Friday, 8 September 2017

ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں

ہم ایک ایسی قوم ہیں جو زندوں کی نسبت انسان کی قدر اس وقت کرتے ہیں جب وہ اس دنیا کو چھوڑ جاتا ہے ابھی پھچلے دنوں میرے خاندان کے دو بزرگوں کا یکے بعد دیگرے انتقال ہوگیا اللہ جانے والوں کی مغفرت فرمائے  اور انکو جوار رحمت میں جگہ نصیب فرمائے آمین۔
دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جیسے ہی کوئ انسان دنیا سے چلا جاتا ہے تمام ہی افراد کے نزدیک وہ اس دنیا کا سب سے بہترین  نسان ہوچکا ہوتا ہےا ور اسکا ٹھکانہ جنت ہونے کی گارنٹی لوگ اسکے جنازے سے پہلے ہی دینا شروع کردیتے ہیں۔
ایک صاحب جن  کا انتقال ہوا انکا جب تک زندہ تھے یہ حال تھا کہ زندگی بھر محنت کی سعودیہ اور امارات میں تپتی دھوپ  میں کام کرکے روپیہ کمایا اور یہاں بچوں کا پڑھا لکھا کر کسی قابل کیا واپس آئے تو بھی ایک دوکان کھول کر رات دن بیٹھا کرتے رات جب تھکے ہوئے واپس آتے تو نہ انکی بیوی نہ ہی کوئ اولاد پانی کو بھی پوچھتی۔
میں نے کئ مرتبہ ان کو دیکھا کہ رات میں گھر سے نکل کر سگریٹ خریدنے بھی خود ہی جارہے ہوتے انتقال سے ایک رات پہلے بھی اسی حالت میں گھر آئے اور جو سوئے تو صبح اٹھ نہ سکے نیند میں ہی اللہ کوپیارے ہوگئے۔
تعزیت کرنے گیا تو انکا جوان بیٹا افسوس میں آنسو بہا رہا تھا کہ میرا باپ ایسے ہی چلا گیا مجھے کوئ خدمت کا موقع ہی نہ دیا  ۔۔۔۔ہائے میں کیسا بیٹا تھا کہ جسکا باپ مرگیا اور وہ سوتا رہا اور  یہ خیال بھی دل میں نہ آیا کہ شاید ابا کو میری ضرورت ہو ۔دل میں تو آیا کہ  کہ دوں  لیکن مجبور خاموش رہا کہ میاں ضروری تو نہیں کہ باپ پلنگ پر پڑا ہو تو ہی اسکی خدمت کی جائے  یعنی جب یقین ہوجائے کہ اب  یہ بچنے والا نہیں  تب ہی کیوں کی جائے باپ کی خدمت جب تونے دیکھا کہ میرا باپ بوڑھا ہوگیا ہے تو کم از کم اتنا ہی کرتا کہ ان سے کہتا کہ ابا آپ نے زندگی بھر محنت کی ہے اب آپ گھر رہ کر آرام کریں لیکن ہمیشہ یہی شکوہ سنا کہ ابا  کو تو ڈھنگ سے دوکان بھی چلانا نہیں آتی دن کی پانچ سو کی سیل بھی نہیں کرتے ۔
دوسرے جب دنیا سے گئے تو انکی اولادیں رو رو کر ہلکان ہورہی تھیں لیکن کہ ہم بے آسرا ہوگئے ہمارا باپ مرگیا اب ہمارا کیا ہوگا لیکن  اس سے پہلے تک کسی نے انکی زبان سے اپنے باپ کیلئے کبھی کلمہ خیر نہیں سنا۔
میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ کیوں ہم ایک ایسے ہوگئے کہ ہماری محبت کے حقدار زندوں سے زیادہ مردے ہوگئے؟ ہم کیوں انسان کی قدر تب نہیں کرتے جب کہ وہ زندہ ہوتا ہےا ور ہمارے محبت اور توجہ کا زیادہ حقدار ہوتا ہے؟ کیوں ہم اپنی زبان سے اور اپنے فعل سے اس کی زندگی میں اس شخص سے محبت کا اظہار نہیں کرپاتے کیوں اس کے تب کام نہیں آتے جب وہ ابھی ہمارے درمیان ہوتا ہے؟ ہمیں ایک انسان کی کیفیات کا خیال تب ہی کیوں آتا ہے جب وہ مرچکا ہوتا ہے کہ فلاں وقت ہم نے اپنی کسی بات سے یا اپنے کسی فعل سے اس شخص کا دل دکھایا؟ اور ہمیں کیوں افسوس ہوتا ہے کہ ہمیں اس سے معافی مانگنے کا موقع بھی نہیں ملا حالانکہ ہمیں موقع ملاہوتا ہے لیکن ہمیں احساس صرف اس کے جانے کے بعد ہی کیوں آتا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مردو پرست قوم ہیں اور ہمیں احساس تب ہی ہوتا ہے کہ جب موقع ہمارے ساتھ سے نکل جاتا ہے اس کے بعد چاہے باپ کی قبر پر سونے کی اینٹوں سے بھی مزار بنوا دیں کیا فائدہ۔
کاش کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کا وقت پر احساس کرنے والے ہوجائیں تاکہ تاکے ہمارے بعد آنے والے بھی ہمارا احساس ہماری زندگی میں کرلیں۔