Sunday 26 July 2015

فراست بھائ


"السلام وعلیکم ارے  ماموں کیسے ہیں بڑے دنوں بعد نظر آئے۔" میں اپنے ایک دوست سے ملنے اپنے پرانے محلے گیا تو ماموں نظر آگئے یہ میرے سگے یا رشتے کے ماموں نہیں ہیں بلکہ ہر محلے میں ایک صاحب ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہر ملنے والا ماموں ہی بلاتا ہے مجھے انکا اصلی نام بھی معلوم نہیں ہمشہ ان کو ماموں ہی کہا اور سنا۔
"ارے بھیا ہم تو یہاں ہی ہیں آپ ہی عید بقر عید نظر آتے ہیں" ماموں نے شکوہ کیا
"بس مصروفیات اتنی ہوگئ ہیں کہ وقت ہی نہیں ملتا ادھر آنے کا ایک دو مرتبہ آیا تھا لیکن آپ سے ملاقات نہیں ہوئ آپ سنائیں کیا حال چال ہیں"
"ارے بھیا کیا حال چال سنائیں ٹھیک ٹھاک ہیں اللہ کا کرم ۔ارے  ہاں وہ فراست بھائ کا انتقال ہوگیا "
"اپنے فراست بھائ؟ "میں نے قدرے حیرت سے پوچھا
"ہاں بھئ اپنے ہی اور کون سے۔ میں گیا تھا اور تو کوئ تھا نہیں محلے والوں نے دفنادیا  مجھے تو پرانے جاننے والے نے اطلاع کردی ورنہ معلوم بھی نہ چلتا۔"
"کب ہوا انتقال؟"مجھے یقین نہیں آیا تو میں نے دوبارہ پوچھا
"ارے اسی رمضانوں کے مہینے میں شروع کے دنوں میں ہوگیا بس بھئ اللہ بچائے ایسی تنہائ کی موت سے مرنا تو سب نے ہی ہے لیکن ایسے مرنا نہیں چاہتے ہم۔مالک کرم کرے بس"
"ہوا کیسے ویسے تو ٹھیک ٹھاک تھے"
"ارے بھیا خاک ٹھیک ٹھاک تھے۔۔۔ خیر بس وقت ہوگیا تھا چلے گئے" قدرے توقف کے بعد بولے "چلو بھیا ہم چلتے ہیں  کچھ کام سے جا رہے تھے ذرا پھر ملاقات ہوگی خدا حافظ"
ماموں چلے گئے لیکن میں سوچتا رہ گیا۔
میں میٹرک کے امتحان دے کر فارغ ہوا تھا اور اکثر وقت گھر سے باہر رہتا  انہی دنوں میں میری ماموں سے اچھی دوستی ہوگئ ماموں کی عمر ہم سے کوئ دس سال ہی زیادہ ہوگی لیکن پورے علاقے کا ماموں ہونے کی وجہ سے خود پر ایک بزرگی طاری رکھتے ایک دن کہنے لگے
"ادریس بھائ عمرے پر گئے ہیں اپنا سکوٹر چھوڑ گئے ہیں ہمارے ہاں آپ کو چلانا آتا ہے" ماموں نے مجھ سے پوچھا اور میں تب اپنی عمر کے ان دنوں میں تھا جب کسی بھی سواری کو چلانا جاننا باعث فخر ہوتا ہے گوکہ مجھے سکوٹر ایسا کوئ خاص چلانا نہیں آتا تھا لیکن میں نے پھر بھی حامی بھر لی جس پر ماموں نے مجھے چابی پکڑائ اور  ہم  دستگیر سے لیاقت آباد کے ایک پرانے محلے تک محض خود اعتمادی اور ماموں کی حوصلہ افزائ کی وجہ سے پہنچ پائے ورنہ راستے میں چلنے والے دوسرے تمام افراد نے ہمیں کہیں اور بھیجنے کی پوری کوشش کی خیر اس پرانے محلے میں پہنچے پر ہم نے  موٹر سائیکل ایک دوکان کے آگے کھڑا کیا اور وہاں سے پیدل چلے آگے گلیاں تنگ تھیں اور ان میں راہگیر بھی تھے اور دوکانیں بھی ایک گلی کے نکڑ پر بنے ہوئے چائے خانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ماموں نے کہا "یہ ہوٹل یاد رکھئے گا" اسی گلی میں چند گھر چھوڑ کر  ماموں نے خوب جانچ کرنے کے بعد زور  سے دروازہ پیٹا اور کئ مرتبہ پیٹنے پر اندر سے دروازہ کھلا اور صرف لنگی پہنے ادھیڑ عمر کے ایک صاحب برامد ہوئے یہی فراست بھائ تھے۔
بڑے تپاک سے ملے اور دروازے پر ہی باتیں شروع کردیں حال احوال اور ہمارے تعارف کے بعد  جیسے انہیں یاد آیا اور بولے "ارے آپ یہیں کھڑے رہیں گے کیا اندر آجائیں۔"
دروازے کے ساتھ ایک برامدہ تھا اور ایک دیوار سے دوسری دیوار تک ایک الگنی اس طرح بندھی ہوئ تھی کہ گھر کے اندر جانے کیلئے اسے اٹھا کر اور خود جھک کر اس کے نیچے سے گزرنا پڑتا اسی الگنی پر ایک پتلون بھی ٹنگی ہوئ تھی جو اپنے ہی وزن سے سرک کر الگنی کے درمیانی حصہ میں آگئ تھی اور وہ یقینا کئ مہینوں سے سوکھ رہی تھی کہ اس پر گرد جم چکی تھی اسی برامدے میں ایک دیوار کے ساتھ چند سوکھے ہوئے گملے تھے اور دیوار کےساتھ ہی ایک ٹرالی اور بیلچہ رکھا ہوا تھا اس کے علاوہ بھی بہت سا کاٹھ کباڑ جس میں ایک لوہے کا زنگ آلود دروازہ بھی تھا۔
اس دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک کمرہ تھا جسے بیٹھک کہ سکتے ہیں یہاں آدھے فرش پر ایک چٹائ بچھی ہوئ تھی اور ایک کونے میں چادر سے عاری ایک پلنگ بچھا ہوا تھا جس پر کتابوں کا ایک انبار پڑا ہواتھا  اور نیچے کچھ سوٹ کیس اور چند ایک دیگر سامان گھسایا ہوا تھا اوراس پلنگ کے ساتھ ہی  دو کرسیاں تھیں جن کے بان اس قدر ڈھیلے پڑ چکے تھے کہ ان پر بیٹھا نہیں جا سکتا تھا اسی چٹائ پر  چند تکیے اور چادر پڑی ہوئ تھی کئ کتابیں رسالے اور اخبار بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے دیواروں کا رنگ یا تو تھا نہیں اور تھا تو بھی سیاہ پڑ چکا تھا خاص کر ان جگہوں کا جہاں جہاں ہاتھ اکثر لگتے ہیں جیسے بجلی کے بٹن کے ارد گرد اور دروازے کے ساتھ والی دیواریں  سیاہ ہوچکی تھیں چھت سب سے صاف تھی بس مکڑیوں کے بڑے بڑے جالے لگے ہوئے تھے چٹائ  کے پیچھے دیوار پر دو جگہ  سر لگنے کے گول گول نشان تھے  ایک کمرے کی کھڑکی کے نیچے جو باہر برامدے میں کھلتی تھی اور دوسری بجلی کے بلب کے نیچے والی جگہ اور یہ وہ جگہیں تھی جن پر سر ٹکا کر وہ مطالعہ کیا کرتے ہونگے۔
ہمیں بٹھا کر وہ اندر چلے گئے اور جب واپس آئے تو وہ ایک بنیا ن پہنے ہوئے تھے ماموں نے کہیں سے ڈھونڈ کر سگریٹ کا پیکٹ برامد کرلیا تھا اور بیٹھے پھونک رہے تھے فراست بھائ نے واپس آکر ان دو کرسیوں میں سے ایک میں ٹنگ گئے اور ہمارا انٹرویو شروع کردیا کیا نام ہے کیا کرتے ہو کیا پڑھتے ہو کتنے بھائ بہن ہیں والد صاحب کیا کرتے ہیں اور یہ جان کر کہ میرے والد صاحب ٹیچر ہیں وہ اس کرسی میں سے ہل ہل کر باہر نکلے اور مجھ سے مصافحہ کرکے واپس اسی کرسی میں چلے گئے وہ خود بھی کسی مقامی اسکول میں اردو پڑھایا کرتے تھے مزید کچھ دیر ایسے ہی سوال جواب کرتے رہے اس دوران ماموں چٹائ پر پڑی کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف رہے اور جب سوال جواب ختم ہوئے تو ہمیں بولے نوجوان اب آپ چائے بنالیں سب کیلئے اور  اندر کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ باورچی خانہ کہاں ہے اور باورچی خانے کا سماں کچھ یوں تھا کہ بیسن میں گندے برتنوں کا انبار لگا ہوا تھا  اور وہاں پڑا ہوا سڑ رہا تھا اور باقاعدہ بدبو آرہی تھی اور جو وہاں نہیں آسکتے تھے وہ ہر جگہ موجود تھے جیسے چولہے کے اوپر نیچے زمین پر  چمچے چمچیاں استعمال کے بعد ہر جگہ بکھرے ہوئے تھے چولہے پر بھی تیل کی ایک تہ جمی ہوئ تھی  وہاں کا ماحول دیکھ کر طبیعت مالش کرنے لگی میں ابھی ماحول ہی دیکھ رہا تھا کہ کہ فراست بھائ اندر آگئے
"میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں کہ سامان کہاں رکھا ہوا ہے
 انہوں نے مجھے چینی اور چائے کی پتی نکال کردی چینی کے پیکٹ میں چونٹیاں بھری ہوئ تھیں اور ننھے ننھے لال بیگ بھی اور چائے کی پتی جس طرح بازار سے آئ تھی ویسے ہی رکھی ہوئ تھی تو بچی ہوئ تھی "برتن آپ کو نکانے پڑیں گے اس میں سے" انہوں نے مسکراتے ہوئے ہماری طرف دیکھا "اصل میں ہماری بیگم اپنے گھر گئ ہیں ناں" انہوں نے بتایا
"کہیں دوسرے شہر گئیں ہیں کیا کافی دنوں سے نہیں ہیں شاید لگ رہا ہے" میں نے کہا تو وہ بولے کہ نہیں وہ تو اسی شہر میں ہی ہیں اصل میں وہ شادی کے چار روز بعد ہی چلی گئ تھیں ہم کئ مرتبہ گئے منانے مانیں نہیں ہم نے بھی پھر تین حرف پڑھ دئے کہ کیوں باندھ کر رکھیں نہیں رہنا چاہتیں تو نہ رہیں پھر انہیں اچانک یاد آیا کہ چائے کیلئے دودھ بھی چاھئے ہوگا اور کچھ پیسے پکڑا کر بولے کہ بازار سے دودھ لے آؤں میں گھر سے باہر آیا اور اسی نکڑ کی دوکان سے چائے خرید کر لے آیا واپس آیا تو وہ ماموں سے کسی بہت ہی گہرے موضوع پر گفتگو کررہے تھے ہم چائے کے بعد کافی دیر وہیں بیٹھے رہے اور واپس آگئے۔
ان سے دوسری ملاقات میری اردو بازار میں ہوئ انٹر میں میں نے ڈی جے کالج برنس روڈ میں داخلہ لیا اور زیادہ تر وقت پرانے شہر میں گھومتا رہتا اردو بازار کے ساتھ ہی ایک لڑکیوں کا کالج تھا میں اکثر چھٹی سے کچھ دیر پہلے اردو بازار پہنچ جاتا اور جیسی ہی چھٹی ہوتی باہر آجاتا اور وہیں سے بس پکڑتا اس طرح راستہ بھی ٹھیک ٹھاک گزر جاتا اس طرح کالج کی چھٹی سے کچھ دیر پہلے میں اردو بازار پہنچا تو فراست بھائ ایک دوکان کے باہر کھڑے بحث کررہے تھے ان کے پاس کچھ پیسے کم تھے اور وہ اپنا شناختی کارڈ گروی رکھوا کر کتابیں لے جانا چاہتے تھے جس پر وہ راضی نہیں تھا اور فراست بھائ پہلے تو اسے آرام سے سمجھاتے رہے اور بعد میں دوکاندار کو احمق اور الو کا پٹھا قسم کے شریفانہ القابات سے نوازنے لگے مجھے پہچان کر انہوں نے پوری کہانی سنائ میں ان دنوں ٹیوشن پڑھایا کرتا تھا  میرے پاس کچھ پیسے تھے جس میں نے بقایا رقم پوری کی اور کتابیں انکے حوالے کیں اور انکو کھینچ کر وہاں سے الگ کیا اس کے بعد وہ مجھے بس میں اپنے گھر لے کر گئے اور میری رقم واپس کردی۔
اس کے بعد میری ان سے کئ مرتبہ ملاقات ہوئ کبھی راہ چلتے کبھی دوران سفر گھر سے باہر دیکھ کر کوئ بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ صاحب کس قسم کی زندگی گزار رہے ہیں ہمیشہ صاف اور اجلے استری شدہ کپڑوں میں ہوتے قرینے سے سجے ہوئے بال اور شیو کبھی بڑھا ہوا نہیں ہمیشہ ٹھیک ٹھاک حلیہ میں ہوتے لیکن گھر پہنچتے ہی تمام کپڑے اتار کر ہینگر میں لٹکاتے اور وہی لنگی باندھ لیا کرتے گھر میں بس ایک یہی کام کپڑوں کو ہینگر میں لٹکانے کا قرینے سے کرتے اس کے علاوہ شاید ہی کوئ کام ہو جو اس گھر میں ترتیب سے ہو۔
ان ملاقاتوں کے بعد میں اکثر ان کے گھر جانے لگاکبھی کبھی بساط کے مطابق میں انکا گھر صاف کردیا کرتا وہ کبھی منع بھی نہیں کرتے تھے ہاں لیکن کبھی خود سے نہیں کہا کسی کام کو کھانا بنانے کے شوقین تھے اور اکثر بریانی بنایا کرتے طبیعت کے ملنگ تھے اور بلا کے شاہ خرچ پیسہ خرچ کرتے وقت کبھی ایک لمحہ کو نہیں سوچتے تھے کہتے کہ یہ جائے گا تو اور لیکر واپس آئے گا اور واقعی میں نے انکو کبھی پیسے کی تنگی میں نہیں دیکھا حالانکہ جس اسکو ل میں وہ پڑھاتے تھے وہاں انکی تنخواہ ایسی کچھ زیادہ بھی نہیں تھی۔
بلا کے حجتی آدمی تھے کسی بھی بات پر بحث کرسکتے تھے ایک مرتبہ میں ان کے گھر پہنچا تو ان کے دوتین دوست بھی موجود تھے اور اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ گوشت بھوننے سے پہلے ٹماٹر ڈالناچاھئے یا بعد میں  فراست بھائ اپنی بات ثابت کرنے کیلئے بعد میں کئ کھانا پکانے کے رسالے اور کتابیں خرید لائے اور اپنی غلطی ثابت ہونے پر پھر بھی نہیں مانی کہنے لگے ان کو کیا  پتہ گوشت کیسے بھونا جاتا ہے۔
مذہب کے بارے میں ہمیشہ مجھے ایک بات کہتے کہ نوجوان کبھی اس بارے میں پریشان نہیں ہونا بہت آسان ہے بس آپ کو جو اچھا لگتا ہے وہ کرو اور دوسروں کو وہ کرنے دو جو وہ کرتے ہیں ان پر خدائ فوجدار نہ بنو لیکن اللہ رسول ؐ کے حکم سے آگے نہ بڑھو غیبت کرنے اور سننے کے سخت خلاف تھے کبھی ان کے سامنے بات نکل جاتی تو کہتے "میاں کیوں میری عاقبت خراب کرنے پر تلے ہیں آپ" دوسرا اگر مشورہ کی نیت سے کوئ بات کرتا تو پوری بات سنتے اور پھر اپنی رائے دیتے اپنے بارے میں کہتے کہ
"بھئ ہم تو پیٹ کے ہلکے ہیں ہمیں راز نہ بتایا کریں کسی کو کہ دیں اور کل کو روز قیامت آپ ہمارا گریبان پکڑے کھڑے ہوں" لیکن حقیقت میں ان کے سینے میں ہزاروں لوگوں کے انتہائ اہم راز دفن تھے کسی سے کبھی تذکرہ  بھی نہیں کیا ہوگا۔
کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑاتے لیکن دوران گفتگو جملہ بازی بڑی سخت کرتے کوئ بھی بات ایسی مل جاتی جوقابل گرفت ہو تو چھوڑتے نہیں تھے ہمیشہ جملہ لگا کر حاضرین سے داد وصولتے۔
رہتے بھلے ہی گندے گھر میں تھے لیکن دل بڑا صاف تھا کبھی کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں پہنچائ اگر خود کسی کی بات سے دل دکھا تو فورا معاف کرتے کہتے کہ
" اللہ کہ ہاں پکڑ ہوجاتی ہے میں معاف کروں گا تو لوگ مجھے معاف کریں گے یہ تو چین ری ایکشن ہے نوجوان"
پڑھائ اور اسکے بعد نوکری ہونے کی وجہ سے میرا فراست بھائ کے گھر آنا جانا کافی کم ہوگیا  کبھی کبھی ملاقات ہوجایا کرتی ایک مرتبہ ملے تو معلوم ہوا کہ السر کی شکایت ہوگئ ہے اسکی وجہ یقینی طور پر روز روز باہر کھانا کھانا ہی تھی۔
السر اور کثرت سگریٹ نوشی کی وجہ سے وہ دن بدن کمزور ہوتے گئے لیکن عادات اسی طرح قائم رہیں باہر کھانا کھانا اسکول کے بعد اسی طرح گھومتے رہنا کبھی کچھ نہیں تو کراچی پریس کلب میں بیٹھے رہنا۔
ماموں سے ہی معلوم ہوا کہ انتقال کے دو دن بعد  جب گھر کے اندر سے بدبو آ ئی تو محلے والوں کو پتہ لگا کہ یہ مر چکے ہیں ان کا کوئ بھی رشتہ دار کراچی میں نہیں تھا محلے والوں نے ہی کفن دے کر دفنایا  دو دن کی سڑی ہوئ لاش کر دفنانا کوئ اچھا تجربہ نہیں ہوتا چند ایک افراد نے دور دور سے مٹی ڈال کر جلدی جلدی قبر بند کردی اور پھر اسکول وغیرہ سے معلومات کر کے گھر ان کے رشتہ داروں کو اطلاع دی جو رشتے دار ان کی زندگی اور بیماری میں کبھی نہیں آئے وہ مرنے کے بعد کیوں آتے میں انکی قبر پر گیا اور وہاں سے انکے گھر مالک مکان نے اسے کسی دوکان والے کو کرایہ پر دے دیا تھا انکا سامان اور کتابیں اسی پلنگ پر ڈھیر تھیں میں نے اس ڈھیر سے چن کر چند ایک کتابیں اٹھالیں سب پر فراست بھائ کے دستخط بمع تاریخ کے موجود تھے اور یہ کتابیں لے کر گھر آگیا۔
گوکہ مجھے آخری بار ان سے ملے کئ سال گزر چکے ہیں اور مجھے ان کی عادت بھی نہیں رہی تھی لیکن ان کے چلے جانے پر آنسو بہانے کو دل کرتا ہے وہ کہتے ہیں کہ یار زندہ صحبت باقی درحقیقت یار تو مر کر بھی نہیں مرتا بس صحبت ختم ہوجاتی ہے دل بوجھل کیوں نہ ہو۔
لیکن موت کیا صرف موت ہوتی ہے؟
 ایک ایسا تجربہ ہے جس کے بارے میں کوئ بھی نہیں بتا سکتا ۔
مرنے سے پہلے ایک انسان پر کیا کچھ بیت جاتا ہے اس کے بارے میں کوئ نہیں بتا سکتا۔
  کتنے سارے خیالات کتنی ساری کیفیات وابستہ ہوتی ہیں  اس  واقعہ کے ساتھ جن کے بارے میں کوئ نہیں جانتا اور جو یہ جھیل جاتا ہے وہ بتا نہیں سکتا۔
  بے شک ایک دن ہم سب اسی تجربہ سے گزریں گے۔
میرے بچھڑ جانے والے دوست کے نام

 اللہ ان پر ڈھیروں رحمتیں اور راحتیں نازل فرمائے اور انکا شمار اپنے مقرب بندوں میں فرمائے آمین۔

2 comments:

  1. امین ۔۔بہت خوب ایک اچھے انسان کے لیۓ لکھنا جس سے آپ نے بہت کچھ سیکھا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ غریق رحمت کرے امین۔۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. شکریہ اللہ ہم سب پر اپنی رحمت نازل کرے

      Delete