تصویریں کھینچتا رہا اور وہ میری خراب کرتا رہا باقی دونوں وہیں ساحل پر رک گئے اور ہمارے ساتھ چلنے سے انکاری ہوکر بیٹھ گئے اسی چٹان پر کچھ اور لڑکے بھی چڑھے ڈوریاں ڈال ڈال کرمچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرتے رہے اور ایک بھی مچھلی حاصل نہ ہونے پر واپس چلے گئے نیچے ذرا پرے ایک جھونپڑے کے ساتھ سات آٹھ کشتیاں کھڑی ہوئی تھیں۔

جغرافیہ اور راستے کا بار بار بیان پڑھنے والوں کو اکثر بے مزا کرتا ہے لیکن ان خواہش مند حضرات کیلئے فائدہ مند ہوتا ہے جو آپ کی روداد کو پڑھ کر اس جگہ جانے کا سوچیں تو کنڈ ملیر کا یہ ساحل جہاں میں اس وقت موجود تھا کراچی سے کل دو سو چھتیس (236) کلومیٹر کے فاصلے پر ہے کراچی سے براستہ حب چوکی لسبیلہ کے بعد آخری بڑا شہر وندر آتا ہے اور یہاں ہی اورماڑہ سے پہلے آخری پٹرول پمپ آتا ہے تو اگر آپ ارادہ کریں اپنی ذاتی گاڑی یا موٹرسائیکل پر سفر کرنے کا تو وندر میں اپنے گاڑی اور موٹر سائیکل کا پٹرول ضرور چیک کرلیں مبادہ آگے چل کر پریشانی کا سامنا ہو وندر سے آگے زیرو پوائنٹ یہاں سے دائیں ہاتھ پر مڑ کر اگلا سٹاپ اگور ہے راستے بھر میں رہنمائ کرنے والے بورڈ آویزاں ہیں راستہ بھٹکنے سے بچنے کیلئے ان پر نظر رکھیں تو کوئ پریشانی ہونے کا اندیشہ نہیں اور اگور سے آگے پڑھتے ہی دریائے ہنگول کا پل آجاتا ہے دریا تو بیچارہ ایک کونے میں سمٹا ہوا پڑا ہے اور نقاہت کے مارے بہنے سے بھی قاصر ہے لیکن اس پر بنایا گیا پل بڑا شاندار اور مضبوط ہے یہ ساتھ ہی ایک ہوٹل ہے جہاں پر ناشتہ چائے اور کھانے وغیرہ کی سہولت موجود ہے یہ علاقہ ہنگول نیشنل پار ک کی حدودمیں آتا ہے سولہ سو پچاس (1650) مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو کہ تین اضلاع لسبیلہ، گوادر اور اوروان پر پھیلا ہوا ہے۔ انیس سو اٹھاسی (1988) میں باقاعدہ اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا اور اسکے بعد یہ پاکستان کا واحد نیشنل پارک ہے جو بیک وقت سمندری، دریائ، صحرائ اور پہاڑی جنگلی حیات کے تحفظ کرنے کا دعوہ کرتا ہے۔

یہاں پائ جانے والی جنگلی حیات کی درست تعداد کا ابھی تک درست اندازہ نہیں لگایا جاسکا لیکن اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ہنگول نیشنل پارک میں تین ہزار مارخود، پندرہ سو کے قریب اڑیال اور تقریبا بارہ سو کے قریب پہاڑی غزال موجود ہیں اس کے علاوہ پائ جانے والی حیات میں سندھی چیتا، لومڑی، لگڑبھگے، پہاڑی بکرے،سیہا، نیولے اور جنگلی بلوں کی مختلف اقسام ہیں دریائے ہنگول میں پائے جانے والے مگرمچھ اور دریائ اور سمندری کچھووں کی مختلف اقسام موجود ہیں، پرندوں میں مستقل پائے جانے والے مخلتف اقسام کے عقاب اسکے علاوہ الو ہیں اور پہاڑی کوے اور نقل مکانی کر کے آنے والے پرندے جو کہ سال کا کچھ حصہ گزار کر لوٹ جاتے ہیں۔

اسی ہنگول پل سے کوئ دس منٹ کے فاصلے پر یعنی کوئ پانچ کلومیٹر مزید سفر کرنے پر کنڈ ملیر کا ساحل موجود ہے اور ہم یہیں موجود تھے اور یہاں سے ہماری روانگی کا وقت گیارہ بجے دن کا طے ہوا تھا کچھ دیر میں یہ وقت بھی آیا اور ہم دوبارہ اپنی اپنی بسوں میں لوڈ ہونا شروع ہوئے اب مزید آگے کی طرف سفر کرنا تھا اور اس سفر کی حد بوزی پاس سے کچھ پہلے "امید کی شہزادی " یعنی پرنسس آف ہوپ تک تھی۔

ساحل سے آگے سفر شروع ہوتے ہیں ایک عجیب دنیا شروع ہوتی ہے سب سے پہلے ایک چڑھائ ہے بس کا انجن زور لگاتا ہوا اس پر چڑھ گیا اب آپ کے دونوں طرف چٹانیں ہیں جو قدرتی طور پر عجیب و غریب پراسرار شکلیں لئے ہوئے ہے اور کہیں کہیں پر سڑک کے دونوں جانب صحرائ ریت آجاتی ہے یعنی ریت کے چھوٹے بڑے ٹیلے اور دور پرے پہاڑ اور بائیں ہاتھ ہر بہت دور سمند اس جگہ کا الفاظ میں اظہار مشکل ہے جیسے کسی پھل کے ذائقہ کو بیان کرنا تو آپ اس کو الفاظ نہیں دے سکتے شاید مختلف مثالوں سے سمجھا سکتے ہیں یا وہی پھل چکھنے کو پیش کرسکتے ہیں میں بھی کوشش کر دیکھتا ہوں میری ناکامی کی صورت میں یہاں کا سفر اختیار کرلیں بات بالکل واضح ہوجائے گی ذائقہ منہ میں گھل کر خود ہی اپنے آپ سمجھ آجائے گا۔

سامنے تین چٹانیں ایسے ابھری ہوئ ہیں جیسے اہرام مصر فراعین مصر خافو، خوفو اور خفران کے مقبرے ہوں لیکن یہ تینوں ایک جسامت کے ہیں اور جسامت میں مختصر بھی اسکے علاوہ کچھ اسی شکل کی اور چٹانیں ہیں جو سڑک کے اوپر سایہ کئے کھڑی ہیں انکی شکلیں بھی کچھ کچھ ان اہراموں سے ملتی ہوئ ہیں۔

کچھ اور آگے چلیں اور یہ آگے چلنا سیدھا سیدھا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ سڑک گھومتی ہوئ چل رہی ہے تو کوئ منظر جو سامنے ہوتا ہے وہ بس کچھ دیر ہی ہوتا ہے اور ایک چکر کھانے پر غائب ہوجاتا ہے تو بائیں ہاتھ ہر ایک دیوار ساتھ چلتی ہے اور اپنی ساخت میں ایک مکمل قلعہ نما ہے یعنی ایک سیدھی دیوار جو اوپر سے سپاٹ نہیں بلکہ ایک مناسب فاصلے پر تکون تکون سے برج نما ابھار ہیں دور سے دیکھنے پر یہ قدیم دور کا کوئ قلعہ ہی معلوم ہوتا ہے چونکہ گھمن گھیریوں کی وجہ سے وقت کم ہوتا ہے اس لئے میرے پاس اسکی مکمل تصویر موجود نہیں ہے لیکن جتنی یہ دیوار میں چلتی گاڑی سے کیمرے میں محفوظ کر سکا وہ بھی ایک کمال تصویر ہے۔

مزید اس راستے پر ایک مختصر سا قلعہ ہے جو ایک ٹیلے پر واقع ہے دیکھنے میں کسی عمارت کی باقیات محسوس ہوتا ہے جو بالکل درست حالت میں موجود رہ گیا ہو اب میں کیسے سمجھاؤں کہ اسکی شباہت کیسی ہے کہ یہ بس دیکھ کر ہی سمجھ میں آنے والا ہے سمجھ لیں کہ گاتھک طرز تعمیر میں جو بڑے بڑے ستون ہوا کرتے ہیں اور اوپر چھت جیسے پاکستان کے بیشتر ریلوے سٹیشن ہیں تو کچھ کچھ ویسا۔ 

اسی طرز کی مختلف محیر العقول قسم کی تخلیقات پورے رستے آپ کے ساتھ رہتی ہیں کہیں دیکھنے میں کوئ لائبریری ہے کوئ آپ کے تخیل پر منحصر ہے کہ یونیورسٹی کا کوئ پانی میں لنگر انداز جہاز۔ ایک مجسمہ نما بھی آتا ہے جو کہ مناسب ترمیم کے بعد سنگاپور کی شناخت مچھلی کے جسم والے شیر سے شباہت کھانے لگتا ہے اور اس سے آگے مکمل جسامت والے ابوالہول صاحب موجود ہے فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ بیچارے ذرا زمین سے نزدیکی پر ہیں لیکن ان کی شان و شوکت بھی کچھ کم نہیں دیکھ کر حیرت ہوئ ہے کہ اتنی مماثلت کیونکر ہوسکتی ہے۔

ہونہی چلتے چلتے ہمارے سفر کا آخری مقام آتا ہے اور اسکے بعد واپسی یہاں آپ کو الواع کہنے اور آپ کی آمد کا شکریہ ادا کرنے کو سب سے اونچی چوٹی پر دامن پھیلائے ایک خاتون موجودہیں جو کہ اپنی جاہ وجلال میں ایک شہزادی کی مانند ہیں اور انکو ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ جو کہ اپنی فلموں کے بولڈ سین کے علاوہ اپنے فلاحی کاموں کے حوالے سے بھی پہچانی جاتی ہے نے دوہزار دس (2010) میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران پرنسس آف ہوپ یعنی امید کی شہزادی کا نام دیا اور یہ پاکستان کی واحد خاتون ہیں جو اتنے طویل عرصہ سے امیدسے ہیں لیکن انکی امید بر نہیں آتی کوئ صورت نظر نہیں آتی لیکن صورت حال فرق ہوتی جارہی ہے وہاں ہر ہفتے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں ایسی صورتیں پہنچتی ہیں جو ایک بیابان میں ایک خاتون کو چاہے مجسمہ ہی سہی کھڑا دیکھ کر اس پر چڑھ دوڑتی ہیں اور ساتھ سلفیاں بنانے کیلئے ان سے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرتی ہیں جس کے نتیجے میں مٹی سرکتی ہے اور پچھلے کچھ سالوں کے دوران اسے کافی نقصان ہوا ہے اور اس قدرتی مجسمے کی بنیاد سے کافی مٹی سرک چکی ہے اگر صورت حال یہی رہی تو آنے والے سالوں میں روڈ کے ساتھ لگے بورڈ میں تبدیلی کرکے یہ لکھنا ہوگا کہ پرنسس آف ہوپ واز ہئیر یعنی گزرے زمانوں میں کبھی یہاں ایک مجسمہ ہوا کرتا تھا جسے لوگوں کی حوس اور سلفیاں کھا گئیں صورت حال ملکی حالات کی طرح نازک ہے اور فوری سد باب ضروری ہے۔

یہاں تک کا سفر بھی ایک شاندار تجربہ ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ پکچرابھی باقی ہے میرے دوست تو اگر آپ سفر کا ارادہ کریں تو یہاں پر یہ بس نہ کریں بلکہ اس آگے بوزی پاس تک سفر ضرور کریں کیوں کہ کوسٹل ہائی سے کی اصل پکچر اس سے آگے شروع ہوتی ہے اصل گھمن گھیریاں اور عجیب الخلقت قدرتی عجائبات اس مقام سے آگے نظر آتے ہیں اور اصل لطف اس سے آگے ہے۔

