Thursday 29 September 2016

دوبارہ رتی گلی --- قسط تین


"یار فیضان میری بس ہوگئ ہے" راناصاحب نے دہائ دی
"یار آپ تو کہ رہے تھے آپ نے بڑے ٹریک کئے ہیں"میں نے ابرار کے انداز میں کہا حالانکہ میرا اپنا حال بھی پتلا ہی تھا
"او بکواس نہ کر رک جا" میں جو پہلے ہی رکا ہوا تھا قریب آکر انکے ساتھ بیٹھ گیا
"ارے کیا ہوا بھائ تھوڑا سا راستہ ہے بس یہ چڑھائ ہے اور آگے کھلا میدان ہے"میں نے ہمت بندھانے کی کوشش کی حالانکہ میں اندر سے ڈر رہا تھا کہ اگر میرے ہمت دینے سے اگر رانا صاحب کھڑے ہوگئے تو بڑی مشکل ہوجائے گی ہم دونوں راستے ہی ہٹ کر ایک ٹیلے نما جگہ سے ٹیک لگا کر سستانے لگے کہ پیچھے سے چودھری صاحب تشریف لے آئے اور دور سے ہمیں دیکھتے ہی ایک موٹی سی گالی دی
"ــــ او تم لوگ ادھر بیٹھے ہو میری  ادھر موت واقع ہوجاتی پیچھے" ہم دونوں کو ہی چودھری کی حالت دیکھ کر ہنسی آگئ بے چار ے کی حالت واقعی غیر تھی  سردی کی وجہ سے گرم ٹوپی کو گردن تک کھینچا ہوا تھا اور چھوٹی بڑی چڑھائیوں اور ناہموار راستے کی وجہ سے سانس دھونکی کی طرح چل رہا تھا ۔
"کیوں ہنس رہے ہو خبیثو۔۔۔ اور رانا صاحب یہ سب کیا دھرا تیرا ہی ہے"
"او ادھر آجا آرام سے بڑ بڑ نہ کر" رانا صاحب نے ہانک لگائ اور چودھری تھوڑی دیر میں ہم تک پہنچ کر زمین پر لیٹ کر ہاؤ ہاؤ کرکے سانس درست کرنے لگا
"بلوچ کہاں گیا" میں نے پوچھا
"زندہ بچ گیا" چودھری نے جواب دیا جس کی سانسیں اب قدرے قابو میں آچکی تھیں
"کیا مطلب؟" میں نے دوبارہ پوچھا
"تم دونوں تو بھاگ گئے آگے میں اور بلوچ پیچھے تھے پہلی اترائ پر پہلے میں سلپ ہوا اور میرے ساتھ بلوچ بھی کافی دور تک پھسلے پھر ایک بڑے پتھر کی وجہ سے رک گئے ورنہ جانا تھا نیچے ملنا بھی نہیں تھا" چودھری نے تفصیل بتائ
"بلوچ کدھر گیا پھر" رانا صاحب نے تشویش سے پوچھا
"اسکو چوٹ آئ ہے کمر میں اور ٹانگ  نظیر واپس لے گیا اسے کیمپ میں" چودھری نے  بات مکمل کی تو رانا صاحب نے پوچھا
"تجھے نہیں لگی؟"
"واہ واہـــــــ بڑا ارمان ہے تجھے نہیں لگی" چودھری نے ایک اور موٹی گالی دیکر جواب مکمل کیا پھر خود ہی بولا "نہیں میں پہلے ہی رک گیا تھا بلوچ زیادہ سلپ ہوا بے چارے کولگی ہے کس کے"
"اب کیا کریں چلیں واپس؟ اندھیرا ہوجائے گا نہیں تو" رانا صاحب نے صلاح مانگی
"یار اب آگئے ہیں تو چلتے ہیں دیکھ لیں گے اندھیرا ہوا تو اللہ مالک ہے بلوچ کی فکر نہ کرو وہ کیمپ میں سویا پڑا ہوگا اب اور دیر بھی رانا صاحب آپ کی وجہ سے ہوئ ہے کچھ تو سزا ملنی چاھئے آپ  کو بھی" چودھری نے واپس پلٹنے سے انکار کا فیصلہ سنا دیا
ہوا کچھ یوں تھا کہ جب ہم سب نے ایک دوسرے کو کھینچ کھانچ کر کھڑا کرلیا تو رانا صاحب نے ہی کہا تھا کہ ابھی سورج غروب ہونے میں کافی وقت ہے کیمپ لگا کر اور سامان پیک کرکے چلتے ہیں کیمپ چودھری صاحب ساتھ لائے تھے جو کہ بالکل "زیرو میٹر " تھا یعنی بازار سے خرید کر سیدھا اپنے ساتھ لے آئے تھے اس زیرو میٹر خیمے کو نصب کرنے میں ایک تو کافی دقت ہوئ دوسرے وقت بھی کافی لگا گیا کیوں کہ  ایک تو اسکی تیلیاں مکمل نہیں تھیں اور تھیں تو انکی ترتیب سمجھ نہیں آرہے تھے رانا صاحب بار بار کوشش کرتے اور پھر جھنجھلا کر کہنے لگے "یار چودھری تو چیک تو کرلیتا"
جس پر چودھری صاحب نے جواب دیا"یا ر میں نے ادھر دوکان میں پورا کا پورا لگوا کر دیکھا تھا فل اتنا بڑا بن گیا تھا کہ بارات لیکر گھس جاؤ اندر" جس پر رانا صاحب دوبارہ کوشش کرنے میں لگ گئے"نہیں یار یہ تیلیاں پوری نہیں ہیں خیمہ ایسے کھڑا نہیں ہوتا تو چیک کر بیگ میں دیکھ کچھ اور بھی ہوگا"
چودھری نے ایک ایک کرکے اپنے بیگ سے تمام سامان نکال کر زمین پر ڈھیر کرنا شروع کیا اور ایک تھیلی رانا صاحب کی طرف اچھالی "یار چیک کر  کچھ نیٹ بولٹس ہیں"
"نیٹ بولٹس نہیں ہیں یار یہی باقی کا سامان ہے" رانا صاحب نے سامان چیک کیا اور پھر چندمنٹوں میں ہی خیمہ اٹھا کر کھڑا کردیا
ہم سب نے اپنا اپنا سامان خیمے کے اندر ڈالا اور رانا صاحب نے کہا "چلو بھائ چلو"
"یار عثمان چھوڑ یار نہیں جاتے ابھی دیر ہوگئ ہے" چودھری نے ایکدم سے فیصلہ سنا دیا
"ہاں نظیر بتا یار جاسکتے ہیں یا نہیں" بلوچ نے نظیر سے صلاح مانگی
"جاسکتے ہیں سر آرام سے واپسی میں شاید سورج ڈوب جائے اگر ادھر زیادہ ٹائم جھیل پر لگاؤ گے تو" نظیر کی طرف سے گرین سگنل تھا سب ہی تیار ہوگئے اور چل پڑے ابتدا میں ہم سب ساتھ ساتھ تھے لیکن تھوڑی ہی دور جاکر بلوچ اور چودھری الگ رہ گئے جب کہ میں اور رانا صاحب پہلے سے بنی ہوئ پکڈنڈی پر چلتے رہے ایک چڑھائ چڑھ کر پار اترے تو ہمارے پس منظر میں کیمپ سائیٹ غائب ہوچکی تھی اور بس وہی زنگ آلود پہاڑ، نیلے  اور سرخ پھول رہ گئے تھے۔
"یار رانا صاحب کیسا عجیب سا منظر ہے" میں نے کہا
"یار منظر میں کچھ نہیں ہوتا انسا ن کے اندر ہوتا ہے" رانا صاحب شاید فلسفے کے موڈ میں تھے
"تو پھر لودھراں میں ایسا کیوں محسوس نہیں ہوتا یا پھر حیدرآباد میں کیوں نہیں ہوتا" میں نے دوبارہ سوال کیا
"ہوتا ہوگا جس کیلئے لودھرا یا حیدرآباد اہم ہوگا اسے ضرور ہوتا ہوگا" رانا صاحب نے پھر فلسفے کا سہارا لیا
"یار آپ تو فریدہ خانم اور شکیرا کو ایک صف میں کھڑا کرہے ہیں فریدہ خانم کو سن کر بندہ عبادت کی طرف راغب ہوجائے جبکہ شکیرا کی تو آواز میں ہی آوارگی ہے واللہ" میری با ت سب کر رانا صاحب نے قہقہ لگایا اور بولے یار مولوی تو بھی کیسی باتیں کرتا ہے
چھوٹی جھیل کا ٹریک کوئ ایسا آسان ٹریک بھی نہیں تھا کوئ باقاعدہ راستہ نہیں ہے بس آڑے ترچھے قدموں کے نشان سے ایک پکڈنڈی کی صورت میں موجود تھے او ر کہیں کہیں وہ بھی غائب ہوجاتے تھے اور ہم یونہی ہوا میں رہ جاتے دوسرے ہوا اتنی تیز تھی کہ باقاعدہ سوئیوں کی طرح چھیدتی ہوئ محسوس ہورہی تھی ہم دونوں کے پاس ہی دستانے نہیں تھے اور ہماری ہاتھ زیادہ دیر کھلے رہتے تو سن ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگتے مسلسل اترائ چڑھائ کی وجہ سے ہم تھک بھی زیادہ رہے تھے اور تب ہی رانا صاحب تھک کر بیٹھ گئے "یار فیضان میری بس ہوگئی ہے"
رانا صاحب کی بس ہونے کے باوجود چوہدری کے زور دینے پر ہم بادل ناخواستہ اٹھے اور اٹھ کر چلے، چلے کیا خود کو گھسیٹتے رہے کسی ایک کو رکتا دیکھ کر اسکا ساتھ دینے کے بہانے سب رک جاتے  اور دم درست کرتے سانس بحال کرتے اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے کہ کوئ منع کردے کہ وہ نہیں جائے گا تو وہیں سے واپس پلٹ جائیں۔
تھوڑی دیر یونہی ایک دوسرے کے آسرے رکتے رکتے چلتے  رہے بلکہ رلتے رہے آخر چوہدی نے کہا" چھوڑ یار رانا چل واپس چلتے ہیں چھوٹی جھیل کیا دیکھنے بندہ دیکھے تو کوئ بڑی شے دیکھے  کیوں"
رانا صاحب جو چوہدری کو جھکتا دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے لیکن  ظاہر ایسا کررہے تھے کہ  جیسے انہیں اس فیصلے سے خوشی نہیں ہوئ "ابے چوہدری بس پہنچ گئے ہیں ہمت کرلے تھوڑی ویسے بھی تجھے ہی شوق چڑھا تھا  ادھر"
"یار رانا صاحب ضد چھوڑ دے کتی ٹریک  ہے بڑی اور اس سے بھی کتی ٹھنڈ ہے  چل تو جیتا میں ہار گیا واپس مڑ اب" چوہدری کے ہار ماننے پر رانا صاحب واپسی پر رضامند نظر آنے لگے۔
واپس مڑے اور کیمپ سائٹ کی طرف دوبارہ چلے تو تقریبا" آدھے راستے میں ہی  اندھیرا ہوگیا  جس پر چوہدری نے کہا تھا " دیکھ لو رانا صاحب تیری ضد کے چکر میں رہ جاتے تو واپسی میں کسی کھو میں پڑے ہونا تھا یا بھیڑیا کھا جاتا ادھر ہی کدھر ہمیں"
"میری ضد کا چکر کہاں سے آگیا میں نے تو تب ہی بولا تھا واپس چلے چلو جب  تو آیا تھا بلوچ کو چھوڑ کر" رانا صاحب نے جواب دیا
"چل یار چھوڑ اب سویرے دیکھیں گے کیا کرنا ہے" چوہدری نے بھی زیادہ بحث کو فضول سمجھا
چلتے چلتے واپس کیمپ تک پہنچے بلوچ کی خیریت معلوم کی ان کی طبیعت کافی بہتر تھی اور وہ کچھ دیر سو کر دوبارہ  تازہ دم ہوچکے تھے کھانا بھی تیار تھا اور بھوک بھی زوروں پر تھی تو کھانا کھا لیا گیا اور اسکے بعد چائے کافی اور مزید چائے اور مزید کافی کا دور چلا  اور  تھوڑی دیر میں ہی اندھیرا گھپ ہوتا چلا گیا روشنی بس کیمپ میں موجود مصنوعی  بلب اور ٹارچوں کی تھی چاند کی آخری تاریخیں تھیں اور موسم صاف نہ ہونے کی وجہ سے تارے میں ظاہر نہیں تھے ۔
"یا ر رانا تو ہمیں سیدھا لاہور سے یہاں لے آیا  سوچ کل اس وقت ہم لاہور میں تھے اور ابھی ادھر" چوہدری صاحب بیٹھے بیٹھے گویا ہوئے
"شکر کر ادھر ہی رات گزر رہی ہے اگر تو رکتا نہیں ناں تو میری تو دریا کے اندر ہونی تھی" بلوچ صاحب نے  کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بات مکمل کی۔
"اور اللہ کا شکر ادا کر  بے وقوف انسان بچ گئے ورنہ ہماری رات پھر سفر میں گزر جاتی تجھے واپس لے جانے میں"چوہدری نے پھتی کسی جس پر بلوچ صاحب واقعی ناراض ہوگئے اور اپنا جوتا کھینچ کر مارا پھر یہ بولتے ہوئے  اٹھ کھڑے ہوئے کہ " میں چلا سونے ویسے  بھی میں انجرڈ ہوں" بلوچ صاحب گئے تو پھر ہم سب بھی تھکن محسوس کرنے لگے میں تو سیدھا کراچی سے پنڈی اور پنڈی سے یہاں کیمپ تک بغیر رکے چلا آیا تھا اس خیال کے آنے کے بعد سے تھکاوٹ شدت سے محسوس ہونے لگی اور نیند بھی تو میں اٹھا اور خیمے کے اندر سلیپنگ بیگ میں جالیٹا اور کچھ ہی دیر میں  سوبھی گیا رانا صاحب اور چوہدری باہر ہی بیٹھے باتیں کررہے تھے اس رات اتنی گہری نیند آئ کہ کیا کبھی کسی فائیو سٹار ہوٹل کے لگژری  کمرے میں آتی ہوگی۔
صبح مجھے رانا صاحب نے بہت جلدی کھینچ کھینچ کر اٹھا دیا  خیمے سے باہر نکلے تو ابھی سورج نکلے میں کچھ وقت باقی تھا  یعنی اندھیرا تھا لیکن دم توڑتا ہوا اندھیرا اور سورج نہ نکلے کی وجہ سے شدید ٹھنڈک محسوس ہورہی تھی ہوا بند تھی لیکن ٹھنڈک پورے ماحول میں موجود تھی۔
سوچا نماز پڑھ لوں   ٹھنڈے یخ پانی سے  ٹھٹھرتا ہوا وضو کیا قبلہ کا  اندازے سے تعین کرکے  کپکپاتے  ہوئے نماز ادا کرلی پہاڑوں پر ادا کی جانے والی نماز کا اپنا ہی مزا ہے اور شاید ان نمازوں کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہو اپنی بات کروں تو مجھے خدا سے تعلق کا جو احساس کسی پہاڑی علاقے میں ہوتا ہے اتنا کبھی شہروں میں نہیں ہوتا۔
"یار آجا ایک چکر لگا کر آئیں" رانا صاحب نے  کہا جب میں جوتے پہن رہا تھا
"چلیں کدھر کو چلنا ہے"  میں نے بے وقوفانہ سا سوال کرلیا
"کہیں نہیں بس ادھر ہی کیمپ سائٹ کا راؤنڈ لگاتے ہیں"
اور ہم دونوں راؤنڈ لگانے نکل چلے
رات کو بارش ہوئ تھی جسکے آثار نمایاں تھے گوکہ ایسی بارشیں ان علاقوں  اکثر ہوجایا کرتی ہیں اور اس بارش کی وجہ سے فضا میں ایک خاص قسم کی تازگی کا احساس تھا چلتے چلتے ہم نے پوری کیمپ سائٹ کا ایک چکر لگایا ہمارے خیمے کے علاوہ وہاں چار پانچ خیمے اور بھی لگے ہوئے تھے لیکن جب ہم وہاں پہنچے تھے تو اس وقت وہ خیمے موجود نہیں تھے شاید جب ہم جھیل کی طرف چلے گئے تھے تو ہمارے پیچھے میں کچھ مزید سیاح وہاں آئے تھے لیکن اس وقت سناٹا تھا دور دور تک پہاڑ مرجھائے ہوئے سبزے کی وجہ سے کہیں کہیں گندمی اور کہیں کہیں زنگ آلود نظر آرہے تھے سبزہ بھی تھا لیکن اتنے رنگوں کی بہتات کی وجہ سے نمایاں نہیں ہورہا تھا ۔
کیمپ سائٹ کے پیچھے کی جانب ٹریک کے دوسری جانب سرکنڈے نماں پھول لہلہا رہے تھے اور یہ پھول کچھ تو  ساہی مائل سرخ تھے  اور کچھ جامنی رنگت  لئے ہوئے تھے لیکن تعداد میں بہت کم تھے بس چند ایک جھاڑیاں ہی تھیں یعنی ماحول تو تھا لیکن بے دیوانہ کرسکنے کے قابل نہیں تھا  یعنی ابھی بچہ تھا بالغ نہ ہوا تھا۔
خیموں کے دائیں جانب چلتے چلتے ہم ایک چھوٹی سی پہاڑی کے اوپر پہنچ کر رک گئے وہاں سے منظر کچھ یوں تھا کہ  کیمپ سائٹ  ہمارے بائیں جانب نیچے کی طرف ہوگئی اور اس پر لگے ہوئے خیمے تین خیمے ایک ساتھ سرخ رنگ کے اور ان سے کچھ پرے نیلے رنگ کا چوکور خیمہ جو کہ انقلابی صاحب کا تھا اور سب سے الگ تھلگ ہمارا پیلے رنگ کا خیمہ جیسے کوئ مایوں کی دلہن  اور وہاں سے مزید نیچے بائیں جانب  بہت نیچےرتی گلی نالہ گزرتا ہوا اور اسکے گزرنے کا شور بہت ہی مدھم مدھم ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہوا اور سامنے تاحد نگاہ تک پہاڑوں کا ایک سلسلہ اور ہر پہاڑ ایک دوسرے میں گم ہوتا ہوا گویا کراچی سے طویل مسافت طے کرنے کے بعد پہلی صبح ایسی شاندار تھی کہ میری ساری تھکن اتر گئ اور آنے کا مقصد پورا  ہوگیا اب آگے اس سفر میں مجھے کچھ بھی نہ ملتا اور وہیں سے واپس لوٹ جانے کا  اذن ملتا تو بھی ایسی کوئ ناامیدی نہیں ہوتی یا شاید یہ میرا صرف گمان تھا کہ آگے جو کچھ میرے لئے تھا اور جو کچھ مجھے دکھادیا گیا اسے دیکھ لینے کے بعد بھی میرے اندر ایسے مناظر کی ہوس ختم تو کیا کم بھی نہیں ہوتی بلکہ مزید بڑھتی ہی رہی اور شاید بڑھتی ہی رہے گی۔
"یار کیا ایسا  ہوتا ہے کہ جب کوئ مرجائے تو اسکی روح اسی دنیا میں بھٹکتی رہ جائے؟" رانا صاحب نے بالکل ہی آؤٹ اور سلیبس سوال پوچھ لیا
"ہو سکتا ہے  ایسا ممکن ہو قدرت اللہ شہاب نے ایک واقعہ اسی نوعیت کا ذکر کیا ہے لیکن ہوسکتا ہے وہ بس زیب داستان کیلئے کیا ہو، میرا اپنا کوئ ذاتی تجربہ نہیں ہے" میرے جواب سے رانا صاحب مطئن نہیں ہوئے
"نہیں فرض کر کہ کوئ بندہ یہاں پہنچ جائے اور پہنچ کر مرجائے یا یہاں آنے کی طلب ہو اسکے دل میں لیکن یہاں آنہ سکے اور آنے سے پہلے ہی مرجائے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ اسکی روح یہاں بھٹکتی پھرے؟"
"یار اس بات  کا جواب تو کوئ صاحب علم ہی دے سکتا ہے ویسے محمد احسن اس قسم کی خواہش کرتے پائے گئے ہیں انہیں علم ہوگا ان سے پوچھئے گاویسے میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جسم روح کا ایک لباس ہے جیسے آپ شرٹ پہن لیتے ہیں تو وہ شرٹ آپ کی طرح ہوجاتی ہے یعنی اس وقت وہ آپ ہی ہوتی ہے لیکن جب آپ اسے اتار دیتے ہیں تو وہ صرف شرٹ ہوجاتی ہے  تو ایسے ہی جسم بھی  روح کے نکل جانے کے بعد صرف جسم رہ جاتا ہے ویسے بھی  یہ تو قران میں بھی ہے کہ اللہ نے تمام ارواح کو جمع کیا اور ان سے اقرار لیا کہ تمہارا رب کون ہے اور جب حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کرلی تو انکو بھی حکم ہوا تھا کہ پکارو اور انہوں نے پکارا تو اللہ نے انکی آواز پورے عالم میں پہنچا دی اور تمام جن و انس اور ارواح نے وہ پکار سنی اور لبیک کہا لیکن رانا صاحب میں یہ بات نہیں کہ سکتا کہ روح اپنی مرضی سے بھی بھٹکتی پھرتی رہے وہ بہر حال  حکم کی تابع ہے" رانا صاحب پھر  بھی مطمئن نہ ہوئے
"یار ایک بات ہے لیکن تم لوگ میرا مذاق اڑاؤ گے بعد میں اس لئے چھوڑ  ابھی"
"یار بتاد یں کیا ہوا کوئ بھوت دیکھ لیا کیا؟"
"یار رات تم تو سوگئے جلدی اور بلوچ بھی سوگیا میں او رنوید بیٹھے تھے باہر تب موسم بھی صاف ہوگیا تھا کچھ دیر باتیں کرتے رہے نظیر اور وہ دوسرا بندہ بھی ساتھ بیٹھا تھا  ایوں شغل لگا رہے تھے جب وہ دونوں چلے گئے تو  پھر تھوڑی دیرمیں نوید بھی چلا گیا سونے اور میں بھی اندر لیٹ گیا  باہر سردی ہورہ تھی کافی لیکن نیند نہیں آئ کافی دیر لیٹا رہا  پھر اٹھ کر باہر آگیا کہ کچھ نائٹ فوٹو گرافی کرلوں"
"رات میں یہ جو ٹینٹ دیکھ رہا ہے" راناں صاحب نے ان تین خیموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا" یہاں بھی چھ سات لڑکے آئے تھے  وہ دیر سے پہنچے تو غل غپاڑا مچارہے تھے پتہ نہیں کیا چرچ شراب کیا پی کر آئے تھےبہت مستی میں تھے"
"میں کیمرہ اٹھا کر تھوڑی دور نکل گیا ٹرائ پاڈ لگا کر کھڑا تھا ٹارچ میں نے بند کیا ہوا تھا کبھی کبھی جلا لیا کرتا فوکس دیکھنے کیلئے خیردوتین تصویریں کھینچی ہونگی کہ سامنے کی طرف سے ایک لڑکی آئ خوبصورت سی جینز پہنی ہوئ"
"صرف جینز؟؟" میں نے اشتیاق میں بے صبرے پن سے پوچھ لیا  جس پر رانا صاحب غصہ کرگئے لیکن کچھ بولے نہیں اپنی بات جاری رکھی
"جینز شرٹ اور سر پر ہیٹ جیسے ٹوپی ہاتھ میں سٹک پکڑی تھی اس نے میرے پاس آکر بولی کہ آپ مجھے آگے تک راستہ دکھا دیں گے میرے پاس ٹارچ نہیں ہے"
"اکیلی لڑکی تھی رات میں؟"
"ہاں اکیلی تھی خیر میں نے ٹارچ جلایا اور آگے آگے چلا ابھی چار قدم ہی چلا تھا کہ  پیچھے روشی دکھانے پلٹا تو پیچھے کوئ نہیں دور دور روشنی ماری لیکن کوئ تھا ہی نہیں "
"پھر؟" میں نے پوچھا لیکن مجھے رانا صاحب کی کسی بات پر یقین نہیں آرہا تھا
"پھر کچھ نہیں میری حالت خراب ہوگئ  بھاگا وہاں سے تو ٹینٹ میں آکر دم لیا تم تینوں سو رہے تھے آیت الکرسی پڑھ پڑھ کر رات گزاری ہے کیمرہ بھی میرا ادھر ہی پڑا ہوگا ابھی تک بارش بھی ہوگئ رات میں کیمرے کی تو ماں بہن ہوگئ ہوگی"
"یار سرجی آپ کو بھوت بھی نظر آیا تو لڑکی کا سچ میں آپ کے نصیب میں بڑی لڑکیاں ہیں مجھے آپ کی قسمت پر رشک  آنے لگا ہے۔۔ہاہاہا"
"مجھے معلوم تھا کہ تجھے جھوٹ ہی لگے گا خیرکوئ با ت نہیں چل آجا کیمرے کی خیریت لے کر آتے ہیں"
ہم وہاں سے نیچے اتر کر خیمے تک آئے اندر جھانکا نویدین سورہے تھے پھر وہاں سے تھوڑا نیچے اتر کر  آگے گئے تو رانا صاحب کا کیمرہ بمع ٹرائ پاڈ زمین پر گرا ہوا نظر آگیا اور اسکی واقعی ماں بہن ہوچکی تھی۔
رانا صاحب دوڑ کر گئے کیمرے کو مٹی سے اٹھایا سینے سے لگایا جھاڑا پونچھا لیکن سب بے سود وہ زندگی کی جنگ شاید ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی ہار چکا تھا۔
کیمرے کو اس حالت میں دیکھ کر رانا صاحب نے اس رات والی  لڑکی کو وہ پنجابی میں وہ  گالیاں سنائیں کہ اگر وہ ان کو سن سکتی تو اس کے  کانوں سے دھواں نکل آتا مجھے رانا صاحب کو بمشکل قابو کرنا پڑا کہ اگر وہ دوبارہ نظر آگئ اور ان مغلظات پر سوال کر بیٹھی تو لینے کے دینے پڑجائیں گے ۔
خیر رانا صاحب ان لوگو ں میں سے نہیں جو گزری پر ماتم کرتے ہیں بلکہ ان میں سے ہیں بلکہ ان میں سب سے آگے ہیں جو کہ گزری پر بہت جلد تین حرف پڑھ کر آگے کے بارے میں سوچتے ہیں تھوڑی دیر کیمرے کو الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے اور پوری طرح معائنہ کرنے کے بعد بولے
 "یار دیکھنے میں تو ٹھیک ہی ہے بس آن نہیں ہورہا ہے شاید بیٹری ختم ہوگئ ہو چل اب تو لاہور واپس جاکر ہی چیک ہوگا"  کچھ دیر وہی بیٹھے رہے پھر رانا صاحب بولے :
" یار میں اسے رکھ کر آتا ہوں  " ا
ور چلے گئے واپس آئے تو  اپنے بیگ سے بسکٹ اور نمکو نکال کر لے آئے  اور اس وقت تقریبا ساڑھے چھ بجے ہونگے تو  بلوچ صاحب بخار میں مبتلا تھے اور چوہدری بھی فوری اٹھنے کا کوئ ارادہ نہیں رکھتے تھے تب ہی رانا صاحب اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے :
"یار چل چھوٹی جھیل سے ہوکر آتے ہیں یہ دونوں سو رہے ہیں  جلدی کر گھنٹے ڈیڑھ میں واپس آجائیں گے"
"یار رانا صاحب آدھے راستے میں آپ کی بس ہوجاتی ہے کل بھی آپ بیٹھ گئے آدھےراستے میں ہی" میں نے کہا تو رانا صاحب بولے
"اب نہیں ہوگا تو بس تیار ہوجا جلدی فٹا فٹ جائیں گے اور گھنٹے ڈیڑھ میں واپس"
اور فٹافٹ ہی ہم نکل کھڑے ہوئے اور واقعی رانا صاحب وہ چال چلے کہ بس کیا بتاؤں یوں سمجھیں کہ  جیسے پارک میں واک کررہے ہوں بغیر رکے بغیر لڑکھڑائے خود بھی چلے اور مجھے بھی چلایا اور واقعی وہاں کا راستہ رات کے مقابلے میں بہت آسان معلوم ہوا  سورج نکل چکا تھا  موسم صاف  ہلکی ہلکی  ہوا چل رہی تھی اور ٹھنڈ کے باوجود چلنے میں پسینہ آرہا تھا.نیلے رنگ کے سرکنڈے کے مشابہ پھول صبح کی ہوا میں لہلہا رہے تھے اور یہ پھول بہت سارے تھے یوں سمجھیں جیسے کھیت کے کھیت وہاں موجود تھے جلد ہم جھیل تک پہنچے میں کامیاب ہوگئے  یہ جھیل اچانک ہی سامنے آگئ تھی گو کہ ابھی ہماری پہنچ سے بہت دور تھی لیکن پوری وسعت میں ہمارے سامنے موجود تھی پیچھے پہاڑ وہی زنگ رنگ میں سرخی بکھیر رہے تھے اور جھیل کی  سبزی مائل نیلی سطح  پر ہوا سے پانی پر لہریں بن رہی تھیں میرے پہلے منظر میں ایک پرندہ کہیں سے اڑتا ہوا آیا جھیل کی سطح پر  تیزی سے چہل قدمی کرکے ایک طرف اڑ گیا۔
میں نے رانا صاحب کی طرف دیکھا  اور محسوس کیا کہ وہ اپنے کیمرے کر بہت مس کررہے ہیں  لیکن کیا کرسکتے تھے موبائل سے ایک آدھ تصویر کھینچ لی کیمرے میں لے جانے کو کچھ نہیں تھا لیکن بہت کچھ یادوں میں بسایا جاسکتا تھا وہ منظر کچھ کم  انوکھا نہیں تھا بالکل ہی بہشتی منظر تھا میں نے سوچا کہ نہ جانے کیوں اس منظر کو سیاحوں میں مقبولیت کیوں حاصل نہیں ہوئ اور ایک خوشی بھی ہوئ کہ اچھا ہی ہوا ورنہ یہ جگہ بھی بہت جلد تباہ ہوجاتی شیوسر جھیل میں پانی کی بوتل تیرتے تو میں خود دیکھ کر آیا ہوں۔
منظر کچھ ایسا ہی تھا کہ ہمارے جیسے مناظر کے  پیاسے اپنی پیاس بجھائے جاتے لیکن وہ بجھتی نہیں بلکہ اور بھڑکتی ہے  ہم ہوس کے مارے شرابیوں کی طرح جام پر جام لنڈھاتے لیکن پھر بھی یہی کہتے کہ:
یہ دور جب چلے چلائے جا
تیرے قربان ساقی عالم
یہ مئے عشق ہے پلائے جا
مجھ کو بھرپور ابھی تک نہ کوئ جام ملا
ساقیا اور پلا اور پلا اور پلا
کافی وقت اسی مستی کے  عالم میں گزر گیا اور پھر مصیبت کہ جب خمار چڑھنا شروع بھی نہیں ہوتا  ہمیں مے خانہ چھوڑنے کا حکم ہوتا ہے اور تب بھی ایسا ہی ہوا اورا ٹھنا پڑا ہمارے دونوں ساتھے اٹھ چکے ہونگے اور ہمیں اگلی منزل کیلئے کوچ کرنا تھا بے دلی سے اٹھے اور واپس اسی راستے پر پلٹ گئے جہاں 
سے چل کر آئے تھے لیکن اب ہماری دل خوشی سے بھرے ہونے کے باوجود بھی بھاری تھے۔ 

تصویر رانا صاحب
فوٹو رانا عثمان

Sunday 18 September 2016

The Whole thing is that......



ہمارے  قریبی دوست  ہیں زوہیب شیخ  بڑے دلچسپ اور بزلہ سنج آدمی ہیں  بات بات پر قہقہ لگانا اور لگوانا  انکا مشغلہ  ہے خالص کراچیائ انداز کی اردو بولتے ہیں کہ سننے والا صرف سن کر ہی محضوظ ہوتا رہے ایک مشہور یونیورسٹی سے  سیلز اینڈ مارکٹنگ میں ڈگری لے رکھی ہے اپنے کام کے ماہر بھی ہیں  اور شاید پیدا بھی اسی کام کیلئے ہوئے   ہیں کہ زبان کے لپیٹوں سے بڑے بڑوں کو  جلد زیر کر لیتے ہیں دوستوں کے حلقہ میں بہت مقبو ل ہیں اور کوئ بھی ان سے صلاح لئے بغیر  کوئ کام نہیں کرتا چاہے وہ گاڑی خریدنے کا معاملہ ہو یا کسی محبوبہ کے گھر شادی کا پیغام بھیجنا ہو اور اب ان کو صلاح دینے کی ایسے عادت ہوچکی ہے کہ اگر صلاح نہ لی گئ اور انکو بعد میں معلوم ہوا تو اکثر روٹھ جاتے ہیں اور پھر دوست ان کو مناتے پھرتے ہیں اور یہ اس شرط پر کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا مان بھی جاتے ہیں۔
بڑے دن غائب رہے پھر ایک دن اچانک  فون آیا کہ تشریف لارہے ہیں  خبر سن کر ہی دل باغ باغ ہوگیا  کہنے لگے کہ بس پانچ منٹ میں پہنچ رہے ہیں  چائے تیار رکھی جائے پابندئ وقت کی بالکل پابندی نہیں کرتے تو پانچ منٹ کوئ پونے دو گھنٹے بعد پورے ہوئے  آئے تو ایک ہاتھ میں مٹھائ کا ڈبہ  اور دوسرے میں اپنا بستہ تھامے ہوئے تھے  آتے ہی بولے
" سوری بھائ  دیر ہوگئ "
"وہ تو آپ کی پرانی عادت ہے لیکن یہ مٹھائ کس خوشی میں"
"ابے تیرےبھائ کی جاب لگ گئ  ہے دادا۔۔   دبئ میں بارہ ہزار درہم سیلری "
"ارےواہ بھائ مبارک ہو بہت بہت  بہت خوشی کی خبر ہے اور صرف مٹھائ پر ٹرخارہے ہو لڑکے"
بولے"ابے لونڈے کیوں بے صبرا ہوا جارہا ہے جانے تو دے بھائ کو  پھر جمیرا بیچ پر پارٹی دیگا تیرا بھائ فکر کیوں کرتا ہے نوٹ  تو آنے دے پہلے "
کچھ دیر خاموش رہے اسکے بعد پھر دوبار بولے"ویسے دادا ایک بات دیکھ لی تیرے بھائ نے کہ پیسے میں بڑی پاور ہے"
"وہ تو ہے لیکن آپ نے کیسے اور کب دیکھی"
" ابے دیکھ لی بھائ اور بڑے اچھے سے دیکھ لی  خیر چل ایک واقعہ سناتا ہوں ۔۔۔ شیخ سعدی کا نام سنا ہے؟ ابے بڑے مشہور شاعر تھے ایران کے خیر نہیں پتہ تو سن لے"
"ایران کا بادشاہ بھی بڑا کوئ افلاطون تھا  ہر وقت  علم کی باتیں کرتا گھر میں کوئ یونیورسٹی ٹائپ بھی کچھ سیٹ اپ ڈالا ہوا تھا بڑے بڑے علامہ بھرے ہوئے تھے جیب سے سیلری دیتا مزے لگے ہوئے تھے سب کے"
"ایک دن بادشاہ کو لگا کہ وہ بھرتی والے علاماؤں کی باتیں سن سن کر پک گیا ہے تو اس نے پورے ملک سے سارے بڑے بڑے عالم فاضل سب کو بولا کہ باس فلاں فلاں دن ہمارے محل میں آئیں کھانا بھی پھوڑیں اور بھاشن بھی  سنیں  اور سنائیں"
"خیر بھائ بادشاہ کے بندے ہر ہر عالم کے گھر گھر گئے تب سیٹ اپ ایسا ایڈوانس نہیں تھا کہ ایک ویٹس ایپ میسج کردیا سب کو پتہ لگ گیا   "
"بادشاہ کا بندہ شیخ سعدی کے گھر بھی پہنچا  اور انکو بولا کہ دادا یہ سین ہے آنا پڑے گا"
"شیخ سعدی بھن ہوگئے بولے ابے پاگل واگل ہوگیا ہے کیا بادشاہ  جا کر بول دو نکل لے اپنے پاس فالتو  ٹائم  کوئ ہے"
"ابے بھائ بادشاہ کے بندوں کی ہوا شاٹ ہوگئ کہ واپس جاکر کیا بولیں الٹا ڈنڈے پڑ جائیں گے کہ ایک بابا نہ پٹا کر لاسکے  تم  تو انہوں نے جاکر بول دیا کہ بھئ وہ کہ رہے ہیں کہ بادشاہ  کو کام ہے تو خود آئے"
"یہ سب کر بادشاہ ایک منٹ کو سن ہوگیا پھر بولا ہاں استاد بات تو ٹھیک ہے مجھے کام ہے تو مجھے جانا چاھئے تھا آخر کو اپنا بڑا بندہ ہے تو وہ صاحب تیا ر ہوئے اور پہنچ گئے"

"وہاں پہنچے تو شیخ صاحب بولے "اور لڑکے سب سیٹ کوئ نئ تازی  کیسے آنا ہوا؟"، یعنی کوئ لفٹ  ہی نہیں کرائ سائڈ کرادیا بلکل"
"بادشاہ کی ہٹی تو بہت  لیکن شریف  بندہ تھا  چپ کرگیا  آجکل کا کوئ بادشاہ ہوتا ناں تو گن نکال لیتا  کہ ابے بڈھے ایک تو طالبان تیار کررہاہے مدرسہ کھول کر اوپر سے بھرم دکھا رہا ہے خیر  اس نے کیا مولوی صاحب آپ کے بھائ نے دعوت رکھی ہے اور آپ کو آنا پڑے گا"
"شیح صاحب بولے ابے نہیں بھائ میں ویں نہیں آتا جا تا کہیں ٹائم کے لسن لگ جاتے ہیں اس سے اچھا ہے کہ بندہ یہاں بیٹھ کر  کچھ کرلے گلستان بوستان کے ایک دو چیپٹر نکال لیگا تیرا بھائ"

"بادشاہ  نے بڑی منت کرلی کہ دادا اور بھی آپ کے دوست ہونگے وہاں اچھی گیدرنگ رہے گی مزا آئے گا لش پش لیکن مولانا مان کے نہیں دئے"
"خیر بھی بادشاہ تھک ہار کر اٹھا کہ چل بھائ یہ تو مانے گا نہیں ہم نکلتے ہیں تو  شیخ صاحب بولے کہ چل تو خود آیاہے  بلانے تو تیرا بھائ آجائے گا  لیکن زیاد لمبی نہیں کرنا  بس تھوڑی دیر میں کھا پی کے نکل لیں گے "

"بادشاہ راضی ہوگیا کہ خیر ہوگئ آپ آئیں تو سہی آپ کے آتے ہی کھانا کھول دیں گے اور پھر بولا  چلو دادا  یہ تو ہوگیا اب ملتے ہیں پارٹی میں"
"خیر دعوت والے دن شیخ صاحب بھی گھر سے نکلے کہ چلو اب بلایا ہے تو جانا تو پڑے گا لیکن تھے بڑے درویش آدمی جس حلیہ میں گھر میں بیٹھے تھے اسی میں اٹھ کر پہنچ گئے وہاں اب چوکیدار نے روک لیا کہ بھیا کدھر ؟ یہاں بادشاہ کی پارٹی چل رہی ہے"

"شیخ صاحب نے بھی بولاکہ دادا گیٹ کھولو ہم بھی بادشاہ کے مہمان ہیں تو چوکیدار ہنسنے لگے کہ بڑے میاں بادشاہ کے مہمان ایسے حلیہ میں آتے ہیں کیا  تو شیخ صاحب نے بھی بولا کہ بیٹا مجھے بھی کوئ شوق نہیں تھا وہ تیرا باپ ہی آیا تھا بھائ کو بلانے گھر تو میں آیا ہوں لیکن چوکیدار پھر بولا کہ جائیں سرکار کسی نے دیکھ لیا کہ میں یہاں آپ سے بحث میں لگا ہوں تو میری نوکری تیل ہوجائے گی   میرے بھی بچے ہیں مجھے بھی بیگم کو سنا سفیناز  دلانا ہے عید  پر نوکری چلی گئ تو اپنا تو گیم بج جائے گا  اس لئے معاف کرو بابا" 

" خیر اب تو شیخ صاحب کی بھن ہوگئ بولے واہ بھئ بلایا اور اندر بھی نہیں آنے دیا خیر آدمی تیز تھے فورا" کسی ڈیزائنر کے پاس پہنچ گئے اور فل ٹپ ٹاپ کپڑے وپڑے پہن کر تیار ہوکر دوبارہ پہنچ گئے ادھر پارٹی میں"

"اب کی بار جو پہنچے تو  دیکھا کہ بادشاہ خود باہر کھڑا ہوا ہے نکل کر جیسے ہی شیخ صاحب وہاں پہنچے لپک کر بازو پکڑ لیا اور اندر کھینچتے ہوئے بولا کہ دادا کہاں رہ گئے تھے کب سے سب ویٹ کر رہے ہیں بھوک لگ رہی ہے ٹائٹ انتظار ہورہا ہے تو شیخ صاحب نے ٹوپی کرادی کی بس سگریٹ لینے رک گیا تھا  یا کوئ بھی ٹوپی کرادی پان وان کی اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا خیر۔۔۔"

"کھانا لگ گیا سب شروع ہوگئے لیکن شیخ صاحب بیٹھے رہے تو  بادشاہ بولا چلو بھیا شروع کردو اور کھینچ کے رکھو  بہت آئٹم ہیں"
"شیخ صاحب نے ایک پلیٹ میں کھانا نکالا  اور اپنے سوٹ کا دامن شوربہ میں ڈبا دیا اور  کچھ سالن وغیرہ سے اپنا عمامہ رنگین کردیا "
"اس پر وہ بولا کی ابے بھائ یہ کیا کر رہا ہے؟"

تو شیخ صاحب بولے "میری بات سن لے اب ذرا کان کھول کر، یہ جو مجھے دیر ہوئ ہے آنے میں یہ میں کوئ ٹریفک میں نہیں پھنسا ہوا تھا یا کوئ سگریٹ پان لینے نہیں گیا تھا پوچھ لے اپنے چوکیدار کو میں نارمل کپڑوں میں آیا تھا تو انہوں نے مجھے گیٹ سے بھگا دیا کہ ایسے حلیہ میں پارٹی میں نہیں گھس سکتے کیوں کی بادشاہ کی پارٹی ہے"

"اس کے بعد ہی یہ کرایہ پر سوٹ لیا ہے عمامہ  لیا اور تو جو یہ پھنکتا ہے ناں  کہ تجھے علم ولم کی باتیں کرنی ہیں اور سننی ہیں تو  یہ سب  تو جھوٹ بولتا ہے یہ سب ڈرامہ بند کر یہ سب جو دعوت ہے وہ  اسی لباس کی دعوت ہے تو کھانا بھی اسی کو ملنا چاھئے ناں ہماری عزت کوئ نہیں اگر اچھے کپڑے نہ ہوں یا لش پس دکھتے نہ ہوں  علم ولم اور کتابیں شاعری سب اس کے بعد ہے"

ہم انتظار میں تھے کہ آگے بھی کچھ سنائیں گے تو پوچھ لیا " پھر"

بولے" ابے کوئ فلم کی سٹوری تھوڑی تھی ختم ہوگئ بس"

ہم نے پوچھا  "لیکن آج اس داستا ن کو سنانے کی وجہ کیا تھی؟"

بولے" وجہ سادہ سی تھی تجھے پتہ ہے تیرا بھائ جاب لیس تھا کنگال تھا سگریٹ بھی ابا کے ڈبے سے چوری کرکے پیا کرتا تھا یعنی کہ کوئ سین ہی نہیں تھا اپنا "
"ہاں تو"

"ابے خاندان میں تو کیا گھر میں بھی کوئ منہ نہیں لگاتا تھا  بھائ کہ یہ فالتو چیز ہے کسی کام کا نہیں صرف امی بیچاری چوری چھپے خیال کیا کرتی تھیں پیسے ویسے  دے دیا کرتی تھیں"

"لیکن دادا کل تو بھئ انت ہی ہوگیا  ناں  شام میں دیکھا تو اپنے ماموں ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں اور بڑی ہنس ہنس کر باتیں ہورہی ہیں ہم سے استاد اٹھ کر گلے ملے مبارکباد  دی کب جارہے ہو کیا سیٹ اپ ہے وغیرہ وغیرہ  پھر بولے جارہے پھر سیٹ ہوجاؤ تو اپنے بھائیوں کا بھی دیکھنا کچھ سیٹنگ بن جائے تو"
"صبح امی نے بتایا کہ باتوں باتوں میں عارفین کے رشتے کی بات کرگئے ہیں تمہارے لئے۔ امی نے ہی کہا کہ میں نے کہ دیا کی ابھی تو جارہا ہے کچھ دن رک جائیں 
سیٹ ہوجائے پھر اس سے بات کرتے ہیں تو اصل میں یہ جو ماموں ہمارے لئے رشتہ لیکر آئے تھے وہ ہمارے لئے نہیں بارہ ہزار درہم سلیری کیلئے لے کر آئے تھے"

"یعنی میرے عزیز کل ملا کہ یہ کہ   

Saturday 17 September 2016

ماضی کی یادوں سے





یہ قصہ ہے ہمارے بچپن کا   ویسے تو یہ  قصہ کوئ زیادہ پرانا نہیں ہمارا بچپن ابھی گزرا کہا ں ہے یہی کوئ سال دو سال پرانی بات لگتی ہے  قصہ یوں شروع ہوتا  ہے کہ  ایک مرتبہ ہم اپنی پھوپھی کے گھر گئے   ہمارے پھوپھا خیر سے سرکاری افسر تھے اور رہنے کو انکو  انگریز کے زمانے کا بنا ہوا ایک سرکاری کواٹر ملا ہوا تھا ۔کواٹرمیں رہنے کو  کمرے کم لیکن صحن، دالان ،برامدے بہت  سارے تھے گھر سے سامنے  کی طرف پکی دیوار تھی جس پر لکڑی کا ایک دروازہ لگا تھا لیکن پچھواڑے ایک دروازے کے بعد ایک بہت بڑا میدان بھی گھر کے حصہ میں شامل تھا  جسے آپ بیرونی صحن کہ سکتے ہیں اور اس کے آخری سرے پر  کیکر کی ایک باڑ بنا کر چھوٹا تین فٹا ایک دروازہ لگا ہوا تھا اور ہر دو گھروں کے درمیان بھی  ایسی ہی ایک باڑ تھی جوایک گھر کو دوسرے سے جدا کرتی تھی اور یہی دروازہ آمد و رفت کیلئے استعمال ہوتا تھا۔
 خیر قصہ  شروع ہوتا ہے جب ہم ایک دن اپنی ان  ہی پھوپھی کے گھر پہنچ جاتے ہیں  شاید کوئ دعوت تھی یا معلوم نہیں کسی بچے کے عقیے  یا ختنے کا کوئ پروگرام  تھا  بہر حال وہاں ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے ہمارے ہم عمر   بچے بچیاں  جمع تھے۔
کم عمر بچوں کیلئے اس گھر میں بہت سا دلچسپی کا سامان موجود تھا جیسے کہ ہر کمرے میں ایک چمنی  اور ایسی کھڑکیاں جہاں ایک بندہ آرام سے بیٹھ سکتا  تھا ، روشن دان جو چھت پر کھلتے  اور ان روشندانوں سے کمروں میں جھانکنے کیلئے  چھت پر جاناپڑتا اور وہاں جانے کیلئے لوہے کا ایک گول زینہ   اور  خاص بات یہ تھی کہ کالونی کے ایک لائن میں بنے تمام مکانوں کی چھتیں ملی ہوئ تھیں تو چھت پر پہنچ کر صرف وہی روشن دان ایسا نہیں تھا جس سے ہم اندر جھانکتے بلکہ ہر ہر کھلے روشندان سے اندر جھانکنا اپنا فرض سمجھتے اب سوچتا ہوں کبھی کبھی انسان کو نعمتیں تب عطا ہوجاتی ہے جب انہیں انکی افادیت کا شعور نہیں ہوتا ان کھلے روشندانوں سے وہ وہ مناظر نظر آنے کے قوی امکانات موجود تھے جن کا بیان یہاں قطعی غیر مناسب ہے خیر چھوڑئے  کیا جلے دل کے پھپھولے پھوڑنا۔
تو صاحبان ہمارا قصہ شروع ہوتا ہے جب ہم ایک دن کسی تقریب میں پھوپھی کے گھر پہنچ گئے اب جہاں بہت سے بچے ہوں تو ظاہر ہے بڑے بھی ہوتے ہیں اور جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ان گھروں میں کمرے کم اور دالان اور برامدے اور صحن زیادہ  تھے تو ایک کمرے میں خواتین نے غیبت چوک کھول لیا دوسرے میں مرد حضرات نے کرکٹ ، سیاست ، دفتر وغیرہ  وغیرہ  جیسے پھیکے موضوعات پر گفتگو کا بازار گرم کردیا ظاہرہے ان دونوں میں بچوں کا کوئ خاص دلچسپی نہیں ہوتی  ۔
پہلے زمانوں کے بچے بھی عجیب ہوا کرتے تھے پہلے پہل جب کسی رشتہ دار کے گھر جاتے تو امی کے پلو یا ابو کے پہلو سے لگ کر بیٹھ جاتے اور اس بات کا انتظار کرتے کہ بڑے خود ان سے کہ دیں کہ جاکر کھیلو   تو اس دن بھی ہم ابو کے پہلو میں بیٹھے عمران ، میانداد اور ضیا الحق کے بارے میں جاری ہونے والے بیان سن رہے تھے اور سنے جارہے تھے اور سامنے کسی اور انکل کے پہلو میں بیٹھا کوئ اور بچہ بھی  اسی امتحان سے گزر رہا تھا  اور اندر کمرے میں بھی بہت سے بچے امیوں کے پلوؤں سے بندھے اپنی دادیوں اور دیگر خواتین  کے  بارے میں ہونے والی گفتگو سن رہے تھے اور جب گفتگو میں کوئ ایسا خطرناک موڑ آیا کہ بچوں کی موجودگی کو ناموزوں جاناگیا تو ان کو اذن ملا کہ "جاؤ باہر جاکر کھیلو" اور اگلے ہی لمحے کئ ایک جانے پہچانے چہرے دروازے میں کھڑے نظرآنے لگے جنہیں دیکھ کر ہماری بےچینی عروج کو پہنچنے لگی تو ہماری کسی دادا نما شخصیت نے ہماری آزادی کا  پروانہ جاری کردیا اور ہم وہاں سے رفو چکر ہوئے اور دروازے کھڑے  دیگر بچوں میں پہنچ کر دوسرا سانس لیا۔
اب جو سب بچے مل گئے تو وہ شور ڈالا کی الامان الحفیظ  بڑوں نےحکم جاری کردیا کہ گھر سے باہر جاکر کھیلو   ساتھ ہی یہ حکم بھی ملا کہ سب بچے صرف گھر کے سامنے کھلییں گے ،بچوں کی تو عید ہی ہوگئی باہر نکل کر ادھر ادھر بھاگ دوڑ پکڑم پکڑائ اور چھپن چھپائ شروع ہوگیا کھیلنے کو ایک بہت بڑا میدان  جو میسر آگیا۔
چھپن چھپائ کے دوران ہی  ایک باری میں ہم چور تھے اور  پھوپھی کے گھر کے سامنے روڈ کی دوسری طرف موجود مسجد  کی دیوار کے ساتھ  اصول  کے  مطابق با آواز بلند گنتی گن کر سب کو چھپنے کا موقع فراہم کر رہے تھے کہ اچانک پاس ہی سے ایک غراہٹ سنائ دی اور جو پلٹ کر دیکھا تو ایک کتیا ننھے ننھے پلوں کے ساتھ اسے دیوار کے ساتھ موجود تھی جہاں ہم کھڑے گنتی گننے میں مشغول تھے ایک لمحے میں سٹی گم اور گنتی بھول کر جو دم دبا کر بھاگے تو  معلوم نہیں کہاں تک دم واپس سیدھا نہ کرسکے  اور جب رکے تو میدان کے دوسری طرف سڑک پر کھڑے ہانپ رہے تھے خیر جب دم میں دم آیا تو اپنے ساتھیوں کو آوازیں لگانا شروع کیں لیکن جواب ندارد  ایک بات جو ہم بتانا بھول گئے ہیں وہ یہ کہ کالونی کے تمام ہی مکان باہر سے بھی ایک جیسے دکھتے تھے یعنی وہی چھوٹا سا گیٹ اور وہی لیمپ وہی باڑ  مکان نمبر اس دور میں یاد ہوتے نہیں تھے ،تو  ہم تب تک اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ ہم  بھٹک چکے ہیں لیکن مکانوں  اور گلیوں کی یکسانیت کی وجہ سے خود کو راہ راست پر سمجھ رہے تھے۔
کچھ دیر دوستوں کو آوازیں دینے کے بعد ہم نے یہ  سمجھا کہ وہ سب چھپے ہوئے ہیں اسی وجہ سے ہماری آواز کے جواب میں کوئ بول نہیں رہا  اور انکی تلاش میں کئ گز اور ادھر ادھر نکل گئے لیکن کوئ بھی نظر نہ آیا تو ایک لمحہ کو تو بہت غصہ آیا کہ بھلا یہ کیا حرکت ہوئ کہ چھپ گئے تو کوئ آواز ہی نہیں نکال رہا  اور دوسرے لمحے فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کو چھپا چھوڑ کر ہم گھر چلے جاتے ہیں اب جو نظر اٹھا کر دیکھا تو سب کے سب گھر ایک شکل کے لیکن پھوپھی کے گھر کی نشانی تھی کہ انکے گھر کے سامنے کچھ دور مسجد تھی سوچا واپس مسجد تک چلتے ہیں اور وہاں پہنچ گئے تو سمجھو گھر پہنچ گئے اب جو پلٹے اور مسجد کی طرف چلے تو مسجد تو وہاں تھی ہی نہیں خیال آیا کہ شاید ہم زیادہ آگے نکل آئے ہیں تھوڑا اور چلیں گے تو مسجد مل جائے گی  لیکن تھوڑا اور چلنے پر ایک ڈبل روڈ آگیا  اور ہم وہاں حیران پریشان کھڑے رہ گئے۔
ایک طرف تو یہ ہوا اب دوسری طرف کا حال بھی سن لیں کہ جب ہم گنتی پوری کرکے واپس نہیں آئے تو  بچے ہمیں تلاش کرتے مسجد کی دیوار تک آئے اور ہمیں وہاں نہ پاکر  دوڑے ہوئے گھر آئے اور بڑوں کو  اطلا ع دی کہ فیضان گم ہوگیا  کچھ بچوں کے یہ بھی کہا کہ مسجد کی دیوار کے ساتھ نیم کے درخت پر جو جن ہے وہ اسے اٹھا کر لے گیا ہے ایک بچے نے تو گواہی بھی دی کہ اس نے خود ہمیں وہاں کھڑا کسی سے باتیں کرتے اور پھر غائب ہوتے دیکھا ہے۔
جب یہ اطلاع ہماری والدہ تک پہنچی تو انہوں نے سینے پر دوہتڑ مارا اور با آواز بلند رونا شروع کردیا  وہاں موجود  باقی خواتین نے ان کو سنبھالا  اور فوری طور پر  امدادی ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور  وہ ہماری تلاش میں کالونی کے طول و عرض میں گشت کرنے نکل کھڑی ہوئیں۔
دوسری طرف ہم  اس ڈبل روڈ کے کنارے کھڑے سوچتے رہے کہ کدھر کو چلنا چاہئے اور جب کچھ سمجھ نہ آیا  تو رونے لگے اور روتے روتے ہی واپس اسی راستے پر پلٹ گئے جدھر سے چلے تھے اب حال یہ ہے کہ روتے جارہے ہیں اور چلتے چلتے گھروں میں جھانکتے جارہے ہیں کہ کونسا گھر ہماری پھوپھی کا ہے ایسے ہی ایک گھر میں جھانکا تو اندر بھیڑ بھاڑ نظر آئ تو پھاٹک اٹھا کر اندر داخل ہوگئے اور لمبے صحن سے گزر کر روتے روتے ہی اندر جھانک لیا  ابھی ہم باہر ہی کھڑے تانکا جھانکی کررہے تھے کہ اچانک دروازہ کھلا اور ایک انکل نما صاحب باہر آگئے اور ہمیں ڈانتے ہوئے بولے کہ " یہاں کھڑے کھڑے کیا رو رہے ہو اندر جاؤ تمہارے پیچھے میں کیک کٹ جائے گا یہ سن کر ہم بغیر سوچے سمجھے اندر بھاگ گئے اور جونہی اندر پہنچے ہماری عمر کے کسی بچے نے ہمارے سر پر سالگرہ والی تکون ٹوپی پہنادی   سامنے ہی ایک ٹیبل پر بڑا سا کیک رکھا ہوا تھا اور قریب ہی تھا کہ ایک بچی کیک پر لگی موم بتیوں کو پھونک مار کر بجھاتی اور ایسا ہی ہوا سب بچوں بڑوں نے مل ہر ہیپی برتھ ڈے ٹو یو گایا  کیک کٹا  تالیاں بجیں اور ہم بھی ان سب میں شامل رہے لیکن ان سب کے دوران بھی ہماری نگاہیں کسی آشنا چہرے کی متلاشی تھیں لیکن کوئ بھی دکھائ نہ دیا   اسی دوران کسی نے ایک پلیٹ میں کیک کا ٹکرا  ہمیں بھی پکڑا دیا  طرح طرح کے وسوسے ذہن میں جنم لینے لگے کہ جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم ان کے مہمان نہیں ہیں تو نہ جانے کیا سلوک کریں گے ہمارے ساتھ  وغیرہ وغیرہ ۔
اب حال یہ تھا کہ کیک بھی کھاتے جارہے ہیں اور بھاں بھاں روتے بھی جارہے ہیں پہلے تو بڑے بزرگوں نے نظر انداز کیا لیکن جب ہمارا رونا   ختم نہ ہوا اور کوئ بھی ہماری جانب متوجہ نہ ہوا تو ایک شفیق سی خاتون جو غالبا" خاتون خانہ تھیں ہمارے پاس آئیں پہلے تو بلند آواز میں سوال کیا کہ " یہ کس کا بچہ ہے" کہ مبادا ہماری والدہ یا والد وہاں موجود ہوں لیکن اتنے بچوں کی موجودگی میں ہماری آواز ان تک نہ پہنچ پائ ہو لیکن جب کوئ بھی متوجہ نہ ہوا تو وہ ہمارے پاس آئیں پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا  "بیٹا کس کے ساتھ آئے ہو "   انکی آواز میں ایسا پیار اور اپنائیت تھی کہ  ہم انہیں اپنا ہمدرد جان کر  اور بھی اونچے سروں میں رونا شروع ہوگئے  اس پر وہ خاتون اور بھی پریشان ہوگئیں اور اسی پریشانی کے عالم میں بولیں " آئے ہائے لگتا ہے بچہ کہیں سے بھٹک کر یہاں آگیا ہے" تب تک ہمارے ارد گرد دیگر بچوں کا جمگھٹا بھی لگ چکا تھا   اور جوں ہی ان شفیق خاتون کا جملہ مکمل ہوا  ہم اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ انکو ہمارا مسئلے کا علم ہوگیا ہے اور دل میں خیال پیدا ہوا کہ اب اگر انہوں نے کان پکڑ کر ہمیں یہاں سے نکال دیا تو ہم کہاں جائیں گے اور مزید انہوں نے مفت کے کیک کے پیسے طلب کر لئے تو کیا ہوگا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر انہوں نے لاوارث جان کر ہمیں اپنے گھر نوکر بنا کر رکھ لیا تو پھر ہمارا کیا بنے گا اوریہ سب سوچ کر ایسے بکھر کر روئے کہ کیا کسی نے آنسو بہائے ہونگے ہچکی ہی بندھ گئ۔
پھر ہم سے پوچھا گیا کہ "بیٹا کس کے گھر آئے تھے" تب لے دے کہ ہمیں اپنی بیچاری پھوپھی کا ہی نام ذہن میں آیا " بے بی پھپی" آگے سے سوال ہوا " کہاں رہتی ہیں" اب اسکا  ہم کیا جواب دیتے اگر معلوم ہوتا تو خود نہ چلے جاتے وہاں۔۔۔ بےوقوف لوگ۔
ہمیں پانی پلایا گیا اور  تب ہماری جان میں جا ن آئ جب ہم نے سنا کہ کوئ کہ رہا ہے "بیٹا  ہم تمہیں ڈھونڈ کر تمہاری پھپھی کے گھر پہنچا دیں گے تم یہ بتاؤ پھوپھا کا کیا نام ہے" اب ہم پھوپھاکو انکل کہتے تھے اور وہی بتا دیا کہ انکا نام" انکل "ہے ا ب کون سے انکل ہیں اور ان کے ماں باپ نے انکا کیا نام رکھا تھا اسکا تب ہمارے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔
وہاں پر موجود کسی صاحب نےصلاح دی  کہ بچے کو لیکر  کالونی کا ایک چکر لگا لیں جس کسی گھر میں تقریب ہورہی ہوگی یہ وہیں آیا ہوگا  ہم سے ہمارا نام اور ابو کا نام بھی پوچھ لیا گیا تھا کہ اگر نوبت آئ تو مسجد سے اعلان کرو ا دیں گے کالونی میں زیادہ گھر نہیں ہیں اور جس گھر کا بچہ ہے وہ بھی اسے تلاش کر ہی رہے ہونگے تو اسی گھر کے دو افراد  ہماری انگلی پکڑے باہر نکلے اور چلتے ہوئے گلی کے کونے تک چلے گئے  گلی کی دوسری طرف سے دو بچے چلے آرہے تھے ہمیں یوں روتا دیکھ کر ان میں سے ایک نے ہم سے پوچھا  " تم مدثر کے کزن ہو؟" یہ سننا تھا کہ ہمارے  چہرے پو گویا رونق آگئی ایسے ہی روتے بسورتے مشکل  اقرار کیا  تو بچوں نے بتایا کہ وہ لوگ ہمیں دھونڈ رہے ہیں اور ابھی مدثر انہیں ملا تھا تو اس نے بتایا کہ اسکا کزن گم ہوگیا ہے جسے تلاش کیا جارہا ہے ان دونوں انکلز نے بچوں سے مدثر کا گھر معلوم کیا اور وہ دونوں بھی ہمارے ساتھ ہی چلے اور ہمیں لئے لئے جونہی وہ مسجد کے پاس پہنچے جہاں سے ہماری گمشدگی کا آغاز ہوا تھا ہمیں سب کچھ جیسے یاد آگیا  جھٹ ہاتھ چھڑایا اور سیدھا گیٹ تک پہنچے اور تیر کی طرح اندر داخل ہوگئے صحن میں ہی ہمارے ابو اور چند اور بزرگ موجود تھے ہم سیدھا جاکر ابو سے لپٹ گئے اور پھر وہاں سے جو بھاگے تو امی کی گود میں جاکر دم لیا اور سسک سسک کر رونے لگے کچھ دیر میں جب  معاملات نارمل ہوگئے ہماری تلا ش میں بھیجی گئی ٹیمیں بھی واپس آگئیں اور ہم بھی رو دھو کر چپ ہوگئے تو کسی نے چھیڑنے کی خاطر سوال کیا کی " فیضان تم کہاں چلے گئے تھے" تو ہم نے بظاہر تمام گزری باتوں کو بھلاتے ہوئے کہا تھا کہ "دوست کی سالگرہ میں" جس پر ایک بھرپور قہقہ لگا تھا اور پھر اس رات جب تک وہ تقریب جاری رہی سب کی توجہ کا مرکز ہم ہی رہے۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ جب بھی ہم کسی رشتہ دار کے گھر جاتے تو ہمیں انکے گھر کا نمبر اور انکل کا نام پہلے سے یاد کرایا جاتا۔