...چلیں آج ایک کہانی سناتا ہوں آپ کو
لائن کنگ دیکھی ہے آپ نے؟
..دیکھی ہی ہوگی بھلا لائن کنگ دیکھے بغیر آپ بڑے کیسے ہوگئے
.ٹیمون بھی یاد ہوگا غار میں رہنے والا میر کیٹ
ٹیمون کو غار میں رہنا پسند نہیں تھا اسکو باہر کی دنیا دیکھنی تھی سامنے نظر آنے والے ٹیلے سے پرے کی دنیا دیکھنے کا شوق تھا لیکن اسکی ماں کو ڈر تھا کہ اپنے بل سے باہر نکلنے پر ٹیمون باہر کی دنیا کا مقابلہ نہیں کرپائے گا باہر پھرنے والے جنگلی جانور اسے مار ڈالیں گے اگر وہ ان سے بچ بھی گیا تو بھوک پیاس سے مر جائے گا اپنی خوراک کا بندوبست نہیں کرسکے گا
لیکن اپنی مختصر زندگی کو ٹیمون ایک بل میں گزارنے سے بہتر سمجھتا تھا کہ باہر نکل جائے چاہے جنگلی جانوروں کی غذا بن جائے ۔
ایک دن اس نے اپنی ماں سے کہا کہ "میری ماں میری دنیا اس ٹیلے کے پار ہے مجھے وہاں جانے دو" اور تب ہی اسکی ماں نے یہ جانا کہ اسکی زندگی واقعی اس ٹیلے کے پار ہے اور اس نے ٹیمون کو اجازت دے لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ "اگر تم اس ٹیلے کے پار نہ جاسکو یا راستے میں خطرہ ہو تو واپس پلٹ آنا" جواب میں ٹیمون نے کہا " میں ڈر کر واپس آنے کیلئے نہیں جارہا ہوں ماں اب میں تب ہی واپس آونگا جب اس ٹیلے کے پار جو دنیا ہے اسے دیکھ نہ لوں"
ٹیمون اور اسکی اماں جان |
یوں ٹیمون اپنے بل سے نکلا اور ٹیلے کے رخ چلااور خوش خوش چلا آتے جاتے راستے میں ملنے والے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں پر "شو" مارتا ہوا کہ وہ اپنے بل سے نکل کر باہر کی دنیا دیکھنے نکل چکا ہے اور سب نے ہی حیرت کا اظہار کیا کچھ نے اسکی بات کو ہنسی میں آڑایا غرض جتنے منہ اتنی باتیں
کہانی آگے بڑھتی ہے ٹیمون یونہی چلتا نظارے مارتے ایک بڑے گھنے جنگل میں پہنچتا ہے بھوک پیاس اور گرمی سے نڈھال پریشان حال ناتجربہ کاری کے باعث کھانا پینا تلاش کرنا بھی اسکے بس میں نہ تھا جب ہی اس نے سوچا کہ واپس گھر لوٹ جائے اور اپنے خیال سے باز رہے لیکن وہ واپس نہ پلٹا اور اسی جنگل میں بھوک اور گرمی سے نڈھال ہوگر گر پڑا اور بےہوش ہوگیا۔
کچھ گھنٹے گزرے یا کچھ دن جب ٹیمون کو ہوش آیا تو وہ حیران ہوا کہ وہ زندہ کیسے بچ گیا سورج ڈھل چکا تھا اور تب ہی اسکی ملاقات پمبا سے ہوئ
پمبا ایک عجیب الخلقت اور عجیب انوکھی فطرت کا بھاری جسم اور باریک ٹانگوں والا جانور جسکے دکھانے کے دانت بہت بڑے بڑے دیکھنے میں جتنا خطرناک اندر سے اتنا ہی نرم اور رحمدل اور ہمدرد
ٹیمون کو جنگل میں اکیلے اس حالت میں دیکھ کر پمبا نے ہی اسکی مدد کی
دونوں میں تعارف ہوا
دونوں ہی گھروں سے دنیا دیکھنے نکلے تھے اپنے اپنے بلوں سے باہر ٹیلے کے پار جو دنیا ہے اسکی سیاحت کی خاطر اب جو دونوں ساتھ ہوئے تو خوشی سے پھولے نہ سمائے ٹیمون جو چھوٹا منحنی سا تھا بڑے دیو ہیکل پمبا پر سوار ہوگیا اور پمبا اپنے بھاری جسم اور باریک مظبوط ٹانگوں کے ساتھ اسے اٹھائے پھرتا یوں ٹیمون کو سواری مل گئ اور پمبا کو ایک ساتھ۔
دونوں ساتھ کھاتے ساتھ پیتے اور ساتھ گھومتے پھرتے اور یوں ان دونوں نے آدھی دنیا کے گرد چکر لگا لیا۔
ٹیمون اور پمبا ایک ساتھ خوش باش |
جب گھروں سے نکلے بہت دن ہوئے تو ایک روز ٹیمون پمبا سے بولا "اے میرے دوست میرے ہمدم یوں تو مجھے کوئ غم نہیں جیسی زندگی میں نے چاہی تھی تیرے ملنے کے بعد مجھے وہ سب کچھ ملا تیرے ساتھ میں بہت خوش ہوں لیکن اب دل کرتا ہے کچھ روز اپنے گھر ہو آوں ماں، باپ بھائ بہن اور یار دوستوں سے مل آوں اب انکی یاد آتی ہے نہ جانے کس حال میں ہونگے"
اس پر پمبا بولا "میرے دوست حال تو میرا بھی یہی ہے میں بھی اپنے گھر جانا چاہتا ہوں تو یہی بہتر ہے کہ ہم دونوں کچھ دنوں کیلئے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور پھر ہم واپس اسی جگہ ملیں جہاں ہم پہلی مرتبہ ملے تھے"
پمبا نے ٹیمون کو اپنے اوپر سوار کیا اور اسے اسکے گھر چھوڑ آیا
دونوں اپنے اپنے گھروں کو پہنچے ٹیمون کے گھر والے خوش ہوئے کہ وہ لوٹ آیا ہے کچھ دن تو آدھی دنیا کے سفر کی داستان سنانے میں ہی گزر گئے ایک رات جب وہ اپنے ماں کے ساتھ لیٹا باتیں کررہا تھا تو اسکی ماں نے وہ بات کردی جسکا اسے ہمیشہ سے ڈر تھا "کہ بیٹا تم نے شادی کے بارے میں کیا سوچا"
اب ٹیمون انکو سمجھاتا کہ وہ شادی نہیں کرسکتا کیوں کہ اسے واپس انے دوست کے پاس جانا ہے اور پھر وہاں سے باقی آدھی دنیا کے سفر کا آغاز کرنا ہے لیکن اسکی ماں نہ مانی اور ہونہی اسے مناتی رہی کبھی روٹھ جاتی کبھی زبردستی اپنی بات منواتی بلاخر اسے مانتے ہی بنی تب ہی اسکی ماں نے بتایا کہ جب وہ سفر میں تھا تب ہی اس نے ٹیمون کیلئے لیڈی ٹیمون بھی پسند کر رکھی تھی اور جونہی ٹیمون نے ہار مانی جھٹ پٹ اسکی شادی کردی گئ۔
ٹیمون اور اسکی لیڈی ٹیمون |
ٹیمون اپنی نئ زندگی میں مگن ہوا اور ہنسی خوشی رہنے لگا وہ اکثر پمبا کا ذکر اپنی لیڈی ٹیمون کے ساتھ کرتا اور اسے اپنے سفر کے قصے سناتا رہتا یوں اسکے دن اور رات گزرتے رہے۔
پمبا سے رابطہ ہوئے بہت عرصہ ہوگیا اور ٹیمون جب اسکی یاد میں اداس ہونے لگا تو اسنے ارادہ باندھا کہ وہ پمبا کی کچھ خبر لے اور اسی ارادے سے وہ وہاں جا پہنچا جہاں ایک مرتبہ دوران سفر پمبا نے نشاندہی کی تھی کہ وہاں سے قریب اسکا گھر ہے جہاں وہ رہا کرتا تھا۔
آخر کار ٹیمون نے پمبا کو تلاش کرلیا دونوں دوست ملے حال چال کے بعد گلے شکوے ہوئے اور تب پہ ٹیمون نے جانا کے پمبا نے بھی شادی کرلی ہے اور اپنا گھر بسا لیا ہے۔
پمبا اور اسکی بیگم |
ٹیمون کچھ دن پمبا کے پاس گزار کر واپس اپنے گھر آگیا پمبا کے پاس وہ جتنے دن رہا وہ پہاڑوں ، جھرنوں ندی نالوں اور مختلف وادیوں کی باتیں کرتے رہے اور پرانے سفروں کو یاد کرتے رہے جاتے جاتے ٹیمون نے پمبا سے کہا جانے اب دوبارہ انہیں یوں گھومنا میسر آئے گا بھی کہ نہیں کیونکہ دونوں ہی اپنی اپنی زندگیوں مصروف ہوچکے ہیں اس پر پمبا نے ٹیمون کو یقین دلایا کہ اگر وہ کچھ دن فرصت کے نکال کر اسکے پاس آسکتا ہے تو وہ پھر پہلے کی طرح ساتھ سفر کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں اور ٹیمون اس سے وعدہ کر آیا کہ جیسے بھی ممکن ہوا وہ ضرور کچھ وقت نکالنے کا بندوبست کریگا۔
ٹیمون واپس آیا اور پھر دوبارہ زندگی کی مصروفیات میں مگن ہوگیا لیکن پمبا سے کیا ہوا وعدہ اسے یاد تھا اور پھر ایک وقت آیا کہ ٹیمون اداس رہنے لگا ہر پل بس پمبا کو یاد کرتا اور اس وقت کو جو اس نے پمبا کے ساتھ سفر میں گزارا۔
اور ایک روز اسکی بیوی نے کہا کہ جو وقت تم میرے ساتھ گزارتے ہو لیکن میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی میرے ساتھ نہیں ہوتے تو تم جاو اور سفر کرو لیکن یہ وعدہ کرو کے تم جلد لوٹ کر میرے پاس آو گے۔
ٹیمون کی خوشی کی انہتا نہ رہی اور اس نے وعدہ کیا کہ وہ جلد سفر کو مختصر کرکے اسکے پاس واپس آجائے گا۔
ٹیمون نے پمبا کو اطلاع پہنچائ اور تیاری میں مگن ہوا پمبا بھی خوش ہوا اور وہ بھی تیاری میں مگن ہوگیا۔
ٹیمون اور پمبا خوش ہیں کہ وہ دوبارہ ساتھ سفر کریں گے |
ٹیمون اور پمبا خوش ہیں کہ وہ دوبارہ ساتھ سفر کریں گے گو کہ یہ سفر پہلے جتنا طویل نہ ہوسکے گا لیکن پھر بھی وہ امید رکھتے ہیں کہ جو وقت انکو میسر ہوگا وہ اسے یادگار بنا کر آنے والے دنوں میں اچھی یادوں کا ذخیرہ بڑھانے کی کوشش کریں گے۔
اگر ٹیمون اور پمبا ساتھ سفر کرتے ہیں تو یقین کریں کہ واپسی پر انکے دونوں کے پاس سب کو سنانے کیلئے بہت سی کہانیاں ہونگی۔
دعا کریں کہ انکا سفر کامیاب رہے۔
ٹیمون اور پمبا زبردست قادری بھیا اپنی ذات میں ہر کوئی ٹیمون اور پمبا ہی ہوتا بس زرا دلیری دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور جو مُجھ میں نہیں
ReplyDelete