Monday 21 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۶


اگلی صبح میں جلدی اٹھا اتنا جلدی کے ابھی سورج بھی نہیں نکلا تھا وہیں بستر میں لیٹا دریا کے بہنے کی مسلسل موسیقی سنتا رہا جب وقت کافی گرز گیا اور کچھ روشنی ہو گئ تو کمرے سے باہر آیا ہوٹل کی پچھلی سمت جہاں دریا تھا اس طرف چلا گیا یہ والا حصہ دریا کی سمت ہونے کی وجہ سے اونچائ پر تھا اور دریا وہاں سے کچھ دور پر تھا نیچے ایک بازار تھا ایک سڑک نیچے کی طرف ڈھلان میں اتر رہی تھی کئ مکانوں کی چھتیں نظر آرہی تھیں کچھ گھروں کی چمنیاں دھواں دے رہیں تھیں نیچے بازار میں ایک بھی انسان نہیں تھا کچھ مرغے مرغیاں گھوہ رہے تھے دو بکریاں بندھی تھیں ایک کتا لا پرواہی سے چلتا ہوا نیچے کی طرف سے آیا اور اہستہ آہستہ چلتا ہوا بازار سے ہو کر گلیوں میں غائب ہو گیا۔۔۔۔

دریا کا پانی مٹیالی رنگت لیۓ بہتا جا رہا تھا مجھے دریا کا بہت تھوڑا حصہ نظر آرہا تھا اور کنارے پر شائد پورے بازار کی گندگی پھینکی جاتی تھی خالی ڈبے، تھیلیاں ، پلاسٹک کے گلاس بوتلیں اور نہ جانے کیا کیا ہہت بدبو ہو رہی تھی اور پورے ماحول کو بربار کر رہی تھی۔ پاکستان جہاں قدرتی حسن سے مالا مال ہے لیکن ہم لوگوں کے اندر صفائ کا خیال نہ ہونا ایک المیہ سے کم نہیں ہے اچھی بھلی جگہ پر کچرا پھیلا کر اسکے حسن کو غارت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جو لوگ باہر سے جاتے ہیں وہ بھی اور جو وہاں کے باسی ہوتے ہیں وہ بھی۔ تھوڑی دیر میں وہاں کھڑا رہا پھر نیچے اتر آیا۔

نیچے کمرے میں واپس آیا میرے دونوں ساتھی سوۓ ہوۓ تھے اور ہمارے باقی ساتھ بھی ابھی تک سوۓ تھے یا جاگ رہے تھے مجھے معلوم نہیں تھا مگر انکا کمرا بند تھا ابھی میں دوبارہ باہر نکلا سورج کافی اوپر آچکا تھا اور استور مکمل روشنی میں تھا میں ہوٹل سے باہر آیا یہ میری استور سے پہلی ملاقات تھی جہاں میں تھا وہ ایک بازار تھا عموماٗ جیسے پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے اونچے نیچے راستے ہمارا ہوٹل بلندی پر تھا اور وہاں سے نیچے کی طرف بازار تھا جہاں اب تقریباٗ ساری دوکانیں کھل چکی تھیں میں نے واپس آکے اپنے ساتھیوں کو جگا کر تیار ہونے کا کہا اور انکو بتا کر کے میں باہر جا رہا ہوں وہ بھی نیچے ہی آجائیں۔

زیادہ تر دوکانیں لکڑی کے دروازے والی اور چھوٹی چھوٹی تھیں کریانے کی گوشت سبزی کی بیکری اور ہوٹل وغیرہ میرا دل لسی پینے کو چاھنے لگا حالانکہ کراچی میں ایسا کوئ صبح لسی پینے کا رواج نہیں ہے لیکن پھر بھی میرا دل چاہ رہا تھا لسی پینے کو وہیں بازار میں ایک صاحب سے پوچھ لیا کہ یہاں دودھ کی دوکان کہاں ہے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ لاھور سے آۓ ہیں؟ میں نے کہا نہیں کراچی تو وہ بولے جناب آپ کو دودھ سے کیا کرنا ہے؟ میں نے بتایا کے جناب مجھے لسی پینا ہے وہ صاحب بولے بھائ یہاں ایسی کوئ دوکان نہیں ہے جہاں دودھ یا لسی ملے آپکو استور میں رہنے کا کیا فائدہ جب دودھ خرید کر پینا پڑے یہ لوگ گھر میں بکریاں اور گاۓ پالتے ہیں اور انکا ہی دودھ استعمال کرتے ہیں پورے استور میں کوئ دودھ دہی کی دوکان نہیں ہے وہ صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر بولے آپ میرے ساتھ چلیں میرے گھر اور دودھ پیئں میں نے کہیں سن رکھا تھا کے دودھ کی دعوت کو نہیں ٹھکرانا چاھیۓ لیکن اس وقت مجھے سمجھ نہیں آیا کے کیا کرنا بہتر ہے کیونکہ میرے ساتھی بھی آنے والے بھی اور معلوم نہیں ان صاحب کا گھر کتنی دور ہے اگرچہ وہ ضرور کہ رہے تھے کے یہیں پاس میرا گھر ھے اور مجھے اس بات کا کافی تجربہ تھا کہ کسی مقامی کا پاس کتنا دور ثابت ہو سکتا ہے میں نے معذرت کرلی۔

تھوڑی ہی دیر میں میرے باقی دونوں ساتھی بھی آگۓ دونوں مکمل تیار ہو کر آۓ تھے ہم سامنے موجود ایک ہوٹل میں ناشتہ کے غرض سے داخل ہو گۓ معلوم ہوا کے صرف چاۓ اور پراٹھا ملے گا اور کچھ نہیں آج اگر کوئ مجھ سے پوچھے پورے پاکستان میں سب سے اچھا چاۓ پراٹھا کہاں ملتا ہے وہ میں بلا جھجھک استور مین بازار چوک جواب دونگا اتنے خستہ اور ھلکے پراٹھے میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں کھاۓ تھے نا جانے کتنے پراٹھے اور بہت سے چاۓ کے کپ کے بعد ہم باہر آۓ لیکن پیٹ پر ذرا بوجھ نہ تھا۔

واپس ہوٹل آۓ اور اپنا سامان وغیرہ باندھ کر جیپ کے پچھلے حصے میں باندھنا شروع کیا صرف گرم کپڑے اپنے ساتھ رکھ لیۓ جیپ کا اوپری پردہ ھٹا دیا گیا تھا سب سامان وغیرہ باندھ کر اور مکمل اطمنان کرنے کے بعد ہم سب جیپ میں سوار ہوۓ۔ جیپ ایک جھٹکے سے سٹارٹ ہوئ آہستہ آہستہ رینگتی ہوئ ہوٹل سے باہر آئ ہوٹل والے الیاس صاحب گیٹ پر کھڑے ہم کو ہاتھ ہلاتے اور خیر کی دعائیں دیتے رخصت کرتے تھے ہم باہر سڑک پر آۓ اسی رفتار میں بازار کی پتلی گلی کو کراس کرکے بڑی سڑک پر آۓ جیپ نے رفتار پکڑنا شروع کی عدنان نے یو ایس بی لگا کر موسیقی لگائ کوئ شنا زبان کا گیت شروع ہوا جیپ اونچے نیچے راستوں پر رفتار پکڑتی جا رہی تھی ہم راما لیک جا رہے تھے۔

No comments:

Post a Comment