Sunday, 18 May 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۱۲


اونچے نیچے راستوں پر اچانک کسی اترائ سے اترتے ہوۓ ایک چٹان کی اوٹ سے جھانکتا جھلمل کرتا بہت سا پانی اپنی اوپر پڑنے والی ساری روشنی ایسے منعکس کرتا کہ آنکھیں جماۓ رکھنا دشوار ہے اپنے اندر پورے آسمان کا عکس لیۓ اور شفافیت ایسی کہ وہ تمام پتھر جو اسکے اندر پڑے ہیں وہ بھی جھلملاتے ہوۓ سطح پر نظر آتے ہیں اور یہ سب آن واحد میں اتنا اچانک ہوتا ہے جس کے لیۓ آپ ذہنی طور پر تیار بھی نہیں ہوۓ ہوتے اور اس پورے خطہ میں ایسا ہر دوسرے قدم پر ہوتا ہے تو ہم اب اس چیز کے عادی ہوچکے تھے ہم اب پانی کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوۓ وہاں تک آۓ جہاں سے پہ گولائ لیتا ہوا مڑ رہا تھا اور یہاں مزید کچھ اونچائ تھی تقریبا درمیان میں پہنچنے کے بعد جیب رکی انجن تھما شور بند ہوا اور سناٹا یہی اندھی جھیل یعنی شیوسر جھیل ہے۔

ہمارے پاس کچھ وقت تھا میں جیب سے باہر آیا جھیل اس جگہ سے اپنی مکمل تفصیل کے ساتھ نظر آرہی تھی ابتدا میں یہ خیال آیا جیسے بارش کی وجہ سے کچھ پانی کڑا ہو گیا ہے اور بس کچھ نہیں چونکہ سب کچھ اتنا پرکشش اور طلسماتی ہے اس وجہ سے یہ بھی ایسا ہی کوئ منظر لگ رہا تھے اور دیوسائ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہم اسی ذہن کے ساتھ داخل ہوۓ تھے کہ جو کچھ یہاں ہوگا وہ سب حسین اور جادوئ ہوگا اور بلا شبہ اس سے پہلے جتنا کچھ تھا وہ واقعی ایسا ہی تھا لیکن اس جھیل کو دیکھنے کہ بعد میں نے یہی سوچا کہ اسی خیال کے زیر اثر اتنی باتیں کی گئ ہیں اور اصل سچ بہت تھوڑا ہے۔

میں جھیل کے نزدیک تک گیا اور جوں جوں میں اسکے نزدیک ہوتا گا میرا خیال بدلتا گیا یہ واقعی جادوئ تھا تین اطراف سے پہاڑوں میں گھری ایک جھیل جسکا پانی جھاگ اڑاتا ٹھنڈا برف تھا بادل اس پر ایسے لگے ہوۓ تھے کہ طوالت میں ایسا لگتا تھے آگے جا کر بادل پانی میں گر گۓ ہیں یہ رش لیک کہ بعد پاکستان کی شائد سب سے انچائ پر واقع جھیل ہے یہاں جو ہوا میں ٹھنڈک تھی وہ ایسا لگتا تھے کہ آپ کی ہڈیوں میں سوراخ کرکے اندر گودے تک سرائیت کر جاۓ گی میں نے جھیل کے پانی سے ھاتھ اور مہ دھوۓ پہلے کچھ چھینٹوں سے ہی مسام سن پڑگۓ سردی کی ایک لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں سے ہوکر میرے دماغ تک پھیل گئ۔

تین اطراف پہاڑ جو تھے وہ سب ہی سبزے سے بھرے تھے اور اوپر اوپر برف جمی ہوئ تھی نانگاپربت نظر نہیں آرہی تھی مکمل بادلوں میں روپوش تھی یہاں بھی ننھے ننھے بیشمار پھول تھے اور جیسا کہ خاصہ ہے ہر پھول ایک دوسرے سے یکسر مختلف شکل و شباہت میں بھی اور رنگت میں بھی سورج ڈھلنا شروع ہو چکا تھا اور ساۓ لمبے ہو رہے تھے ہمیں آگے چلنے کا اذن ہوا انجن جھٹکے سے اسٹارٹ ہوا جھیل ہمارے پشت پر آئ اور ہم نے اسکی مخالف سمت میں سفر شروع کیا۔

آگے سفر میں ایک ایسا محسوس ہوتا رہا کہ ہم بادلوں سے بہت نزدیک آگۓ ہیں اتنے کہ کچھ دیر بعد ہم بادلوں کے بیچ سے ہوکے گزر رہے ہونگے یا ہاتھ اوپر کرنے ہر بادلوں کے درمیان چلا جاۓ گا لیکن کچھ دور پر بادل اوپر چلے گۓ واپس اور یہاں مارموٹ بہت سارے تھے اور بھاگتے پھر رہے تھے ادھر ادھر آرام سے ہم سے اپنا آپ بچا کر۔ ایسے چلتے ہوۓ ہم بڑا پانی پہچے اور ہیں دو پل ہیں ایک لکڑی کا بنا ہوا خوبصورت اور دلکش پل اور یہ صرف علامتی طور پر ایستادہ ہے مستعمل نہیں ہے اور دوسرا کنکریٹ کا نیا تعمیر شدہ پورے ماحول سے میل نہ کھاتا ہوا بے جوڑ سا بھدا معلوم پڑتا لیکن مضبوط جیب گھیں گھیں کرتی اس پل کے پار آگئ اور پانی سے کچھ دور الگ ہوکر جیپ رکی ہم سب جیب سے باہر آگے بڑا پانی یا جسے کالا پانی بھی کہتے ہیں اور ہمیں یہاں رات گزارنی تھی یہاں اترنے کے بعد میں نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ اپنا بیگ کھولا اور تمام گرم کپڑے نکال پر پہن لیۓ شام ہورہی تھی اور میں ایک ٹی شرٹ اور ایک آدھی آستینوں والے سویٹر میں ملبوس تھا ہمارے علاوہ وہاں ایک جیپ اور رکی ہوئ تھی سکردو کی طرف سے آنے والی اس جیب میں دو بھائ تھے اور وہ آج دیوسائ میں رات گزار کر واپس سکردو جانے والے تھے جہاں انکے خاندان والے موجود تھے۔


مجھے گھر سے نکلے اتنا وقت ہوچکا تھا کہ دن اور تاریخ کا حساب میرے ذہن سے مٹ چکا تھا جب سورج نکلتا اور روشنی ہوتی تو صبح اور اندھیرا ہونے پر رات اور پھر میرے پپوٹے نیند سے بھاری ہونا شروع ہو جاتے تھے ہمارے خیمے لگ رہے تھے اور میں کالا پانی کے بلکل ساتھ بیٹھا ہوا تھا پانی کے اندر پڑے بڑے بڑے پتھر نظر آتے تھے اور سیاہی مائل تھے ایک پرندہ یا شاید وہ زیادہ تھے مسلسل ایک نا مانوس سی آواز نکال رہا تھا گونج دار گرج والی ذہنوں پر حاوی ہونے والی آواز سورج آہستہ آہستہ ڈوب گیا اور اسکے بعد کچھ دیر تک بہت گہرا اندھیرا ہو گیا صرف پانی بہنے کی آواز یا آپس میں باتیں کرنے کی انسانی آوازیں۔

دیوسائ میں رات ہوچکی تھی اور یہ میری ان علاقوں میں گزاری جانے والے آخری رات تھی کل بحر حال مجھے سکردو سے راولپنڈی کیلۓ روانہ ہو جانا تھا اب جو رات ہوگی تو راستے میں سفر میں کسی نا معلوم مقام اور ماحول میں ہوگی تو آج رات میں سونا نہیں چاہتا تھا خیمہ کے اندر سلیپنگ پیگ میں مجھے گھٹن محسوس ہورہی تھی میں نے آہستگی سے زپ نیچے کی باہر آیا آہستگی سے اپنا بستر باہر کھینچا مفلر اور منکی کیپ سے لیس ہو کر کھلی فضا میں خود کو لپیٹ کر لیٹ گیا آسمان پر اربوں ستارے روشن چمکتے ہوۓ کچھ کم کچھ زیادہ میرے عین اوپر ٹکے ہوۓ تھے اور اتنے زیادہ تھے کہ لگتا تھا کہ یہ ٹوٹ کر گر جائیں گے اور دل میں ایک خوف پیدا ہوتا تھا انکو زیادہ دیر تکنے سے ایسا لگنے لگا تھا جیسے میں زمیں میں دھسنتا چلا جا رہا ہوں انکے بوجھ سے بہت دیر میں اسی حالت میں لیٹا رہا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ سردی سے مجھے لگا کہ میرا خون جم چکا ہے اور اب دوسرا سانس نہیں آۓ گا درجہ حرارت کیا معلوم کتنا تھا لیکن اپنا آپ جمتا ہوا محسوس ہونے لگا تھا بہت ساری ہمت جمع کرنے کے بعد میں اٹھا اور واپس خیمے کے اندر آکر زپ بند کرلی اندر ایک آسودگی والی گرمی کا احساس ہوا اور باقیوں کو میرا یخ وجود اور باہر کی ہوا اندر آنے سے بیچینی کا احساس ہوا۔

مجھے نیند نہیں آئ کچھ دیر کچھ دیر کروٹیں بدلنے پر شائد کچھ دیر سو گیا لیکن کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو روشنی کا احساس ہوا باہر دیکھا تو صبح صادق کا سویرا سردی سے بقابلے کیلۓ لیس ہوکر باہر آیا اندھیرے میں سے واضح ہوتا دیوسائ میرا منتظر پانی کے بہنے کا شور کے علاوہ کوئ ایک آواز نہیں تھی وہاں میں پانی تک گیا جیکٹ اور اتار کر اسی پانی سے وضو کیا پانی اس قدر یخ تھا کہ سسکیاں نکل جاتی تھیں خود کو اچھی طرح خشک کرکے دوبارہ گرم کپڑوں میں لپیٹا اور کل جہاں سورج ڈوب رہا تھا اس سمت مہ کرکے نیت باندھلی یہ فجر کا وقت تھا۔

پھر صبح ہوئ اور سورج نکلا اور جب روشنی کی کرنیں پانی سے ملیں تو وہاں سے نور پھوٹا رنگوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ہر ہر قطرہ ایک لگ رنگ کی بوند تھا اندھیرے میں یہ پانی بلکل سیاہ تھا اور روشنی پڑتے ہی ایک پرسم کی طرح رنگوں کا منعکس کرکے پھینکنا شروع کیا تو رکنے میں نہیں آرہا میں وہا حیران سا کھڑا رہا پھر سورج کا زاویہ بدلا اور رنگ بدلنے کا سلسلہ کم ہو گیا اب پانی سنہرے رنگ کا تھا اور اسکی تیزی کی وجہ سے وہاں آنکھیں ٹکانا مشکل ہونے لگا تھا۔

اس سنہری صبح میں ناشتہ کہ بعد جب ہم رخصت ہو رہے تھے تو میری آنکھیں نم ضرور ہوتی تھیں لیکن دل میں اداسی نہیں تھی ایک اطمنان تھا میرا یہاں آنا رائگاں نہیں گیا تھا اللہ نے اپنی قدرت کے بہت سے جلوے مجھے دکھاۓ تھے جب ہم روانگی کیلیۓ بلکل تیار تھے تو میں نے دیوسائ میدان کی طرف مہ کرکے اسے مخاطب کرکے کہا تھا

"اے دیوسائ تو نے مجھے تسخیر کرلیا اگر میں دوبارہ آیا تو میرے ساتھ ایسا ہی برتاؤ رکھنا جیسا تونے اس بار میرے ساتھ رکھا ھے"

میں جیب میں واپس آگیا انجن سٹارٹ ہوا جیب آگے بڑھی اونچے نیچے راستوں پر ہم سب پیچھے دیکھتے تھے ایک ایسے ہی موڑ پر وہ پل نظروں سے اوجھل ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ دیوسائ کی ہریاول ہم اس میدان سے دور جا رہے تھے میری آنکھوں میں نمی تھی۔


No comments:

Post a Comment