کراچی کے بارے میں لکھنے کو قلم اٹھاتا ہوں تو قلم روشنائ کے بجائے خون اگلتا ہے ہمیشہ ہی جب میں شہر سے باہر جاتا ہوں تو ایک سوال جو مجھ سے یہ جاننے کے بعد ضرور کیا جاتا ہے وہ یہ کہ کراچی میں تو حالات بہت خراب ہیں ہر روز ہی کچھ نہ کچھ ہورہا ہوتا ہے اور میرے پاس کوئ جواب نہیں ہوتا میں خاموش ہوجاتا ہوں شرمندگی سے سر جھکا لیتا ہوں کہ میرے پاس اس بات کا کوئ جواب نہیں ہوتا واقعی میڈیا پر ہر روز ہی کراچی کے حوالے سے کوئ نہ کوئ منفی خبر ضرور ہوتی ہے۔
سنہ دوہزار چودہ میں(2014) صرف کراچی میں مختلف واقعات میں دوہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یاد رہے کہ یہ صرف قتل و غارت گری کی وارداتوں کے اعداد و شمار ہیں جن میں ٹارگٹ کلنگ سر فہرست ہے لوٹ مار اور دیگر واقعات میں مارے جانے والوں کی تعداد اسکے علاوہ ہے۔
اس سال یعنی دوہزار چودہ میں ہی چالیس ہزار سے زائد لوٹ مار کے واقعات ایسے ہیں جو پولیس کے ریکارڈ میں درج کئے گئے جن میں سرفہرست رہزنی یعنی گن پوائنٹ پر موبائل فون اور نقدی وغیرہ چھیننے کے واقعات ہیں اسکے علادہ گاڑیاں
اور موٹر سائکلیں چھیننے کے واقعات ہیں۔
اغوا برائے تاوان، زنا بالجبر اور اجتماعی زیادتی جیسے مکروہ واقعات کا تذکرہ اگر کیا جائے تو یہ فہرست مزید لمبی ہوتی چلی جائے گی
جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے کراچی کو آگ وخون میں گھراہوا ہی دیکھا ہے اس شہر میں کبھی بھی آپ کے ساتھ کسی قسم کی واردات ہوسکتی ہے گن پوئنٹ پر آپ کا موبائل یا گاڑی چھینی جاسکتی ہے یابزور بندوق آپ کے اے ٹی ایم سے منچاہی رقم نکلوائ جاسکتی ہے یا گھر میں گھس کر واردات ہوسکتی ہے اور سب سے تکلیف دہ بات کہ یہ لٹیرے اپنی کارروائ مکمل کرنے کے بعد آرام سے نکل جاتے ہیں اور آپ کی کوئ سنوائ نہیں ہوتی سنوائ ہوبھی جائے حل کوئ نہیں نکلتا نا ہی یہ سب بند ہوتا ہے۔
اسکا ذمہ دار کون ہے اوریہاں حالات بہتر نہ ہونے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں یہ میرا موضوع نہیں یہ بالکل بھی کوئ سیاسی مضمون نہیں ہے۔
شہر قائد کبھی لسانی فسادات کی گردش میں رہا اور یہاں کی سڑکوں پر مسلمانوں کے ایک دوسرے کا قتل عام صرف اس وجہ سے کیا کہ سامنے والا کوئ دوسری زبان بولنے والی وقوم سے تعلق رکھتا تھا کبھی اردو بولنے والوں کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی پشتو کبھی بلوچی تو کبھی سندھی ہر کوئ ایک دوسرے پر اپنی حق تلفی کا الزام لگاتا رہا اور اپنا اور دوسروں کا خون بہاتا رہا۔
کبھی یہ شہر مذہبی فسادات کی لپیٹ میں رہا شیعہ سنی آپس میں دست وگریبان رہے کبھی شیعہ امام بارگاہوں میں لاشیں گرتیں تو کبھی سنی مساجد میں نمازیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا پھر دونوں جماعتوں کو عقل آگئ اور یہ کھلم کھلا لڑائ بند ہوئ ہوتا اب بھی ایسا ہی ہے اور زیادہ تر بیچارے شیعہ حضرات نشانہ بنتے ہیں سنی بھی بچے ہوئے نہیں ہیں لیکن اب ایک دوسرے پر الزام تراشیاں نہیں کرتے بلکہ کسی بیرونی ہاتھ کو اسکا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور حقیقت بھی شاید یہی ہے۔
اگر کسی کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ کراچی انکا ہے تو اسکا ثبوت پیش کرنے کیلئے وہ کراچی بند کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ آج بھی ہم ساڑھے سات منٹ میں پورا شہر بند کرواسکتے ہیں اگر کروالیتے ہیں تو کوئ کمال نہیں کرتے وہ ایک مزدور جو صبح روزی کمانے نکلتا ہے اور شام کو آپ کی وجہ سے خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے وہ ان خالی ہاتھوں سے آپ کیلئے تالیاں نہیں پیٹتا بلکہ وہی ہاتھ اٹھا کر آپ کیلئے بد دعا کرتا ہے۔
ہر کسی کا جس کا جہاں جہاں زور چلتا ہے وہ اپنا زور دکھانے کو وہاں کے مزدوروں کو خالی ہاتھ گھر لوٹاتا ہے کاروبار بند کرواتا ہے کچھ گھروں میں چولہا نہیں جل پاتا تو کیا ہوا انکا زور تو ثابت ہوجاتا ہے۔
سوگ ، ہڑتالیں ،احتجاج، ریلیاں ،جلسے جلوس اور سڑکیں بند کرنا اور اسکے نتیجے میں پولیس اور عوام کا تصادم اور دنگا فساد اسکے علاوہ ہے جو عام شہریوں کیلئے ہمیشہ ہی تکلیف کا باعث بنتا آیا ہے۔
ان جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کے دوران جو املاک کو تقصان پہنچتا ہے وہ الگ کتنی ہی گاڑیاں ،منی بسیں،ٹرک، ٹرالر، دوکانیں، پٹرول پمپس اسکے علاوہ ہزاروں ٹائر اور فرنیچر ایسا ہے جو اس شہر کی سڑکوں پر جل کی خاک ہوا ہے۔
ملک کی سب بڑی جامعہ میں ان سب واقعات کی وجہ سے طلباء کا پورا تعلیمی سال برباد ہوجانا کوئ اچھنبے کی بات نہیں آئے دن ہونے والے طلبا تنظیوں کے مابین تصادم اور جامعہ میں ہمہ وقت رینجرز کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ہار مان چکے ہیں۔
ان سب کے علاوہ آئے دن ہونے والے بم دھماکے الگ ہیں جن میں ایک بہت زور دار دھماکے کے ساتھ ہی بہت کچھ ختم ہوجاتا ہے سینکڑوں مر جاتے ہیں اتنے ہی زندگی بھر کیلئے اپاہج ہوجاتے ہیں لاکھوں روپے کی املاک مٹی میں مل جاتی ہے بیسیوں لوگ کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
کراچی کی مٹی کی بلاتخصیص بچہ بوڑھا، عورت مرد، کالا گورا، امیر غریب، جاہل عالم، سب کے خون سے سینچائ ہوئ ہے کہتے ہیں کراچی کی مٹی ذرخیز نہیں یہاں پھل پھول نہیں کھلتے سبزہ نہیں ہوتا بھلا جس شہر کی مٹی میں خون کی ملاوٹ اتنی زیادہ ہو وہاں کون سا پھل پیدا ہوگا سوائے نفرت کے اور کون سا پھول کھلے گا سوائے قبر پر ڈلنے والے گلاب کے۔
اس شہر کی زندگی میں کب کیا ہوجائے کچھ اندازہ نہیں صبح آپ گھر سے نکلیں تو شام میں گھر واپس آسکیں یہ ضروری نہیں یا رات کوسوئیں تو پتہ نہیں ہوتا کہ صبح کیا حالات ہوں ہوا کس رخ چلے کوئ نہیں بتا سکتا ایک "ان سرٹین" زندگی ہے۔
کراچی کے حالات کے پیش نظر زمبابوے کی کرکٹ ٹیم جہاں خود خانہ جنگی کے حالات ہیں دورہ کرنے سے منع کردیتی ہے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم تو ایک طرف ملک کے وزیر اعظم سمیت بڑے بڑے سیاستدانوں کے سامنے جب دورہ کراچی کی بات آتی ہے تو کراچی کے محاورے کے مطابق " خوف سے پھٹ کے ہاتھ میں آجاتی ہے"
اس شہر میں اتنا سب کچھ ہوتا رہا ہے، ہورہا ہے اور میری دعا ہے کہ ایسا ہوتا نہ رہے لیکن پھر بھی آج بھی کراچی ہی پورے ملک کا آدھے سےرزق پیدا کررہا ہے آج بھی اس شہر میں نئے روزگار کے مواقع موجود ہیں، آج بھی شہر کی سڑکوں پر نئے ماڈل کی گاڑیاں چل رہی ہیں۔
اتنا سب کچھ ہوتا ہے لیکن آج بھی یہاں کے رہائشی ہنستے ہیں مسکراتے ہیں خوشیاں بھی مناتے ہیں، آج بھی ہمارے شہر کے پارکوں میں رش ہوتا ہے بچے بوڑھے سب ہی موجود ہوتے ہیں۔
اتنا سب کچھ ہوتا ہے لیکن ہمارے چائے خانوں پر آج بھی رش ہے، سینما ہال آج بھی ہاؤس فل ہوتا ہے، نئے شاپنگ مال آج بھی بن رہے ہیں اور چل بھی رہے ہیں لوگ خریداری کر رہے ہیں آج بھی آپ ہفتہ اور اتوار کو کسی ریسٹورنٹ میں کھانے کی غرض سے جاتے ہیں تو لکھوا کر لے لیجئے کہ آپ بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ پہنچتے ہی آپ کو بیٹھنے کی جگہ مل جائے۔
اتنا سب کچھ ہوتا ہے لیکن ہفتہ کی رات کو ساحل سمندر پر موٹر سائیکل کی ریس اب بھی لگتی ہے، پورے شہر سے ہفتہ بھر کی تھکن ختم کرنے لوگ اپنے بال بچوں کے ساتھ ہفتہ کی رات کلفٹن کے ساحل پر بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں کراچی کی سڑکوں پر نوجوان آپ بھی نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کرتے ہیں۔
آپ شاید یہ سوچیں کہ کراچی کی عوام بے حس ہوچکی ہے یہ بے حسی نہیں کراچی زندہ دلوں کا شہر ہے ہم نے مشکل حالات میں جینا سیکھ لیا ہے ہمارے پاس کوئ دوسرا آپشن موجود نہیں یہ تحریر کراچی کی عوام کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ادنیٰ سی کوشش ہے جو نہایت کٹھن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
کراچی واقعی زندہ دلوں کا شہر ہے۔
فیضان قادری