Friday 8 May 2015

خالو

دوران گفتگو ہمارے ایک خالو کا ذکر آیا تو سوچا کچھ باتیں ان کی شخصیت پر بھی کرلی جائیں ایسے خالو کسی کےبھی ہوسکتے ہیں کہ خالو پر کسی کا زور نہیں چلتا اور ہمارے خالو پر تو خالہ کا بھی نہیں چلتا۔
خالو کے والد صاحب جوکہ شاید مغل بادشاہوں کے بہت بڑے فین تھے انکا نام سید جلال الدین محمد اکبر رکھا دوسرے بیٹے کا نام جہانگیر رکھا گیا مزید انکا کوئ بیٹا نہ ہوا ورنہ یہ سلسلہ یقینا بہادر شاہ تک جاتا۔
بیٹیوں میں البتہ انہوں نے اردو نثر سے متاثرہ ناموں کی ترویج کی نجم السحر خاتون، رفعت جہاں، شوکت آرہ سنجیدہ، عشرت آرہ، جمیلہ، شکیلہ، نزہت پروین، انجم آرا، صاحبزادی، کلثوم بیگم اور دیگر کسی اورنگزیب عالمگیر کو دنیا میں لانے کی کوشش کے دوران بس پیدا ہوگئیں۔
بات یہاں وہاں ہواس سے پہلے اسے واپس خالو کی طرف واپس موڑنا ضروری ہے خیر اپنے نام کی طرح خالو بہت جلالی واقع ہوئے اتنے کہ غصہ ہر دم ناک پر رہتا ہے اور اللہ میاں نے انکو ناک بھی بہت لمبی عطا کی ہے تو تادیر وہاں ٹکا رہتا ہے بہت آصولی آدمی ہیں کوئ بات مزاج کے خلاف یا کوئ چیز اس جگہ نہ ملے جہاں وہ ہونی چاھئے تھی تو بس غصہ چڑھنا شرورع اور بات چیت بند۔
عادات کے اتنے پکے ہیں کہ جیسے وہ صبح ناشتے میں رات کی باسی روٹی چائے میں توڑ کر کھاتے ہیں اور ایسا بچپن سے کرتے آرہے ہیں تو اپنی شادی کی اگلی صبح بھی انہوں نے یہی ناشتہ کیا۔
صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں چاہےدنیا ادھر سے ادھر ہوجائے گرمیوں میں جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو چونکہ سورج جلدی نکل آتا ہے اور انکے اٹھنے کا وقت نہیں ہوا ہوتا تو سحری نہیں کرتے پتہ نہیں روزہ کیسے رکھ لیتے ہیں کیوں کہ دوپہر بارہ بجے انکےکھانے کا وقت طےہے۔


رات آٹھ بجے وہ گھر سے نکل جاتے ہیں اور جا کر گھر سے کچھ دور چوک پر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ وہ بچپن سے وہاں بیٹھتے آرہے ہیں پہلے شروع میں انکے کچھ دوست وغیرہ بھی بیٹھا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ سب ہی مصروف ہوتے گئے اب سنا ہے کہ اکیلے بیٹھتے ہیں اور اپنا ایک گھنٹہ وہاں گزار کر گھر واپس آجاتے ہیں اب چاہے بارش ہو یا حالات خراب اس ایک گھنٹے کے دوران آپکو ان سےملنا ہو وہیں ملیں گے۔
اپنے بسترپر ہیں سوئیں گے کہیں بھی اور نہیں انکے لڑکپن میں انکی چھوٹی بہن شوکت آرا سنجیدہ انکے بستر پر سوگئیں یہ انتظار کرتے رہے کہ انکے سونے کا وقت ہو اس سے پہلے وہ خود اٹھ جائیں یا کوئ اٹھا کر انکی جگہ تبدیل کردے لیکن جب یہ نہ ہوا اور انکے سونے کا وقت قریب ہونے لگا تو انکو گود میں اٹھا کر دوسرے کمرے میں فرش پر پھینک آئے انکی اپنی شادی کے موقع پر جب خاندان کے ایک بزرگ انکے بستر پر لیٹ کر سوگئے تو پوری رات چھت پر کرسی ڈال کر بیٹھے رہےکہ انکو اٹھا کر پھینک نہیں سکتے تھے حالانکہ دل یہی چاہتا ہوگا یہاں تک کے انکے اٹھنے کا وقت ہوگیا۔
گھر میں استعمال کی کوئ بھی مشین جیسے گرائنڈر، جوسر، پانی کی موٹر وغیرہ اگر خراب ہوجائے تو خود ٹھیک کریں گے چاہے وہ کتنی ہی ضروری استعمال کی چیز ہو اور انکو وقت نہ مل پارہا ہو اگر باہر کے کسی مکینک سے مرمت کرالی گئ تو حرام ہے کہ اس کا خود استعمال کریں یا اسکے استعمال سے کسی قسم کا فائدہ اٹھا لیں سالوں پرانی بات ہے گھر کی پانی موٹر خراب ہوگئ تو اسکی مرمت باہر سے کسی مستری کو بلا کر کرالی گئ تو کئ سال تک ٹینکی میں ڈول ڈال کر پانی نکالتے اور استعمال کرتے سالوں ایسا ہی کرتے رہے جب عمر کے ساتھ ہڈیوں میں جان کم ہونے لگی اور بالٹی بھرنا دوبھر ہونے لگا تو اپنی اس ضد سے باز آئے۔
جب بچے چھوٹے تھے تو اکثر رات میں کسی ضرورت سے خالہ کمرے کی بتی جلایا کرتیں جس سے انکی نیند میں خلل پڑتا روز خالہ سے تلخ کلامی ہوتی کہ انکی نیند خراب ہورہی ہے اور انکو خیال نہیں کسی روز خالہ نے جواباً شاید کہ دیا کہ آپ کیسے باپ ہیں اپنے بچے کیلئے تھوڑی سی نیند خراب کرنا گوارہ نہیں آخر کیسے وہ اندھیرے میں تمام کام انجام دیں اس بات سے انکو اتنا غصہ چڑھا کہ آج تک رات میں آنکھوں پر پٹی چڑھا کر اور بتی جلا کر سوتے ہیں شروع میں جب خالہ اپنے کام ختم کرکے بتی بجھا دیتیں تو اٹھ کر دوبارہ جلادیا کرتے آہستہ آہستہ کئ سالوں میں یہ عادت چھوڑ دی۔
شروع میں سگریٹ نوشی کے عادی تھی اور روزانہ ایک ڈبیا سگریٹ پینا لازم تھا اگر دن بھر میں پورا پیکٹ ختم نہ ہوتا تو رات سونے سے پہلے پے درپے سگریٹ پھونکتے اور سونے سے پہلے پورا پیکٹ ختم کرتے اصولی آدمی ہیں ایک دن سوچ لیا کہ کل سے سگریٹ نہیں پئیں گے بس جس دن یہ سوچا اس دن اتنی تبدیلی آئ کہ رات سونے سے پہلے تک انہوں نے دو ڈبے سگریٹ ختم کئے اور اسکے بعد سے آج تک دوبارہ کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔
انکے اصول کے خلاف ہے کہ چاہے کچھ ہوجائے کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گے دیسی طریقے سے اپنا علاج خود کریں گے ایک مرتبہ گرمی میں چھت پر چڑھے عین دوپہر کے وقت کس کام میں لگے ہوئے تھے لو لگنے سے بے ہوش ہوگئے گھر والے اٹھا کر ہسپتال لے گئے جونہی ہوش میں آئے اور خود کو وہاں پایا غصے میں ڈرپ کھینچ کر نکالی اورپیدل ہی گھر روانہ ہوگئے۔
ہمیشہ ایک ہی درزی سے کپڑے سلواتے ہیں ایک ہی ڈیزائن کی چپل پہنتے ہیں اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سب کی خریداری ایک ہی دوکان سے نہ کرتے ہوں جی ہاں بالکل ممکن نہیں ہے۔
پوری زندگی استرے سے شیو بناتے آئے ہیں کہ جب شیو بنانا شروع کیا اس وقت یہی اوزار استعمال کیا تھا۔
یہ تو کچھ باتیں ہوگئیں پختہ عادات کی اس کے علادہ کچھ اور باتیں بھی انکی شخصیت میں قابل ذکر ہیں۔
پرانی چیزوں سے لگاؤ اس قدر ہے کہ کوئ بھی چیز استعمال کے بعد پھینکنے کے قائل نہیں انکا یقین ہے کہ 
ع نہیں کوئ چیز نکمی زمانے میں
شاعر نے تو یہ بات بس یونہی کہ دی لیکن اسکا عملی مظاہرہ اگر وہ خود دیکھ لیتے تو اپنے اس شعر سے دستبرداری کا اعلان باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے کرتے کہ خدا کہ قسم میرا اس شعر سے وہ مطلب نہیں تھا جو انہوں نے لیا ہے۔
انکے گھر کی چھت پر ایک کمرہ ہے اب اسمیں داخلے کہ جگہ ختم ہوچکی ہے اسمیں ہر وہ چیز جو شاید ریسائیکل ہو سکتی ہے سینت کر رکھی ہوئ ہے بعض چیزیں دیکھ کر سوال خود بخود پیدا ہوجاتا کہ انکا کیاکام مثلاً دیوار پر چابیوں کا ایک بڑا گچھا ٹنگا ہوا ہے جس میں تقسیم ہند سے قبل بننے والے تالوں کی جو اپنی زندگیاں پوری کرکے کب کے مٹی میں مل چلے ہیں انکی بھی چابیاں محفوظ ہیں کم از کم ایک ہزار زنگ آلود چابیاں لٹکی ہوئ ہیں کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں اگر سڑک پر چلتے ہوئے انہیں کوئ چابی گری ہوئ مل جاتی اٹھا کر گھر لے آتے اور لاکر اسی گچھے کا حصہ بنا دیتے کہ شاید کبھی کام آجائے لیکن کبھی گھر کا کوئ تالا کھلوانا ہو تو باہر سے تالے چابی والے کو بلایا جاتا ہے مبادہ استعمال سے کوئ چابی ٹوٹ جائے اور اس خزانے میں سے ایک چابی کم ہوجائے۔ ایک کونے میں ایک ریک رکھا ہے اس پر اوپر نیچے تمام جگہ شیشے کی خالی بوتلیں اور مرتبان رکھے ہوئے ہیں اور اپنی قسمت کو رو رہے ہیں ان میں کئ کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے یہ تو ایک طرف رہی انکی ایک بہن کینیڈا میں مقیم ہیں کئ سال پہلے جب وہ پاکستان آئیں تو پینے کیلئے منرل واٹر کی بوتلیں استعمال کرتی رہیں اور یہ ان بوتلوں کو جمع کرتے رہے یہاں تک کہ تمام بوتلیں اوپر کمرے میں پہنچ گئیں انکے جانے کے بعد یہ خبر ان تک پہنچی تو اب وہ یہ کرتی ہیں کہ جب بھی آتی ہیں خالی ہوجانے والی بوتلوں کو ہاتھ کے ہاتھ ٹھکانے لگاتی رہتی ہیں اور جمع کرنے کا موقع نہیں دیتیں۔
ایک ٹرنک میں گھر کے تمام پرانے لحاف گدے تکیے موجود ہیں، گھر میں سالوں پہلے جو فرج آیا تھا اسکا ڈبہ بھی سنبھال کر رکھا ہوا ہے زمانے کی ہوا اور دھوپ لگنے سے وہ تقریباً برادا بن چکا ہے کہ ہاتھ لگانے سے چھڑنے لگتا ہے اس لئے اسے اب کوئ ہاتھ نہیں لگاتا۔
گھر کی پرانی چوکھٹیں جو دیمک لگنے کہ وجہ سے نکال دی گئ تھیں آج بھی چھت پر رکھی ہوئ ہیں سال چھ مہینے میں ان پر دیمک مار سپرے کرتے ہیں کہ شاید اس طرح وہ قابل استعمال ہوجائیں۔
بڑے بیٹے کی شادی پر جو پھول کمرہ سجانے کیلئے استعمال کئے گئے تھے وہ ایک ٹوکرے میں رکھ کر اسی کمرے میں رکھ آئے تھے آج بھی اسی طرح رکھا ہوا ہے پھول مرجھاگئے اور اس حجلہ عروسی میں ہونے والے واقعات کے نتیجے میں جنم لینے والے بچے اب بستے لٹکا کر سکول جانے کی عمر کو پہنچے حال یہ ہے ٹوکرے کے پھول اب بھی رکھے ہوئے ہیں بالکل برادہ ہوچکے ہیں اور کمرے کا دروازہ کھولنے پر ہوا کے دباؤ کے باعث اڑتے رہتے ہیں لیکن وہ پھینکنے پر رضامند نہیں۔
اسی کمرے میں ایک سیمنٹ کی بوری میں استعمال شدہ سکرو اور کیلیں جمع ہیں جو نصف صدی سے جمع ہوتے ہوتے اب بوری کہ منہ تک آچکی ہیں اسی کمرے میں سیمنٹ کی وہ خالی بوریاں بھی موجود ہیں عرصہ بیس سال قبل گھر کا فر ش پکا کرانے میں استعمال ہوئ تھیں۔
خالو کی عادات اور انکی شخصیت پر بات تو بہت ہوسکتی ہے لیکن وقت اجازت نہیں دیتا
ع وقت ہوا تمام مدح باقی ہے
سوچتا ہوں کہ اگر وہ ایک عام ہی زندگی گزار رہےہوتے تو کچھ بھی ایسا دلچسپ وجود میں ہی نہ آتا اللہ خالو کی عمر دراز کرے کبھی دوبارہ باقی بچ جانے والے واقعات ذکر کرونگا۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ اگر یہ کسی اور کے پاس بھی ایسے خالو ہیں تومجھے ضرور مطلع کریں مجھے ایسے 
دوسرے انسان کو دیکھنے کابچپن سے اشتیاق ہے

5 comments: