Thursday, 6 August 2015

ایش ٹرے میں بجھایا گیا ایک سگریٹ




جب ابھی سگریٹ ڈبوں میں بند ہوکر نہیں ملا کرتے تھے یا شاید ملتے ہوں لیکن پرانے لوگوں میں سے اکثر جو تمباکو نوشی
کے عادی تھے وہ اپنا سگریٹ خود بنا کرپیا کرتے تھے تمباکو کا ڈبہ، سگریٹ بنانے کا کاغذ، سلائ اور ماچس اپنے ساتھ رکھا کرتے اور جب کبھی سگریٹ کا من ہوتا پیپر میں تمباکو رکھنے سے لیکر سلگانے تک کا عمل اپنے ہاتھ سے کرتے اور شوق فرماتے میرے دادا مرحوم میں نے کبھی دیکھا تو نہیں سنا ضرور ہے کہ اسی طرز پر تمباکو نوشی کیا کرتے تھے یعنی اپنی ہاتھ سے سگریٹ بناتے اور اگر کبھی سگریٹ بنانے کا دل نہ ہوتا یا لوازمات میں سے کوئ ایک بھی کم ہوتا تو حقہ گڑگڑایا کرتے۔

یوسفی صاحب نے بھی ایک ایسے ہی خان صاحب کا ذکر اپنی کتاب "زرگزشت" میں کیا ہے اب وہ وقت نہیں اب نہ لوگوں کے پاس اتنا وقت ہے نہ ہی شوق کی وہ انتہا رہی اب وہ لوگ جو سگریٹ میں "کچھ" بھر کر پینے کے عادی ہیں وہ اس پیچیدہ عمل سے گزرتے ہیں پہلے سگریٹ خالی کی جاتی ہے پھر مصالحہ ملا کر تمباکو دوبارہ بھرا جاتا ہے اور پھر دم لگائے جاتے ہیں گو کہ عمل تھوڑا وقت اور دقت طلب ہے لیکن کہتے ہیں اتظار طلب بڑھادیتا ہے تو اس کے بعد پھر جو سرور ہے وہ وہی جان سکتے ہیں جو کبھی اس عمل سے گزرے ہوں خیر موضوع یہ نہیں۔

اب زمانہ بدل گیا ہے۔

تمباکو نوشی اب بھی کی جاتی ہے سگریٹ اب پیکٹ میں بند باآسانی مہیا ہوجاتا ہے اور ہر سگریٹ نوش ڈبیا سے پہلے سگریٹ نکال کر پیار سے انگلیوں کے درمیان میں رکھتا ہے پھر بڑے پیار سے ہونٹوں سے لگاتا ہے پھر سلگا کر تمباکو کے کڑوے ذائقہ سے لطف اندوز ہوتا ہے اور جب تک سگریٹ ختم نہیں ہوجاتی سگریٹ نوش کے اتنے قریب ہوتی ہے جتنی محبوبہ یا بیوی ہونی چاھئے لیکن جیسے ہی سگریٹ اختتام تک پہنچتی ہے وہ اسے ایش ٹرے میں رگڑ کر یا پیر کے نیچے مسل کر آگے بڑھ جاتا ہے۔

بعض سگریٹ نوش ایک فرض کی طرح سگریٹ پیتے ہیں اسے سلگانے کے بعد پے درپے کش پر کش لگا کر اس کوشش میں ہوتے ہیں جلد از جلد سے ختم کرکے فارغ ہوجائیں اور پھر کوئ اور کام کریں اور بعض بہت آرام آرام سے دھیرے دھیرے کش لگاتے ہیں ساتھ ساتھ گپیں بھی لگاتے ہیں کام بھی کرتے جاتے ہیں ساتھ وقفے وقفے سے کش بھی لگاتے رہتے ہیں ایسے لیکن ایک وقت پر دونوں اس سگریٹ سے ایک جیسا ہی سلوک کرتے ہیں یعنی جب انکا کام پورا ہوجاتا ہے اسے ایش ٹرے میں یا پیر کے نیچے رگڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔

سگریٹ نوشوں کی بھی دو اہم اقسام ہیں نمبر ایک شوقیہ اور دوسرے عادی, شوقیہ سگریٹ نوش کبھی کبھی سگریٹ پی کر اسے رگڑتے ہیں اور دوسرے عادی اور یہ بڑے خطرناک ہوتے ہیں یہ عادتا روزانہ بیسیوں مرتبہ سگریٹ کو اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہیں اور پھر مسل کر پھینک دیتے ہیں۔

تمہید بہت لمبی ہوگئ جی ہاں تمہید بات سمجھانا ضروری تھا موضوع تمباکو نوشی اور تمباکو نوشوں کی اقسام پر بحث نہیں تھا بلکہ کہنا یہ تھا کہ کچھ لوگ رشتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں پہلے اسے قریب کرتے ہیں پیار سے دیکھتے ہیں پھر ہونٹوں سے لگاتے ہیں پھر سلگادیتے ہیں اور جب رشتے سلگتے ہیں تو یہ مزہ لیتے ہیں اور پھر ایک دن اسی رشتے کو پیروں تلے رگڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں دیکھتے بھی نہیں ان کے وزن سے اور پیروں تلے روندے جانے سے اس رشتے کا کیا حال ہوا ہے بالکل ویسے ہی جیسے ایک سگریٹ نوش کبھی نہیں دیکھتا کہ اس کے رگڑنے سے اس سگریٹ کا کیا حشر ہوا ہے۔

ایسے افراد کی بھی دو اقسام ہیں شوقیہ اور عادی اب شوقیہ تو کبھی کبھار ایسا کرجاتے ہیں اور بعدمیں شاید اپنی اس حرکت پر افسوس بھی ہوجاتا ہو جیسے شوقیہ سگریٹ نوش اگر ایک دو سگریٹ پی لیں تو اکثر ان کے سینے میں درد شروع ہوجاتا ہے اور یہ دھڑکا بھی لگ جاتا ہے کہ اب ان کو دل کا دورہ پڑا ہی پڑا اور وہ افسوس ہی کرتے ہیں کہ پی ہی کیوں لیکن ایک عادی سگریٹ نوش ایک ہی نشست میں بیسیوں سگریٹ پھونک جائے احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنے سگریٹ پھونک چکے ہیں اور کتنے ہیں روند چکے ہیں اسی طرح رشتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والوں کو بھی احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنے ہی رشتے روند چکے ہیں اور جب احساس ہی نہ ہو تو انسان اپنی عادت سے پیچھا بھی نہیں چھڑاتا نہ ہی اسے برا جانتا ہے۔
مقصد تنقید نہیں بس ایک یاددہانی ہے جیسے ہرسگریٹ کے ڈبے پر لکھا ہوتا ہے
"تمباکو نوشی صحت کیلئے مضر ہے وزارت صحت حکومت پاکستان"

والسلام

No comments:

Post a Comment