Saturday 26 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۷


اگر آپکے چاروں طرف سبز گھاس ہو اور اس گھاس میں رنگ رنگ کے پھول ہوں سامنے ایک برف پوش پہاڑ ہو خوبصورت پہاڑی راستے ہوں  اور جھرنے ہوں جن سے دودھ رنگ اور برف جیسا ٹھنڈا پانی بہتا ہو اور انکے بہنے کی آواز تمام وقت آپکے ساتھ چلے اور کئ کئ کیلومیٹر کوئ ایسا خطہ نہ ہو جہاں سبزہ نہ ہو دھوپ ایسی چمکتی ہوئ ہو کہ سارا منظر آپ کو پیلاھٹ لیا نظر آۓ اور منظر ہر قدم پر بدل جاتا ہو کھیت ہو جن میں گندم اور مکئ کاشت کی گئ ہو اور ہر کھیت میں ایک خطہ پھولوں کا ہو جہاں بیش رنگ پھول ہوں اور انہی پھولوں کے رنگ کے جوڑے پہنی عورتیں کام کرتی ہوں اور اپنے پلو سے آپ کو دیکھ کر اپنا گلاب رنگ چہرا چھپاتی ہوں اور بچے جنکی جلد تازہ خوبانی کی طرح گالوں پر لالی ہو اور انکا دیکھنا آپکو خوش کرتا ہو انکا حسن آپکی آنکھوں کو خیرا کرتا ہو اور یہ سب کچھ اتنا اچانک ہو کے آپ حواس باختہ ہو جائیں تو یقینی طور پر آپ راما میں ہیں۔

استور تک کا راستہ  زیادہ سے زیادہ کوئ 14 سے 15 کیلومیٹر طویل ہے لیکین جیب کے ذریعہ بھی  یہ راستہ آپ کم سے کم ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ میں طے کرتے ہیں جوں جوں آپ استور سے راما کی طرف سفرکرتے ہیں اور استور سے باہر نکلتے ہیں سبزہ بڑھتا جاتا ہے پکڈنڈی نما باریک سی سڑک جسکے ایک طرف پہاڑ اور ایک طرف نیچے گاؤں جہاں کھیت ہیں اور گھر ہیں ایک نہ ختم ہو نے والی غلام  گردش کی طرح گھوہتی ہوئ اوپر اٹھتی جا رہی ہے اور آپ اسکے ساتھ ساتھ ہر منٹ ہر لمحہ اوپر کی طرف جا رہے ہیں راستے میں کئ جگہ ایسا ہوا کے ہبت ساری بکریاں اچانک ہمارے راستے میں آجا تیں اور ہمیں  رک کر انکو راستہ دینا پڑتا اور وہ گھبرا کر کبھی پہاڑ پر اور کبھی نیچے کی طرف بھاگتیں اور ہمیں راستہ دیتیں۔

اسی طرح چکراتے ہوۓ ہم نے ایک موڑ کاٹا اور سامنے ایک دم نیا منظر تھا ایک وسعت تھی اور گھنے درخت اور سبزہ ایک میدان کی سے کیفیت تھی اور اتنا اچانک تھا کہ ہم حیران رہ گۓ اب سامنے ایک سیدھی سڑک جسکے دونوں اطراف دیودار کے گھنے درخت اور کوئ ایک بھی سو فیٹ سے کم لمبا نہ ہوگا اور یہ اتنی تعداد میں تھے اور اتنے گھنے تھے کہ اگر آپ انکے ساۓ میں چلے جائیں تو اندر مکمل اندھیرا تھا یا میری آنکھیں بہت تیز دھوپ کی وجہ سے چندھیا گئ تھیں کے مجھے اندھیرا معلوم ہو رہا تھا بہرحال جونہی یہ میدان آیا اور ہم نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہماری جیپ کو روک لیا گیا آگے ایک چیک پوسٹ تھی۔

ہم سب کو اتارا گیا اور مکمل تفتیش کی سب کے شناختی کارڈ طلب ہوۓ کتابچہ میں اندراج ہوا چوکی پر دو سپاہی موجود اور دونوں ہی ہمارا اندراج کرنے اور روکے جانے پر جیسے شرمندہ سے تھے اور بار بار اپنے ڈیوٹی پر ہونے کا عذر پیش کرہے تھے کے جناب ہماری بھبی ڈیوٹی ہے یوں مہمانوں کو پریشانی ہوتی ہے لیکن حالات اب اچھے نہیں ہیں نا تو اس لیۓ روکنا پڑتا ہے اس طرح آپ لوگ اتنی دور سے آے ہیں اس طرح پریشان کرنے میں اچھا تو نہیں لگتا ناں اور بضد ہوگۓ کے آپ لوگ ادھر ادھر گھومیں تصویریں وغیرہ بنائیں کچھ دیر آپ کے لۓ چاۓ آ رہی ہے ہم نے بڑی مشکل سے انکو روکا اپنے آگے مزید سفر اور ناشتہ کر کے آنے کا یقین دلا کر اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔

ہم آگے چلے راستے میں ہمیں کسی سکول کے بچے ملے جو اپنی استانیوں کے ساتھ پکنک منانے کے لیۓ جا رہے تھے ہر بچے کے ہاتھ میں کوئ نہ کوئ سامان تھا اور استانیاں ساتھ ساتھ چلتی تھیں جنہوں نے ناں تو ہمیں دیکھ کر کوئ خاص تاثر دیا نہ ہی اپنی چادریں ڈال کر اپنا چہرہ چھپایا ہمیں تھوڑی حیرت کا سامنا ہوا کہ یہ پہلا واقعہ تھا  کچھ اور آگے چلے تو لکڑی اور پتھر کی بنی ایک نہایت خوبصورت عمارت آگی یہ پی ٹی ڈی سی موٹل راما کی پر شکوہ عمارت تھی اسکی بناوٹ میں کہیں بھی کوئ کمی نہیں چھوڑی گئ تھی اور اگلے حصے میں لکڑی کا کام اس صفائ اور خوبصورتی سے کیا گیا تھا جسکی مثال ملنا مشکل ہے بلا شبہ یہ پاکستان کی سب دلکش ترین عمارتوں میں سے ایک ہے عمارت کو خوبصورتی وہاں کا ماحول بھی دے رہا تھا چاروں طرف درخت اور پیچھے ایک پہاڑ کا منظر جسکی چوٹی پر ہلکی سی برف ابھی بھی باقی تھی۔

یہیں ہم نے اپنی گاڑی چھوڑی اور باقی کا سفر یہاں سے پیدل کرنا تھا ویسے تو جیپ اس مقام سے آگے بھی جا سکتی تھی لیکن ہم چونکے تازہ دم تھے لہذُا یہی فیصلہ ہوا کے آگے کا سفر پیدل کیا جاۓ میری شدید خواہش تھی اس عمارت کو اندر سے دیکھنے کی لیکن وقت کی کمی کے باعث اس وقت مکمن نہیں تھا تو یہ فیصلہ کیا گیا کے واپسی پر اگر وقت ہوا تو ہم یہاں پر ایک پیالی چاۓ پی کر کچھ وقت گزاریں گے۔
ہم تیار ہوۓ اور راما لیک کی طرف سفر شروع کیا۔


No comments:

Post a Comment