Tuesday 16 June 2015

موت کے سائے


"میں نے کبھی کسی انسان کو مرتے ہوئے نہیں دیکھا" 

"مرے ہوئے انسان دیکھے ہیں بہت دیکھے ہیں لیکن کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ کسی انسان کو مرتے ہوئے دیکھ سکوں زندگی اور موت کے درمیانی وقفے میں ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس کر سکوں ایک انسان کو ایک لاش میں تبدیل ہوتے دیکھ سکوں۔"

بعض اوقات قدرت کی طرف سے انسان کو ایسی طاقت عطا کردی جاتی ہے جس کا اسے اندازہ نہیں ہوتا اور جب اس طاقت کے بارے میں معلوم ہوتا ہے تو انسان صرف بے بس محسوس کرتا ہے۔

میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔۔
مجھے لوگوں کے چہرے پر موت کے سائے نظر آجاتے ہیں موت کی سیاہی ۔۔۔۔

مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص اب مرنے والا ہے اسکے پاس وقت اب سالوں یا دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں بچا ہے کچھ ہی گھنٹوں میں اسکی گھڑی میں لگایا گیا الارم بجنے والا ہے۔

اگر آپ یہ جان جائیں کہ جس شخص کو آپ دیکھ رہیں یہ مر نے والا ہے تو آپ اس شخص کیلئے کیا کرسکتے ہیں ۔۔۔ 

کچھ نہیں۔۔۔

آپ اسے تو کیا کسی کو بتا بھی نہیں سکتے۔

کسی کو یہ بتانا کہ اسکا وقت پورا ہوچکا ہے کل اسکی گھڑی میں لگائے گئے الارم کے بجنے کا دن ہے اور اسی کے ساتھ اسے اٹھنا ہوگا کتنا مشکل کام ہے یہ کوئ نہیں جان سکتا اور جسے یہ خبر دی جائے تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اس بات پر یقین کرلے۔۔۔۔ 

کبھی نہیں معلوم سب کوہے لیکن جانا کوئ نہیں چاہتا۔

کبھی سوچا ہے کہ موت ہے کیا؟

ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ یہ جسے ہم زندگی کہتے ہیں یہی موت ہو اور زندگی ہماری اس موت سے شروع ہو یعنی جسمانی مو ت سےجیسے رات سونے کے بعد صبح دوبارہ اٹھنا اور زندگی شروع کرنا بہرحال جہاں ہیں وہاں نہ ہونا موت ہے۔

مجھے لوگوں کے چہرے پر موت کی تاریکی نظر آجاتی ہے۔

گزرتی زندگی میں بہت سے مقامات پر میں اپنے اندر پیدا ہونے والی اس قوت کا مشاہدہ کیا ہے۔

اٹھارویں منزل سے دیکھنے پر سڑک پرچلتی ہوئ گاڑیاں چونٹیاں لگتی ہیں تیزی سے رینگتی ہوئ رنگ برنگی اور سڑک پر چلنے والے لوگ کیڑے مکوڑے بے وقعت بے فائدہ اور فالتو جلدی جلدی گاڑیوں سے بچتے ہوئے سڑک پر ادھر ادھر بھاگتے ہوئے میں گھنٹوں اپنے دفتر سے دبیز شیشوں کے پیچھے سے ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں بیٹھ کر سڑک کا مشاہدہ کرتا رہتا ہوں صرف کچھ بلندی پر آجانے سے زندگی کتنی بے وقعت ہوجاتی ہے۔

ایسے ہی چلتے ٹریفک میں ایک روز جب گاڑیاں ہارن بجاتی زور سے دوڑ رہی تھیں ایک شخص آتی جاتی گاڑیوں کے درمیان راستہ بناتا دوسرے کنارے جانا چاہتا تھا گزرتی گاڑیوں سے ایک سرکس کے کھلاڑی کی طرح بچتا سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا تھا میں اپنی اسی کھڑکی میں بیٹھ کر اس منظر کواوپر سے دیکھ رہا تھا اورتب ہی میں نے اس شخص کے اوپر منڈلاتی ہوئ موت کو دیکھ لیا چانک بریکیں چرچرائیں شور ہوا مجمع اکٹھا ہواگیا وہ کھلاڑی آخر کو گرگیا ایسے ہی بچتے ہوئے ایک گاڑی اسے چھو گئ اور تب ہی موت نے جھپٹا مارا اور وہ ڈھیر ہوگیا بہت سے انسانوں نے اسے گھیر لیا اور مجھے میری اس امید سے دور کردیا کہ میں ایک زندہ کو مردہ میں تبدیل ہوتا دیکھ سکوں کچھ دیر میں ایمبولینسیں آئیں اور مردہ جسم اٹھا کر لےگئیں۔

کئ سال پہلے انگلستان میں میرے ایک چچا صرف مجھے ملنے لندن سے مانچسٹر اپنی گاڑی پر آئے وہ جتنے دن میرے پاس مقیم رہے مجھ سے صرف موت کے بارے میں باتیں کرتے رہے مجھے بتاتے رہے کہ کب انہوں نے پہلی بار موت کا مشاہدہ کیا کب انہوں نے پہلی با ر کسی مردے کو غسل دیا اور اسی قسم کے بور کرنے والی باتیں دنیا کی بے ثباتی اور موت کے متعلق باتیں کسی نوجوان کو جو ایک آزاد معاشرے میں رہ رہا ہوں اور یہ بھی جانتا ہو کہ وہ ہمیشہ یہاں نہیں رہے گا بہت بور کردینے کوکافی ہیں لیکن میں پھر بھی انکی یہ سب باتیں سنتا رہا جانے سے پہلے وہ مجھ سے ایسے ملے جیسے آخری مرتبہ مل رہے ہوں اگلے دن میرے پاس خبر آئ کہ واپسی پر ہائ وے پر کار ایسیڈنٹ میں انکا موقع پر انتقال ہوگیا انگلستان کا موسم اکثر ابر آلود رہتا ہے۔

میری پیاری نانی کا جب آخری وقت آیا ان کے آخری وقت میں ہسپتال کی انتظار گاہ میں لوگوں کے ہجوم کے آگے دم توڑتے اے سی کی گرمی میں اور عوام کے پسینے سے نچڑتے ہوئے جسموں سے گیلی ہوتی ہوئ کرسیوں پر ایک قیدی کی طرح بیٹھے ہوئے صرف میں ہی تھا جو ہر روز اس خبر کا انتظار کیا کرتا تھا اور اسی خبر کے ساتھ میری آزادی بھی پوشیدہ تھی کہ اب یہ اس دنیا میں نہیں رہیں۔

انہیں گھر سے ہسپتال لاتے ہوئے انکے سرخ وسفید چہرے پر میں نے موت کی سیاہی دیکھ لی تھی بے رحم اور ظالم موت۔

موت انسان کے خوابوں کے توڑنے والی چیز ہے سب ارادے ملیامیٹ کرنے والی ۔

میرے گھر کے سامنے ایک جوڑا آکر آباد ہوا نئی نئی زندگی مستقبل کے خواب، بچے اور انکا مستقبل پھر ان بچوں کے بچے لیکن ایک روز وہ مرد تکلیف کی حالت میں اپنی بیوی کو لیکر بھاگا اور اس سے پہلے اس نے مجھے ہی مدد کیلئے پکاراجب میں اس عورت کو اٹھانے اس کمرے میں گیا جہاں وہ موجود تھی تب ہی میں نے اس عورت کے چہرے پر بھی وہی تاریکی دیکھی ایک زندگی کا آغاز اور اسی لمحے ایک کا اختتام دو جڑواں بچوں کو جنم دینے کے دوران ہی وہ عورت مر چکی تھی۔

اپنے ایک عزیز کی عیادت کیلئے میں ایک ہسپتال گیا تووہاں کچھ لوگ اپنے مرتے ہوئے مریض کیلئے اپنی تمام جمع پونجی لگاچکنے کے بعد بھی پیسے جوڑ رہے تھے حالانکہ فیصلہ ہوچکا تھا میں نے ان سے کہا کہ مزید روپے خرچ کرنے کے بجائے یہ پیسے کفن دفن کیلئے سنبھال رکھیں تو ان میں سے ایک شخص جو شاید مریض کا باپ تھا مجھے ایسی نظروں سے دیکھا کہ میں لرز اٹھا اپنے جسم کی تمام قوت جمع کرنے پر بھی میں ایک قدم نہ اٹھا سکا تب مجھے معلوم ہوا کہ اب آئندہ اس خبر کا بوجھ مجھے اکیلے ہی اٹھانا ہوگا۔

جب میں کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تو مجھے کیوں یہ طاقت عطا ہوئ کیا میں ہمیشہ یہ جان کر خاموش رہونگا کہ میرا کوئ بہت ہی پیارا اس دنیا سے جانے والا ہے اور یہ جان جانے کے باوجود میں غم بھی نہیں منا سکونگا مجھے ایسے لوگوں سے ہنس کرملنا ہوگا جن کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ یہ کل اس دنیا سے جانے والا ہے۔

میں نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا گھر سے نکلتا بھی تو اپنی نظریں جھکا کر چلتا کوشش یہ کرتا کہ کسی کے چہرے پر نظر نہ پڑے لیکن پھر بھی بازاروں میں گھومتے ہنستے مسکراتے بے خبر چہروں پر نظر پڑ ہی جاتی۔

میں نے ٹیلیوژن دیکھنا بھی چھوڑ دیا دن بھر گھر میں رہتا سوتا یا کتابیں پڑھتا اور رات دو چار ورق سیاہ کرکے اپنی روزی کما نے کے اسباب پیدا کرلیتا۔

ایک دن ہونہی خیال آیا کہ ایک دن ایسا بھی تو آئے گا۔۔۔ اس سے آگے میں سوچ نہ سکا مجھے جھرجھری آگئ

بے شک سب اس دنیا سے جائیں گے سب ہی کو جانا ہے ۔۔۔

لیکن میں۔۔۔نہیں میں کیسے جاسکتا ہوں میرے بعد اس دنیا کا ستیاناس نہیں ہوجائے گا

لیکن کبھی نہ کبھی تو پھر بھی۔۔۔

کبھی نہ کبھی کب؟؟

یہ تو کو ئ نہیں جانتا یا شاید میرے علاوہ کوئ اور بھی ہوجو یہ بتا سکے۔

لیکن پھربھی کب؟

یہ کوئ نہیں بتا سکتا میں بھی نہیں مجھے تو بس کچھ لمحہ قبل ہی خبر ہوتی ہے ۔

لیکن کب؟

شاید جلد ہی۔

اور جب مجھے خبر ہوگی تو میں کیا کرونگا؟

آج صبح شیو کرتے ہوئے آئنے میں اپنا چہرہ دیکھا تو مجھے اپنے چہرے پر بھی وہی سیاہی نظر آئ۔

اب صرف انتظار کرنا ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment