Saturday 31 May 2014

پریوں کی چراگاہ فیری میڈوز قسط ۳


ہم وہاں نہیں جا سکتے؟

واقعی کیا میری خواہش پوری نہیں ہو سکتی؟ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا میں اس موڑ پر پہنچ چکا تھا کہ واپس پلٹنا میرے لیۓ نامکنات میں سے تھا فیری میڈو میرے سر پر ایک خواب کی طرح سوار تھا اور اب اسکو سر سے اتارنا میرے لیۓ نا ممکن ہو چکا تھا میں "پوائنٹ آف نو ریٹرن" پر پہنج چکا تھا لیکن اگر راستے بند ہوں اور داخلے کا راستہ نہ ہو تو مٰیں کیسے جا سکتا ہوں؟

میرے پاس فیری میڈو کے جتنے بھی فون نمبر تھے ان میں سے کسی پر بھی رانطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔

میں نے اپنی ہر کوشش کی اور آخر میں "راۓ کوٹ سراۓ" والے رحمت نبی کا نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

"ہیلو" گلگتی لہجے میں ایک قدرے سخت آواز آئ

"جی میں کراچی سے فیضان بات کررہا ہوں رحمت صاحب سے بات ہو سکتی ہے؟"

"نہیں وہ نہیں ہیں گلگت گۓ ہیں کیا بات کرنی ہے؟"

"وہ ٹی وی پر نیوز میں فیری میڈو کی خبر چل رہی ہے اسی کی تصدیق کرنی ہے"

"آپ کا بکنگ ہے کیا سر؟

"نہیں میں آنے والا تھا اگلے کچھ دنوں میں تو اسی لیۓ فون کیا سنا تھا فوج آگئ ہے سیل کردیا ہے فیری میڈو کو؟"

"خدا تباہ کرے انکو سر کچھ نہیں ہوا یہاں پر دوسرا سائڈ میں ہوا ہے فیری میڈو میں سب خیریت ہے آپ کو آنا ہے کب آنا ہے؟ رحمت بھائ گلگت گیا ہے وہ نہیں ہے میرا نام میرجمعہ ہے دو دن میں آجاۓ گا بعد میں فون کرو آپ"

فون منقطع ہوا مجھے کچھ اطمنان ہوا لیکن دوسروں کو کیسے یقین دلایا جاۓ اور خاص کر تب جبکہ سارا زور ہی اس بات پر ہو کہ جایا نہیں جا سکتا اور ٹکٹ نہ کرانا میں نے دوبارہ مونس کو فون کیا اور میں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم کونسا ڈائرکٹ فیری میڈو چلے جائیں گے اور ابھی کافی دن ہیں تو حالات اگر بہتر نہ ہوۓ تو ہم اپنا روٹ تبدیل کر سکتے ہیں سوات کشمیر یا کہیں بھی دوسری جگہ وہ کسی حد تک مطمئن ہوگیا تھا لیکن راضی پھر بھی نہیں ہوا تھا۔

دوسرا فون میں نے اپنے دوسرے ساتھی مبین کو کیا اور اسکو پوری بات شروع سے آخر تک سمجھا دی اس نے وعدہ کیا کہ وہ مونس سے بات کرے گا۔

میں نے اور مبین نے آپس میں یہ طے کیا کہ اگر تو فیری میڈو واقعی بند ہے تو کوئ جا نہیں سکے گا لیکن ہم گھر سے نکلنا چاہتے تھے چاہے وہاں پہنچ پائیں یا نہیں لیکن کچھ آوارہ گردی بحر حال کی جا سکتی تھی منزل پر نہ پہنچنے کا دکھ اپنی جگہ لیکن کیا کوئ اور جگہ ہمیں خوشی نہیں دے سکے گی؟

طے یہ ہوا تھا کہ ہم پروگرام کے مطابق اپنا سفر شروع کریں گے راولپنڈی تک اور اپنی منزل کا حتمی تعین وہاں پہنچنے کے بعد کریں گے اگر تو واقعی کوئ ایسی خبر ملتی ہے تو ہم اپنا پلان تبدیل کر لیں گے ورنہ پہلے سے طے شدہ راستہ ہی طے کیا جاۓ گا۔ تمام تر پروگرام مونس سے پوشیدہ رکھا جاۓ گا اور ایک طرح سے دھوکہ سے اپنے ساتھ لے جایا جاۓ گا۔

کراچی سے براستہ فیصل آباد بزریعہ ٹرین اور وہاں سے بزریعہ کوچ ہم اسلام آباد پہچے اور لاری اڈے سے ٹیکسی لیکر سیدھا پیر ودھائ اور وہاں ہم نے مونس کو ٹیکسی میں سامان کے ساتھ چھوڑا اور ناٹکو بکنگ کاؤنٹر سے راۓ کوٹ برج تک کے تین ٹکٹ خریدے گویا ہم فیری میڈو جا رہے تھے جب ہم واپس ٹیکسی میں آۓ تو ہم سے سوال ہوا

"کہاں کا ٹکٹ لیا ہے؟"

اب تک اندر کا ڈر ختم ہو چکا تھا اور وہ بھی ذہنی طور پر ہمارے ساتھ چلنے پر آمادہ ہو چکا تھا اور اسکے لیۓ کافی محنت کرنا پڑی تھی ہم دونوں کو ہماری رہائش کا انتظام سیکٹر ایف گیارہ میں تھا پوری رات باہر گزارنے کے بعد صبح میں نے احمد بھائ کو فیری میڈو آنے کی اطلاع دی ہم کو پنڈی سے شام ساڑھے چھ بجے کے قریب روانہ ہونا تھا وہاں پہنچے کا اندازاؔ وقت اور تمام دیگر معلومات بھی فراہم کردیں اور ہم نے آگے کے سفر کی تیاری شروع کی جسمیں سامان کی دوبارہ پیکنگ ضروری اور وہ سامان جنکی ضرورت زیادہ اور فوری ہو انکی ترتیب کے حساب سے بیگ میں جگہ بنانا شامل تھا دوپہر کے قریب کچھ مزید سامان کی خریداری کے لیۓ ہم بازار گۓ اور تمام اشیاء شیلف سے نکال نکال کر دوکان دار کے سامنے ڈھیر کرنا شروع کردیں جن میں بسکٹس ، چیونگم ، چاکلیٹ، صابن، ٹشو پیپرز، کھجور، بھنے ہوۓ چنے، کچھ دوائیں، ڈیٹول اور نا جانے کیا کیا ایک ڈھیر کاؤنٹر پر جمع ہو گیا اور دوکاندار کچھ پریشان سا ہمیں دیکھتا تھا

"آپ کو کہاں جا رہے ہیں؟" آخر اس نے سوال کر لیا

" نانگا پربت" کوئ اور سوال نہیں کیا گیا خاموشی سے بل بنایا اور ہم ادا کرکے اپنے تھیلے اٹھا کر باہر آگۓ واپس آکر اس سامان کو بھی پیک کیا اپنے تئیں اطمنان کرنے کے بعد اپنے کیمرے اور موبائل چارج کرے اور ان تمام باتوں کے درمیان جو چیر مسلسل چل رہی تھی وہ ہماری تمباکو نوشی تھی اور میں تھوڑا سا پریشان بھی تھا کہ اسکے بعد کہیں ہمارا ٹریک کرنا مشکل نہ ہو جاۓ لیکن رکتے نہیں تھے۔

سفر شروع ہوا راولپنڈی سے ایبٹ آباد اور یہاں سے قراقرم ہائ وے کا باقعدہ آغاز ہوتا ہے دنیا کا بلاشبہ آٹھواں عجوبہ پر پیج اور پر خطر راستوں پر ایک سڑک ایبٹ آباد سے مانسہرا اور بشام کانواۓ کی پابندی کی وجہ سے یہاں رکنا اور کانواۓ میں شامل ہونا لازمی ہوتا ہے ایک ایسی پابندی جو آپ کو اکثر اوقات بہت خوار کرتی ہے اور ہم بھی بہت ہوۓ(اب یہ پابندی ختم کردی کئ ہے) بشام پر جب پم اترے تو تب رات کے ڈھائ بجتے تھے مکمل اندھیرا اور ٹہرنے کا کوئ انتظام نہیں یونہی فوٹ پاتھ پر بیٹھ کر یا ادھر ادھر گھوم کر وقت گزارنا صبح تک روشنی ہونے تک اندھیرا ایسا کہ اپنا آپ گم ہوتا محسوس ہو اور پاس بیٹھا ہوا شخص بھی نظر نہ آۓ ایک پٹرول پمپ کی روشنی موجود تھی جو کہ پورے علاقے کو روشن تو قطعئ نہ کرتی مگر ایسا کنٹراسٹ پیدا کر رہی تھی کہ جہاں ہم تھی اس اندھیرے کو مزید گہرا کرتی تھی کئ لوگ جو شائد اکثر کے مسافر تھے فوراؔ ہی پٹرول پمپ کے ساتھ چھوٹے سے گھاس کے قطعے پر دراز ہو کر سو گۓ اور انکی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی اب وہاں بلکل کوئ جگہ نہ تھی اور ہمارے نصیب میں بس خواری ایک ہوٹل ادھ بنا جہاں بجلی نہیں تھی اندھیرا اور گرمی پورے ماحول پر ایک آواز حاوی تھی جھینگروں کے بولنے کی آواز اور دریاۓ سندھ اپنی مدھم آواز کے ساتھ نیچے بہتا جا رہا تھا ہم سڑک کے ساتھ بیٹھ کر اور کھی ٹہل کر وقت گزارنے کی کوشش کر رہے تھے رات گزر رہی تھی اور اندھیرا دھیرے دھیرے اتر رہا تھا سب سے پہلے بشام کے پہاڑوں کے سر نظر آنا شروع ہوۓ اور فضا اچانک اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھی قریب ہی کوئ مسجد تھی پوچھتے پوچھتے ہم وہاں پہنچے جماعت میں کافی وقت تھا ہم وہیں دراز ہوۓ اور سو گۓ ۔

نماز کے بعد ہم باہر آۓ تو اندھیرا کافی کم ہوچکا تھا اور منظر ہم پر کھل رہا تھا سڑک سے نیچے کی طرف پہاڑی پتھر ایک ترتیب سے رکھے ہوۓ تھے اور کافی نیچے سندھ کا پانی مدھم سروں میں انکے درمیں سے راستہ بناتا ہوا بہتا جا رہا تھا جہاں سے پانی آرہا تھا ادھر کی طرف ایک پل ہے جسکی خوبصورتی اور بناوٹ اپنی مثال آپ ہے پتھر کی محراب نما گولائ اور ستونوں پر جہاں جہاں پانی مسلسل بہتا ہے وہاں سے آپر کی جانب جمی ہوئ دبیز کائ جو دور سے ستون پر اگی ہوئ گھاس معلوم ہوتی ہے سامنے پہاڑ جو ہمالیائ سلسلے کی ایک کڑی سبزہ میں ڈھکےہوۓ اوپر بنے کچھ گھروں کی چمنیوں سے نکلتا دھواں جو آہستہ آہستہ رکتا ہوا اوپر اٹھ رہا تھا کچھ بکریاں پہاڑ سے نیچے اتر رہی تھیں دور سے ننھی ننھی دھائ دیتی تھیں سامنے منظر اور بشام پر اترنے والے صبح اتنی دلکش تھی کہ دل سے خداۓ برتر کی حمد جاری ہوتی تھی اور یہ تو ابتدا تھی ہم نے اپنی گاڑی کے ڈرائیور پر چلنے کے بارے میں سوال کیا تو معلوم ہوا کہ ناشتہ کے بعد یہاں سے روانگی ہوگی موقع غنیمت تھا ہم نے سڑک چھوڑی اور راستے کے ساتھ ساتھ نیچے اترنا شروع کیا سندھ کا پانی ٹھنڈا اور کیف آور تھا اور صبح کی ہوا خوش کن اطمنان والی اور تازگی والی کچھ وقت وہاں گزانے کے بعد ہم اوپر واپس آۓ ناشتہ کیا کانواۓ تیار تھا ساڑھے سات بجے دوبارہ بگل ہوا اور سفر دوبارہ شروع ہوا۔

فوج کی حفاظت میں کانواۓ چلتا رہا اور جہاں بھی یہ کانواۓ رکتا ایک غدر مچ جاتا لوگ ٹوٹ پڑتے راستے میں کھڑے ہوۓ ٹھیلوں پر ہوٹلوں میں رش لگ جاتا پانی پینے اور ٹھنڈا پانی بھرنے کے لیۓ لائنیں لگ جاتیں ایسے ہی ایک جب ہم داسو پر رکے تو دوپہر کے کھانے کا وقت تھا وہیں پر ایک بابا جی توے پر مجھلی سیک کر فروخت کر رہے تھے کوئلوں کی مہک والے وہ مچھلی کسی بھی فائو سٹار ہوٹل میں بکنے والی اور طرح طرح کی مصالحوں میں بنی مچھلی سے زیادہ ذائقہ دار تھی ایک کے بعد جب دوسری کی خواہش دل میں بیدار ہوئ تو معلوم ہوا کہ وہ غدر کی نظر ہو چکی ہے اور دس منٹ سے بھی کم عرصہ میں وہ بابا اپنی دوکان بڑھا چکے تھے۔

رکتے رکتے اسی طرح سفر کرنے ہوۓ شام کے قریب ہم راۓ کوٹ برج پہچے شام کے ساڑھے چار بج رہے تھے جیسے ہی کانواۓ رکا اور ہم اپنا سامان اٹھاۓ باہر آۓ ایک درمیانے قد چھریرے بدن والا سنہری داڑھی اور گھنی مونچھوں والا ایک نو جوان ہماری طرف لپکا " آپ کا نام فیضان ہے؟"

"جی! آپ احمد بھائ؟"

"جی سار میں صبح جگلوٹ گیا تھا کام سے اور واپسی پر ادھر ہی بیٹھ گیا میں بول آیا تھا صبح اوپر کہ مہمان آنے والے ہیں میں ساتھ لیکر واپس آؤنگا" ایک سیاح کیلیۓ مہمان کا لفظ سننا مجھے بہت بھلا معلوم ہوا اور ایک اندرونی خوشی کا باعث بنا۔

" یہی سامان ہے آپکا؟ ادھر دے دیں اور بڑھ کر ہمارا سارا سامان لپک لیا ہم سے۔

" آپ لوگ جلدی پہنچ گۓ ورنہ کانواۓ مغرب پر پہنچتا ہے آج کل ادھر۔ یہ والا جیب ہے بیٹھیں سار" اور ہمارا سامان ایک جیب میں ڈال دیا فیری میڈو جیب سٹاپ شنگریلا ہوٹل راۓ کوٹ برج کے بلکل سامنے ہے اور وہاں سے ایک بورڈ واضح نظر آتا ہے
 فیری میڈو میں خوش آمدید 
welcome to Fairy Meadows 
ڈسٹرکٹ دیامر گلگت بلتستان 

Welcome to Fairy Meadow

No comments:

Post a Comment