Thursday 15 May 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۱۱


سفردوبارہ شروع ہوا جیپ کا انجن زور لگا رہا تھا ہم اوپر اٹھنا شروع ہوۓ بائیں ہاتھ پر ایک ادھ بنی مسجد آئ دونوں اطراف باڑ لگی ہوئ یہ فوجی علاقہ تھا پختہ سڑک اور دونوں اطراف دبیز سبزہ اور ہریالی چمکیلی دھوپ صاف موسم نیلا آسمان اور کہیں کہیں موٹے اور تہ در تہ دودھ رنگ سفید بادل غرض دیوسائ کی طرف سفر کرنے کے لیۓ ایک "پرفیکٹ" دن۔

چلم چوکی سے آگے بڑھنے پر ایک پختہ سیاہ اور دھلی ہوئ سڑک سیدھی اور سپاٹ پرسکون اور غیر محسوس طور پر اوپر کو اٹھی ہوئ اور یہی دروازہ ہے اس طلسماتی سلطنت کا جس میں ہم داخل ہونے کو تھے۔

یہاں پر ہی دیوسائ نیشنل پارک کی چیک پوسٹ آتی ہے جہاں رک کر سیاح کو داخلے کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے فی کس چالیس روپے اور آپکو آگے جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔

کچھ مناظر اور کیفیات ایسی ہوتی ہیں جن کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

کیا آپ اس کیفیت کو کوئ نام دےسکتے ہیں جب پردیس میں رہنے والا ایک بیٹا سالوں بعد وطن واپس آکر اپنی ماں کے گلے لگتا ہے؟ یقیناؔ نہیں

یا اس سوال کا جواب کون دے سکتا ہے کہ بہت زیادہ خوشی کے عالم میں انسان روتا کیوں ہے جب کہ رونا تو غم کے ساتھ منسوب ہے؟

خوشی کے آنسو کیا بلا ہوتے ہیں؟

دیوسائ میں سفر کرتے وقت جو کیفیات تھیں وہ بھی ایسا ہی کوئ سوال تھیں خوشی اور حیرت کی ایک ملی جلی کیفیت کہ سکتے ہیں خوشی یہ کہ ایک تمغہ میرے سینے پر سجنے والا تھا گردن اکڑا کر اپنے دوستوں میں اور بہت سے آوارہ گردوں میں جو اب تک ادھر نہیں آۓ تھے میں دیوسائ کی باتیں کر سکتا تھا جھوٹی اور انا کو تسکین دینے والی کہانیاں سنا سکتا تھا دوسروں کو اپنے حسد میں مبتلا کر سکتا تھا۔ یہ دکھ میں کئ بار جھیل چکا تھا اب میری باری آگئ تھی اور میں بھی ایسا کرسکتا تھا لیکن یہ سب میرے اندر تھا کہیں بہت اندر اور اس وقت جو خوشی تھی وہ کسی اور بات کی تھی ان نظاروں کے سامنے آنے کی تھی جو کسی اور کے لیۓ نہیں صرف میرے لیۓ اس وقت تخلیق ہوۓ تھے اور سارا سال برف کی چادر تلے چھپے سوۓ ہوتے تھے اور آج میرے لیۓ اپنی غلاف سے باہر آۓ تھے بے پردہ تھے اور دھوپ سے غسل کرتے تھے میرے لیۓ سجاۓ گۓ تھے تمام مناظر وہ تمام پھول وہ تمام بادل اور سارہ سبزہ اور پانی اور وہاں موجود سب کچھ اور آج ہی آسمان رنگا گیا تھا نیلا آسمان روشنی جذب کرتا تھا اور اتنی روشنی اور دھوپ میں بھی آسمان پر چاند نظر آتا تھا عین دوپہر میں ایک ہیولا سا چھوٹا سا ایک بتاشے جیسا جسکو دانت سے تھوڑا کاٹا گیا ہو۔

اور حیرت اس بات کی کہ جو کچھ میں دیکھتا ہوں یہ حقیقت ہے یا ایک خواب اپنی خوش نصیبی پر یقین نہیں ہوتا تھا کہ میں بھی ان میں ایک ہونے کو تھا جو دیوسائ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے تھے۔

