Wednesday, 16 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۳


اگلے دن صبح جب سورج نکلا تو نانگا پربت نے بھی پردہ ختم کیا بادل چھٹ گۓ انتظار ختم ہوا اور نانگا پربت نظر آئ میں وہیں ایک پتھر پر بیٹھا تھا اور تکتا جاتا تھا سوچنے سمجھنے کی حس جواب دے چکی تھی دیوانہ وار تکے جاتے تھے ۔۔۔ اور تارڑ صاحب جو ایک واقعہ سناتے ہیں مولانا روم اور شاہ شمس تبریز کا کے یہ وہ ہے جسکی تمہیں خبر نہیں تو مجھے بھی خبر نہیں تھی کہ وہ کیا تھا بس ایک حسن تھا جسکے لیۓ الفاظ بنے ہی نہیں جو بیان کرسکیں کہ وہ کیا تھا ایک نظارہ تھا جو آپکو آپکے رب سے قریب کرتا تھا اور کرتا رہے گا انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اللہ نے یہ دنیا اتنی حسین صرف اسکے لیۓ بنائ ہے اور وہ نظارہ اسی کے لیۓ ہوتا ہے جو اسکو دیکھنے کی چاہ رکھتا ھے اور اس وقت وہ منظر میرے لیۓ تھا وہ سارا سبزہ میرے لۓ تھا وہ برف مبعد میرے لیۓ تخلیق ہوا تھا خدا نے نانگا پربت کو میرے لیۓ سجایا تھا اس دن سورج صرف میرے لیۓ نکلا تھا بادل میرے لیۓ چھٹے تھے پرندے میرے لیۓ چہچہاتے تھے سارا سبزہ میرے لیا کھلا تھا صرف میرے لیۓ اور یہ ایک ایسا احساس تھا رب کے حضور شکرگزاری کاجذبہ بیدار کرتا تھا اور آنکھیں نم کرتا تھا۔۔۔۔

میں نے اتنی دیر اس منظر کو دیکھا تھا کہ آج بھی آنکھیں بند کرکے سوچتا ہوں تو وہ منظر ویسا کا ویسا میرے سامنے آجاتا ہے۔۔۔۔


تو جب میں اس پتھر پر بیٹھا تکتا تھا تو مجھے احساس ہوا کے میرا ایک ساتھی میرے ساتھ بیٹھا ہوا ہے اور میں نے اسکی طرف دیکھے بغیر کہا تھا "اگلے سال ہم دیوسائ جائیں گے" اور اسنے جواب دیا تھا " ہاں ضرور" لیکن جب ایک ایسا دن ہو جب پورا منظر آپ کے لیۓ ھی بنایا گیا ہو تو آپکی ساری دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں زبان سے تو میں نے اگلے سال کا کہا تھا لیکن دل میں یہی تھا کہ کاش یہ آج ہی ہو جاۓ اور میں جا سکوں دیوسائ اور میرا پلڑا بھاری ہو جاۓ میں سبقت لے جاوں سب پر کاش۔۔۔۔!!!!


اسی دن ناشتہ کے بعد ہم فیری میڈوز چھوڑنے والے تھے اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق سکردو جا رہے تھے وہاں کیا کرنا تھا یہ معلوم نہیں تھا لیکن اتنا معلوم تھا کہ وہاں سے ہی پنڈی کے لیۓ بس ملے گی۔۔۔۔


اپنے بیگ اپنے کندھوں پر اٹھاۓ مردہ دلی اور بار بار مڑ کر پیچھے دیکھتے ہوۓ ہم نیچے اتر رہے تھے طے یہ پایا تھا کہ احمد بھائ ہمکو جگلوٹ تک چھوڑ دیں گےاور وہاں سے ہمکو سکردو کے لیۓ گاڑی مل جاۓ گی کیونکہ وہ خود بھی جگلوٹ کسی کام سے جا رہے تھے ہم فیری میڈوز سے نیچے اتر کر فیری پوائنٹ تک آگۓ جہاں سے راۓ کوٹ کےلۓ جیب ملتی ہے اور ہم وہاں کچھ دیر آرام کرتے تھے کیوںکہ ہماری جیب ابھی آئ نہیں تھی کہ اچانک دروازہ کھلا اور فرمان بھائ اندر داخل ہوۓ فرمان بھای قاری رحمت صاحب کے بھائ ہیں اور فیری میڈو کاٹج کے مالک ہیں اندر آے مسکراۓ اور بولے

"چل دۓ آپ لوگ؟؟ ابھی کچھ دن اور رکنا تھا نا آپ لوگوں نے"

"ہم سب نوکری پیشہ لوگ ہیں نا غلام لوگ تو وقت کم ہے ذرا ابھی سکردو جائیں گے پھر وہاں سے پنڈی اور پھر کراچی بہت دور ہے"

"اچھا۔۔ ہماری مہمان نوازی میں کوئ کمی ہوئ ہو تو معافی" بدستور مسکراتے رہے "اصل میں اوپر کچھ ہوتا نہیں ہے ہمکو پیاز وغیرہ بھی جگلوٹ سے لانا پڑتا ہے کبھی کوئ چیز نہ ہو تو مزہ پورا نہیں ہو پاتا کھانے میں اور ہم مجبور ہوتےہیں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے تو پلیز اسکو بھلا دیں۔۔۔ اچھا"

تو آپ لوگ کل سکردو پہنچ جائیں گے۔۔۔ میں بھی گھومنے نکلا ہوں آپ سے انشاءاللہ سکردو میں ملاقات ہوگی پرسوں۔۔۔ تب تک تو ہونگے ناں آپ؟؟

سکردو میں کہاں ٹھریں گے آپ؟؟ ہم سکردو پہلی مرتبہ جا رہے تھے کچھ معلوم نہیں تھا

"آپ وہاں قراقرم ھوٹل چلے جانا اور بولنا فرمان نے بھیجا ہے فیری میڈو والے وہ آپکا خیال کرے گا"

ہم انکے مشکور ہوتے تھے اور ہم سے باتیں کۓ جاتے تھے پھر وہ اٹھے اور بولے میں دیکھ کر آتا ہوں آپ لوگوں کی جیب نہیں آئ ابھی تک ۔۔۔۔۔۔


فرمان بھائ اٹھ کر باہر گۓ پھر فورَ اندر آے اور بولے اگر میں ایک آفر دوں آپکو؟؟ جی فرمان بھائ بولیں؟؟ آپ لوگ ہمارے ساتھ کیوں نہیں چلتے؟؟ ہم بھی سکردو جا رہے ہیں یہاں سے پہلے استور جائیں گے وہاں سے راما لیک پھر دیوسائ سے ہوتے ہوۓ سکردو اتار دیں گے آپکو؟؟ کیا خیال ہے آپکا؟؟

اگر آپ کچھ شیر کرسکیں ہمارے ساتھ؟؟

تب میرا دل چاہا کہ روز زور سے ہنسوں یا رونا شروع کردوں یا اچھل کود کروں لیکن خود کو سہبھالا اور سوال کیا واقعی؟؟؟ اور کتنا شیر؟؟


یہاں سے آپ کوئ جیب لیں گے وہ آپسے 25 سے 30 ہزار چارج لیگا لیکن ہم خود بھی جا رہیں ہیں آپکا بھی فائدہ ہو جاۓ آپ 10 ہزار دے دینا۔۔۔۔۔


اور میں نے ایک لمحہ سوچے بغیر جواب دیا۔۔۔ منظور ہے اور اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور آنکھوں مین رضا مندی بھانپ کر سکون کا سانس لیا۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment