Saturday, 17 September 2016

ماضی کی یادوں سے





یہ قصہ ہے ہمارے بچپن کا   ویسے تو یہ  قصہ کوئ زیادہ پرانا نہیں ہمارا بچپن ابھی گزرا کہا ں ہے یہی کوئ سال دو سال پرانی بات لگتی ہے  قصہ یوں شروع ہوتا  ہے کہ  ایک مرتبہ ہم اپنی پھوپھی کے گھر گئے   ہمارے پھوپھا خیر سے سرکاری افسر تھے اور رہنے کو انکو  انگریز کے زمانے کا بنا ہوا ایک سرکاری کواٹر ملا ہوا تھا ۔کواٹرمیں رہنے کو  کمرے کم لیکن صحن، دالان ،برامدے بہت  سارے تھے گھر سے سامنے  کی طرف پکی دیوار تھی جس پر لکڑی کا ایک دروازہ لگا تھا لیکن پچھواڑے ایک دروازے کے بعد ایک بہت بڑا میدان بھی گھر کے حصہ میں شامل تھا  جسے آپ بیرونی صحن کہ سکتے ہیں اور اس کے آخری سرے پر  کیکر کی ایک باڑ بنا کر چھوٹا تین فٹا ایک دروازہ لگا ہوا تھا اور ہر دو گھروں کے درمیان بھی  ایسی ہی ایک باڑ تھی جوایک گھر کو دوسرے سے جدا کرتی تھی اور یہی دروازہ آمد و رفت کیلئے استعمال ہوتا تھا۔
 خیر قصہ  شروع ہوتا ہے جب ہم ایک دن اپنی ان  ہی پھوپھی کے گھر پہنچ جاتے ہیں  شاید کوئ دعوت تھی یا معلوم نہیں کسی بچے کے عقیے  یا ختنے کا کوئ پروگرام  تھا  بہر حال وہاں ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے ہمارے ہم عمر   بچے بچیاں  جمع تھے۔
کم عمر بچوں کیلئے اس گھر میں بہت سا دلچسپی کا سامان موجود تھا جیسے کہ ہر کمرے میں ایک چمنی  اور ایسی کھڑکیاں جہاں ایک بندہ آرام سے بیٹھ سکتا  تھا ، روشن دان جو چھت پر کھلتے  اور ان روشندانوں سے کمروں میں جھانکنے کیلئے  چھت پر جاناپڑتا اور وہاں جانے کیلئے لوہے کا ایک گول زینہ   اور  خاص بات یہ تھی کہ کالونی کے ایک لائن میں بنے تمام مکانوں کی چھتیں ملی ہوئ تھیں تو چھت پر پہنچ کر صرف وہی روشن دان ایسا نہیں تھا جس سے ہم اندر جھانکتے بلکہ ہر ہر کھلے روشندان سے اندر جھانکنا اپنا فرض سمجھتے اب سوچتا ہوں کبھی کبھی انسان کو نعمتیں تب عطا ہوجاتی ہے جب انہیں انکی افادیت کا شعور نہیں ہوتا ان کھلے روشندانوں سے وہ وہ مناظر نظر آنے کے قوی امکانات موجود تھے جن کا بیان یہاں قطعی غیر مناسب ہے خیر چھوڑئے  کیا جلے دل کے پھپھولے پھوڑنا۔
تو صاحبان ہمارا قصہ شروع ہوتا ہے جب ہم ایک دن کسی تقریب میں پھوپھی کے گھر پہنچ گئے اب جہاں بہت سے بچے ہوں تو ظاہر ہے بڑے بھی ہوتے ہیں اور جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ان گھروں میں کمرے کم اور دالان اور برامدے اور صحن زیادہ  تھے تو ایک کمرے میں خواتین نے غیبت چوک کھول لیا دوسرے میں مرد حضرات نے کرکٹ ، سیاست ، دفتر وغیرہ  وغیرہ  جیسے پھیکے موضوعات پر گفتگو کا بازار گرم کردیا ظاہرہے ان دونوں میں بچوں کا کوئ خاص دلچسپی نہیں ہوتی  ۔
پہلے زمانوں کے بچے بھی عجیب ہوا کرتے تھے پہلے پہل جب کسی رشتہ دار کے گھر جاتے تو امی کے پلو یا ابو کے پہلو سے لگ کر بیٹھ جاتے اور اس بات کا انتظار کرتے کہ بڑے خود ان سے کہ دیں کہ جاکر کھیلو   تو اس دن بھی ہم ابو کے پہلو میں بیٹھے عمران ، میانداد اور ضیا الحق کے بارے میں جاری ہونے والے بیان سن رہے تھے اور سنے جارہے تھے اور سامنے کسی اور انکل کے پہلو میں بیٹھا کوئ اور بچہ بھی  اسی امتحان سے گزر رہا تھا  اور اندر کمرے میں بھی بہت سے بچے امیوں کے پلوؤں سے بندھے اپنی دادیوں اور دیگر خواتین  کے  بارے میں ہونے والی گفتگو سن رہے تھے اور جب گفتگو میں کوئ ایسا خطرناک موڑ آیا کہ بچوں کی موجودگی کو ناموزوں جاناگیا تو ان کو اذن ملا کہ "جاؤ باہر جاکر کھیلو" اور اگلے ہی لمحے کئ ایک جانے پہچانے چہرے دروازے میں کھڑے نظرآنے لگے جنہیں دیکھ کر ہماری بےچینی عروج کو پہنچنے لگی تو ہماری کسی دادا نما شخصیت نے ہماری آزادی کا  پروانہ جاری کردیا اور ہم وہاں سے رفو چکر ہوئے اور دروازے کھڑے  دیگر بچوں میں پہنچ کر دوسرا سانس لیا۔
اب جو سب بچے مل گئے تو وہ شور ڈالا کی الامان الحفیظ  بڑوں نےحکم جاری کردیا کہ گھر سے باہر جاکر کھیلو   ساتھ ہی یہ حکم بھی ملا کہ سب بچے صرف گھر کے سامنے کھلییں گے ،بچوں کی تو عید ہی ہوگئی باہر نکل کر ادھر ادھر بھاگ دوڑ پکڑم پکڑائ اور چھپن چھپائ شروع ہوگیا کھیلنے کو ایک بہت بڑا میدان  جو میسر آگیا۔
چھپن چھپائ کے دوران ہی  ایک باری میں ہم چور تھے اور  پھوپھی کے گھر کے سامنے روڈ کی دوسری طرف موجود مسجد  کی دیوار کے ساتھ  اصول  کے  مطابق با آواز بلند گنتی گن کر سب کو چھپنے کا موقع فراہم کر رہے تھے کہ اچانک پاس ہی سے ایک غراہٹ سنائ دی اور جو پلٹ کر دیکھا تو ایک کتیا ننھے ننھے پلوں کے ساتھ اسے دیوار کے ساتھ موجود تھی جہاں ہم کھڑے گنتی گننے میں مشغول تھے ایک لمحے میں سٹی گم اور گنتی بھول کر جو دم دبا کر بھاگے تو  معلوم نہیں کہاں تک دم واپس سیدھا نہ کرسکے  اور جب رکے تو میدان کے دوسری طرف سڑک پر کھڑے ہانپ رہے تھے خیر جب دم میں دم آیا تو اپنے ساتھیوں کو آوازیں لگانا شروع کیں لیکن جواب ندارد  ایک بات جو ہم بتانا بھول گئے ہیں وہ یہ کہ کالونی کے تمام ہی مکان باہر سے بھی ایک جیسے دکھتے تھے یعنی وہی چھوٹا سا گیٹ اور وہی لیمپ وہی باڑ  مکان نمبر اس دور میں یاد ہوتے نہیں تھے ،تو  ہم تب تک اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ ہم  بھٹک چکے ہیں لیکن مکانوں  اور گلیوں کی یکسانیت کی وجہ سے خود کو راہ راست پر سمجھ رہے تھے۔
