مظفر آباد کا بس اڈا اسی حالت میں تھا جیسا ملک بھر کا کوئ
بھی بس اڈا ہوتا ہے وہی کھینچ تان وہی
گھسیٹ ویسا ہی ہارن اور سواریاں کھینچنے والوں کا شور فرق صرف اتنا تھا کہ رات بھر
ہونے والی بارش کی وجہ سے وہاں گھٹنوں گھٹنوں نہیں تو ٹخنوں ٹخنوں کیچڑ تھی اور
اسی کیچڑ میں پھچ پھچ کرتے ہم سب دواریاں کیلئے کسی بس یا کوسٹر کی تلاش میں گھوم
رہے تھے ۔
"رانا صاحب کوئ چھت والی بس پکڑ لیں پہلے جیسی"
میں نے رانا صاحب سے کہا
"او نہیں یار بہت ٹائم لگ جانا ہے پچھلی باری بھی شام
کرادی تھی"
"تو ہم کون سا برات میں جارہے ہیں کسی کی دیر ہوجائے
تو ہوجائے کیا فرق پڑتا ہے"
"نہیں یار اس بار ٹائم تھوڑا ہے کوئ ٹیکسی پکڑیں گے
ادھر سے بھی" رانا صاحب کی اس بات سے
میں قدرے اداس ہوگیا
"یار کوئ سامان بھی نہیں لینا کیا ٹریک پر کیا کریں گے
ہم کھانا وانا؟" رانا صاحب بس کسی طرح یہاں سے نکل جانا چاہتے تھے اس پر مجھے
خیال آیا کہ ہم نے کوئ خریداری کھانا پکانے یا بنانے کے حوالے سے نہیں کی نہ ہی
کوئ بات چیت اس بارے میں ہوئ تھی اب تک
"نہیں وہ سارا انتظام ہوچکا ہے تو فکر نہ کر "
میں اور رانا صاحب بس کی تلاش میں تھوڑا آگے نکل آئے جبکہ
چودھری اور بلوچ پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی الگ الگ یہی کچھ کر رہے تھے کہ جلد از
جلد مظفر آباد سے نکل جانے کا سامان ہوجائے اچانک ہی رانا صاحب کا فون بجنے لگا دوسری طرف
چودھری صاحب تھے اور کہ رہے تھے بھاگ کر آجاؤ کوسٹر نکل رہی ہے ہم دونوں بھاگم
بھاگ ان تک پہنچے تو وہ ایک چودہ سیٹر کوسٹر کا دروازہ تھامے فاتحانہ انداز میں کھڑے
تھے دیکھتے ہی شور مچانے لگے کہ جلدی بیٹھو بلوچ صاحب بس کے اندر ایک سیٹ میں
پھنسے ہوئے بیٹھ چکے تھے اور تب ہی چودھری صاحب نے راز کی بات بتائ کہ"رانا
صاحب بات یہ ہے کہ اگلی گاڑی نکلنی ہے گھینٹے بعد اسمیں تین سیٹیں ہیں ایک بندے کو دروازے کے ساتھ بیٹھنا ہوگا وہ میں بیٹھ
جاؤنگا آپ اندر بیٹھو یہ بھائ (ایک صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تھوڑی دور پر آگے
اترجائیں گے تو جگہ ہوجائے گی"
یہ سن کر رانا صاحب باغی ہوگئے کہ ایسے سفر نہیں کرنا اور یہ کہ کمر ٹوٹ جائے گی آڑھا ترچھا راستہ ہے
"تم میری بات نہیں سمجھ رہے ہو"
بلوچ صاحب کو حکم ہوا
اور وہ بھی اتر گئے اور انکے اترتے ہی تین مسافر جو سوار ہوگئے اور بس نکل
گئ ہم وہیں کھڑے وہ گئے جس پر چودھری صاحب خفا ہوگئے اور بلوچ صاحب بھی اور بولے
"سرکار آپ ایویں جذباتی ہوگئے چلے جاتے اسی میں کچھ
نہیں ہوتا"
"ہاں تمہیں تو جگہ مل گئی تھی شامت اسکی آتی جو دروازے
پر بیٹھتا" رانا صاحب نے جواب دیا
"یار کیا ہوجاتا بدل بدل کر سفر گزر جاتا ویسے بھی جگہ
آگے تو خالی ہونی ہی تھی کبھی نہ کبھی"
"اتنا شوق تھا خود بیٹھتے دروازے پر اندر کیوں گھس گئے
تھے"
"واہ جی واہ سرکار میں کیوں بیٹھتا مجھے تو سیٹ مل گئ
تھی " بلوچ صاحب کی اس بات پر سب کھلکھلا کر ہنس دئے۔
"او جی کوئ نہیں۔۔۔اڈے پر کھڑے ہیں مل جائے کی کوئ
گاڑی ایسی کون سی جلدی ہے ابھی تو بس ساڑھے سات ہوئے ہیں ناشتہ نہ کرلیں ویسے بھی
ایک گھنٹے میں دوسری کوسٹر کو نکلنے والی ہے آلریڈی بات کرچکا ہوں میں"
چودھری نے صلاح دی جس پر بلوچ صاحب بولے
" لو جی سبحان اللہ رانا صاحب ویسے بھی صبح کوئ بغیر
ناشتہ سفر کرتا ہے کیا آپ کو جلدی پڑی ہے چلو چلو چلو"
"گاڑی میں سب سے پہلے خود گھس کربیٹھ گئے جلدی مجھے
پڑی ہے واہ جی واہ خیر چلو" رانا صاحب نے کہا
ہم سب اڈے سے نکل کر مظفر آباد کے مرکزی بازار پہنچے دھیما
دھیما نیچی چھتوں والی دوکانیں برتن، سبزیاں، گوشت سب فروخت ہورہا تھا لیکن ہمیں
کوئ ہوٹل نظر نہیں آیا چلتے چلتے ہم پل تک پہنچے اور سب سے پہلے نظر آنے والے ہوٹل
میں بیٹھ گئے۔
"رانا صاحب کترینہ کیف" میں نے رانا صاحب کو
مخاطب کیا ہوٹل کے عین سامنے ماسٹر ڈی وی ڈی کے بورڈ کے نیچے کترینہ کیف کا بڑا سا
پوسٹر لگا ہوا تھا۔
رانا صاحب پوسٹر اور پھر مجھے دیکھ کر مسکرائے پچھلی بار
رانا صاحب کو شکایت تھی کہ ہم نے کترینہ کیف کا پوسٹر انہیں کیوں نہیں دکھایا لیکن
مظفر آباد میں کنٹرول لائن سے کچھ ہی فاصلے پر ہندوستانی کترینہ کیف یوں ہمارے شہر
میں موجود ہونا قدرے تشویش ناک ہی ہے خیر ہم نے ناشتہ کیا اور واپس پورا راستہ طے کرکے بس اڈے پر پہنچ گئے
ساڑھے آٹھ بجنے والے تھے کوسٹر تیار کھڑی تھی ہم نے پیچھے والی سیٹ جو قدرے کشادہ
تھی اپنے قبضے میں کرلی اور وہاں بیٹھ گئے سامان چھت پر چڑھا دیا گیا۔
بس چلی اور انہی راستوں سے گزرتی ہوئ منزل کی طرف روانہ ہوئ فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار
منظر ایک کھڑکی میں قید ہوکر نظر آرہا تھا باہر جاتی ہوئ بہار تھی سبزہ کہیں تو
بالکل سیاہی مائل سبز تھا اور کہیں مرجھایا ہوا بھورے رنگ کا البتہ نیلم کافی سبز
رنگ میں بہ رہا تھابس چلی تو مجھے نیند آنے لگی بلوچ صاحب سو چکے تھے اور چودھری
صاحب کھڑکی کے ساتھ بیٹھے تھے کہ تصویریں
بنا سکیں اور رانا صاحب ایک اچھے شاگرد کی طرح انکے ساتھ لگے ہوئے تھے مجھے کوئ
کام نہیں تھا میں بھی اونگھ گیا سوتے جاگتے منظر دیکھتے ہم چلتے رہے اور سوئے منزل بڑھتے رہے ایک دو جگہ بس رکی
مسافر چڑھے اترے اور دوپہر ہوتے ہوتے دو بجے کے قریب ہم دواریاں پہنچ گئے چھوٹی
کوسٹر نے بس کے مقابلے میں بہت کم وقت لیا۔
بس سے اتر کر ہم سب وہیں پل کے ساتھ ہی کھڑے ہوگئے کیوں کہ
جیپ کو یہاں ہی آنا تھا رانا صاحب اور بلوچ بازار کی طرف جیپ کی تلاش میں چلے گئے
۔
پچھلے سال کی مقابلے میں جگہ میں کافی تبدیلی آچکی تھی کچھ
موسم کا اثر تھا اور کچھ کام جو اس وقت مکمل نہیں تھے وہ اب مکمل ہوچکے تھے جیسے
پل کے ساتھ دیوار کی تعمیر کا کام پچھلے سال ابتدائ مراحل میں تھا جبکہ اب وہ مکمل
ہوچکا تھا دوسرے وہ درخت جو پل کے نیچے دریا کے کنارے بالکل ٹنڈمنڈ تھا اب ہرا
بھرا تھا ہرا بھرا تو نہیں اپنی بہار دکھاکر اب مرجھانے کے قریب ہونے کو تھا چند
ایک سفید پھول باقی تھے اور دیگر درخت بھی کچھ پھل پھول دکھا رہے تھے پل سے اور پر
دیکھنے میں ایک گیسٹ ہاؤس کے برامدے میں لگا ہوا سیب کا درخت پھلوں سے بھرا ہوا
تھا ہرے ہرے کشمیری سیب دل چاہا چند ایک تو توڑ کرکھا ہی لوں لیکن وہ کافی بلندی
پر تھے اس لئے باز رہا۔
رانا صاحب تھوڑے انتظار کے بعد واپس آتے نظرآئے اور ان کے
ساتھ ہی ایک اور نظیر بھی یہ نظیر وہی
صاحب ہیں جو پچھلی مرتبہ ہمارے آنے سے چند گھٹے قبل نکل گئے تھے اور جن کے نہ ہونے کی وجہ سے ابرار ہمارے پلے پڑا
تھا لیکن دواریاں پہنچنے کے بعد میرا دل ابرار سے ملنے کو کررہا تھا لیکن نظیر سے ہی معلوم ہوا کہ ابرار پنڈی میں
تھا خیر نظیر سے تعارف ہوا ٹریک کے متعلق سوال ہوئے دوپہر کا کھانا بھی وہی کھا
لیا گیا جیپ بھی تیار ہوچکی تھی سامان لادا گیا اور پھر ہم سب بھی لوڈ ہوگئے۔
جیپ سٹارٹ ہوئ اور پل سے نیچے اتر کر اسی راستے پر چڑھ گئ
جہاں سے ہم پچھلی مرتبہ گئے تھے چل پڑی اونچے نیچے راستوں پر ڈولتی اسی لکڑی کے پل
پر پہنچی پہلے کی نسبت پل مزید خستہ ہوچکا تھا جیپ کے وزن سے چرچرایا اور ایک وقت
آیا جب ایسا لگا کہ پل ٹوٹ جائے گا اور جیپ نالے کے تیز پانی میں بہ جائے گی لیکن
ڈرائیور صدیق نے کمال مہارت سے جیپ کو پار
لگا دیا۔
دواریاں سے دومیل تک ایک پکا جیپ ٹریک بن چکا ہے اب یہ
فاصلہ بس دو گھنٹے میں سمٹ چکا ہے سیری، چھک، جھبہ،د ورے بن سب جیپ میں بیٹھے گزر
جاتا ہے اور تمام مناظر بھی جو اس راستے میں آتے ہیں بس ایک سرسری نظارہ ملتا رہتا
ہے۔
میں اور رانا صاحب جیپ کے اگلے حصہ میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ
باقی تینوں پیچھے یہ ایک تین سیٹوں والی
جیپ تھی یعنی ویگن کی طرز پر ایک کے پیچھے ایک سیٹیں لگا کر نو افراد کے بیٹھنے کی
گنجائش پیدا کی گئ تھی اور سامان کیلئے
اوپر جنگلا لگایاگیا تھا تو کافی گنجائش تھی آگے بیٹھنے سے منظر بھی صاف نظروں میں
آرہا تھا کہیں کہیں سبزے کے درمیان جلی ہوئ بھوری گھاس ایسے لگ رہی تھی جیسے آگ
لگی ہوئ ہو دھوپ ڈھلنے لگی تھی ساڑھے تین اور چار کے درمیان کا وقت ہوگا دھوپ چمک
رہی تھی اور درمیان میں بہتے ہوئے نالے
میں سے شعائیں پھوٹ رہی تھیں ایک عجیب شوں شوں کی آواز آرہی تھی نالے کے بہاؤ کی
پچھلی مرتبہ یہ نالہ بغیر آواز کے ٹنوں کے برف کے اندر اندر بہ رہا تھا پہاڑوں کے
اوپر سے آتے ہوئے چھوٹے چھوٹے نالے بھی اس میں مل رہے تھے اور ٹریک پر سے گزرنے کی
وجہ سے جیپ جب جب ایسے کسی بہتے پانی پر سے گزرتی چھپ چھپ کی آواز آتی ایک جگہ
ایسی آئ کہ ایسا ہی ایک نالہ اوپر سے بڑی زوروں میں بہتا ہوا نیچے جارہا تھا اور
اس جگہ پہاڑ کا کٹاؤ کافی زیادہ تھا یعنی
کوئ دس بارہ فیٹ اندر ایک غار جیسی جگہ بن گئ تھی جیسے ہی ہم اس جگہ پہنچے جیپ
رکوالی گئے صدیق نے بھی جیپ چھوٹے چھوٹے پتھروں پر چڑھا کر جیپ اس غار کے نزدیک
لیجا کر روک دی ایک ایک کرکے ہم سب باہر آگئے اور
باہر آتے ہی سفر میں پہلی مرتبہ ہماری جسموں سے ٹھنڈی یخ ہوا ٹکرائ باہر
اتر کر ہم نے انگڑائیاں لیکر بدن کو سیدھا کیا نالے کے دوسری طرف جگہ پہچان میں
آگئ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے پہلی مرتبہ آتے ہوئے ہم نے کافی نیچے اتر کر ایک پل
صراط کی طرح اس جگہ کو پار گیا تھا اس سے آگے دورے بن تھا جہاں ہم نے رات گزاری
تھی۔
جیپ سے اتر کر تھوڑی سے چہل قدمی کی چودھری نے رانا صاحب سے
پوچھا
"رانا صاحب کوئ انتظام ہے چائے بناتے ہیں ادھر سوہنی
جگہ ہے بڑی"
"ہاں یا نظیر کوئ انتظام ہے ادھر چائے کا؟" رانا
صاحب نے الٹا نظیر سے سوال کیا
"نہیں سر ادھر کدھر ہوگا انتظام آس پاس کوئ گاؤں بھی
نہیں ورنہ ادھر سے ہوجاتا" نظیر کے اس جواب پر بلوچ کو تشویش ہوئ
"یار رانا صاحب کھانے کا کوئ سامان لیا نہیں ساتھ
کھائیں گے کیا ادھر برف؟" اس سوال پر چودھری کا قہقہ گونجا کہ بلوچ کو اپنی
فکر پڑگئ کھائے گا نہیں تو چلے گا کیسے "یار بلوچ ابھی دوپہر کو تونے چھتیس
سو روٹیاں کھائی تھیں وہ سب ہضم ہوگئیں؟"
اور جواب میں بلوچ کے جو ایک پتھر سے ٹیک لگا کر لیٹ چکے
تھے نہایت معصومانہ انداز میں گردن ہلاکر اقرار کیا جس پر چودھری نے اپنے سر سے
ٹوپی اتار کر اپنے گھٹنے پر ماری "شاباش اے بھئی"
کچھ دیر ادھر ادھر بیٹھنے اور گھومنے اور چائے کی جگہ چشمے کا پانی خوب خوب پی کر ہم دوبارہ جیپ میں بیٹھے اور آگے چلے دورے بن سے تھوڑا ہی
آگے جھگیاں آگیا اور دوسرے طرف آبادی نظر آنے لگی ان ہی گھروںمیں سے کسی ایک میں
ہم نے ایک رات گزاری تھی دور سے اس گھر کی پہچان کرنا آسان نہیں تھا آبادی میں چند
بچے گھوم رہے تھے اور مال مویشی بندھے ہوئے نظر آرہے تھے ذہن بار بار وہی واقعات
دہرا رہا تھا جو گزر چکے تھے۔
ہم نے جھگیاں کو بھی
پیچھے چھوڑ دیا اور وہاں سے آگے ٹریک کچھ کچھ ناہموار ہوگیا چھوٹے بڑے پتھر
ٹائروں کے نیچے آتے اور جیپ ڈولنے لگتی اور ناہمواری کے ساتھ ساتھ ٹریک کافی تنگ
بھی ہوگیا تھا جیپ بہت کنارے پر چلنے لگی بہت نیچے رتی گلی نالہ پوری آب و تاب سے بہ رہا تھا اور خطرہ محسوس
ہوتا کہ کہ اگر ایک انچ بھی ہم ادھر ادھر ہوئے تو سیدھا اس نالے میں جاگریں گے اور
اس کے بعد اللہ ہی حافظ لیکن شکر خدا کا کہ ایسا کچھ ہوا نہیں اور صدیق نے مہارت
سے گاڑی کو قابو میں رکھا اور ہمیں پار لے گیا دومیل پر ٹریک کا اختتام ہوتا ہے
اور وہاں ایک خیمہ بستی پہلے سے آباد تھی رنگ رنگ کے خیمے دور سے نظر آنا شروع
ہوگئے تھے۔
کیمپ سائٹ پر ہمارا استقبال رئیس خان انقلابی صاحب نے کیا
اور یہاں ہمارے قیام کی تمام ذمہ داری انکی ہی تھی اس وقت سائٹ پر سات مختلف رنگوں کے خیمے ساتھ ساتھ لگے ہوئے
تھے اور کچھ خیمے وہاں سے الگ کچھ دوری پر لگے ہوئے تھے اور وہاں کیا ہی خوب نظارہ
تھا شام ہونے والی تھی اور بالکل سامنے والے پہاڑ کی چوٹی پر دھوپ کسی ایسے زاوئے
سے پڑر ہی تھی کہ وہ بس آدھا روشن تھا اور باقی اندھیرے میں اور پہاڑ پر سبزے کے
ساتھ ساتھ پتلی پتلی نالیوں کی صورت میں
جمی ہوئ برف ایسے لگ تھی جیسے چونا ڈالا گیا ہو کیمپ سائٹ پر گھاس بھوری سے ہوچکی
تھی اور اسی بھوری گھاس میں ننھے ننھے
سفید، نیلے اور خون رنگ پھول بہار دکھا رہے تھے یہاں انسانی قدموں کے باعث یہ بہت
کم تعداد میں باقی رہ گئے تھے اور کہیں کہیں صرف کناروں پر باقی تھے لیکن سامنے کی
طرف پہاڑوں کی دوسری طرف یہ یوں لگ رہے تھے کہ انکی کثرت کی وجہ سے ایسا محسوس
ہورہا تھا کہ پورے پہاڑ پر زنگ لگ چکا ہو اور ان زنگ آلود پہاڑوں کے اورپر اتنا
صاف آسمان کہ گمان ہوتا تھا کہ کسی پردے پر نیلا رنگ پھیر
دیا گیا ہو اور اس پردے پر سفید روئ کے گالے جیسے بادل یقین نہیں ہوتا تھا کہ اتنا شفاف آسمان بھی
ہوسکتا ہے۔
دوپہر میں جب دواریاں سے نکلے تھے تو موسم خوشگوار تھا گرمی
نہیں تھی لیکن دھوپ چبھ رہی تھی راستے میں جہاں ہم کچھ دیر کورکے وہاں خنکی تھی
لیکن سردی محسوس نہیں ہورہی تھی لیکن ڈھلتی شام میں کیمپ سائٹ پر ہوا ایسی تیز
ٹھنڈی تھی کہ لگتا تھا سینکڑوں سوئیاں جسم کو چھید رہی ہوں جیکٹ نکال کر پہنا باقی تینوں بھی ادھر ادھر بیٹھے ہوئے نظارہ
کررہے تھے اچانک ہی غیب سے ایک لڑکا پیالیوں
میں سوپ لئے حاضر ہوا اور ہم سب کوپکڑا کر غائب ہوگیا ایسی تیز سردی میں گرم گرم
سوپ یا یخنی جو بھی تھی بہت مزا دے گئ ایک تازگی آگئ ہمیں ایک خیمہ الاٹ ہوچکا تھا
جسمیں ہم چاروں کا سامان رکھا جاچکا تھا اور ہم
خیمے کے باہر ہی تختوں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ رانا صاحب اپنے جوتے کس کر کھڑے ہوگئے اور ہم سب سے بھی
کھڑے ہونے کو کہا
"یا ابھی اندھیرا ہونے میں ٹائم ہے جب تک چھوٹی جھیل
کا چکر لگا آتے ہیں"
"چلو جی بسم اللہ" بلوچ صاحب کھڑے ہوگئے
"چل یا ر مولوی اٹھ یار رانا صاحب نے آرام سے نہیں
بیٹھنے دینا" چودھری صاحب نے میرے
کندھے پر زور ڈال کر اٹھتے ہوئے کہا تھا اور کھڑے ہونے کے بعد مجھے ہاتھ دیا اور
کھینچ کر کھڑا کردیا
ہم چاروں اور نظیر وہاں سے اٹھ کر چھوٹی جھیل کی طرف چلنے
لگے گوکہ میرا خیال تھا کہ جب تک ہم
وہاں پہنچتے وہاں اندھیرا ہوجائے گا لیکن رانا صاحب کو یقین تھا کہ ہم روشنی میں واپس بھی آجائیں گے۔
پہلا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
تیسرا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہاں پہنچتے وہاں اندھیرا ہوجائے گا لیکن رانا صاحب کو یقین تھا کہ ہم روشنی میں واپس بھی آجائیں گے۔
پہلا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
تیسرا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
Faizan Bhai. Very interesting and waiting for next episode.
ReplyDeleteSo Continue your Faizan aam.
آپ لوگ کیسے اتنی تفصیل سے ساری کاروائی یاد رکھتے ہو اور پھر لکھ بھی لیتے ہو ۔۔ مجھے تو اتنی تفصیل کبھی یاد نہیں رہتی
ReplyDeleteکوشش کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا
Deleteشاباش اے بھئی
ReplyDeleteمزا آگیا بہت خوب منظر نگاری