Wednesday 10 June 2015

ماضی سے جڑے ہوئے لوگ


پچھلے دنوں میں اپنی گاڑی کاکام کرانے مکینک کے پاس گیا میں چونکہ بہت صبح پہنچ گیا تھا تو وہاں زیادہ لوگ نہیں تھے میرے علاوہ ایک اور صاحب تھے جنہوں نے وہاں موجود ایک اور صاحب سے انکے گاڑی کے متعلق بات چیت شرورع کی ہوئ تھی وہ ان سے گاڑی کا سودا کرنا چاہتے تھے اور دوسرے صاحب بیچنے پر رضامند نہیں تھے کافی دیر گزرنے پر دوسرے صاحب نے موضوع بدلنے کے غرض سے میری گاڑی کی طرف اشارہ کرکے ان سے پوچھا کہ یہ آپ کی گاڑی ہے تو انہوں نے حقارت سے نفی میں گردن ہلادی اور اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ میری گاڑی ہے جس پر میں نے ان دوسرے صاحب کو بتایا کہ یہ میری گاڑی ہے

جواب میں وہ بولے کہ یہ گاڑی اپنے وقت کی بہترین گاڑی تھی اور ایک کامیاب ماڈل رہا ہے تو پہلے والے صاحب بولے:

''گھوڑا جاہے جتنی بھی اچھی نسل کا رہا ہو لیکن جب وہ بوڑھا ہو جاتا ہے تو کسی کام کا نہیں رہتا''

اس بات پر میں نے انکو جواب دینا چاہا کہ بوڑھا ہونے پر بھلے ہی وہ کسی کام کا نہ رہے لیکن اس مالک کیلئے جسے اس نے بہت سی ریسیں جیت کر دی ہوتی ہیں اور پوری زندگی اسکی خدمت کی ہوتی ہے اس بوڑھے گھوڑے کی اہمیت کم نہیں 
ہوتی لیکن مصحتاً خاموش رہا اسی بات پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا

ہمارے محلے میں ایک بزرگ رہا کرتے تھے جو ایسی ایک گاڑی کے مالک تھے بڑھاپے کہ وجہ سے گاڑی چلانے سے معذور تھے لیکن روز صبح اپنی نگرانی میں گاڑی دھلواتے چمکواتے ریڈیئٹر کا پانی چیک کراتے اور اسکے بعد کافی دیر وہیں بیٹھے رہتے کبھی کبھی گاڑی کے بانٹ کو لاڈ سے سہلاتے ہوئے بھی دیکھے جاتے ایک دن انہون نے مجھے بلایا اور اور چابی حوالے کی کہ گاڑی سٹارٹ کرو اور خود برابر میں بیٹھ گئے اور پھر ہم نے ایک لمبا چکر لگایا اسی دوران وہ مجھے بتاتے رہے کہ گزشتہ چالیس برس سے وہ اس گاڑی کے مالک ہیں گھر میں دوسری گاڑیاں ہیں بچے کہتے ہیں کہ اسے بیچ دیں تو کہتے ہیں اپنی زندگی میں تو وہ ایسا نہیں کر سکتے ہاں جب انکا اتقال ہوجائے تو پھر اس گاڑی کا جو 
مرضی آئے کرنا چالیس سال کے ساتھ اور انسیت کی وجہ سے وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔

ایک اور صاحب کو میں جانتا ہوں جو کسی اچھی پوسٹ سے ریٹائرڈ ہیں کئ نئ ماڈل کی گاڑیاں انکے گھر میں کھڑی ہیں لیکن وہ اپنی کھٹارا گاڑی ہر ہفتے کو نکالتے ہیں مکینک کے پاس جاتے ہیں اور اسکے بعد مسلسل دو دن اسی گاڑی کو چلاتے رہتے ہیں اس سے اسکا انجر پنجر کو پہلے ہی ڈھیلا ہے وہ مزید ڈھیلا ہوجاتا ہے اور دوبارہ مرمت کی ضرورت پڑ جاتی ہے لیکن نہ تو وہ اس گاڑی کو بیچتے ہیں نہ ہی چلانا چھوڑتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ گاڑی انکے پاس تب سے ہے جب انکے پاس کوئ اور گاڑی نہیں تھی بچوں کی پیدائش کے بعد وہ اسے گاڑی پر انکو گھر لائے تھے پھر اسی گاڑی میں وہ اپنے بچوں کو پہلی مرتبہ اسکول چھوڑنے گئے انکے والدین نے اس گاڑی میں انے ساتھ سفر کیا ہے وہ نہ تو اسکو بیچنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں نہ ہی اسکو چلانا چھوڑ سکتے ہیں انکا کہنا ہے یہ انکے گھر کے ایک فرد کی طرح ہے۔

میرے ایک ماموں ہیں انہوں نے بچوں کے دباؤ میں آکر اپنی پرانی گاڑی فروخت کردی جسمیں ہماری مرحومہ نانی جان سفر کیا کرتی تھی بیچنے کو بیچ دی لیکن اسکے بعد واقعتاً انکا کھانا پینا چھوٹ گیا نتیجتاًانکی بیگم نے کچھ پیسے اوپر دیکر وہ گاڑی واپس خرید لی۔

بعض پرانی چیزوں کی ہمیں عادت ہوجاتی ہے یا ان کے ساتھ کچھ ایسی یادیں وابستہ ہوجاتی ہیں کہ خود سے الگ کرنےکے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا لیکن یہ بات انکو کون سمجھائے جو اس بات کے قائل ہیں کہ گھوڑا اگر بوڑھا ہوجائے تو اسے گولی مار دینا چاہئے۔

12 comments:

  1. فیضان تمہارے بلاگ کا فونٹ بہت ہی چھوٹا ہے ۔۔ پہلے اسے ورڈ میں کاپی پیسٹ کر کے فونٹ بڑا اور لائن اسپیس سیٹ کر لیا کرو

    ReplyDelete
    Replies
    1. ضرور اب ایسا ہی کروںگا انشاءاللہ

      Delete
    2. ضرور اب ایسا ہی کروںگا انشاءاللہ

      Delete
    3. میری رائے میں تو تحریر کو ورڈ پر پیسٹ ہی نہ کیا کریں۔ :) اگر پہلے ورڈ یا کسی اور سوفٹ ویئر میں لکھ کر بلاگ اسپاٹ کے ایڈیٹر میں پیسٹ کرتے ہیں تو وہاں پیسٹ کرنے کے بعد سلیکٹ آل کریں، اور ایڈیٹر کے ٹول بار میں سے ایک بٹن تلاش کریں جس کا نام ریموو فارمیٹنگ ہوتا ہے۔ اسے کلک کرنے سے تحریر کی تمام تر فارمیٹنگ ختم ہوجائے گی۔ اب تمام فارمیٹنگ بلاگر کے پوسٹ ایڈیٹر ہی میں انجام دیں۔ زیادہ مشکل پیش آئے تو بلاگ کے ٹیمپلیٹ کو کسٹمائز کرتے ہوئے اس کا فونٹ سائز بڑھالیں۔ یوں ہر قاری کے پاس یکساں نتائج دکھائی دیں گے۔
      کسی قسم کی مشکل کی صورت میں، بندہ حاضر۔ حکم!

      Delete
    4. کیا اب کچھ بہتر ہے؟

      Delete
    5. خوب، پہلا حصہ آپ نے کامیابی سے مکمل کرلیا، یعنی ریموو فارمیٹنگ۔ اب ٹیمپلیٹ کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ؟ :)

      Delete
    6. وہ نہیں آتا ہمیں کچھ سکھا دیں اس بارے بھی

      Delete
    7. اچھا، کوشش کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ چھیڑ چھاڑ مزید بگاڑ کا سبب نہ بنے :)
      ۱۔ بلاگر کے ڈیش بورڈ سے اپنے بلاگ کے ٹیمپلیٹ پیج پر جائیں۔
      ۲۔ آپ کے منتخب کردہ ٹیمپلیٹ کے نیچے کسٹمائز کا بٹن ہوگا، اس پر کلک کریں۔
      ۳۔ آپ کے سامنے ایک نیا صفحہ نمودار ہوگا جس میں اوپری حصے پر مختلف ٹیمپلیٹ اور نچلے حصے پر آپ کے منتخب کردہ ٹیمپلیٹ کا پری ویو ظاہر ہو رہا ہوگا۔ بائیں طرف منیو سے ایڈوانسڈ کے آپشن پر کلک کریں۔
      ۴۔ ایڈوانسڈ کے آپشن پر کلک کرنے سے ایک سب منیو کھلے گا جس میں سب سے نیچے ’’ایڈ سی ایس ایس‘‘ لکھا ہوگا۔ اس پر کلک کریں گے تو ایک ایڈیٹر ظاہر ہوجائے گا۔
      ۵۔ ایڈیٹر میں درج ذیل کوڈ پیسٹ کرنے کے بعد اوپر دائیں طرف اپلائی ٹو بلاگ کے بٹن پر کلک کردیں:

      .post-body, .jump-link, .post-footer {
      font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", "Alvi Nastaleeq", "Alvi Lahori Nastaleeq", "Nafees Nastaleeq", "Urdu Typesetting", "Noto Nastaleeq", "Nafees Web Naskh", "Urdu Naskh Asiatype", Tahoma, Arial, Times;
      font-size: 180%;
      direction: rtl;
      line-height: 200%;
      color: #000000;
      }

      امید ہے کہ کچھ صورتِ حال بہتر ہوجائے گی۔

      Delete
    8. اس سے تو بلاگ کی متھ وج گئ بھائ

      Delete
    9. کیا واقعی؟ مجھے تو پہلے ہی جیسا نظر آ رہا ہے بلاگ۔ اور یہ کوڈ صرف تحریر کا فونٹ تبدیل کرنے کے لیے تھا۔ :(

      Delete
    10. ہم نے واپس پرانے پر لوٹا لیا ہے کچھ عجیب ہی ہوگیا تھا جلے سالن جیسا

      Delete
    11. ہاہاہا۔۔۔ چلیں، جی میل یا فیس بک پر تفصیل سے سمجھاتا ہوں طریقہ کار۔

      Delete