میں ایک مرتبہ پھر مظفر آباد میں تھا گوکہ یہ میرے پروگرام
کا حصہ نہیں تھا اور مجھے اس وقت کہیں اور ہونا چاھئے تھا ایسا بھی نہیں کہ میں
کہیں اور کے ارادے سے نکلا تھا اور مظفر آباد جا پہنچا بلکہ اس سال میرے پروگرام میں کسی قسم کا ٹریک
کرنا شامل نہیں تھا اور میں کافی صبر (جبر)سے خود کو آمادہ کرچکا تھا کہااس سال
گھر میں بیٹھنا ہے اور جو کام زندگی میں زیادہ اہم ہیں ان پر توجہ کرنی ہے لیکن
میں پھر مظفر آباد پہنچ چکا تھا۔
ایک شام میں گھر میں صوفے پر لیٹا ٹی وی چینل بدل بدل
کر اشتہار دیکھ رہا تھا تو میرے پاس ایک فون آگیا داتا کی نگری والے
رانا عثمان دوسری جانب موجود تھے اور کسی دوسرے نمبر سے مجھ سے بات کررہے تھے رانا
صاحب فون پر زیادہ تو عجلت میں رہتے ہیں اور جلدی کام کی بات ختم کرکے "ہور
دس کی حال اے" کہ کر دل لگی پر اتر آتے ہیں فون اٹھانے پر جب سلام دعا اور
حال احوال کے بعد رانا صاحب نے کہا " اور سناؤ کیا نئی تازی ہے" تو میں
سمجھ گیا کہ انہوں نے بس دل لگی کیلئے فون کیاہے۔
"نئی تازی کیا ہوگی رانا صاحب بس وہی پرانی ہے"
"اچھا تو کوئ نئی کرلے"
"ایک ہو نہیں رہی آپ نئی کی بات کررہے ہیں" ہماری
مراد اپنی شادی تھی
"اچھا سن مذاق چھوڑ" رانا صاحب اچانک سنجیدہ
ہوگئے
"جی سے حکم"
"حکم شکم کچھ نہیں بس تو ایک کام کر لاہور آجا جمعہ کو ہم رتی گلی جارہے ہیں تو بھی
چل رہاہے ساتھ" یہ فون اتوار کی شام کو آیا تھا یعنی چھٹے دن مجھے لاہور
پہنچنا تھا ایک لمحہ کو میں گھوم گیا
"اگلے جمعہ کو میں کیسے آؤنگا لاہور بھائ"
"ٹرین میں آجا یا بس میں آجا جیسے دل کرے"
"بھائ میرا مطلب تھا کہ میں ایسے کیسے آجاؤں بہت مشکل
ہے میں نہیں آسکتا"
"اچھا میری بات سن میرا بھی کوئ لمبا چوڑا پرگرام نہیں
ہے بس تجھے دو دن چھٹی لینی ہوگی جمعہ اور پیر ہفتہ اتوار تیری چھٹی ہوتی ہے
بس کوئ مسئلہ نہیں ہوگا تو آجا"
میں نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی کچھ ادھر ادھر کے بہانے
کچھ توجیہات وغیرہ وغیرہ لیکن رانا صاحب نے فون اس نیت سے ہی کیا تھا کہ میرے ہر
سوال کا جواب دیں گے اور آخر میں فیصلہ اپنے حق میں کراکر ہی دم لیں گے یعنی رتی
گلی میں مجھے اپنا ہمسفر کریں گے۔
کافی وقت انہوں نے مجھے مختصر الفاظ میں پورا پروگرام بار
بار سمجھانے میں صرف کیا کہ کیسے ہم سفر شروع کریں گے پہلادن کہا صرف ہوگا پہلی
رات کہاں گزاری جائے گی پھر آگے سفر کیسے شروع ہوگا اور کیسے کیسے ہم سفر مکمل کرکے واپس لوٹیں گے مجھے رانا صاحب کی
پلاننگ پر کوئ شک و شبہ نہیں تھا لیکن اچانک سے خود کو سفر پر آمادہ کرلینا مشکل
ہورہا تھا۔
"یار رانا صاحب میرے پاس کوئ سامان بھی نہیں ہے"
میں نے آخری با ت کی
"کدھر گیا تیرا سامان"
"یار وہ زین لیکر چلا گیا"
"کون زین"
"یار میرے دفتر میں ہے مصطفیٰ کے ساتھ گیا ہے وہ میرا
سب سامان لیکر چلا گیا جوتوں سمیت، رک سیک سلیپنگ بیگ میٹرس ،سٹک سب کچھ"
جب یہ فون آیا اس سے ایک روز قبل ہی مصطفیٰ صابر دفتر کے
کچھ لڑکوں کے ساتھ شمال یاترا کیلئے نکلا تھا
انہوں نے بھی مجھے ساتھ ملانے کی بہت کوشش کی لیکن میں انکے چنگل سے بھی نکل گیا تھا خیر تو
ایک رات زین جو ان میں سے ایک تھامیرے گھر آیا اور میرے سامان میں سے مذکورہ بالا
سامان اپنے ساتھ لیکر چلا گیا اب میں بغیر ہتھیار کا سپاہی تھا جسے جنگ پر بلایا
جارہا تھا۔
"تمہارا سارا سامان میں لیکر آجاؤنگا تم بس اپنے پہننے
کے کپڑے لیکر آجاؤ" رانا صاحب نے اس مشکل کو بھی حل کردیا
"اچھا سنیں تو سہی۔۔۔ مجھے گھر پر تو بتانے دیں میں
امی کو بتا کر آپ کو بتاتا ہوں"
"چلو مجھے بتاؤ گھر پر بات کرکے اور سن جب تو آئے گا
ناں تو پنڈی سے کراچی ڈائیوو کا ٹکٹ میری طرف سے ہوگا تیرا واپسی کا" رانا
صاحب نے آفر دی ایک دو اور باتیں ہوئیں اور فون بند ہوگیا فون بند کرنے کے بعد میں
گھر سے باہر نکل گیا تھوڑی دیر بے مقصد ادھر ادھر گھوم کر واپس آیا اور گھر میں
داخل ہوتے ہیں مجھے کچھ یاد آگیا اور میں نے رانا صاحب کو فون گھما دیا
"رانا صاحب میرے پاس کیمرہ بھی نہیں ہے" رانا
صاحب یہ سن کر غصہ ہوگئے
"اور یار ۔۔۔۔۔ تو میرا کیمرہ لے لینا اب بند کر"
کہنے کو تو رانا صاحب نے کہ دیا لیکن پورے سفر میں کیمرہ نوزائیدہ بچے کی طرح سینے
سے لگائے گھومتے رہے اور ہماری جو تصویریں کھینچیں وہ اب تک ہمیں دینے سے بھی
انکاری نہیں ہیں تو دے بھی نہیں رہے جبکہ اپنی تصاویر روز تبدیل کر رہے ہیں ویسے
مذاق ایک طرف ہم نے خود یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس سفرنامہ کے لکھنے سے پہلے نہ تو
بتائیں گے اور نہ ہی کوئ تصویر لگائیں تاکہ ایک طرح کا سرپرائز ہوجائے خیر۔
اگلی صبح ناشتے کی
میز پر ویسے تو ہم ناشتہ میز پر نہیں کرتے
دسترخوان بچھا کر کرتے ہیں چلیں اسکو ایسے
کہ لیتے ہیں اگلی صبح ناشتے کے وقت میں نے امی سے کہا
"امی وہ کل عثمان بھائ کو فون آیا تھا"
"لاہور والے عثمان کا؟ پھر کوئ نیا فتور ڈالا ہوگا
اسنے تمہارے دماغ میں" امی ایک دم غصہ کرگئیں میرے حلق میں نوالہ اٹک گیا
"کہیں جانے کیلئے کہا ہوگا تم سے؟"
"نہیں وہ کہ رہے تھے کہ ایک گروپ لیکر کشمیر جارہے ہیں
تو میں بھی اگر چل سکتا ہوں تو چلوں" میں نے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے بات آگے
بڑحائ۔
" مجھے گروپ
لیکر جانے میں انکی مدد کرنی ہوگی پورے سفر کا خرچہ انکا بلکہ دوچار ہزار کما بھی
لونگا۔۔۔معاونت کرنا ہوگی انکی مجھے" پتہ نہیں ان معاملات میں اتنی ڈھٹائ سے
اتنا صاف جھوٹ کیسے بول جاتا ہوں میں۔
"دیکھ لو تمکو چھٹی مل جائے گی دفتر سے اور کتنے دن کا
ہوگا یہ ٹور۔۔گھر میں ویسے ہی کوئ نہیں ہوتا اور تم بھی نکل جاتے ہو ہفتوں ہفتوں
کیلئے" جیب سے پیسے نہ لگنے اور الٹا کچھ کما کر لوٹنے والی بات کام کرگئ میں
نے امی کو سرسری سی معلومات دیں اور یہ کہ کر کہ واپسی پر آپکو مکمل معلومات
دیدونگا سب معاملات کی دفتر چلا گیا۔
دفتر پہنچ کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ معاملات گرم ہیں اور
ایسے میں چھٹی چاہے ایک دن کی ہی سہی کی بات کرنا فضول ہے پورا دن چپ کرکے کام
کرتے نکل گیاشام ہوئ تو پھر رانا صاحب کا فون آگیا
"ہاں بات ہوئ؟"
"گھر پر تو بات ہوگئ امی نے تو اجازت دے دی ہے لیکن
دفتر میں نہیں ہوئ کل ماحول دیکھ کر بات کرتا ہوں"
"چلو خیر ہے کوئ بات نہیں تو تیاری کر انشاءاللہ ساتھ
جائیں گے دونوں بھائ"
دو دن اور گزر گئے اور میں چھٹی کی بات نہیں کرسکا تب ہی
میں نے ارادہ کیا کہ دفتر میں بغیر بتائے نکل جاؤں گا اور بعد میں کوئ بہانہ
کردونگا بدھ کے دن گھر آکر میں نے ایک بڑے
تھیلے میں مختصر سامان باندھا اور ایک دوست سے بات کی کہ وہ مجھے صبح دفتر چھوڑ دے
کیوں کہ واپسی میں دفتر سے ہی سیدھا سٹیشن جانا تھا صبح اپنا تھیلا اٹھا کر اور جینز اور ٹی شرٹ
پہن کر دفتر چلا گیا تھیلا میں نے دفتر کے نیچے ایک پان والے کے کیبن پر رکھوا دیا
کیوں کہ ساتھ لیکر جانا وبال جان بن سکتا تھا شام میں گھر پر کچھ ضروری کا م کا بہانہ کرکے جلدی نکل گیا
اور پان والے سے اپنا تھیلا اٹھا کر ساڑھے چار بجے سیدھا کینٹ سٹیشن پہنچ گیا وہاں معلوم ہوا کہ
راولپنڈی کیلئے تیز گام شام پانچ بجے روانہ ہوگی ریزرویشن نہ ہوسکی اور میں صرف
ٹکٹ لیکر پلیٹ فارم پر انتظار کرنے لگا آپ
اگر عادی مجرم نہیں اور کبھی کبھی چوری کرتے ہیں تو چوری کرتے ہوئے آپ کو
ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ تمام دنیا کی
نظریں آپ پر لگی ہوئ ہیں مجھے بھی ایسا ہی
محسوس ہونے لگا کہ پلیٹ فارم پر موجود ہر
انسان مجھے عجیب نظروں سے گھور رہا ہے سب
جانتے ہیں کہ میں دفتر میں جھو ٹ بول کر اس وقت پلیٹ فارم پر ٹرین کے انتظار میں
کھڑا ہوں میرے لیئے زیادہ دیر کھڑا ہونا محال ہونے لگا اور میں ادھر ادھر بے مقصد
گھومنے لگا ۔
معمول کے مطابق ٹرین ایک گھنٹہ لیٹ تھی جو کہ تقریبا پونے
دوگھنٹے بعد پلیٹ فارم پر ایک ارتعاش پیدا
کرتی ہوئ آگئ میرے پاس چونکہ کسی مخصوص ڈبے کی سیٹ نہیں تھے لہٰذا میں پہلا ڈبہ جو
میرے سامنے آکر رہا اسی میں سوار ہوگیا ٹرین کے اندر ایک عجیب افرا تفری کا عالم
تھا اور ایک بھی سیٹ خالی نہیں تھی اپنے سامان کا تھیلا بغل میں دابے میں ایک کونے
میں کھڑا ہوگیا ٹکٹ چیکنگ کے دوران میں نے ٹی ٹی سے کہاکہ میرے لئے کسی سیٹ کا
بندوبست کردے تو وہ بے اعتنائ سے بولا کہ فی الحال ممکن نہیں آگے سٹیشن پر چیک
کرلیجئے گا اگر ہوا تو ٹکٹ بنادیں گے جب میں نے اس سے کہا کہ مجھے پنڈی تک سفر
کرنا ہے اور ایسے سفر بہت مشکل ہوجائے گا تو وہ یہ بول کر کہ آپ کو پہلے خیال کرنا
چاھئے تھاآگے بڑھ گیا میں دل میں ایک موٹی سے گالی دیکر دوسرے میرے جیسے دربدرمسافروں
کی دیکھا دیکھی گیٹ کے ساتھ زمین پر اپنے سامان سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا محبوب سے
ملاقات کیلئے سفر کی دربدری کا آغاز ہوچکا تھا۔
ملتان تک یونہی سفر
کیا دن گیارہ بجے کے قریب ملتان پہنچ کر
تین سو روپےرشوت کے عوض ایک برتھ مل گئ اور میں اپنا تھیلا سر کے نیچےد با
کر سوگیا کئ گھنٹے سونے کے بعد گرمی اور حبس سے آنکھ کھلی تو معلوم ہوا ٹرین کسی
بیابان میں کھڑی ہے دھوپ ڈھل چکی تھی اور سورج اپنا سفر پورا کرنے کے بعد غروب کی
تیاری میں تھا گھڑی دیکھی تو چھ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے فون نکالا تو رانا صاحب اس دوران کئ مرتبہ فون کرچکے اور میرے فون کی بیٹری بھی تقریبا مردہ کرچکے تھے
انکو فون کیا تو وہ دفتر سے گھر کیلئے نکل چکے تھے اور گھر پینچتے ہی بقول انکے وہ
پنڈی کیلئے روانہ ہوجاتے باقی ساتھ بھی تیار ہیں اور انکے گھر پر انکا انتظار
کررہے ہیں اس وقت تک مجھے باقی ساتھیوں کا کچھ علم نہ تھا کہ کون ہیں اور کیا
چاہتے ہیں خیر فون پر تفصیل میں جانا مناسب نہیں تھا انہوں نے میری بابت دریافت
کیا اور میں نے ظاہر ہے لاعملی کا اظہار کردیا کہ میں خود نہیں جانتا تھا کہ میں
کہا ہوں۔
اسی طرح رکتے رکتے چلتے رہے رات اندھیری ہوگئ وقت مقررہ سے
سات گھنٹے تاخیر سے میں پنڈی سٹیشن پر اتر گیا
یعنی رات تقریبا گیارہ بجے اور اس وقت تک میرے موبائل کی بیٹری مکمل طور پر
مردہ ہوچکی تھی اب مجھے جو پریشانی لاحق تھی وہ یہ کہ رانا صاحب کو اطلاع کیسے کروں گئے وقتوں میں لوگ چیزیں
یادکرنے کیلئے انہیں لکھ لیا کرتے تھے ہمارے اساتذہ بھی ہمیں یاد کرنے کا یہی گر
بتاتے تھے کہ چیزوں کو لکھ لیا کرو تاکہ وہ ازبر ہوجائیں نئے وقتوں میں ہم نے یہ
سارا کام موبائل پر چھوڑ دیا نام، پتے، فون نمبر اور دیگر معلومات بھی فون میں
ہی موجود ہوتی ہیں ضرورت پڑنے پر ہر قسم کی معلومات سامنے آجاتی ہیں اصل مسئلہ تب
شروع ہوتا ہے جب فون ساتھ نہ ہو یا ہماری طرح فون کی بیٹری مردہ ہوچکی ہو بارہا پر
زور ڈالنے پر بھی رانا صاحب کا فون نمبر ذہن
میں نہ آیا تب ہی میں نے بھاگ دوڑ شروع کی کہ کسی طرح فون کو چارج کرلوں
اور اپنے آمد کی اطلاع کرسکوں اور میں فون اور اسکا چارجر ہاتھ میں لئے سٹیشن سے ہاہر
نکلا اور فون چارج کرنے کی سعی میں ادھر
ادھر نظریں دوڑائیں ایک آواز سنائ دی
"اوئے فیضان" یہ رانا صاحب تھے جو ایک سفید رنگ
کی پرانے ماڈل کی ٹویوٹا کرولا سے برامد
ہوئے تیزتیز قدموں سے چلتے ہوئے آئے اور مجھ سے لپٹ گئے
"یقین جان تجھے یہاں دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہورہی ہے
کہ انتہا نہیں" رانا صاحب اردو کے
نیم لاہوری لہجے میں الف پر زبر کے
ساتھ انتہا کہتے ہیں مزا اور بھی دوبالا ہوجاتاہے وہیں کھڑے کھڑے خیر خیریت دریافت
کرتے رہے پھر چونک کر بولے
"تیرا سامان
کدھر ہے؟"
"کون سا سامان آپ نے تو کہا تھا سامان میں لیکر آؤنگا
تم خالی ہاتھ آجاؤ میں بس یہ لیکر آیا ہوں"میں نے اپنے سامان کے تھیلے کو ہوا
میں جھلایا
رانا صاحب فوری طور
پر پریشان ہوگئے وہ قطعی یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ میں واقعی ہاتھ ہلاتا پہنچ
جاؤنگا اور کچھ بھی ساتھ نہیں لاؤنگا اور اسی خیال میں وہ میرے لئے کسی قسم کا
سامان نہیں لائے تھے فوری طور پر ایمرجنسی نافظ ہوگئ
"جوتے توہیں ناں تمہارے پاس؟"
"آپ نے کہا تھا کہ سب سامان آپ لارہے ہیں تو میں جوتے
بھی نہیں لایا بس پہنے کے دوجوڑے ساتھ لایا ہوں"
رانا صاحب نے پریشانی میں اپنا ماتھا کھجایا اور بولے چل
کچھ کرتے ہیں گاڑٰ ی میں بیٹھو ابھی چلو اور میں گاڑی میں بیٹھ گیا رانا صاحب کہتے
ہیں کچھ کرتے ہیں تو مطلب سب کچھ وہ خود ہی کرلیں گے۔
گاڑی کے اندر دو افراد مزید سوار تھے پچھلی سیٹ پر ایک صاحب
پیلی ٹی شرٹ میں ملبوس تھے اور اپنے کیمرے پر نظریں جمائے بیٹھے تھے میرے اندر بیٹھنے پر انہوں نے ہاتھ
ملایا اور اپنا تعارف کرایا
"نوید"
اگلی سیٹ سے ایک اور ہاتھ آیا "حافظ محمد نوید"
ایک لمحے یوں لگا کہ جیسے اگلی سیٹ والے صاحب پہلے والے صاحب کا مکمل تعارف کرارہے
ہیں
میں نے دونوں سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کرایا پہلے والے
نوید صاحب نے اگلے والے نوید صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "یہ بلوچ
ہے"
یہ شاید کسی قسم کی انتباہ تھی یا کیا تھا مجھے سمجھ نہیں
آیا لیکن اگلی سیٹ والے بلوچ صاحب نے ایک چھوٹا سا قہقہ لگایا اور بولے
"پراؤڈ ٹوبی بلوچ"
اس گاڑی میں میرے علاوہ ایک رانا صاحب تھے دوسرے کیمرے والے
نوید صاحب جو چودھری تھے پکے لاہورئے اور
جب انکو معلوم ہوا کہ مجھے پنجابی نہیں آتی تو تھوڑے سے بور ہوگئے اور دوسرے حافظ
محمد نوید پراؤڈ ٹو بی بلوچ سوار تھے جو ڈیرا غازی خان سے آئے تھےسب سے پہلے میرے
سامان کا انتظام شروع ہوا ایک اضافی بیگ
جو رانا صاحب کے ساتھ تھا خالی کیاگیا ایک جیکٹ چودھری صاحب کے پاس تھی وہ مجھے دی گئ بلوچ صاحب نے جرابیں اور مفلر اگر ضرورت ہوئ تو
میرے لئے مخصوص کردیا گاڑی گھمائ گئ اور
راجہ بازار میں ایک بند ہوتی ہوئ دوکان میں گھس کر جوتے خریدے گئے یوں میرا سامان
مکمل ہوگیا چوھدی صاحب مجھے چھیڑتے ہوئے کہنے لگے
"مولوی تو اتنی دور سے آم لینے آیا ہے کوئ سامان نہیں
لایا منہ اٹھا کے خالہ کے گھر آیا ہے یا ٹریک کرنے۔۔ ہیں؟"یہ جملہ انہوں نے
خالص پنجابی میں ادا کیا جسے میں نے صرف کامن سینس کی مدد سے سمجھا اور جواب
میں میں نے کہا کہ میں تو رانا صاحب کی وعدے پر آگیا ایسے
ہی انہوں نے دھوکہ کردیا تو میری کمر پر کس کے دھپ رسید کرکے بولے "شاباش اے
بھئ"
سامان مکمل ہوا تو سوال ہوا کہ اب سفر شروع کیا جائے اچانک
رانا صاحب کو جیسے کچھ یاد آیا "اوئے تونے کھانا کھایا ہے کہ نہیں؟"
میں نے نفی میں گردن ہلائ تو گاڑی ایک ریسٹورنٹ پر رکوائ گئ
اور میرے اعزاز میں سب نے دوبارہ کھانا کھایا پراؤڈ بلوچ صاحب خاموشی سے کھانا
کھاتے رہے جس پر چودھری صاحب نے کہا کہ بلوچ کھاتے ہوئے سانس بھی روک لیتا کہ
ہوا اندر چلی جائے گی تو ایک نوالے کی جگہ کم پڑجائے گی جس پر بلوچ صاحب نے لقمہ
ہاتھ میں پکڑے پکڑے زور زور سے قہقہے لگائے اور آخر میں یہ کہ کر نوالہ منہ میں
ڈال لیا کہ "چودھری تو بھی نا یار ڈسٹرب کرتا ہے"
کھانے اور چائے کے بعد سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا اس وقت رات
کے ڈھائ بجنے والے تھے شہر کے اندر ہی ایک لمبا چکر کاٹ کر ہم مرکزی بس اڈے پر آئے
اور وہاں ڈرائیور نے ٹائر چیک کرانے گاڑی روک لی رانا صاحب موقع غنیمت جان کر خود
کو ہلکا کرنے کیلئے اتر گئے اور اندھیر ے میں غائب ہوگئے انکے جانے پر چودھری صاحب
بھی باہر آگئے اور سگریٹ سلگا کر گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے چند سیکنڈ گزرے
ہونگے کہ قدرے حیرانی کے ساتھ مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے
"او مولوی تو واقعی بغیر سامان کے ٹریک پر نکلا تھا
گھر سے؟" میں نے اثبات میں گردن ہلائ تو دوبارہ ایک دھپ کمر پر رسید کی
"شاباش اے بھئ"
جب سفر دوبارہ شروع ہوا تو اس وقت رات کے تین بجے تھے
راولپنڈی کے آخری چوک پر آئے اور آخری چیز جو روشنی میں تھی وہ سڑک کے دائیں جانب
لگا ہوا بورڈ تھاجس پر جلی حروف میں مری لکھا ہوا تھا اور تیر کا نشان سیدھا چلے
جانے کا اشارہ کر رہا تھا۔
گاڑی کے اندر مدھم آواز میں نصرت فتح علی خان صاحب کی آواز
میں کوئ غزل لگی ہوئ تھی اور اگلی سیٹ سے بلوچ صاحب کے دھیمے خراٹوں کی آواز آرہی
تھی اور گاڑی کے اندر کی بتی گل تھی میں تھوڑی دیر میں غنودگی میں چلا گیا کبھی
آنکھ کھلتی تو گاڑی کی ہیڈ لائٹ میں مری کے چیڑ کے درخت ہیولوں کی صورت گزرتے ہوئے
نظر آتے کسی موڑ پر نیچے وادی میں جلتے بجلی کے بلب چھوٹے چھوٹے ٹمٹماتے جگنوؤں کی
مانند نظر آتے او ر کبھی غائب ہوجاتے ہاں البتہ ان علاقوں کی مخصوص مہک پوری فضا میں موجود تھی ایسے ہی اونگھتے سوتے
جاگتے اندھیرے میں مری کو ہم نے پیچھے چھوڑ دیا رات کے سیاہ اور سفید دھاگے جدا
ہوئے اور آسمان پر سرمئ سویرا ابھرنے لگا ایسے میں جو آواز سب سے پہلے گونجی وہ
آذان کی آواز تھی آذان کی آواز کان میں پڑتے ہی چودھری نے شورمچا دیا "روکو
روکو روکو گاڑی روکو" سڑک کے کنارے گاڑی رک گئ ہم سب گاڑی میں بیٹھے رہے یہاں
تک کہ آذان مکمل ہوگئ ایک انجانے مقام پر فرحت دیتی ہوئ خنک ہوا میں آذان کی آواز
نے ہمیں یوں جکڑا کہ ہم گاڑی سے باہر آئے انگڑایاں لیکر اپنے جسموں کو سیدھا
کیا پاس ہی کہیں ایک پہاڑی جھرنے کے بہنے
کی آواز آرہی تھی بلوچ نے اندھیرے میں اسے دریافت کیا اور ہم سب نے باری باری اسی چشمے
سے وضو کیا اور اس مسجد کو تلاش کرکے داخل ہوگئے اس روز فجر کی نماز میں اس مسجد
میں امام اور موذن صاحب کے علاوہ داخل ہونے والے نمازی بس ہم پانچ ہی تھے۔