کوئ بھی اگر مجھ سے پوچھتا ہے کہ اور آپ کے کیا شوق ہیں تو میرا جواب دھڑ سے یہ ہوتا ہے کہ "مجھے مطالعہ کا شوق ہے"
ایک جاب انٹرویو میں جب میں نے یہی جواب دیا تو انٹرویو لینے والے صاحب بھی شاید مطالعہ کے شوقین تھے انہوں نے سوال کرلیا " آجکل آپ کے مطالعہ میں کونسی کتاب ہے"
میں اس سوال پر گھبرا گیا کیوںکہ اس وقت کسی ایسی کتاب کا نام میرے ذہن میں فوری طور پر نہیں آیا جو کہ میرے مطالعہ میں ہوسکتی تھی آئیں بائیں شائیں کرکے بات گھمائ اور جان بچی لیکن نوکری نہ مل سکی خیر۔
اسکے بعد میں محتاط ہوگیا
ایک اور جگہ جب یہی جواب دیا تو آگے سے سوال آیا کہ " کس قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں"
"میں تو تمام ہی قسم کی کتب کا مطالعہ کرتا ہوں مخصوص کوئ موضوع نہیں"
"لیکن پھر بھی کوئ تو پسندیدہ صنف ہوتی ہی ہے" وہ صاحب لٹک رہے تھے
"جی پسندیدہ تو نہیں ہاں ناول زیادہ پسند ہیں" ہم نے اپنے تئیں بات ختم کی
جواب میں انہوں نے چار پانچ مصنفین کے نام لئے دو چار مشہور ناولوں کے بارے میں سوال کئے اور ہم بغلیں جھانکتے رہ گئے۔
اس واقعہ کے بعد ہم نے دو چار کتابوں کا آدھا سودھا مطالعہ کیا چند ایک مصنفین کا نام یاد کرلیا اور اردو ادب میں کتابوں کی فہرست دیکھ کر کافی کتابوں کے نام یاد کرلئے اور انکو موضوعات کے حساب سے بانٹ کر ذہن نشین کرلیا جیسے ناول، فلسفہ، سفرنامے،طنز و مزاح,ترقی پسندادب وغیرہ اور اس فہرست کی بنیاد پر مباحث میں حصہ لینا شروع کیا کہیں کہیں تو اپنے مطالعہ اور علم کی دھاک بٹھانے میں کامیاب ہوجاتے اور کہیں ہمارا پول کھل جاتا۔
پھر ہم نے ایک اور حربہ آزمایا اور کافی کامیابی حاصل کی ہم نے ایسے مصنفین کی ایک فہرست نکالی جو کہ عام طور پر عوام کے زیر مطالعہ نہیں رہے ہوتے جن میں زیادہ تر غیر ملکی تھے جیسے پولینڈ، فرانس، روس، ترکی، ایران اور ان میں سے چند کے مشکل مشکل نام رٹ لئے اور انٹرنیٹ اور گوگل سے ان کے بارے میں گفتگو کرنے کو چیدہ چیدہ معلومات اور مشہور کتابوں کے نام بھی رٹ لئے۔
اب اگر کوئ مجھ سے کہتا کہ آپ نے قراۃالعین حیدر کا " آگ کا دریا پڑھا ہے" تو میرا جواب ہوتا وہ تو نہیں پڑھا لیکن اس موضوع پر ایک پولش رائٹر ہیں"برونو شیولز" انکا ناول پڑھا ہے آپ نے پڑھا ہے انکو؟" اکثر بلکہ ہمیشہ جواب نفی میں ہوتا تو ہم بڑی بے نیازی سے انکو شیولز صاحب کی چند ایک کتابوں کے نام بتاتے اور کہتے
"پڑھئے گا اگر وقت ملے مارکیٹ سے تو شاید نہ مل سکیں میرے پاس ہیں اگلی مرتبہ آپ کو لادوںگا پڑھ کر واپس کردیجئے گا"
روسی ادباء میں صرف میگسم گورکی کی کتاب" ماں" اور دوستووسکی کی "ذلتوں کے مارے لوگ" پڑھنے کے بعد میں پورے روسی ادب پر دسترس حاصل کرلی اور گفتگو میں دیگر مصنفین کا ذکر شامل کرکے بات میں وزن پیدا کرنے کا ہنر تو میں بتا ہی چکا ہوں۔
فلسفہ پر بات ہوتی ہے تو ہم "نٹشے" کا تیر چلاتے ہیں کیوں کہ وہ ایک مانا ہوا اور جانا ہوا فلسفی گزرا اوراس وقت ہمیں ایک ہی نام معلوم تھا کوئ پیچیدہ مسئلہ ہو یا بات میں زیادہ وزن زیادہ درکار ہو تو "جون لوھک" یا "پلاٹو" یا زمانہ قبل از تاریخ کا کوئ فلسفی یا مفکر نکال لاتا ہوں تاکہ کوئ بات کرنے کے قابل نہ رہے۔
دوسری چیز ہے اختلاف رائے اگر کوئ بات کرے کہ انتظار حسین اس صدی کے سب سے بڑے افسانہ نگار ہیں تو ابتدائ بحث کے بعد فوراّ کسی مغربی افسانہ نگار کو انکے مد مقابل لا کھڑا کرتا ہوں اور میرا ترپ بتا یہ ہوتا ہے کہ پہلے انکو بھی پڑھ لیں پھر موازنہ کریں انتظار حسین کی چند ایک کتابوں کے نام دوران گفتگو درمیان میں لانا ضروری ہے۔
میرے پاس تھوڑی بہت کتابیں ہیں اور ان میں سے بھی بہت کم ایسی ہیں جو میں نے پوری پڑھ رکھی ہیں زیادہ تر کچھ صرف آدھی یا اس سے کم چند ایک کو صرف ابتدائ حصہ پڑھ کر چھوڑا لیکن شیلف میں سجا کر سب کو رکھا اور آج بھی پرانی کتابوں کے ٹھیلے سے سستی قیمت میں پرانی کتابیں لاکر شیلف سجاتا رہتا ہوں۔
میں نے تو سچ بول دیا ہے یقین کرنا یا نہ کرنا پڑھنے والے پر منحصر ہے
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
ھاھاھا
ReplyDeleteآپ ایک اچھے فیلو نکلے، لکھتے رہئے
شکریہ جناب
ReplyDeleteلکھتے رہیں گے انشاءاللہ
مارشل لاء سے پہلے تک
شکریہ جناب
ReplyDeleteلکھتے رہیں گے انشاءاللہ
مارشل لاء سے پہلے تک
واہ زبردست۔۔کیا کہنے
ReplyDeleteشکریہ جناب عالی
Deleteاچھا تو آپ نے بھی یہ طریقہ رکھا ہوا ہے رعب جھاڑنے کا!
ReplyDeleteایسے راز کھولتے نہیں ہیں جناب.
شعیب صاحب تو کیا آپ بھی؟
ReplyDelete