Thursday, 17 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۴


اب جبکہ میں ایک اطمنان کی کیفیت میں تھا اور سکون سے تھا تو میں نے فرمان بھائ نے ہم سے کہا کہ آپ لوگ اپنی جیب سے نیچے جائیں اصل میں میرے ساتھ ایک مسئلہ ہو گیا ہے میں اپنی جیب کہ کاغذات اوپر ہوٹل میں چھوڑ آیا ہوں ایک بچہ اوپر بھیجا ہے وہ کاغذات لیکر آۓ گا تو ہم آتے ہیں نیچے آپ تب تک نیچے راۓ کوٹ برج پر انتظار کریں ہمارا شینگریلا ہوٹل میں بیٹھیں کھانا وغیرہ کھا لیں تب تک ہم بھی آجائیں گے۔


فیری میڈوز کا اصول ہے کہ آپ جس جیب کو لیکر اوپر آتے ہیں اسی میں نیچے جانا ہوتا ہے اور ڈرائیور جب آپ کو اتارتا ہے تب ہی آپ سے واپسی کا وقت لیتا ہے اور آپکا تبدیلی کا ارادہ ہو تو بڑی مشکل ہوتی ہے ایک بندہ نیچے جیپ سٹاپ جاتا ہے آپکا پیغام لیکر اور نیا وقت اور دن لکھوا آتا ہے واپسی کا اور ظاہر ہے وہ آپ سے اسکے پیسے وصول کرتا ہے جو کہ اسکا حق ہے کیونکہ وہ کئ گھنٹوں کی مسافت طے کرتا ہے مشقت اٹھاتا ھے

تو ہمیں جو حکم تھا اپنی ہی جیپ سے واپسی کا تو اسی اصول کی وجہ سے تھا کہ ہم اگر فرمان بھائ کے ساتھ جاتے تو انکو اپنی جیب سے جیپ والے وہ کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا ہم نیچے اتر رہے تھے جیپ میں ہمارے علاوہ احمد بھائ اور دو افراد اور بھی تھے ایک تو نوجوان ایک لڑکا تھا دوسرے ایک بابا جی تھے اور یہ بابا جی ہمارے ساتھ فیری میڈوز سے نیچے اترتے ہوۓ آۓ تھے اور راستہ میں ان کے ساتھ کافی باتیں بھی ہوتی رہیں تھیں اور انہوں نے پوچھا تھا تم لوگ کدھر جاؤ گے اور پوچھا تھا کہ استور جاؤ گے؟؟ تو میں نے جواب دیا تھا کہ پتہ نہیں تو انہوں نے کہا تھا کے استور جانا اچھی جگہ ہے استور اور اب میں استور جاتا تھا اور بھی میرے ساتھ تھے۔۔۔۔

ہم راۓ کوٹ پل پر آۓ اور شنگریلا ہوٹل اپنے سامان کے ساتھ داخل ہوۓ تو دوپہر کے ڈیڑھ بجے تھےسخت دھوپ اور گرمی کا عالم تھا ہم پسینے دھول اور گرمی سے پریشان ہوتے تھے کچھ آرام کرنے کے بعد ہم نے وہاں ہی کھانا کھایا اور کرسیوں پر بیٹھے بیٹھے ہی آرام کرتے رہے وہاں لاؤنج میں ایک ٹیلی وژن تھا جس پر شاید ایک ہی چینل آتا تھا کوئ ہندستانی فلم لگی ہوئ تھی نہایت واہیات جو عام حالات میں بلکل نہ دیکھتا مگر اس وقت کوئ چارا نہیں تھا کیونکہ وقت بھی گزارنا تھا

گھنٹے گزرتے جا رہے ایک وقت آیا کے ہم تینوں ہی تشویش میں مبتلا ہو گۓ کے آیا اوپر سے کوئ آۓ گا بھی کے نہیں؟ فرمان بھائ کے ساتھ کوئ مسئلہ تو نہیں ہو گیا؟ ہم آگے کیا کریں گے؟ یہاں رات گزارنی پڑے گی تو یہاں کرایہ اتنا زیادہ ہے غرض ہم مکمل طور پر حالات کے زیر اثر آچکے تھے۔۔۔۔

وقت گزرتا جا رہا تھا میں اب تک تو اپنے ساتھیوں کو تسلی دیتا ہوا آیا تھا لیکن اب خود مجھے تشویش ہونے لگی تھی۔۔۔ کوئ حادثہ؟ کوئ نا خوشگوار واقعہ؟ اور خدا نا خواستہ ہمارے ساتھ کوئ مذاق تو نہیں کیا گیا؟

ساڑھے چھ بجے جب دھوپ کم ہوئ تو ہم قریب ہی بنی ایک فوجی چیک پوسٹ کے ساتھ بنی مسجد میں عصر کی نماز کے لیۓ چلے گۓ یہ مسجد راۓ کوٹ پل کے ساتھ دائیں ھاتھ پر نیچے کی طرف بنی ہوئ تھی جب ہم وضو کرکے کھڑے ہی ہوۓ تھے ہم نے ایک جیپ اوپر سے آتے ہوۓ دیکھی اور اگلی سیٹ پر فرمان بھائ بیٹھے تھےہم دیوانہ وار بھاگتے ہوۓ اوپر آے اور جیپ تک پہنچے فرمان بھائ اور تین اور افراد جیپ سے اتر رہے تھے ہمیں دیکھ کر فرمان بھائ نے ھاتھ ہلایا اور بتایا کہ ہماری جیپ خراب ہو گئ تھی ہمیں اندازا تھا آپ پریشان ہو رہے ہونگے تو ہم دوسری جیب لیکر آۓ ہیں اگر آپ لوگ انتظار میں نہ ہوتے تو پھر ہم اپنا پروگرام آگے بڑھا دیتے۔۔۔۔۔۔

جیپ میں آنے والوں سے ہمارا تعارف ہوا ایک پختون ولی صاحب تھے جو ڈرائیور تھے دوسرے عابد بھائ جو بڑے دلچسپ آدمی ثابت ہوۓ تیسرا ایک خوبرو نوجوان عدنان نام کا جو فرمان بھای کا بھانجا تھا اور ہم سب کو بھائ (الطاف) کا بندہ کہ کر مخاطب کرتا رہا ھمیشہ۔۔۔۔

چونکہ کافی دیر ہو گئ تھی تو جب سفر شروع ہوا تب فیصلہ یہ ہوا کہ آج رات ہم استور میں رکیں گے اور کل صبح آگے سفر شروع کیا جاۓ گا راستے میں جگہ جگہ جیپ کو روکا جاتا مہمانوں کو جیب سے اتارا جاتا شناختی کارڈ لیکر انٹری کی جاتی۔۔۔ نام : جی فیضان قادری کہاں سے آۓ ہیں اچھا کراچی کہاں جا رہے ہیں کتنے دن رکیں گے اور پھر ڈھیر ساری معذرت کرکے اجازت دے دی جاتی آگے جانے کی یوں رکتے رکتے ہم رات تقریباَ ساڑھے دس بجے استور پہچے

No comments:

Post a Comment