Tuesday, 6 May 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۹



اللہ تعالیٰ  نے ہر انسان کے اندر کوئ نہ کوئ چیز ایسی ضرور رکھی ہوتی ہے جو چاہے کتنے ہی کٹھن حالات کیوں نہ ہو جائیں اسکو ان حالات سے باہر لا سکتی ہے چاہے وقتی طور پر ہی کیوں نہ ہو یہ خدا تعالیٰ نے اسکی شرست میں اسکے بنانے کے وقت سے ڈالی ہوتی ہے کچھ کو اسکا علم ہو جاتا ہے اور کچھ ساری زندگی اس سے محروم بھی رہ جاتے ہیں۔

کوئ موسیقی سے یہ حاصل کرتا ہے کوئ رقص سے کچھ اسکی قربت والوں کو رب کے ذکر میں یہ حاصل ہوتا ہے خواہ نماز ہو یا مراقبہ خدا کی یاد کے اور بھی طریقے ہیں اور سب ہی طریقے الگ ہیں۔ ہر مذہب کا ماننے والے کا طریقہ بس الگ ہے افریقہ میں بعض قبیلوں میں نروان کے حصول کے لیۓ ڈھول پیٹا جاتا ہے اور آگ کے گرد رقص کیا جاتا ہے ایک بدھ مت کے ماننے والے کے لیۓ کوئ اور دیگر کے  لیۓ کوئ اور یہ میرا موضوع نہیں صرف یہ کہ ہر کسی کے لیۓ اسکے رب نے کچھ الگ رکھا ہوتا ہے جو اسکو ان سب سے پرے لے جاتا ہے جن سے وہ دور ہونا چاہتا ہے ایک ایزیٹ ایک راہ ِفرار۔

میرے لیۓ ہمیشہ سے کوئ ایک پھول ، پرندے ، بارش ، خوشگوار موسم ،  سردیوں کی ہوا یا کچھ بھی خدا کی کائنات میں سے کچھ بھی جو خوبصورتی سے متعلق چاہے ایک پھول یا ایک خوبصورت لڑکی میرے لئے وہ ایگزٹ یا راہِ فرار رہی ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے میرے تایا نے بہت سے پرندے پالے ہوے تھے اور جب بھی میں جایا کرتا بہت سا وقت ان پرندوں کے ساتھ گزارا کرتا اور واپسی میں اکثر اداس ہوتا تھا آج بھی جب کبھی میں پریشان ہوتا ہوں تو سمندر میرے لۓ ایک ایسی جاۓ پناہ ہوتی ہے جہاں جہاں میں کچھ وقت گزار کر دوبارہ حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہوں نیچر یا قدرتی مناظر میرے لیۓ وہی ایگزٹ ہے جو مجھے باہر کی دنیا سے راستہ جوڑتی ہے یا میرے لیۓ فلنگ سٹیشن ہے جہاں میں تازہ دم ہو کر اپنے فیول کی مقدار پوری کر لیتا ہوں۔

آج میں راما لیک پر تھا اور اس مکمل سکوت والے ماحول میں پوری طرح گم اس سحر میں اور پورے منظر کو جلدی جلدی دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ جس جگہ میں تھا وہاں سے گزوں نیچے اور میرے سامنے کی طرف کافی دور تک پھیلی ہوئ ایک جھیل جسکا پانی ایسا نیلا دکھائ دیتا ہے جیسے ڈھیروں ڈھیر نیل ملایا گیا ہو مگر جب ہوا چلتی اور پانی پر ہلکی ہلکی سی لہریں بنتیں تو یہ نگ بدلتا اور کچھ ہریالی مائل ہو جاتا اور ہوا کبھی رک رک کر چلتی کبھی مستقل لیکن ایک ٹھراؤ کے ساتھ کہ پانی پر بنتی ہوئ لہریں کبھی ایک مخصوص تعداد سے زیادہ نہیں بنتی تھیں اور نہ ہی پانی کے رنگ بدلنے کا سلسلہ رکتا تھا۔
میں جہاں  کھڑا تھا وہاں سبزہ تھا چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں سی سخت اور کھردری سی لیکن ہر ایک پر گچھے گچھے اور چھوٹے چھوٹے سے پھول تھے بنفشئ اور کچھ جامنی رنگ کے ملتے جلتے اور وہاں گھاس تھی دبیر لیکن ملائم نہیں عجیب سخت اور چبھنے والی ان پر بیٹھنے کے لیۓ پہلے انہیں ھاتھ سے دبا کر ہموار کرنا پڑتا تھا اور وہیں پر ایک بیل تھی اور ایسی بیل میں نے آج تک نہیں دیکھی  بڑے بڑے پتوں والی اور سفید پھولوں والی خاصیت ایسی تھی کہ پتوں کے بیچ تھوڑے فاصلے سے سفید پھولوں کا ایک چھوٹا سا گچھا اور کچھ فاصلے پر ایک بڑا سفید پھول جسکی بناوٹ ان چھوٹے پھولوں سے بلکل الگ پہلے میرا گمان تھا کہ شائد کوئ اور بیل یا پودا ساتھ الجھ رہا ہے جسکی وجہ سے ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ایک ہی ہیں مگر وہ واقعئ ایسا ہی تھا عقل دنگ ہوتی ہی اور انسان سمجھ نہیں سکتا۔
میں جہاں کھڑا تھا وہاں سے میرے سامنے ایک پہاڑبرف چادر اوڑھے کھڑا تھا اور بادل وہاں ٹکے ہوۓ تھے اور ہلتے نہیں تھے برف سے لگ کر وہاں تھمے ہوۓ اور بائیں طرف ایک پہاڑ کی اوٹ سے ایک مکمل برف پوش چوٹی جھانک رہی تھی اور حیرت انگیز طور پر حسین تھی وہاں بھی بادل اسی طرح پہرا لگاۓ کھڑے تھے۔
جہاں میں کھڑا تھا وہاں ایسی خاموشی تھی کہ ہوا چلنے اور پتوں کے سرسرانے کی آواز بھی اسمیں مخل ہو ہو رہی تھی کیمرے کے شٹر کھلے اور بند ہونے کی آوازیں آرہی تھیں میرے ساتھی تصویریں بنا رہے تھے کسی نے مجھے آواز دی میں انکے درمیان گروپ میں کھڑا ہوا ایک کلک اور وہ منظر محفوظ ہو گیا کبھی کبھی ایک پرندہ ایک نا مانوس سی آواز میں بولتا لیکن نظر نہیں آرہا تھا بس ایک نا مانوس آواز تھا نیچے جھیل کے ساتھ کچھ گائیں چر رہی تھیں وہاں سبزہ نرم اور گہرا سبز تھا دھوپ تھی اور آسمان بلکل صاف اور جھیل کے پانی سے میل کھاتا ہوا نیلا بادل صرف برف کے ساتھ لگے پہاڑوں پر تھے اسکے علاوہ کہیں نہیں تھے۔

پانی کی سطح سے کچھ اوپر کنارے کنارے کچھ سبزہ تھا وہی سخت گھاس اور جھاڑیاں دوسرے کنارے پر جو پہاڑ  تھے اس پر درخت بھی تھے لیکن فاصلہ اتنا تھا کہ ہو چھوٹے جھاڑی نما پودے نظر آرہے تھے۔
وہاں ہم سات لوگ تھے ایک پرندے کی آواز تھی چند چرتی ہوئ گائیں اور کوئ نہیں تھا پورا منظر ایک مکمل تصویر تھا میں ابھی تک اوپر ہی کھڑا تھا اور اب میں نے نیچے اترنا شروع کیا اور جھیل کی سطح تک آگیا اور یہاں سے منظر یکسر مخلتف تھا جھیل کے شفاف پانی میں کچھ دور تک پڑے ہوۓ پتھر نظر آرہے تھے اور جھیل کا پانی تا حدِنظر تک پھیلا ہوا تھا ایک طلسماتی منظر تھا ایک بڑے پیا لے کی طرح چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری راما لیک مجھے اوپر کھڑے میرے ساتھ بہت دور نظر آرہے تھے مجھے یوں لگا کے کسی  نے جادو کے زور سے میرا قد چھوٹا کردیا ھے اور مجھے یہاں قید کردیا ہے اس پر ہیبت منظر میں اور مجھے ایسا بھی محسوس ہوا کہ وہ تصویر جسے میں اوپر سے دیکھ رہا تھا اب اسکے اندر آگیا ہوں ایک خوف کا احساس تھا وہاں ایک ہیبت تھی جسکا بیان ممکن نہیں ہے۔
جھیل کے ساتھ جہاں میں تھا وہاں ایک تیز بو تھی معلوم نہیں کس چیز کی مگر کافی تیز جیسی کسی حد تک کسی حکیم کے مطب میں ہوتی ہے اور جڑی بوٹیاں پیسنے سے پیدا ہوتی ہے کسی درجہ میں ویسی ہی لیکن اس سے الگ اور تیز سر پر چڑہتی ہوئ کچھ دیر میں مجھے محسوس ہونے لگا کے میں بیہوش ہو جاؤنگا۔ میں نے چاروں طرف گھوم گھوم کر دیکھا کنارے پر جو پتھر پڑے تھے ان میں سے بعض ایسے لگتے تھے کے شائد انکو ترتیب سے رکھا گیا ہو اور رکھتے وقت سلیقہ اور حسن کا خیال خاص طور پر رکھا گیا ہو کچھ پتھر انتے بڑے اور وزنی تھے کہ انکا ہلانا بھی ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں تھی مشین اور کرین کے ذریعہ یہ بات ممکن تھی لیکن انکا یہاں تک لانا ایک نا ممکن امر تھا تو بلاشبہ یہ اسی کی ترتیب تھی جس نے انسان کو سلیقہ اور شعور دیا۔

کسی بھی جھیل کو آپ پہلی نظر میں شائد پسند ناں کریں اور مکمل طور پر ریجکٹ کر دیں اور ایسا اکژر ہوتا ہے کئ بہت سے مناظر ایسے ہوتے ہیں جو پہلی نظر میں پسند نہیں آتے یا وہ ہر عام انسان کے لۓ تخلیق نہیں کۓ جاتے وہ منتظر ہوتے ہیں اس آنکھ کے جس کے لیۓ انکو بنایا گیا ہوتا ہے  ایسے منظر ایک نظر کے لیۓ نہیں ہوتے انکو بیٹھ کر کافی دیر ایک ٹک دیکھنا ہوتا ہے تب یہ آپ پر آشکار ہوتے ہیں اپنا آپ دیکھاتے ہیں لیکن اگر اس طرح سے بھی نہ ہو تو جان لیجیۓ کہ یہ آپ کے لیۓ نہیں تخلیق ہوا۔

میرا کافی جھیلوں پر جانے کا اتفاق ہوا سندھ اور پنجاب کی جھیلیں یا بلوچستان کی جھیلیں گلگت بلتستان کی چند جھیلیں اور ہر جگہ مخلتف تجربات رہے کچھ نے مجھے قبول کیا اور کچھ نے نہیں اصل میں ہم منظر کو پسند یا نا پسند نہیں کرتے منظر ہمیں پسند یا نا پسند کرتا ہے کبھی وہ اپنا آپ ظاہر کرتا ہے اور کبھی بلکل نہیں کرتا اگر ایسا ہو کہ آپ کوئ نظارہ دیکھیں اور وہ آپکو پسند آۓ تو شکر ادا کرنا چاھیۓ اس منظر کا بھی اور اس کے تخلیق کرنے والے کا بھی۔

میں واپس اوپر آچکا تھا اور ہم واپسی کے راستے پر تھے میں خوش تھا واپسی کا راستہ ہمیشہ ہی کم لگتا ہے اور پہاڑوں کی اگر آسان ہو تو پھر اترنے میں کوئ محنت نہیں کرنی پڑتی بس خود پر قابو رکھنا پڑتا ہے جتنے وقت میں ہم اوپر گۓ تھے اس سے آدھے وقت میں ہم نیچے آچکے تھے اور پی ٹی ڈی سی موٹل راما میں سستا رہے تھے ہماری چاۓ تیار ہو رہی تھی اور ہمارا دیوسائ کا سفر شروع ہونے والا تھا۔۔۔

No comments:

Post a Comment