Sunday, 18 September 2016

The Whole thing is that......



ہمارے  قریبی دوست  ہیں زوہیب شیخ  بڑے دلچسپ اور بزلہ سنج آدمی ہیں  بات بات پر قہقہ لگانا اور لگوانا  انکا مشغلہ  ہے خالص کراچیائ انداز کی اردو بولتے ہیں کہ سننے والا صرف سن کر ہی محضوظ ہوتا رہے ایک مشہور یونیورسٹی سے  سیلز اینڈ مارکٹنگ میں ڈگری لے رکھی ہے اپنے کام کے ماہر بھی ہیں  اور شاید پیدا بھی اسی کام کیلئے ہوئے   ہیں کہ زبان کے لپیٹوں سے بڑے بڑوں کو  جلد زیر کر لیتے ہیں دوستوں کے حلقہ میں بہت مقبو ل ہیں اور کوئ بھی ان سے صلاح لئے بغیر  کوئ کام نہیں کرتا چاہے وہ گاڑی خریدنے کا معاملہ ہو یا کسی محبوبہ کے گھر شادی کا پیغام بھیجنا ہو اور اب ان کو صلاح دینے کی ایسے عادت ہوچکی ہے کہ اگر صلاح نہ لی گئ اور انکو بعد میں معلوم ہوا تو اکثر روٹھ جاتے ہیں اور پھر دوست ان کو مناتے پھرتے ہیں اور یہ اس شرط پر کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا مان بھی جاتے ہیں۔
بڑے دن غائب رہے پھر ایک دن اچانک  فون آیا کہ تشریف لارہے ہیں  خبر سن کر ہی دل باغ باغ ہوگیا  کہنے لگے کہ بس پانچ منٹ میں پہنچ رہے ہیں  چائے تیار رکھی جائے پابندئ وقت کی بالکل پابندی نہیں کرتے تو پانچ منٹ کوئ پونے دو گھنٹے بعد پورے ہوئے  آئے تو ایک ہاتھ میں مٹھائ کا ڈبہ  اور دوسرے میں اپنا بستہ تھامے ہوئے تھے  آتے ہی بولے
" سوری بھائ  دیر ہوگئ "
"وہ تو آپ کی پرانی عادت ہے لیکن یہ مٹھائ کس خوشی میں"
"ابے تیرےبھائ کی جاب لگ گئ  ہے دادا۔۔   دبئ میں بارہ ہزار درہم سیلری "
"ارےواہ بھائ مبارک ہو بہت بہت  بہت خوشی کی خبر ہے اور صرف مٹھائ پر ٹرخارہے ہو لڑکے"
بولے"ابے لونڈے کیوں بے صبرا ہوا جارہا ہے جانے تو دے بھائ کو  پھر جمیرا بیچ پر پارٹی دیگا تیرا بھائ فکر کیوں کرتا ہے نوٹ  تو آنے دے پہلے "
کچھ دیر خاموش رہے اسکے بعد پھر دوبار بولے"ویسے دادا ایک بات دیکھ لی تیرے بھائ نے کہ پیسے میں بڑی پاور ہے"
"وہ تو ہے لیکن آپ نے کیسے اور کب دیکھی"
" ابے دیکھ لی بھائ اور بڑے اچھے سے دیکھ لی  خیر چل ایک واقعہ سناتا ہوں ۔۔۔ شیخ سعدی کا نام سنا ہے؟ ابے بڑے مشہور شاعر تھے ایران کے خیر نہیں پتہ تو سن لے"
"ایران کا بادشاہ بھی بڑا کوئ افلاطون تھا  ہر وقت  علم کی باتیں کرتا گھر میں کوئ یونیورسٹی ٹائپ بھی کچھ سیٹ اپ ڈالا ہوا تھا بڑے بڑے علامہ بھرے ہوئے تھے جیب سے سیلری دیتا مزے لگے ہوئے تھے سب کے"
"ایک دن بادشاہ کو لگا کہ وہ بھرتی والے علاماؤں کی باتیں سن سن کر پک گیا ہے تو اس نے پورے ملک سے سارے بڑے بڑے عالم فاضل سب کو بولا کہ باس فلاں فلاں دن ہمارے محل میں آئیں کھانا بھی پھوڑیں اور بھاشن بھی  سنیں  اور سنائیں"
"خیر بھائ بادشاہ کے بندے ہر ہر عالم کے گھر گھر گئے تب سیٹ اپ ایسا ایڈوانس نہیں تھا کہ ایک ویٹس ایپ میسج کردیا سب کو پتہ لگ گیا   "
"بادشاہ کا بندہ شیخ سعدی کے گھر بھی پہنچا  اور انکو بولا کہ دادا یہ سین ہے آنا پڑے گا"
"شیخ سعدی بھن ہوگئے بولے ابے پاگل واگل ہوگیا ہے کیا بادشاہ  جا کر بول دو نکل لے اپنے پاس فالتو  ٹائم  کوئ ہے"
"ابے بھائ بادشاہ کے بندوں کی ہوا شاٹ ہوگئ کہ واپس جاکر کیا بولیں الٹا ڈنڈے پڑ جائیں گے کہ ایک بابا نہ پٹا کر لاسکے  تم  تو انہوں نے جاکر بول دیا کہ بھئ وہ کہ رہے ہیں کہ بادشاہ  کو کام ہے تو خود آئے"
"یہ سب کر بادشاہ ایک منٹ کو سن ہوگیا پھر بولا ہاں استاد بات تو ٹھیک ہے مجھے کام ہے تو مجھے جانا چاھئے تھا آخر کو اپنا بڑا بندہ ہے تو وہ صاحب تیا ر ہوئے اور پہنچ گئے"

"وہاں پہنچے تو شیخ صاحب بولے "اور لڑکے سب سیٹ کوئ نئ تازی  کیسے آنا ہوا؟"، یعنی کوئ لفٹ  ہی نہیں کرائ سائڈ کرادیا بلکل"
"بادشاہ کی ہٹی تو بہت  لیکن شریف  بندہ تھا  چپ کرگیا  آجکل کا کوئ بادشاہ ہوتا ناں تو گن نکال لیتا  کہ ابے بڈھے ایک تو طالبان تیار کررہاہے مدرسہ کھول کر اوپر سے بھرم دکھا رہا ہے خیر  اس نے کیا مولوی صاحب آپ کے بھائ نے دعوت رکھی ہے اور آپ کو آنا پڑے گا"
"شیح صاحب بولے ابے نہیں بھائ میں ویں نہیں آتا جا تا کہیں ٹائم کے لسن لگ جاتے ہیں اس سے اچھا ہے کہ بندہ یہاں بیٹھ کر  کچھ کرلے گلستان بوستان کے ایک دو چیپٹر نکال لیگا تیرا بھائ"

"بادشاہ  نے بڑی منت کرلی کہ دادا اور بھی آپ کے دوست ہونگے وہاں اچھی گیدرنگ رہے گی مزا آئے گا لش پش لیکن مولانا مان کے نہیں دئے"
"خیر بھی بادشاہ تھک ہار کر اٹھا کہ چل بھائ یہ تو مانے گا نہیں ہم نکلتے ہیں تو  شیخ صاحب بولے کہ چل تو خود آیاہے  بلانے تو تیرا بھائ آجائے گا  لیکن زیاد لمبی نہیں کرنا  بس تھوڑی دیر میں کھا پی کے نکل لیں گے "

"بادشاہ راضی ہوگیا کہ خیر ہوگئ آپ آئیں تو سہی آپ کے آتے ہی کھانا کھول دیں گے اور پھر بولا  چلو دادا  یہ تو ہوگیا اب ملتے ہیں پارٹی میں"
"خیر دعوت والے دن شیخ صاحب بھی گھر سے نکلے کہ چلو اب بلایا ہے تو جانا تو پڑے گا لیکن تھے بڑے درویش آدمی جس حلیہ میں گھر میں بیٹھے تھے اسی میں اٹھ کر پہنچ گئے وہاں اب چوکیدار نے روک لیا کہ بھیا کدھر ؟ یہاں بادشاہ کی پارٹی چل رہی ہے"

"شیخ صاحب نے بھی بولاکہ دادا گیٹ کھولو ہم بھی بادشاہ کے مہمان ہیں تو چوکیدار ہنسنے لگے کہ بڑے میاں بادشاہ کے مہمان ایسے حلیہ میں آتے ہیں کیا  تو شیخ صاحب نے بھی بولا کہ بیٹا مجھے بھی کوئ شوق نہیں تھا وہ تیرا باپ ہی آیا تھا بھائ کو بلانے گھر تو میں آیا ہوں لیکن چوکیدار پھر بولا کہ جائیں سرکار کسی نے دیکھ لیا کہ میں یہاں آپ سے بحث میں لگا ہوں تو میری نوکری تیل ہوجائے گی   میرے بھی بچے ہیں مجھے بھی بیگم کو سنا سفیناز  دلانا ہے عید  پر نوکری چلی گئ تو اپنا تو گیم بج جائے گا  اس لئے معاف کرو بابا" 

" خیر اب تو شیخ صاحب کی بھن ہوگئ بولے واہ بھئ بلایا اور اندر بھی نہیں آنے دیا خیر آدمی تیز تھے فورا" کسی ڈیزائنر کے پاس پہنچ گئے اور فل ٹپ ٹاپ کپڑے وپڑے پہن کر تیار ہوکر دوبارہ پہنچ گئے ادھر پارٹی میں"

"اب کی بار جو پہنچے تو  دیکھا کہ بادشاہ خود باہر کھڑا ہوا ہے نکل کر جیسے ہی شیخ صاحب وہاں پہنچے لپک کر بازو پکڑ لیا اور اندر کھینچتے ہوئے بولا کہ دادا کہاں رہ گئے تھے کب سے سب ویٹ کر رہے ہیں بھوک لگ رہی ہے ٹائٹ انتظار ہورہا ہے تو شیخ صاحب نے ٹوپی کرادی کی بس سگریٹ لینے رک گیا تھا  یا کوئ بھی ٹوپی کرادی پان وان کی اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا خیر۔۔۔"

"کھانا لگ گیا سب شروع ہوگئے لیکن شیخ صاحب بیٹھے رہے تو  بادشاہ بولا چلو بھیا شروع کردو اور کھینچ کے رکھو  بہت آئٹم ہیں"
"شیخ صاحب نے ایک پلیٹ میں کھانا نکالا  اور اپنے سوٹ کا دامن شوربہ میں ڈبا دیا اور  کچھ سالن وغیرہ سے اپنا عمامہ رنگین کردیا "
"اس پر وہ بولا کی ابے بھائ یہ کیا کر رہا ہے؟"

تو شیخ صاحب بولے "میری بات سن لے اب ذرا کان کھول کر، یہ جو مجھے دیر ہوئ ہے آنے میں یہ میں کوئ ٹریفک میں نہیں پھنسا ہوا تھا یا کوئ سگریٹ پان لینے نہیں گیا تھا پوچھ لے اپنے چوکیدار کو میں نارمل کپڑوں میں آیا تھا تو انہوں نے مجھے گیٹ سے بھگا دیا کہ ایسے حلیہ میں پارٹی میں نہیں گھس سکتے کیوں کی بادشاہ کی پارٹی ہے"

"اس کے بعد ہی یہ کرایہ پر سوٹ لیا ہے عمامہ  لیا اور تو جو یہ پھنکتا ہے ناں  کہ تجھے علم ولم کی باتیں کرنی ہیں اور سننی ہیں تو  یہ سب  تو جھوٹ بولتا ہے یہ سب ڈرامہ بند کر یہ سب جو دعوت ہے وہ  اسی لباس کی دعوت ہے تو کھانا بھی اسی کو ملنا چاھئے ناں ہماری عزت کوئ نہیں اگر اچھے کپڑے نہ ہوں یا لش پس دکھتے نہ ہوں  علم ولم اور کتابیں شاعری سب اس کے بعد ہے"

ہم انتظار میں تھے کہ آگے بھی کچھ سنائیں گے تو پوچھ لیا " پھر"

بولے" ابے کوئ فلم کی سٹوری تھوڑی تھی ختم ہوگئ بس"

ہم نے پوچھا  "لیکن آج اس داستا ن کو سنانے کی وجہ کیا تھی؟"

بولے" وجہ سادہ سی تھی تجھے پتہ ہے تیرا بھائ جاب لیس تھا کنگال تھا سگریٹ بھی ابا کے ڈبے سے چوری کرکے پیا کرتا تھا یعنی کہ کوئ سین ہی نہیں تھا اپنا "
"ہاں تو"

"ابے خاندان میں تو کیا گھر میں بھی کوئ منہ نہیں لگاتا تھا  بھائ کہ یہ فالتو چیز ہے کسی کام کا نہیں صرف امی بیچاری چوری چھپے خیال کیا کرتی تھیں پیسے ویسے  دے دیا کرتی تھیں"

"لیکن دادا کل تو بھئ انت ہی ہوگیا  ناں  شام میں دیکھا تو اپنے ماموں ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں اور بڑی ہنس ہنس کر باتیں ہورہی ہیں ہم سے استاد اٹھ کر گلے ملے مبارکباد  دی کب جارہے ہو کیا سیٹ اپ ہے وغیرہ وغیرہ  پھر بولے جارہے پھر سیٹ ہوجاؤ تو اپنے بھائیوں کا بھی دیکھنا کچھ سیٹنگ بن جائے تو"
"صبح امی نے بتایا کہ باتوں باتوں میں عارفین کے رشتے کی بات کرگئے ہیں تمہارے لئے۔ امی نے ہی کہا کہ میں نے کہ دیا کی ابھی تو جارہا ہے کچھ دن رک جائیں 
سیٹ ہوجائے پھر اس سے بات کرتے ہیں تو اصل میں یہ جو ماموں ہمارے لئے رشتہ لیکر آئے تھے وہ ہمارے لئے نہیں بارہ ہزار درہم سلیری کیلئے لے کر آئے تھے"

"یعنی میرے عزیز کل ملا کہ یہ کہ   

No comments:

Post a Comment