کچھ دیر دوستوں کو آوازیں دینے کے بعد ہم نے یہ  سمجھا کہ وہ سب چھپے ہوئے ہیں اسی وجہ سے ہماری آواز کے جواب میں کوئ بول نہیں رہا  اور انکی تلاش میں کئ گز اور ادھر ادھر نکل گئے لیکن کوئ بھی نظر نہ آیا تو ایک لمحہ کو تو بہت غصہ آیا کہ بھلا یہ کیا حرکت ہوئ کہ چھپ گئے تو کوئ آواز ہی نہیں نکال رہا  اور دوسرے لمحے فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کو چھپا چھوڑ کر ہم گھر چلے جاتے ہیں اب جو نظر اٹھا کر دیکھا تو سب کے سب گھر ایک شکل کے لیکن پھوپھی کے گھر کی نشانی تھی کہ انکے گھر کے سامنے کچھ دور مسجد تھی سوچا واپس مسجد تک چلتے ہیں اور وہاں پہنچ گئے تو سمجھو گھر پہنچ گئے اب جو پلٹے اور مسجد کی طرف چلے تو مسجد تو وہاں تھی ہی نہیں خیال آیا کہ شاید ہم زیادہ آگے نکل آئے ہیں تھوڑا اور چلیں گے تو مسجد مل جائے گی  لیکن تھوڑا اور چلنے پر ایک ڈبل روڈ آگیا  اور ہم وہاں حیران پریشان کھڑے رہ گئے۔
ایک طرف تو یہ ہوا اب دوسری طرف کا حال بھی سن لیں کہ جب ہم گنتی پوری کرکے واپس نہیں آئے تو  بچے ہمیں تلاش کرتے مسجد کی دیوار تک آئے اور ہمیں وہاں نہ پاکر  دوڑے ہوئے گھر آئے اور بڑوں کو  اطلا ع دی کہ فیضان گم ہوگیا  کچھ بچوں کے یہ بھی کہا کہ مسجد کی دیوار کے ساتھ نیم کے درخت پر جو جن ہے وہ اسے اٹھا کر لے گیا ہے ایک بچے نے تو گواہی بھی دی کہ اس نے خود ہمیں وہاں کھڑا کسی سے باتیں کرتے اور پھر غائب ہوتے دیکھا ہے۔
جب یہ اطلاع ہماری والدہ تک پہنچی تو انہوں نے سینے پر دوہتڑ مارا اور با آواز بلند رونا شروع کردیا  وہاں موجود  باقی خواتین نے ان کو سنبھالا  اور فوری طور پر  امدادی ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور  وہ ہماری تلاش میں کالونی کے طول و عرض میں گشت کرنے نکل کھڑی ہوئیں۔
دوسری طرف ہم  اس ڈبل روڈ کے کنارے کھڑے سوچتے رہے کہ کدھر کو چلنا چاہئے اور جب کچھ سمجھ نہ آیا  تو رونے لگے اور روتے روتے ہی واپس اسی راستے پر پلٹ گئے جدھر سے چلے تھے اب حال یہ ہے کہ روتے جارہے ہیں اور چلتے چلتے گھروں میں جھانکتے جارہے ہیں کہ کونسا گھر ہماری پھوپھی کا ہے ایسے ہی ایک گھر میں جھانکا تو اندر بھیڑ بھاڑ نظر آئ تو پھاٹک اٹھا کر اندر داخل ہوگئے اور لمبے صحن سے گزر کر روتے روتے ہی اندر جھانک لیا  ابھی ہم باہر ہی کھڑے تانکا جھانکی کررہے تھے کہ اچانک دروازہ کھلا اور ایک انکل نما صاحب باہر آگئے اور ہمیں ڈانتے ہوئے بولے کہ " یہاں کھڑے کھڑے کیا رو رہے ہو اندر جاؤ تمہارے پیچھے میں کیک کٹ جائے گا یہ سن کر ہم بغیر سوچے سمجھے اندر بھاگ گئے اور جونہی اندر پہنچے ہماری عمر کے کسی بچے نے ہمارے سر پر سالگرہ والی تکون ٹوپی پہنادی   سامنے ہی ایک ٹیبل پر بڑا سا کیک رکھا ہوا تھا اور قریب ہی تھا کہ ایک بچی کیک پر لگی موم بتیوں کو پھونک مار کر بجھاتی اور ایسا ہی ہوا سب بچوں بڑوں نے مل ہر ہیپی برتھ ڈے ٹو یو گایا  کیک کٹا  تالیاں بجیں اور ہم بھی ان سب میں شامل رہے لیکن ان سب کے دوران بھی ہماری نگاہیں کسی آشنا چہرے کی متلاشی تھیں لیکن کوئ بھی دکھائ نہ دیا   اسی دوران کسی نے ایک پلیٹ میں کیک کا ٹکرا  ہمیں بھی پکڑا دیا  طرح طرح کے وسوسے ذہن میں جنم لینے لگے کہ جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم ان کے مہمان نہیں ہیں تو نہ جانے کیا سلوک کریں گے ہمارے ساتھ  وغیرہ وغیرہ ۔
اب حال یہ تھا کہ کیک بھی کھاتے جارہے ہیں اور بھاں بھاں روتے بھی جارہے ہیں پہلے تو بڑے بزرگوں نے نظر انداز کیا لیکن جب ہمارا رونا   ختم نہ ہوا اور کوئ بھی ہماری جانب متوجہ نہ ہوا تو ایک شفیق سی خاتون جو غالبا" خاتون خانہ تھیں ہمارے پاس آئیں پہلے تو بلند آواز میں سوال کیا کہ " یہ کس کا بچہ ہے" کہ مبادا ہماری والدہ یا والد وہاں موجود ہوں لیکن اتنے بچوں کی موجودگی میں ہماری آواز ان تک نہ پہنچ پائ ہو لیکن جب کوئ بھی متوجہ نہ ہوا تو وہ ہمارے پاس آئیں پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا  "بیٹا کس کے ساتھ آئے ہو "   انکی آواز میں ایسا پیار اور اپنائیت تھی کہ  ہم انہیں اپنا ہمدرد جان کر  اور بھی اونچے سروں میں رونا شروع ہوگئے  اس پر وہ خاتون اور بھی پریشان ہوگئیں اور اسی پریشانی کے عالم میں بولیں " آئے ہائے لگتا ہے بچہ کہیں سے بھٹک کر یہاں آگیا ہے" تب تک ہمارے ارد گرد دیگر بچوں کا جمگھٹا بھی لگ چکا تھا   اور جوں ہی ان شفیق خاتون کا جملہ مکمل ہوا  ہم اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ انکو ہمارا مسئلے کا علم ہوگیا ہے اور دل میں خیال پیدا ہوا کہ اب اگر انہوں نے کان پکڑ کر ہمیں یہاں سے نکال دیا تو ہم کہاں جائیں گے اور مزید انہوں نے مفت کے کیک کے پیسے طلب کر لئے تو کیا ہوگا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر انہوں نے لاوارث جان کر ہمیں اپنے گھر نوکر بنا کر رکھ لیا تو پھر ہمارا کیا بنے گا اوریہ سب سوچ کر ایسے بکھر کر روئے کہ کیا کسی نے آنسو بہائے ہونگے ہچکی ہی بندھ گئ۔
پھر ہم سے پوچھا گیا کہ "بیٹا کس کے گھر آئے تھے" تب لے دے کہ ہمیں اپنی بیچاری پھوپھی کا ہی نام ذہن میں آیا " بے بی پھپی" آگے سے سوال ہوا " کہاں رہتی ہیں" اب اسکا  ہم کیا جواب دیتے اگر معلوم ہوتا تو خود نہ چلے جاتے وہاں۔۔۔ بےوقوف لوگ۔
ہمیں پانی پلایا گیا اور  تب ہماری جان میں جا ن آئ جب ہم نے سنا کہ کوئ کہ رہا ہے "بیٹا  ہم تمہیں ڈھونڈ کر تمہاری پھپھی کے گھر پہنچا دیں گے تم یہ بتاؤ پھوپھا کا کیا نام ہے" اب ہم پھوپھاکو انکل کہتے تھے اور وہی بتا دیا کہ انکا نام" انکل "ہے ا ب کون سے انکل ہیں اور ان کے ماں باپ نے انکا کیا نام رکھا تھا اسکا تب ہمارے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔
وہاں پر موجود کسی صاحب نےصلاح دی  کہ بچے کو لیکر  کالونی کا ایک چکر لگا لیں جس کسی گھر میں تقریب ہورہی ہوگی یہ وہیں آیا ہوگا  ہم سے ہمارا نام اور ابو کا نام بھی پوچھ لیا گیا تھا کہ اگر نوبت آئ تو مسجد سے اعلان کرو ا دیں گے کالونی میں زیادہ گھر نہیں ہیں اور جس گھر کا بچہ ہے وہ بھی اسے تلاش کر ہی رہے ہونگے تو اسی گھر کے دو افراد  ہماری انگلی پکڑے باہر نکلے اور چلتے ہوئے گلی کے کونے تک چلے گئے  گلی کی دوسری طرف سے دو بچے چلے آرہے تھے ہمیں یوں روتا دیکھ کر ان میں سے ایک نے ہم سے پوچھا  " تم مدثر کے کزن ہو؟" یہ سننا تھا کہ ہمارے  چہرے پو گویا رونق آگئی ایسے ہی روتے بسورتے مشکل  اقرار کیا  تو بچوں نے بتایا کہ وہ لوگ ہمیں دھونڈ رہے ہیں اور ابھی مدثر انہیں ملا تھا تو اس نے بتایا کہ اسکا کزن گم ہوگیا ہے جسے تلاش کیا جارہا ہے ان دونوں انکلز نے بچوں سے مدثر کا گھر معلوم کیا اور وہ دونوں بھی ہمارے ساتھ ہی چلے اور ہمیں لئے لئے جونہی وہ مسجد کے پاس پہنچے جہاں سے ہماری گمشدگی کا آغاز ہوا تھا ہمیں سب کچھ جیسے یاد آگیا  جھٹ ہاتھ چھڑایا اور سیدھا گیٹ تک پہنچے اور تیر کی طرح اندر داخل ہوگئے صحن میں ہی ہمارے ابو اور چند اور بزرگ موجود تھے ہم سیدھا جاکر ابو سے لپٹ گئے اور پھر وہاں سے جو بھاگے تو امی کی گود میں جاکر دم لیا اور سسک سسک کر رونے لگے کچھ دیر میں جب  معاملات نارمل ہوگئے ہماری تلا ش میں بھیجی گئی ٹیمیں بھی واپس آگئیں اور ہم بھی رو دھو کر چپ ہوگئے تو کسی نے چھیڑنے کی خاطر سوال کیا کی " فیضان تم کہاں چلے گئے تھے" تو ہم نے بظاہر تمام گزری باتوں کو بھلاتے ہوئے کہا تھا کہ "دوست کی سالگرہ میں" جس پر ایک بھرپور قہقہ لگا تھا اور پھر اس رات جب تک وہ تقریب جاری رہی سب کی توجہ کا مرکز ہم ہی رہے۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ جب بھی ہم کسی رشتہ دار کے گھر جاتے تو ہمیں انکے گھر کا نمبر اور انکل کا نام پہلے سے یاد کرایا جاتا۔

5 comments: