تصویر فیضان قادری |
رات کی تاریکی میں ایک سیاہ اور ہموار سڑک پر ہماری بس چلی جارہی تھی بس کے باہر باندھا گیا پاکستانی پرچم پھڑپھڑ رہا تھا اور اندر سناٹا زیادہ تر مسافر سوئے ہوئے تھے اور جو سوئے ہوئے نہیں تھے وہ یا تو خاموش تھے یا اونگھ رہے تھے بس کے ساؤنڈ سسٹم مسلسل کبھی آہستہ اور کبھی تیز آواز میں ہندوستانی گانے بجا رہا تھا یہ چودہ اگست کی رات تھی اور ہماری بس براستہ مکران کوسٹل ہائے وے کنڈ ملیر کے ساحل کی طرف رواں دواں تھی۔
میرے ساتھ تین اور افراد تھے مصطفیٰ صابر، وسیم احمد اور عمر رشید جو لوگ میرا لکھا ہوا پہلے برداشت کر چکے ہیں وہ مصطفیٰ سے واقف ہونگے لیکن جنہوں نے نہیں پڑھا ان کیلئے مختصر یہ تینوں افراد میرے دفتر کےساتھی ہیں۔
بلوچستان کا نام سنتے ہی اکثر لوگوں کے ذہن میں جو نقشہ آتا ہے وہ یہی ہے کہ جیسے ہی آپ کراچی سے نکل کر بلوچستان میں داخل ہونگے سیاہ ڈھاٹا باندھے ایک یا زیادہ افراد آپ کو روک لیں گے آپ کا سارا قیمتی سامان لوٹ کر آپ کو جان سے مار کر آرام سے وہیں کرسیاں ڈال کر بیٹھ جائیں گے اور آپ کے پیچھے آنے والوں کا انتظار کریں گے اس دوران وہ چائے پیتے رہیں گے چرس کے سوٹے لگائیں گے اور تاش کھیلتے رہیں گے جب تک کہ دوسرا کوئ شکار ادھر نہیں آنکلتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کا نام آتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور آپ کو بھی منع کرتے ہیں کہ آپ خودکشی کا ارادہ ترک کردیں اور گھومنے کا اتنا ہی شوق ہے تو مری وری چلے جائیں وہاں کم از کم جان محفوظ رہے گی۔
اندرون سندھ کے بارے میں بھی عام رویہ یہی ہے کہ وہاں ہر جگہ ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں اور بس انتظار میں ہیں کہ کب آپ تشریف لائیں اور کب وہ آپ کو لوٹ کر گولی ماریں۔
اگر ایسا واقعی ایسا ہوتا تو میں ان علاقوں سے واپسی کے بعد ان سطور کو لکھنے کے قابل نہ ہوتا تو ضمانت میں میں خود کو پیش کرتا ہوں۔
میں ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا باہر اتنا ادھیرا تھا کہ صرف بس کی ہیڈ لائٹ سے پڑنے والے دائرے کے اندر جتنا منظر تھا وہ نظر آرہا تھا یا سامنے سے آتی ہوئ گاڑی کی ہیڈ لائٹ ڈرائیور خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا جبکہ اسکا ساتھی (کو پائیلٹ) جو درمیان میں اس لئے بیٹھا تھا کہ ڈرائیور سے باتیں کرے تاکے اسے نیند نہ آئے مسلسل مجھ سے باتیں کئے جارہا تھا بلوچی لہجے کی اردو اور بات کرنے کا خاص انداز اور ہر بات میں "اڑے" کا اڑنگا لگا کر معنی گرانا ویسے تو بڑا اچھا لگتا ہے لیکن اسکا موضوع کچھ ایسا تھا کہ مجھے الجھن ہونے لگی
"فے زان بھائ آپ کدھر کدھر گھوما ہے"
جواب میں میں نے دوچار جگہیں بتادیں
"واہ آپ تو خوب گھوما ہوا ہے" ایک لمحے کا وقفہ لیا اور دوبارہ بولا" گھوما ہوا مطلب یہ والا نہیں "اپنی کن پٹی پر فون ڈائل کرنے کے انداز میں انگلی گھماتے ہوئے سمجھایا "مطلب گھوما پھرا ہوا ہے"
جواب میں میں نے ایک قہقہ لگایا
"صرف مولک میں ہی گھوما یا باہر بھی گیا کبھی"
"ہاں گیا باہر بھی" میں نے جواب دیا "کہاں کہاں گیا"
"بس دوبئی ،سعودیہ، عمان وغیرہ۔۔۔ بحرین بس"
"ایران نہیں گیا یہ برابر میں ہے"
"نہیں ایران نہیں گیا ویسے برابر میں تو انڈیا بھی ہے"
"اڑے چھوڑو انڈیا منڈیا وہ کافر کا مولک ہے ایرا ن جاؤ"
"مسلمان ملک تو افغانستان بھی ہے اور برابر میں بھی"
"اڑے ادھر جنگ لگا ہواہے ۔۔۔طالبان تمہارا گلاں کاٹ کے رکھ لیگا باقی کا سمندر میں پھینکے گا"
"کون سے سمندر میں پھیکے گا" افغانستان کے سمندر میں پھینکا جانا بھی اچھا تجربہ ہوگا
"آپ کو کوئ فرق پڑجاوے گا کدھر میں بھی پھینکے"
میں کچھ دیر خاموش رہا تو پھر سوال کیا"آپ گوادر بھی نہیں گیا فے زان بھائ"
"نہیں گوادر ابھی تک نہیں گیا لیکن جانے کی خواہش ہے"
"اڑے خواہش مواہش چھوڑو چلو گوادر ہم لوگ لوکل ہے ادھر کا گوادر ہمارا مولک ہے"
"آپ کب جاؤ کے گوادر مجھے بتانا موقع ہوا تو ضرور چلوں گا"
"ابھی اگلے چار دن میں جارہا ہوں آپ اپنا نمبر دو دفون کا ہمارا گاؤں ہے آپ کو لیکر جائیں گے ساتھ میں ادھر سارا خرچہ ہمارا ذمہ آپ کو کھانا پینا گھر بھی ہے اپنا ہوٹل موٹل کا ٹیشن نہیں ہے آپ کو کوئ"
"آپ گوادر چلو ساتھ پھر وہاں سے آپ کا راہداری بنوا کر آپ کو ایران لیکر جائیں گے"
"کیا بنوا کر"
"راہداری آپ کا شناختی کارڈ رکھوا کر آپ کا ایران کیلئے انٹری پرمٹ بنے گا پاکستان ڈی سی بناکردیگا اس پر آپ ایران جاؤ گھومو پھرو پھر ادھر سے واپسی میں اپنا شناختی کارڈ اٹھاؤ اور جاؤ"
یعنی کہ کوئ بات ہی نہیں نہ ویزا نہ پاسپورٹ اور آپ کے پاس جو شناخت ہے وہ بھی آپ سے لیکر ایک کاغذ پکڑا کر آپ کو سرحد پار ایک دوسرے ملک بھیج دیاجائے اور وہاں آپ گھومو پھرو کوئ مسئلہ نہیں اسکے بعد میری اس اسے اسی موضوع پر بات ہوتی رہی وہ مجھے قائل کرتا رہا یہ بتاتا رہاکہ وہ کتنی بات ایسے گیا ہے اور کچھ نہیں ہوتا وہاں اسکے جاننے والے ہیں سرکاری گاڑی میں گھومیں گے خیر بہت دیر اسی پر بحث کرتا رہا آخر میں نے اسکے منہ پر بڑی بڑی دو تین جماہیاں لیں اور سیٹ کی پشت سے گردن ٹکا کر آنکھیں موند لیں پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے میرے ساتھ دفتر ی امور پر بات چیت ، بحث اور غیبت میں مشغول تھے مجھے خاموش ہوتا دیکھ کر عمر نے پیچھے سے ہی پوچھا
"ابے تو کیا لگا ہوا ہے اسکے ساتھ؟" عمر رشید ایک بزلہ سنج اور شوخ طبیعت کا مالک انسان ہے جو ہر کسی سے بغیر عمر و مرتبہ کے مذاق یا جملہ بازی کرسکتا ہے پورے دفتر میں سب اس بات سے خوف کھاتے ہیں کہ ان کے بارے میں کوئ بھی ایسی بات جس میں مزاح کا عنصر ہو کسی کو بھی پتہ چل جائے عمر کو پتہ نہ چلے کیونکہ یہ کبھی بھی کسی کا بھی ریکارڈ لگا سکتا ہے۔
"یہ مجھے ایران سمگل ہونے کیلئے قائل کررہا ہے" میں نے کہا
"تو کب جارہے ہو؟؟ میں نے خاموشی اختیار کی اور اسی طرح سونے کی کوشش کرتا رہا اور شاید میری آنکھ بھی لگ گئ یا میں غنودگی میں تھا اور میری آنکھ تب کھلی جب ہماری بس نے سامنے سے آتے ہوئے ایک ٹرک کو بہت خطرناک انداز میں کاٹا اور اسکے بعد مجھے نیند نہیں آئ۔
ہمیں اس سفر میں کل تقریبا دوسو چون (254) کلومیٹر کا سفر طے کرنا تھا اور اتنا ہی واپسی کراچی سے براستہ حب چوکی بوچستان میں داخلے کے بعد حب، وندر، اگور اور ہنگول اس سے آگے کنڈ ملیر کا ساحل اور پھر بوزی پاس سے پہلے پرنسس آف ہوپ تک اور وہاں سے واپسی۔
کنڈ ملیر کےساحل تک سفر ہے اور اس سے آگے "اصل "سفر ہے جو یہ سفر کر چکے ہیں وہ میری بات سے اتفاق کریں گے اور جنہوں نے نہیں کیا وہ تھوڑا سا صبر کریں آگے اس بارے میں معلومات آنے والی ہیں۔
وندر سے آگے ایک مقام زیرو پوائنٹ آتا ہے یہاں سے راستہ دو لخت ہورہا ہے ایک خصدار اور کوئٹہ کی طرف اور ایک ہنگول کی طرف جہاں ہماری بس نے سامنے سے آتے ہوئے ٹرک سے آمنا سامنا کیا وہ جگہ زیرو پوائنٹ سے تھوڑا پہلے تھی اور یہاں ہمارا سٹاپ تھا تمام بسیں رک گئیں دونوں ڈرائیور اتر کر غائب ہوگئے میں بس کے دروازے کے ساتھ کھڑا ہواتھا میری والے بس میں پچھلی سیٹ پر ایک باریش صاحب بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی باہر ہی کھڑے تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا "آپ پہلے آئے ہیں یہاں" "جی"میں نے جواب دیا تو کہنے لگے بڑی ہمت ہے آپ کی دوبارہ جارہے ہیں میں نے پوچھا کہ انکو مزہ نہیں آرہا تو انہوں نے جواب میں کہا " ارے بھی میں تو بیزار ہوگیا ہوں بس یہ ہماری بیگم ہیں نا انکوہی شوق ہے ہر وقت گھومتے رہنے کا میں نے کہا کہ بھی سمند ر ہی دیکھنا ہے تو کراچی میں کم ہیں ساحل لیکن نہیں بس اتنا لمبا سفر کرکے ساحل دیکھنا ہے میری توبہ ہے آئندہ جوآیا ادھر کبھی"
میں نے انکو انکے حال پر چھوڑا اور پاس بنے چائے کے ہوٹل میں آگیا باقی مسافر بھی یہاں ہی جمع تھے ہمارے ڈرائیور حضرات غائب تھے ہوٹل کے ساتھ ایک جھونپڑا سا بنا ہوا تھا اندر جھانکا تو دونوں وہاں بیٹھے بارے بارے سوٹے لگارہے تھے اور ایک ناگوار بو پھیلی ہوئ تھی بات واضح تھی بغیر کسی ابہام کے
مجھے دیکھ کر ڈرائیور عبدل وہاب بولا" اڑے آنکھیں بند ہورہا ہے ابھی ہمارا چوبیس والٹ کا بیٹری اڑتالیس والٹ کا ہوجائے گا" اور یہ کہتے ہوئے سگریٹ میری طرف بڑھائ " یہ لو آپ بھی لگاؤ" میں نے انکار کیا اور باہر آگیا۔
کچھ دیر میں قافلہ دوبارہ چلا اور اب کی بار عبدالوہاب واقعی راکٹ ہوچکا تھا اور بس کو بھی جہاز سمجھ کر اڑا رہا تھا لیکن چونکہ پورے قافلے کو ایک ساتھ سفر کرنا تھا اس لئے عبدالوہاب کی مشکیں کسی گئیں اور تین میں سے ایک بس ہم سے آگے آگئ اور راستہ روک کر ہمارے آگے چلتی رہی عبدالوہاب پیچ وتاب کھا کر صبر کرگیا اور گٹکا منہ میں ڈال کر خاموشی سے ایک ٹانگ سیٹ پر رکھ کر بس چلاتا رہا۔
کچھ دیر میں روشنی ہوئ تو ایک عجیب منظر تھا سڑک کے دونوں طرف جھاڑیاں اور درخت تھے وہ تمام کے تمام ایک طرف پیلے پیلے پھول لگےہوئے تھے اور دوسری طرف سے بالکل گنجے ایک پتہ بھی نہیں ایسا شاید کسی زور دار آندھی کی وجہ سے ہوا ہوگا اور یہی منظر تمام راستے ساتھ رہا سورج نکل آیا تو تیز دھوپ پھیل گئ اور سیاہ سڑک سورج کی روشنی کو منعکس کرنے لگی تمام منظر ایک اوور ایکسپوز تصویر کی طرح ہوگیا ہم نے آنکھوں پر دھوپ کے چشمے چڑھا لئے۔
صبح ساڑھے چھ بجے ہم کنڈ ملیر ساحل پر پہنچ گئے۔
کنڈ ملیر کا ساحل پاکستان کے خوبصورت ترین ساحلوں میں سے ایک ہے صاف شفاف پانی اور صاف ساحل لیکن جب سے عوام کا رجحان اس طرف بڑھا ہے بس تو اس سے آگے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے بس کچھ سالوں کی بات ہے ہر جانےوالا سیاح اپنا قومی فریضہ ایسے ہی ادا کرتا رہا تو بہت جلد ہی وہاں چھوڑی چھوٹی کچرے کی پہاڑیاں نظر آنا شروع ہوجائیں گی یہ تو ہمارا عام رویہ ہے افسوس کی کوئ بات نہیں۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کی بات ہوتی ہے یا عام طور پر سیاحت کی بات کی جاتی ہے تو شمالی علاقہ جات کو خاص توجہ دی جاتی ہے قدرتی حسن سے مالا مال وادیاں چاہے کوہ مری ہو یا وادئ نیلم یا پھر گلگت بلتستان کی جنت ارضی جہاں کوہ ہندو کش، قراقرم اور ہمالیہ کے طویل پہاڑی سلسلے اور انہی میں کے ٹو، نانگا پربت یا راکاپوشی کے حسین پہاڑ بھی ہیں اور دیومالائ حسن کا حامل ویوسائ کا میدان اور فیری میڈوز کا حسین سبزہ زار بھی اور وادئ کاغان اور جھیل سیف الملوک بھی اور ان سب کے علاوہ پاکستان کے شمال میں ہر ہر قدم پر سبزہ اور جھیلیں پھول اور درخت آپ کا استقبال کرتے ہیں لیکن کیا حسن صرف سبزہ جھیلیں اور پہاڑہی ہیں؟ کیا قدرتی حسن کا مطلب صرف پھول جھرنے اور آپشاریں ہی تصور کی جاتی ہیں یا کچھ اور بھی اس معنی میں تصور کیا جاسکتا ہے۔
پاکستانی مصنفین نے بھی اگر کتابیں لکھیں تو شمال پر صرف سلمان راشد صاحب ہی ہیں جن کے کئ بلاگز اور تحاریر سندھ اور بلوچستان کے حوالے سے ملتی ہیں اور فوٹوگرافر حضرات کا رجحان بھی ادھر ہی رہا نوے فیصد ڈاکومنٹریز بھی جو بنیں تو شمالی علاقہ جات پر مجھے یاد ہے پاکستان ٹیلیوژن پر شام کے وقت ایک پروگرام "فوڈ اینڈ ٹریول آف پاکستان" کے نام سے آیا کرتا تھا جسکی میزبانی ایوب کھوسہ صاحب کیا کرتے تھے بنیادہ طور پر یہ پروگرام بلوچستان کیلئے مخصوص تھا اور دور افتادہ وادیوں اور قبیلوں اور انکے روایتی کھانوں کے بارے میں ہوا کرتا تھا اور اسی پروگرام نے میرے اندر بلوچستان دیکھنے کی ایسی آگ لگائ جو ابھی تک جل رہی ہے بہت ہی کم موقع مل سکا خیر اور سندھ کے حوالے سے بھی مجھے پی ٹی وی کا ایک پروگرام یاد پڑتا ہے جو پروفیسر عبد الرؤف نامی ایک صاحب کیا کرتے تھے اور اسکی صرف چند ہی اقساط تھیں وہ بھی ٹھٹہ، مکلی، اور کینجھر جھیل تک ہی محدود تھیں خیر یہ میرا شکوہ نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوتا رہا لیکن شاید یہی وجہ ہے کہ عوام الناس کا رجحان بھی شمال کی طرف رہا اور دوسرے علاقے خصوصا صوبہ سندھ اور بلوچستان کی طرف دھیان نہیں دیا گیا لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔
صبح صبح ساحل کی ٹھنڈی ہوا نے جب ہمارے بدنوں کو چھوا تو ایک تو سب تازہ دم ہوگئے دوسرے سب کی بھوک خوب چمک اٹھی اور کراچی کے محاورے کے مطابق"کتے کی طرح بھوک لگ رہی تھی" اب مجھے نہیں معلوم کہ کتے کو کیسے بھوک لگتی ہے لیکن اگر ویسے ہی لگتی ہے جیسے ہمیں لگی تھی تو واقعی بڑی کتی بھوک ہے تو ہمارے میزبان جو ہمیں اپنی ذمہ داری پر لائے تھے وہ ہمیں اس کتی بھوک میں فوری ناشتہ فراہم کرنے سے قاصر ثابت ہوئے بلکہ بے بس ثابت ہورہے تھے ہائ وے کے ساتھ ہی ساحل پر ایک "بیچ ویو ریزارٹ ہوٹل" بنا ہوا ہے اسکی واحد خصوصیت ساحل سمندر پر ہونے کی وجہ سے سمندر کا نظارہ ہے اب ساحل پر ہو سمند ر بھی نہ دکھے تو تف ہے لیکن چلیں خیر بیٹھنے کی جگہ ہے ایک پکی چھت ہے ٹیبل اور کرسیاں لگی ہوئ ہیں پہلے پہل بسوں سے ان لوڈ کرکے ہمیں یہاں بٹھایا گیا کہ ناشتہ کریں اور پھر جو کرنا ہے کریں لیکن ایک توا جو باہر کھلے آسمان تلے لگاہوا تھا درجن بھر لکڑیاں ڈالنے کے بعد بھی جب گرم نہ ہوا اور جب یہ معلوم ہوا کہ پہلے انکو ناشتہ دیا جائے گا جنکی بکنگ پہلے سے آئ ہوئ ہے تو اعلان ہوا کہ جوکرنا ہے کرلیں پھر ناشتہ کریں اس اعلان پر ہال میں سے کئ ایک لوگ اٹھ گئے اور جب وہ سرخ سرخ آنکھوں کے ساتھ واپس آئے تو وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں تھے بس مسکراتے رہ گئے۔
ناشتے کے انتظار میں باہر توے کے گرد ایسے رش لگا ہوا تھا جیسے سڑک پر کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجانے پر لگ جاتا ہے یعنی کرتا کراتا کوئ کچھ نہیں ہے بس گھیر کر کھڑے ہوجاتے ہیں یہاں بھی یہی ہورہاتھا درجن بھر سے زیادہ لڑکے لڑکیاں توے کوگھیر کر کھڑے تھے اترتے ہوئے پراٹھوں کو دیکھ کر اپنی بھوک بہلارہے تھے۔
ناشتے کے انتظار میں بیٹھا بیٹھا جب بیزار ہوا تو باہر نکلا ہوٹل کے باہر ایک میلا لگا ہواتھا دس کے قریب چھوٹی بڑی بسیں اور اسی حساب کے گاڑیاں پارک تھیں ان کے علاوہ نوجوانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد اپنی موٹرسائیکلوں پر وہاں موجود تھی بائیں طرف دیوار پر ایک ہاتھ سے بنی برقع پوش خاتون کی تصویر تھی یعنی دیوار پر کوئلے سے بنائ گئ تھی اور لکھا تھا "لیڈیز واش روم" اور ایک تیر کا نشان راستے کی آگاہی کیلئے بنا ہوا تھا تیر کے نشان کے دوسری طرف مردانہ واش روم تھے جس کی نشاندی کیلئے کوئ نشان یا تصویرنہیں تھی گویا کہ راستے الگ الگ تھے لیکن بیچ کی کاغذی دیوار ایک ہی تھی فرق صرف اتنا تھا کہ مردانہ استراحت خانوں کے سامنے ایک بلوچ بچہ کرسی ڈال کر بیٹھا تھا اور انہیں استعمال کرنے کے اپنی مرضی سے پیسے وصول کررہا تھا جیسے کہ کوئ کم عمر لڑکا ہے اور بال بچے دار نہیں لگتا تو وہ دس یا بیس روپے وصول لیگا لیکن اگر عمر کچھ زیادہ لگے یا بندہ شادی شدہ لگے تو پھر وہ پچاس روپے وصول لیگا کہ آپ کے ساتھ لیڈیز ہوگا ادھر کوئ پیسہ نہیں لیتا وہ بھی ادھر لیگا ایک صاحب سے جب زیادہ پیسے وصولے تو انہوں نے اعتراض کیا کہ جتنے پیسے تونے نکالنے کے لئے ہیں اتنے کا تو میں نے کچھ کھایا بھی نہیں تھاتو بچے نے جواب دیا کہ ادھر اپنا لیڈیز کو بھیج دو ادھر کوئ پیسہ نہیں ہے تو وہ صاحب بولے کہ انکے ساتھ کوئ لیڈیز نہیں ہے اس پر بچے نے یہ کہ کر بات ختم کردی کہ اسمیں تمہارا قصور ہے اس جگہ پر گھٹن اور تعافن اس قدر ہے کہ تھوڑی دیر کھڑا ہونا محال تھا۔
اس باتھ روم سے تھوڑا آگے ایک طرف ہوٹل کا کچا باورچی خانہ ہے جوکہ اینٹوں سےگھیر کر بنادیا گیا ہے اور چھت پر چھپر ہے اسی کے ساتھ ہی دودھ کے خالی ڈبے، چائے کی پتی، بسکٹ کے ریپر کولڈ ڈرنک کے بوتلیں اور دیگر کچرا ڈھیر کی صورت جمع ہورہاہے جسکی صفائ کا کوئ انتظام نہیں باتھ روم کی نکاسی کا بھی کوئ انتظام نہیں ہے اور استعمال شدہ پانی تھوڑی دور پر ساحل پر نکال دیا جاتا ہے ۔
باہر گھوم پھر کر واپس آیا تو اتنا وقت گزر چکا تھا کہ ہال کے اندر ناشتہ بانٹا جارہا تھا پراٹھا اور انڈا اور ایک گلاس چائے ناشتے کے بعد بھی پیٹ میں بہت سی خالی جگہ بچ رہی اور ہم نے بیرے سے کہا کہ اب ہمیں ہمارے خرچ پر کچھ کھلادے تو اس نے اول تو ہمیں بہت بیزاری سے دیکھا پھر کھڑکی سے باہر توے کی طرف اشارہ کرکے بولا پہلے سب کا آرڈر ہوگا پھر آپکا آرڈر لگے گا یہ سن کر ہمارے پیٹ ویسے ہی بھر گئے۔
بات اگر کریں ٹریول اینڈ ٹورزم انڈسٹری کی تو پاکستان میں حکومتی سطح پر کوئ خاطر خواہ پزیرائ نہیں لیکن پرائیوٹ ٹور آپریٹرز ہی ہیں جن کی وجہ سے یہ اب تک زندہ ہے انفرادی طور پر اب بھی کافی بڑی تعداد سفر کرتی ہے لیں عموما فیملیز ٹور آپریٹرز کے ساتھ سفر کرنا پسند کرتے ہیں کہ اس میں ذاتی طور پر کوئ سر درد نہیں ہوتا ساری ذمہ داری اس شخص کی ہوتی ہے جو اس سفر کا آرگینائزر ہے یعنی ٹراسپورٹ رہائش اور کھانا پینا تو جہاں اس کاروبار میں پیشہ ور لوگ ہیں وہیں کچے بچے بھی آگئے ہیں اور فیس بک کے عام ہونے کے بعد سے ایک بہت بڑی تعداد ایسے کچے بچوں کی اس دھندے میں آگئ ہے جن کا واحد مقصد پیسا کمانا ہے اور یہ کوئ بری بات بھی نہیں لیکن جن لوگوں کو آپ اپنے ساتھ لیکر جارہے ہیں ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا بھی ان کی ذمہ داری میں شامل ہے جہاں آپ ان سے پیسے نکلوا کر انکو لےکر جارہے ہیں اس جگہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنا بھی اسی ذمہ داری میں شامل ہے جو کام آپ کررہے ہیں اس بارے میں مکمل معلومات ہونا بھی بہت ضروری ہے لیکن ایسا دیکھنے میں بہت کم ہی آتا ہمارے ساتھ بھی ایسے ہی کچے بچے تھے لیکن وقت گزرنے پر یہی کچے بچے بڑے ہوجائیں گے بس انکو کچھ وقت دینا چاھئے لیکن درست رہنمائ بھی ضروری ہے یعنی گروپ ممبران سے جتنا پیسا لیا جائے اسکا کم از کم آدھا تو ان پر خرچ کرہی دیا جائے باقی آدھا آپ بچا بھی لیں تو کوئ مضائقہ نہیں مقصد کچے بچوں پر تنقید نہیں بس درست سمت میں رہنمائ کی کوشش ہے ویسے بھی ہم تو اب رانا صاحب کے ساتھ سفر کرکر کے اضافی اشیاء کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ جہاں ایک سے کام چل سکتا ہو وہاں بھی چار چار لیتے ہیں مبادہ کہیں کم نہ پڑجائیں یعنی حساب لگائیں تین بندوں کیلئے چھ کلو مرغی یعنی کہ ۔۔۔۔اندازہ کرو۔
ہم رات گئے کراچی سے چلے اور صبح صبح جو کنڈ ملیر پہنچ گئے تو کچھ تو اسکا سہرا عبدالوہاب کوجاتا ہے لیکن ایک بہترین سڑک کی موجودگی کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مکران کوسٹل ہائے وے جسکا افتتاح سن 2002 میں جناب جنرل مشرف صاحب کے دور میں ہوا اور تین سال کے قلیل عرصہ میں مکمل ہوا چھ سو تریپن (653) کلومیٹر طویل اس شاہراہ کو بنانے کا بنیادی مقصد اول تو یہ تھا کہ کراچی اور گوادر پورٹ جو کہ سن 1990 سے التوا کا شکار تھی کے درمیان بہتر زمینی راستے کا قیام عمل میں لایا جائے کیوں اب جو سفر باآسانی چھ سے سات گھنٹوں میں طے پاجاتا ہے وہ کوسٹل ہائے سے پہلے کم از کم دو سے تین دن کا اور مشکل ترین سفر ہوا کرتا تھا دوسرا راستہ کراچی سے براستہ کوئٹہ گوادر کیلئے اختیار کیا جاتا جس کے بہتر حالت میں ہونے کے باوجود طوالت کے باعث وقت اتنا ہی درکار ہوتا اس شاہراہ کے قیام کے بعد اب گوادر شہر اور اسکے علاوہ پسنی ، اوڑمارہ اور لیاری بھی پورے پاکستان سے زمینی راستے سے جڑ چکے ہیں اور ساحل مکران سے حاصل ہونے والے سمندری حیات کی ترسیل ملک بھر میں اور اسکے بعد ملک سے باہر جانے میں کافی ہمواری میسر ہوئ ہے اور یہ شاہراہ ان شہروں کی ترقی کی وجہ بھی بنی ہے یہ بات ویسے تو سب جانتے ہی ہیں لیکن پھر بھی یاددہانی کیلئے بتادی جاتی ہے کہ اس کی تکمیل دوست پڑوسی ملک چین کے تعاون سے عمل میں آئ آخر کو چین ہمارا بڑا بھائ ہے دیکھ ریکھ کی ذمہ داری نیشنل ہائے وے اتھارٹی کی ہے۔
ایران سے بذریعہ لانچ سمندری راستے سے ایرانی پٹرول اور ڈیزل پاکستان میں سمگل کیا جاتا ہے اور ملک بھر میں ترسیل کیلئے اسی شاہراہ کا استعمال کیا جاتا ہے اسی لئے جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کرکے اس کے سد باب کی کوشش کی گئ ہیں تمام ہی اہم مقامات پر چکنگ کی جاتی ہے لیکن لانے والے قیامت کا ذہن رکھتے ہیں کہ لے ہی آتے ہیں شہر قائد میں جگہ جگہ سڑک کنارے یہ ایرانی پٹرول قدرے ارزاں قیمت پر مل جاتا ہے جو کہ معیاری نہ ہونے کہ وجہ سے استعمال کرنے والے کی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی ایسے کی تیسی کرتا رہتا ہے خیر یہی جگہ جگہ چیک پوسٹیں اور فوج اور رینجرز کی موجودگی کہ وجہ سے یہاں لوٹ مار کے واقعات کافی کم ہیں اور امن امان ہے یعنی سفر کرنے میں جان کا خطرہ نہیں ہے۔
مکران کوسٹل ہائ وے کا قیام بلا شبہ ملکی اور خاص کر اس سے جڑے ہوئے شہروں اور یہاں کی عوام کی ترقی کیلئے ایک احسن قدم ہے۔
خیر تو ہم کنڈ ملیر کے ساحل پر موجود تھے اور ناشتے سے فارغ ہوکر ہم نے ساحل پر چلے گئے اور ایک کراچیائیٹ ہونے کہ وجہ سے سمندر سے ہمارا رشتہ کافی گہرا ہے اور ہر کراچی والے کی طرح ہمیں بھی سمندر دیکھ کر اسمیں چھلانگ لگانے کا دل کرنے لگتا ہے بچپن سے اب تک پکنک کے نام پر ہم سمندر کا رخ کرتے آئے ہیں تو دلوں میں سمندر کا خوف نہیں اور ویسے بھی اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے ساحل کو دیکھ کر تو یہ لازم ٹھہرا تو دوچار ڈبکیاں لگانے کے بعد ہی باہر آئے۔
اس سے پہلے جب میں یہاں آیا تھا تو وہ دسمبر کا مہینہ تھا پانی کا رنگ گہرا نیلا اور آسمان پر سائیبرا سے نقل مکانی کر کے آنے والے پرندوں کے غول کے غول منڈلارہے تھے اور چونکہ دسمبر میں مچھلی کا شکار جائز ہوتا ہے تو گہرے سمندر میں کشتیاں کافی بڑی تعداد میں موجود تھیں مئ سے اگست چونکہ مچھلی کے شکار پر ممانعت ہوتی ہے اس لئے اس مربتہ کشتیاں بھی نہیں تھیں اور آنے والے پرندے واپس جاچکے تھے آسمان جوکہ گہرا نیلا تھا اب مٹیالا اور گہرا نیلا اور سبز پانی اب گدلا اور سفید جھاگ والا ہورہا تھا انسانی عادت ہے کہ چیزوں کو موازنے میں دیکھتا ہے تو میں نے بھی موازنہ کیا اور آج کا پھیکا ساحل مجھے اس قدر نہ بھایا جیسے پہلی مرتبہ یہ میرے دل میں گھر کرگیا تھا۔
خیر نظارہ پھر بھی بہت خوب ہی تھا اور ویسے بھی سمند کو بیٹھ کر بس دیکھنا بھی ایک بھی ایک خوب مشغلہ ہے ساحل پر بنتی مٹتی لہریں اور ان میں بھیگتے لڑکے اور لڑکیاں تو جہاں اتنا کچھ ہو وہاں بندہ بور تو ہرگز نہیں ہوتا میں نے نظارے کیلئے ایک چٹان کا انتخاب کیا اور یہاں چڑھنے کیلئے ایک لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف سے اوپر پہنچنا پڑتا ہے اور وہاں پہنچنے کے دوران چھوٹی موٹی ٹریکنگ اور ہائکنگ کا کیڑا بھی سکون پاجاتا ہے خیر وہاں پہنچ کر ادھر ادھر کیمرے کا بٹن دبا کر کچھ تصویریں بنانے کے بعد میں مصطفیٰ کی تصویریں کھینچتا رہا اور وہ میری خراب کرتا رہا باقی دونوں وہیں ساحل پر رک گئے اور ہمارے ساتھ چلنے سے انکاری ہوکر بیٹھ گئے اسی چٹان پر کچھ اور لڑکے بھی چڑھے ڈوریاں ڈال ڈال کرمچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرتے رہے اور ایک بھی مچھلی حاصل نہ ہونے پر واپس چلے گئے نیچے ذرا پرے ایک جھونپڑے کے ساتھ سات آٹھ کشتیاں کھڑی ہوئی تھیں۔
جغرافیہ اور راستے کا بار بار بیان پڑھنے والوں کو اکثر بے مزا کرتا ہے لیکن ان خواہش مند حضرات کیلئے فائدہ مند ہوتا ہے جو آپ کی روداد کو پڑھ کر اس جگہ جانے کا سوچیں تو کنڈ ملیر کا یہ ساحل جہاں میں اس وقت موجود تھا کراچی سے کل دو سو چھتیس (236) کلومیٹر کے فاصلے پر ہے کراچی سے براستہ حب چوکی لسبیلہ کے بعد آخری بڑا شہر وندر آتا ہے اور یہاں ہی اورماڑہ سے پہلے آخری پٹرول پمپ آتا ہے تو اگر آپ ارادہ کریں اپنی ذاتی گاڑی یا موٹرسائیکل پر سفر کرنے کا تو وندر میں اپنے گاڑی اور موٹر سائیکل کا پٹرول ضرور چیک کرلیں مبادہ آگے چل کر پریشانی کا سامنا ہو وندر سے آگے زیرو پوائنٹ یہاں سے دائیں ہاتھ پر مڑ کر اگلا سٹاپ اگور ہے راستے بھر میں رہنمائ کرنے والے بورڈ آویزاں ہیں راستہ بھٹکنے سے بچنے کیلئے ان پر نظر رکھیں تو کوئ پریشانی ہونے کا اندیشہ نہیں اور اگور سے آگے پڑھتے ہی دریائے ہنگول کا پل آجاتا ہے دریا تو بیچارہ ایک کونے میں سمٹا ہوا پڑا ہے اور نقاہت کے مارے بہنے سے بھی قاصر ہے لیکن اس پر بنایا گیا پل بڑا شاندار اور مضبوط ہے یہ ساتھ ہی ایک ہوٹل ہے جہاں پر ناشتہ چائے اور کھانے وغیرہ کی سہولت موجود ہے یہ علاقہ ہنگول نیشنل پار ک کی حدودمیں آتا ہے سولہ سو پچاس (1650) مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو کہ تین اضلاع لسبیلہ، گوادر اور اوروان پر پھیلا ہوا ہے۔ انیس سو اٹھاسی (1988) میں باقاعدہ اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا اور اسکے بعد یہ پاکستان کا واحد نیشنل پارک ہے جو بیک وقت سمندری، دریائ، صحرائ اور پہاڑی جنگلی حیات کے تحفظ کرنے کا دعوہ کرتا ہے۔
یہاں پائ جانے والی جنگلی حیات کی درست تعداد کا ابھی تک درست اندازہ نہیں لگایا جاسکا لیکن اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ہنگول نیشنل پارک میں تین ہزار مارخود، پندرہ سو کے قریب اڑیال اور تقریبا بارہ سو کے قریب پہاڑی غزال موجود ہیں اس کے علاوہ پائ جانے والی حیات میں سندھی چیتا، لومڑی، لگڑبھگے، پہاڑی بکرے،سیہا، نیولے اور جنگلی بلوں کی مختلف اقسام ہیں دریائے ہنگول میں پائے جانے والے مگرمچھ اور دریائ اور سمندری کچھووں کی مختلف اقسام موجود ہیں، پرندوں میں مستقل پائے جانے والے مخلتف اقسام کے عقاب اسکے علاوہ الو ہیں اور پہاڑی کوے اور نقل مکانی کر کے آنے والے پرندے جو کہ سال کا کچھ حصہ گزار کر لوٹ جاتے ہیں۔
اسی ہنگول پل سے کوئ دس منٹ کے فاصلے پر یعنی کوئ پانچ کلومیٹر مزید سفر کرنے پر کنڈ ملیر کا ساحل موجود ہے اور ہم یہیں موجود تھے اور یہاں سے ہماری روانگی کا وقت گیارہ بجے دن کا طے ہوا تھا کچھ دیر میں یہ وقت بھی آیا اور ہم دوبارہ اپنی اپنی بسوں میں لوڈ ہونا شروع ہوئے اب مزید آگے کی طرف سفر کرنا تھا اور اس سفر کی حد بوزی پاس سے کچھ پہلے "امید کی شہزادی " یعنی پرنسس آف ہوپ تک تھی۔
ساحل سے آگے سفر شروع ہوتے ہیں ایک عجیب دنیا شروع ہوتی ہے سب سے پہلے ایک چڑھائ ہے بس کا انجن زور لگاتا ہوا اس پر چڑھ گیا اب آپ کے دونوں طرف چٹانیں ہیں جو قدرتی طور پر عجیب و غریب پراسرار شکلیں لئے ہوئے ہے اور کہیں کہیں پر سڑک کے دونوں جانب صحرائ ریت آجاتی ہے یعنی ریت کے چھوٹے بڑے ٹیلے اور دور پرے پہاڑ اور بائیں ہاتھ ہر بہت دور سمند اس جگہ کا الفاظ میں اظہار مشکل ہے جیسے کسی پھل کے ذائقہ کو بیان کرنا تو آپ اس کو الفاظ نہیں دے سکتے شاید مختلف مثالوں سے سمجھا سکتے ہیں یا وہی پھل چکھنے کو پیش کرسکتے ہیں میں بھی کوشش کر دیکھتا ہوں میری ناکامی کی صورت میں یہاں کا سفر اختیار کرلیں بات بالکل واضح ہوجائے گی ذائقہ منہ میں گھل کر خود ہی اپنے آپ سمجھ آجائے گا۔
سامنے تین چٹانیں ایسے ابھری ہوئ ہیں جیسے اہرام مصر فراعین مصر خافو، خوفو اور خفران کے مقبرے ہوں لیکن یہ تینوں ایک جسامت کے ہیں اور جسامت میں مختصر بھی اسکے علاوہ کچھ اسی شکل کی اور چٹانیں ہیں جو سڑک کے اوپر سایہ کئے کھڑی ہیں انکی شکلیں بھی کچھ کچھ ان اہراموں سے ملتی ہوئ ہیں۔
کچھ اور آگے چلیں اور یہ آگے چلنا سیدھا سیدھا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ سڑک گھومتی ہوئ چل رہی ہے تو کوئ منظر جو سامنے ہوتا ہے وہ بس کچھ دیر ہی ہوتا ہے اور ایک چکر کھانے پر غائب ہوجاتا ہے تو بائیں ہاتھ ہر ایک دیوار ساتھ چلتی ہے اور اپنی ساخت میں ایک مکمل قلعہ نما ہے یعنی ایک سیدھی دیوار جو اوپر سے سپاٹ نہیں بلکہ ایک مناسب فاصلے پر تکون تکون سے برج نما ابھار ہیں دور سے دیکھنے پر یہ قدیم دور کا کوئ قلعہ ہی معلوم ہوتا ہے چونکہ گھمن گھیریوں کی وجہ سے وقت کم ہوتا ہے اس لئے میرے پاس اسکی مکمل تصویر موجود نہیں ہے لیکن جتنی یہ دیوار میں چلتی گاڑی سے کیمرے میں محفوظ کر سکا وہ بھی ایک کمال تصویر ہے۔
مزید اس راستے پر ایک مختصر سا قلعہ ہے جو ایک ٹیلے پر واقع ہے دیکھنے میں کسی عمارت کی باقیات محسوس ہوتا ہے جو بالکل درست حالت میں موجود رہ گیا ہو اب میں کیسے سمجھاؤں کہ اسکی شباہت کیسی ہے کہ یہ بس دیکھ کر ہی سمجھ میں آنے والا ہے سمجھ لیں کہ گاتھک طرز تعمیر میں جو بڑے بڑے ستون ہوا کرتے ہیں اور اوپر چھت جیسے پاکستان کے بیشتر ریلوے سٹیشن ہیں تو کچھ کچھ ویسا۔
اسی طرز کی مختلف محیر العقول قسم کی تخلیقات پورے رستے آپ کے ساتھ رہتی ہیں کہیں دیکھنے میں کوئ لائبریری ہے کوئ آپ کے تخیل پر منحصر ہے کہ یونیورسٹی کا کوئ پانی میں لنگر انداز جہاز۔ ایک مجسمہ نما بھی آتا ہے جو کہ مناسب ترمیم کے بعد سنگاپور کی شناخت مچھلی کے جسم والے شیر سے شباہت کھانے لگتا ہے اور اس سے آگے مکمل جسامت والے ابوالہول صاحب موجود ہے فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ بیچارے ذرا زمین سے نزدیکی پر ہیں لیکن ان کی شان و شوکت بھی کچھ کم نہیں دیکھ کر حیرت ہوئ ہے کہ اتنی مماثلت کیونکر ہوسکتی ہے۔
ہونہی چلتے چلتے ہمارے سفر کا آخری مقام آتا ہے اور اسکے بعد واپسی یہاں آپ کو الواع کہنے اور آپ کی آمد کا شکریہ ادا کرنے کو سب سے اونچی چوٹی پر دامن پھیلائے ایک خاتون موجودہیں جو کہ اپنی جاہ وجلال میں ایک شہزادی کی مانند ہیں اور انکو ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ جو کہ اپنی فلموں کے بولڈ سین کے علاوہ اپنے فلاحی کاموں کے حوالے سے بھی پہچانی جاتی ہے نے دوہزار دس (2010) میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران پرنسس آف ہوپ یعنی امید کی شہزادی کا نام دیا اور یہ پاکستان کی واحد خاتون ہیں جو اتنے طویل عرصہ سے امیدسے ہیں لیکن انکی امید بر نہیں آتی کوئ صورت نظر نہیں آتی لیکن صورت حال فرق ہوتی جارہی ہے وہاں ہر ہفتے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں ایسی صورتیں پہنچتی ہیں جو ایک بیابان میں ایک خاتون کو چاہے مجسمہ ہی سہی کھڑا دیکھ کر اس پر چڑھ دوڑتی ہیں اور ساتھ سلفیاں بنانے کیلئے ان سے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرتی ہیں جس کے نتیجے میں مٹی سرکتی ہے اور پچھلے کچھ سالوں کے دوران اسے کافی نقصان ہوا ہے اور اس قدرتی مجسمے کی بنیاد سے کافی مٹی سرک چکی ہے اگر صورت حال یہی رہی تو آنے والے سالوں میں روڈ کے ساتھ لگے بورڈ میں تبدیلی کرکے یہ لکھنا ہوگا کہ پرنسس آف ہوپ واز ہئیر یعنی گزرے زمانوں میں کبھی یہاں ایک مجسمہ ہوا کرتا تھا جسے لوگوں کی حوس اور سلفیاں کھا گئیں صورت حال ملکی حالات کی طرح نازک ہے اور فوری سد باب ضروری ہے۔
یہاں تک کا سفر بھی ایک شاندار تجربہ ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ پکچرابھی باقی ہے میرے دوست تو اگر آپ سفر کا ارادہ کریں تو یہاں پر یہ بس نہ کریں بلکہ اس آگے بوزی پاس تک سفر ضرور کریں کیوں کہ کوسٹل ہائی سے کی اصل پکچر اس سے آگے شروع ہوتی ہے اصل گھمن گھیریاں اور عجیب الخلقت قدرتی عجائبات اس مقام سے آگے نظر آتے ہیں اور اصل لطف اس سے آگے ہے۔
میرے پیچھے بیٹھے ہوئے عمر نے مجھ سے سوال کیا تھا "داد ا یہ تو بڑی عجیب جگہ ہے یہ سب کیسے بنا ہے؟" تو اس وقت میرے پاس کوئ جواب نہیں تھا اور اس بارے میں کوئ تحقیق بھی میسر نہیں ایک روایت ہے جو کہ درست بھی معلوم ہوتی ہے کہ قریب دو ہزار سال پہلے یہ تمام علاقہ زیر آب تھا آہستہ آہستہ پانی اترتا گیا اور یہ تمام تصاویر بنتی گئیں لیکن اصل جواب کوئ جیولوجسٹ ہی دے سکتا ہے۔
یہاں سے ہم سب واپس پلٹے اور اب ہماری منزل اسی ہنگول نیشنل پارک میں موجود ایک قدیمی مندر ہنگلاج ماتا مندر جسے عرف عام میں نانی مندر کہا جاتا ہے تھا یہاں تک آتے ہوئے ہم اسے واپسی حاضری کی نیت سے بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے اب یہاں سے پلٹے تو ارادہ مندر میں حاضری کا تھا لیکن پہلے رک کر جمعہ ادا کیا گیا اور دوپہر کا کھانا بھی اسی دوران میں کھایا گیا۔
دریائے ہنگول کے ساتھ ایک راستہ اندر کی طرف جارہا ہے جس کے باہر ایک چوکی ہے اور چند اہلکار وہاں موجود ہیں فی گاڑی شاید سو روپے فیس ادا کرنی پڑتی ہے اور داخلے دروازہ کھل جاتا ہے ایک خستہ سڑک چٹانوں کے درمیان اور دریا اپنی سمٹی ہوئ حالت میں آپ کے بائیں جانب ہوجاتا ہے یہاں بھی عجیب و غریب شکلوں کے پہاڑ ساتھ ساتھ چلتے ہیں داخلے دروازے سے اندر آتے ہیں سامنے ایک جھریوں بھرا پہاڑ اپنی قدامت کی داستان سنا رہا ہے اور ساتھ ہی ایک پتھر کی سل پر جلی حروف میں پانی کے قریب جانے کی ممانعت درج ہے کیوں کہ مگرمچھ موجود ہیں دائیں اور بائیں دونوں اطراف میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مٹی کے کچے گھر بنے ہوئے ہیں اور آباد ہیں یہ لوگ کون ہیں اور یہاں کیوں رہتے ہیں اور سب سے اہم بات کہ انکا ذریعہ معاش کیا ہے یہ سارے سوال ہمارے ذہنوں میں بارہا آئے لیکن ان کا خاطر خواہ جواب نہ مل سکا اس وقت کسی ٹور کمپنی کے ساتھ سفر کرنے کا نقصان سمجھ آیا کہ اگر اکیلے آیا ہوتا تو ان سے مل کر اور بات چیت کرکے اسکا جواب تو حاصل کرنے کی کم از کم کوشش کر دیکھتا۔
پہاڑوں کے شوقین افراد نے کنکورڈیا کے ٹرینگو ٹاورز کی کم از کم تصاویر تو دیکھی ہی ہونگی اور جنہوں نے نہیں دیکھیں وہ باآسانی گوگل پر دیکھ سکتے ہیں گلگت بلتستان کی مشہور پسو کونز بھی اپنی منفرد نوکیلی چوٹیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں لیکن مشہور وہی ہوتا ہے جس پر دنیا کی نظر پڑی ہو لوگ جانتے ہوں پہچانتے ہوں لیکن اگر کچھ چاہے وہ اپنی تخلیق میں یکتا ہو گمنامی میں رہ جائے تو اسمیں قصور اس تخلیق کا نہیں بلکہ اس آنکھ کا ہے جس نے اسے دیکھا لیکن دنیا تک اسکی خبر نہیں پہنچائی یہاں بھی دو ایسے چٹانیں موجود ہیں جو بلندی میں تو نہیں لیکن شکل و شباہت میں پسو کونز اور ٹرینگو ٹاورسے کافی مشابہت رکھتی ہیں۔
ایسے ہی راستوں پر سفر کرتے کرتے ہم ایک ہرے رنگ کے دروازے کے سامنے پہنچے اور وہاں لگے بورڈ پر نارنجی رنگ سے پینٹ کیا گیا ہے
"ہنگلاج ماتا مندر ہنگول بلوچستان۔
جے ماتا دی"
ایک قدرتی غار میں موجود ماتا کے مندر کے بارے میں دعوہ کیا جاتا ہے کہ یہ دولاکھ سال پرانا ہے اور اسکے بنانے میں انسانی ہاتھ استعمال نہیں ہوا یعنی مکمل طور پر قدرتی ہے موجودہ دور میں اس مندر میں سیڑھیاں بھی بنی ہیں اور مندر کے اندرونی حصے میں ٹائل بھی لگے ہوئے ہیں اور اگر غور کیا جائے تو یہ مکمل غار بھی نہیں بلکہ ایک پہاڑی کھو نما ہے اور یہاں دو مورتیاں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسانوں نے نہیں بنائیں بلکہ ماتا خود اپنے ساتھ لیکر آسمان سے اتری تھیں ایک سندور ملا ہوا بے شکلا پتھر ماتا کی نشانی کے طور پر پوجا جاتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی دور میں سندھ کے صوفی بزرگ حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائ رحمۃاللہ علیہ نے یہاں کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے ہی اس مندر کو نانی مندر کا نام دیا۔
یہ تو ہوا سب سے مشہور مندر لیکن اس کے علاوہ اور بھی مندر یہاں موجود ہیں جن میں گنیش دیوا مندر، کالی ماتا مندر، گرو گورکھ ناتھ دانی مندر، براہم خود اور تیر خود مندر، گرانانک کھارو اور دیگر مندر جو کہ اسی دروازے کے اندر مختلف مقامات پر موجود ہیں اور ہر سال ہزاروں کے تعداد میں زائرین یہاں آتے ہیں اور مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں ہر سال اپریل میں سالانہ چار روزہ پوجا کا اہتمام ہوتا ہے جس میں پورے ملک اور اسکے علاوہ ہندوستان سے بھی ہندو زائرین یہاں آتے ہیں اور مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں ان کے ٹھہرنے اور کھانے پینے کیلئے یہاں پر سرائے اور کھانا پکانے کی جگہ بنائ گئ ہے لیکن زیادہ رش کی وجہ سے اکثر زائرین ان سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور خیموں میں یا کھلے آسمان کے نیچے وقت گزارتے ہیں۔
ویکیپیڈیا پر اس مندر کے حوالے سے کافی معلومات موجود ہیں خواہش مند حضرات مزید معلومات وہاں پڑھ سکتے ہیں۔
میری ذاتی طور پر ان مسلم زائرین سے جو اس مندر کو یا کسی بھی ایسے جگہ جو کہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کہی جو سکے صرف ایک تاریخی حیثیت میں دیکھنے جاتے ہیں ایک درخواست یہ ہے کہ ان مقامات کے تقدس کا پامال کرکے ان کی دل آزاری کا باعث نہ بنیں اور ان جگہوں کا ویسے ہی احترام کریں جیسے اپنی مسجد کا کرتے ہیں مندر کے اندر جوتوں سمیت داخل ہونا یا مندر کے احاطے میں سگریٹ نوشی کرنا بھی اسی زمرے میں آتی ہے اس سے اجتناب کریں دوسروں کا اور ان کے مذہب کا احترام کریں تاکہ وہ آپ کا اور آپ کے مذہب کا احترام کریں۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ مندر ہمارے سفر کا آخری مقام تھا اسکے بعد واپسی کا سفر شروع ہونا تھا تو طے شدہ پروگرام
کے تحت ہم دوبارہ بسوں میں لوڈ کئے گئے بسیں سٹارٹ ہوئیں اور ایک پرلطف دن کے اختتام کا آغاز ہوگیا۔
تصویر فیضان قادری |
تصویر فیضان قادری |
تصویر فیضان قادری |
تصویر فیضان قادری |
تصویر فیضان قادری |
تصویر فیضان قادری |
تصویر فیضان قادری |
تصویر فیضان قادری |
واہ
ReplyDeleteاگلی بار بوزی پاس بلکہ اس سے آگے تک جانا ۔۔ آگے واقعی بہت خوبصورت منظر ہیں
ایسا ہی ارادہ ہے
Deleteدلچسپ
ReplyDeleteشکریہ پسند کیا آپ نے
Deleteخوبصورت تحریر. خاص کر بلوچستان کے بارے میں ایسی کاوش کی بہت ضرورت ہے. اسی طرح لکھتے رہیے. ویسے تار ڑ سر کی دور دور تک کوئ جھلک نہی. آپ کا اپنا انداز ہے جو خوبصورت ہے.
ReplyDeleteپسند کرنے کا شکریہ
DeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDelete