Saturday, 24 May 2014

پریوں کی چراگاہ فیری میڈوز قسط ۱


میں نیچے اتر رہا تھا ہر قدم رکتا ہوا پیچھے مڑ مڑ کر اس برف کی ملکہ پر نظریں ڈالتا ہوا کہ جانے کون سے موڑ پر یہ میری نظروں سے اوجھل ہو جاۓ اور میں دوبارہ اسکو دیکھ نہ سکوں کبھی ایک اجلا اور صاف ستھرا دن چمکیلی دھوپ میں نہایا ہوا مکمل ہار سنگھار کے ساتھ سجا ہوا مکمل برہنگی میں اپنے جلوے دکھاتا ہوا بے پردہ مجھے اپنی جانب کھینچتا ہوا اور میں اس سے دور جا رہا تھا میرا دل وہیں اٹکا ہو تھا اور میں مڑ مڑ کر دیکھتا ہوا نیچے اتر رہا تھا بہت التجاؤ اور دعاؤں کے بعد آج دیوی جلوہ دکھانے پر آمادہ ہوئ اور آج ہی مجھے اس سے دور جانا تھا جس راستہ پر میں چل رہا تھا نیچے ہزاروں فیٹ نیچے راۓ کوٹ کا دریا شور مچاتا ہوا بہتا تھا اگر ذرہ بھر بے احتیاتی ہوتی تو میں نیچے اسے دریا کے یخ پانیوں میں گر کر ٹھنڈا ہو سکتا تھا شائد وہاں تک پہنچنے سے پہلے کہیں راستے میں موجود پتھروں سے ٹکرا کر میرے جسم کا بہت تھوڑا حصہ باقی بچتا جو وہاں تک جا پاتا باقی راستے میں ہی بکھر کر ختم ہو چکا ہوتا نانگا پربت ایک قاتل پہاڑ ہے۔

وہ نانگا پربت سے دور جانے کا ایک نہایت غیر موزوں دن تھا محفل اپنے عروج پر تھی میلہ ابھی سجا تھا اور مجھے اسے چھوڑ جانے کا حکم ہو چکا تھا تو اس سے دور ہوتے ہوتے بھی میں کچھ رنگ سمیٹنا چاہتا تھا اپنے پوٹلی میں باندھنا چاہتا تھا اور اسکے لیۓ میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے سے بھی باز نہیں رہ پاتا تھا۔

نانگا پربت کو قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ھے یہ ایک ایسی حسینہ ہے جو اپنے چاہنے والوں کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتی ہے یہ چاہتی ہے کہ اسکے عاشق اسکے سامنے قطارباندھے سر جھکاۓ موجود رہیں کوئ اس پر حاوی ہونے کی کوشش نہ کرے بس دور سے دیدار کا انتظار کریں اور جب اسکا دل ہو یہ انکو تھوڑا یا زیادہ دیدار دے اور پردے میں چلی جاۓ اسکو یہ پسند نہیں کہ کوئ اس پر حاوی ہونے کی کوشش کرے اور ایسا کرنے والے سر پھرے عاشقوں کو اکثر ناکامی کا مہ دیکھنا پڑا اب تک نانگاپربت کو زیر کرنے والوں کی تعداد آپ انگلیوں کے پوروں پر گن سکتے ہیں اور پھر بھی آپ کے بہت سے پور بچ جائیں گے۔

1895 میں البرٹ ایف ممری پہلا سر پھرا تھا جس نے اسکو سر کرنے کا عزم کیا لیکن سخت خراب موسم اور مزاہمت کے بعد اسے ناکام واپس لوٹنا پڑا لیکن اپنے بعد بہت سے سر پھروں کو ہمت دے گیا بہت سوں نے کوشش کی اور اپنے خون سے اس دیوی کو غسل دینے کے بعد بھی ناکام رہے یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔

جرمنوں کو ابتدا سے ہی اس سے کچھ زیادہ لگاؤ رہا اور انہوں نے بار بار اسکو زیر کرنے کی کوششیں کیں ویلی مارکیل کی قیادت میں 1932 میں پہلا جرمن قافلہ نانگا پربت کو سر کرنے پہچھا لیکن کچھ خراب موسم اور کچھ اپنی پلاننگ اور معلومات کی کمی کی وجہ سے ناکام رہا مارکیل دو سال بعد یعنی 1934 میں دوبارہ اس مہم پر آیا لیکن مہم کی ابتدا میں اپنے اہم ساتھی الفریڈ دیزل کی موت اور اس کے بعد خراب ترین موسم کی وجہ سے اپنی مہم ترک کرکے واپس اترنا شروع ہوا لیکن واستے میں شدید طوفان میں گھر کر چھ پورٹر اور اپنے تین ساتھیوں سمیت زندگی کی بازی ہار گیا نانگا پربت کو سر پھرے اور اپنے اوپر حاوی ہونے والے پسند تھے وہ صرف دیدار دینا جانتی تھی اور اسکی مرضی کے خلاف اگر زبردستی کی جاۓ تو وہ جان لینے سے چوکتی نانگا پربت کی گردن پر پیسیوں عاشقوں کا خون ہے جن میں سے اکثر ایسے تھے جنکا جسم بھی واپس نہیں کیا اور اپنے پاس سنبھال لیا۔

اس وقت جب کہ یہ قاتل پہاڑ اکتیس جانیں ان سر پھروں کی جو اپنے اپنے ملکوں سے لمبے لمبے سفر کرکے اپنے گھر کا آرام اور آسودگی چھوڑ کر اپنے ہیم پرگر ہاٹ ڈاگ اور کافی چھوڑ کر صرف اس امید پر آۓ تھے کہ انکا لحاظ کرے گی انکی محبت کی قدر کرے گی اور کچھ ایسوں کی جو محض اپنی روزی کمانے اپنی خاندان کی کفالت کرنے انکو راستہ دکھانے اور انکا بوجھ ڈھونے کے لیۓ گھر سے آۓ تھے ایسے میں ایک اور سر پھرا ہرمن بوہل آسٹریا سے لمبے سفر کرتا 1953 میں نانگا پربت کے دامن تک پہچا یہ جانتے ہوۓ بھی کہ اب تک کسی کو کامیا بی نہیں ملی تھی پھر بھی وہ آگیا تھا اسکے ساتھ ایک تجربہ کار 1932 اور 1934 کی مہمات کے سربراہ ویلی مارکیل کا بھائ ہرلیگ کوفر بھی تھا لیکن بوہل کا عزم دیکھ کر نانگا پربت کو سر جھکانا پڑا ایک وقت جب اسکے باقی تمام ساتھی لوٹ گۓ اور بوہل اکیلا رہ گیا تب بھی اسنے ہمت نہیں ہاری اور سفر جاری رکھا اور بلاخر ایک سخت موسم کا مقابلہ کرنے کے بعد بغیر آکسیجن کے 3 جولائ 1953 نانگا پربت کی شدید نا پسندیدگی کے باوجود اس پر حاوی ہونے میں بلاخر کامیاب ہوا اور یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے آٹھ ہزارۓ کسی پہاژ کی چوٹی تک بغیر آکسیجن رک رسائ حاصل کی۔

ایک حسینہ اگر اپنے اوہر حاوی ہونے کی کوشش کرنے والے کو قتل کرسکتی ہے تو ایسے موقع پر محفل سے دور جانے والے کی جان بھی لے سکتی ہے جب کہ وہ اپنے تمام تر حسن کے ساتھ جلوہ گر ہو اور میں بار بار مڑتا ہوا ایک جھلک کی خاطر کہ کیا معلوم کون سے موڑ پر یہ ہمیشہ کے لیۓ چھپ جاۓ اور میں اسکو دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکوں بلکل ویسے ہی جیسے حرم سے نکلنے والا زائر خانہ کعبہ کو مڑ مڑ کر دیکھتا ہے کہ یہ منظر دوبارہ کبھی نصیب ہوگا بھی کہ نہیں اسی دیوانگی کے ساتھ اس خدا کی بنائ حیرت میں ڈالنے والی تخلیق کو دیکھتا تھا اور اس وارفتگی سے دیکھتا تھا کہ اپنی زندگی خطرے میں ڈالتا تھا اور میں اکیلا نہیں تھا تھوڑی احتیاط کے ساتھ میرا ساتھی بھی ایسا ہی کررہا تھا ان گلابی پھولوں کے ساتھ کھڑا جو اس راستے پر جا بجا موجود تھے میں یہ سوچ رہا تھا کہ فیری میڈو چھوڑنے اور نانگا پربت سے دور جانے کا یہ ایک بہت غیر مناسب موقع ہے لیکن میرا وہاں ہونا بہت سی مشکلات کے بعد ممکن ہوا تھا اور میرے لیۓ کسی معجزے کم نہیں تھا میری آنکھوں میں اندیکھے مناظر کا سحر تھا جو مجھے بلاتے تھے اپنی جانب ایسے ہی کسی موڑ پر نانگا پربت اوجھل ہوا میرے آنکھوں میں وہ تمام مناظر تھے جنکو میں دیکھ آیا تھا ایک بچہ اوپر سے شور مچاتا آرہا تھا ایک گدھے کے ساتھ بھاگتا ہوا اور اس گدھے کی پشت پر ہمارے رک سیک بندھے ہوۓ تھے بچہ اور گدھا جب نظروں سے اوجھل ہوگۓ مبین نے مجھ سے کہا تھا۔

"او مجنوں !! جلدی کرلو بہت راستہ باقی ہے وہ لوگ بہت آگے چلے گۓ ہیں رفتار بڑھاؤ اور کیمرہ بند کرو"

نانگا پربت..... ایک قاتل پہاڑ 

No comments:

Post a Comment