میرے پیچھے بیٹھے ہوئے عمر نے مجھ سے سوال کیا تھا "داد ا یہ تو بڑی عجیب جگہ ہے یہ سب کیسے بنا ہے؟" تو اس وقت میرے پاس کوئ جواب نہیں تھا اور اس بارے میں کوئ تحقیق بھی میسر نہیں ایک روایت ہے جو کہ درست بھی معلوم ہوتی ہے کہ قریب دو ہزار سال پہلے یہ تمام علاقہ زیر آب تھا آہستہ آہستہ پانی اترتا گیا اور یہ تمام تصاویر بنتی گئیں لیکن اصل جواب کوئ جیولوجسٹ ہی دے سکتا ہے۔

یہاں سے ہم سب واپس پلٹے اور اب ہماری منزل اسی ہنگول نیشنل پارک میں موجود ایک قدیمی مندر ہنگلاج ماتا مندر جسے عرف عام میں نانی مندر کہا جاتا ہے تھا یہاں تک آتے ہوئے ہم اسے واپسی حاضری کی نیت سے بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے اب یہاں سے پلٹے تو ارادہ مندر میں حاضری کا تھا لیکن پہلے رک کر جمعہ ادا کیا گیا اور دوپہر کا کھانا بھی اسی دوران میں کھایا گیا۔

دریائے ہنگول کے ساتھ ایک راستہ اندر کی طرف جارہا ہے جس کے باہر ایک چوکی ہے اور چند اہلکار وہاں موجود ہیں فی گاڑی شاید سو روپے فیس ادا کرنی پڑتی ہے اور داخلے دروازہ کھل جاتا ہے ایک خستہ سڑک چٹانوں کے درمیان اور دریا اپنی سمٹی ہوئ حالت میں آپ کے بائیں جانب ہوجاتا ہے یہاں بھی عجیب و غریب شکلوں کے پہاڑ ساتھ ساتھ چلتے ہیں داخلے دروازے سے اندر آتے ہیں سامنے ایک جھریوں بھرا پہاڑ اپنی قدامت کی داستان سنا رہا ہے اور ساتھ ہی ایک پتھر کی سل پر جلی حروف میں پانی کے قریب جانے کی ممانعت درج ہے کیوں کہ مگرمچھ موجود ہیں دائیں اور بائیں دونوں اطراف میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مٹی کے کچے گھر بنے ہوئے ہیں اور آباد ہیں یہ لوگ کون ہیں اور یہاں کیوں رہتے ہیں اور سب سے اہم بات کہ انکا ذریعہ معاش کیا ہے یہ سارے سوال ہمارے ذہنوں میں بارہا آئے لیکن ان کا خاطر خواہ جواب نہ مل سکا اس وقت کسی ٹور کمپنی کے ساتھ سفر کرنے کا نقصان سمجھ آیا کہ اگر اکیلے آیا ہوتا تو ان سے مل کر اور بات چیت کرکے اسکا جواب تو حاصل کرنے کی کم از کم کوشش کر دیکھتا۔

پہاڑوں کے شوقین افراد نے کنکورڈیا کے ٹرینگو ٹاورز کی کم از کم تصاویر تو دیکھی ہی ہونگی اور جنہوں نے نہیں دیکھیں وہ باآسانی گوگل پر دیکھ سکتے ہیں گلگت بلتستان کی مشہور پسو کونز بھی اپنی منفرد نوکیلی چوٹیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں لیکن مشہور وہی ہوتا ہے جس پر دنیا کی نظر پڑی ہو لوگ جانتے ہوں پہچانتے ہوں لیکن اگر کچھ چاہے وہ اپنی تخلیق میں یکتا ہو گمنامی میں رہ جائے تو اسمیں قصور اس تخلیق کا نہیں بلکہ اس آنکھ کا ہے جس نے اسے دیکھا لیکن دنیا تک اسکی خبر نہیں پہنچائی یہاں بھی دو ایسے چٹانیں موجود ہیں جو بلندی میں تو نہیں لیکن شکل و شباہت میں پسو کونز اور ٹرینگو ٹاورسے کافی مشابہت رکھتی ہیں۔

ایسے ہی راستوں پر سفر کرتے کرتے ہم ایک ہرے رنگ کے دروازے کے سامنے پہنچے اور وہاں لگے بورڈ پر نارنجی رنگ سے پینٹ کیا گیا ہے

"ہنگلاج ماتا مندر ہنگول بلوچستان۔

جے ماتا دی"

ایک قدرتی غار میں موجود ماتا کے مندر کے بارے میں دعوہ کیا جاتا ہے کہ یہ دولاکھ سال پرانا ہے اور اسکے بنانے میں انسانی ہاتھ استعمال نہیں ہوا یعنی مکمل طور پر قدرتی ہے موجودہ دور میں اس مندر میں سیڑھیاں بھی بنی ہیں اور مندر کے اندرونی حصے میں ٹائل بھی لگے ہوئے ہیں اور اگر غور کیا جائے تو یہ مکمل غار بھی نہیں بلکہ ایک پہاڑی کھو نما ہے اور یہاں دو مورتیاں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسانوں نے نہیں بنائیں بلکہ ماتا خود اپنے ساتھ لیکر آسمان سے اتری تھیں ایک سندور ملا ہوا بے شکلا پتھر ماتا کی نشانی کے طور پر پوجا جاتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی دور میں سندھ کے صوفی بزرگ حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائ رحمۃاللہ علیہ نے یہاں کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے ہی اس مندر کو نانی مندر کا نام دیا۔

یہ تو ہوا سب سے مشہور مندر لیکن اس کے علاوہ اور بھی مندر یہاں موجود ہیں جن میں گنیش دیوا مندر، کالی ماتا مندر، گرو گورکھ ناتھ دانی مندر، براہم خود اور تیر خود مندر، گرانانک کھارو اور دیگر مندر جو کہ اسی دروازے کے اندر مختلف مقامات پر موجود ہیں اور ہر سال ہزاروں کے تعداد میں زائرین یہاں آتے ہیں اور مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں ہر سال اپریل میں سالانہ چار روزہ پوجا کا اہتمام ہوتا ہے جس میں پورے ملک اور اسکے علاوہ ہندوستان سے بھی ہندو زائرین یہاں آتے ہیں اور مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں ان کے ٹھہرنے اور کھانے پینے کیلئے یہاں پر سرائے اور کھانا پکانے کی جگہ بنائ گئ ہے لیکن زیادہ رش کی وجہ سے اکثر زائرین ان سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور خیموں میں یا کھلے آسمان کے نیچے وقت گزارتے ہیں۔

ویکیپیڈیا پر اس مندر کے حوالے سے کافی معلومات موجود ہیں خواہش مند حضرات مزید معلومات وہاں پڑھ سکتے ہیں۔

میری ذاتی طور پر ان مسلم زائرین سے جو اس مندر کو یا کسی بھی ایسے جگہ جو کہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کہی جو سکے صرف ایک تاریخی حیثیت میں دیکھنے جاتے ہیں ایک درخواست یہ ہے کہ ان مقامات کے تقدس کا پامال کرکے ان کی دل آزاری کا باعث نہ بنیں اور ان جگہوں کا ویسے ہی احترام کریں جیسے اپنی مسجد کا کرتے ہیں مندر کے اندر جوتوں سمیت داخل ہونا یا مندر کے احاطے میں سگریٹ نوشی کرنا بھی اسی زمرے میں آتی ہے اس سے اجتناب کریں دوسروں کا اور ان کے مذہب کا احترام کریں تاکہ وہ آپ کا اور آپ کے مذہب کا احترام کریں۔

جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ مندر ہمارے سفر کا آخری مقام تھا اسکے بعد واپسی کا سفر شروع ہونا تھا تو طے شدہ پروگرام 
کے تحت ہم دوبارہ بسوں میں لوڈ کئے گئے بسیں سٹارٹ ہوئیں اور ایک پرلطف دن کے اختتام کا آغاز ہوگیا۔

تصویر فیضان قادری

تصویر فیضان قادری

تصویر فیضان قادری

تصویر فیضان قادری


تصویر فیضان قادری

تصویر فیضان قادری

تصویر فیضان قادری

تصویر فیضان قادری

Thursday 6 August 2015

ایش ٹرے میں بجھایا گیا ایک سگریٹ




جب ابھی سگریٹ ڈبوں میں بند ہوکر نہیں ملا کرتے تھے یا شاید ملتے ہوں لیکن پرانے لوگوں میں سے اکثر جو تمباکو نوشی
کے عادی تھے وہ اپنا سگریٹ خود بنا کرپیا کرتے تھے تمباکو کا ڈبہ، سگریٹ بنانے کا کاغذ، سلائ اور ماچس اپنے ساتھ رکھا کرتے اور جب کبھی سگریٹ کا من ہوتا پیپر میں تمباکو رکھنے سے لیکر سلگانے تک کا عمل اپنے ہاتھ سے کرتے اور شوق فرماتے میرے دادا مرحوم میں نے کبھی دیکھا تو نہیں سنا ضرور ہے کہ اسی طرز پر تمباکو نوشی کیا کرتے تھے یعنی اپنی ہاتھ سے سگریٹ بناتے اور اگر کبھی سگریٹ بنانے کا دل نہ ہوتا یا لوازمات میں سے کوئ ایک بھی کم ہوتا تو حقہ گڑگڑایا کرتے۔

یوسفی صاحب نے بھی ایک ایسے ہی خان صاحب کا ذکر اپنی کتاب "زرگزشت" میں کیا ہے اب وہ وقت نہیں اب نہ لوگوں کے پاس اتنا وقت ہے نہ ہی شوق کی وہ انتہا رہی اب وہ لوگ جو سگریٹ میں "کچھ" بھر کر پینے کے عادی ہیں وہ اس پیچیدہ عمل سے گزرتے ہیں پہلے سگریٹ خالی کی جاتی ہے پھر مصالحہ ملا کر تمباکو دوبارہ بھرا جاتا ہے اور پھر دم لگائے جاتے ہیں گو کہ عمل تھوڑا وقت اور دقت طلب ہے لیکن کہتے ہیں اتظار طلب بڑھادیتا ہے تو اس کے بعد پھر جو سرور ہے وہ وہی جان سکتے ہیں جو کبھی اس عمل سے گزرے ہوں خیر موضوع یہ نہیں۔

اب زمانہ بدل گیا ہے۔

تمباکو نوشی اب بھی کی جاتی ہے سگریٹ اب پیکٹ میں بند باآسانی مہیا ہوجاتا ہے اور ہر سگریٹ نوش ڈبیا سے پہلے سگریٹ نکال کر پیار سے انگلیوں کے درمیان میں رکھتا ہے پھر بڑے پیار سے ہونٹوں سے لگاتا ہے پھر سلگا کر تمباکو کے کڑوے ذائقہ سے لطف اندوز ہوتا ہے اور جب تک سگریٹ ختم نہیں ہوجاتی سگریٹ نوش کے اتنے قریب ہوتی ہے جتنی محبوبہ یا بیوی ہونی چاھئے لیکن جیسے ہی سگریٹ اختتام تک پہنچتی ہے وہ اسے ایش ٹرے میں رگڑ کر یا پیر کے نیچے مسل کر آگے بڑھ جاتا ہے۔

بعض سگریٹ نوش ایک فرض کی طرح سگریٹ پیتے ہیں اسے سلگانے کے بعد پے درپے کش پر کش لگا کر اس کوشش میں ہوتے ہیں جلد از جلد سے ختم کرکے فارغ ہوجائیں اور پھر کوئ اور کام کریں اور بعض بہت آرام آرام سے دھیرے دھیرے کش لگاتے ہیں ساتھ ساتھ گپیں بھی لگاتے ہیں کام بھی کرتے جاتے ہیں ساتھ وقفے وقفے سے کش بھی لگاتے رہتے ہیں ایسے لیکن ایک وقت پر دونوں اس سگریٹ سے ایک جیسا ہی سلوک کرتے ہیں یعنی جب انکا کام پورا ہوجاتا ہے اسے ایش ٹرے میں یا پیر کے نیچے رگڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔

سگریٹ نوشوں کی بھی دو اہم اقسام ہیں نمبر ایک شوقیہ اور دوسرے عادی, شوقیہ سگریٹ نوش کبھی کبھی سگریٹ پی کر اسے رگڑتے ہیں اور دوسرے عادی اور یہ بڑے خطرناک ہوتے ہیں یہ عادتا روزانہ بیسیوں مرتبہ سگریٹ کو اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہیں اور پھر مسل کر پھینک دیتے ہیں۔

تمہید بہت لمبی ہوگئ جی ہاں تمہید بات سمجھانا ضروری تھا موضوع تمباکو نوشی اور تمباکو نوشوں کی اقسام پر بحث نہیں تھا بلکہ کہنا یہ تھا کہ کچھ لوگ رشتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں پہلے اسے قریب کرتے ہیں پیار سے دیکھتے ہیں پھر ہونٹوں سے لگاتے ہیں پھر سلگادیتے ہیں اور جب رشتے سلگتے ہیں تو یہ مزہ لیتے ہیں اور پھر ایک دن اسی رشتے کو پیروں تلے رگڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں دیکھتے بھی نہیں ان کے وزن سے اور پیروں تلے روندے جانے سے اس رشتے کا کیا حال ہوا ہے بالکل ویسے ہی جیسے ایک سگریٹ نوش کبھی نہیں دیکھتا کہ اس کے رگڑنے سے اس سگریٹ کا کیا حشر ہوا ہے۔

ایسے افراد کی بھی دو اقسام ہیں شوقیہ اور عادی اب شوقیہ تو کبھی کبھار ایسا کرجاتے ہیں اور بعدمیں شاید اپنی اس حرکت پر افسوس بھی ہوجاتا ہو جیسے شوقیہ سگریٹ نوش اگر ایک دو سگریٹ پی لیں تو اکثر ان کے سینے میں درد شروع ہوجاتا ہے اور یہ دھڑکا بھی لگ جاتا ہے کہ اب ان کو دل کا دورہ پڑا ہی پڑا اور وہ افسوس ہی کرتے ہیں کہ پی ہی کیوں لیکن ایک عادی سگریٹ نوش ایک ہی نشست میں بیسیوں سگریٹ پھونک جائے احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنے سگریٹ پھونک چکے ہیں اور کتنے ہیں روند چکے ہیں اسی طرح رشتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والوں کو بھی احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنے ہی رشتے روند چکے ہیں اور جب احساس ہی نہ ہو تو انسان اپنی عادت سے پیچھا بھی نہیں چھڑاتا نہ ہی اسے برا جانتا ہے۔
مقصد تنقید نہیں بس ایک یاددہانی ہے جیسے ہرسگریٹ کے ڈبے پر لکھا ہوتا ہے
"تمباکو نوشی صحت کیلئے مضر ہے وزارت صحت حکومت پاکستان"

والسلام

Sunday 26 July 2015

فراست بھائ


"السلام وعلیکم ارے  ماموں کیسے ہیں بڑے دنوں بعد نظر آئے۔" میں اپنے ایک دوست سے ملنے اپنے پرانے محلے گیا تو ماموں نظر آگئے یہ میرے سگے یا رشتے کے ماموں نہیں ہیں بلکہ ہر محلے میں ایک صاحب ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہر ملنے والا ماموں ہی بلاتا ہے مجھے انکا اصلی نام بھی معلوم نہیں ہمشہ ان کو ماموں ہی کہا اور سنا۔
"ارے بھیا ہم تو یہاں ہی ہیں آپ ہی عید بقر عید نظر آتے ہیں" ماموں نے شکوہ کیا
"بس مصروفیات اتنی ہوگئ ہیں کہ وقت ہی نہیں ملتا ادھر آنے کا ایک دو مرتبہ آیا تھا لیکن آپ سے ملاقات نہیں ہوئ آپ سنائیں کیا حال چال ہیں"
"ارے بھیا کیا حال چال سنائیں ٹھیک ٹھاک ہیں اللہ کا کرم ۔ارے  ہاں وہ فراست بھائ کا انتقال ہوگیا "
"اپنے فراست بھائ؟ "میں نے قدرے حیرت سے پوچھا
"ہاں بھئ اپنے ہی اور کون سے۔ میں گیا تھا اور تو کوئ تھا نہیں محلے والوں نے دفنادیا  مجھے تو پرانے جاننے والے نے اطلاع کردی ورنہ معلوم بھی نہ چلتا۔"
"کب ہوا انتقال؟"مجھے یقین نہیں آیا تو میں نے دوبارہ پوچھا
"ارے اسی رمضانوں کے مہینے میں شروع کے دنوں میں ہوگیا بس بھئ اللہ بچائے ایسی تنہائ کی موت سے مرنا تو سب نے ہی ہے لیکن ایسے مرنا نہیں چاہتے ہم۔مالک کرم کرے بس"
"ہوا کیسے ویسے تو ٹھیک ٹھاک تھے"
"ارے بھیا خاک ٹھیک ٹھاک تھے۔۔۔ خیر بس وقت ہوگیا تھا چلے گئے" قدرے توقف کے بعد بولے "چلو بھیا ہم چلتے ہیں  کچھ کام سے جا رہے تھے ذرا پھر ملاقات ہوگی خدا حافظ"
ماموں چلے گئے لیکن میں سوچتا رہ گیا۔
میں میٹرک کے امتحان دے کر فارغ ہوا تھا اور اکثر وقت گھر سے باہر رہتا  انہی دنوں میں میری ماموں سے اچھی دوستی ہوگئ ماموں کی عمر ہم سے کوئ دس سال ہی زیادہ ہوگی لیکن پورے علاقے کا ماموں ہونے کی وجہ سے خود پر ایک بزرگی طاری رکھتے ایک دن کہنے لگے
"ادریس بھائ عمرے پر گئے ہیں اپنا سکوٹر چھوڑ گئے ہیں ہمارے ہاں آپ کو چلانا آتا ہے" ماموں نے مجھ سے پوچھا اور میں تب اپنی عمر کے ان دنوں میں تھا جب کسی بھی سواری کو چلانا جاننا باعث فخر ہوتا ہے گوکہ مجھے سکوٹر ایسا کوئ خاص چلانا نہیں آتا تھا لیکن میں نے پھر بھی حامی بھر لی جس پر ماموں نے مجھے چابی پکڑائ اور  ہم  دستگیر سے لیاقت آباد کے ایک پرانے محلے تک محض خود اعتمادی اور ماموں کی حوصلہ افزائ کی وجہ سے پہنچ پائے ورنہ راستے میں چلنے والے دوسرے تمام افراد نے ہمیں کہیں اور بھیجنے کی پوری کوشش کی خیر اس پرانے محلے میں پہنچے پر ہم نے  موٹر سائیکل ایک دوکان کے آگے کھڑا کیا اور وہاں سے پیدل چلے آگے گلیاں تنگ تھیں اور ان میں راہگیر بھی تھے اور دوکانیں بھی ایک گلی کے نکڑ پر بنے ہوئے چائے خانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ماموں نے کہا "یہ ہوٹل یاد رکھئے گا" اسی گلی میں چند گھر چھوڑ کر  ماموں نے خوب جانچ کرنے کے بعد زور  سے دروازہ پیٹا اور کئ مرتبہ پیٹنے پر اندر سے دروازہ کھلا اور صرف لنگی پہنے ادھیڑ عمر کے ایک صاحب برامد ہوئے یہی فراست بھائ تھے۔
بڑے تپاک سے ملے اور دروازے پر ہی باتیں شروع کردیں حال احوال اور ہمارے تعارف کے بعد  جیسے انہیں یاد آیا اور بولے "ارے آپ یہیں کھڑے رہیں گے کیا اندر آجائیں۔"
دروازے کے ساتھ ایک برامدہ تھا اور ایک دیوار سے دوسری دیوار تک ایک الگنی اس طرح بندھی ہوئ تھی کہ گھر کے اندر جانے کیلئے اسے اٹھا کر اور خود جھک کر اس کے نیچے سے گزرنا پڑتا اسی الگنی پر ایک پتلون بھی ٹنگی ہوئ تھی جو اپنے ہی وزن سے سرک کر الگنی کے درمیانی حصہ میں آگئ تھی اور وہ یقینا کئ مہینوں سے سوکھ رہی تھی کہ اس پر گرد جم چکی تھی اسی برامدے میں ایک دیوار کے ساتھ چند سوکھے ہوئے گملے تھے اور دیوار کےساتھ ہی ایک ٹرالی اور بیلچہ رکھا ہوا تھا اس کے علاوہ بھی بہت سا کاٹھ کباڑ جس میں ایک لوہے کا زنگ آلود دروازہ بھی تھا۔
اس دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک کمرہ تھا جسے بیٹھک کہ سکتے ہیں یہاں آدھے فرش پر ایک چٹائ بچھی ہوئ تھی اور ایک کونے میں چادر سے عاری ایک پلنگ بچھا ہوا تھا جس پر کتابوں کا ایک انبار پڑا ہواتھا  اور نیچے کچھ سوٹ کیس اور چند ایک دیگر سامان گھسایا ہوا تھا اوراس پلنگ کے ساتھ ہی  دو کرسیاں تھیں جن کے بان اس قدر ڈھیلے پڑ چکے تھے کہ ان پر بیٹھا نہیں جا سکتا تھا اسی چٹائ پر  چند تکیے اور چادر پڑی ہوئ تھی کئ کتابیں رسالے اور اخبار بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے دیواروں کا رنگ یا تو تھا نہیں اور تھا تو بھی سیاہ پڑ چکا تھا خاص کر ان جگہوں کا جہاں جہاں ہاتھ اکثر لگتے ہیں جیسے بجلی کے بٹن کے ارد گرد اور دروازے کے ساتھ والی دیواریں  سیاہ ہوچکی تھیں چھت سب سے صاف تھی بس مکڑیوں کے بڑے بڑے جالے لگے ہوئے تھے چٹائ  کے پیچھے دیوار پر دو جگہ  سر لگنے کے گول گول نشان تھے  ایک کمرے کی کھڑکی کے نیچے جو باہر برامدے میں کھلتی تھی اور دوسری بجلی کے بلب کے نیچے والی جگہ اور یہ وہ جگہیں تھی جن پر سر ٹکا کر وہ مطالعہ کیا کرتے ہونگے۔
ہمیں بٹھا کر وہ اندر چلے گئے اور جب واپس آئے تو وہ ایک بنیا ن پہنے ہوئے تھے ماموں نے کہیں سے ڈھونڈ کر سگریٹ کا پیکٹ برامد کرلیا تھا اور بیٹھے پھونک رہے تھے فراست بھائ نے واپس آکر ان دو کرسیوں میں سے ایک میں ٹنگ گئے اور ہمارا انٹرویو شروع کردیا کیا نام ہے کیا کرتے ہو کیا پڑھتے ہو کتنے بھائ بہن ہیں والد صاحب کیا کرتے ہیں اور یہ جان کر کہ میرے والد صاحب ٹیچر ہیں وہ اس کرسی میں سے ہل ہل کر باہر نکلے اور مجھ سے مصافحہ کرکے واپس اسی کرسی میں چلے گئے وہ خود بھی کسی مقامی اسکول میں اردو پڑھایا کرتے تھے مزید کچھ دیر ایسے ہی سوال جواب کرتے رہے اس دوران ماموں چٹائ پر پڑی کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف رہے اور جب سوال جواب ختم ہوئے تو ہمیں بولے نوجوان اب آپ چائے بنالیں سب کیلئے اور  اندر کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ باورچی خانہ کہاں ہے اور باورچی خانے کا سماں کچھ یوں تھا کہ بیسن میں گندے برتنوں کا انبار لگا ہوا تھا  اور وہاں پڑا ہوا سڑ رہا تھا اور باقاعدہ بدبو آرہی تھی اور جو وہاں نہیں آسکتے تھے وہ ہر جگہ موجود تھے جیسے چولہے کے اوپر نیچے زمین پر  چمچے چمچیاں استعمال کے بعد ہر جگہ بکھرے ہوئے تھے چولہے پر بھی تیل کی ایک تہ جمی ہوئ تھی  وہاں کا ماحول دیکھ کر طبیعت مالش کرنے لگی میں ابھی ماحول ہی دیکھ رہا تھا کہ کہ فراست بھائ اندر آگئے
"میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں کہ سامان کہاں رکھا ہوا ہے
 انہوں نے مجھے چینی اور چائے کی پتی نکال کردی چینی کے پیکٹ میں چونٹیاں بھری ہوئ تھیں اور ننھے ننھے لال بیگ بھی اور چائے کی پتی جس طرح بازار سے آئ تھی ویسے ہی رکھی ہوئ تھی تو بچی ہوئ تھی "برتن آپ کو نکانے پڑیں گے اس میں سے" انہوں نے مسکراتے ہوئے ہماری طرف دیکھا "اصل میں ہماری بیگم اپنے گھر گئ ہیں ناں" انہوں نے بتایا
"کہیں دوسرے شہر گئیں ہیں کیا کافی دنوں سے نہیں ہیں شاید لگ رہا ہے" میں نے کہا تو وہ بولے کہ نہیں وہ تو اسی شہر میں ہی ہیں اصل میں وہ شادی کے چار روز بعد ہی چلی گئ تھیں ہم کئ مرتبہ گئے منانے مانیں نہیں ہم نے بھی پھر تین حرف پڑھ دئے کہ کیوں باندھ کر رکھیں نہیں رہنا چاہتیں تو نہ رہیں پھر انہیں اچانک یاد آیا کہ چائے کیلئے دودھ بھی چاھئے ہوگا اور کچھ پیسے پکڑا کر بولے کہ بازار سے دودھ لے آؤں میں گھر سے باہر آیا اور اسی نکڑ کی دوکان سے چائے خرید کر لے آیا واپس آیا تو وہ ماموں سے کسی بہت ہی گہرے موضوع پر گفتگو کررہے تھے ہم چائے کے بعد کافی دیر وہیں بیٹھے رہے اور واپس آگئے۔
ان سے دوسری ملاقات میری اردو بازار میں ہوئ انٹر میں میں نے ڈی جے کالج برنس روڈ میں داخلہ لیا اور زیادہ تر وقت پرانے شہر میں گھومتا رہتا اردو بازار کے ساتھ ہی ایک لڑکیوں کا کالج تھا میں اکثر چھٹی سے کچھ دیر پہلے اردو بازار پہنچ جاتا اور جیسی ہی چھٹی ہوتی باہر آجاتا اور وہیں سے بس پکڑتا اس طرح راستہ بھی ٹھیک ٹھاک گزر جاتا اس طرح کالج کی چھٹی سے کچھ دیر پہلے میں اردو بازار پہنچا تو فراست بھائ ایک دوکان کے باہر کھڑے بحث کررہے تھے ان کے پاس کچھ پیسے کم تھے اور وہ اپنا شناختی کارڈ گروی رکھوا کر کتابیں لے جانا چاہتے تھے جس پر وہ راضی نہیں تھا اور فراست بھائ پہلے تو اسے آرام سے سمجھاتے رہے اور بعد میں دوکاندار کو احمق اور الو کا پٹھا قسم کے شریفانہ القابات سے نوازنے لگے مجھے پہچان کر انہوں نے پوری کہانی سنائ میں ان دنوں ٹیوشن پڑھایا کرتا تھا  میرے پاس کچھ پیسے تھے جس میں نے بقایا رقم پوری کی اور کتابیں انکے حوالے کیں اور انکو کھینچ کر وہاں سے الگ کیا اس کے بعد وہ مجھے بس میں اپنے گھر لے کر گئے اور میری رقم واپس کردی۔
اس کے بعد میری ان سے کئ مرتبہ ملاقات ہوئ کبھی راہ چلتے کبھی دوران سفر گھر سے باہر دیکھ کر کوئ بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ صاحب کس قسم کی زندگی گزار رہے ہیں ہمیشہ صاف اور اجلے استری شدہ کپڑوں میں ہوتے قرینے سے سجے ہوئے بال اور شیو کبھی بڑھا ہوا نہیں ہمیشہ ٹھیک ٹھاک حلیہ میں ہوتے لیکن گھر پہنچتے ہی تمام کپڑے اتار کر ہینگر میں لٹکاتے اور وہی لنگی باندھ لیا کرتے گھر میں بس ایک یہی کام کپڑوں کو ہینگر میں لٹکانے کا قرینے سے کرتے اس کے علاوہ شاید ہی کوئ کام ہو جو اس گھر میں ترتیب سے ہو۔
ان ملاقاتوں کے بعد میں اکثر ان کے گھر جانے لگاکبھی کبھی بساط کے مطابق میں انکا گھر صاف کردیا کرتا وہ کبھی منع بھی نہیں کرتے تھے ہاں لیکن کبھی خود سے نہیں کہا کسی کام کو کھانا بنانے کے شوقین تھے اور اکثر بریانی بنایا کرتے طبیعت کے ملنگ تھے اور بلا کے شاہ خرچ پیسہ خرچ کرتے وقت کبھی ایک لمحہ کو نہیں سوچتے تھے کہتے کہ یہ جائے گا تو اور لیکر واپس آئے گا اور واقعی میں نے انکو کبھی پیسے کی تنگی میں نہیں دیکھا حالانکہ جس اسکو ل میں وہ پڑھاتے تھے وہاں انکی تنخواہ ایسی کچھ زیادہ بھی نہیں تھی۔
بلا کے حجتی آدمی تھے کسی بھی بات پر بحث کرسکتے تھے ایک مرتبہ میں ان کے گھر پہنچا تو ان کے دوتین دوست بھی موجود تھے اور اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ گوشت بھوننے سے پہلے ٹماٹر ڈالناچاھئے یا بعد میں  فراست بھائ اپنی بات ثابت کرنے کیلئے بعد میں کئ کھانا پکانے کے رسالے اور کتابیں خرید لائے اور اپنی غلطی ثابت ہونے پر پھر بھی نہیں مانی کہنے لگے ان کو کیا  پتہ گوشت کیسے بھونا جاتا ہے۔
مذہب کے بارے میں ہمیشہ مجھے ایک بات کہتے کہ نوجوان کبھی اس بارے میں پریشان نہیں ہونا بہت آسان ہے بس آپ کو جو اچھا لگتا ہے وہ کرو اور دوسروں کو وہ کرنے دو جو وہ کرتے ہیں ان پر خدائ فوجدار نہ بنو لیکن اللہ رسول ؐ کے حکم سے آگے نہ بڑھو غیبت کرنے اور سننے کے سخت خلاف تھے کبھی ان کے سامنے بات نکل جاتی تو کہتے "میاں کیوں میری عاقبت خراب کرنے پر تلے ہیں آپ" دوسرا اگر مشورہ کی نیت سے کوئ بات کرتا تو پوری بات سنتے اور پھر اپنی رائے دیتے اپنے بارے میں کہتے کہ
"بھئ ہم تو پیٹ کے ہلکے ہیں ہمیں راز نہ بتایا کریں کسی کو کہ دیں اور کل کو روز قیامت آپ ہمارا گریبان پکڑے کھڑے ہوں" لیکن حقیقت میں ان کے سینے میں ہزاروں لوگوں کے انتہائ اہم راز دفن تھے کسی سے کبھی تذکرہ  بھی نہیں کیا ہوگا۔
کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑاتے لیکن دوران گفتگو جملہ بازی بڑی سخت کرتے کوئ بھی بات ایسی مل جاتی جوقابل گرفت ہو تو چھوڑتے نہیں تھے ہمیشہ جملہ لگا کر حاضرین سے داد وصولتے۔
رہتے بھلے ہی گندے گھر میں تھے لیکن دل بڑا صاف تھا کبھی کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں پہنچائ اگر خود کسی کی بات سے دل دکھا تو فورا معاف کرتے کہتے کہ
" اللہ کہ ہاں پکڑ ہوجاتی ہے میں معاف کروں گا تو لوگ مجھے معاف کریں گے یہ تو چین ری ایکشن ہے نوجوان"
پڑھائ اور اسکے بعد نوکری ہونے کی وجہ سے میرا فراست بھائ کے گھر آنا جانا کافی کم ہوگیا  کبھی کبھی ملاقات ہوجایا کرتی ایک مرتبہ ملے تو معلوم ہوا کہ السر کی شکایت ہوگئ ہے اسکی وجہ یقینی طور پر روز روز باہر کھانا کھانا ہی تھی۔
السر اور کثرت سگریٹ نوشی کی وجہ سے وہ دن بدن کمزور ہوتے گئے لیکن عادات اسی طرح قائم رہیں باہر کھانا کھانا اسکول کے بعد اسی طرح گھومتے رہنا کبھی کچھ نہیں تو کراچی پریس کلب میں بیٹھے رہنا۔
ماموں سے ہی معلوم ہوا کہ انتقال کے دو دن بعد  جب گھر کے اندر سے بدبو آ ئی تو محلے والوں کو پتہ لگا کہ یہ مر چکے ہیں ان کا کوئ بھی رشتہ دار کراچی میں نہیں تھا محلے والوں نے ہی کفن دے کر دفنایا  دو دن کی سڑی ہوئ لاش کر دفنانا کوئ اچھا تجربہ نہیں ہوتا چند ایک افراد نے دور دور سے مٹی ڈال کر جلدی جلدی قبر بند کردی اور پھر اسکول وغیرہ سے معلومات کر کے گھر ان کے رشتہ داروں کو اطلاع دی جو رشتے دار ان کی زندگی اور بیماری میں کبھی نہیں آئے وہ مرنے کے بعد کیوں آتے میں انکی قبر پر گیا اور وہاں سے انکے گھر مالک مکان نے اسے کسی دوکان والے کو کرایہ پر دے دیا تھا انکا سامان اور کتابیں اسی پلنگ پر ڈھیر تھیں میں نے اس ڈھیر سے چن کر چند ایک کتابیں اٹھالیں سب پر فراست بھائ کے دستخط بمع تاریخ کے موجود تھے اور یہ کتابیں لے کر گھر آگیا۔
گوکہ مجھے آخری بار ان سے ملے کئ سال گزر چکے ہیں اور مجھے ان کی عادت بھی نہیں رہی تھی لیکن ان کے چلے جانے پر آنسو بہانے کو دل کرتا ہے وہ کہتے ہیں کہ یار زندہ صحبت باقی درحقیقت یار تو مر کر بھی نہیں مرتا بس صحبت ختم ہوجاتی ہے دل بوجھل کیوں نہ ہو۔
لیکن موت کیا صرف موت ہوتی ہے؟
 ایک ایسا تجربہ ہے جس کے بارے میں کوئ بھی نہیں بتا سکتا ۔
مرنے سے پہلے ایک انسان پر کیا کچھ بیت جاتا ہے اس کے بارے میں کوئ نہیں بتا سکتا۔
  کتنے سارے خیالات کتنی ساری کیفیات وابستہ ہوتی ہیں  اس  واقعہ کے ساتھ جن کے بارے میں کوئ نہیں جانتا اور جو یہ جھیل جاتا ہے وہ بتا نہیں سکتا۔
  بے شک ایک دن ہم سب اسی تجربہ سے گزریں گے۔
میرے بچھڑ جانے والے دوست کے نام

 اللہ ان پر ڈھیروں رحمتیں اور راحتیں نازل فرمائے اور انکا شمار اپنے مقرب بندوں میں فرمائے آمین۔