فیری میڈوز جہاں پریاں اترتی ہیں اور نانگا پربت کا آنگن کہلاتا ہے ایک طلسم ہے وہاں آپ کو جکڑے رکھتا ہے ہر لمحہ-- وہاں ہوتے ہوۓ کسی اور کے ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی وہاں ہمارا قیام فیری میڈوز کاٹج میں تھا اور وہاں سے نانگا پربت کا نظارہ خوب تھا ہم نے خیموں میں قیام کو ترجیح دی تھی کہ ایک تو قدرت سے قریب تھے دوسرے انکا کرایہ بھی کم تھا۔
ہمارے میزبان آحمد بھائ تھے جو کہ ہمارے گائیڈ بھی تھے نہایت مہمان نواز اور شفیق انسان سنہری داڑھی اور گھنی مونچھوں کے نیچے ھمیشہ مسکراھت ہوتی ہر لمحہ آپ کی خدمت پر مامور ہر لمحہ موجود اگر کچھ دیر کو ہمارے پاس نہ ہوں تو واپس آکر معزرت کرتے کے میں ذرا کام سے ادھر گیا تھا آپکو کوئ پریشانی تو نییں ہوئ؟؟
گلگت بلتستان میں آپ جہاں کہیں بھی سفر کریں جہاں مرضی قیام کریں وہاں آپکو "کسٹمر" نہیں کہا جاۓ گا ھمیشہ مہمان سمجھا جاۓ گا اور آپ سے رویہ بھی وہی رکھا جاۓ گا بعض اوقات آپکو اتنے بیچھے جانے پر کوفت کا احساس بھی ہونے لگتا ہے کیوںکہ ہم اسکے عادی نہیں ہیں ہم شہری رویوں کے عادی ہیں ہمکو شک ہونے لگتا ہے کسی کے بہت زیادہ توجہ دینے مہمان نوازی کرنے سے ایسے لوگوں سے ہم کو سازش کی بو آتی ھے۔۔۔یہ بات سراسر میرے ضاتی تجربات پر مبنی ہے کسی کے انکار یا اقرار یا مختلف تجربات کا ذمہ دار نہیں۔۔۔۔
تو میں اس فیری میڈو میں آحمد بھائ کی مہمانداری میں تھا اور اس روز موسم کچھ خوشگوار نہیں تھا اور نانگا پربت پوری طرح بادلوں میں روپوش تھی اور ایک جھلک بھی نظر نہیں آتا تھا اور شائد ایسا ہی ہوتا ہے کوئ حسینہ آپ کے سامنے ہو تو بھی کچھ ناز کرتی ہے نخرے دکھاتی ہے تو نانگا پربت بھی نخرے کرتی تھی اور اپنا آپ مجھ سے پوشیدہ کرتی تھی حالانکہ میں نے ہزاروں میل کا سفر اسی کے لیا کیا تھا مگر وہ خیال نہ کرتی تھی۔۔۔۔
میں اسلام آباد سے 22 گھنٹے لگاتار سفرکرکے راۓ کوٹ بریج وہاں سے کٹھن مسافت اور چڑھائ کے بعد رات ساڑھے نو بجے فیری میڈوز پہنچا تھا رات کا کھانا کھا کر تھوڑی دیر ہی سویا تھا اور جب ابھی رات ھی تھی اور ٹھنڈ تھی میں اپنے خیمے سے باہر آچکا تھا اور تب ابھی صبح ک چار بجتے تھے جب میں اپنا کیمرا اور جیکٹ لیکر انتظار کرتا تھا کہ سورج جب نکلے گا اور روشنی ہوگی تو پہلی کرن جو پڑے گی تو نانگا پربت جو منظر ہوگا وہ مجھے دیکھنا ہے اور جب سورج نکلا اور اجالا ہوا تب بلکہ اس سے بہت پہلے ہی نانگا پربت نے مجھے دیکھا میرے شوق کو دیکھا اور پردہ کرلیا اور پردہ بھی ایسا کے ایک جھلک نظر نہ آۓ۔۔۔۔ کافی انتظار کے بعد ارد گرد کی کچھ تصاویر بنا کر میں اپنے خیمے میں واپس آگیا
تو اب جو میں ناشتہ کرتا تھا اور کچھ اداس ہوتا تھا تو مجھ سے سوال کیا گیا کہ "سر آپ کا آگے کا کیا پروگرام ھے؟؟" تو میں نے پہلے سے طے شدہ پلان کہ مطابق سکردو جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور جواب میں مجھے دیوسائ سننے کو ملا اور میں اس پر سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا اور ابھی تو یہ جگہ بھی میری لیا ان دیکھی ہی تھی تو میں باہر نکلا اور موسم ویسا ہی تھا تیز چمکیلی دھوپ ہر چیز روشن روشن آنکھیں چندھیا دینے کی حد تک واضح اور شفاف دھلی ہوئ۔ میری نظریں نانگا پربت کی طرف اٹھیں لیکن وہاں ویسے ہی بادل تھے لیکن کسی حد تک چوٹی نظر آتی تھی اب۔۔۔۔
ہم تیار ہوۓ اور بیال کیمپ کی طرف سفر شروع کیا کیونکہ ہم بیس کیمپ جا رہے تھے۔۔۔۔۔ بارش شروع ہو گئ تھی
No comments:
Post a Comment