Monday 14 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر ۱



آپکا آگے کا کیا پروگرام ھے سر؟

ہم سکردو جائیں گے

کیسے جائیں گے سکردو سر؟

کیسے جا سکتے ہیں یہاں سے؟؟

یہاں سے ایک تو نیچے سے گاڑی ملے گا دوسرا راستہ استور سے ہوتا ہوا دیوسائ سے جاتا ہے سر۔۔

دیوسائ؟؟؟؟ 

ہاں دیوسائ سر بہت خوبصورت جگہ ہے سر آپ کو تو معلوم ہوگا سر۔۔۔۔ 

ہاں معلوم ہے کیسے جا سکتے ہیں وہاں؟ 

جیپ میں سر۔۔۔۔ 

پیسے کتنے لگیں گے؟؟ 

اور جتنے پیسے بتاۓ گۓ وہ سن کر میرے ارمان ٹھنڈے پڑ گۓ۔۔۔ 


یہ باتیں فیری میڈوز میں دوسرے دن ناشتہ کے درمیان میرے گائیڈ اور میرے درمیان ہوئیں۔۔۔جو ہر بات کے آخر میں سر کہتے تھے اور سین اور رے ک درمیان ایک اضافی الف لگاتے تھے جو سار کا تلفظ دیتا جو سننے میں بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔۔۔۔۔میں نے بعد میں جواب دینے کا کہا اور مجھے لالچ دیا گیا کہ ساتھ میں استور اور راما لیک بھی دکھائ جاۓ گی سر۔۔۔۔

گوکہ میں جہاں تھا وہاں ہونا جنت سے کم نہیں تھا اور واقعی جنت ہی تھا لیکن ایک ہوس ہوتی ہے یا تجسس ہوتا ہے ان دیکھے کو دیکھنے کا اور جب کہ وہ پاس ہو اور حاصل کیا جا سکتا ہو۔۔۔۔

میں جہاں تھا وہاں ہونا بھی میرے لیۓ بہت تھا کیوںکہ میرا کئ مرتبہ ترتیب دینے کے بعد ممکن ہوا کبھی ھمسفر کی تلاش اور بعد میں نانگاپربت بیس کیمپ پر ہونے والا واقعہ جہاں ملکی سطح پربدنامی کا باعث بنا وہاں مجھے بھی کافی پریشانی دے گیا ۔۔۔۔ اپنے ساتھیوں کو یہاں تک لانے میں معلومات کا پوشیدہ رکھنا۔۔۔ جھوٹ اور حسب توفیق دھوکہ دہی بھی شامل تھی۔۔۔

میرے ساتھ جو دو افراد تھے وہ دونوں کے دونوں ہی پہلی مرتبہ گھر سے دور اتنا لمبا سفر کر آۓ تھے اور ایک تو خیر سے دوسری مرتبہ کراچی سے باہر نکلے تھے اور دونوں بہت خوش تھے۔۔۔ایسے میں مزید سفر کے لیا کہنا اور مزید پیسے خرچ کرنے کو بولنا میرے لیا مشکل تھا۔۔۔۔

دیوسائ کے بارے میں نہ تو میں نے کچھ زیادہ پڑھا تھا ناں ہی کوئ ایسی خواہش تھی مجھے اتنا معلوم تھا کہ وہاں پھول ہیں اور سال کا زیادہ تر حصہ برف سے ڈھکا رہتا ہے اور وہاں ریچھ ہوتے ہیں اور حسن ہے وہاں بہت۔۔۔۔۔ تو حسن فیری میڈو میں بھی تھا اور برف یہاں بھی گرتی ہے پھول بھی ہیں اور ریچھ نہیں ہے لیکن وہ میں نے دیکھ رکھا ہے لیکن ایک بات تھی دوسائ میں وہ یہ کہ میرے تمام جاننے والوں میں کوئ بھی دیوسائ نہیں گیا تھا اور یہ میرے پاس پہلا موقع تھا ان پر سبقت لے جانے کا اور میں اسکو کھونا نہیں چاھتا تھا ۔۔۔

یہ ایک حقیقت ہے چاہے کوئ کتنا ہی جھٹلاۓ سیاحوں کے گروہ میں اگر آپ وہ واحد ہوں جو وہاں سے آۓ ہوں جہاں دوسرے نہ پہنچ پاۓ ہوں تو آپ ویسا ہی محسوس کرتے ہیں جو مرغیوں کا رکھوالا وہ واحد مرغا کرتا ہے جس کی گردن میں ایک خاص اکڑ اور چال میں ایک اتراہت ہوتی ہے۔۔۔ میں بھی وہی مرغا بننا چاھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment