Thursday 6 April 2017

لاہور آوارگی. مستنصر حسین تارڑ۔ ایک تعارف


لاہور آوارگی۔ ایک تعارف
کتاب: لاہور آوارگی (سفرنامہ)
مصنف: مستنصر حسین تارڑ
اشاعت: جنوری 2017
لاہور آوارگی مستنصر حسین تار ڑ صاحب کی تازہ اشاعت شدہ کتاب ہے اور حال میں ہی میں میں نے اس کتاب کا مطالعہ مکمل کیا ہے اور دوران مطالعہ ہمیشہ کی طرح مکمل طور پر اس کتاب کے سحر میں جکڑا رہا اور یہ تارڑ صاحب کی تحریر کا خاصہ ہے کہ وہ قاری کو جکڑے رکھتی ہے۔

اس کتاب کی ابتدا تارڑ صاحب کے اپنے صبح کے سیر کے ساتھیوں کے ساتھ کئے گئے اندرون لاہور کے دوروں سے ہوتی ہے ابتدائیہ میں تارڑ صاحب نے اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ " یہ ایک مبسوط بیانیہ نہیں ہے، بکھرا بکھرا سا ہے کہ لاہور بھی ایک مبسوط شہر نہیں ہے ،بکھرا بکھرا سا ہے"۔

تو اس بکھرے بکھرے بیانئے کی شروعات لاہور کے قدیم محلوں، حویلیوں، بیٹھکوں، مزاروں مسجدوں ، مندروں اور گردواروں کے گرد گھومتی ہے ان کی تاریخ پر گفتگو ہوتی ہے اور پھر تارڑ صاحب ماضی میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور کتاب کا رنگ ہی بدل جاتا ہے یہ کتاب ایک سفرنامے سے ایک سوانح حیات بن جاتی ہے جسکا موضوع تارڑ صاحب اور انکا شہر لاہور ہے۔

تارڑ صاحب کی حیات کے اٹھتر برسوں کہ کہانی ہے ان صبحوں اور شاموں کے قصے ہیں جو انہوں نے اس شہر میں گزاریں، ان میلوں اور تہواروں کی باتیں ہیں جو آج کے دور میں ختم ہوچکے ہیں، ان لوگوں کی باتیں ہیں جو خاک نشین ہوچکے ہیں جنہیں تارڑ صاحب نے اس کتاب کے ذریعہ پھر یاد کیا۔

لاہور کی سڑکیں اور ان پر زندگی کی وہ تصاویر ہیں جو اب صرف خواب ہیں، سینما ہال، ریسٹورنٹ، لائبریریاں، لاہور کے مصور، شعراء، مصنفین، گلوار، لاہور کی ادبی محفلیں اور وہ تمام افراد جن کا تارڑ صاحب کی زندگی میں کسی طور بھی کوئ تعلق رہا چاہے وہ دوستی ہو، محلے داری ہو یا صرف لاہوری ہونا اسکاتذکر ہ اس کتاب میں موجود ہے۔
لاہور میں بسنت کی سرکاری سطح پر بندش پر تارڑ صاحب کے جذبات کچھ یوں ہیں" اور اب لاہور کا آسمان بسنت کے روز بھی ایک بیاباں ہوتا ہے اس میں کسی خوش رنگ پتنگ کا پھول نہیں کھلتا، ایک بنجر آسمان ہوتا ہے" 

لاہور میں ہونے والی تعمیرات اور ان کے نتیجے میں تاریخٰی ورثے کوہونے والے نقصان پر لکھتے ہیں کہ
""لاہور آوارگی" محض ایک تاریخی اور تاثراتی بیانیہ نہیں ہے ایک احتجاج ہے، نہ صرف ایک مرتبہ پھر افغانیوں نے اس شہر پر قبضہ کرلیا ہے بلکہ ترقی کے نام پر اس کے چہرے کو مسخ کیا جارہا ہے، اس کی سب تاریخی نشانیاں مسمار کی جارہی ہیں، اس کے درمیان میں ایک دیوار برلن تعمیر کرکے اس کی پہچان کو معدوم کردیا گیا ہے۔۔میں اس شہر بے مثال کا نوحہ گر ہوں، میں جانتا ہوں کہ میری فغاں کا کچھ اثر نہ ہوگا، میں نے بھی تو اسطو کا کہا نہ مانا کہ کبھی سوداگر کو اپنا حکمران نہ بنانا وہ تمہارے قدیم معبد ڈھا دے گا ، عہد رفتہ کے سب قصر مسمار کرکے وہاں تجارتی منڈیاں قائم کردے گا"
گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والے لیٹریچر فیسٹیول میں تارڑ صاحب نے ایک پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا اور میں بھی وہیں موجود تھا کہ انہوں نے بہت سے سفرنامے تحریر کئے جن میں پاکستان کے بارے میں اور دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کے بارے میں لکھے گئے سفرنامے شامل ہیں لیکن پنجاب کے بارے میں اور خاص طور پر لاہور کے بارے میں کوئ کتاب تحریر نہیں کی تو جب انہوں نے پنجاب کے بارے میں کتاب لکھنا شروع کی تو ابتدا میں لاہور بھی اسی کتاب کا حصہ بننا تھا لیکن بعد میں انہوں نے لاہور کو ایک الگ کتاب کی صورت میں شایع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائ کہ میں نے پوری زندگی جس شہر میں بسر کی اسکا میرے اوپر قرض ہے اور یہ کتاب اس قرض کی ادائیگی کی ایک صورت ہے گو کہ میں وہ قرض کبھی اتار نہیں سکتا۔
میری کوئ اوقات نہیں کہ میں تارڑ صاحب کی کتب پر تبصرہ کی جسارت کروں کہ وہ یہ قرض اتارنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں یہ بس اس کتاب کا مختصر تعارف ہے مقصد آپ کو اس کتاب کے مطالعے پر ابھارنا ہے۔

"میں اب بھی کبھی کبھی کسی سویر باغ جناح میں جا نکلتا ہوں۔۔ ستتر برس کا ہوچکا ہوں تب بھی اس باغ میں قدم رکھتا ہوں تو میرا بدن نوجوانی کے بخار سے آشنا ہونے لگتا ہے۔۔سب کچھ وہی ہے۔۔۔صرف اب شیر نہیں دھاڑتا اور میں اس گھنے شجر کے نیچے کھڑے ہوکر نہایت سوگواری اور سرگوشی میں "کوہو کوہو" ہولے سے پکارتا ہوں لیکن جواب نہیں آتا۔۔
وہ پرندہ۔۔ وہ پکھیرو۔۔ جس سے میں باتیں کیا کرتا تھا۔۔ یا تو مرگیا تھا یا کوچ کرچکا تھا۔۔
میں نے بھی اب مرجانا تھا۔۔ کوچ کرجانا تھا"(لاہور آوارگی صفحہ نمبر 2477)

3 comments:

  1. موویز کے ایکسچینج کرتے ہو کتاب :P

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ والی پالیسی ہے ہماری کتاب اپنی اپنی
      آپ کو بازار سے نئ دلادیں گے

      Delete