جب ہم چھوٹے چھوٹے تھے اور امی ہمیں روز صبح گھر سے نکال کر سکول بھیج دیا کرتی تھیں یعنی روزانہ ہی ایک سزا تھی حالانکہ جس مبارک دور میں ہمارا بچپن گزرا ہے اس دور میں والدین کو ابھی اتنی عقل نہیں آئ تھی کہ بچہ جونہی چلنا سیکھ لے اسے گھر سے نکال کر کسی مونٹیسری میں بہترین تربیت کے لئے بھیج دینا عین ثواب کا کام ہے اور ثواب کے ساتھ ساتھ بچے کی بنیاد بھی اتنی مضبوط ہوجائے گی کہ دنیا کی کوئ طاقت اسے سے ٹکر نہیں لے سکے گی خیر تو اسی دور میں ہمیں سکول میں پڑھایا گیا کہ
"اعمال کا دارومدار نیت پر ہے"
یہ حدیث مبارکہ ہے اور اس کی تفسیر ہمیں یوں سمجھائ گئ کہ بچو! کسی بھی کام کو کرنے کی جو نیت ہوگی ویسا ہی نتیجہ حاصل ہوگا بری نیت کے ساتھ اچھا کام بھی فائدہ مند نہیں جیسے کسی کی مدد اس لئے کرنا کہ وہ بھی آپ کی مدد کرے گا غلط ہے کسی کی مدد کبھی اس نیت سے نہ کرو کہ وہ بھی آپ کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریگا بلکہ کسی کی مدد صرف اس لئے کرو کہ اسے مدد کی ضرورت ہے اور اللہ آپ کو اسکا اجر دیگا, ایک اور بات بھی سمجھ آئ کہ اچھی نیت ہو تو کام بن جاتے ہیں اور نیت خراب ہو تو بنتے کام بگڑ جاتے ہیں۔
ہم نے اس بات کو اپنا نصب العین بنا لیا کہ نیت ہمیشہ اچھی رکھنی ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے اور جہاں کہیں ہماری نیت میں کھوٹ تھا اسکا نتیجہ بھی ہم نے بھگتا جیسے یونیورسٹی میں خالدہ اور رقیہ کو پورا سمیسٹر اسائنمنٹ کاپی کر کرکے دیئے، لیکچر چھاپ چھاپ کردئے ، حاضریاں لگوائیں لیکن پس پردہ نیت یہی رہی کہ یہ دونوں نہ سہی کوئ ایک تو ہمارے اچھے کردار سے متاثر ہوگی اور ہماری زندگی کی بنجر زمین پر بارش کے پہلے قطرے کی طرح گرے گی تو ہر طرف خوشبو ہی خوشبو پھیل جائے گی لیکن ایک دن جب ہم نے دونوں کو باری باری شکیل بھائ کےساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا تو بچپن میں پڑھائےگئے سبق کی صداقت پر کامل یقین آگیا ۔
ایک حکایت ہماری دادی مرحومہ نے ہمیں سنائ تھی کہ ایک بادشاہ تھا جسے شکار کا بہت شوق تھا اور وہ اپنے اس شوق کی تکمیل کیلئے لمبے لمبے سفر اختیار کرتا رہتا۔ ایک مرتبہ وہ ایسے ہی ایک سفر میں تھا اور شکار کا پیچھا کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور کافی آگے نکل گیا شکار تو خاک ملتا وہ اپنے ساتھیوں کو بھی نہ ڈھونڈ پایا اور بھٹکتے بھٹکتے ایک گاؤں میں جا پہنچا اور کیا دیکھتا ہے کہ سامنے ایک انار کا باغ ہے ۔بادشاہ باغ میں داخل ہوگیا اور باغ کے مالک سے پانی کی درخواست کی باغ کے مالک نے اس نیت سے کہ ایک مسافر کو کیا صرف پانی پلانا اپنے ہی باغ سے ایک انار توڑا اور چند منٹوں میں ہی پورا پیالہ انار کے رس کا بھر کر پیش کردیا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ صرف ایک انار کے رس سے پورا پیالہ بھر گیا اور ذائقہ بھی نہایت عمدہ اور بہترین تب ہی اسے یہ خیال آیا کہ یہ جو کہ اس بیابان میں ایسے عمدہ اور رسیلے انار اگا رہا ہے انکی فروخت سے اچھا منافع بھی کمارہا ہوگا لیکن چونکہ اس کی خبر اب تک ہمیں نہیں تھی تو اس پر ٹیکس بھی نہیں لگتا اور اسکی آمدن میں سے سرکار کو کوئ حصہ نہیں ملتا اور تب ہی اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ واپس جاکر اپنے نمائندے یہاں بھیج کر اس باغ سے ٹیکس وصولی کا انتظام کروائے گا ۔
مزید کچھ دیر گزری تو بادشاہ نے ایک اور گلاس کی فرمائش کردی لیکن اس بار دو انار بھی ایک پیالہ نہ بھر سکے تو بادشاہ نے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا کہ پہلے تو ایک انار ہی کافی ہوا اور اب کی بار دو بھی ناکافی ہوئے ایک پیالہ بھرنے میں جس پر باغ نے مالک نے مختصر جواب دیا کہ "ہمارے حکمران کی نیت بدل گئی" اور بادشاہ حیران رہ گیا کہ اسے یہ بات کیسے معلوم ہوگئ یہ تو اس بات سے بے خبر ہے کہ میں ہی بادشاہ ہوں خیر قصہ مختصر بادشاہ اپنے فیصلے پر دل ہی دل میں شرمندہ ہوا (حالانکہ بادشاہ تھا چاہتا تو نہ بھی ہوتا تو تب بھی کوئ کیا کرلیتا) اور اپنے ارادے سے باز آیا اور پھر کچھ دیر بعد دوبارہ فرمائش کی اور اس مرتبہ وہ جام دوبارہ بھر گیا ۔
یہاں میں نے دادی سے شکایت کی کہ غلط تو بادشاہ کی نیت تھی تو اسکا نقصان بے چارے باغ کے مالک کو کیوں ہوا بادشاہ کے گلاس میں مکھی گر جاتی تو زیادہ اچھا ہوتا تو دادی نے ہمیں سمجھایا کہ بیٹا حکمران عوا م کا ذمہ دار ہوتا ہے اور اسکی نیت کا اثر عوام پر براہ راست ہوتا کہ یعنی حکمران چاہے جو بھی خباثت کرے بھگتے گی عوام خیر یہ ایک الگ بحث رہی۔
یہی حکایت ایک دوسرےی جگہ کچھ یوں نظر سے گزری کہ جب بادشاہ نے دوسرے گلاس کی فرمائش کی تو باغ کے مالک نے دل میں کہا کہ "مفت خورے کو مزے لگے گئے اب شام تک اسکے ساتھی نہ ملے تو یہ تو پورا باغ اجاڑ دیگا" اور پھر یہ ہوا کہ دو اناروں سے بھی ایک گلاس نہ بھر پایا اور تب بادشاہ نے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا تو باغ کا مالک شرمندہ ہوا اور بولا "میری نیت بدل گئ تھی"
خیر ان تمام مثالوں سے ہم یہی ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ نیت کا براہ راست اثر آپ کے کام پر پڑتا ہے کام نیک ہو لیکن ارادہ برا تو بھی نتیجہ اچھا نہیں ہوگا اور کام بگڑے گا ہی بگڑے گا۔
کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے اپنی نیت کو اچھی طرح چیک کرلیں کہ وہ "نیک " ہی ہے اور بعد میں بھی "نیک " ہی رہے گی اور اگر نیت کا نیکی سے بدی کی طرف سفر شروع ہوا تو یاد رکھئیے کہ آپ کامیابی سے خود دور ہونا شروع ہوجائیں گے اور تب ادارہ ذمہ دار نہ ہوگا۔
No comments:
Post a Comment