Saturday 19 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۵


ہم استور میں تھے لیکن وہاں چکور نہیں تھے ایک بھی چکور نہیں شائد اس لۓ کہ چاندنی نہیں تھی اور استور کے سارے چکور چاندنی رات میں چاند کی طرف پرواز کر گۓ تھے میں نے کئ لوگوں سے سنا اور مجھے بتایا گیا کے چکور پہلے کبھی ہوا کرتے تھے اورشاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ پیاڑوں میں رہا کرتے تھے اب جب کے آبادی بڑھتی جا رہی ھے اور شاہراہ ریشم پر ٹریفک بڑھتا جا رہا ہے تو اب چکور پرواز کر گۓ اور اوپر پہاڑوں میں چلے گۓ میں یقین سے کچھ نہیں کہ سکتا کہ میری اپنی کوئ تحقیق نہیں اس بارے میں چکور پہاڑ پر گۓ یا چاند پر لیکن مجھے افسوس ضرور تھا انکے چلے جانے گا۔۔۔

جس وقت ہم استور پہچے تھے تو رات گہری ہو چکی تھی ہمیں کہا گیا تھا کے وہاں جاتے ہی تھانہ میں اندراج کروانا ہوگا ہم ہوٹل سے پتہ کرکے تھانے پہچے تو معلوم ہوا کے تھانہ بند ہو چکا ہے ہم حیران تھے پھر بھی اندر گۓ تھانے کے اندر ہی سپایہوں کے رہنے کے کمرے بھی تھے ایک سپاہی جو گیٹ پر ڈیوٹی دیتا تھا ہمارے ساتھ اندر گیا اور کمروں میں جا کر کسی کو بلا لایا معلوم ہوا وہ بھی سپاہی تھا اور اندراج نہیں کر سکتا تھا یہ کام منشی کرے گا جو گھر جا چکا تھا ایک صاحب جو سب سے سینیر تھے شائد انہوں نے چارج لیا اور ہم پر خفا ہوۓ کے آپکو یہی وقت ملا یہاں آنے کا؟

انہوں نے اندراج کرنا شروع کیا تو میں نے آخر پوچھ لیا کے کہ جناب یہ تھانا بند ہوجانا اور سب کا "آف ڈیوٹی" ہوجانا کچھ سمجھ نہیں آیا کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے پولیس کی کہیں بھی تو انہوں نے کہا:

"جناب یہ استور ہے آپکا کراچی نہیں ہے یہاں چوری ڈکیتی کی کوئ واردات نہیں ہوتی نہ ہی کسی کو سڑک پر گولی ماری جاتی ھے یہاں امن ہے سر اور اگر ضرورت پڑ جاۓ تو سب آس پاس ہی رہتے ہیں آجائیں گے 5 منٹ میں 

مجھے شرم سی آگئ اور اس سے بڑھ کر دکھ ہوا اپنے شہر کے حالات پر۔۔۔ ہم اٹھے اور واپس آگۓ

ہوٹل میں کمرہ مل چکا تھا اور ہوٹل کے مینیجر صاحب ہمارے کمرے میں آے اور پوچھا کے سر کھانا تو کھائیں گے نا آپ لوگ؟؟

ہم کو کھانے کی کوئ ایسی خواہش نہیں تھی اور ہم اپنے ساتھ خشک خوراک لیکر چلے تھے جسمیں بسکٹ بھنے ہوۓ چنے اور کھجور وغیرہ تھی لیکن وہ ہمارا جواب سنے بغیر بولے کے سر کھانا کھا لیں آپ مہمان ہیں اور سفر کر کے آرہے ہیں۔۔

تو سر کیا کھائیں گے آپ لوگ؟

ہم نے ان سے پوچھا کے آپکے پاس کیا ھے کھانے میں جو جواب ملا کے ابھی تو صرف دال ہی بچی ھے لیکن بہت اچھی ھے بائ گاڈ۔۔

ہم نے کہا جی لے آئیں وہی وہ گۓ اور پانچ منٹ بعد دوبارہ آگۓ کے سر میں نے چیک کیا ہے آدھا چکن رکھا ہوا تھا میں نے وہ بھی لگوا دیا ھے آپکے لیۓ سر آپ مہمان ہیں نا تو خیال کرنا ہمارا فرض ہے۔۔ویسے کہاں سے آرہے ہیں آپ لوگ؟؟

ہم نے بتایا کے ہم فیری میڈوز سے آرہے ہیں تو وہ بولے سنا ہے بہت خوبصورت جگہ ہے میں تو گیا نہیں کبھی وقت ہی نہیں ملتا جب سیزن ہوتا ہے تو یہاں رش بہت ہوتا ہے اب تو ٹورسٹ بھی نہیں آتے سر ملک کے حالات نے ہم کو سب سے زیادہ نقصان دیا ہے کراچی کے حالات خاص طور پر اور کراچی کو چھوڑ کر پورے ملک کے کون سے اچھے رہ گۓ ہیں حالات اب تو ہمارے علاقے میں بھی مار دۓ نانگا پربت میں سر آپ جانتے ہیں نا کے ٹورسٹ آتا ہے تو روزگار لاتا ہے ہمارے لۓ ہمارے علاقے میں پورے گلگت بلتستان میں ہمارے لوگ پریشان ہیں سر ہم تو امن والے لوگ ہیں سر ہمارے لوگ محنت کرتے ہیں سامان لاد کر پہاڑوں میں جاتے ہیں حفاظت کرتے ہیں ٹورسٹوں کی سر یہ جو دوکانیں کھول کر بیٹھے ہوۓ ہیں سر مارکیٹ میں تو یہ کس کے لیۓ بیٹھے ہیں یہاں والا تو نہیں لیتا ناں یہ سب سر؟؟ حکومت کچھ نہیں کرتی ہماری ہم خود کرتے ہیں سب یا چائنا کرتا ہے اور وہ بھی ادھر ھنزہ میں کرتا ہے کیونکہ اسکا فائدہ ہے ناں وہاں سے ٹریڈ ہوتا ہے ناں سر یہاں اتنا فائدہ نہیں ہے تو ادھر کے لوگ خود کرتے ہیں۔۔۔۔ حالات اگر ایسے رہے ناں سر تو بہت کم وقت میں یہ سب لوگ یہاں سے جانا پڑے گا سر بھوکا تھوڑی مرنا ھے بیوی بچے ہیں سر ہمارے بھی۔۔۔۔"

ہمارا کھانا آگیا تھا وہ ہمیں یہ بول کر کے سر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو میں سامنے ہی بیٹھا ہو ہوں ریسپشن پر نہیں تو میرا کمرہ بھی ساتھ ہی ھے اتنے میں ہوٹل کے اندر تین چار جیپیں داخل ہوئیں جن میں سے کئ نو جوان لڑکے لڑکیاں اترے کچھ بزرگ بھی تھے لڑکیاں دیکھ کر ہمارے خون کی گردش میں اضافہ ہوا کے نا جانے کتنے دن ہوگۓ تھے کسی بھی لڑکی کو دیکھے ہوۓ۔۔۔

کھانے کے بعد میرے دونوں ساتھی لڑکیاں دیکھنے کمرے سے باہر چلے گۓ اور میں ڈائری نکال کر دن بھر کی روداد لکھ رہا تھا موبائل کے سگنل لوٹ آے تھے اور مسلسل پیغامات آرہے تھے امی بھائ بہنوں کو خیریت دینے کے بعد میں نے موبائل بند کردیا کہ میں سفر میں رابطے کا زیادہ قائل نہیں ہوں صرف خیریت کی حد تک ہی محدود رکھتا ہوں اسکا استعمال۔۔۔

ہمارا کمرہ کچھ اس طرح تھا کے سامنے سے تو ہوٹل کا مین گیٹ اور کھانے کا کمرہ دیکھائ دیتا تھا لیکن پیچھے کی طرف ایک کھڑکی تھی جہاں سے دریا کے بہنے آواز مسلسل آرہی تھی اور یہ مسلسل شور پورے ماحول کا حصہ ھی محسوس ہوتا تھا اور اگر وہ نہ ہوتا تو وہ ماحول مکمل نہیں ہوتا تھا۔۔ بلکل ایسا ہی ایک کمرہ گلمت میں میرے زیر استعمال رہ چکا تھا اور یہاں کا ماحول مجھے پرانا وقت بھی یاد دلا رہا تھا گلمت جو اب اس انیا کے نقشے پر موجود ھی نہیں رھا تھا اور مکمل طور پر ایک جھیل بن چکا ھے۔۔۔۔

میں اس مکمل ماحول والے کمرے میں اکیلا لیٹا ہوا سوچ رہا تھا ہوٹل والے کی اور جب سے میں یہاں آیا تھا ہر دوسرا بندہ ںاراض تھا ملکی حالات اور حکومت کی نا اھلی پر کاروبار نہ ہونے پر فیری میڈوز والے قاری رحمت سخت ناراض تھے ان لوگوں پر جنہوں نے نانگا پربت بیس کیمپ والے واقعے کو فیری میڈوز بتایا حالانکہ اسکا کوئ تعلق نہیں اس جگہ سے بقول انے پاس ایک امریکی اور کئ غیر ملکی بکنگ ملتوی کروا دی گئ تھی۔۔ میں سوچ رہا تھا کے ان سب میں قصور کسکا ھے اور ذمہ داری کس پر ڈالنی چاہیۓ کے میرے دونوں ساتھی اندر داخل ہوۓ اور باہر جو دیکھ کر آۓ تھے انکے بارے میں بتانا شروع کر دیا انکی تعداد نین نقش خدوخال ایک دو سے تو گپیں بھی لڑا آۓ تھے اور معلوم کر آۓ تھے کہ لاھور اور فیصل آباد سے ہیں اور گلگت سے استور آۓ ہیں آگے کہاں جانا ہے وہ انکو پتہ نہیں ہے جن دو سے وہ مل کر آۓ تھے ان میں ایک شائد کسی میڈکل کالج سے تھی اور دوسری نے سیکنڈ ایئر کے پیپر دیۓ تھے


No comments:

Post a Comment