Saturday, 26 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۷


اگر آپکے چاروں طرف سبز گھاس ہو اور اس گھاس میں رنگ رنگ کے پھول ہوں سامنے ایک برف پوش پہاڑ ہو خوبصورت پہاڑی راستے ہوں  اور جھرنے ہوں جن سے دودھ رنگ اور برف جیسا ٹھنڈا پانی بہتا ہو اور انکے بہنے کی آواز تمام وقت آپکے ساتھ چلے اور کئ کئ کیلومیٹر کوئ ایسا خطہ نہ ہو جہاں سبزہ نہ ہو دھوپ ایسی چمکتی ہوئ ہو کہ سارا منظر آپ کو پیلاھٹ لیا نظر آۓ اور منظر ہر قدم پر بدل جاتا ہو کھیت ہو جن میں گندم اور مکئ کاشت کی گئ ہو اور ہر کھیت میں ایک خطہ پھولوں کا ہو جہاں بیش رنگ پھول ہوں اور انہی پھولوں کے رنگ کے جوڑے پہنی عورتیں کام کرتی ہوں اور اپنے پلو سے آپ کو دیکھ کر اپنا گلاب رنگ چہرا چھپاتی ہوں اور بچے جنکی جلد تازہ خوبانی کی طرح گالوں پر لالی ہو اور انکا دیکھنا آپکو خوش کرتا ہو انکا حسن آپکی آنکھوں کو خیرا کرتا ہو اور یہ سب کچھ اتنا اچانک ہو کے آپ حواس باختہ ہو جائیں تو یقینی طور پر آپ راما میں ہیں۔

استور تک کا راستہ  زیادہ سے زیادہ کوئ 14 سے 15 کیلومیٹر طویل ہے لیکین جیب کے ذریعہ بھی  یہ راستہ آپ کم سے کم ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ میں طے کرتے ہیں جوں جوں آپ استور سے راما کی طرف سفرکرتے ہیں اور استور سے باہر نکلتے ہیں سبزہ بڑھتا جاتا ہے پکڈنڈی نما باریک سی سڑک جسکے ایک طرف پہاڑ اور ایک طرف نیچے گاؤں جہاں کھیت ہیں اور گھر ہیں ایک نہ ختم ہو نے والی غلام  گردش کی طرح گھوہتی ہوئ اوپر اٹھتی جا رہی ہے اور آپ اسکے ساتھ ساتھ ہر منٹ ہر لمحہ اوپر کی طرف جا رہے ہیں راستے میں کئ جگہ ایسا ہوا کے ہبت ساری بکریاں اچانک ہمارے راستے میں آجا تیں اور ہمیں  رک کر انکو راستہ دینا پڑتا اور وہ گھبرا کر کبھی پہاڑ پر اور کبھی نیچے کی طرف بھاگتیں اور ہمیں راستہ دیتیں۔

اسی طرح چکراتے ہوۓ ہم نے ایک موڑ کاٹا اور سامنے ایک دم نیا منظر تھا ایک وسعت تھی اور گھنے درخت اور سبزہ ایک میدان کی سے کیفیت تھی اور اتنا اچانک تھا کہ ہم حیران رہ گۓ اب سامنے ایک سیدھی سڑک جسکے دونوں اطراف دیودار کے گھنے درخت اور کوئ ایک بھی سو فیٹ سے کم لمبا نہ ہوگا اور یہ اتنی تعداد میں تھے اور اتنے گھنے تھے کہ اگر آپ انکے ساۓ میں چلے جائیں تو اندر مکمل اندھیرا تھا یا میری آنکھیں بہت تیز دھوپ کی وجہ سے چندھیا گئ تھیں کے مجھے اندھیرا معلوم ہو رہا تھا بہرحال جونہی یہ میدان آیا اور ہم نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہماری جیپ کو روک لیا گیا آگے ایک چیک پوسٹ تھی۔

ہم سب کو اتارا گیا اور مکمل تفتیش کی سب کے شناختی کارڈ طلب ہوۓ کتابچہ میں اندراج ہوا چوکی پر دو سپاہی موجود اور دونوں ہی ہمارا اندراج کرنے اور روکے جانے پر جیسے شرمندہ سے تھے اور بار بار اپنے ڈیوٹی پر ہونے کا عذر پیش کرہے تھے کے جناب ہماری بھبی ڈیوٹی ہے یوں مہمانوں کو پریشانی ہوتی ہے لیکن حالات اب اچھے نہیں ہیں نا تو اس لیۓ روکنا پڑتا ہے اس طرح آپ لوگ اتنی دور سے آے ہیں اس طرح پریشان کرنے میں اچھا تو نہیں لگتا ناں اور بضد ہوگۓ کے آپ لوگ ادھر ادھر گھومیں تصویریں وغیرہ بنائیں کچھ دیر آپ کے لۓ چاۓ آ رہی ہے ہم نے بڑی مشکل سے انکو روکا اپنے آگے مزید سفر اور ناشتہ کر کے آنے کا یقین دلا کر اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔

ہم آگے چلے راستے میں ہمیں کسی سکول کے بچے ملے جو اپنی استانیوں کے ساتھ پکنک منانے کے لیۓ جا رہے تھے ہر بچے کے ہاتھ میں کوئ نہ کوئ سامان تھا اور استانیاں ساتھ ساتھ چلتی تھیں جنہوں نے ناں تو ہمیں دیکھ کر کوئ خاص تاثر دیا نہ ہی اپنی چادریں ڈال کر اپنا چہرہ چھپایا ہمیں تھوڑی حیرت کا سامنا ہوا کہ یہ پہلا واقعہ تھا  کچھ اور آگے چلے تو لکڑی اور پتھر کی بنی ایک نہایت خوبصورت عمارت آگی یہ پی ٹی ڈی سی موٹل راما کی پر شکوہ عمارت تھی اسکی بناوٹ میں کہیں بھی کوئ کمی نہیں چھوڑی گئ تھی اور اگلے حصے میں لکڑی کا کام اس صفائ اور خوبصورتی سے کیا گیا تھا جسکی مثال ملنا مشکل ہے بلا شبہ یہ پاکستان کی سب دلکش ترین عمارتوں میں سے ایک ہے عمارت کو خوبصورتی وہاں کا ماحول بھی دے رہا تھا چاروں طرف درخت اور پیچھے ایک پہاڑ کا منظر جسکی چوٹی پر ہلکی سی برف ابھی بھی باقی تھی۔

یہیں ہم نے اپنی گاڑی چھوڑی اور باقی کا سفر یہاں سے پیدل کرنا تھا ویسے تو جیپ اس مقام سے آگے بھی جا سکتی تھی لیکن ہم چونکے تازہ دم تھے لہذُا یہی فیصلہ ہوا کے آگے کا سفر پیدل کیا جاۓ میری شدید خواہش تھی اس عمارت کو اندر سے دیکھنے کی لیکن وقت کی کمی کے باعث اس وقت مکمن نہیں تھا تو یہ فیصلہ کیا گیا کے واپسی پر اگر وقت ہوا تو ہم یہاں پر ایک پیالی چاۓ پی کر کچھ وقت گزاریں گے۔
ہم تیار ہوۓ اور راما لیک کی طرف سفر شروع کیا۔


Monday, 21 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۶


اگلی صبح میں جلدی اٹھا اتنا جلدی کے ابھی سورج بھی نہیں نکلا تھا وہیں بستر میں لیٹا دریا کے بہنے کی مسلسل موسیقی سنتا رہا جب وقت کافی گرز گیا اور کچھ روشنی ہو گئ تو کمرے سے باہر آیا ہوٹل کی پچھلی سمت جہاں دریا تھا اس طرف چلا گیا یہ والا حصہ دریا کی سمت ہونے کی وجہ سے اونچائ پر تھا اور دریا وہاں سے کچھ دور پر تھا نیچے ایک بازار تھا ایک سڑک نیچے کی طرف ڈھلان میں اتر رہی تھی کئ مکانوں کی چھتیں نظر آرہی تھیں کچھ گھروں کی چمنیاں دھواں دے رہیں تھیں نیچے بازار میں ایک بھی انسان نہیں تھا کچھ مرغے مرغیاں گھوہ رہے تھے دو بکریاں بندھی تھیں ایک کتا لا پرواہی سے چلتا ہوا نیچے کی طرف سے آیا اور اہستہ آہستہ چلتا ہوا بازار سے ہو کر گلیوں میں غائب ہو گیا۔۔۔۔

دریا کا پانی مٹیالی رنگت لیۓ بہتا جا رہا تھا مجھے دریا کا بہت تھوڑا حصہ نظر آرہا تھا اور کنارے پر شائد پورے بازار کی گندگی پھینکی جاتی تھی خالی ڈبے، تھیلیاں ، پلاسٹک کے گلاس بوتلیں اور نہ جانے کیا کیا ہہت بدبو ہو رہی تھی اور پورے ماحول کو بربار کر رہی تھی۔ پاکستان جہاں قدرتی حسن سے مالا مال ہے لیکن ہم لوگوں کے اندر صفائ کا خیال نہ ہونا ایک المیہ سے کم نہیں ہے اچھی بھلی جگہ پر کچرا پھیلا کر اسکے حسن کو غارت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جو لوگ باہر سے جاتے ہیں وہ بھی اور جو وہاں کے باسی ہوتے ہیں وہ بھی۔ تھوڑی دیر میں وہاں کھڑا رہا پھر نیچے اتر آیا۔

نیچے کمرے میں واپس آیا میرے دونوں ساتھی سوۓ ہوۓ تھے اور ہمارے باقی ساتھ بھی ابھی تک سوۓ تھے یا جاگ رہے تھے مجھے معلوم نہیں تھا مگر انکا کمرا بند تھا ابھی میں دوبارہ باہر نکلا سورج کافی اوپر آچکا تھا اور استور مکمل روشنی میں تھا میں ہوٹل سے باہر آیا یہ میری استور سے پہلی ملاقات تھی جہاں میں تھا وہ ایک بازار تھا عموماٗ جیسے پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے اونچے نیچے راستے ہمارا ہوٹل بلندی پر تھا اور وہاں سے نیچے کی طرف بازار تھا جہاں اب تقریباٗ ساری دوکانیں کھل چکی تھیں میں نے واپس آکے اپنے ساتھیوں کو جگا کر تیار ہونے کا کہا اور انکو بتا کر کے میں باہر جا رہا ہوں وہ بھی نیچے ہی آجائیں۔

زیادہ تر دوکانیں لکڑی کے دروازے والی اور چھوٹی چھوٹی تھیں کریانے کی گوشت سبزی کی بیکری اور ہوٹل وغیرہ میرا دل لسی پینے کو چاھنے لگا حالانکہ کراچی میں ایسا کوئ صبح لسی پینے کا رواج نہیں ہے لیکن پھر بھی میرا دل چاہ رہا تھا لسی پینے کو وہیں بازار میں ایک صاحب سے پوچھ لیا کہ یہاں دودھ کی دوکان کہاں ہے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ لاھور سے آۓ ہیں؟ میں نے کہا نہیں کراچی تو وہ بولے جناب آپ کو دودھ سے کیا کرنا ہے؟ میں نے بتایا کے جناب مجھے لسی پینا ہے وہ صاحب بولے بھائ یہاں ایسی کوئ دوکان نہیں ہے جہاں دودھ یا لسی ملے آپکو استور میں رہنے کا کیا فائدہ جب دودھ خرید کر پینا پڑے یہ لوگ گھر میں بکریاں اور گاۓ پالتے ہیں اور انکا ہی دودھ استعمال کرتے ہیں پورے استور میں کوئ دودھ دہی کی دوکان نہیں ہے وہ صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر بولے آپ میرے ساتھ چلیں میرے گھر اور دودھ پیئں میں نے کہیں سن رکھا تھا کے دودھ کی دعوت کو نہیں ٹھکرانا چاھیۓ لیکن اس وقت مجھے سمجھ نہیں آیا کے کیا کرنا بہتر ہے کیونکہ میرے ساتھی بھی آنے والے بھی اور معلوم نہیں ان صاحب کا گھر کتنی دور ہے اگرچہ وہ ضرور کہ رہے تھے کے یہیں پاس میرا گھر ھے اور مجھے اس بات کا کافی تجربہ تھا کہ کسی مقامی کا پاس کتنا دور ثابت ہو سکتا ہے میں نے معذرت کرلی۔

تھوڑی ہی دیر میں میرے باقی دونوں ساتھی بھی آگۓ دونوں مکمل تیار ہو کر آۓ تھے ہم سامنے موجود ایک ہوٹل میں ناشتہ کے غرض سے داخل ہو گۓ معلوم ہوا کے صرف چاۓ اور پراٹھا ملے گا اور کچھ نہیں آج اگر کوئ مجھ سے پوچھے پورے پاکستان میں سب سے اچھا چاۓ پراٹھا کہاں ملتا ہے وہ میں بلا جھجھک استور مین بازار چوک جواب دونگا اتنے خستہ اور ھلکے پراٹھے میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں کھاۓ تھے نا جانے کتنے پراٹھے اور بہت سے چاۓ کے کپ کے بعد ہم باہر آۓ لیکن پیٹ پر ذرا بوجھ نہ تھا۔

واپس ہوٹل آۓ اور اپنا سامان وغیرہ باندھ کر جیپ کے پچھلے حصے میں باندھنا شروع کیا صرف گرم کپڑے اپنے ساتھ رکھ لیۓ جیپ کا اوپری پردہ ھٹا دیا گیا تھا سب سامان وغیرہ باندھ کر اور مکمل اطمنان کرنے کے بعد ہم سب جیپ میں سوار ہوۓ۔ جیپ ایک جھٹکے سے سٹارٹ ہوئ آہستہ آہستہ رینگتی ہوئ ہوٹل سے باہر آئ ہوٹل والے الیاس صاحب گیٹ پر کھڑے ہم کو ہاتھ ہلاتے اور خیر کی دعائیں دیتے رخصت کرتے تھے ہم باہر سڑک پر آۓ اسی رفتار میں بازار کی پتلی گلی کو کراس کرکے بڑی سڑک پر آۓ جیپ نے رفتار پکڑنا شروع کی عدنان نے یو ایس بی لگا کر موسیقی لگائ کوئ شنا زبان کا گیت شروع ہوا جیپ اونچے نیچے راستوں پر رفتار پکڑتی جا رہی تھی ہم راما لیک جا رہے تھے۔

Saturday, 19 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۵


ہم استور میں تھے لیکن وہاں چکور نہیں تھے ایک بھی چکور نہیں شائد اس لۓ کہ چاندنی نہیں تھی اور استور کے سارے چکور چاندنی رات میں چاند کی طرف پرواز کر گۓ تھے میں نے کئ لوگوں سے سنا اور مجھے بتایا گیا کے چکور پہلے کبھی ہوا کرتے تھے اورشاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ پیاڑوں میں رہا کرتے تھے اب جب کے آبادی بڑھتی جا رہی ھے اور شاہراہ ریشم پر ٹریفک بڑھتا جا رہا ہے تو اب چکور پرواز کر گۓ اور اوپر پہاڑوں میں چلے گۓ میں یقین سے کچھ نہیں کہ سکتا کہ میری اپنی کوئ تحقیق نہیں اس بارے میں چکور پہاڑ پر گۓ یا چاند پر لیکن مجھے افسوس ضرور تھا انکے چلے جانے گا۔۔۔

جس وقت ہم استور پہچے تھے تو رات گہری ہو چکی تھی ہمیں کہا گیا تھا کے وہاں جاتے ہی تھانہ میں اندراج کروانا ہوگا ہم ہوٹل سے پتہ کرکے تھانے پہچے تو معلوم ہوا کے تھانہ بند ہو چکا ہے ہم حیران تھے پھر بھی اندر گۓ تھانے کے اندر ہی سپایہوں کے رہنے کے کمرے بھی تھے ایک سپاہی جو گیٹ پر ڈیوٹی دیتا تھا ہمارے ساتھ اندر گیا اور کمروں میں جا کر کسی کو بلا لایا معلوم ہوا وہ بھی سپاہی تھا اور اندراج نہیں کر سکتا تھا یہ کام منشی کرے گا جو گھر جا چکا تھا ایک صاحب جو سب سے سینیر تھے شائد انہوں نے چارج لیا اور ہم پر خفا ہوۓ کے آپکو یہی وقت ملا یہاں آنے کا؟

انہوں نے اندراج کرنا شروع کیا تو میں نے آخر پوچھ لیا کے کہ جناب یہ تھانا بند ہوجانا اور سب کا "آف ڈیوٹی" ہوجانا کچھ سمجھ نہیں آیا کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے پولیس کی کہیں بھی تو انہوں نے کہا:

"جناب یہ استور ہے آپکا کراچی نہیں ہے یہاں چوری ڈکیتی کی کوئ واردات نہیں ہوتی نہ ہی کسی کو سڑک پر گولی ماری جاتی ھے یہاں امن ہے سر اور اگر ضرورت پڑ جاۓ تو سب آس پاس ہی رہتے ہیں آجائیں گے 5 منٹ میں 

مجھے شرم سی آگئ اور اس سے بڑھ کر دکھ ہوا اپنے شہر کے حالات پر۔۔۔ ہم اٹھے اور واپس آگۓ

ہوٹل میں کمرہ مل چکا تھا اور ہوٹل کے مینیجر صاحب ہمارے کمرے میں آے اور پوچھا کے سر کھانا تو کھائیں گے نا آپ لوگ؟؟

ہم کو کھانے کی کوئ ایسی خواہش نہیں تھی اور ہم اپنے ساتھ خشک خوراک لیکر چلے تھے جسمیں بسکٹ بھنے ہوۓ چنے اور کھجور وغیرہ تھی لیکن وہ ہمارا جواب سنے بغیر بولے کے سر کھانا کھا لیں آپ مہمان ہیں اور سفر کر کے آرہے ہیں۔۔

تو سر کیا کھائیں گے آپ لوگ؟

ہم نے ان سے پوچھا کے آپکے پاس کیا ھے کھانے میں جو جواب ملا کے ابھی تو صرف دال ہی بچی ھے لیکن بہت اچھی ھے بائ گاڈ۔۔

ہم نے کہا جی لے آئیں وہی وہ گۓ اور پانچ منٹ بعد دوبارہ آگۓ کے سر میں نے چیک کیا ہے آدھا چکن رکھا ہوا تھا میں نے وہ بھی لگوا دیا ھے آپکے لیۓ سر آپ مہمان ہیں نا تو خیال کرنا ہمارا فرض ہے۔۔ویسے کہاں سے آرہے ہیں آپ لوگ؟؟

ہم نے بتایا کے ہم فیری میڈوز سے آرہے ہیں تو وہ بولے سنا ہے بہت خوبصورت جگہ ہے میں تو گیا نہیں کبھی وقت ہی نہیں ملتا جب سیزن ہوتا ہے تو یہاں رش بہت ہوتا ہے اب تو ٹورسٹ بھی نہیں آتے سر ملک کے حالات نے ہم کو سب سے زیادہ نقصان دیا ہے کراچی کے حالات خاص طور پر اور کراچی کو چھوڑ کر پورے ملک کے کون سے اچھے رہ گۓ ہیں حالات اب تو ہمارے علاقے میں بھی مار دۓ نانگا پربت میں سر آپ جانتے ہیں نا کے ٹورسٹ آتا ہے تو روزگار لاتا ہے ہمارے لۓ ہمارے علاقے میں پورے گلگت بلتستان میں ہمارے لوگ پریشان ہیں سر ہم تو امن والے لوگ ہیں سر ہمارے لوگ محنت کرتے ہیں سامان لاد کر پہاڑوں میں جاتے ہیں حفاظت کرتے ہیں ٹورسٹوں کی سر یہ جو دوکانیں کھول کر بیٹھے ہوۓ ہیں سر مارکیٹ میں تو یہ کس کے لیۓ بیٹھے ہیں یہاں والا تو نہیں لیتا ناں یہ سب سر؟؟ حکومت کچھ نہیں کرتی ہماری ہم خود کرتے ہیں سب یا چائنا کرتا ہے اور وہ بھی ادھر ھنزہ میں کرتا ہے کیونکہ اسکا فائدہ ہے ناں وہاں سے ٹریڈ ہوتا ہے ناں سر یہاں اتنا فائدہ نہیں ہے تو ادھر کے لوگ خود کرتے ہیں۔۔۔۔ حالات اگر ایسے رہے ناں سر تو بہت کم وقت میں یہ سب لوگ یہاں سے جانا پڑے گا سر بھوکا تھوڑی مرنا ھے بیوی بچے ہیں سر ہمارے بھی۔۔۔۔"

ہمارا کھانا آگیا تھا وہ ہمیں یہ بول کر کے سر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو میں سامنے ہی بیٹھا ہو ہوں ریسپشن پر نہیں تو میرا کمرہ بھی ساتھ ہی ھے اتنے میں ہوٹل کے اندر تین چار جیپیں داخل ہوئیں جن میں سے کئ نو جوان لڑکے لڑکیاں اترے کچھ بزرگ بھی تھے لڑکیاں دیکھ کر ہمارے خون کی گردش میں اضافہ ہوا کے نا جانے کتنے دن ہوگۓ تھے کسی بھی لڑکی کو دیکھے ہوۓ۔۔۔

کھانے کے بعد میرے دونوں ساتھی لڑکیاں دیکھنے کمرے سے باہر چلے گۓ اور میں ڈائری نکال کر دن بھر کی روداد لکھ رہا تھا موبائل کے سگنل لوٹ آے تھے اور مسلسل پیغامات آرہے تھے امی بھائ بہنوں کو خیریت دینے کے بعد میں نے موبائل بند کردیا کہ میں سفر میں رابطے کا زیادہ قائل نہیں ہوں صرف خیریت کی حد تک ہی محدود رکھتا ہوں اسکا استعمال۔۔۔

ہمارا کمرہ کچھ اس طرح تھا کے سامنے سے تو ہوٹل کا مین گیٹ اور کھانے کا کمرہ دیکھائ دیتا تھا لیکن پیچھے کی طرف ایک کھڑکی تھی جہاں سے دریا کے بہنے آواز مسلسل آرہی تھی اور یہ مسلسل شور پورے ماحول کا حصہ ھی محسوس ہوتا تھا اور اگر وہ نہ ہوتا تو وہ ماحول مکمل نہیں ہوتا تھا۔۔ بلکل ایسا ہی ایک کمرہ گلمت میں میرے زیر استعمال رہ چکا تھا اور یہاں کا ماحول مجھے پرانا وقت بھی یاد دلا رہا تھا گلمت جو اب اس انیا کے نقشے پر موجود ھی نہیں رھا تھا اور مکمل طور پر ایک جھیل بن چکا ھے۔۔۔۔

میں اس مکمل ماحول والے کمرے میں اکیلا لیٹا ہوا سوچ رہا تھا ہوٹل والے کی اور جب سے میں یہاں آیا تھا ہر دوسرا بندہ ںاراض تھا ملکی حالات اور حکومت کی نا اھلی پر کاروبار نہ ہونے پر فیری میڈوز والے قاری رحمت سخت ناراض تھے ان لوگوں پر جنہوں نے نانگا پربت بیس کیمپ والے واقعے کو فیری میڈوز بتایا حالانکہ اسکا کوئ تعلق نہیں اس جگہ سے بقول انے پاس ایک امریکی اور کئ غیر ملکی بکنگ ملتوی کروا دی گئ تھی۔۔ میں سوچ رہا تھا کے ان سب میں قصور کسکا ھے اور ذمہ داری کس پر ڈالنی چاہیۓ کے میرے دونوں ساتھی اندر داخل ہوۓ اور باہر جو دیکھ کر آۓ تھے انکے بارے میں بتانا شروع کر دیا انکی تعداد نین نقش خدوخال ایک دو سے تو گپیں بھی لڑا آۓ تھے اور معلوم کر آۓ تھے کہ لاھور اور فیصل آباد سے ہیں اور گلگت سے استور آۓ ہیں آگے کہاں جانا ہے وہ انکو پتہ نہیں ہے جن دو سے وہ مل کر آۓ تھے ان میں ایک شائد کسی میڈکل کالج سے تھی اور دوسری نے سیکنڈ ایئر کے پیپر دیۓ تھے


Thursday, 17 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۴


اب جبکہ میں ایک اطمنان کی کیفیت میں تھا اور سکون سے تھا تو میں نے فرمان بھائ نے ہم سے کہا کہ آپ لوگ اپنی جیب سے نیچے جائیں اصل میں میرے ساتھ ایک مسئلہ ہو گیا ہے میں اپنی جیب کہ کاغذات اوپر ہوٹل میں چھوڑ آیا ہوں ایک بچہ اوپر بھیجا ہے وہ کاغذات لیکر آۓ گا تو ہم آتے ہیں نیچے آپ تب تک نیچے راۓ کوٹ برج پر انتظار کریں ہمارا شینگریلا ہوٹل میں بیٹھیں کھانا وغیرہ کھا لیں تب تک ہم بھی آجائیں گے۔


فیری میڈوز کا اصول ہے کہ آپ جس جیب کو لیکر اوپر آتے ہیں اسی میں نیچے جانا ہوتا ہے اور ڈرائیور جب آپ کو اتارتا ہے تب ہی آپ سے واپسی کا وقت لیتا ہے اور آپکا تبدیلی کا ارادہ ہو تو بڑی مشکل ہوتی ہے ایک بندہ نیچے جیپ سٹاپ جاتا ہے آپکا پیغام لیکر اور نیا وقت اور دن لکھوا آتا ہے واپسی کا اور ظاہر ہے وہ آپ سے اسکے پیسے وصول کرتا ہے جو کہ اسکا حق ہے کیونکہ وہ کئ گھنٹوں کی مسافت طے کرتا ہے مشقت اٹھاتا ھے

تو ہمیں جو حکم تھا اپنی ہی جیپ سے واپسی کا تو اسی اصول کی وجہ سے تھا کہ ہم اگر فرمان بھائ کے ساتھ جاتے تو انکو اپنی جیب سے جیپ والے وہ کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا ہم نیچے اتر رہے تھے جیپ میں ہمارے علاوہ احمد بھائ اور دو افراد اور بھی تھے ایک تو نوجوان ایک لڑکا تھا دوسرے ایک بابا جی تھے اور یہ بابا جی ہمارے ساتھ فیری میڈوز سے نیچے اترتے ہوۓ آۓ تھے اور راستہ میں ان کے ساتھ کافی باتیں بھی ہوتی رہیں تھیں اور انہوں نے پوچھا تھا تم لوگ کدھر جاؤ گے اور پوچھا تھا کہ استور جاؤ گے؟؟ تو میں نے جواب دیا تھا کہ پتہ نہیں تو انہوں نے کہا تھا کے استور جانا اچھی جگہ ہے استور اور اب میں استور جاتا تھا اور بھی میرے ساتھ تھے۔۔۔۔

ہم راۓ کوٹ پل پر آۓ اور شنگریلا ہوٹل اپنے سامان کے ساتھ داخل ہوۓ تو دوپہر کے ڈیڑھ بجے تھےسخت دھوپ اور گرمی کا عالم تھا ہم پسینے دھول اور گرمی سے پریشان ہوتے تھے کچھ آرام کرنے کے بعد ہم نے وہاں ہی کھانا کھایا اور کرسیوں پر بیٹھے بیٹھے ہی آرام کرتے رہے وہاں لاؤنج میں ایک ٹیلی وژن تھا جس پر شاید ایک ہی چینل آتا تھا کوئ ہندستانی فلم لگی ہوئ تھی نہایت واہیات جو عام حالات میں بلکل نہ دیکھتا مگر اس وقت کوئ چارا نہیں تھا کیونکہ وقت بھی گزارنا تھا

گھنٹے گزرتے جا رہے ایک وقت آیا کے ہم تینوں ہی تشویش میں مبتلا ہو گۓ کے آیا اوپر سے کوئ آۓ گا بھی کے نہیں؟ فرمان بھائ کے ساتھ کوئ مسئلہ تو نہیں ہو گیا؟ ہم آگے کیا کریں گے؟ یہاں رات گزارنی پڑے گی تو یہاں کرایہ اتنا زیادہ ہے غرض ہم مکمل طور پر حالات کے زیر اثر آچکے تھے۔۔۔۔

وقت گزرتا جا رہا تھا میں اب تک تو اپنے ساتھیوں کو تسلی دیتا ہوا آیا تھا لیکن اب خود مجھے تشویش ہونے لگی تھی۔۔۔ کوئ حادثہ؟ کوئ نا خوشگوار واقعہ؟ اور خدا نا خواستہ ہمارے ساتھ کوئ مذاق تو نہیں کیا گیا؟

ساڑھے چھ بجے جب دھوپ کم ہوئ تو ہم قریب ہی بنی ایک فوجی چیک پوسٹ کے ساتھ بنی مسجد میں عصر کی نماز کے لیۓ چلے گۓ یہ مسجد راۓ کوٹ پل کے ساتھ دائیں ھاتھ پر نیچے کی طرف بنی ہوئ تھی جب ہم وضو کرکے کھڑے ہی ہوۓ تھے ہم نے ایک جیپ اوپر سے آتے ہوۓ دیکھی اور اگلی سیٹ پر فرمان بھائ بیٹھے تھےہم دیوانہ وار بھاگتے ہوۓ اوپر آے اور جیپ تک پہنچے فرمان بھائ اور تین اور افراد جیپ سے اتر رہے تھے ہمیں دیکھ کر فرمان بھائ نے ھاتھ ہلایا اور بتایا کہ ہماری جیپ خراب ہو گئ تھی ہمیں اندازا تھا آپ پریشان ہو رہے ہونگے تو ہم دوسری جیب لیکر آۓ ہیں اگر آپ لوگ انتظار میں نہ ہوتے تو پھر ہم اپنا پروگرام آگے بڑھا دیتے۔۔۔۔۔۔

جیپ میں آنے والوں سے ہمارا تعارف ہوا ایک پختون ولی صاحب تھے جو ڈرائیور تھے دوسرے عابد بھائ جو بڑے دلچسپ آدمی ثابت ہوۓ تیسرا ایک خوبرو نوجوان عدنان نام کا جو فرمان بھای کا بھانجا تھا اور ہم سب کو بھائ (الطاف) کا بندہ کہ کر مخاطب کرتا رہا ھمیشہ۔۔۔۔

چونکہ کافی دیر ہو گئ تھی تو جب سفر شروع ہوا تب فیصلہ یہ ہوا کہ آج رات ہم استور میں رکیں گے اور کل صبح آگے سفر شروع کیا جاۓ گا راستے میں جگہ جگہ جیپ کو روکا جاتا مہمانوں کو جیب سے اتارا جاتا شناختی کارڈ لیکر انٹری کی جاتی۔۔۔ نام : جی فیضان قادری کہاں سے آۓ ہیں اچھا کراچی کہاں جا رہے ہیں کتنے دن رکیں گے اور پھر ڈھیر ساری معذرت کرکے اجازت دے دی جاتی آگے جانے کی یوں رکتے رکتے ہم رات تقریباَ ساڑھے دس بجے استور پہچے

Wednesday, 16 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر۳


اگلے دن صبح جب سورج نکلا تو نانگا پربت نے بھی پردہ ختم کیا بادل چھٹ گۓ انتظار ختم ہوا اور نانگا پربت نظر آئ میں وہیں ایک پتھر پر بیٹھا تھا اور تکتا جاتا تھا سوچنے سمجھنے کی حس جواب دے چکی تھی دیوانہ وار تکے جاتے تھے ۔۔۔ اور تارڑ صاحب جو ایک واقعہ سناتے ہیں مولانا روم اور شاہ شمس تبریز کا کے یہ وہ ہے جسکی تمہیں خبر نہیں تو مجھے بھی خبر نہیں تھی کہ وہ کیا تھا بس ایک حسن تھا جسکے لیۓ الفاظ بنے ہی نہیں جو بیان کرسکیں کہ وہ کیا تھا ایک نظارہ تھا جو آپکو آپکے رب سے قریب کرتا تھا اور کرتا رہے گا انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اللہ نے یہ دنیا اتنی حسین صرف اسکے لیۓ بنائ ہے اور وہ نظارہ اسی کے لیۓ ہوتا ہے جو اسکو دیکھنے کی چاہ رکھتا ھے اور اس وقت وہ منظر میرے لیۓ تھا وہ سارا سبزہ میرے لۓ تھا وہ برف مبعد میرے لیۓ تخلیق ہوا تھا خدا نے نانگا پربت کو میرے لیۓ سجایا تھا اس دن سورج صرف میرے لیۓ نکلا تھا بادل میرے لیۓ چھٹے تھے پرندے میرے لیۓ چہچہاتے تھے سارا سبزہ میرے لیا کھلا تھا صرف میرے لیۓ اور یہ ایک ایسا احساس تھا رب کے حضور شکرگزاری کاجذبہ بیدار کرتا تھا اور آنکھیں نم کرتا تھا۔۔۔۔

میں نے اتنی دیر اس منظر کو دیکھا تھا کہ آج بھی آنکھیں بند کرکے سوچتا ہوں تو وہ منظر ویسا کا ویسا میرے سامنے آجاتا ہے۔۔۔۔


تو جب میں اس پتھر پر بیٹھا تکتا تھا تو مجھے احساس ہوا کے میرا ایک ساتھی میرے ساتھ بیٹھا ہوا ہے اور میں نے اسکی طرف دیکھے بغیر کہا تھا "اگلے سال ہم دیوسائ جائیں گے" اور اسنے جواب دیا تھا " ہاں ضرور" لیکن جب ایک ایسا دن ہو جب پورا منظر آپ کے لیۓ ھی بنایا گیا ہو تو آپکی ساری دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں زبان سے تو میں نے اگلے سال کا کہا تھا لیکن دل میں یہی تھا کہ کاش یہ آج ہی ہو جاۓ اور میں جا سکوں دیوسائ اور میرا پلڑا بھاری ہو جاۓ میں سبقت لے جاوں سب پر کاش۔۔۔۔!!!!


اسی دن ناشتہ کے بعد ہم فیری میڈوز چھوڑنے والے تھے اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق سکردو جا رہے تھے وہاں کیا کرنا تھا یہ معلوم نہیں تھا لیکن اتنا معلوم تھا کہ وہاں سے ہی پنڈی کے لیۓ بس ملے گی۔۔۔۔


اپنے بیگ اپنے کندھوں پر اٹھاۓ مردہ دلی اور بار بار مڑ کر پیچھے دیکھتے ہوۓ ہم نیچے اتر رہے تھے طے یہ پایا تھا کہ احمد بھائ ہمکو جگلوٹ تک چھوڑ دیں گےاور وہاں سے ہمکو سکردو کے لیۓ گاڑی مل جاۓ گی کیونکہ وہ خود بھی جگلوٹ کسی کام سے جا رہے تھے ہم فیری میڈوز سے نیچے اتر کر فیری پوائنٹ تک آگۓ جہاں سے راۓ کوٹ کےلۓ جیب ملتی ہے اور ہم وہاں کچھ دیر آرام کرتے تھے کیوںکہ ہماری جیب ابھی آئ نہیں تھی کہ اچانک دروازہ کھلا اور فرمان بھائ اندر داخل ہوۓ فرمان بھای قاری رحمت صاحب کے بھائ ہیں اور فیری میڈو کاٹج کے مالک ہیں اندر آے مسکراۓ اور بولے

"چل دۓ آپ لوگ؟؟ ابھی کچھ دن اور رکنا تھا نا آپ لوگوں نے"

"ہم سب نوکری پیشہ لوگ ہیں نا غلام لوگ تو وقت کم ہے ذرا ابھی سکردو جائیں گے پھر وہاں سے پنڈی اور پھر کراچی بہت دور ہے"

"اچھا۔۔ ہماری مہمان نوازی میں کوئ کمی ہوئ ہو تو معافی" بدستور مسکراتے رہے "اصل میں اوپر کچھ ہوتا نہیں ہے ہمکو پیاز وغیرہ بھی جگلوٹ سے لانا پڑتا ہے کبھی کوئ چیز نہ ہو تو مزہ پورا نہیں ہو پاتا کھانے میں اور ہم مجبور ہوتےہیں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے تو پلیز اسکو بھلا دیں۔۔۔ اچھا"

تو آپ لوگ کل سکردو پہنچ جائیں گے۔۔۔ میں بھی گھومنے نکلا ہوں آپ سے انشاءاللہ سکردو میں ملاقات ہوگی پرسوں۔۔۔ تب تک تو ہونگے ناں آپ؟؟

سکردو میں کہاں ٹھریں گے آپ؟؟ ہم سکردو پہلی مرتبہ جا رہے تھے کچھ معلوم نہیں تھا

"آپ وہاں قراقرم ھوٹل چلے جانا اور بولنا فرمان نے بھیجا ہے فیری میڈو والے وہ آپکا خیال کرے گا"

ہم انکے مشکور ہوتے تھے اور ہم سے باتیں کۓ جاتے تھے پھر وہ اٹھے اور بولے میں دیکھ کر آتا ہوں آپ لوگوں کی جیب نہیں آئ ابھی تک ۔۔۔۔۔۔


فرمان بھائ اٹھ کر باہر گۓ پھر فورَ اندر آے اور بولے اگر میں ایک آفر دوں آپکو؟؟ جی فرمان بھائ بولیں؟؟ آپ لوگ ہمارے ساتھ کیوں نہیں چلتے؟؟ ہم بھی سکردو جا رہے ہیں یہاں سے پہلے استور جائیں گے وہاں سے راما لیک پھر دیوسائ سے ہوتے ہوۓ سکردو اتار دیں گے آپکو؟؟ کیا خیال ہے آپکا؟؟

اگر آپ کچھ شیر کرسکیں ہمارے ساتھ؟؟

تب میرا دل چاہا کہ روز زور سے ہنسوں یا رونا شروع کردوں یا اچھل کود کروں لیکن خود کو سہبھالا اور سوال کیا واقعی؟؟؟ اور کتنا شیر؟؟


یہاں سے آپ کوئ جیب لیں گے وہ آپسے 25 سے 30 ہزار چارج لیگا لیکن ہم خود بھی جا رہیں ہیں آپکا بھی فائدہ ہو جاۓ آپ 10 ہزار دے دینا۔۔۔۔۔


اور میں نے ایک لمحہ سوچے بغیر جواب دیا۔۔۔ منظور ہے اور اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور آنکھوں مین رضا مندی بھانپ کر سکون کا سانس لیا۔۔۔۔

Monday, 14 April 2014

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر ۲



فیری میڈوز جہاں پریاں اترتی ہیں اور نانگا پربت کا آنگن کہلاتا ہے ایک طلسم ہے وہاں آپ کو جکڑے رکھتا ہے ہر لمحہ-- وہاں ہوتے ہوۓ کسی اور کے ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی وہاں ہمارا قیام فیری میڈوز کاٹج میں تھا اور وہاں سے نانگا پربت کا نظارہ خوب تھا ہم نے خیموں میں قیام کو ترجیح دی تھی کہ ایک تو قدرت سے قریب تھے دوسرے انکا کرایہ بھی کم تھا۔


ہمارے میزبان آحمد بھائ تھے جو کہ ہمارے گائیڈ بھی تھے نہایت مہمان نواز اور شفیق انسان سنہری داڑھی اور گھنی مونچھوں کے نیچے ھمیشہ مسکراھت ہوتی ہر لمحہ آپ کی خدمت پر مامور ہر لمحہ موجود اگر کچھ دیر کو ہمارے پاس نہ ہوں تو واپس آکر معزرت کرتے کے میں ذرا کام سے ادھر گیا تھا آپکو کوئ پریشانی تو نییں ہوئ؟؟



گلگت بلتستان میں آپ جہاں کہیں بھی سفر کریں جہاں مرضی قیام کریں وہاں آپکو "کسٹمر" نہیں کہا جاۓ گا ھمیشہ مہمان سمجھا جاۓ گا اور آپ سے رویہ بھی وہی رکھا جاۓ گا بعض اوقات آپکو اتنے بیچھے جانے پر کوفت کا احساس بھی ہونے لگتا ہے کیوںکہ ہم اسکے عادی نہیں ہیں ہم شہری رویوں کے عادی ہیں ہمکو شک ہونے لگتا ہے کسی کے بہت زیادہ توجہ دینے مہمان نوازی کرنے سے ایسے لوگوں سے ہم کو سازش کی بو آتی ھے۔۔۔یہ بات سراسر میرے ضاتی تجربات پر مبنی ہے کسی کے انکار یا اقرار یا مختلف تجربات کا ذمہ دار نہیں۔۔۔۔


تو میں اس فیری میڈو میں آحمد بھائ کی مہمانداری میں تھا اور اس روز موسم کچھ خوشگوار نہیں تھا اور نانگا پربت پوری طرح بادلوں میں روپوش تھی اور ایک جھلک بھی نظر نہیں آتا تھا اور شائد ایسا ہی ہوتا ہے کوئ حسینہ آپ کے سامنے ہو تو بھی کچھ ناز کرتی ہے نخرے دکھاتی ہے تو نانگا پربت بھی نخرے کرتی تھی اور اپنا آپ مجھ سے پوشیدہ کرتی تھی حالانکہ میں نے ہزاروں میل کا سفر اسی کے لیا کیا تھا مگر وہ خیال نہ کرتی تھی۔۔۔۔


میں اسلام آباد سے 22 گھنٹے لگاتار سفرکرکے راۓ کوٹ بریج وہاں سے کٹھن مسافت اور چڑھائ کے بعد رات ساڑھے نو بجے فیری میڈوز پہنچا تھا رات کا کھانا کھا کر تھوڑی دیر ہی سویا تھا اور جب ابھی رات ھی تھی اور ٹھنڈ تھی میں اپنے خیمے سے باہر آچکا تھا اور تب ابھی صبح ک چار بجتے تھے جب میں اپنا کیمرا اور جیکٹ لیکر انتظار کرتا تھا کہ سورج جب نکلے گا اور روشنی ہوگی تو پہلی کرن جو پڑے گی تو نانگا پربت جو منظر ہوگا وہ مجھے دیکھنا ہے اور جب سورج نکلا اور اجالا ہوا تب بلکہ اس سے بہت پہلے ہی نانگا پربت نے مجھے دیکھا میرے شوق کو دیکھا اور پردہ کرلیا اور پردہ بھی ایسا کے ایک جھلک نظر نہ آۓ۔۔۔۔ کافی انتظار کے بعد ارد گرد کی کچھ تصاویر بنا کر میں اپنے خیمے میں واپس آگیا


تو اب جو میں ناشتہ کرتا تھا اور کچھ اداس ہوتا تھا تو مجھ سے سوال کیا گیا کہ "سر آپ کا آگے کا کیا پروگرام ھے؟؟" تو میں نے پہلے سے طے شدہ پلان کہ مطابق سکردو جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور جواب میں مجھے دیوسائ سننے کو ملا اور میں اس پر سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا اور ابھی تو یہ جگہ بھی میری لیا ان دیکھی ہی تھی تو میں باہر نکلا اور موسم ویسا ہی تھا تیز چمکیلی دھوپ ہر چیز روشن روشن آنکھیں چندھیا دینے کی حد تک واضح اور شفاف دھلی ہوئ۔ میری نظریں نانگا پربت کی طرف اٹھیں لیکن وہاں ویسے ہی بادل تھے لیکن کسی حد تک چوٹی نظر آتی تھی اب۔۔۔۔


ہم تیار ہوۓ اور بیال کیمپ کی طرف سفر شروع کیا کیونکہ ہم بیس کیمپ جا رہے تھے۔۔۔۔۔ بارش شروع ہو گئ تھی

سفر نامہ شمال--- دیوسائ قسط نمبر ۱



آپکا آگے کا کیا پروگرام ھے سر؟

ہم سکردو جائیں گے

کیسے جائیں گے سکردو سر؟

کیسے جا سکتے ہیں یہاں سے؟؟

یہاں سے ایک تو نیچے سے گاڑی ملے گا دوسرا راستہ استور سے ہوتا ہوا دیوسائ سے جاتا ہے سر۔۔

دیوسائ؟؟؟؟ 

ہاں دیوسائ سر بہت خوبصورت جگہ ہے سر آپ کو تو معلوم ہوگا سر۔۔۔۔ 

ہاں معلوم ہے کیسے جا سکتے ہیں وہاں؟ 

جیپ میں سر۔۔۔۔ 

پیسے کتنے لگیں گے؟؟ 

اور جتنے پیسے بتاۓ گۓ وہ سن کر میرے ارمان ٹھنڈے پڑ گۓ۔۔۔ 


یہ باتیں فیری میڈوز میں دوسرے دن ناشتہ کے درمیان میرے گائیڈ اور میرے درمیان ہوئیں۔۔۔جو ہر بات کے آخر میں سر کہتے تھے اور سین اور رے ک درمیان ایک اضافی الف لگاتے تھے جو سار کا تلفظ دیتا جو سننے میں بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔۔۔۔۔میں نے بعد میں جواب دینے کا کہا اور مجھے لالچ دیا گیا کہ ساتھ میں استور اور راما لیک بھی دکھائ جاۓ گی سر۔۔۔۔

گوکہ میں جہاں تھا وہاں ہونا جنت سے کم نہیں تھا اور واقعی جنت ہی تھا لیکن ایک ہوس ہوتی ہے یا تجسس ہوتا ہے ان دیکھے کو دیکھنے کا اور جب کہ وہ پاس ہو اور حاصل کیا جا سکتا ہو۔۔۔۔

میں جہاں تھا وہاں ہونا بھی میرے لیۓ بہت تھا کیوںکہ میرا کئ مرتبہ ترتیب دینے کے بعد ممکن ہوا کبھی ھمسفر کی تلاش اور بعد میں نانگاپربت بیس کیمپ پر ہونے والا واقعہ جہاں ملکی سطح پربدنامی کا باعث بنا وہاں مجھے بھی کافی پریشانی دے گیا ۔۔۔۔ اپنے ساتھیوں کو یہاں تک لانے میں معلومات کا پوشیدہ رکھنا۔۔۔ جھوٹ اور حسب توفیق دھوکہ دہی بھی شامل تھی۔۔۔

میرے ساتھ جو دو افراد تھے وہ دونوں کے دونوں ہی پہلی مرتبہ گھر سے دور اتنا لمبا سفر کر آۓ تھے اور ایک تو خیر سے دوسری مرتبہ کراچی سے باہر نکلے تھے اور دونوں بہت خوش تھے۔۔۔ایسے میں مزید سفر کے لیا کہنا اور مزید پیسے خرچ کرنے کو بولنا میرے لیا مشکل تھا۔۔۔۔

دیوسائ کے بارے میں نہ تو میں نے کچھ زیادہ پڑھا تھا ناں ہی کوئ ایسی خواہش تھی مجھے اتنا معلوم تھا کہ وہاں پھول ہیں اور سال کا زیادہ تر حصہ برف سے ڈھکا رہتا ہے اور وہاں ریچھ ہوتے ہیں اور حسن ہے وہاں بہت۔۔۔۔۔ تو حسن فیری میڈو میں بھی تھا اور برف یہاں بھی گرتی ہے پھول بھی ہیں اور ریچھ نہیں ہے لیکن وہ میں نے دیکھ رکھا ہے لیکن ایک بات تھی دوسائ میں وہ یہ کہ میرے تمام جاننے والوں میں کوئ بھی دیوسائ نہیں گیا تھا اور یہ میرے پاس پہلا موقع تھا ان پر سبقت لے جانے کا اور میں اسکو کھونا نہیں چاھتا تھا ۔۔۔

یہ ایک حقیقت ہے چاہے کوئ کتنا ہی جھٹلاۓ سیاحوں کے گروہ میں اگر آپ وہ واحد ہوں جو وہاں سے آۓ ہوں جہاں دوسرے نہ پہنچ پاۓ ہوں تو آپ ویسا ہی محسوس کرتے ہیں جو مرغیوں کا رکھوالا وہ واحد مرغا کرتا ہے جس کی گردن میں ایک خاص اکڑ اور چال میں ایک اتراہت ہوتی ہے۔۔۔ میں بھی وہی مرغا بننا چاھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