تقریباؔ تین ہزار مربع کلومیٹر پھیلے ہوۓ اس میدان پر ایک بھی درخت نہیں ہے پختہ اور چمکیلی سڑک کچھ دور ساتھ چلی پھر ایک پکڈنڈی میں بدل گئ اونچی نیچی پھتریلی زمین پر جب جیپ اپنی رفتار سے چلتی تھی تو اپنا توازن قائم رکھنا مشکل ہوتا تھا پسلیوں میں پسلیاں گھستی تھیں اور ہمارے جسم اس طرح حرکت کرتے تھے جیسے تسلے میں رکھا ہوا گوشت ہو میں اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا ایک تو اس سے نظارہ زیادہ اچھا ملتا تھا دوسرے یہ اس تکلیف سے نجات دیتی تھی اور باقیوں کو بیٹھنے میں سہولت ہوتی تھی۔

ہم اتنی اونچائ پر آچکے تھے جہاں سے نیچے میدان ایک بڑی تصویر کی طرح دکھائ دیتا تھا نیچے میدان میں کسی گاؤں کے آثار تھے چند گھر چند گھر گارے اور لکڑی سے بنے ہوۓ اور وہیں اٹکھیلیاں کرتے دو گاۓ کے بچے تھے ہم اتنی انچائ پر تھے کہ وہ مجھے بہت چھوٹے چھوٹے سے دکھائ دیتے تھے قلانچے پھرے بھاگتے ہوۓ۔

جس راستے پر ہم سفر کر رہے تھے وہ اب ایک کچہ راستہ تھا اوپر کی طرف سے آیا ہوا پانی کہیں کہیں کھڑا ہوتا اور کہیں راستے کو گیلا کرتا ہو نیچے جارہا تھا جسکی وجہ سے کیچڑ ہوجانے کی وجہ سے مٹی نرم پڑ گئ تھی اور جیپ جھٹکے لیتی تھی۔

چاروں طرف دبیز سبزہ زار میدان اورمنظر میں وسعت گھاس اتنی وافر اور اتنی سبز سبز کہ بعض اوقات اس پر سیاہی کا گمان ہوتا سامنے اور چاروں طرف پہاڑ سیاہی مائل اور انکی چوٹی پر برف ایسی جیسی چونا چھڑکا گیا ہو انکے ساتھ بادل اس طرح لگے ہوۓ تھے کہ کہیں کہیں وہ بادل بھی انہی پہاڑوں کا حصہ معلوم ہوتے تھے وہیں سے آتا ہوا پانی جو پورے میدان میں لکیروں کی صورت میں پھیل گیا تھا اور سورج کی روشنی میں چمکتا تھا اور کہیں کہیں پانی کے آنے کی صرف نالیاں سی تھیں جنکا پانی یا تو سوکھ چکا تھا یا راستہ بدل چکا تھا اور صرف آڑی ترچھی لکیریں باقی رہ گئ تھیں۔ کہیں کہیں انہی پہاڑوں پر بادل اس طور سایا کرتے تھے کے پورے کے پورے بادل چھپے ہوۓ نظر آتے تھے ابھی تک ایک بھی پھول نہیں نظر آیا تھا اسی طلسماتی یکسانیت والے منظر میں ہم کافی دیر تک چلتے رہے کچھ آگے ہمیں کافی دور پر کچھ دھبے نظر آۓ سیاہ اور سفید رنگت کے مجھے ان پر یاک کا گمان ہوا نزدیک ہوۓ تو ہم نے دیکھا وہ گھوڑے تھے ریشمی ایال اور خوبصورت آنکھوں والے گھنی دمیں ہلاتے ہوۓ ادھر ادھر بھاگتے ہوۓ انکے بدن کسے ہوۓ اور سڈول تھے چمکیلی رنگت سیاہ اور سفید اور کتھئ انکی موجودگی ماحول کو ایک الف لیلوی رنگ دے رہی تھی ایسا محسوس ہوا کہ کچھ ہی لمحوں میں یہ اپنے ماتھے پر موجود سینگھ کو ظاہر کریں گے اور اپنے نادیدہ پروں سے پرواز کرنا شروع کر دیں گے۔

جیسے جیسے ہم آگے سفر کرتے جا رہے تھے ویسے ویسے پہاڑ پرے ہوتے جا رہے تھے اور منظر وسیع ہوتا جا رہا تھا گھاس وہاں وہاں تک تک تھی جہاں جہاں تک جیپ کے چلنے کا راستہ تھا اور یہاں پر ہی میں نے پہلا مارموٹ دیکھا سنہری رنگ کا ایک بڑے بلے کی جسامت کا کچھ کچھ نیولے سے مشابہ کچھ ڈرپوک سا اپنی پچھلی دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہو کر ہمیں دور سے آتا دیکھ کر ہی جھٹ اپنے بل میں گھس جاتا یا اوپر بھاگ کر روپوش ہو جاتا گلہری نما سنہری رنگت اور کالی تھوتھنی والا یہ جانور سبزی خور ہے اور ابھی انسان سے مانوس نہیں یا دور اندیش ہے اور بھاگ جاتا ہے کہ یہ دھوکے باز انسان پہلے دھوکے سے دوستی کرے گا پھر یا تو بلا وجہ شکار کرے گا اور کھال میں بھس بھروا کر اپنے ڈرائنگ روم سجاۓ گا اور آنے جانے والوں سے داد وصول کرے گا یا پھر پکڑ کر لے جاۓ گا اور قید کرے گا ویسے تو دیوسائ کو نیچرل پارک کا درجہ دینے کہ بعد وہاں شکار کی مکمل طور پر پابندی ہے لیکن اپنے دفاع میں روپوشی اختیار کرنا اس چھوٹے سے معصوم جانور کا حق ہے۔

جوں جوں ہم آگے پڑھ رہے تھے ویسے ویسے پھولوں کے انبار کے انبار زمین کے ساتھ ساتھ بچھے ہوۓ نظر آنے لگے تھے بے شمار رنگوں کے بے شمار قسموں کے جو کہ صرف اسی میداں میں پیدا ہوتے ہیں اور یہاں ہی مرجھا کر ختم ہو جاتے ہیں دنیا میں کہیں اور انکی قسم کا کوئ ایک پھول نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے یہ پھول اپنے ایکو سسٹم سے جڑے ہیں اور دنیا میں کہیں بھی انکی کاشت ممکن نہیں۔

اتنے رنگوں اور اتنی قسموں کے پھول یہ انعام تھا میرا گھر سے نکلنے سفر کرنے اور یہاں تک آنے کا گھاس جو تھی اسکے بیچ پیلے پیلے چھوٹے چھوٹے پھول ٹانکے گۓ تھے میرے دائیں طرف جو راستہ اوپر کو جا رہا تھا تو وہاں جو پھول تھے انکی قسم اور شکل اور رنگت سب جدا تھی یہ جامنی رنگ کے لمبی ڈنڈیوں والے باریک پتیوں والے پھول تھے جو گچھوں کی صورت اوپر سے لٹکتے تھے کچھ پھول زمین پر چادر کی طرح بچھے ہوۓ تھے جو زیادہ تر سفید تھے اور کچھ کانٹے دار پھول تھے جو خون رنگ تھے اور کچھ سرخ اور نارنجی الگ الگ اپنی بہاریں دکھا رہے تھے۔
نیلے ،پیلے ،اودے ،بنفشئ ،چمپئ ،آتشیں اور ہر پھول کی ساخت فرق ہر کی بناوٹ فرق۔

 ایک نظر میں جب انتےپھول ہوں اور ہر پھول میں اتنے رنگ ہوں اور اس سے پرے ایک شفاف نیلا آسمان اور دودھیا سفید بادل ٹکے ہوں اور پہاڑوں پر برف ہو اور حسین جانور آپکو خوش آمدید کہتے ہوں اور ہر ہر منظر پکار پکار کر اس خالق ثنا کرتی ہو تو آپ چاہے کتنے بڑے منکر کیوں ناں ہوں آپ پسپائ اختیار کرلیتے ہیں اپنی ہار تسلیم کرتے ہیں اس ذات عظیم کے سامنے  جس کے حکموں کو توڑنے میں اور نا فرمانی میں آپ کی انا کو تسکین ملتی ہے آپ کا دل سجدہ ریز ہوتا ہے۔

انہی اونچی نیچی مسافتوں میں ایک اونچائ سے نیچے اترتے ہوۓ اچانک جھلمل کرتا بہت سا پانی آپ کا منتظر ہوتا ہے یہی شیوسر جھیل ہے مقامی زبان میں جسکا مطلب اندھی جھیل ہے پورا آسمان اپنے اندر سموۓ پانی کا ایک ڈھیر شفاف اتنا کہ پانی میں پڑے پتھر سطح سے دیکھے جا سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment